• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باجماعت نمازکے دوران شیطانی وسوسے آئیں تو اپنی بائیں جانب کیسے تھوکے ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
باجماعت نمازکے دوران شیطانی وسوسے آئیں تو اپنی بائیں جانب کیسے تھوکے ؟

سوال:

کیا نماز کے دوران ہم شیطانی وسوسہ دور کرنے کیلئے تین بار تھوک سکتے ہیں؟ یا صرف تعوّذ ہی پڑھ سکتے ہیں تھوک نہیں سکتے؟ کیونکہ یہ میں جانتا ہوں کہ نماز میں تھوکنا نماز سے باہر ہونے کا موجب ہے ۔


الحمد للہ:

نمازی کا نماز میں شیطانی وسوسوں کے خاتمے کیلئے تعوّذ پڑھنے کے بعد اپنی بائیں جانب تین بار ہلکی سی تھوک کی آمیزش کے ساتھ پھونک مارنا مسنون عمل ہے، اس کی دلیل صحیح مسلم : (2203)کی روایت ہے، جس میں عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے، اور عرض کیا: "اللہ کے رسول! شیطان نماز میں میرے اور میری نماز و قراءت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( اس شیطان کو خنزب کہا جاتا ہے، جب تمہیں اس کی طرف سے کچھ محسوس ہو تو [تعوّذ پڑھ کر]اللہ کی پناہ مانگو، اور اپنی بائیں جانب تین بار ہلکی سی تھوک کی آمیزش کے ساتھ پھونک مارو) عثمان بن ابو العاص کہتے ہیں: میں نے ایسا کیا تو اللہ تعالی نے اسے مجھ سے دور کر دیا۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"نماز میں "أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ" پڑھ کر اپنی بائیں جانب تھوکنے کیلئے تھوڑا سا سر کو موڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ضرورت کے وقت ایساکرنا مستحب ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن ابو العاص ثقفی رضی اللہ عنہ کو شیطانی وسوسوں کی شکایت پر اسی طرح کرنے کا حکم دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا کہ: تین بار تعوّذ پڑھیں، اور پھر اپنی بائیں جانب ہلکی سی تھوک کی آمیزش کیساتھ پھونک ماریں، تو اللہ تعالی نے انکی شکایت رفع فرما دی " انتہی

مجموع فتاوى ابن باز" (11 / 130)


ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"انسان جس وقت شیطان مردود سے اللہ کی پناہ چاہتا ہے اور اپنی بائیں جانب ہلکی سی تھوک کی آمیزش کیساتھ پھونکتا ہے تو اس سے اسکی نماز نہیں ٹوٹتی، بلکہ اس طرح کرنے سے اس نماز کامل اور مکمل ہوتی ہے" انتہی

"زاد المعاد" (3 / 602)

حدیث کے عربی الفاظ میں مذکور: "تفل" ایسی پھونک کو کہتے ہیں جس میں تھوڑی سی تھوک کی مقدار بھی شامل ہو، چنانچہ "لسان العرب" (11 / 77) – مادہ : "تفل" میں ہے کہ:
"تفل" ہوتا ہی اس وقت ہے جب اس میں ہلکی سی تھوک کی مقدار بھی شامل ہو، اور اگر اس میں تھوک کی ہلکی سی مقدار بھی شامل نہ ہو تو اسے "نفث" کہا جاتا ہے" انتہی

یہاں "تفل" کا یہ معنی ہر گز نہیں ہے کہ تھوکا جائے، بلکہ پھونک ایسے انداز سے ماری جائے کہ اس کے ساتھ تھوڑی سی مقدار میں تھوک کی آمیزش بھی ہو۔

اگر کوئی آدمی باجماعت نماز ادا کر رہا ہو توعام طور پر اپنی بائیں جانب ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ اس سے بائیں جانب کھڑے شخص کو تکلیف ہو سکتی ہے، تاہم اگر بائیں جانب صف کے آخر میں کھڑا ہو تو ایسا کرنا ممکن ہے، کیونکہ اس کی بائیں جانب کوئی نہیں ہوگا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ : جب انسان نماز با جماعت ادا کر رہا ہو تو اپنی بائیں جانب کیسے تھوکے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: اگر صف کی بائیں جانب سب سے آخر میں کھڑے شخص کو ایسا مسئلہ درپیش ہے ، تووہ بغیر کسی حرج کے اپنی بائیں جانب تھوک کی آمیزش کیساتھ مسجد کی باہر کی جانب پھونک مار سکتا ہے، اور اگر وہ شخص درمیانی صفوں میں ہے تو اپنے کپڑے یا سر پر لئے ہوئے رومال کو استعمال میں لا کر ان میں پھونک مارے، اور اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو تو صرف اپنی بائیں جانب سر موڑ کر تین بار: " أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ " پڑھے۔" انتہی

"فتاوى نور على الدرب" (155 / 12)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے یہ بھی منقول ہے کہ:

"اگر انسان نماز با جماعت ادا کر رہا ہو، تو اپنی بائیں جانب کیسے تھوکے؟تو ہم یہ کہیں گے کہ تین بار تعوّذ پڑھے اور پھونک مت مارے، تا کہ ساتھ والے نماز کو تکلیف نہ ہو" انتہی


"فتاوى نور على الدرب" (185 / 45)

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/144942
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
جزاک اللہ خیرا۔محمد عامر یونس بھائی۔اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔آمین
ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک دوست نے باجماعت نماز کے دوران جب اس حدیث پر عمل کیا تو بائیں جانب کھڑے نمازی نے نماز کے بعد ایسی سنوائیں کہ معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا تھا۔کہ بیچ میں پڑ کر صلح کرادی۔ہم لوگ حدیث پڑھ بھی لیتے ہیں سن بھی لیتے ہیں جب کوئی اس پر عمل کرتا ہے تو وہ ہمیں کیوں ناگوار گزرتی ہے۔؟؟؟اللہ ہم سب کو دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 
Top