محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
رعایا کے ساتھ نیک نیتی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان کیساتھ وہ احسان کیاجائے جو ان کی خواہش ہو اور وہ چھوڑ دیا جائے جس کو وہ مکروہ سمجھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَھْوَائَ ھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ
اور اگر حق ان کی خواہش کے مطابق ہوا کرتا تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے درہم برہم ہوگیا ہوتا۔ (مومنون:71)
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ خطاب کرتا ہے:
وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللہِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ
اور جان رکھو کہ تم میں رسول اللہ (ﷺ ) موجود ہیں؛ بہت سی باتیں (ایسی) ہیں کہ اگر وہ ان میں تمہارا کہنا مان لیا کریں تو تم ہی پر مشکل پڑ جائے۔ (الحجرات:7)
احسان یہ ہے کہ دین و دنیا میں جو ان کے لیے مفید ہو وہ کیاجائے اگرچہ وہ اسے مکروہ اور برا ہی کیوں نہ سمجھیں ، لیکن امیر و والی {یعنی حاکمِ وقت} کا فرض ہے کہ جسے وہ مکروہ سمجھتے ہوں اور ان کے لیے مفید ہے تو رفق و نرمی کا سلوک کرکے ان کو منوائے جیسا کہ صحیحین میں نبی اکرم ﷺسے مروی ہے آپ ﷺنے فرمایا:
ماکان الرفق فی شیء الا زانہ ولا کان العنف فی شیء الا شانہ
جب کسی چیز میں نرمی و آسانی کی جائے تو وہ خیر وبرکت لاتی ہے ، اور جب کسی چیز میں سختی کی جائے تو وہ برائی لاتی ہے۔
اور آپ ﷺنے فرمایا:
ان اللہ رفیق یحب الرفق و یعطی علی الرفق مال ایعطی علی العنف
بیشک اللہ تعالیٰ بُردبار ہے، بُردباری اور نرمی پسند فرماتا ہے ، اور بُردباری و نرمی کرنے والے کو وہ کچھ دیتا ہے جو ترش رو {اکھڑ مزاج} کو نہیں دیتا۔
اور سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' میں ارادہ کرتا ہوں کہ ان کو ایک مرتبہ حق نکال دوں، لیکن میں ڈرتا ہوں کہ وہ اس سے نفرت کریں گے تو میں صبر کر جاتا ہوں یہاں تک کہ میٹھی دنیا میرے پاس آجائے تو میں ان کو ساتھ ہی ساتھ ان کا حق دے دوں اگر اس سے نفرت کریں تو دوسری چیز سے ان کو سکون و اطمینان حاصل ہوجائے۔
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَھْوَائَ ھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ
اور اگر حق ان کی خواہش کے مطابق ہوا کرتا تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے درہم برہم ہوگیا ہوتا۔ (مومنون:71)
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ خطاب کرتا ہے:
وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللہِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ
اور جان رکھو کہ تم میں رسول اللہ (ﷺ ) موجود ہیں؛ بہت سی باتیں (ایسی) ہیں کہ اگر وہ ان میں تمہارا کہنا مان لیا کریں تو تم ہی پر مشکل پڑ جائے۔ (الحجرات:7)
احسان یہ ہے کہ دین و دنیا میں جو ان کے لیے مفید ہو وہ کیاجائے اگرچہ وہ اسے مکروہ اور برا ہی کیوں نہ سمجھیں ، لیکن امیر و والی {یعنی حاکمِ وقت} کا فرض ہے کہ جسے وہ مکروہ سمجھتے ہوں اور ان کے لیے مفید ہے تو رفق و نرمی کا سلوک کرکے ان کو منوائے جیسا کہ صحیحین میں نبی اکرم ﷺسے مروی ہے آپ ﷺنے فرمایا:
ماکان الرفق فی شیء الا زانہ ولا کان العنف فی شیء الا شانہ
جب کسی چیز میں نرمی و آسانی کی جائے تو وہ خیر وبرکت لاتی ہے ، اور جب کسی چیز میں سختی کی جائے تو وہ برائی لاتی ہے۔
اور آپ ﷺنے فرمایا:
ان اللہ رفیق یحب الرفق و یعطی علی الرفق مال ایعطی علی العنف
بیشک اللہ تعالیٰ بُردبار ہے، بُردباری اور نرمی پسند فرماتا ہے ، اور بُردباری و نرمی کرنے والے کو وہ کچھ دیتا ہے جو ترش رو {اکھڑ مزاج} کو نہیں دیتا۔
اور سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' میں ارادہ کرتا ہوں کہ ان کو ایک مرتبہ حق نکال دوں، لیکن میں ڈرتا ہوں کہ وہ اس سے نفرت کریں گے تو میں صبر کر جاتا ہوں یہاں تک کہ میٹھی دنیا میرے پاس آجائے تو میں ان کو ساتھ ہی ساتھ ان کا حق دے دوں اگر اس سے نفرت کریں تو دوسری چیز سے ان کو سکون و اطمینان حاصل ہوجائے۔