• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اے مسلمان اللہ سے ڈر - غیر اللہ کے نام ذبح حرام ہے !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
قبروں پر سجدہ اور ذبح کرنا دورِ جاہلیت کی بت پرستی اور شرکِ اکبر ہے، کیونکہ یہ عبادت ہے اور عبادت اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہوتی اور جو غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ مشرک ہے

الله تعالى نے فرمايا ہے:

ﺁﭖﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﺑﺎﻟﯿﻘﯿﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍﻣﺮﻧﺎ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺧﺎﻟﺺ ﺍللہ ﮨﯽ ﰷ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﮩﺎﻥ ﰷ ﻣﺎﻟﻚ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ کاﻛﻮﺋﯽ ﺷﺮﯾﻚ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﻛﻮ ﺍﺳﯽ کا ﺣﻜﻢ ﮨﻮﺍ ﮨﮯﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﮨﻮﮞ۔

الله تعالى نے فرمايا ہے:

ﯾﻘﯿﻨﺎ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ( ﺣﻮﺽ ) ﻛﻮﺛﺮ (ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﻛﭽﮫ )ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﺲ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽﻛﺮ۔

اس کے علاوہ بہت سی آیات اس بات پر دلالت ہیں کہ سجدہ اور ذبح کرنا عبادت ہے اور یہ غیر اللہ کے لئے کرنا شرکِ اکبر ہے

اور امام مسلم نے:

" تحريم الذبح لغير الله تعالى ولعن فاعله" کے باب میں ایک لمبی حدیث علی بن ا بی طالب رضي الله عنه کی روایت سے ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول الله صلى الله عليه وسلم نے چار کلمات بتائے: اللہ تعالی لعنت فرمائے اس پر جس نے غیر اللہ کے لئے ذبح کیا،
اللہ تعالی لعنت فرمائے اس پر جس نے اپنے والدین پر لعنت کی،
اللہ تعالی لعنت فرمائے اس پر جس نے کسی فتنہ پرور کو پناہ دی،
اللہ تعالی لعنت فرمائے اس پر جس نے زمين کی علامتوں کو بدل دیا

اور ابو داود ا پني سنن ميں حضرت ثابت بن ضحاک رضي الله عنه کى روایت سے ہے وہ کہتے ہیں کہ:

ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانة کے مقام پر ایک اونٹ ذبح کرئے گا، پس اس نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: کیا اس میں دور جاھلیت کے بتوں میں سے کسی بت کی پرستش کی جاتی تھی؟ انہوں نے عرض کی: نہیں، تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اپنی نذر کو پورا کر، اور بے شک اللہ کی معصيت میں کسی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں اور نہ جائز نذر ہے جس کی ابن آدم كى ملکیت نہ رکھتا۔

( جلد کا نمبر 1، صفحہ 398)



وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلَّم
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
قبروں پر سجدہ اور ذبح کرنا دورِ جاہلیت کی بت پرستی اور شرکِ اکبر ہے، کیونکہ یہ عبادت ہے اور عبادت اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہوتی اور جو غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ مشرک ہے

الله تعالى نے فرمايا ہے:

ﺁﭖﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﺑﺎﻟﯿﻘﯿﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍﻣﺮﻧﺎ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺧﺎﻟﺺ ﺍللہ ﮨﯽ ﰷ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﮩﺎﻥ ﰷ ﻣﺎﻟﻚ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ کاﻛﻮﺋﯽ ﺷﺮﯾﻚ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﻛﻮ ﺍﺳﯽ کا ﺣﻜﻢ ﮨﻮﺍ ﮨﮯﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﮨﻮﮞ۔
اللہ تعالی گمراہ لوگوں کو ہدایت نصیب فرماے آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرنا !!!

اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162) لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (سورة الأنعام6: 163))

“کہہ دیجئے! بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت، اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کاکوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اس کا سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔(2)

نیز اللہ تعالی نے فرمایا:

(فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (سورة الكوثر108: 2))“

پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی دو۔”(3)


حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے مجھے چار باتیں ارشاد فرمائیں:

(لَعَنَ اللهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ ، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَيْهِ، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا، وَلَعَنَ اللهُ مَنْ غَيَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ)

(1) “جو شخص غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرے اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔

(2) جو شخص اپنے والدین پر لعنت کرے اس پر بھی اللہ تعالی کی لعنت ہے۔

(3) جو شخص کسی بدعتی کو پناہ دے اس پر بھی اللہ تعالی کی لعنت ہے۔

(4) اور جو شخص حدود زمین کے نشانات کو بدلے اس پر بھی اللہ کی لعنت ہے۔”(4)

صحیح مسلم، الاضاحی، باب تحریم الذبح لغیر اللہ تعالی و لعن فاعلہ، ح:1978)

طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

(دَخَلَ الْجَنَّةَ رَجُلٌ فِي ذُبَابٍ، وَدَخَلَ النَّارَ رَجُلٌ فِي ذُبَابٍ قَالُوا: وَكَيْفَ ذلِكَ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ: «مَرَّ رَجُلاَنِ عَلى قَوْمٍ لَّهُمْ صَنَمٌ لاَيَجُوزُهُ أَحَدٌ حَتَّى يُقَرِّبَ لَهُ شَيْئاً، فَقَالُوا لأَحَدِهِمَا قَرِّبْ قَالَ: لَيْسَ عِنْدِي شَيْءٌ أُقَرِّبُ قَالُوا لَهُ: قَرِّبْ وَلَوْ ذُبَاباً، فَقَرَّبَ ذُبَاباً، فَخَلَّوْا سَبِيلَهُ، فَدَخَلَ النَّارَ، وَقَالُوا لِلآخَر: قَرِّبْ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لأُقَرِّبَ لأَحَدٍ شَيْئاً دُونَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَضَرَبُوا عُنُقَهُ فَدَخَلَ الْجَنَّةَ)

(اخرجہ احمد فی کتاب الزھد و ابونعیم فی الحلیۃ :1 / 203 کلاھما موقوفا علی سلمان الفارسی)

“ایک شخص ایک مکھی کی وجہ سے جنت میں گیا اور ایک شخص ایک مکھی ہی کی وجہ سے جہنم میں جا پہنچا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: “دوآدمیوں کا ایک قوم پر گزر ہوا ۔ جس کا ایک بت تھا وہ کسی کو وہاں سے چڑھاوا چڑھائے بغیر گزرنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ان لوگوں نے ان میں سے ایک سے کہا : چڑھاوا چڑھاؤ۔ اس نے کہا : میرے پاس چڑھاوے کے لیے کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا: تمہیں یہ کام ضرور کرنا ہو گا۔ خواہ ایک مکھی ہی چڑھاؤ۔ اس نے ایک مکھی کا چڑھاوا چڑھادیا۔ ان لوگوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا اور اسے آگے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ اس مکھی کے سبب جہنم میں جا پہنچا۔ انہوں نے دوسرے سے کہا: تم بھی کوئی چڑھاوا چڑھاؤ تو اس نے کہا: میں تو اللہ تعالی کے سوا کسی کے واسطے کوئی چڑھاوا نہیں چڑھا سکتا۔ انہوں نے اسے قتل کردیا۔ اور وہ سیدھا جنت میں جا پہنچا۔”(5)


مسائل

1) آیت “قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي”کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔

2) آیت
“فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ”کی تفسیر بھی معلوم ہوتی ہے۔

3) حدیث میں رسول اللہﷺنے سب سے پہلے غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

4) حدیث میں ہے کہ “اپنے والدین پر لعنت کرنے والا لعنتی ہے” اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر تم کسی کے والدین پر لعنت کرو گے تو وہ تمہارے والدین پر لعنت کرے گا۔ اس طرح تم خود اپنے والدین پر لعنت کا سبب بنوگے۔

5) حدیث میں ہے کہ “جو شخص کسی بدعتی کو پناہ دے، وہ ملعون ہے۔” اس حدیث میں بدعتی سے مراد ایسا شخص ہے جس پربدعت کا ارتکاب کی وجہ سے اللہ تعالی کی طرف سے سزا واجب ہو اور وہ اس سے بچنے کے لیے کسی کی پناہ ڈھونڈ رہا ہو۔

6) “جو شخص حدود زمین کے نشانات و علامات کو آگے پیچھے کرکے بدل ڈالے ، وہ بھی لعنتی ہے۔” اس سے ایسے نشانات مراد ہیں جو مین کے دو مالکوں کی حدود ملکیت کو متعین کرتے ہوں اور ان نشانات کو بدلنے سے پڑوسیوں کا حق مارنا مقصود ہو۔

7) کسی متعین شخص پر اور عمومی طور پر گناہ گار لوگوں پر کسی کا نام لیے بغیر لعنت کرنے میں فرق ہے۔

8) ایک مکھی کا چڑھاوا چڑھانے کے سبب ایک آدمی کے جہنم میں جانے کا واقعہ بڑاعبرت ناک ہے۔

9) مکھی کا چڑھاوا چڑھانے والا جہنم رسید ہوا حالانکہ اس کا مقصد شرک کرنا قطعا نہ تھا بلکہ اس نے محض اپنی جان بچانے کی خاطر ایسا کیا تھا۔

10) اہل ایمان کی نظر میں شرک اس قدر سنگین جرم ہے کہ اس مومن نے قتل ہونا گوارا کر لیا، لیکن اہل صنم کا مطالبہ پورا نہ کیا، حالانکہ انہوں نے اس سے صرف ظاہری طور پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

11) شرک کا ارتکاب کرکے جہنم میں جانے والا شخص مسلمان تھا۔ اگر وہ کافر ہوتا تو آپ یوں نہ فرماتے کہ “وہ ایک مکھی کی وجہ سے جہنم میں گیا۔”

12) اس حدیث سے ایک دوسری صحیح حدیث کی تائید بھی ہوتی ہے، جس میں نبی ﷺنے فرمایا:

(الجَنَّةُ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ، وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِكَ)

“جنت اور جہنم تم میں سے ہر ایک کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔”


صحیح البخاری، الرقاق، باب الجنۃ اقرب الی احدکم من شراک نعلہ والنار مثل ذلک، ح:6488)

13) بت پرستوں سمیت ہر ایک کے نزدیک قلبی عمل سب سے زیادہ اہم اور مقصود اعظم ہوتا ہے۔

نوٹ:-

(1) غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے کی شدید وعید ہے اور وہ یہ کہ یہ اللہ عزوجل کے ساتھ شرک ہے۔

ذبح سے مراد خون بہانا ہے۔

ذبح میں دوچیزیں اہم ہوتی ہیں:

1> کسی کا نام لے کر ذبح کرنا۔

2> کسی کا قرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرنا۔

پہلی صورت میں اصل چیز نام ہے اور دوسری صورت میں قصد و ارادہ ۔

دراصل جانور ذبح کرتے وقت جس کا نام لیا جائے اس سے استعانت اور مدد مقصود ہوتی ہے۔ مثلا اگر آپ
“بسم اللہ”کہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں اللہ کے نام سے مدد حاصل کرتے ہوئے اور اسے متبرک سمجھتے ہوئے ذبح کرتا ہوں۔ رہی بات قصد و ارادہ کی تو یہ عبودیت اور بندگی کے اظہار کی ایک صورت ہے۔ نام اور قصد و ارادہ کے لحاظ سے ہمارے سامنے چار صورتیں آتی ہیں:

{1}

اللہ کا نام لے کر اسی کے تقرب کے قصد سے ذبح کرنا۔ یہ سراسر توحید اور عبادت ہے۔ اس صورت میں ذبح کرنے کے لیے دوشرطیں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ اللہ کے تقرب کے ارادے سے ذبح کرے، دوسری یہ کہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ جیسے قربانی، بدی ، اور عقیقہ وغیرہ۔ اگر جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لیا تو ذبیحہ حلال نہ ہوگا۔ یہ دونوں شرطیں بیک وقت تب ہیں جب ذبح سے اللہ کا تقرب مقصود ہو ۔ اور اگر اللہ کے تقرب کے لیے نہیں بلکہ مہمانوں کی مہمان نوازی کے لیے یا اپنے کھانے کے لیے ذبح کرے تو یہ جائز ہے، شرعا اس کی اجازت ہے کیونکہ اس نے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہے، غیر اللہ کا نام نہیں لیا۔ یہ وعید میں داخل ہوگا نہ ممانعت میں۔

{2}
ذبح تو اللہ کا نام لے کر کیا جائے لیکن مقصود اس سے غیر اللہ کا تقرب ہو۔ مثلا ذبح کے وقت یہ کہے “بسم اللہ”میں اللہ کا نام لے کر ذبح کرتا ہوں اور اس ذبح سے اس کی نیت، کسی مدفون(دفن شدہ)نبی یا کسی بزرگ کا تقرب ہو۔

بعض دیہاتی یا شہری لوگوں کا یہ طریقہ ہے کہ وہ کسی کی آمد پر اس کی تعظیم کے لیے، زیبائش و خوش نمائی یا جانوروں کو ذبح کرکے اس کا استقبال کرتے ہیں۔ اس ذبح میں اگرچہ اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔لیکن چونکہ اس سے مقصود غیر اللہ کو راضی کرنا ہوتا ہے اس لیے علماء نے اس فعل کے حرام ہونے کا فتوی دیا ہے ۔ چونکہ اس میں غیر اللہ کے لیے خون بہایا جاتا ہے اس لیے اسے کھانا بھی جائز نہیں ہے۔ جب اس صورت میں کسی کی تعظیم کے لیے ذبح کرنا اور خون بہانا جائز نہین تو پھر کسی فوت شدہ (نبی یا بزرگ)کی تعظیم(یاتقرب)کے لیے ذبح کرنا اور خون بہانا تو بالاولی ناجائز اور حرام ہوا کیونکہ خون بہاکر صرف اللہ تعالی ہی کی تعظیم کرنا جائز ہے۔ جب رگوں میں خون اسی نے جاری کیا ہے تو پھر تعظیم و عبادت کا حقدار بھی وہی ہے۔

{3}
ذبح غیر اللہ کا نام لے کر کیا جائے اور اس سے مقصود بھی غیر اللہ کا تقرب ہی ہو۔ مثلا “باسم المسیح”کہہ کر ذبح کرے اور تقرب بھی مسیح ہی کا مقصود ہو ۔ یہ بہت بڑا شرک ہے۔ شرک فی الاستعانت بھی اور شرک فی العبادت بھی۔

اس طرح بدوی، جسین، زینب، عیدروس، مرغینانی یا ان کے علاوہ وہ شخصیات جن سے لوگ عبادت اور پوجا والا معاملہ رکھتے ہیں ان کے نام لے کر ذبح کرنے کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ ان کے نام لے کر ذبح کرتے وقت لوگوں کی نیت اور ارادہ ان کا تقرب ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دوطرح سے شرک بن جاتا ہے۔ ایک تو استعانت اور مدد کے حصول کی وجہ سے اور دوسرا عبودیت ، تعظیم اور غیر اللہ کے لیے خون بہانے کی وجہ سے۔

{4}
ذبح غیر اللہ کا نام لے کر کیا جائے اور اس سے مقصود، اللہ کاتقرب ہو، اور یہ بہت قلیل اور نادر ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ذبح تو کسی بزرگ کے لیے کیا جاتا ہے مگر نیت یہ ہوتی ہے کہ اس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے تو یہ بھی درحقیقت شرک فی الاستعانت اور شرک فی العبادت ہی میں شامل ہے۔

ا
لغرض غیر اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کرنا عبودیت میں شرک ہے اور غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنا استعانت اور مدد کے لیے طلب میں شرک ہے۔

اسی لیے اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:

(وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ (سورة الأنعام6: 121))

“اور جن جانوروں(کے ذبح)پر اللہ کانام نہ لیا جائے، ان میں سے کچھ نہ کھاؤ، اور بلاشبہ یہ فسق اور ناجائز ہے اور بے شک شیاطین اپنے دوستوں کی طرف القاء کرتے ہیں تاکہ وہ تمہارے ساتھ جھگڑیں اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو بلاشبہ تم بھی مشرک ہوجاؤگے۔”


(2)

اس آیت سے ثابت ہوا کہ نماز اور قربانی دونوں عبادتیں ہیں کیونکہ قربانی کو اللہ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اور مخلوق کے اعمال میں سے صرف عبادات ہی اللہ کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔ اسی لیے
“صَلَاتِي”کے بعد “وَنُسُكِي”فرمایا کہ قربانی(خون بہانا اور ذبح کرنا)بھی دیگر عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے اور اس کا مستحق بھی صرف اللہ تعالی ہی ہے ۔ “ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ”میں لفظ “اللہ”پر موجود لام استحقاق کا معنی دے رہا ہے یعنی نماز، قربانی اور دیگر عبادت کا حق اللہ رب العالمین ہی رکھتا ہے۔

“لَا شَرِيكَ لَهُ ” نماز میں اس کا کوئی شریک ہے نہ قربانی میں۔ لہذا ان کی ادائیگی میں نہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور نہ ہی اللہ کے علاوہ کسی کو ان کا سزاوار ٹھہرایا جائے۔ عبادت کا مستحق وہی رب ہے جو عظیم بادشاہت کا مالک ہے۔

(3)
اللہ تعالی نے جن کا موں کا حکم دیا ہے وہ عبادت ہی ہیں۔ کیونکہ تمام ظاہری اور باطنی اعمال و اقوال جو اللہ تعالی کو پسند اور محبوب ہیں ان سب کو عبادت ہی کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح نماز اور قربانی کا بھی اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اور یہ اعمال اسے محبوب اور پسند ہیں۔ اس لیے یہ بھی عبادت ہیں۔

(4)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص غیر اللہ کے تقرب اور تعظیم کے لیے جانور ذبح کرے اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ اللہ تعالی کی لعنت سے مراد اس کی رحمت سے دوری اور محرومی ہے۔ پس جس شخص پر خود اللہ تعالی لعنت کرے وہ اسے اپنی خاص رحمت سے دور اور محروم کردیتا ہے۔

جبکہ اس کی عام رحمت مسلمانوں کا فروں اور تمام مخلوقات کے شامل حال ہے۔ یاد رہے کہ جس گناہ پر اللہ تعالی کی لعنت کی وعید ہو وہ کبیرہ گناہ ہوتا ہے چونکہ غیر اللہ کے تقرب اور تعظیم کی خاطر ذبح کرنا شرک ہے اس لیے اس کا ارتکاب کرنے والا اللہ تعالی کی لعنت ، پھٹکار ، اور اس کی رحمت سے دوری اور محرومی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔


(5)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بت کے تقرب کے لیے جانور ذبح کرنا اس شخص کے لیے دخول جہنم کا سبب بنا۔ ظاہر ہے کہ یہ کام کرنے والا آدمی مسلمان تھا جو اپنے اس شرکیہ فعل کی پاداش میں جہنم رسید ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کے تقرب اور تعظیم کے لیے جانور ذبح کرنا اور چڑھاوے چڑھانا “شرک اکبر”ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ غیر اللہ کے تقرب کے لیے مکھی جیسی بے قدر و قیمت چیز کا چڑھاوا چڑھاوا چڑھانا جب اس آدمی کے لیے جہنم میں داخل ہونے کا سبب بنا تو جو چیز منفعت میں اس سے بڑی اور قیمتی ہو اس کا چڑھاوا چڑھانا اسی قدر دخول جہنم کا بڑا سبب ہو گا۔

“قَرِّبْ” چڑھاوا چڑھاؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم کے لوگوں نے ان راہ گیروں کو اس عمل کے لیے (محض کہا تھا)مجبور نہیں کیا تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ بیان ہے کہ وہ کسی کو وہاں سے چڑھاوا چڑھائے بغیر گزرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس میں کوئی جبر یا اکراہ نہیں۔ کیونکہ اگر وہ آدمی چاہتا تو واپس آکر کسی دوسرے راستہ سے چلاجاتا۔ اور اگر کہا جائے کہ ان لوگوں نے چڑھاوانہ چڑھانے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی تھی اس لیے وہ اس عمل پر مجبور تھا جبکہ جبرواکراہ کی صورت میں کسی عمل پر کوئی ماخذہ نہیں۔ اس کاجواب یہ ہے کہ یہ واقعہ ہم سے پہلی امتوں کا ہے ۔ اکراہ واجبار کی صورت میں اطمینان قلب کے ساتھ بظاہر کلمۂ کفر ادا کرنے یا کفریہ کام کرنے کی اجازت اور اس کی عدم مؤاخذہ کا مسئلہ صرف اسی امت کی خصوصیت ہے۔ سابقہ امتوں میں اس کی اجازت نہ تھی۔

http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/غیر-اللہ-کے-لیے-جانور-ذبح-کرنا.16467/
 
Top