• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب:18۔سزا کی دو قسمیں ہیں۔ ۔ السیاسۃ الشرعیۃ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب:18۔سزا کی دو قسمیں ہیں
عقوبت و سزا دو قسم کی ہیں؛ ایک تو یہ کہ ایک یا چند آدمی اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کریں اور دوسری یہ کہ ایک مضبوط جماعت ہو جو اِسلام کی راہ میں حائل ہو اور لڑنے، مارنے مرنے پر تُل جائیں۔ پہلی قسم میں حد ہے اور دوسری قسم میں جہاد۔

اللہ اور اللہ کے رسولﷺکی نافرمانی سے جو سزا اور عقوبت لازم آتی ہے، دو قسم کی ہے۔ ایک وہ عقوبت و سزا ہے جو مقدر اور مقرر ہے جو ایک آدمی کے لیے یا چند آدمیوں کے لیے ہوا کرتی ہے جیسا کہ پہلے اس کا بیان گزر چکا ہے۔ دوسری عقوبت و سزا وہ ہے جو ایک زبردست گروہ کے مقابلہ میں ہو جس پر قتل کے بغیر قابو حاصل نہیں ہوتا اور یہ جہاد فی سبیل للہ ہے؛ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺکے دشمنوں کے خلاف لڑائی ہے۔

پس جبکہ رسول اللہ ﷺکی دعوت ان تک پہنچ جائے، دین کی تبلیغ ہوجائے اور وہ اِسلام قبول نہ کریں تو اس کے مقابلہ میں جہاد اور حرب و قتال فرض ہے یہاں تک کہ کوئی فتنہ دین کے بارے میں باقی نہ رہے اور دین الٰہی پھیلے اور مضبوط ہو۔

بعثت کے آغاز میں آپ ﷺکو صرف دعوت الی الاسلام کی اجازت تھی، قتل کرنے اور مارنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب مجبور ہوکر آپ ﷺنے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی تو وہاں آپ ﷺکی قوت و طاقت بڑھ گئی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو اور مسلمانوں کو جہاد و قتال اور جنگ کاحکم دیا۔

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُنِ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوَاتٌ وَّ مَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللہِ کَثِیْرًا وَّ لَیَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنَّاھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوالصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ للہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ (حج:39 تا 41)
جن مسلمانوں سے کافر لڑتے ہیں اب ان کو بھی ان کافروں سے لڑنے کی اجازت ہے اس لیے کہ ان پر ظلم ہورہا ہے اور کچھ شک نہیں کہ اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ مظلوم ہیں جو بیچارے صرف اتنی بات کہنے پر کہ ''ہمارا رب صرف اللہ ہے'' ناحق اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹواتا (دفع کرواتا) تونصاریٰ کے صومعے (خانقاہیں) اور گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے کبھی کے ڈھائے جاچکے ہوتے اور جو اللہ (کے دین) کی مدد کرے گا تو اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا کچھ شک و شبہ نہیں کہ اللہ زبردست غالب ہے۔ ان مومن لوگوں کو اگر حاکمِ وقت بنا کر ہم زمین میں ان کے پاؤں جمادیں تو اچھے ہی اچھے کام کریں گے، نماز کی پابندی کریں اور کروائیں گے، زکوٰۃ دیں گے، اچھے کام کے لیے کہیں گے او ربرے کام سے منع کریں گے؛ اور سب چیزوں کا انجامِ کارتواللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اس کے بعد مسلمانوں پر جہاد و قتال فرض کیاگیا اور یہ آیت اتری:

کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَعَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (بقرہ:216)
مسلمانو! تم پر جہاد فرض کیاگیا ہے اور وہ تم کو ناگوار بھی گزرے گا اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بُری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے حق میں بُری ہو اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اس کے بعد مدنی سورتوں میں جہاد کی عظمت و اہمیت بیان کی اور جہاد فرض کیاگیا اور جہاد ترک کرنے والوں کی مذمت اور برائی پیش کی۔ جہاد و قتال ترک کرنے والوں کو مریض قلوب {یعنی منافق کے نام} سے یاد کیاگیا چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖ وَاللہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ (توبہ:24)
اے پیغمبرﷺ! مسلمانوں سے کہو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے خاندان و قبیلے والے اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑ جانے کا تم کو اندیشہ ہے اور وہ مکانات جن میں رہنے کو تمہارا جی چاہتا ہے اگر یہ سب چیزیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے راستے میں جہاد کرنے سے تم کو زیادہ پسند ہوں تو ذرا انتطار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا عذاب بھیج دے اور اللہ ان لوگوں کو جو اس کے حکم سے روگردانی و سرتابی کریں ہدایت نہیں دیا کرتا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا بِاللہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ (الحجرات:15)
یقینا مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے پھر کسی طرح کا شک و شبہ نہیں کیا اور اللہ کی راہ میں اپنے جان ومال سے جہاد کرتے رہے، حقیقت میں یہی سچے (ایمان والے) ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

فَاِذَا اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ مُّحْکَمَۃٌ وَّذُکِرَ فِیْھَا الْقِتَالُ رَأَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَاَوْلٰی لَھُمْ طَاعَۃٌ وَ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللہَ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکُمْ
پھر جب کوئی سورت نازل ہو اور اُس میں صاف طور پر جہاد کاحکم اور لڑائی کا تذکرہ ہو تو اے پیغمبر (ﷺ ) جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے تم اُن کو دیکھو گے کہ وہ تمہاری طرف ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت کی بیہوشی طاری ہو رہی ہو، سو ان کے لیے خرابی ہے۔ رسول (ﷺ ) کی فرمانبرداری کرنی چاہیے اور سیدھی طرح پر جواب دینا چاہیے، جب لڑائی ٹھن جائے اور یہ لوگ اللہ سے سچے رہیں تو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے۔ (اے منافقو!) تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حکمران بن جاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور اپنے رشتوں ناطوں کو توڑ ڈالو۔(محمد:20تا22)

اور اس قسم کی آیتیں قرآن مجید میں بکثرت ہیں اور اسی طرح جہاد و قتال اور جہاد کرنے والے مجاہدوں کی عظمت و اہمیت سورہ الصف کے اندر وارد ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍo تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ ذَالِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ یُدْخِلْکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھَارٌ وَّ مَسَاکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَ اُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌ وَّ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (صف:13-10 )
اے پیغمبر (ﷺ )! مسلمانوں سے کہو: مسلمانو! کیا میں تم کو ایسی تجارت اور سوداگری بتاؤں جو تم کو آخرت کے دردناک عذاب سے بچائے؟ وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانیں لڑا دو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے بشرطیکہ تم کو سمجھ ہو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو جنت کے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں اور نیز عمدہ عمدہ مکانات میں کہ وہ مکانات ہمیشہ ہمیش رہنے والے باغوں میں ہوں گے، یہ بہت بڑی کامیابی ہے ایک اور نعمت بھی ہے جسے تم دل سے پسند کرتے ہو کہ اللہ کی طرف سے تم کو مدد ملے گی اور فتح اور اے پیغمبر (ﷺ)! مسلمانوں کو اس کی خوشخبری سنا دو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور ارشاد ہے :

اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ لاَ یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللہِ وَاللہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمِ الْظَالِمِیْنَ o اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَ جَاھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللہِ وَ اُوْلٰٓئِکَ ھُمْ الْفَائِزُوْنَo یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ بِرَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّھُمْ فِیْھَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌ خَالِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ (توبہ:22-19)
کیاتم لوگوں نے حاجیوں کے پانی پلانے اور ادب و حرمت والی مسجد خانہ کعبہ کو آباد رکھنے کو اس شخص جیسا سمجھ لیا جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لاتا ہے اور اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے، اللہ کے نزدیک تو یہ برابر نہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔ جو لوگ ایمان لائے اور اُنہوں نے ہجرت کی اور اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا یہ لوگ اللہ کے ہاں درجے میں کہیں بڑھ کر ہیں اور یہی ہیں جو منزلِ مقصود کو پہنچے والے ہیں۔ ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضا مندی اور ایسے باغوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کو دائمی آسائش ملے گی اور یہ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے بیشک اللہ کے ہاں بہت بڑ ا ثواب موجود ہے ۔

اور اللہ تعالی کاارشاد ہے:

مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَ ُیحِبُّوْنَہٗ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ذَالِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (مائدہ:54)
تم میں سے کوئی اپنے دین (اسلام) سے پھر جائے تو اللہ ایسے لوگوں کو لاموجود کرے گا جن کو وہ دوست رکھتا ہوگا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے مسلمانوں کے ساتھ نرم، کافروں کے ساتھ نہایت سخت، اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑادیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں رکھیں گے یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے دے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ لَا يُصِيْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَۃٌ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا يَطَــــُٔـــوْنَ مَوْطِئًا يَّغِيْظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ بِہٖ عَمَلٌ صَالِحٌ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ ۝۱۲۰ۙ وَلَا يُنْفِقُوْنَ نَفَقَۃً صَغِيْرَۃً وَّلَا كَبِيْرَۃً وَّلَا يَـقْطَعُوْنَ وَادِيًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ لِيَجْزِيَھُمُ اللہُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۝۱۲۱ (توبہ:120۔ 121)
یہ اس لیے کہ ان جہاد کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیاس، محنت اور بھوک کی تکلیف پہنچتی ہے یا ایسی جگہوں پر چلتے ہیں جہاں کافروں (اور منافقوں) کو غصہ آئے یا دشمنوں کی جاسوسی کی، تو ہر ہر کام کے بدلے ان کا نیک عمل لکھا جاتا ہے بیشک اللہ خلوصِ دل سے اِسلام کی خدمت کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ اور تھوڑا بہت جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جو (وادیاں اور) میدان ان کو عبور کرنے پڑتے ہیں یہ سب ان کے نام (اعمالِ صالحہ میں) لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کو ان کے اعمال کا بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے۔

پھر ان اعمالِ معاشرت سے جو اعمال پیدا ہوتے ہیں ان کا ذکر فرمایا اور جہاد کا حکم دیا۔ اور کتاب اللہ اور کتاب الرسول ﷺ میں بیشمار جگہوں پر جہاد کا ذکر ہے۔ او ریہ بھی ذکر ہے افضل تطوع اور بہترین نفل جہاد ہے اور اسی بناء پر علماء کا متفقہ فتویٰ ہے کہ جہاد! حج عمرہ اور نفل روزوں سے بھی افضل ہے جیسا کہ کتاب اللہ اور کتاب الرسول ﷺاس پر دلالت کرتی ہیں یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺکاارشاد ہے:

راس الامر الاسلام و عمودہ الصلوۃ و زروۃ سنامہ الجھاد
ہر معاملہ کی بنیاد اور اصل اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور اسلام کی بلندی جہاد ہے ۔

اور آپ ﷺکا ارشاد ہے :

ان فی الجنۃ لمأۃ درجۃ مابین الدرجۃ والدرجہ کما بین السماء والارض اعدھا اللہ للمجاہدین فی سبیلہ (متفق علیہ)
جنت میں سو درجے ہیں اور (ہر) دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ آسمان و زمین کے درمیان ہے اور یہ درجے اللہ تعالیٰ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار کر رکھے ہیں
اور رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے:

من اغبر قدماہ فی سبیل اللہ حرمہ علی النار (رواہ البخاری)
جس شخص کے قدم اللہ کی راہ میں گرد آلود ہوئے اس پر جہنم کی آگ حرام ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور آپ ﷺکاارشاد ہے :

رباط یوم و لیلۃ خیر من صیام شہر و قیامہ و ان مات اجری علیہ عملہ الذی کان یعملہ و اجری علیہ رزقہ و امن الفتان (رواہ مسلم)
ایک رات دن اللہ کی راہ میں گھوڑے باندھنا ایک ماہ کے روزوں اور ایک ماہ کی شب بیداری سے بہتر ہے؛ اگر وہ اس حالت میں فوت ہو گیا تو اُسے اس کے عمل کا اجر ملتا رہے گا اور اس کا رزق بھی جاری کر دیا جائے گا اور (قبر اور آخرت کے) فتنوں سے پناہ ملے گی۔
اور آپ ﷺکا ارشاد ہے :

النار عین بکت من خشیۃ اللہ و عین باتت تحرس فی سبیل اللہ
جو آنکھ اللہ کے خوف سے روئے اور جو آنکھ فی سبیل اللہ حراست (پہریداری) کرے اس کو دوزخ کی آگ کبھی نہ چھو سکے گی۔ (قال الترمذی حدیث حسن)۔

اور مسند احمد میں ہے:

حرس لیلۃ فی سبیل اللہ افضل من الف لیلۃ یقام لیلھا و یصام نھارھا
ایک رات اللہ کی راہ میں حراست کرنا (پہرہ دینا) ہزار راتوں کی شب بیداری اور ہزار روزوں سے بہتر ہے۔(رواہ احمد فی سندہ)۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آپﷺکا فرمانِ عالیشان ہے:

ان رجلا قال یارسول اللہ ﷺ اخبرنی بشیء یعدل الجھاد فی سبیل اللہ قال تستطیعہ قال اخبرنی قال ھل تستطیع اذا خرج المجاھد ان تصوم لا تفطر و تقوم لا تفتر قال لا قال فذالک الذی یعدل الجھاد (متفق علیہ)
کسی شخص نے رسول اللہ ﷺسے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺمجھے ایسا عمل بتلائیں جو جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہو۔ آپ ﷺنے فرمایا: تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس نے کہا بتلائیں تو سہی۔ آپ ﷺنے فرمایا کیا تم یہ طاقت رکھتے ہو کہ جب مجاہد جہاد کے لیے نکلے تو تم روزے رکھنا شروع کرو اور کسی بھی دن روزہ نہ چھوڑو اور رات کو تہجد پڑھو اور کبھی ناغہ نہ کرو؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا یہ عبادت جہاد کے برابر ہوسکتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور سنن میں ہے نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

ان لکل امت سیاحۃ و سیاحۃ امتی الجہاد فی سبیل اللہ
ہر اُمت کی سیرو سیاحت ہوتی ہے جبکہ میری اُمت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے
یہ بات بہت وسیع ہے؛ حقیقت ِ جہاد، اعمالِ جہاد اور اس کے اجرو ثواب اور فضیلت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ غورو فکر کیا جائے تو یہ ظاہر ہے کیونکہ جہاد کا نفع مجاہد اور دوسروں کے لیے دین و دنیا میں عام ہے اور ہمہ قسم کی عبادات و طاعاتِ ظاہرہ و باطنہ پر مشتمل ہے اس لیے کہ جہاد محبت الٰہی، اخلاص اور توکل علی اللہ پر مشتمل ہے۔ مجاہد اپنی جان و مال اللہ کے حوالے کر دیتا ہے؛ صبر و زہد، ذکر الٰہی اور ہمہ قسم کے اعمال اس کے اندر شامل ہیں۔ جہاد کے علاوہ دوسرا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جس میں یہ تمام اعمال شامل ہوں۔

جو شخص او رجو اُمت جہاد کرتی ہے وہ دو قسم کی نیکیوں سے ہمیشہ بہرہ ور ہوتی ہے ایک تو نصرتِ الٰہی، فتح و ظفر یا شہادت پاکر جنت حاصل کر لے اور دوسرا یہ کہ خلق اللہ کے لیے زندگی اور موت کامسئلہ بڑا اہم ہے۔ جہاد میں دین و دنیا کی سعادت ہے اور زندگی او رموت کا مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہوجاتا ہے۔ ترکِ جہاد سے دنیا و آخرت کی سعادت سے یکسر محروم ہوجاتا ہے یا ان میں نقصان پیدا ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ شدید قسم کی ریاضت کرتے ہیں، دین و دنیا کے لیے اعمالِ شاقہ برداشت کرتے ہیں، باوجود اس کے ان سے منفعت بہت کم حاصل ہوتی ہے جبکہ جہاد ایک ایسا عمل ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ نفع ہے اور اعمال شاقہ (انتہائی سخت عمل) سے کہیں زیادہ اس میں منفعت ہے۔ کبھی کبھی انسان اپنی ترقی اور اصلاح کے لیے ایسے اعمالِ شاقہ کر گذرتا ہے کہ موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن شہید کی موت ہمہ قسم کی اموات سے آسان اور سب سے بہتر ہے۔ {اللہ تعالیٰ ہم سب کو شہادت کی موت عطا فرمائے آمین} (ابوعبداللہ) ۔

حرب و قتال اور جنگ کا اصل مقصد مشروعِ جہاد ہے اور جہاد کا مقصودِ اصلی یہ ہے کہ دین کل کا کل اللہ کا ہوجائے اور کلمہ الٰہی بلند ہو۔ لہٰذا جوشخص اس جہاد سے روکے، اس سے منع کرے یا اس میں مزاحمت پیدا کرے تو تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے اسے قتل کر دیا جائے۔ جو لوگ منع نہیں کرتے اور مسلمانوں کے مقابلہ میں جنگ و قتال نہیں کرتے، جو کسی طرح جہاد میں مزاحم نہیں ہیں جیسے کہ عورتیں، بچے، راہب، شیخ کبیر، بوڑھے، اندھے، لولے، لنگڑے اور اپاہج وغیرہ تو جمہور {علمائ} کا یہ فتویٰ ہے کہ ایسے لوگوں کو قتل نہ کیاجائے؛ انہی لوگوں کو قتل کرنا واجب ہے جو قول و فعل سے مسلمانوں کے خلاف حرب و قتال اور جنگ کرتے ہیں۔ گو بعض {علمائ} سب کو قتل کرنا مباح کہتے ہیں او ریہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ کافر ہیں اس لیے قتل کر دیا جائے۔ ہاں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے روکتے ہیں کیونکہ یہ تو مسلمانوں کامال ہے۔ پہلا قول صحیح اور صواب ہے کیونکہ جہاد یہی ہے اور اسی کا نام ہے کہ جب ہم دین کی دعوت پیش کریں، دین کی اشاعت کریں، دین حق کو پھیلانا چاہیں تو وہ آگے سے ہم سے لڑیں ہم کو روکیں اور تبلیغ و اشاعت کی راہ میں مزاحمت کریں
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالیشان ہے:

وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَتَعْتَدُوْا اِنَّ اللہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْن (البقرہ:190)
اور مسلمانو ! جو لوگ تم سے لڑیں تم بھی اللہ کی راہ میں اُن سے لڑو اور زیادتی نہ کرنا؛ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اور سنن میں نبی اکرم ﷺسے مروی ہے کہ آپ ﷺنے ایک جگہ کچھ لوگوں کو جمع پایا اور ایک متقولہ عورت کو دیکھا؛ آپ ﷺنے اس وقت فرمایا:

ماکانت ھذہ لتقاتل یہ عورت تو کسی کو قتل نہیں کرتی تھی ۔

اور آپ ﷺنے ایک شخص سے کہا:

الحق خالدا فقل لہ لا تقتلوا ذریۃ ولا عسیغا

جاؤ جاکر خالد {بن ولید رضی اللہ عنہ } سے کہو کہ چھوٹی اولاد، محنت مزدوری کرنے والے ، بے ضرر غلاموں اور عورتوں کو قتل نہ کرو۔

اور اسی سنن میں ہے؛ آپ ﷺنے فرمایا:

لا تقتلوا شیخا فانیا ولا طفلا صغیرا ولا امرأۃ
شیخ فانی کو قتل نہ کرو، اور نہ چھوٹے بچوں کو قتل کرو نہ عورتوں کو۔

اور یہ اس لیے کہ قتال و جہاد مخلوق کی اصلاح اور فلاح و بہبود کے لیے مباح کیاگیا ہے۔ قتل کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ اس سے فلاح و بہبود متصور ہو جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
والفتنۃ اکبر من القتل اور فتنہ قتل سے بھی بہت بڑا شر ہے۔

یعنی قتل کرنا بھی شر اور فساد ہے۔ تو گویا کسی کو قتل کرنا بھی شر و فساد ہے مگر کفار کا شر و فساد اس سے بھی بڑھ کر ہے اور بہت بڑا فتنہ ہے۔ پس جو شخص دین کی اشاعت، دین کی اقامت سے منع نہیں کرتا؛ ان {مجاہدین} کی مزاحمت نہیں کرتا تو اس کا کفر اسی کے لیے مضر ہے نہ کہ مسلمانوں کے لیے۔ اسی لیے فقہاء نے کہا ہے کہ ایسی بدعات کی دعوت دینا اور اس کی نشرو اشاعت کرنا جو کتاب اللہ اور کتاب الرسول ﷺ کے خلاف ہے، سراسر دین کی توہین ہے اور دعوت دینے والے اور اس کی نشرو اشاعت کرنے والے کو عقوبت و سزا دی جائے، خاموش رہنے والے کو وہ عقوبت و سزا نہ دی جائے۔ حدیث شریف میں وارد ہے:

ان الخطیئۃ اذا اخفیت لم تضر الا صاحبہا ولکن اذا ظہرت فلم ضرت العامۃ
جب خفیہ طور پر گناہ کیاجائے تو گناہ کرنے والے ہی کو نقصان کرتا ہے لیکن جب کھلے طور پر {گناہ} کیاجائے اور اس سے روکا نہ جائے تو عام لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اسی لیے شریعت نے کفار سے قتال و جنگ واجب کیا ہے لیکن جو معذور اور بے بس ہیں ان سے قتال اور جنگ واجب نہیں کیا بلکہ اگر کوئی خفیہ طور پر قتال وغیرہ کا مشورہ دیتا ہے یا کشتی اور جہاز کی راہ بتلاتا ہے یا یہ کہ مسلمانوں کو غلط راستہ بتلاتا ہے یا اور کسی قسم کا کام کرتا ہے یا حیلہ بتلاتا ہے تو امام والی حاکم {گورنر اور حکمران} کا فرض ہے کہ اصلح طریقہ اختیار کرے اور سوچ سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسے اس کام سے دور رہنے کی ہدایت کرے یا قتل کر دے یا احسان کرکے چھوڑ دے یا فدیہ لے کر چھوڑ دے یاجان کی ضمانت لے کر اسے رہا کر دے۔ جو بہتر معلوم ہو وہ کرے۔ اکثر فقہاء کا یہی قول ہے اور کتاب و سنت بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں اگرچہ بعض فقہاء اس پر احسان کرنے اور فدیہ لے کر چھوڑ دینے کو منسوخ مانتے ہیں۔

رہا اہل کتاب اور مجوسیوں کا مسئلہ تو ان سے قتال و جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائیں یا جزیہ ادا کریں؛ ان کے سوا دوسرے لوگوں سے جزیہ لینے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے، مگر عام فقہاء عربوں سے جزیہ نہیں لیتے۔

جو طائفہ جو گروہ اس کی نسبت اسلام کی طرف ہوتی ہے اور مسلمان کہلاتے ہیں لیکن بعض شرائع {یعنی شرعی قوانین} سے وہ حذر {و احتراز} کرتے ہیں یا منع کرتے ہیں اور وہ شرائع {قوانین} ایسے ہیں جو ظاہر اور متواتر ہیں تو ان سے جہاد کرنا واجب ہے؛ اس پر تمام مسلمان متفق ہیں کہ ایسے لوگوں کے خلاف جہاد و قتال کرنا فرض ہے یہاں تک کہ اللہ کا دین کل کا کل پھیل جائے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کرام y نے ''زکوۃ '' نہ دینے والوں کے خلاف جہاد کیا۔ گو بعض صحابہ y نے ابتدا میں اس سے اختلاف کیا لیکن بعد میں وہ بھی اس سے متفق ہوگئے مثلاً امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

کیف تقاتل الناس و قد قال رسول اللہﷺامرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوا ان لا الہ الا اللہ و ان محمدا رسول اللہ فاذا قالوھا فقد عصموا منی دمائھم و اموالھم الا بحقھا و حسابھم علی اللہ
تم ان ـ{زکوٰۃ کے منکر} لوگوں سے جہاد وقتال کیسے کر سکتے ہو جبکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ اس وقت تک کروں کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ یہ شہادت دے دیں تو اپنی جان و مال بچا لیں گے مگر کسی حق کے ساتھ؛ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔

امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا:

فَاِنَّ الزَّکَاتَ مِنْ حَقِّھَا وَاللہِ لَوْ مَنَعُوْنِیْ عَنَاتًا کَانُوْا یُؤْدُّوْنَھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ نُقَاتِلْتُھُمْ عَلٰی مَنُعِھَا
زکوٰۃ اس کلمہ کا حق ہے، اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ اس کا وہ ٹکڑا بھی مجھے دینے سے انکار کریں گے جو وہ رسول اللہ ﷺکو دیا کرتے تھے تو میں ان سے قتال و جنگ کروں گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بعد میں کہا کرتے تھے: یقینا اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قتال و جنگ کے لیے شرح صدر فرما دیا تھا{یعنی سینہ کھول دیا تھا} اور اب میں اچھی طرح سمجھ چکا ہوں کہ یہ حق پر ہیں۔

اور نبی کریم ﷺسے مختلف بہت سے طریقوں سے مروی ہے کہ آ پ ﷺنے خوارج کے خلاف جہاد و جنگ کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ صحیحین میں امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؛ آپ ﷺفرماتے تھے:

سَیَخْرُجُ قَوْمٌ فِیْ اٰخِرِ الزَّمَانِ اَحْدَاثُ الْاَسْنَانِ۔ سُفَھَائُ الْاَحْلَامِ یَقُوْلُوْنَ مِنْ خَیْرِ قَوْلِ الْبَرِیَّۃِ لَا یُجَاوِزُ اِیْمَانُھُمْ حَنَاجِرَھُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّھْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ فَاَیْنَمَا لَقِیْتُمُوْھُمْ قَاتِلُوْھُمْ فَاِنَّ فِیْ قَتْلِھِمْ اَجْرًا لِمَنْ قَتَلَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
آخر زمانے میں ایک ایسی قوم پیدا ہو گی جو جوان ہوں گے اور بیوقوف ہوں گے، وہ خیر البریہ (اُمت کی خیرخواہی) کا قول پیش کریں گے لیکن ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین ان سے ایسے نکل جائے گا جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے، پس جہاں تم ان کو پاؤ قتل کر دو۔ ان کے قتل کرنے سے قیامت کے دن تمہیں اجر و ثواب ملے گا۔

اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ہے، آپ ﷺفرماتے تھے:

یَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ اُمَّتِیْ یَقْرَؤُنَ الْقُرْاٰنَ لَیْسَ قِرَائَ تُکُمْ اِلٰی قِرَاٰتِھِمْ بِشَیئٍ وَلَا صِیَامکُمْ اِلٰی صِیَامِھِمْ بِشَیْئٍ یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْاٰنَ یَحْسَبُوْنَہٗ اَنَّہٗ لَھُمْ وَھُوَ عَلَیْھِمْ لَا تُجَاوِزُ قِرْائَ تُھُمْ تَرَا فِیْھِمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الْاِسْلَامِ کَمَا یَمْرِقُ مِنَ الرَّمِیَۃِ
میری اُمت میں سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو قرآن پڑھتی رہے گی لیکن ان کی قرأت کے مقابلہ میں تمہاری قرأت کی کوئی چیز نہیں اور نہ ان کی نماز کے مقابلہ میں تمہاری نماز کی کوئی حیثیت ہے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تمہارے روزں کوئی حیثیت نہیں، قرآن پڑھیں گے اور خیال کریں گے قرآن ان کے لیے دلیل ہے حالانکہ قرآن ان کے خلاف ہو گا، ان کی قرأت ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گی۔ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے۔
 
Top