• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک چھوٹا سا سوال اہل حدیث بھائیوں سے۔

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
بھائی میں نے لنک شیئر کیا ہوا ہیں اسے اوپن کریں
محترم بھائی شاہد آپ سمجھے نہیں لنک میں بھی تو یہی بات ہے اصل میں مجھے آپ کے مصدر پر شک کی بجائے عبارت درکار تھی جو مصروفیت کی وجہ سے آپ کے ذمے لگایا تھا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
محترم بھائی اللہ آپ کو میری اصلاح کی حرص پر اجر عظیم عطا فرمائے امین
پس محترم بھائی میں نے آپ لوگوں کی اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ اہل حدیث کسی بھی قسم کی تقلید کو نہیں مانتے
آمین
اس بات کا جواب شاید اوپر شاہد بھائی دے چکے ہیں۔ لہذا شاہد بھائی نے صحیح موقف بیان کیا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی اور ہائیلائٹ کی گئی بات سے شاید اشکالات اٹھیں گے اصل عبارت کیا ہے
بهائی جان اصل عبارت یہ ہے:۔


هل تجوز الفتوى بالتقليد ؟

هل تجوز الفتوى بالتقليد ؟.
الحمد لله
فيه أقوال :
قال ابن القيم :
أحدها : أنه لا يجوز الفتوى بالتقليد ؛ لأنه ليس بعلم ، والفتوى بغير علم حرام ، ولا خلاف بين الناس أن التقليد ليس بعلم ، وأن المقلد لا يطلق عليه اسم عالم ، وهذا قول أكثر الأصحاب وقول جمهور الشافعية .
والثاني : أن ذلك يجوز فيما يتعلق بنفسه ، فيجوز له أن يقلد غيره من العلماء إذا كانت الفتوى لنفسه ، ولا يجوز أن يقلد العالم فيما يفتي به غيره ، وهذا قول ابن بطة وغيره من أصحابنا ؛ قال القاضي : ذكر ابن بطة في مكاتباته إلى البرمكي : لا يجوز له أن يفتي بما سمع من يفتي ، وإنما يجوز أن يقلد لنفسه ، فأما أن يتقلد لغيره ويفتي به فلا . والقول الثالث : أنه يجوز ذلك عند الحاجة وعدم العالم المجتهد ، وهو أصح الأقوال ، وعليه العمل ، قال القاضي : ذكر أبو حفص في تعاليقه قال : سمعت أبا علي الحسن بن عبد الله النجاد يقول : سمعت أبا الحسين بن بشران يقول : ما أعيب على رجل يحفظ عن أحمد خمس مسائل استند إلى بعض سواري المسجد يفتي بها .
" إعلام الموقعين " ( 1 / 37 ، 38 ) .
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
والقول الثالث : أنه يجوز ذلك عند الحاجة وعدم العالم المجتهد ،
[/arb]
جزاک اللہ محترم بھائی اصل میں عند الحاجۃ سے تو میری بات کی تائید ہو رہی ہے جو میں نے آپ کے ساتھ گفتگو میں کئی دفعہ کی ہے کہ ہم تقلید مطلق بھی صرف ضرورت کے وقت کرتے ہیں البتہ آگے والے الفاظ سے مجھے اشکال نظر آ رہا تھا وہ یہ تھا کہ عدم العالم المجتہد کو "واو" سے عطف دیا گیا ہے "او" سے نہیں جس کا مطلب کہ دونوں شرطیں ہوں تو تقلید جائز ہو گی یعنی اگر ضرورت نہ ہو تو مجتہد ہونے پر بھی تقلید نہ ہو گی اور اگر مجتہد دستیاب ہو تو ضرورت ہونے پر بھی تقلید جائز نہیں ہو گی
لیکن پھر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ فرض کیا مجتہد دستیاب ہے تو جب آپ مجتہد کی شرط لگا رہے ہیں تو وہ اس لئے ہے کہ وہ شریعت کا اصل مقصود آپ کو بتائے تو پھر بھی کیا مجتہد کی تقلید نہیں کرنی پڑے گی ورنہ مجتہد کی ضرورت ہی کیا ہے ہو سکتا ہے ابھی میری عقل حقیقت سے آشنا نہ ہو جس وجہ سے مجھے یہ سمجھ نہ آ رہا ہو کوئی بھائی وضاحت کر دے اللہ جزا دے امین
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاک اللہ محترم بھائی اصل میں عند الحاجۃ سے تو میری بات کی تائید ہو رہی ہے جو میں نے آپ کے ساتھ گفتگو میں کئی دفعہ کی ہے کہ ہم تقلید مطلق بھی صرف ضرورت کے وقت کرتے ہیں البتہ آگے والے الفاظ سے مجھے اشکال نظر آ رہا تھا وہ یہ تھا کہ عدم العالم المجتہد کو "واو" سے عطف دیا گیا ہے "او" سے نہیں جس کا مطلب کہ دونوں شرطیں ہوں تو تقلید جائز ہو گی یعنی اگر ضرورت نہ ہو تو مجتہد ہونے پر بھی تقلید نہ ہو گی اور اگر مجتہد دستیاب ہو تو ضرورت ہونے پر بھی تقلید جائز نہیں ہو گی
لیکن پھر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ فرض کیا مجتہد دستیاب ہے تو جب آپ مجتہد کی شرط لگا رہے ہیں تو وہ اس لئے ہے کہ وہ شریعت کا اصل مقصود آپ کو بتائے تو پھر بھی کیا مجتہد کی تقلید نہیں کرنی پڑے گی ورنہ مجتہد کی ضرورت ہی کیا ہے ہو سکتا ہے ابھی میری عقل حقیقت سے آشنا نہ ہو جس وجہ سے مجھے یہ سمجھ نہ آ رہا ہو کوئی بھائی وضاحت کر دے اللہ جزا دے امین
جی بھائی وہ ہماری وہاں کی بات تو ادھوری رہ گئی۔ آپ نے آگے تفصیل شروع ہی نہیں کی۔
خیر تقلید سب ضرورت کے وقت کرتے ہیں اور جب تفصیلا بات ہوگی تو یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ ضرورت کا مطلب بھی ایک ہی ہے۔
میرے بھائی یہاں مسئلہ تقلید سے فتوی دینے کا بیان ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر آپ مجھ سے مسئلہ پوچھیں اور میں ابو حنیفہؒ کی تقلید کرتے ہوئے آپ کو مسئلہ بتاؤں تو یہ حاجت اور مجتہد کی غیر موجودگی میں جائز ہے۔ اور مجتہد کی موجودگی میں آپ کو اس سے پوچھنا لازم ہے۔
هل تجوز الفتوى بالتقليد ؟.
یہاں تقلید کرنے یا تقلید کا فتوی دینے کی بات نہیں ہو رہی۔

واللہ اعلم
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
جی بھائی وہ ہماری وہاں کی بات تو ادھوری رہ گئی۔ آپ نے آگے تفصیل شروع ہی نہیں کی۔
خیر تقلید سب ضرورت کے وقت کرتے ہیں اور جب تفصیلا بات ہوگی تو یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ ضرورت کا مطلب بھی ایک ہی ہے۔
محترم بھائی میرا یہی مسئلہ ہے کہ ایک دفعہ جب مصروفیت کی وجہ ے کسی الرٹ کو چھوڑ دوں تو پھر دوبارہ اس کو بحیر الرٹ کے دیکھنا مشکل ہوتا ہے بھول جاتا ہوں اب دیکھوں گا کہ بات کہاں تک پینچی تھی ان شاءاللہ

میرے بھائی یہاں مسئلہ تقلید سے فتوی دینے کا بیان ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر آپ مجھ سے مسئلہ پوچھیں اور میں ابو حنیفہؒ کی تقلید کرتے ہوئے آپ کو مسئلہ بتاؤں تو یہ حاجت اور مجتہد کی غیر موجودگی میں جائز ہے۔ اور مجتہد کی موجودگی میں آپ کو اس سے پوچھنا لازم ہے۔
یہاں تقلید کرنے یا تقلید کا فتوی دینے کی بات نہیں ہو رہی۔
واللہ اعلم
محترم بھائی شید میں صحیح سمجھا نہیں سکا میرے اشکال کا اس بات سے تعلق نہیں کہ تقلید سے فتوی دیا جا رہا ہے یا تقلید کرنے کا فتوی دیا جا رہا ہے
میرا اشکال یہ تھا کہ یہاں جو مجتہد کے عدم دستیابی کی شرط لگائی جا رہی ہے تو اسکی وجہ کیا ہے کہ اگر مجتہد ہو گا بھی تو ہم اس سے کیا پوچھیں گے اگر دلیل پوچھیں گے تو اسکے لئے مجتہد کی کیا ضرورت ہے وہ تو عالم (دلیل کا علم رکھنے والا) بھی بتا سکتا ہے اور اگر مطلب یہ ہے کہ ہر طرح کی نظر رکھنے والے شخص کی رائے کی اہمیت کی وجہ سے عالم کی بجائے مجتہد سے پوچھنا ہے تو پھر اسکا مطلب ہے کہ آپ تو اس مجتہد کی فہم تک نہیں پہنچ سکیں گے پھر تو آپ بھی بغیر فہم کے تقلید ہی کر رہے ہوں گے پس مجتہد کی شرط کی کیا ضرورت ہے واللہ اعلم
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
میرے خیال میں جو چیز باعث اختلاف ہو، اور جس پر اختلاف صدیوں سے چلتا آرہا ہوں، اصطلاحی کجا، اس کو لغوی طور بھی نہیں ماننا چاہیے، اور نہ اس کو بیان کرنا چاہیے، بلکہ لغۃً واصطلاحاُ اس کا رد کرنا چاہیے۔ اگر ہم یہاں پر یہ کہیں کہ ہم اہل حدیث لغوی طور بھی تقلید کرتے ہیں۔ تو پھر ساری امت کے ساتھ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مقلد کہنا پڑے گا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالیٰ کی تقلید کرتے تھے۔ اور پھر یہاں پر بات رکے گی نہیں بلکہ نعوذباللہ اللہ تعالیٰ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی مقلد کہنا پڑے گا۔ کیونکہ کئی مسائل ایسے ہیں کہ رائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہوا کرتی تھی، اللہ تعالیٰ کو یہ رائے اتنی پسند آتی کہ اللہ تعالیٰ قرآن بناکر نازل کردیتے۔
اس لیے ہم اہل حدیث نہ لغوی طور کسی کی تقلید کرتے ہیں، اور نہ اصطلاحی طور۔ بلکہ لغوی طور اور اصطلاحی طور ہم اتباع کرتے ہیں۔ اور اتباع کا لفظ اتنا محبوب ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں اس کو بیان کیا ہے۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں کافی دن سے یہاں فورم پر ہوں لیکن میری سمجھ میں ایک بات نہیں آ رہی۔
آپ حضرات میں سے کون کون تقلید مطلق کا قائل ہے اور کون کون نہیں؟
جو قائل ہیں وہ غیر قائل افراد کو کیا کہیں گے ان کے دلائل کے جواب میں؟
اور جو قائل نہیں ہیں اور عالم بھی نہیں تو اگر مثال کے طور پر ایک حدیث ان کے سامنے آتی ہے تو وہ اس کی سند اور اس کے متن اور متابعات و شواہد وغیرہ کی تحقیق کیسے کرتے ہیں؟

میں اس سلسلے میں کوئی بحث نہیں چاہتا۔ بس براہ کرم اپنے اپنے بارے میں بتا دیجیے۔
جزاکم اللہ خیرا
عبدہ
خضر حیات
اس چھوٹے سے سوال کا جامع سا جواب سماعت فرمائیں :
http://www.deenekhalis.ahlulhdeeth.com/play-699.html
 
Top