• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب:20۔ بلاسبب کسی کو قتل کرنا۔ قصاص میں زندگی۔ ۔ السیاسۃ الشرعیۃ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب:20۔ بلاسبب کسی کو قتل کرنا۔ قصاص میں زندگی
حدود و حقوق، بلا وجہ، بلاسبب کسی کو قتل کرنا، کسی کی جان لینا، قیامت کے دن خون ناحق کا فیصلہ سب سے پہلے ہو گا۔ قصاص لینے میں زندگی ہے۔
کسی متعین اور مقرر شخص کے حدود و حقوں ہو، ان میں کسی کو قتل کرنا، کسی کی جان لینا، کسی کو ہلاک کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوْآ اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَاِیَّاھُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ ذَالِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَo وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَبِعَھْدِ اللہِ اَوْفُوْا ذَالِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذَالِکُم وَصَّاکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (انعام:153-151)
لوگوں سے کہو اِدھر آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں، وہ یہ کہ کسی چیز کو اللہ کا شریک مت ٹھہراؤ۔ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ اور مفلسی کے ڈر سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی۔ اور بے حیائی کی باتیں جو ظاہر اور جو پوشیدہ ہوں ان میں سے کسی کے پاس بھی نہ پھٹکنا۔ اور وہ جان جسے اللہ نے حرام کر دیا ہے، قتل نہ کرنا، مگر حق پر، یہ ہیں وہ باتیں جن کا حکم اللہ نے تم کو دیا ہے، تاکہ دنیا میں رہنے کا طریقہ سمجھو۔ اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طور پر کہ بہتر ہو۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچے اور انصاف کے ساتھ پوری پوری ناپ کرو، اور پوری پوری تول۔ ہم کسی شخص پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتے، اور جب بات کہو تو گو قرابت داری ہی ہو، انصاف کرو۔ اور اللہ سے جو عہد ہے اس کو پورا کرو، یہ ہیں وہ باتیں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ اور یہ کہ یہی ہمارا سیدھا راستہ ہے تو اسی پر چلے جاؤ اور دوسرے راستوں پر نہ پڑ جانا کہ یہ تم کو اللہ کے راستے سے ہٹا دیں گے، یہ باتیں ہیں جن کا اللہ نے تم کو حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَأً ... الی قولہ ... وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَائُ ہٗ جَھَنَّمُ خالِدًا فِیْھَا وَ غَضِبَ اللہُ عَلَیْہِ وَلَعْنَہٗ وَ اَعَدَّلَہُ عَذَابًا عَظِیْمًا o (النساء:9-92)
کسی مسلمان کے لیے روا نہیں کہ مسلمان کو جان سے مار ڈالے مگر غلطی سے ... الی قولہ ... اور جو مسلمان کو دیدہ و دانستہ قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اس پر اللہ کا غضب ہو گا اور اس پر اللہ کی لعنت ہو گی۔ اور اللہ نے اس کے لیے بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

مِنْ اَجْلِ ذَالِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِیْ الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاo (المائدہ:32)
اس (مذکورہ) واقعہ کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو تحریری حکم دیا کہ جو کوئی جان کے بدلہ نہیں (یعنی قصاص میں) اور ملک میں فساد پھیلانے کی سزا کے طور پر نہیں بلکہ ناحق کسی کو قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو مار ڈالا، اور جس نے مرتے کو بچا لیا تو گویا اُس نے تمام انسانوں کو بچا لیا۔

اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا:

اَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِی الدِّمَاءِ (بخاری و مسلم)
قیامت کے دن سب سے پہلے جس کا فیصلہ ہو گا وہ ناحق خون کا ہو گا۔

قتل و خون تین قسم کا ہے: ایک قتل عمداً ہے جس میں خطا اور شبہ خطاء کا احتمال ہی نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی کو بے گناہ قتل کر دیا۔ جیسا کہ عام طور پر قتل ہوا کرتا ہے۔ مثلاً تلوار سے کسی کو مار دینا، یا خنجر اور چھری سے، یا ہتھوڑے یا پھاوڑے، کدال یا کلہاڑی، تیر وغیرہ سے یا گولی مار کر قتل دینا، یا جلا کر مار دینا، یا غرق کر دینا، یا منہ بند کر کے مار دینا، یا زہر کھلا کر مار دینا، وغیرہ وغیرہ۔ تو اس قتل میں حدجاری ہو گی۔ اور مقتول کے اولیاء اور ورثاء کو حق ہو گا کہ چاہیں تو اُسے قتل کریں، چاہیں معاف کر دیں۔ اور اگر چاہیں دیت و خون بہا لے کر چھوڑ دیں۔ مقتول کے اولیاء و ورثاء کو جائز نہیں ہے کہ قاتل کے سوا کسی دوسرے کو قتل کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا
اور کسی کی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کر دیا ہے، ناحق قتل نہ کرو، اور جو شخص مظلوم مارا جائے تو ہم نے اُس کے والی کو اختیار دیا ہے تو اس کو چاہیے کہ خون میں زیادتی نہ کرے کیونکہ قصاص لینے میں اس کو (حکومت وقت کی) مدد حاصل ہے۔ (بنی اسرائیل:33)
اس آیت کی تفسیر یہی کی گئی ہے کہ قاتل کے سوا کسی دوسرے شخص کو قتل نہ کیا جائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور سیدنا ابی شریح الخزاعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

مَنْ اُصِیْبَ بِدَمٍ اَوْ خَبْلٍ فَھُوَ بِا لْخِیَارِ بَیْنَ اِحْدٰی ثَلَاثٍ فَاِنْ اَرَادَ الرَّابِعَۃَ فَخُذُوْا عَلٰی یَدَیْہِ اَنْ یَّقْتُلَ اَوْ یَعْفُوْ اَوْ یَاْخُذَ الدِّیَۃَ فَمَنْ فَعَلَ شَیْئًا مِّنْ ذَالِکَ فَعَادٍ فَاِنَّ لَہٗ جَھَنَّمَ خَالِدًا مّخَلَّدًا فِیْھَا اَبَدًا
جو خون ہو جائے یا خطرناک حالت میں پایا جائے اور پھر مر جائے تو تین راستے ہیں جو چوتھا راستہ اختیار کرے اُسے روکو۔ ایک یہ کہ قاتل کو قتل کر دے، دوسرا یہ کہ اُسے معاف کر دے، تیسرا یہ کہ دیت و خون بہا لے کر چھوڑ دے۔ ان تین طریقوں کے علاوہ کوئی چوتھا راستہ اختیار کرے تو وہ زیادتی کر رہا ہے، اس کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہے۔(رواہ اہل سنن)
اگر کوئی شخص معاف کر دے، معاف کرنے کے بعد یا دیت و خون بہا لینے کے بعد قاتل کو قتل کر دے تو یہ بہت بڑا جرم ہے، ابتداء قتل کرنے سے بھی بہت سخت جرم ہے، یہاں تک کہ بعض علماء کا قول ہے، اسے بطور حد قتل کیا جائے، اور مقتول کے اولیاء و ورثاء کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اسے خود قتل کریں۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌفَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَائٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ذَالِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ رَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذَالِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌo وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَّآ اُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (بقرہ:179-178)
جو لوگ تم میں مارے جائیں ان میں تم کو جان کے بدلہ میں جان کا حکم دیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔ پھر جس کو اس کے بھائی سے قصاص کا کوئی جزء معاف کر دیا جائے، تو مطالبہ دستور شرع کے مطابق اور قاتل کی طرف سے وارثِ مقتول کو خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کر دینا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے حق میں آسانی اور مہربانی ہے۔ پھر اس کے بعد جو زیادتی کرے تو اس کے لیے عذاب دردناک ہے، اور عقلمندو! قصاص (قتل کے بدلے قتل کر دینے) میں تمہاری زندگی ہے تاکہ تم (خونریزی سے) باز رہو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
علماء کہتے ہیں:
مقتول کے اولیاء و ورثاء کے قلوب غیظ و غضب سے بھرے ہوتے ہیں ان کا بس چلے تو قاتل اور قاتل کے اولیاء و ورثاء کو بھی قتل کر دیں۔ بسا اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ قاتل پر بس نہیں کرتے بلکہ قاتل کے ساتھ ہی ساتھ اس کے عزیزوں، قرابتداروں کو بھی قتل کر دیتے ہیں، قاتل کے قبیلہ کے سردار یا مقدم و پیشوا کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔ اور یہ نہایت خطرناک صورت ہے۔ اصل قاتل نے تو ابتداء میں ظلم کیا، لیکن مقتول کے اولیاء اور ورثاء نے خون کا بدلہ لینے میں جو ظلم و جور اور زیادتی کی ہے اصل قاتل نے نہیں کی۔ اور وہ کام کیا جو شریعت سے خارج اہل جاہلیت کیا کرتے تھے کہ شہری اور دیہاتی سب کے سب اس میں مبتلا ہو جاتے تھے اور سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا تھا۔ مقتول کے اولیاء قاتل کے اولیاء کو قتل کر دیتے تھے اور ان قاتل اولیاء کے قاتلوں کو دوسرا فریق قتل کر دیتا تھا یہاں تک کہ بسا اوقات دونوں فریق اپنا اپنا جتھا (مورچہ) بنا لیتے تھے۔ اپنے اپنے حلیف بنا لیتے تھے، ایک قوم ایک کی مدد کرتی، دوسری قوم دوسرے فریق کی اعانت و مدد کرتی۔ اور اس طرح یہ فتنوں کا دروازہ کھل جاتا اور انتہائی بغض و عناد اور کینہ ان میں گھر کر جاتا، اس کا سبب یہی ہوا کرتا تھا کہ یہ لوگ عدل و انصاف کو بالکل چھوڑ دیتے تھے، اور قصاص پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر قصاص فرض کر دیا ہے۔ اور قصاص کے معنی یہی ہیں کہ قتل کے بارے میں مساوات اور عدل و انصاف کو ملحوظ رکھا جائے۔ زیادتی نہ کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ قصاص میں تمہاری زندگی ہے۔ قصاص سے قاتل کے اولیاء اور ورثاء کی خونریزی بند ہو جاتی ہے، غیر قاتل بچ جاتے ہیں، اور فتنہ ختم ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ کہ اگر کوئی شخص کسی کو قتل کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اسے معلوم ہو جائے کہ قصاص میں یہ بھی مارا جائے گا تو قتل کرنے سے باز رہتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:

اَلْمُؤْمِنُوْنَ تَتَکَافَأُ دِمَائُ ھُمْ وَ ھُمْ یَدٌ عَلٰی مَنْ سِوَاھُمْ وَ یَسْعٰی بِذِمَّتِھِمْ اَدْنَا ھُمْ اَلَا لَا یُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْ عَھْدٍ فِیْ عَھْدِہٖ
تمام مسلمانوں کے خون مساوی اور برابر ہیں اور اس پر تمام مسلمان متفق ہیں اور ذمیوں سے اچھا سلوک کرنے میں ادنی و اعلیٰ پوری کوشش کرتے ہیں۔ آگاہ رہو کہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کیا جائے، اور نہ متعاہد (جس نے معاہدہ کیا ہوا ہے اس) کو جب تک کہ وہ اپنے عہد پر قائم ہے۔ (رواہ احمد و ابی داوٗد وغیرہما من اہل سنن)۔

رسول اللہ ﷺنے فیصلہ کر دیا کہ مسلمانوں کے خون مساوی اور بلا امتیاز تمام برابر ہیں، عربی کو عجمی پر، قریشی ہاشمی کو غیر قریشی ہاشمی پر اور اصلی حر (جو کبھی غلام نہیں تھا) کو مولیٰ عتیق (آزاد کردہ غلام) پر، عالم کو جاہل پر، امیر کو رعایا پر کوئی فضیلت نہیں دی۔ اور یہ تمام مسلمانوں میں متفق علیہ ہے بخلاف اہل جاہلیت اور حکام یہود کے کہ انہوں نے غلط راستہ اختیار کیا، اور غلط حکم جاری کیا تو دنیائے عرب باہم لڑ مرے۔
مدینہ طیبہ کے قریب دو قسم کے یہود آباد تھے، نضیر اور قریظہ۔ قریظہ کے مقابلہ میں نضیر کے خون بہت ہوئے تھے اور اس لیے نبی ﷺکو حکم و منصف اور جج بنایا۔

اور حد زنا میں کچھ ایسا تغیر و تبدل کر دیا کہ رجم کو لوہے کے داغ سے تبدیل کر دیا۔ یہ یہود مسلمانوں کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر تمہارے پیغمبر ﷺ اس کا حکم دے دیں تو ہمارے لیے حجت ہے، ورنہ سمجھا جائے گا کہ تم نے تورات کا حکم چھوڑ دیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوٓا اٗمَنَّا بِاَفْوَھِھِمْ وَلَمْ تُؤْْمِنْ قُلُوْبُھُمْ ... الی قولہ ... فَاِنْ جَآئُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْھُمْ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْھُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْکَ شَیْئًا وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o الی قولہ ... فَلَا تَخْشَوُ النَّاسَ وَاخْشَوْنِیْ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰاتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ o وَ کَتَبْنَا عَلَیْھِمْ فِیْھَا اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ
اے پیغمبرﷺ! جو لوگ کفر پر اڑے رہتے ہیں، ان کی وجہ سے آپ غمزدہ نہ ہوں۔ بعض ایسے ہیں جو اپنے منہ سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ ان کے دل ایمان نہیںلائے ... تو اے پیغمبرﷺ! اگر یہ لوگ فیصلہ کروانے کے لیے تمہارے پاس آئیں تو آپ کو اختیار ہے کہ ان میں فیصلہ کر و یا ان کے معاملہ میں دخل دینے سے کنارہ کش رہو۔ اگر تم ان سے کنارہ کشی کرو گے تو یہ تمہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اگر فیصلہ کرو تو ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا، کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ... تم لوگوں سے نہ ڈرو، ہمارا ہی ڈر رکھو اور ہماری آیتوں میں حق کو چھپا کر ناجائز فائدے مت لو، اور جو (جج) اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق حکم نہ دے تو یہی لوگ کافر ہیں۔ اور ہم نے تورات میں یہود کو تحریری حکم دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ ویسا ہی زخم۔ (مائدہ:45-41)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ان آیات میں اللہ نے بیان کیا کہ تمام جانیں برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہے جیسا کہ یہود کیا کرتے تھے۔

... الی قولہ ... وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَ مُھَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَھُمْ عَمَّا جَآئَکَ مِنَ الْحَقِّ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَاجًا ... الی قولہ ... اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ o (مائدہ:50-48)
... اور اے پیغمبر ہم نے تمہاری طرف بھی کتاب برحق اتاری کہ جو کتابیں اس کے آنے سے پہلے موجود ہیں ان کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی (سپریم لاء اور) محافظ بھی ہے تو جو کچھ اللہ نے تم پر اتارا ہے تم بھی اسی کے مطابق ان لوگوں کو حکم دو اور جو حق بات تم کو پہنچتی ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت ٹھہرائی ہے اور طریقہ خاص ... کیا اس وقت میں زمانہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور جو لوگ یقین کرنے والے ہیں ان کے لیے اللہ سے بہتر حکم دینے والا کون ہو سکتا ہے؟

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ مسلمانوں کے خون سب کے سب مساوی اور برابر ہیں بخلاف جاہلیت کے، کہ اکثر خواہش نفس کی وجہ سے خون ہوا کرتے تھے اور شہری دیہاتی آبادیاں تمام کی تمام اس سے متاثر ہوتی تھیں۔ اور یہ درحقیقت بغاوت اور ترک عدل و انصاف کی وجہ سے ہوا کرتا تھا۔ ہر گروہ اپنے کو دوسرے گروہ پر غالب رکھنے کی کوشش کرتا تھا،خواہ خون کا معاملہ ہو یا مال کا، ایک دوسرے پر غالب رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ اور غلبہ پر فخر و ناز کرتا تھا۔ عدل و انصاف کا نام و نشان تک نہ تھا۔ دونوں فریق میں کوئی بھی خاموش نہیں بیٹھتا تھا ہر گروہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے وہی کرتا جو دوسرا گروہ کرتا تھا۔ قرآن مجید نے عدل اور انصاف کا حکم دیا۔ جاہلیت کے احکام کو بالکل باطل ختم کر دیا، جس میں اکثر لوگ مبتلا تھے۔ جب کبھی اور جس وقت کوئی مصلح اصلاح کے لیے اقدام کرتا تو یہی اصول اور یہی عدل و انصاف لے کر اقدام کرتا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قرآن مجید نے فیصلہ کر دیا:

وَاِنْ طَآئِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْ بَیْنَھُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِٓئَ اِلٰی اَمْرِ اللہِ فَاِنْ فَآئَ تْ فَاصْلِحُوْا بَیْنَھَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات:10-9)
اور اگر مسلمانوں کے دو فرقے آپ میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ پھر اگر ان میں سے ایک فرقہ دوسرے پر زیادتی کرے تو جو زیادتی کرتا ہے اس سے لڑو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے، پھر جب رجوع کرے تو فریقین میں برابری کے ساتھ صلح کرا دو۔ اور انصاف کو ملحوظ رکھو۔ بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ مسلمان تو بس آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں میں میل جول کرا دیا کرو۔

اور اس بارے میں اولیٰ و افضل یہ ہے کہ پہلے اولیاء مقتول سے معافی کی درخواست کی جائے کیونکہ قرآن مجید میں ہے:

وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَھُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ (مائدہ:45)
اور زخموں کا بدلہ ویسے ہی زخم ہیں۔ پھر جو مظلوم بدلہ معاف کر دے، وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گا۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

مَا رُفِعَ اِلٰی رَسُوْلِ اللہﷺاَمْرًا فِیْہِ الْقِصَاصُ اِلَّا اَمَرَ فِیْہِ بِالْعَفْوِ
جب کوئی معاملہ پیش اتا جس میں آپ کو قصاص کا حکم فرمانا ہوتا لیکن آپ معاف کرنے کا حکم فرماتے۔ (رواہ ابودوٗد وغیرہ)

اور صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے:
مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ وَمَا زَادَ اللہُ عَبْدًا بِعَفْوٍ اِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ لِلہِ اِلَّا رَفَعَہُ اللہُ (رواہ مسلم)
صدقہ دینے سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور جو کچھ بندہ معاف کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے عزت دیتا ہے، اور جو اللہ کے لیے تواضع عاجزی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے رفعت و بلندی عطا فرماتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور یہ جو ہم نے لکھا ہے، مساوات کے متعلق لکھا ہے۔ وہ صرف مسلمانوں کے بارے میں ہے کہ آزاد افراد سب کے سب مساوی ہیں۔ ذی کفو نہیں، نہ مسلمان کے برابر ہے۔ جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے، جیسے کہ کفار اسلامی شہروں میں سفر و تجارت کی غرض سے آتے ہیںکہ یہ بالاتفاق کفو نہیں اور مسلمان کے برابر نہیں۔

بعض علماء کا قول ہے: ذمی کفو ہیں۔ اور مسلمان کے برابر ہیں۔ یہی نزاع غلام اور آزاد کے متعلق ہے کہ غلام کے مقابلہ میں آزاد کو قتل کیا جائے یا نہیں۔

دوسری قسم کا خون قتل خطا ہے جو شبہ عمد (جان بوجھ کر قتل کرنے کا شک) ہو۔ اور اس بارے میں نبی کریمﷺکا ارشاد ہے:

اَلَا اِنَّ فِیْ قَتْلِ الْخَطَائِ شِبْہِ الْعَبَدِ مَا کَانَ فِی السَّوْطِ وَالْعَصَائِ مِائَۃٌ مِّنَ الْاِبِلِ مِنْھَا اَرْبَعُوْنَ خِلْقَۃٌ فِیْ بُطُوْنِھَا اَوْلَادُھَا
آگاہ رہو کہ قتل خطا شبہ عمد میں جو کہ کوڑے یا لکڑی سے ہو، سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس اونٹ ایسے ہوں جن کے پیٹ میں بچے ہوں۔

اور اسے شبہ عمد اس لیے کہا گیا ہے کہ کوڑا یا لکڑی مارنے والے نے زیادتی ضرور کی۔ اس نے مار مارنے میں اعتدال کو ملحوظ نہیں رکھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کی مار سے اکثر اوقات موت واقع نہیں ہوتی

تیسری قسم، خون کی قتل خطا ہے، مثلاً یہ کہ شکار پر تیر چلایا، اور وہ انسان کو لگ گیا (یا گولی چلائی اور بے گناہ انسان کو لگ گئی)۔ اور اس کے علم و ارادہ کے خلاف واقعہ پیش آیا۔ تو اس میں حد نہیں ہے۔ بلکہ اس میں کفارہ اور دیت، خون بہا ہو گا۔

اور اس بارے میں بیشمار مسائل ہیں جو اہل علم کی کتابوں میں درج ہیں۔
 
Top