• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مسئلہ رائے یا قیاس سے نہیں بتلا یا۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
پہلی گذارش تو یہ کہ : آپ کو ۔۔سلام ۔۔لکھنا۔۔ابھی تک نہیں آیا ۔اس کو کسی قریبی اہل حدیث عالم سے باترجمہ سیکھ لیں؛
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم آپ اہلِ حدیث ہو کر امتیوں کی تقلید کا کیوں کہتے ہو؟
الحمد للہ میں نے احادیث مبارکہ سے دیکھ لیا کہ کیا غلطی ہے اور اس کی اصلاح کرلی بضد نہیں ہؤا۔ اس میں مَیں آپ کا بھی تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ شکریہ
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
محترم راوی نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصحاب کا ذکر کیا ہے یعنی ان کے شاگرد جیسے کہا جاتا ہے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ جب کوئی یہ کہ دے تو کسی کو حق حاصل نہیں ہوتا کہ کہے کہ یہ یہاں ’مجہول‘ ہیں۔ اصحابِ معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تابعی ہیں اور میرا نہیں خیال کہ صحابی کا تابعی شاگرد ضعیف ہو افلا یتدبر (آپ تدبر کیوں نہیں فرماتے)۔
بھٹی صاحب! اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام کہ تمام عادل ہیں، اہل الحدیث کے نزدیک! لہٰذا اتنا معلوم ہو جائے کہ یہ صحابی ہیں، ان کا نام معلوم ہو یا نہ ہو، کافی ہے!
جبکہ اصحاب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ میں یہ خصوصیت نہیں کہ تمام کہ تمام عادل ہوں! لہٰذا راوی کا تعین ضروری ہے!

بھٹی صاحب! اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھئے، آپ کی فقہائے احناف اور اور آپ کے عقیدہ کے امام سعد الدین التفتازانی کیا فرماتے ہیں:
شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني (المتوفى: 793هـ)
(قَوْلُهُ: وَأَمَّا الْمَجْهُولُ) ذَهَبَ بَعْضُهُمْ إلَى أَنَّ هَذَا كِنَايَةٌ عَنْ كَوْنِهِ مَجْهُولَ الْعَدَالَةِ، وَالضَّبْطِ إذْ مَعْلُومُ الْعَدَالَةِ، وَالضَّبْطِ لَا بَأْسَ بِكَوْنِهِ مُنْفَرِدًا بِحَدِيثٍ أَوْ حَدِيثَيْنِ، فَإِنْ قِيلَ عَدَالَةُ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ ثَابِتَةٌ بِالْآيَاتِ، وَالْأَحَادِيثِ الْوَارِدَةِ فِي فَضَائِلِهِمْ قُلْنَا ذَكَرَ بَعْضُهُمْ أَنَّ الصَّحَابِيَّ اسْمٌ لِمَنْ اُشْتُهِرَ بِطُولِ صُحْبَةِ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - عَلَى طَرِيقِ التَّتَبُّعِ لَهُ، وَالْأَخْذِ مِنْهُ وَبَعْضُهُمْ أَنَّهُ اسْمٌ لِمُؤْمِنٍ رَأَى النَّبِيَّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - سَوَاءٌ طَالَتْ صُحْبَتُهُ أَمْ لَا إلَّا أَنَّ الْجَزْمَ بِالْعَدَالَةِ مُخْتَصٌّ بِمَنْ اُشْتُهِرَ بِذَلِكَ، وَالْبَاقُونَ كَسَائِرِ النَّاسِ فِيهِمْ عُدُولٌ وَغَيْرُ عُدُولٍ.

(قَوْلُهُ: وَأَمَّا الْمَجْهُولُ) بعض اس طرف گئے ہیں کہ کہ یہ کنایہ ہے کہ وہ مجہول العدالت ،اور مجہول الضبط ہیں ۔کیونکہ جب کسی عدالت ،اور ضبط معلوم ہو، تواس کے ایک ،دو حدیثوں میں منفرد ہونے میں کوئی حرج نہیں ۔،
اور اگر یہ کہا جائے کہ جمیع صحابہ کی عدالت آیات، اور ان احادیث سے ثابت ہے، جو ان کے فضائل میں آئیں ہیں،
تو ہم کہتے ہیں : کہ (یہ قاعدہ علی الاطلاق صحیح نہیں ،کیونکہ )بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ صحابی اس کو کہا جاتا ہے جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طویل صحبت مشہور ہو، اوریہ بات اس صحابی کے حالات کے تتبع سے معلوم کی گئی ہو ،
اور بعض اہل علم کے نزدیک ’’ صحابی ‘‘ ہر اس مومن کو کہا جاتا ہے، جس نے نبی صلی اللہ علیہ کو (حالت ایمان میں ) دیکھا ہے ، خواہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت پائی ہو ،یا مختصر ،
اس کو صحابی تو مانا جائے گا ۔
مگر یقینی طور پر عدالت اسی کی تسلیم کی جائے گی۔جو ’’صفت عدالت کے ساتھ مشہور ہو ۔
اور دیگر صحابہ کو عام مومنین کی طرح سمجھا جائے گا ۔جن میں عادل بھی ہیں ۔اور غیر عادل بھی ‘‘
ملاحضہ فرمائیں:صفحه 10 جلد 02 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - دار الكتب العلمية بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 06 جلد 02 شرح التلويح على التوضيح – سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - طبع قديم دار الكتب العلمية بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 10 جلد 02 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - قديمي كتب خانة كراتشي

ان حنفیوں میں تو رفض کے جراثیم بھی موجود ہیں!
محترم آپ بڑے ہوگئے ہیں آنکھیں کھول لو غیر مقلِد ہو کر بھی تقلید ہی کرتے رہو گے!!!!
حارث بن عمرو رحمۃ اللہ علیہ کا کچھ تعارف تو حدیث ہی میں موجود ہے مزید میں کرا دیتا ہوں۔ ان پر کی گئی مکمل جرح و تعدیل ملاحظہ فرمائیں؛
قال المزي في تهذيب الكمال :
( د ت ) : الحارث بن عمرو ابن أخى المغيرة بن شعبة الثقفى .
روى عن أناس من أهل حمص ، من أصحاب معاذ ، عن معاذ أن النبى صلى الله عليه وسلم قال له : بم تحكم . . . . الحديث .
روى عنه أبو عون محمد بن عبيد الله الثقفى ( د ت ) ، و لا يعرف إلا بهذا . اهـ .
و قال المزى :
قال البخارى : لا يصح و لا يعرف .
روى له أبو داود ، و الترمذى .
و قد أخبرنا بحديثه أبو إسحاق ابن الدرجى ، قال : أنبأنا أبو جعفر الصيدلانى ،
قال : أخبرنا محمود بن إسماعيل الصيرفى ، قال : أخبرنا أبو بكر بن شاذان الأعرج
، قال : أخبرنا أبو بكر بن فورك القباب ، قال : أخبرنا أبو بكر بن أبى عاصم ،
قال : حدثنا أبو الوليد الطيالسى ، قال : حدثنا شعبة ، عن أبى عون ، عن الحارث ابن عمرو ، عن رجال من أهل حمص من أصحاب معاذ ، عن معاذ أن النبى صلى الله عليه وسلم لما بعثه ، قال : بم تقضى ؟ قال : أقضى بكتاب الله ، قال : فإن لم يكن فى كتاب الله ؟ قال : أقضى بسنة رسول الله ، قال : فإن لم يكن فى سنة رسول الله ؟ قال : أجتهد رأيى ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الحمد لله الذى وفق رسول رسول الله .
روياه من طرق ، عن شعبة .
و قال الترمذى : لا نعرفه إلا من هذا الوجه ، و ليس إسناده عندى بمتصل . اهـ .
قال الحافظ في تهذيب التهذيب 2 / 152 :
لفظ البخارى : روى عنه أبو عون ، و لا يصح ، و لا يعرف إلا بهذا ، مرسل .
هكذا قال فى " التاريخ الكبير " ، و قال فى " الأوسط " فى فصل من مات بين المئة إلى عشر و مئة : لا يعرف إلا بهذا ، و لا يصح .
و ذكره العقيلى ، و ابن الجارود ، و أبو العرب فى " الضعفاء " .
و قال ابن عدى : هو معروف بهذا الحديث .
و ذكره ابن حبان فى " الثقات " .
و ذكر إمام الحرمين أبو المعالى الجوينى : أن هذا الحديث مخرج فى " الصحيح " و وهم فى ذلك ، و الله المستعان . اهـ .
ابن حبان نے اس کو ثقہ کہا ہے اور إمام الحرمين أبو المعالى الجوينى نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
اتنی لمبی جراح پیش کر کے فرماتے ہیں کہ جمہور کی تضعیف کو چھوڑ کر ابن حبان کی تساہل پر مبنی توثیق مان لو!
اسی لئے تو کہتا ہوں کہ مقلدین حنفیہ بوجہ تقلید امام ابو حنیفہ علم الحدیث میں یتیم و مسکین ہوا کرتے ہیں!
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اتنی لمبی جراح پیش کر کے فرماتے ہیں کہ جمہور کی تضعیف کو چھوڑ کر ابن حبان کی تساہل پر مبنی توثیق مان لو!
السلام علیکم علیکم ورحمۃ اللہ
محترم جہاں آپ کو مطلب پڑے گا وہاں اسی ’ابن حبان‘ رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف توصیف کرتے نہ تھکو گے۔ خیر اس میں یہ بھی تھا کہ ’ إمام الحرمين أبو المعالى الجوينى نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے‘۔ اس پر بھی کچھ فرما دیتے۔
والسلام
 
Last edited by a moderator:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
براہِ کر تصحیح فرما لیں یہ لفظ رحمۃ اللہ علیہ ہے غلط ٹیب دبنے کی وجہ سے غلط ہو گیا۔ شکریہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم جہاں آپ کو مطلب پڑے گا وہاں اسی ’ابن حبان‘ رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف توصیف کرتے نہ تھکو گے۔
جناب من! ہم بالکل ابن حبان رحمہ اللہ کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہیں!
در اصل آپ بوجہ تقلید امام ابو حنیفہ علم الحدیث میں یتیم و مسکین ہو!
اسی وجہ سے آپ کو اب تک جراح و تعدیل کی بنیادی باتیں بھی نہیں معلوم! کہ کسی کی شاذ توثیق جمہور کی جراح کے مقابلے میں مقبول نہیں ہوتی!

ویسے ایک بات بتلاؤ! کی اآپ امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی تمام جراح و تعدیل کو قبول کرو گے؟
اگر ہاں تو جواب لکھئے! پھر میں آپ کو امام ابن حبان رحمہ اللہ کی ایک جراح پیش کروں گا، دیکھتے ہیں کہ آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہو!
اب ذرا بتلاؤ ، کیا آپ کو امام ابن حبان رحمہ اللہ کی تمام جراح و تعدیل قبول ہیں؟
خیر اس میں یہ بھی تھا کہ ’ إمام الحرمين أبو المعالى الجوينى نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے‘۔
بھٹی صاحب! یہ ترجمہ یا تو آپ نے غلط کیا ہے یا بھی پھر آپ کو کسی نے غلط پٹی پڑھائی ہے، مگر اس ترجمہ کی بحث سے بھی قطع نظر!
بھٹی صاحب! جس کتاب سے آپ نے یہ حوالہ نقل کیا ہے اور آپ نے کود وہ کلام بھی پیش کی اہے، ہم آپ کا اقتباس پیس کرتے ہیں، وہاں ملون الفاظ دیکھیں:
قال الحافظ في تهذيب التهذيب 2 / 152 :
لفظ البخارى : روى عنه أبو عون ، و لا يصح ، و لا يعرف إلا بهذا ، مرسل .
هكذا قال فى " التاريخ الكبير " ، و قال فى " الأوسط " فى فصل من مات بين المئة إلى عشر و مئة : لا يعرف إلا بهذا ، و لا يصح .
و ذكره العقيلى ، و ابن الجارود ، و أبو العرب فى " الضعفاء " .
و قال ابن عدى : هو معروف بهذا الحديث .
و ذكره ابن حبان فى " الثقات " .
و ذكر إمام الحرمين أبو المعالى الجوينى : أن هذا الحديث مخرج فى " الصحيح " و وهم فى ذلك ، و الله المستعان . اهـ

.
بھٹی صاحب، اسی کتاب میں اسی جملہ کے فوراً بعد امام ابن حجر العسقلانی نے اسے امام الحرمین ابو المعالی الجوینی کا وہم قرار دیا ہے، امام ابن حجر العسقلانی کے الفاظ دیکھیں:
''و وهم فى ذلك ، و الله المستعان''

اس کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں فرمایا؛
بھٹی صاحب! اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام کہ تمام عادل ہیں، اہل الحدیث کے نزدیک! لہٰذا اتنا معلوم ہو جائے کہ یہ صحابی ہیں، ان کا نام معلوم ہو یا نہ ہو، کافی ہے!
جبکہ اصحاب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ میں یہ خصوصیت نہیں کہ تمام کہ تمام عادل ہوں! لہٰذا راوی کا تعین ضروری ہے!

بھٹی صاحب! اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھئے، آپ کی فقہائے احناف اور اور آپ کے عقیدہ کے امام سعد الدین التفتازانی کیا فرماتے ہیں:
شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني (المتوفى: 793هـ)
(قَوْلُهُ: وَأَمَّا الْمَجْهُولُ) ذَهَبَ بَعْضُهُمْ إلَى أَنَّ هَذَا كِنَايَةٌ عَنْ كَوْنِهِ مَجْهُولَ الْعَدَالَةِ، وَالضَّبْطِ إذْ مَعْلُومُ الْعَدَالَةِ، وَالضَّبْطِ لَا بَأْسَ بِكَوْنِهِ مُنْفَرِدًا بِحَدِيثٍ أَوْ حَدِيثَيْنِ، فَإِنْ قِيلَ عَدَالَةُ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ ثَابِتَةٌ بِالْآيَاتِ، وَالْأَحَادِيثِ الْوَارِدَةِ فِي فَضَائِلِهِمْ قُلْنَا ذَكَرَ بَعْضُهُمْ أَنَّ الصَّحَابِيَّ اسْمٌ لِمَنْ اُشْتُهِرَ بِطُولِ صُحْبَةِ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - عَلَى طَرِيقِ التَّتَبُّعِ لَهُ، وَالْأَخْذِ مِنْهُ وَبَعْضُهُمْ أَنَّهُ اسْمٌ لِمُؤْمِنٍ رَأَى النَّبِيَّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - سَوَاءٌ طَالَتْ صُحْبَتُهُ أَمْ لَا إلَّا أَنَّ الْجَزْمَ بِالْعَدَالَةِ مُخْتَصٌّ بِمَنْ اُشْتُهِرَ بِذَلِكَ، وَالْبَاقُونَ كَسَائِرِ النَّاسِ فِيهِمْ عُدُولٌ وَغَيْرُ عُدُولٍ.

(قَوْلُهُ: وَأَمَّا الْمَجْهُولُ) بعض اس طرف گئے ہیں کہ کہ یہ کنایہ ہے کہ وہ مجہول العدالت ،اور مجہول الضبط ہیں ۔کیونکہ جب کسی عدالت ،اور ضبط معلوم ہو، تواس کے ایک ،دو حدیثوں میں منفرد ہونے میں کوئی حرج نہیں ۔،
اور اگر یہ کہا جائے کہ جمیع صحابہ کی عدالت آیات، اور ان احادیث سے ثابت ہے، جو ان کے فضائل میں آئیں ہیں،
تو ہم کہتے ہیں : کہ (یہ قاعدہ علی الاطلاق صحیح نہیں ،کیونکہ )بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ صحابی اس کو کہا جاتا ہے جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طویل صحبت مشہور ہو، اوریہ بات اس صحابی کے حالات کے تتبع سے معلوم کی گئی ہو ،
اور بعض اہل علم کے نزدیک ’’ صحابی ‘‘ ہر اس مومن کو کہا جاتا ہے، جس نے نبی صلی اللہ علیہ کو (حالت ایمان میں ) دیکھا ہے ، خواہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت پائی ہو ،یا مختصر ،
اس کو صحابی تو مانا جائے گا ۔
مگر یقینی طور پر عدالت اسی کی تسلیم کی جائے گی۔جو ’’صفت عدالت کے ساتھ مشہور ہو ۔
اور دیگر صحابہ کو عام مومنین کی طرح سمجھا جائے گا ۔جن میں عادل بھی ہیں ۔اور غیر عادل بھی ‘‘
ملاحضہ فرمائیں:صفحه 10 جلد 02 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - دار الكتب العلمية بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 06 جلد 02 شرح التلويح على التوضيح – سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - طبع قديم دار الكتب العلمية بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 10 جلد 02 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - قديمي كتب خانة كراتشي
ان حنفیوں میں تو رفض کے جراثیم بھی موجود ہیں!
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم
اجماع اور قياس صحيح كی حجیت کے اہل حدیث قائل ہیں ۔
جناب آپ کے تمام علماء کے نزدیک اجماع تو کبھی ہؤا ہی نہیں کہ ہر معاملہ میں کسی نہ کسی کا اختلاف موجود رہا ہے۔ باقی رہی قیاس کی بات تو اہلِ حدیث کا ہی قیاس صحیح ہو سکتا ہے کسی اور کا کبھی نہیں!!!!!!!!!

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں
یہ حنفیوں نے پھیلائی ہیں
ان جھوٹی باتوں کو پھیلانے میں ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔

تو صاف ظاہر ہے کہ ’’عن أناس من أهل حمص ‘‘اہل حمص کے کچھ لوگ ‘‘ یہاں مجہول ہیں ان کا تعارف کروانا ضروری ہے،انکے مجہول رہنے کی صورت میں یہ روایت قابل استدلال نہیں ہوسکتی ۔بلکہ ناکارہ ہوگی ۔
اسی لئے ’’ عون المعبود ‘‘ میں ہے :
محترم حدیث میں ’’عن أناس من أهل حمص ‘‘اہل حمص کے کچھ لوگ ‘‘ نہیں بلکہ ’’عن أناس من أهل حمص من اصحابِ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ‘‘ ہے یعنی اہلِ حمص کے کے لوگوں میں سے جو معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد ہیں ان سے روایت ہے نہ کہ عامیوں سے۔ راوی عام لوگوں کی نہیں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی بات کر رہا ہے۔

بھائی! آپ کو اس کی سند کی علتیں بیان کی گئیں، اس میں مناظرے والی بات نہیں!
کثرت اصحاب کی وجہ سے نام نہ لکھا یا کسی اور وجہ سے، ایک نام تو بتلا دیں!
''اس کثرت'' اصحاب کی وجہ سے اختصار کے عذر کو کسی محدث نے قبول نہیں کیا!
آپ کو محدثین کے اقوال بھی پیش کئے ہیں: خاص اسی بات کے بھی:
محترم اگر آپ خود نہیں سمجھ سکتے تو کسی ساتھی سے سمجھ لیں کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔

آپ کہتے ہیں :: اس حدیث مذکور میں ’’ اناس من اصحاب معاذ بن جبل ‘‘کثرت کیلئے آیا ہے ۔اور راوی نے ان لوگوں کے نام کثرت کی وجہ نہیں لئے ‘‘
توآپ کی اس بات کی ’’ اصول حدیث ‘‘ میں کوئی اہمیت نہیں ؛
اصول حدیث نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیئے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے۔

بھائی جان! ہم آپ کی بات پر یقین کر لیتے ہیں، مگر آپ کو اتنا تو معلوم ہونا چاہئے کہ جب تک کسی حدیث کی صحت ثابت نہیں ہوتی اس سے استدلال باطل ہے! کسی ضعیف ، منکر اور موضوع احادیث سے صحیح ثابت احادیث کا معارضہ کر کے اٹکل کے گھوڑے دوڑانا نرلی جہالت ہے!
محترم یہ کس صحیح حدیث یا احادیث کی مخالف ہے ذرا سامنے لائیں؟

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ﴿سورة الحجرات 06﴾
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو
محترم یہ بات ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ تک کس طرح پہنچاؤ گے۔ ہاں ایک کام ہوسکتا ہے کہ اس کو ’’موضوع احادیث کی کتب‘‘ میں ڈلوادیں۔ کیا اہلِ حدیث کا پسندیدہ کام یہ ہے کہ احادیث کو ضعیف قرار دو پھر ان کا انکار کرو؟ انکارِ حدیث کا الزام بھی نہ آئے اور کام بھی بن جائے۔

اتنی لمبی جراح پیش کر کے فرماتے ہیں کہ جمہور کی تضعیف کو چھوڑ کر ابن حبان کی تساہل پر مبنی توثیق مان لو!
اسی لئے تو کہتا ہوں کہ مقلدین حنفیہ بوجہ تقلید امام ابو حنیفہ علم الحدیث میں یتیم و مسکین ہوا کرتے ہیں!
محترم یہ بات آپ بالکل صحیح ہے کہ مقلدین بوجہ تقلید علم الحدیث میں یتیم و مسکین ہوا کرتے ہیں مگر تفہیمِ حدیث میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔
والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
محترم یہ بات آپ بالکل صحیح ہے کہ مقلدین بوجہ تقلید علم الحدیث میں یتیم و مسکین ہوا کرتے ہیں
ویسے تو میں اس پوری پوسٹ کا جواب دیتا ۔۔۔۔۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے بقلم خود تمام مقلدین کو ۔۔علم حدیث میں یتیم و مسکین ‘‘ مان کر
لا جواب کردیا؛
شاباش ۔۔زبردست
اس تھریڈ کا کامیاب اختتام ۔۔بلکہ کامیاب تکمیل مبارک ہو ۔۔اور ساتھ ہی ’’ عید بھی مبارک ہو ‘‘
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
 

saqibbilwani

مبتدی
شمولیت
ستمبر 24، 2015
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
28
اجماع اور قياس صحيح كی حجیت کے اہل حدیث قائل ہیں ۔
حافظ عبد اللہ محدث روپڑی ، حافظ زبیر علی زئی وغیرہ کی تحریرات پڑھ کا دیکھ لیں آپ کے لیے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جائے گی ۔
بہت کم علماء ہیں جن کا یہ دعوی ہے کہ اجماع اور قیاس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ عبد المنان نوری پوری رحمہ اللہ کی طرف بھی یہی موقف منسوب کیاجاتا ہے ۔
اس حوالے سے محترم المقام شیخ رفیق طاھر صاحب ( شاید اس وقت موجود ہیں ) وہ بہتر وضاحت کرسکیں گے ۔
اسلام علیکم

بهائ ان امور سے متعلق اهل الحدیث کا کیا موقف هے جہاں الله کے نبی صلی اللہ علیه وسلم نے ایک بات یا حکم فرمایا مگر الله تعالی نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔ جیسے جنگی قیدیوں کے چهوڑنے کے معاملے پر قرآن میں واقعه مذکور هے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اسلام علیکم
بهائ ان امور سے متعلق اهل الحدیث کا کیا موقف هے جہاں الله کے نبی صلی اللہ علیه وسلم نے ایک بات یا حکم فرمایا مگر الله تعالی نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔ جیسے جنگی قیدیوں کے چهوڑنے کے معاملے پر قرآن میں واقعه مذکور هے
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایسے موقعوں پر خود اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ و سلم نے ربانی رہنمائی کے بعد اپنے موقف یا نظریہ تبدیل فرمالیا ، اسی طرح اہل حدیث بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اطاعت کے پابند ہیں ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
بھٹی صاحب، اسی کتاب میں اسی جملہ کے فوراً بعد امام ابن حجر العسقلانی نے اسے امام الحرمین ابو المعالی الجوینی کا وہم قرار دیا ہے، امام ابن حجر العسقلانی کے الفاظ دیکھیں:
''و وهم فى ذلك ، و الله المستعان''
السلام علیکم ورحمۃ اللہ علیہ
محترم (و ذكر إمام الحرمين أبو المعالى الجوينى : أن هذا الحديث مخرج فى " الصحيح ") امام الحرمین ابو المعالی الجوینی اس کو صحیح کہتے ہیں۔ اب اگر کوئی دوسرا کہتا ہے کہ یہ ان کا وہم ہے تو اس سے ترجمہ کیسے غلط ہو گیا؟ جیسا کہ آپ نے لکھا ہے؛
بھٹی صاحب! یہ ترجمہ یا تو آپ نے غلط کیا ہے یا بھی پھر آپ کو کسی نے غلط پٹی پڑھائی ہے
کسی نے کہا کہ یہ امام الحرمین ابو المعالی الجوینی کا وہم ہے اس سے ترجمہ میں کیا نقص واقع ہؤا۔
محترم جتنی بھی عربی عبارات کا ترجمہ لکھتا ہوں و ہ میں اپنی سمجھ سے لکھتا ہوں۔ جہاں قرآنِ پاک آیت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہو وہاں میں لفظ ’ترجمہ‘ لکھنے کی بجائے لفظ ’مفہوم‘ لکھتا ہوں تا کہ اگر سمجھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہو تو وہ اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منصوب نہ ہو۔ کچھ جگہوں پر ایسا ہوتا ہے کہ مجھے ترجمہ سمجھ نہیں آتا تو تراجم کی کتب کی طرف مراجعت کرتا ہوں اس میں میرا کافی وقت صرف ہو جاتا ہے۔ جو سمجھ نہیں آتا اس کو نشان زدہ کرکے چھوڑ دیتا ہوں۔ اس لئے ممکن ہے کہ کہیں غلط ترجمہ ہو جائے متنبہ کرنے پر انشاء اللہ تصحیح کر لی جائے گی اور تصحیح کرنے والا شکریہ کا بھی مستحق ہوگا۔
والسلام
 
Top