• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک چھوٹا سا سوال اہل حدیث بھائیوں سے۔

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں کافی دن سے یہاں فورم پر ہوں لیکن میری سمجھ میں ایک بات نہیں آ رہی۔
آپ حضرات میں سے کون کون تقلید مطلق کا قائل ہے اور کون کون نہیں؟
جو قائل ہیں وہ غیر قائل افراد کو کیا کہیں گے ان کے دلائل کے جواب میں؟
اور جو قائل نہیں ہیں اور عالم بھی نہیں تو اگر مثال کے طور پر ایک حدیث ان کے سامنے آتی ہے تو وہ اس کی سند اور اس کے متن اور متابعات و شواہد وغیرہ کی تحقیق کیسے کرتے ہیں؟

میں اس سلسلے میں کوئی بحث نہیں چاہتا۔ بس براہ کرم اپنے اپنے بارے میں بتا دیجیے۔
جزاکم اللہ خیرا
عبدہ
خضر حیات
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میں کافی دن سے یہاں فورم پر ہوں لیکن میری سمجھ میں ایک بات نہیں آ رہی۔
1-آپ حضرات میں سے کون کون تقلید مطلق کا قائل ہے اور کون کون نہیں؟
محترم بھائی میں نے
محترم بھائی میرے خیال میں لغوی معنی میں تقلید (فاسئلوا اھل الذکر کے تحت مجبوری یا لاعلمی کی صورت میں مطلقا) ہر اہل حدیث کرتا ہے البتہ عرفی تقلید (بغیر مجبوری شخصی تقلید) کوئی اہل حدیث نہیں کرتا- پس جب ہم میں سے کوئی تقلید مطلق کا اقرار کرتا ہے تو یہی مجبوری والی تقلید ہوتی ہے اور اس سے کسی اہل حدیث کو مفر نہیں اور جب کوئی اہل حدیث بھائی تقلید مطلق یا شخصی کا انکار کرتاہے تو اسکی مراد بغیر مجبوری کے تقلید مطلق یا شخصی ہوتی ہے اب جہاں تک اس مجبوری یا لاعلمی کی وضاحت اور ثبوت کا تعلق ہے تو اس پر میں نے رفع الملام والے تھریڈ میں پوسٹ نمبر 44 میں بتایا ہوا ہے کہ آگے اس پر بھی بات کرنی ہے وہ پوسٹ کچھ اس طرح سے ہے
اختلاف امت پر رفع الملام عن ائمۃ الاعلام کا صحیح اطلاق (پوسٹ نمبر 44)
ابھی تقلید کے پس منظر میں اور بہت سی باتیں واضح کرنی ہیں مثلا
1-ابھی آپ کی دوسری اجماع والی دلیل پر بحث بھی رہتی ہے
2-میں نے تقلید شخصی کی بجائے تقلید مطلق کرنے کے حق میں دلائل دینے ہیں
3-تقلید مطلق میں مختلف قولوں میں ترجیح کس بنیاد پر دی جائے گی
4-اہل حدیث تقلید مطلق کو بھی ہمیشہ واجب نہیں کہتے بلکہ صرف قرآن و حدیث کا علم نہ ہونے میں واجب کہتے ہیں تو اس لاعلمی سے کیا مراد ہے
جو قائل ہیں وہ غیر قائل افراد کو کیا کہیں گے ان کے دلائل کے جواب میں؟
اسکی میں نے اوپر وضاحت کر دی ہے کہ جو قائل ہیں وہ کس تقلید کے قائل ہیں اور جو انکار کرتے ہیں وہ کس کا کرتے ہیں یعنی ان میں نظریے کا اختلاف نہیں صرف وضاحت میں اختلاف ہے مزید وضاحت کے لئے میری مندرجہ ذیل پوسٹ بھی پیش خدمت ہے
غیر مقلدین علماء سے تقریبا چار سو سوالات (پوسٹ نمبر 59)
محل نزاع نمبر 2
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان تقلید بھی کرے اور مقلد بھی نہ کہلائے
جی ہاں بھائی آپ کی فقہ میں بھی یہ اصول ہے کہ جو الفاظ بولے جاتے ہیں ان سے مراد لیتے ہوئے بعض اوقات غلبہ والا معنی لیا جاتا ہے خالی لغت کو نہیں دیکھا جاتا مثلا لغت کے لحاظ سے آپ رب یا رسول کسی انسان کو بھی کہ سکتے ہیں مگر چونکہ اسکا غالب استعمال اللہ کے لئے ہی ہوتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہوتا ہے تو آپ کو انسان کے لئے استعمال کرتے ہوئے ساتھ وضاحت کرنی پڑتی ہے خالی اسکو استعمال نہیں کر سکتے کہ آپ لغت کو دلیل بنا لیں
اسی طرح لغت میں اگرچہ مقلد تو کبھی کبھار لا علمی میں تقلید مطلق کرنے والے کو بھی کہ سکتے ہیں مگر اس کے ساتھ وضاحت کرنی ہوتی ہے اور تقلید شخصی کے معنی میں چونکہ یہ غلبہ کے ساتج استعمال ہوتا ہے اسلئے وہاں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں پس جب خالی مقلد کی بات جب کوئی کرتا ہے تو کوئی بھی اس سے مراد کبھی کبھار لاعلمی میں تقلید مطلق والے کو نہیں لے سکتا اسکی مثال یہ ہے کہ چاروں اماموں سے پہلے تقلید مطلق ہوتی تھی مگر صحابہ کے لئے تقلید کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا
پس ہم عمومی طور پر اپنے علم کے مطابق بغیر تقلید کے عمل کرتے ہیں مگر جب ہمیں معلومات نہ ہوں یا تعارضات کی وجہ سے شکوک و شبہات ہوں تو ہم مجبوری میں تقلید مطلق کرتے ہیں اس لئے آپ ہمیں مقلد نہیں کہ سکتے
اسکی مثال ایک کرکٹر سے بھی دی جا سکتی ہے کہ اگرچہ تقریبا سب کرکٹر فٹ بال کھیلتے ہیں مگر آپ ان کو فٹ بالر کی بجائے کرکٹر ہی کہتے ہیں فٹ بالر کوئی جاہل ہی کہے گا
اور جو قائل نہیں ہیں اور عالم بھی نہیں تو اگر مثال کے طور پر ایک حدیث ان کے سامنے آتی ہے تو وہ اس کی سند اور اس کے متن اور متابعات و شواہد وغیرہ کی تحقیق کیسے کرتے ہیں؟
محترم بھائی یہاں مقلد اور غیر مقلد کے شریعت تک پہنچنے کے طریقوں میں اختلاف کو پہلے تھوڑا سا واضح کر دوں
1-مقلد (عرفی) وہ ہوتا ہے جو ایک دفعہ دلیل (عقل، تجربہ، مشاہدہ یا اعتبار وغیرہ) سے کسی ذات پر اعتبار کا تعین کر لے پھر بغیر دلیل کے ہر بات میں اس ذات سے شریعت کے معاملات معلوم کرے
2-غیر مقلد وہ ہوتا ہے جو ہر شریعت کی بات کے لئے دلیل (عقل یا منطق یا تجربہ یا مشاہدہ یا اعتبار )سے شریعت کے معاملات کو معلوم کرے
پس محترم بھائی دو باتیں واضح کرنی ہیں
ایک بات تو یہ کہ دلیل سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ صرف خود ہی سب کچھ اپنے علم اور اجتہاد سے فیصلہ کیا جائے بلکہ دلیل میں عقل منطق تجربہ حتی کہ ذات پر اعتبار بھی آتا ہے
اور دوسری یہ کہ تحقیق سے مراد یہ بھی نہیں ہوتا کہ آپ کو جب تک ہر حدیث اور ہر بات کا علم ہو تو تب ہی تحقیق ہو سکتی ہے بلکہ آپ کو جتنا علم ہے اس پر بھی فیصلہ کیا جا سکتا ہے جو لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا کے تحت حجت پوری کر دے گا
اس پر تفصیلی بات تو بحث میں ہی ہو گی جب اعتراضات آئیں گے جو یہاں پر نہیں بلکہ رفع الملام میں شاہد آئیں گے
محترم خضر حیات بھائی تصحیح و اضافہ کر دیں اللہ جزائے خیر دے امین
میں اس سلسلے میں کوئی بحث نہیں چاہتا۔ بس براہ کرم اپنے اپنے بارے میں بتا دیجیے۔
عبدہ
خضر حیات
محترم بھائی آپ نے کہا کہ آپ بحث نہیں کرنا چاہتے مگر مجھے جب اپنا موقف بتانا ہے تو لامحالہ اسکی تھوڑی وضاحت بھی کرنی ہو گی جس پر پیشگی معذرت- ہاں آپ آگے یہاں بحث بیشک نہ شروع کریں اللہ آپ کو جزا دے امین
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاک اللہ عبدہ بھائی
خلاصہ کلام آپ کا یہ کہ غیر مقلد بھی بعض جگہوں پر تقلید کرتا ہے۔
میں دیگر بھائیوں کی آراء بھی جاننا چاہوں گا۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
تقلید کی ہر قسم ناجائز اور حرام ہے چاہے وہ تقلید شخصی ہو یا تقلید مطلق۔

ہر اہل حدیث مجتہد ہوتا ہے لیکن اسکا درجہ اور مقام اسکے علم کے مطابق زیادہ اور کم ہوتا ہے کوئی بڑے درجے کا مجتہد ہوتا ہے اور کوئی چھوٹے درجے کا۔ جس مسئلہ کا اہل حدیث کو علم نہ ہو چاہے وہ مسئلہ حدیث کی تحقیق سے متعلق ہو یا کوئی اور شرعی مسئلہ تو اس صورت میں اہل حدیث قرآن کے حکم ’’اگر علم نہیں تو اہل علم سے پوچھ لو‘‘ پر عمل کرتا ہے۔

یاد رہے کہ علماء سے سوال کرنا تقلید نہیں ہے کیونکہ اگر اسے تقلید کہا جائے تو دنیا سے مجتہدین کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ تاریخ اسلامی میں ہزاروں ائمہ مجتہدین گزرے ہیں لیکن مقلدین نے باطل پروپیگنڈہ کرتے ہوئے امامت کو ائمہ اربعہ میں محدود کردیا ہے تو اگر سوال کو تقلید کہا جائے تو ائمہ اربعہ بھی مقلدین کے زمرہ میں شامل ہوجائینگے کیونکہ ان ائمہ نے بھی علم کسی نہ کسی سے حاصل کیا تھا اور اپنے استادوں سے سوالات کئے تھے۔ لہٰذا یہ سب بھی مقلد ہوئے۔

عامی کا عالم سے سوال کرنا، اجماع اور قرآن وسنت پر عمل تقلید نہیں ہے یہ بات مخالفین کے نزدیک بھی مسلمہ ہے۔
سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہےکیونکہ آپ کا فرمان تو حجت ہے اور اسی طرح اجماع بھی حجت ہے اور اسی طرح عام آدمی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ کے تحت واجب ہے اور اسی طرح قاضی کا ممن ترضون من الشھداء اور یحکم بہ زوا عدل منکم کی نصوص کے تحت عدول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے۔(الکلام المفید فی اثبات التقلید، صفحہ 35)

اہل حدیث اور مقلدین کا عمل تو ایک ہی ہے یعنی دونوں ہی علماء سے سوال کرتے ہیں لیکن اس میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اہل حدیث علماء سے سوال کے ذریعے قرآن و حدیث کا حکم جانتے ہیں جو انکو مقلد نہیں بناتا کیونکہ قرآن و حدیث حجت ہیں اور ان پر عمل تقلید نہیں جبکہ حنفی حضرات علماء سے ابوحنیفہ کا مذہب جاننے کے لئے سوال کرتے ہیں جبکہ قرآن و حدیث ان کے مطمع نظر نہیں ہوتا اور انکا یہ عمل انہیں ابوحنیفہ کا مقلد بناتا ہے۔

ہمارے نزدیک تقلید کی صحیح تعریف ’’قرآن و حدیث کے مخالف یا مقابلے میں کسی کے قول کو اختیار کرنا‘‘ ہے۔ حنفی یہی تقلید کرنے کے باعث مشرک ہیں۔ حنفیوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ابوحنیفہ سے مسائل منقول ہیں دلائل منقول نہیں اس لئے ہم پر دلائل کا ماننا ضروری نہیں۔ حنفیوں نے ابوحنیفہ کے مسائل کو دلیل کے بغیر آنکھ بند کرکے مانا ہے اور انکے کئی مسائل کا قرآن و حدیث کے مخالف ہونے کی پرواہ کئے بغیر۔ پس انکا یہی عمل انہیں کافر اور مشرک بناتا ہے۔

آج جو مقلدین حضرات حنفی مسائل کے دلائل دیتے نظر آتے ہیں وہ انہوں نے خود ہی تلاش کئے ہیں وہ بھی زیادہ تر موضوع اور ضعیف احادیث پر مشتمل ہیں اگر ان میں کچھ صحیح احادیث بھی ہیں تو اس مسئلہ سے متعلق نہیں جس میں حنفی اسے پیش کرتے ہیں یعنی دلائل کا یہ ڈرامہ مقلدین نے دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے رچا رکھا ہے وگرنہ وہ تو بلا دلیل ہی ابوحنیفہ کے مسائل پر ایمان لاتے ہیں۔ جیسا کہ اشرف علی تھانوی نے حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: مقلد محض تبرعا دلیل بیان کرتا ہے اور اس کا استدلال قول مجتہد سے ہے۔(ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 98)
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
محترم بھائی میں نے
محترم بھائی میرے خیال میں لغوی معنی میں تقلید (فاسئلوا اھل الذکر کے تحت مجبوری یا لاعلمی کی صورت میں مطلقا) ہر اہل حدیث کرتا ہے البتہ عرفی تقلید (بغیر مجبوری شخصی تقلید) کوئی اہل حدیث نہیں کرتا- پس جب ہم میں سے کوئی تقلید مطلق کا اقرار کرتا ہے تو یہی مجبوری والی تقلید ہوتی ہے اور اس سے کسی اہل حدیث کو مفر نہیں
بھائی آپ نے مقلد اور غیر مقلد کا عجیب مکسچر تیا رکیا ہے! جس عمل کو آپ تقلید سے تعبیر کررہے ہیں یہ عمل تو صحابہ کا بھی تھا تو کیا صحابہ بھی آپ کے نزدیک مقلد تھے؟
یہ تو اتنی عجیب بات ہے کہ اشرف علی تھانوی نے بھی اسے رد کرتے ہوئے کہا ہے: یہی وجہ ہے ہم صحابہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی کہتے ہیں مقلد نہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
تقلید کی ہر قسم ناجائز اور حرام ہے چاہے وہ تقلید شخصی ہو یا تقلید مطلق۔

ہر اہل حدیث مجتہد ہوتا ہے لیکن اسکا درجہ اور مقام اسکے علم کے مطابق زیادہ اور کم ہوتا ہے کوئی بڑے درجے کا مجتہد ہوتا ہے اور کوئی چھوٹے درجے کا۔ جس مسئلہ کا اہل حدیث کو علم نہ ہو چاہے وہ مسئلہ حدیث کی تحقیق سے متعلق ہو یا کوئی اور شرعی مسئلہ تو اس صورت میں اہل حدیث قرآن کے حکم ’’اگر علم نہیں تو اہل علم سے پوچھ لو‘‘ پر عمل کرتا ہے۔

یاد رہے کہ علماء سے سوال کرنا تقلید نہیں ہے کیونکہ اگر اسے تقلید کہا جائے تو دنیا سے مجتہدین کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ تاریخ اسلامی میں ہزاروں ائمہ مجتہدین گزرے ہیں لیکن مقلدین نے باطل پروپیگنڈہ کرتے ہوئے امامت کو ائمہ اربعہ میں محدود کردیا ہے تو اگر سوال کو تقلید کہا جائے تو ائمہ اربعہ بھی مقلدین کے زمرہ میں شامل ہوجائینگے کیونکہ ان ائمہ نے بھی علم کسی نہ کسی سے حاصل کیا تھا اور اپنے استادوں سے سوالات کئے تھے۔ لہٰذا یہ سب بھی مقلد ہوئے۔

عامی کا عالم سے سوال کرنا، اجماع اور قرآن وسنت پر عمل تقلید نہیں ہے یہ بات مخالفین کے نزدیک بھی مسلمہ ہے۔
سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہےکیونکہ آپ کا فرمان تو حجت ہے اور اسی طرح اجماع بھی حجت ہے اور اسی طرح عام آدمی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ کے تحت واجب ہے اور اسی طرح قاضی کا ممن ترضون من الشھداء اور یحکم بہ زوا عدل منکم کی نصوص کے تحت عدول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے۔(الکلام المفید فی اثبات التقلید، صفحہ 35)

اہل حدیث اور مقلدین کا عمل تو ایک ہی ہے یعنی دونوں ہی علماء سے سوال کرتے ہیں لیکن اس میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اہل حدیث علماء سے سوال کے ذریعے قرآن و حدیث کا حکم جانتے ہیں جو انکو مقلد نہیں بناتا کیونکہ قرآن و حدیث حجت ہیں اور ان پر عمل تقلید نہیں جبکہ حنفی حضرات علماء سے ابوحنیفہ کا مذہب جاننے کے لئے سوال کرتے ہیں جبکہ قرآن و حدیث ان کے مطمع نظر نہیں ہوتا اور انکا یہ عمل انہیں ابوحنیفہ کا مقلد بناتا ہے۔

ہمارے نزدیک تقلید کی صحیح تعریف ’’قرآن و حدیث کے مخالف یا مقابلے میں کسی کے قول کو اختیار کرنا‘‘ ہے۔ حنفی یہی تقلید کرنے کے باعث مشرک ہیں۔ حنفیوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ابوحنیفہ سے مسائل منقول ہیں دلائل منقول نہیں اس لئے ہم پر دلائل کا ماننا ضروری نہیں۔ حنفیوں نے ابوحنیفہ کے مسائل کو دلیل کے بغیر آنکھ بند کرکے مانا ہے اور انکے کئی مسائل کا قرآن و حدیث کے مخالف ہونے کی پرواہ کئے بغیر۔ پس انکا یہی عمل انہیں کافر اور مشرک بناتا ہے۔

آج جو مقلدین حضرات حنفی مسائل کے دلائل دیتے نظر آتے ہیں وہ انہوں نے خود ہی تلاش کئے ہیں وہ بھی زیادہ تر موضوع اور ضعیف احادیث پر مشتمل ہیں اگر ان میں کچھ صحیح احادیث بھی ہیں تو اس مسئلہ سے متعلق نہیں جس میں حنفی اسے پیش کرتے ہیں یعنی دلائل کا یہ ڈرامہ مقلدین نے دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے رچا رکھا ہے وگرنہ وہ تو بلا دلیل ہی ابوحنیفہ کے مسائل پر ایمان لاتے ہیں۔ جیسا کہ اشرف علی تھانوی نے حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: مقلد محض تبرعا دلیل بیان کرتا ہے اور اس کا استدلال قول مجتہد سے ہے۔(ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 98)
جزاک اللہ خیرا
شاہد نذیر بھائی نے بہتر وضاحت کر دی ہے۔ الحمدللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
تقلید کی ہر قسم ناجائز اور حرام ہے چاہے وہ تقلید شخصی ہو یا تقلید مطلق۔

ہر اہل حدیث مجتہد ہوتا ہے لیکن اسکا درجہ اور مقام اسکے علم کے مطابق زیادہ اور کم ہوتا ہے کوئی بڑے درجے کا مجتہد ہوتا ہے اور کوئی چھوٹے درجے کا۔ جس مسئلہ کا اہل حدیث کو علم نہ ہو چاہے وہ مسئلہ حدیث کی تحقیق سے متعلق ہو یا کوئی اور شرعی مسئلہ تو اس صورت میں اہل حدیث قرآن کے حکم ’’اگر علم نہیں تو اہل علم سے پوچھ لو‘‘ پر عمل کرتا ہے۔

یاد رہے کہ علماء سے سوال کرنا تقلید نہیں ہے کیونکہ اگر اسے تقلید کہا جائے تو دنیا سے مجتہدین کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ تاریخ اسلامی میں ہزاروں ائمہ مجتہدین گزرے ہیں لیکن مقلدین نے باطل پروپیگنڈہ کرتے ہوئے امامت کو ائمہ اربعہ میں محدود کردیا ہے تو اگر سوال کو تقلید کہا جائے تو ائمہ اربعہ بھی مقلدین کے زمرہ میں شامل ہوجائینگے کیونکہ ان ائمہ نے بھی علم کسی نہ کسی سے حاصل کیا تھا اور اپنے استادوں سے سوالات کئے تھے۔ لہٰذا یہ سب بھی مقلد ہوئے۔

عامی کا عالم سے سوال کرنا، اجماع اور قرآن وسنت پر عمل تقلید نہیں ہے یہ بات مخالفین کے نزدیک بھی مسلمہ ہے۔
سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہےکیونکہ آپ کا فرمان تو حجت ہے اور اسی طرح اجماع بھی حجت ہے اور اسی طرح عام آدمی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ کے تحت واجب ہے اور اسی طرح قاضی کا ممن ترضون من الشھداء اور یحکم بہ زوا عدل منکم کی نصوص کے تحت عدول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے۔(الکلام المفید فی اثبات التقلید، صفحہ 35)

اہل حدیث اور مقلدین کا عمل تو ایک ہی ہے یعنی دونوں ہی علماء سے سوال کرتے ہیں لیکن اس میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اہل حدیث علماء سے سوال کے ذریعے قرآن و حدیث کا حکم جانتے ہیں جو انکو مقلد نہیں بناتا کیونکہ قرآن و حدیث حجت ہیں اور ان پر عمل تقلید نہیں جبکہ حنفی حضرات علماء سے ابوحنیفہ کا مذہب جاننے کے لئے سوال کرتے ہیں جبکہ قرآن و حدیث ان کے مطمع نظر نہیں ہوتا اور انکا یہ عمل انہیں ابوحنیفہ کا مقلد بناتا ہے۔

ہمارے نزدیک تقلید کی صحیح تعریف ’’قرآن و حدیث کے مخالف یا مقابلے میں کسی کے قول کو اختیار کرنا‘‘ ہے۔ حنفی یہی تقلید کرنے کے باعث مشرک ہیں۔ حنفیوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ابوحنیفہ سے مسائل منقول ہیں دلائل منقول نہیں اس لئے ہم پر دلائل کا ماننا ضروری نہیں۔ حنفیوں نے ابوحنیفہ کے مسائل کو دلیل کے بغیر آنکھ بند کرکے مانا ہے اور انکے کئی مسائل کا قرآن و حدیث کے مخالف ہونے کی پرواہ کئے بغیر۔ پس انکا یہی عمل انہیں کافر اور مشرک بناتا ہے۔

آج جو مقلدین حضرات حنفی مسائل کے دلائل دیتے نظر آتے ہیں وہ انہوں نے خود ہی تلاش کئے ہیں وہ بھی زیادہ تر موضوع اور ضعیف احادیث پر مشتمل ہیں اگر ان میں کچھ صحیح احادیث بھی ہیں تو اس مسئلہ سے متعلق نہیں جس میں حنفی اسے پیش کرتے ہیں یعنی دلائل کا یہ ڈرامہ مقلدین نے دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے رچا رکھا ہے وگرنہ وہ تو بلا دلیل ہی ابوحنیفہ کے مسائل پر ایمان لاتے ہیں۔ جیسا کہ اشرف علی تھانوی نے حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: مقلد محض تبرعا دلیل بیان کرتا ہے اور اس کا استدلال قول مجتہد سے ہے۔(ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 98)
جزاک اللہ خیرا
خلاصہ یہ کہ آپ اور ارسلان بھائی کسی قسم کی تقلید کو نہیں مانتے۔
عبدہ بھائی اور خضر حیات بھائی کیا آپ ان سے متفق ہیں؟ برائے مہربانی بغیر بحث کے بتائیے گا۔ اور عبدہ بھائی کیا آپ اس تحریر کی روشنی میں اپنے موقف سے رجوع کرنا چاہتے ہیں یا آپ کا وہی موقف ہے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
سوال: تقلید کسے کہتے ہیں؟
جواب: قرآن و حدیث کے خلاف کسی اور کی بات تسلیم کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔
ایسی تقلید کی ممانعت پر محترم برادران خضر حیات، عبدہ، شاہد نذیر اور میں یعنی محمد ارسلان متفق ہیں۔ ہم یہ تقلید کر کے اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن نہیں بنانا چاہتے۔ اللھم اجرنا من النار
 
Top