• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باجماعت نماز تراویح کے متعلق کچھ سوالات

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
یہاں موجودمحترم اہل علم حضرات سے مجھے ذرا صحیح بخاری کی اس تراویح سے متعلق حدیث کے متعلق کچھ سوالات پوچھنا ہے، جو مندرجہ ذیل ہے

صحیح البخاری۔ کتاب "کتاب و سنت کو مطبوطی سے تھامے رکھنا"، حدیث نمبر 7290

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ، يُحَدِّثُ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِيهَا لَيَالِيَ، حَتَّى اجْتَمَعَ إِلَيْهِ نَاسٌ، ثُمَّ فَقَدُوا صَوْتَهُ لَيْلَةً فَظَنُّوا أَنَّهُ قَدْ نَامَ، فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَتَنَحْنَحُ لِيَخْرُجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ " مَا زَالَ بِكُمُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ، حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ، وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلاَةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ، إِلاَّ الصَّلاَةَ الْمَكْتُوبَةَ "

ترجمہ: ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا کہا ہم کو عفان بن مسلم صفار نے خبر دی کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے کہا میں نے ابو النضر سے سنا وہ بسر بن سعید سے روایت کرتے تھے وہ زید بن ثابت سے کہ نبیﷺ نےمسجد میں چٹائی گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی کئی راتوں میں) اس میں عبادت کرتے رہے ( تراویح پڑھتے رہے) کئی لوگ بھی جمع ہونے لگے ( وہ آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھا کرتے ) ایک رات ایسا ہوا لوگوں نے آپ ﷺ کی آواز بالکل نہ سنی وہ سمجھے آپ ﷺ سو گئے یہ خیا ل کرکے بعضے لوگ کھنگھارنے لگے تا کہ آپ ﷺ برآمد ہوں ۔آپ ﷺ نے فرمایا میں تمہارے حال سے واقف ہوا میں اس خیال سے نہ نکلا ایسا نہ ہوکہ ( تراویح اور تہجد کی) تم پر فرض ہو جائے پھر تم اس کو نہ بجا لاسکو ۔لوگو تم اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھ لیا کرو افضل نماز وہی ہے جو اپنے گھر میں ہو ایک فرض نماز مسجد میں پڑھنا افضل ہے۔

11309 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

میرے اس ذمن میں سوالات کچھ یہ ہیں:

1) کیا حضور اکرم ﷺ نے صلواۃ التراویح کو مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنے سے منع فرمایا تھا اور یہ کہا تھا کہ اسکو اپنے گھر میں ہی ادا کیا کرو؟

2) حدیث کے اصلی عربی متن میں تو "تراویح" یا "رمضان" وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہے، لیکن پھر بھی ترجمہ میں ان الفاظ کا اضافہ کیوں کیا گیا ہے؟

3) اگر حضور اکرم ﷺ نے صلواۃ التراویح کو گھر میں ہی ادا کرنے کا حکم دیا تھا، تو نعوذباللہ کیا سیدنا عمر رض تراویح کے لوگوں کو مسجد میں جمع کرنا، بدعت نہیں کہلوائے گا؟ جبکہ سیدنا عمر رض نے اس امر کو ایک "بدعت" ہی سے تشبیہ دی تھی؟

4) صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کا اس امر میں کیا رویہ تھا؟ کیا انکا معمول تھا؟ خصوصا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کے انکا کیا معمول تھا اور انکی خلافت میں وہ خود اور دوسرے اہل بیت حضرات کا تروایح سے متعلق کیا معمول تھا؟ (برائے کرم یہ ایک بہت اہم سوال ہے، اگر آپکو اسکے متعلق کچھ روایات کا علم ہو تو وہی روایت نقل کیجئے گا جو صحیح ہوں اور ان میں کسی طرح کا ضعف اور علت نہ پائی جائے)

5) صلواۃ التراویح کو "تراویح" کے الفاظ سے کب اور کس وقت سے کہہ کر پکارا گیا، جبکہ احادیث کی کتب میں "عربی متن" کے اندر اسکو صلواہ الیل وغیرہ ھم سے لکھا گیا ہے، کیا یہ صرف تراجم میں ہوتا ہے یا اسکے متعلق کچھ صحیح احادیث میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے؟

ازرائے کرم ان سوالات کا ایک مکمل اور مدلل جواب عنایت کیجئے گا اور اگر ہوسکے تو روایت جو آپ پیش کریں انکے بارے میں یہ ضرور بتادیجئے گا کہ انکا درجہ کیا ہے، مطلب صحیح، حسن، غریب، ضعیف وغیرہ۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
بھائی تراویع کے متعلق سوال کسی احناف کے فورم سے جا کر پوچھو تو اچھا ہوگا کیونکہ یہاں پر باجماعت تراویع پڑھنے کو بدعت ہی کہتے ہیں۔ یعنی اہل حدیث تراویع کی بیس رکعت کے قائل ہی نہیں ہیں۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
بھائی تراویع کے متعلق سوال کسی احناف کے فورم سے جا کر پوچھو تو اچھا ہوگا کیونکہ یہاں پر باجماعت تراویع پڑھنے کو بدعت ہی کہتے ہیں۔ یعنی اہل حدیث تراویع کی بیس رکعت کے قائل ہی نہیں ہیں۔
بھائی @ابوحمزہ ، میرے یہاں اس سوال کے پوچھنے کا قصد یہ تھا کہ یہ تراویح کی باجماعت نماز ادا کرنا کیا بخاری کی اس حدیث، جسکا میں نے حوالہ دیا تھا، اسکے مطابق "بدعت" نہیں کہلوائے گی؟ مجھے معلوم ہیں کہ اس 20 رکعات اور 8 رکعات تراویح کے متعلق احناف اور اہل حدیث حضرات میں اختلاف ہے، لیکن میں صرف باجماعت نماز تراویح کے متعلق پوچھ رہا تھا۔ جبکہ باجماعت تروایح کا ثبوت موطا امام مالک میں بھی موجود ہے

امام مالك رحمه الله (المتوفى179)نے کہا:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ: وَقَدْ «كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ، حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ»[موطأ مالك : 1/ 115واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ومن طريق مالك رواه النسائی فی السنن الکبری 3/ 113 رقم 4687 و الطحاوی فی شرح معاني الآثار 1/ 293 رقم1741 وابوبکر النیسابوی فی الفوائد (مخطوط) ص 16 رقم 18 ترقیم الشاملہ و البیہقی فی السنن الكبرى 2/ 496 رقم 4392 کلھم من طریق مالک بہ]۔

ترجمہ :سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا ، سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امام سوسو آیتیں ایک رکعت میں پڑھتا تھا یہاں تک کہ ہم طویل قیام کی وجہ لکڑی پر ٹیک لگا کرکھڑے ہوتے تھے اورفجرکے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے۔

سوال فی الوقت 20 رکعات یا 8 رکعات کا نہیں، بلکہ بخاری کی اوپر دی گئی حدیث کے تحت "باجماعت" تراویح کی نماز کا ہے کہ اسکو کیا بدعت کہا جاسکتا ہے یا نہیں
 
Top