• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب:18۔سزا کی دو قسمیں ہیں۔ ۔ السیاسۃ الشرعیۃ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
رعایا کے ساتھ نیک نیتی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان کیساتھ وہ احسان کیاجائے جو ان کی خواہش ہو اور وہ چھوڑ دیا جائے جس کو وہ مکروہ سمجھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَھْوَائَ ھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ
اور اگر حق ان کی خواہش کے مطابق ہوا کرتا تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے درہم برہم ہوگیا ہوتا۔ (مومنون:71)

اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ خطاب کرتا ہے:

وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللہِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ
اور جان رکھو کہ تم میں رسول اللہ (ﷺ ) موجود ہیں؛ بہت سی باتیں (ایسی) ہیں کہ اگر وہ ان میں تمہارا کہنا مان لیا کریں تو تم ہی پر مشکل پڑ جائے۔ (الحجرات:7)

احسان یہ ہے کہ دین و دنیا میں جو ان کے لیے مفید ہو وہ کیاجائے اگرچہ وہ اسے مکروہ اور برا ہی کیوں نہ سمجھیں ، لیکن امیر و والی {یعنی حاکمِ وقت} کا فرض ہے کہ جسے وہ مکروہ سمجھتے ہوں اور ان کے لیے مفید ہے تو رفق و نرمی کا سلوک کرکے ان کو منوائے جیسا کہ صحیحین میں نبی اکرم ﷺسے مروی ہے آپ ﷺنے فرمایا:

ماکان الرفق فی شیء الا زانہ ولا کان العنف فی شیء الا شانہ
جب کسی چیز میں نرمی و آسانی کی جائے تو وہ خیر وبرکت لاتی ہے ، اور جب کسی چیز میں سختی کی جائے تو وہ برائی لاتی ہے۔

اور آپ ﷺنے فرمایا:

ان اللہ رفیق یحب الرفق و یعطی علی الرفق مال ایعطی علی العنف
بیشک اللہ تعالیٰ بُردبار ہے، بُردباری اور نرمی پسند فرماتا ہے ، اور بُردباری و نرمی کرنے والے کو وہ کچھ دیتا ہے جو ترش رو {اکھڑ مزاج} کو نہیں دیتا۔

اور سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

'' میں ارادہ کرتا ہوں کہ ان کو ایک مرتبہ حق نکال دوں، لیکن میں ڈرتا ہوں کہ وہ اس سے نفرت کریں گے تو میں صبر کر جاتا ہوں یہاں تک کہ میٹھی دنیا میرے پاس آجائے تو میں ان کو ساتھ ہی ساتھ ان کا حق دے دوں اگر اس سے نفرت کریں تو دوسری چیز سے ان کو سکون و اطمینان حاصل ہوجائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
یہی حال رسول اللہ ﷺکاتھا کہ جب کوئی شخص حاجت لے کر آتا تو اس کی حاجت پوری فرما دیتے، یا آسان، خوش کن جواب دے دیتے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺکے قرابتدار نے متولی اوقاف بننے کی خواہش کی اور کہا اس میں کچھ روزینہ مقرر کر دیا جائے تو آپ ﷺنے فرمایا:

ان الصدقۃ لا تحل لمحمد ولا لال محمد
صدقہ محمد (ﷺ) اور ان کی آل کے لیے حلال نہیں ہے۔

اور آپ ﷺنے صدقہ سے بالکل منع فرما دیا اور فئے کے مال میں سے کچھ دے دیا۔


ایک مرتبہ سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کی لڑکی کی پرورش کے لیے تین دعویدار کھڑے ہوگئے، سیدنا علی، سیدنا زید اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہم۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنا رشتہ بتا کر کہا کہ حقِ پرورش مجھے پہنچتا ہے۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے اپنا رشتہ بتا کر کہا کہ حقِ پرورش مجھے پہنچتا ہے اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنا رشتہ بتا کر کہا کہ حقِ پرورش مجھے حاصل ہے لیکن آپ ﷺنے کسی کے حق میں بھی فیصلہ نہیں دیا اور لڑکی کی خالہ کو دے دیا کہ خالہ بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے اور ہر ایک کو کلمہء حسنہ (اچھی باتوں) سے خوش کر دیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

انت منی و انا منک تم مجھ سے ہو او رمیں تم سے ہوں۔

سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ سے کہا :

اشبھت خلقی و خلقی تم میرے خلق {شکل و شباہت} اور اخلاق کے مشابہ ہو۔

اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے کہا:

انت اخونا و مولینا تم ہمارے بھائی ہو ہمارے مولیٰ (معزز) ہو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ولی الامر {وزیر خزانہ} اور حاکمِ {وقت} کو تقسیمِ مال اور دوسرے احکام دینے میں ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ لوگ ہمیشہ ولی الامر اور حاکم سے ایسی ایسی چیزیں مانگتے رہتے ہیں جو ان کو نہیں دی جا سکتیں مثلاً ولایت {افسری} و حکومت {یعنی گورنری}، مال یا منافع مال اور حدود وغیرہ میں سفارش وغیرہ پورا کرنا۔ اور یہ سوال ان کا پورا نہیں کیا جاسکتا تو ان کو دوسرے طریقہ سے دوسری چیز دے کر خوش رکھنا چاہیے اور غفلت و سختی نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ اس کی ضرورت نہ ہو کیونکہ سائل کے سوال کو مسترد کرنا، اُسے سخت تکلیف دہ ہوتا ہے خصوصاً ایسے لوگ کہ جن کی تألیف ِقلوب ضروری ہو۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ اَمَّا السَّائِلَ فَلاَ تَنْھَر اور نہ سائل کو جھڑکا کرو۔ (ضحی:10)

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاٰتِ ذَاالْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًاo الی قولہ وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمُ ابْتِغَآئَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْھَا فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلاً مَیْسُوْرًا(بنی اسرائیل:28-26)۔
اور رشتہ دار اور غریب اور مسافر ہر ایک کو اس کا حق پہنچاتے رہو اور مال و دولت بے جا مت اڑاؤ ...... اور اگر تمہیں اپنے رب کے فضل کے انتظار میں جس کی تم کو توقع ہو، ان غرباء سے منہ پھیرنا پڑے تو نرمی سے اُن کو سمجھا دو۔

تو جب کسی شخص کو اس کی طلب و مانگ کے خلاف دیا جاتاہے تو اُسے تکلیف ہوتی ہے، ایسے موقع پر قول و عمل سے اُسے خوش رکھنا کامل ترین سیاست ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ حکیم و ڈاکٹر کسی کو مکروہ اور کڑوی دوائی دیدے اور پھر اُسے ایسی چیز دے جو اس کا نعم البدل ہو جائے۔

جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو اُن کو کہا گیا:

فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی (طہ:44)
پھر اس سے نرمی سے بات کرو شاید وہ سمجھ جائے یا ہمارے عتاب سے ڈرے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور رسول اللہ ﷺنے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوموسیٰ اشعری کو یمن کی طرف بھیجا تھا۔ فرمایا:

یَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا وَ بَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا
لوگوں کے ساتھ آسانی برتنا، سختی نہ کرنا، خوش رکھنا، متنفر نہ کرنا، باہم ایک دوسرے کی اطاعت کرنا، اختلاف نہ کرنا۔ (بخاری و مسلم)۔
ایک مرتبہ ایک اعرابی نے مسجد کے اندر پیشاب کر دیا، صحابہ کرام y کھڑے ہو گئے اور اُسے ڈانٹنے لگے، آپ ﷺنے فرمایا:

لَا تَزْرِ مُوْھُ عَلَیْہِ بَوْلَہٗ (بخاری و مسلم)
اس کا پیشاب بند نہ کرو۔
اس کے بعد آپ ﷺنے پانی کا ڈول منگوا کر پیشاب پر بہا دیا۔ اور پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا:

اِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُّیَسِّرِیْنَ وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَثِّرِیْنَ (بخاری و مسلم)
اللہ نے تمہیں آسانی دے کر بھیجا ہے، سختی کرنے کو نہیں بھیجا۔

اس سیاست کی ضرورت انسان کو اپنے لئے، اپنے گھر کے لیے اور ولی الامر/حکمران کو رعایا کی نگہداشت کے لیے ضروری ہے، کیونکہ نفس انسانی کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ حق بات جلدی قبول نہیں کرتا جب تک کہ اس کو محظوظ اور خوش کن اور ضروری چیزوں سے خوش نہ کیا جائے اور اس کی احتیاج و ضرورت پوری نہ کی جائیں۔ تو ان کے ساتھ حسن سلوک اور بھلی باتیں کرنا بھی عبادت الٰہی میں داخل ہے، اور یہ اُمور بھی طاعت ِالٰہی ہے، بشرطیکہ نیت نیک ہو۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ کھانا پینا، لباس اور کپڑے انسان کے لیے واجب ہیں، اور عام علماء کرام کا اس پر فتویٰ ہے، اگر اس نے حالت اضطراری میں نہیں کھایا اور وہ مر گیا تو دوزخی ہو گا کیونکہ عام عبادتیں اس کے بغیر ادا نہیں ہوتیں۔ اور جس چیز کے بغیر واجب انجام نہ پائے اس کا کرنا واجب ہوتا ہے۔ اور اسی لیے انسان پر اپنی جان اپنے اہل و عیال کا نفقہ دوسروں کے مقابلہ میں پہلے ہے جیسا کہ سنن کے اندر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ ﷺنے فرمایا:

تَصَدَّقُوْا صدقہ دیا کرو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ایک شخص نے کہا، اے اللہ کے رسول ﷺعمیرے پاس ایک دینار ہے، آپ ﷺنے فرمایا:

تَصَدَّقْ عَلٰی نَفْسِکَ اپنی جان پر خرچ کرو۔
اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
تَصَدَّقْ بِہٖ عَلٰی زَوْجَتِکَ اسے اپنی بیوی پر خرچ کرو۔
اس نے کہا میرے پاس تیسرا دینار بھی ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
تَصَدَّقْ بِہٖ عَلٰی وَلَدِکَ اسے اپنے لڑکے پر خرچ کرو۔
اس نے کہا چوتھا دینار بھی میرے پاس ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:
تَصَدَّقْ عَلٰی خَادِمِکَ اپنے خادم پر اسے خرچ کرو۔
اس نے کہا پانچواں دینار بھی میرے پاس ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
اَنْتَ اَبْصَرُ بِہٖ تم اُسے خوب جانتے ہو کہ کہاں خرچ کرنا چاہیے۔
اور صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

دِیْنَارٌ اَنْفَقْتَہٗ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَ دِیْنَارًا اَنْفَقْتَہٗ فِیْ رَقَبَۃٍ وَ دِیْنَارًا تَصَدَّقَتَ بِہٖ عَلٰی مِسْکِیْنٍ وَ دِیْنَارًا اَنْفَقْتَہٗ عَلٰی اَھْلِکَ اَعْظَمُھَا اَجْرًا اَلَّذِیْ اَنْفَقْتَہُ عَلٰی اَھْلِکَ
ایک دینار تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اور ایک دینار غلام آزاد کرنے میں خرچ کرو، ایک دینار تم مسکین کو دو، ایک دینار اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو، سب سے بڑا اجر اس میں ہے، جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔ (رواہ مسلم)

اور صحیح مسلم میں ابی امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

اِبْنَ اٰدَمَ اِنَّکَ تُبْذِلُ الْفَضْلَ خَیْرٌ وَاِنْ تُمْسِکَ شَرٌّ لَکَ وَلَا تُلَامُ عَلٰی کَفَافٍ۔ وَ ابْدَاْ بِمَنْ تَعُوْلُ وَالْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِّنَ الْیَدِ السُفْلٰی

اے ابن آدم فاضل مال کو خرچ کرنا تمہارے لیے بہتر ہے روکے رکھنے سے، اور جو ضرورت کے لئے پورا ہو، اس پر ملامت نہیں کی جائیگی، جن کی عیالداری کر رہے ہو، اس کے لیے خرچ کرو، اور اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور یہی تاویل و تفسیر اللہ تعالیٰ کے اس قول کی ہے:
وَیَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ (بقرۃ:219)
اور تم سے دریافت کرتے ہیں کتنا خرچ کریں تو سمجھا دو جو تمہاری حاجت سے زیادہ ہو۔
عفو کے معنی فضل کے ہیں کہ مال فاضل ہو، اس لیے کہ اپنی جان، اور اپنے اہل و عیال کا نفقہ فرضِ عین ہے، بخلاف جہاد فی سبیل اللہ اور غزوات میں خرچ کرنا، اور مساکین کو دینا، یہ فرض کفایہ ہے، یا مستحب، البتہ کبھی کبھی فرض عین بھی ہو جاتا ہے۔ اور یہ اس وقت جبکہ کوئی دوسرا دینے والا نہ ہو، کیونکہ بھوکے کو کھانا کھلانا فرض عین ہے، اور اسی بناء پر حدیث میں وارد ہے:

لَوْ صَدَقَ السَّائِلُ لَمَا اَفْلَحَ مَنْ رَدَّہٗ (مسند احمد)
اگر سائل سچا ہے تو اُسے ردّ کرنے والا فلاح کو نہیں پہنچے گا۔

ابو حاتم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندر ایک طویل حدیث روایت کی ہے جس میں علم و حکمت کی بہت سی باتیں ہیں۔ آل داوٗد علیہ السلام کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ عقلمند پر یہ حق ہے کہ اپنے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کر دے۔ ایک گھڑی اپنے رب کے حضور میں مناجات، دعاء کرے، اور ذکر و فکر میں صرف کرے۔ ایک گھڑی اپنے نفس اپنی جان کا محاسبہ کرے، ایک گھڑی دوست و احباب سے مل بیٹھے جو اس کو اس کے عیوب سے باخبر کریں، اور ایک گھڑی حلال و جمیل لذتوں سے بہرہ ور ہو کیونکہ اس گھڑی سے دوسری گھڑیوں کو مدد ملا کرتی ہے۔

اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ مباح اور اچھی جائز لذتوں میں وقت خرچ کرنا بھی ضروری ہے، اس سے دوسری ساعتوں کو تقویت پہنچتی ہے، اور اسی لیے فقہاء نے کہا ہے: دین و مروت کی اصلاح و بہبود ہی عدالت ہے۔

سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے:

''میں کبھی کبھی باطل سے بھی جان کو خوش کر لیا کرتا ہوں تاکہ حق کے لیے مجھے مدد ملے''۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے لذتیں، شہوتیں اسی لیے پیدا کی ہیں کہ مخلوق کی مصلحتیں ان سے پوری ہوتی ہیں، اور اس سے اپنے فوائد و منافع حاصل کر لیا کرتے ہیں۔ مثلاً غضب و غصہ کو اس لیے پیدا کیا کہ اس کے ذریعہ ضرر رساں اور تکلیف دہ چیزوں کی مدافعت ہو سکے اور شہوتیں وہی حرام کی ہیں جو ہمارے لیے مضرت رساں ہیں۔ لیکن وہ مباح اور جائز شہوات جن کے ذریعہ حق پر چلنے کی استطاعت ملتی ہو، تو ایسی شہوات اعمال صالحہ نیک کام ہوں گے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اسی لیے حدیث میں وارد ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا:
وَفِیْ بُضْعِ اَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ
(اپنی) بیوی سے خلوت کرنا بھی صدقہ ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ کیا اپنی شہوت پوری کی جائے، اس میں بھی اجر و ثواب ہے؟ آپﷺنے فرمایا:
اَرَاَیْتُمْ لَوْ وَضَعَھَا فِیْ حَرَامٍ اَمَا کَانَ عَلَیْہِ وَزْرٌ
اگر وہ حرام میں خرچ کرتا تو اس پر گناہ نہ ہوتا؟
صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ہاں کیوں نہیں، آپ ﷺنے فرمایا:
فَلِمَ تَحْسَبُوْنَ بِالْحَرَامِ وَلَا تَحْسَبُوْنَ بِالْحِلَالِ
حرام کا تو حساب لگاتے ہو، اور حلال کا حساب نہیں لگاتے؟

اور صحیحین میں سیدنا سعید بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایا:

اِنَّکَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَۃً تَبْتَغِیْ بِھَا وَجْہَ اللہِ اِلَّا اُزْدَدَتَّ بِھَا دَرَجَۃً وَ رَفْعَۃً حَتَّی اَللُّقْمَۃَ تَضَعُھَا فِیْ فَمِ اِمْرَأَتِکَ
تم اللہ کی رضامندی میں خرچ کرتے ہو اس سے تمہارا درجہ بڑھتا ہے۔ رفعت و بلندی حاصل ہوتی ہے۔ یہانتک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ رکھ دو تو یہ بھی کارِ ثواب ہے۔

اور اس بارے میں آثار بیشمار ہیں، اگر مومن نیت صالح رکھ کر اپنے اعمال و افعال انجام دے تو ہر وقت ہر کام سے بڑے سے بڑا اجر و ثواب حاصل کر سکتا ہے، اور صالح اعمال و افعال جو مباح ہیں ان کے قلوب کی صلاح کر سکتے ہیں۔ اور منافق کے لیے فسادِ قلب، فسادِ نیت کا موجب ہوتے ہیں، اور اس کو عقاب سزا اس کے اعمال و افعال ہی سے ملتی ہے، اس کی عبادتیں ریاکارانہ ہوتی ہیں جو بجائے فائدہ کے اس کو نقصان پہنچتاتی ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے آپ ﷺنے فرمایا:

اَلَا فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلُحَتْ صَلْحٰی لَھَا سَائِرُ الْجَسَدِ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ لَھَا سَائِرُ الْجَسَدِ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ
آگاہ رہو جسم میں ایک لوتھڑا ایسا ہے اگر وہ اچھا ہو تو سارا جسم اچھا ہوتا ہے، جب وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، آگاہ رہو کہ وہ قلب (دل) ہے۔
 
Top