محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
باب:17۔ جن گناہوں کی سزا، اور سزا کی حد مقرر نہیں ہوئی
وہ معاصی اور گناہ جن میں کوئی مقدار اور مقرر حد نہیں اور نہ کفارہ ہے مثلاً کسی لڑکے کا بوسہ لینا یا اجنبی عورت کا بوسہ لینا، یا مباشرت بلا جماع و وطی کے کرنا، یا ایسی چیز کھانا جو حلال نہیں ہے مثلاً خون مسفوح (ذبح کے وقت جانور کا جو خون نکلتا ہے) یا مردار گوشت کھانا یا کسی پر زنا کے علاوہ کوئی جھوٹی تہمت لگانا۔ یا غیر محفوظ چیز کی چوری کرنا یا نصاب سے کم چیز چرا لینی یا امانت میں خیانت کرنی جیسے بیت المال کے والی {وزیر مال} اور متولی {خزانچی} کیاکرتے ہیں یا وقف کے متولی {نگہبان} یا یتیم کے مال کے متولی {و نگہبان} کیاکرتے ہیں اور مثلاً تجارت کے وکلاء {یعنی ایجنٹ اور. Rep} اور شریک فی التجارت {Partner} خیانت کیاکرتے ہیں یا معاملہ میں دھوکہ کرنا یا مثلاً کھانے پینے کی چیزوں میں یا کپڑوں میں دھوکہ کرنا یا مثلاً ناپ و تول میں کم زیادہ کرنا یا جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی گواہی کی تلقین کرنا یا رشوت لینا یا اللہ تعالی کے حکم کے خلاف حکم دینا یا رعایا پر ظلم و زیادتی کرنا یا جاہلیت کانعرہ بلند کرنا یا جاہلیت کے دعوے کو بلند کرنا وغیرہ یا محرمات شرعیہ کا ارتکاب کرنا، ایسے لوگوں کی سزا بطور تعزیر یا عبرت یا ادب کے والی وحاکم {یعنی قاضی و جج یا حکمران خود} تجویز کرے گا۔ حاکم و والی گناہوں کی قلت و کثرت دیکھتے ہوئے عقوبت و سزا تجویز کرے، جب معاصی اور گناہ زیادہ ہوں تو عقوبت و سزا بھی زیادہ ہونی چاہیے۔ جب گناہ کم ہوں تو حسب حال گناہ کرنے والے کے سزا ہوگی ۔
غرض! چھوٹے بڑے گناہ کے اعتبار سے عقوبت و سزا دینی چاہیے۔ جو کسی ایک عورت یا ایک لڑکے سے چھیڑ چھاڑ کرے اُسے اس کے مقابلہ میں جو عام طور پر عورتوں اور لڑکوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، کم سزا ہونی چاہیے اور کم سے کم تعزیر کی کوئی حد مقرر نہیں کہ اتنی ہونی چاہیئے کیونکہ تعزیر کا مقصد تکلیف پہنچانا ہے۔ اب خواہ وہ {تعزیر و سزا} قول سے ہو یا فعل سے، اس سے بات چیت ترک کر دینے سے ہو یا پہلے کوئی سلوک کر رہا تھا اور کسی قسم کی رواداری کا برتاؤ کر رہا تھا {اور اب} اُسے ترک کرنے سے ہو۔ یا نصیحت و وعظ کے ذریعہ یا توبیخ و تنبیہ (ڈانٹ ڈپٹ) اور سختی سے ہو۔ مقصد یہ ہے کہ اُسے تکلیف پہنچے اور تعزیر ہوجائے۔ کبھی یہ مقصد قطع تعلق اور علیک سلیک بند کر دینے سے بھی حاصل ہوجاتا ہے۔اور جب لوگ فسق و فجور میں مبتلا ہوجائیں اور گناہ کے عادی ہوجائیں تو عقوبت و سزازیادہ کردینی چاہیے۔ جب فسق و فجور کم ہوتو عقوبت و سز ابھی کم ہونی چاہیے۔
غرض یہ کہ جب تک وہ توبہ نہ کرے اُسے تکلیف و تعزیر ہونی چاہیے جیسا کہ نبی اکرم ﷺنے تین مخلص صحابہ y سے جو جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے علیک سلیک اور بات چیت بند کر دی تھی۔