• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب:25۔ اموال کا فیصلہ عدل و انصاف کا متقاضی ہے۔ ۔ السیاسۃ الشرعیۃ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب:25۔ اموال کا فیصلہ عدل و انصاف کا متقاضی ہے
اموال کا فیصلہ عدل و انصاف سے کیا جائے، معاملات میں عدل و انصاف ہی دنیا کے امن و چین کا کفیل ہے، دنیا ور آخرت اسی سے درست ہوتی ہے۔

اموال کا فیصلہ عدل و انصاف سے کیا جائے، جیسا کہ اللہ اور رسول ﷺ کا حکم ہے، مثلاً ترکہ، وارثوں پر کتاب و سنت کے مطابق تقسیم کیا جائے، گو اس کے بعض مسائل میں اختلاف ہے، اسی طرح معاملات میں لین دین، مزدوری و ٹھیکہ، وکالات، مشارکات، تحفے اوقاف وصیتوں وغیرہ میں عدل و انصاف واجب ہے، اور ان معاملات میں جن میں عقود اور قبضہ شرط ہے، عدل و انصاف واجب ہے، اس لیے کہ عدل و انصاف ہی سے دنیا و جہان کا (قیام و) قوام ہے، اس کے بغیر دنیا و آخرت درست ہی نہیں ہو سکی، ان چیزوں میں عدل و انصاف ہر عقلمند سمجھتا ہے، اور مثلاً خریدار پر واجب ہے کہ وہ چیز کی قیمت فوراً ادا کر دے اور بیچنے والے پر واجب ہے کہ مال خریدار کے حوالہ کر دے، اور مثلاً ناپ و تول میں کمی بیشی کرنا قطعاً حرام ہے، قرض ادا کرنا، جس سے قرض لیا اس کا شکر وار تعریف کرنی واجب ہے، عام معاملات جن کی کتاب و سنت نے ممانعت کی ہے وہ ہیں جن میں عدل و انصاف نہیں ہو سکتا، اور چھوٹا بڑا، کم زیادہ ظلم ہوتا ہو، مثلاً باطل کے ذریعہ مال لینا جیسے سوداور جوا۔ سود کی تمام صورتیں جوئے کی تمام اقسام جن سے رسول اللہ ﷺنے منع فرمایا ہے، حرام ہیں مثلاً بیع غرر (دھوکہ سے مال بیچنا)۔ بیع الطیر (پرندہ اڑ رہا ہو، اس کو بیچنا)، مچھلی پانی کے اندر ہو، اُسے بیچنا، میعاد مقرر نہ کرنا اور بیچنا، بیع المصراط، بیع الملامسہ، بیع منابذہ، بیع مزابنہ، بیع محاقلہ، اور خراب اشیاء کا بیچنا، کچے پھل، ان کو بیچنا، فاسد شرکت کرنی، اور وہ تمام معاملات جن سے مسلمانوں کے اندر نزاع ممکن ہے اور جن میں کچھ نہ کچھ خرابی ہو، یا شبہ ہو، یا وہ عقد جو کچھ لوگ صحیح اور عدل سمجھتے ہوں۔ اور کچھ لوگ ظلم و جور سمجھتے ہوں۔ ان کا فاسد ہونا واجب و ضروری ہے۔ ان سے بچنا ضروری ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذَالِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاًo (النساء)
مسلمانو! اللہ کا حکم مانو، اور اس کے رسول ﷺ کا حکم مانو۔ اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کا بھی، پھر اگر کسی امر میں تم آپس میں جھگڑ پڑو تو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لانے کی شرط یہ ہے کہ اس امر میں اللہ اور رسول ﷺ کی طرف رجوع کرو کہ یہ بہتر ہے، اور انجام کے اعتبار سے بھی اچھا ہے۔

اور اس بارے میں اصل اصول اور ضابطہ کلیہ یہ ہے کہ معاملات وہی حرام ہیں جن کو کتاب و سنت نے حرام قرار دیا ہو، اور عبادات وہی مشروع ہیں جس کی مشروعیت کتاب و سنت سے ثابت ہو، جن لوگوں کی اللہ نے مذمت کی ہے وہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے وہ چیزیں اپنے اوپر حرام کر لی تھیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں کی تھیں۔ اور ایسی چیزیں جائز کر لی تھیں جن کے جواز پر کوئی شرعی دلیل نہیں تھی۔

اللھم وفقنا لان نجعل الحلال ما حللتہ والحرام ما حرمتہ والدین ما شرعتہ
 
Top