• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب:19۔ سزائیں اس لئے ہیں کہ فرائض وغیرہ پر عمل کرایا جائے۔ السیاسۃ الشرعیۃ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب:19۔ سزائیں اس لئے ہیں کہ فرائض وغیرہ پر عمل کرایا جائے
عقوبتیں، سزائیں اس لیے مشروع کی گئی ہیں کہ فرائض و واجبات پر عمل کرایا جائے، اور حرام اُمور سے بچا جائے، اس لیے ایسی چیزیں پیش کرنی چاہیے جو خیر و طاعات کی طرف رغبت دلائے، اور ایسی چیزوں سے روکا جائے جو برائی اور شر کی رغبت دلائے۔

عقوبتیں اور سزائیں واجبات پر عمل کرنے اور محرمات سے بچنے کے لیے ہیں، اور اس لیے ہر وہ چیز مشروع ہے جو اس کے لیے معین و مددگار ثابت ہو۔ اور ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے طریق خیر و طاعات اور اس کی ترغیب و تحریص ہو، اور خیر و طاعت میں معین و مددگار ثابت ہو، اور ہر ممکن طریقہ سے اس کی طرف توجہ دلائی جائے، مثلاً لڑکوں پر، اہل و عیال پر اور اگر امیر و والی {افسر یا حاکم} ہو تو رعایا پر صرف کیا جائے۔ اور ایسے طریقہ سے صرف کیا جائے کہ ان کے جذبات برانگیختہ ہوں، مال پیسوں سے ہو یا تعریف و ستائش سے یا کسی اور طریقہ سے۔ اور اسی لیے شریعت نے مسابقت بالخیل یعنی گھڑ دوڑ اور اونٹ دوڑانے میں بازی لے جانا، نیزہ وغیرہ چلانے میں قوت خرچ کرنا مشروع فرمایا ہے۔ خود رسول اللہ ﷺاور آپ کے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم گھڑ دوڑ کی مسابقت میں شرکت کیا کرتے تھے، اور بیت المال کے گھوڑے اس مسابقت میں لاتے تھے، اور یہی کیفیت مؤلفۃ القلوب کی ہے، مؤلفۃ القلوب کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے ''ایک آدمی شروع میں یعنی صبح کو اسلام اس لیے قبول کرتا ہے کہ اسے دنیا مطلوب ہوتی تھی، لیکن آخر دن یعنی شام کو وہ اس قدر پختہ اسلام ہوتا ہے کہ ہر چیز اور ہر آدمی سے اسے اسلام زیادہ محبوب ہوتا ہے، اور سب سے زیادہ اس کا اسلام پسندیدہ ہوتا ہے''۔

یہی حال شر و معصیت کا ہے، شر اور معصیت کا جو اصل مادہ ہے اسے جڑ اور بنیاد سے اکھاڑ دینا چاہیے۔ گناہ کے ذرائع و وسائل کا سدباب کر دینا چاہیے۔ جو چیزیں بھی شر و معصیت کی طرف منفی ہوں، پوری قوت سے ان کی مدافعت کرنی چاہیئے جب تک کہ کوئی ایسی مصلحت راجحہ اس کے خلاف نہ ہو کہ جس کی وجہ سے خاموشی اختیار کی جائے۔
اس کی مثال خود رسول اللہ ﷺکے فرمان سے ملتی ہے، آپ ﷺنے فرمایا:

لَایَخْلُوَنَّ الرَّجُلُ بِاِمْرَاَۃٍ فَاِنَّ ثَالِثَھَا الشَّیْطَانُ
کوئی غیر مرد کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے، کیونکہ تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔

اور آپ ﷺکا ارشاد ہے:

لَا یَحِلُّ لِاَمْرَاَۃٍ تُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ تُسَافِرَ مَسِیْرَۃَ یَوْمَیْنِ اِلَّا مَعَھَا زَوْجٌ اَوْ ذُوْ مَحْرَمٍ
جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے، اس کے لیے جائز نہیں کہ دو روز کا سفر بھی بغیر شوہر یا بغیر ذی محرم کے کرے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
نبی کریم ﷺنے اجنبی عورت کے ملنے، اور تنہا سفر کرنے سے اسی لیے روکا اور منع فرمایا کہ شر و معصیت کا سدباب ہو جائے اور شر و معصیت کے مادہ کی جڑیں کاٹ دی جائیں۔

امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے، جب عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، تو اس میں ایک حسین و خوبصورت لڑکا بھی تھا۔ آپ نے اُسے دیکھا اور اپنی پشت کے پیچھے بیٹھنے کا اُسے حکم دیا۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا: جناب داوٗد علیہ السلام کی خطا اور گناہ یہی نظر و نگاہ تھی۔

جب امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سنا کہ ایک عورت چند اشعار پڑھ رہی ہے، اور ان اشعار میں یہ شعر بھی تھا:

ھَلْ مِنْ سَبِیْلٍ اِلٰی خَمْرٍ فَاَشْرَبَھَا؟
ھَلْ مِنْ سَبِیْلٍ اِلٰی نَصْرِ بْنِ حَجَّاجِ؟​
یعنی: کیا شراب مجھے کسی راستے سے مل سکتی ہے؟ کیا کوئی راہ نصر بن حجاج سے ملنے کی ہے؟

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسی وقت نصر بن حجاج کو بلایا، دیکھا وہ جوان نہایت حسین و خوبصورت ہے۔ آپ نے اس کا سر منڈوا دیا، لیکن اس سے اس کی خوبصورتی اور حسن زیادہ ابھر آیا تو آپ نے اُسے بصرہ جلاوطن کر دیا تاکہ مدینہ کی عورتیں فتنے میں نہ پڑ جائیں۔

امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ کسی شخص کے متعلق آپ کو معلوم ہوا کہ اس کے پاس بہت سے لڑکے بیٹھا کرتے ہیں، آپ نے لڑکوں کو اس کے پاس بیٹھنے سے منع فرمایا اور کہہ دیا کہ اس کے پاس مت بیٹھا کرو۔

امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایسے آدمی کی مجالس اور ہم نشینی سے بھی منع کر دیا جس سے فتنے کا اندیشہ ہو اور مردوں یا عورتوں کے لیے فتنہ کا سبب ہوں۔ ایسے لڑکوں کے والیوں کا فرض ہے کہ وہ بِلا ضرورت انہیں گھر سے باہر نہ نکلنے دیں۔ بن سنور کر نکلنے اور خوشبو لگانے سے روکیں۔ حمام وغیرہ میں نہ جانے دیں۔ اگر جائے تو کپڑے وغیرہ نہ اتارنے دیں۔ لہو و لعب {کھیل تماشے}، گانے بجانے کی مجلسوں میں نہ جانے دیں۔ ایسے اُمور میں تعزیر کی ضرورت ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اسی طرح جس آدمی کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ فسق و فجور میں مشہور ہے، اُسے خوبصورت غلام کا مالک بننے سے روکا جائے۔ اور غلاموں میں اور اس میں تفریق کروا دی جائے کیونکہ تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ اگر ایسا آدمی شہادت دے جو مشہور قسم کے فسق میں مبتلا ہے، تو اس کی شہادت مقبول نہیں ہے۔ اور فریق ثانی کو حق پہنچتا ہے کہ اس کی شہادت پر جرح کرے، اگرچہ اس نے دیکھا نہ ہو۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺکے سامنے سے ایک جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی بہت تعریف کی۔ آپ ﷺنے فرمایا: وَجَبَتْ! واجب ہو گئی۔

اس کے بعد دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے کہا یہ بہت ہی بُرا آدمی تھا، تو آپ ﷺنے فرمایا: وَجَبَتْ! واجب ہو گئی۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺدونوں کے متعلق آپ نے یہی فرمایا کہ ''وَجَبَتْ'' کیا وجہ ہے اور کیا واجب ہوا؟ آپ ﷺنے فرمایا:

ھٰذِہِ الْجَنَازَۃُ اَثْنَیْتُمْ عَلَیْھَا خَیْرًا فَقُلْتُ وَجَبَتْ لَھَا الْجَنَّۃُ وَ ھٰذِہِ الْجَنَازَۃُ اَثْنَیْتُمْ عَلَیْھَا شَرًّا فَقُلْتُ وَجَبَتْ لَھَا النَّارُ اَنْتُمْ شُھَدَاء اللہِ فِی الْاَرْضِ
پہلے جنازہ کی تم نے تعریف کی تو میں نے کہا: اس کے لیے جنت واجب ہو گئی اور دوسرے جنازہ کی تم نے مذمت اور برائی کی تو میں نے کہا: اس کے لیے دوزخ واجب ہو گئی۔ کیونکہ تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔

آپ ﷺکے زمانہ میں ایک عورت ایسی تھی جو اعلانیہ فسق و فجور کیا کرتی تھی۔ اس کے متعلق آپ ﷺفرمایا کرتے تھے:

لَوْ کُنْتُ رَاجِمًا اَحَدًا بِغَیْرِ بَیِّنَۃٍ لَرَجَمْتُ ھٰذِہٖ
اگر گواہوں کے بغیر میں کسی کو رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کرتا۔

کیونکہ حدود گواہوں کے بغیر یا اقرار کے بغیر نافذ نہیں ہو سکتیں، لیکن ایسے آدمی کی شہادت اور امانت وغیرہ میں معائنہ وغیرہ کی ضرورت نہیں، بلکہ اس کے لیے عام شہرت کافی ہے، اگر مشہور نہ ہو، کم درجہ کی شہرت ہو تو اس کے دوستوں کو دیکھ کر دلیل لا سکتے ہیں، جیسا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

اِعْتَبِرُوا النَّاسَ بِاَخْدَانِھِمْ
لوگوں کا اعتبار اس کے دوستوں کے لحاظ سے کرو۔

دیکھا جائے کہ اس کے دوست کس قسم کے ہیں؟ اور یہ مدافعت شر ہے، اس سے اجتناب و احتراز لازم ہے جیسے دشمن سے اجتناب و احتراز لازم ہے۔ جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

اِحْتَرِ سُوا النَّاسَ بِسُوْء الظَّنِّ
لوگوں کے سوء ظن سے بھی بچا کرو۔
یہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا حکم ہے حالانکہ سوء ظن کی بنا پر عقوبت و سزا جائز نہیں ہے۔
 
Top