• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مسئلہ رائے یا قیاس سے نہیں بتلا یا۔

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سنن ابوداؤد: کتاب الاقضیۃ: بَاب اجْتِهَادِ الرَّأْيِ فِي الْقَضَاءِ

عن أناس من أهل حمص من أصحاب معاذ بن جبل أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما أراد أن يبعث معاذا إلى اليمن قال كيف تقضي إذا عرض لك قضاء قال أقضي بكتاب الله قال فإن لم تجد في كتاب الله قال فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا في كتاب الله قال أجتهد رأيي ولا آلو فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره وقال الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله
بھٹی صاحب، پہلے تو ان لوگوں کا تعارف کروا دیں کہ یہ کون ہیں، ان اہل حمص میں سے ایک کا ہی نام بتلا دیں!
دوم اس حدیث میں کہاں لکھا ہے کہ معاذ بن جبل ''اہل الرائے'' ہیں؟ یہاں تو مجتہد کی بات ہے!
اس کی مکمل سند ہم نقل کر دیتے ہیں:

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ أَخِي الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصٍ، مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَبْعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ قَالَ: «كَيْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ؟»، قَالَ: أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ، قَالَ: «فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟»، قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا فِي كِتَابِ اللَّهِ؟» قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي، وَلَا آلُو فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ، وَقَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ، رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ»،
سنن أبي داود- كِتَاب الْأَقْضِيَةِ- بَابُ اجْتِهَادِ الرَّأْيِ فِي الْقَضَاءِ


ان حارث بن عمرو کا تعارف بھی کروادیں؛
آپ کو پیشگی بتلا دوں کہ اس حدیث کو امام بخاری، امام ترمذی، ابن جوزی، سبکی ، امام ابن حجر اور امام الذہبی ، ان سب نے ضعیف قرار دیا ہے!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سنن ابوداؤد: کتاب الاقضیۃ: بَاب اجْتِهَادِ الرَّأْيِ فِي الْقَضَاءِ

عن أناس من أهل حمص من أصحاب معاذ بن جبل أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما أراد أن يبعث معاذا إلى اليمن قال كيف تقضي إذا عرض لك قضاء قال أقضي بكتاب الله قال فإن لم تجد في كتاب الله قال فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا في كتاب الله قال أجتهد رأيي ولا آلو فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره وقال الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله
گذارش کی تھی کہ مکمل حدیث بالاسناد لکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن شاید آپ کے پاس حدیث کی کتاب نہیں اسلئے آپ نے سند نقل نہیں کی۔
لیکن جتنی نقل کی اس میں بھی اس روایت کا ’’ ضعف ‘‘ واضح ہے۔
دیکھئے !
عن أناس من أهل حمص من أصحاب معاذ بن جبل
ترجمہ : اہل حمص کے کچھ لوگوں نے جو معاذ بن جبل کے ساتھی تھے انہوں نے بیان کیا کہ۔۔۔

تو صاف ظاہر ہے کہ ’’عن أناس من أهل حمص ‘‘اہل حمص کے کچھ لوگ ‘‘ یہاں مجہول ہیں ان کا تعارف کروانا ضروری ہے،انکے مجہول رہنے کی صورت میں یہ روایت قابل استدلال نہیں ہوسکتی ۔بلکہ ناکارہ ہوگی ۔

اسی لئے ’’ عون المعبود ‘‘ میں ہے :
(( وأصحاب معاذ من أهل حمص لا يعرفون ومثل هذا الإسناد لا يعتمد عليه في أصل من أصول الشريعة ))
یعنی :‘‘اہل حمص کے کچھ لوگ ‘‘ یہاں مجہول ہیں، اور اصول شریعت جیسے اہم بنیادی موضوع پر ایسی روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سنن ابوداؤد: کتاب الاقضیۃ: بَاب اجْتِهَادِ الرَّأْيِ فِي الْقَضَاءِ

عن أناس من أهل حمص من أصحاب معاذ بن جبل أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما أراد أن يبعث معاذا إلى اليمن قال كيف تقضي إذا عرض لك قضاء قال أقضي بكتاب الله قال فإن لم تجد في كتاب الله قال فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا في كتاب الله قال أجتهد رأيي ولا آلو فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره وقال الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله
امام ابن حزم رحمہ اللہ ’’ الإحكام في أصول الأحكام ‘‘جلد 7۔صفحہ 112 میں اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ قال أبو محمد هذا حديث ساقط لم يروه أحد من غير هذا الطريق وأول سقوطه أنه عن قوم مجهولين لم يسموا فلا حجة فيمن لا يعرف من هو ‘‘
اس روایت کی سند ساقط ہے۔اور اس ساقط سند کے علاوہ کسی اور طریق سے اس کو کسی نے روایت نہیں کیا۔اس کے راوی مجہول ہیں ۔جن کا نام تک کسی نہیں پتا۔۔سو ایسے مجہولوں کی روایت حجت نہیں ۔۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی! آپ کو اس کی سند کی علتیں بیان کی گئیں، اس میں مناظرے والی بات نہیں!
کثرت اصحاب کی وجہ سے نام نہ لکھا یا کسی اور وجہ سے، ایک نام تو بتلا دیں!
''اس کثرت'' اصحاب کے کی وجہ سے اختصار کے عذر کو کسی محدث نے قبول نہیں کیا!
آپ کو محدثین کے اقوال بھی پیش کئے ہیں: خاص اسی بات کے بھی:
اسی لئے ’’ عون المعبود ‘‘ میں ہے :
(( وأصحاب معاذ من أهل حمص لا يعرفون ومثل هذا الإسناد لا يعتمد عليه في أصل من أصول الشريعة ))
یعنی :‘‘اہل حمص کے کچھ لوگ ‘‘ یہاں مجہول ہیں، اور اصول شریعت جیسے اہم بنیادی موضوع پر ایسی روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ‘‘
امام ابن حزم رحمہ اللہ ’’ الإحكام في أصول الأحكام ‘‘جلد 7۔صفحہ 112 میں اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ قال أبو محمد هذا حديث ساقط لم يروه أحد من غير هذا الطريق وأول سقوطه أنه عن قوم مجهولين لم يسموا فلا حجة فيمن لا يعرف من هو ‘‘
اس روایت کی سند ساقط ہے۔اور اس ساقط سند کے علاوہ کسی اور طریق سے اس کو کسی نے روایت نہیں کیا۔اس کے راوی مجہول ہیں ۔جن کا نام تک کسی نہیں پتا۔۔سو ایسے مجہولوں کی روایت حجت نہیں
بھٹی بھائی! آپ کے پاس کیا عذر ہے جو آپ اسکین فائل میں جواب لکھ رہے ہیں؟ بھائی یہاں ڈائرکٹ تحریر فرمائیں!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
آپ کہتے ہیں :: اس حدیث مذکور میں ’’ اناس من اصحاب معاذ بن جبل ‘‘کثرت کیلئے آیا ہے ۔اور راوی نے ان لوگوں کے نام کثرت کی وجہ نہیں لئے ‘‘
توآپ کی اس بات کی ’’ اصول حدیث ‘‘ میں کوئی اہمیت نہیں ؛
اس طرح تو جو چاہے کہہ دے کہ میں نے بہت سارے روات سے فلاں چیز سنی ہے، تو کیا وہ قبول کر لی جائے گیَ؟؟
اصول حدیث میں رواۃ کا معروف ہونا صحت حدیث کیلئے شرط ہے
امام ابن کثیر فرماتے ہیں :
’’ مجهول العدالة ظاهراً وباطناً لا تقبل روايته عند الجماهير ‘‘
یعنی جس کی عدالت مجہول ہو ، جمہور کے ہاں اس کی روایت مقبول نہیں ‘‘
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اسلام و علیکم ورحمۃ اللہ
محترم مجھے رواتِ حدیث کے چکر میں نہ ڈالو گو کہ میرے پاس تمام رواتِ حدیث پر جرح و تعدیل موجود ہے۔ محترم آپ یقین جانیں میں نہ تو عالم ہوں نہ ہی میں نے کسی دینی مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ مجھے اپنی پنجگانہ نماز کی فکر ہوئی جس کے سبب میں نے اہلِ حدیث کی کتب بھی پڑھی ہیں اور حنفی مسلک کی بھی۔ میں نے صرف دلائل میں قرآن اور حدیث ہی پر توجہ دی اس کے علاوہ دوسری باتوں پر نہیں۔
جب احادیث میں بظاہر تضاد لگتا ہے تو اس کے تصفیہ کے لئے بھی حتی الامکان احادیث ہی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے میں اس میں کامیاب رہتا ہوں۔
مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب کوئی دلیل میں دی گئی بات کا متن عربی میں لکھتا ہے کیونکہ میرے پاس قرآن و حدیث کا عربی سافٹ ویر موجود ہے اس میں آسانی سے سرچ کر لیتا ہوں وگرنہ کتب سے تو ہمارے جیسوں کے لئے بہت مشکل ہی نہیں بلکہ شائد ناممکن ہو۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اسلام و علیکم ورحمۃ اللہ
محترم مجھے رواتِ حدیث کے چکر میں نہ ڈالو گو کہ میرے پاس تمام رواتِ حدیث پر جرح و تعدیل موجود ہے۔ محترم آپ یقین جانیں میں نہ تو عالم ہوں نہ ہی میں نے کسی دینی مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ مجھے اپنی پنجگانہ نماز کی فکر ہوئی جس کے سبب میں نے اہلِ حدیث کی کتب بھی پڑھی ہیں اور حنفی مسلک کی بھی۔ میں نے صرف دلائل میں قرآن اور حدیث ہی پر توجہ دی اس کے علاوہ دوسری باتوں پر نہیں۔
جب احادیث میں بظاہر تضاد لگتا ہے تو اس کے تصفیہ کے لئے بھی حتی الامکان احادیث ہی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے میں اس میں کامیاب رہتا ہوں۔
مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب کوئی دلیل میں دی گئی بات کا متن عربی میں لکھتا ہے کیونکہ میرے پاس قرآن و حدیث کا عربی سافٹ ویر موجود ہے اس میں آسانی سے سرچ کر لیتا ہوں وگرنہ کتب سے تو ہمارے جیسوں کے لئے بہت مشکل ہی نہیں بلکہ شائد ناممکن ہو۔
والسلام
بھائی جان! ہم آپ کی بات پر یقین کر لیتے ہیں، مگر آپ کو اتنا تو معلوم ہونا چاہئے کہ جب تک کسی حدیث کی صحت ثابت نہیں ہوتی اس سے استدلال باطل ہے! کسی ضعیف ، منکر اور موضوع احادیث سے صحیح ثابت احادیث کا معارضہ کر کے اٹکل کے گھوڑے دوڑانا نرلی جہالت ہے!
معاملہ یہی ہے کہ حنفیوں کی پٹاری میں ان ضعیف دلائل کے اور کچھ ہوتا ہی نہیں، تو پھر وہ کہتے ہیں کہ رواتِ حدیث کے چکر میں نہ ڈالو!
بھائی جان! بات ہے سیدھی سیدھی! پہلے کسی حدیث کی صحت ثابت ہو گی، بعد میں اس سے استدلال ہو گا! اور یہ حکم ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ﴿سورة الحجرات 06﴾
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو ﴿ترجمہ : احمد علی لاہوری
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
’’عن أناس من أهل حمص ‘‘اہل حمص کے کچھ لوگ ‘‘ یہاں مجہول ہیں ان کا تعارف کروانا ضروری ہے
اسلام و علیکم ورحمۃ اللہ
محترم راوی نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصحاب کا ذکر کیا ہے یعنی ان کے شاگرد جیسے کہا جاتا ہے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ جب کوئی یہ کہ دے تو کسی کو حق حاصل نہیں ہوتا کہ کہے کہ یہ یہاں ’مجہول‘ ہیں۔ اصحابِ معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تابعی ہیں اور میرا نہیں خیال کہ صحابی کا تابعی شاگرد ضعیف ہو افلا یتدبر (آپ تدبر کیوں نہیں فرماتے)۔

یہاں راوی نے ’’أُنَاسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‘‘ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ یمن کےبہت سے لوگوں نے بتایا اور یہ اشارہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی طرف جس میں ہے کہ میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی۔’’فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا الآیۃ‘‘ اس قوم کو کیا ہو گیا ہے کہ بات کو سمجھنے کے قریب بھی نہیں جاتی۔
ان حارث بن عمرو کا تعارف بھی کروادیں؛
آپ کو پیشگی بتلا دوں کہ اس حدیث کو امام بخاری، امام ترمذی، ابن جوزی، سبکی ، امام ابن حجر اور امام الذہبی ، ان سب نے ضعیف قرار دیا ہے!
محترم آپ بڑے ہوگئے ہیں آنکھیں کھول لو غیر مقلِد ہو کر بھی تقلید ہی کرتے رہو گے!!!!
حارث بن عمرو رحمۃ اللہ علیہ کا کچھ تعارف تو حدیث ہی میں موجود ہے مزید میں کرا دیتا ہوں۔ ان پر کی گئی مکمل جرح و تعدیل ملاحظہ فرمائیں؛

قال المزي في تهذيب الكمال :
( د ت ) : الحارث بن عمرو ابن أخى المغيرة بن شعبة الثقفى .
روى عن أناس من أهل حمص ، من أصحاب معاذ ، عن معاذ أن النبى صلى الله عليه وسلم قال له : بم تحكم . . . . الحديث .
روى عنه أبو عون محمد بن عبيد الله الثقفى ( د ت ) ، و لا يعرف إلا بهذا . اهـ .
و قال المزى :
قال البخارى : لا يصح و لا يعرف .
روى له أبو داود ، و الترمذى .
و قد أخبرنا بحديثه أبو إسحاق ابن الدرجى ، قال : أنبأنا أبو جعفر الصيدلانى ،
قال : أخبرنا محمود بن إسماعيل الصيرفى ، قال : أخبرنا أبو بكر بن شاذان الأعرج
، قال : أخبرنا أبو بكر بن فورك القباب ، قال : أخبرنا أبو بكر بن أبى عاصم ،
قال : حدثنا أبو الوليد الطيالسى ، قال : حدثنا شعبة ، عن أبى عون ، عن الحارث ابن عمرو ، عن رجال من أهل حمص من أصحاب معاذ ، عن معاذ أن النبى صلى الله عليه وسلم لما بعثه ، قال : بم تقضى ؟ قال : أقضى بكتاب الله ، قال : فإن لم يكن فى كتاب الله ؟ قال : أقضى بسنة رسول الله ، قال : فإن لم يكن فى سنة رسول الله ؟ قال : أجتهد رأيى ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الحمد لله الذى وفق رسول رسول الله .
روياه من طرق ، عن شعبة .
و قال الترمذى : لا نعرفه إلا من هذا الوجه ، و ليس إسناده عندى بمتصل . اهـ .
قال الحافظ في تهذيب التهذيب 2 / 152 :
لفظ البخارى : روى عنه أبو عون ، و لا يصح ، و لا يعرف إلا بهذا ، مرسل .
هكذا قال فى " التاريخ الكبير " ، و قال فى " الأوسط " فى فصل من مات بين المئة إلى عشر و مئة : لا يعرف إلا بهذا ، و لا يصح .
و ذكره العقيلى ، و ابن الجارود ، و أبو العرب فى " الضعفاء " .
و قال ابن عدى : هو معروف بهذا الحديث .
و ذكره ابن حبان فى " الثقات " .
و ذكر إمام الحرمين أبو المعالى الجوينى : أن هذا الحديث مخرج فى " الصحيح " و وهم فى ذلك ، و الله المستعان . اهـ .

ابن حبان نے اس کو ثقہ کہا ہے اور إمام الحرمين أبو المعالى الجوينى نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اسلام و علیکم ورحمۃ اللہ
محترم راوی نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصحاب کا ذکر کیا ہے یعنی ان کے شاگرد جیسے کہا جاتا ہے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ جب کوئی یہ کہ دے تو کسی کو حق حاصل نہیں ہوتا کہ کہے کہ یہ یہاں ’مجہول‘ ہیں۔ اصحابِ معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تابعی ہیں اور میرا نہیں خیال کہ صحابی کا تابعی شاگرد ضعیف ہو افلا یتدبر (آپ تدبر کیوں نہیں فرماتے)۔
پہلی گذارش تو یہ کہ : آپ کو ۔۔سلام ۔۔لکھنا۔۔ابھی تک نہیں آیا ۔اس کو کسی قریبی اہل حدیث عالم سے باترجمہ سیکھ لیں؛
دوسری بات یہ کہ آپ کو کس نے کہہ دیا کہ :
کسی کے ’’ اصحاب معاذ ‘‘ کہنے سے وہ جناب معاذ کے شاگرد ثابت ہوگئے ؟
دیکھیئے علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کو یقیناً آپ ’’ محدث ‘‘ تو مانتے ہونگے ،
وہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :
’’إنما ثبوته لا يعرف لأن الْحَارِث بْن عمرو مجهول وأصحاب مُعَاذِ من أَهْل حمص لا يعرفون وما هَذَا طريقه فلا وجه لثبوته"
اس حدیث کا ثبوت نہیں ،کیونکہ ایک تو اس کا راوی ۔۔حارث بن عمرو۔۔مجہول ہے ۔
اور دوسرا یہ کہ ’’ اصحاب معاذ ‘‘ کا پتا نہیں (کون اور کیسے ہیں ) لہذا اس حدیث کے ثبوت کی کوئی صورت نہیں ‘‘(العلل المتناهية في الأحاديث الواهية ۔فقرۃ :1264 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یاد رہے :
(آپ تدبر کیوں نہیں فرماتے) کی عربی ۔افلا یتدبر۔ نہیں ہوتی ؛
 
Top