• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باجماعت نماز میں لوگوں کی کثرت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ کی پسند... باجماعت نماز میں لوگوں کی کثرت

(( عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ: صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ یَوْمًا الصُّبْحَ فَقَالَ: أَشَاھَدَ فُـلَانٌ؟ قَالُوْا: لَا۔ قَالَ: أَشَاھَدَ فُـلَانٌ؟ قَالُوْا: لَا۔ قَالَ: اِنَّ ھَاتَیْنِ الصَّلَاتَیْنِ أَثْقَلُ الصَّلَوَاتِ عَلَی الْمُنَافِقِیْنَ، وَلَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا فِیْھِمَا وَلَوْ حَبْوًا عَلَی الرَّکْبِ وَاِنَّ الصَّفَّ الْأَوَّلَ عَلَی مِثْلِ صَفِّ الْمَلَائِکَۃِ وَلَوْ عَلِمْتُمْ مَا فَضِیْلَتُہٗ لَابْتَدَرْتُمُوْہُ، وَصَلَاۃُ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلِ أَزْکٰی مِنْ صَلَاتِہٖ وَحْدَہٗ، وَصَلَاتُہٗ مَعَ الرَّجُلَیْنِ أَزْکٰی مِنْ صَلَاتِہِ مَعَ الرَّجُلِ، وَمَا کَثُرَ فَھُوَ أَحَبُّ إِلیٰ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔ ))
صحیح سنن أبي داود، رقم: ۵۱۸۔
''ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور پھر دریافت فرمایا کیا فلاں شخص موجود ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں، فرمایا ''کیا فلاں آیا تھا۔ لوگوں نے کہا ''نہیں'' آپ نے فرمایا بے شک یہ دو نمازیں (عشاء اور فجر) منافقین پر بہت بھاری ہیں۔ اگر انہیں ان دونوں کے (باجماعت) اجر کا علم ہوجائے تو وہ گھٹنوں پر چل کر بھی آسکیں تو آئیں۔ اور بے شک پہلی صف تو فرشتوں کی صف کی مانند ہے ۔اگر تمہیں اس کی فضیلت کا علم ہو تو تم لوگ اس پر جھپٹ پڑو ۔آدمی کا دوسرے آدمی کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے پڑھنے سے بہتر ہے۔ اوردو آدمیوں کے ساتھ نماز ادا کرنا ایک کے ساتھ پڑھنے سے بہتر ہے اور جتنے زیادہ (نمازی) ہوں گے توا للہ کے ہاں یہ بات زیادہ پسندیدہ ہے۔ ''
تشریح...: باجماعت نماز سے مراد وہ نماز ہے جو مسلمان مکلف پر فرض کی گئی ہے، جسے ادا کرنے کے لیے کئی نمازی حاضر ہوتے ہیں اور جتنے نمازیوں کی تعداد بڑھتی جائے گی اتنی ہی یہ چیز اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہوگی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ جگہ مسجد ہے چنانچہ نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے باجماعت نماز کا ثواب اکیلے کے مقابلہ میں ستائیس درجہ زیادہ رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلَاۃَ الفَذِّ بِسَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الأذان، باب: فضل صلاۃ الجماعۃ، رقم: ۶۴۵۔
'' باجماعت نماز اکیلے کی نماز کے مقابلہ میں ستائیس درجہ افضل ہے۔ ''
مساجد کی طرف جانا اور واپس آنا اور ان مساجد میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنا اور پہلی صف میں شامل ہونا وغیرہ ان سب کاموں میں اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ ثواب مقرر کیا ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( أَعْظَمُ النَّاسِ أَجْرًا فِيْ الصَّلَاۃِ أَبْعَدُھُمْ فَأَبْعَدُھُمْ مَمْشًی، وَالَّذِيْ یَنْتَظِرُ الصَّلَاۃَ حَتّٰی یُصَلِّیَھَا مَعَ الْاِمَامِ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الَّذِيْ یُصَلِّيْ ثُمَّ یَنَامُ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الأذان، باب: فضل صلاۃ الفجر في جماعۃ، رقم: ۶۵۱۔
'' سب سے زیادہ نماز کا ثواب اس کو ملتا ہے جو (مسجد) دور سے چل کر آتا ہے، پھر وہ جو اس سے بھی زیادہ دور سے چل کر آتا ہے۔ اور جو شخص امام کے ساتھ نماز پڑھنے کا منتظر رہتا ہے وہ اس شخص سے کہیں زیادہ اجر کا مستحق ہے جو (جماعت کے بغیر ہی) نماز پڑھ کر سوجاتا ہے۔ ''
نیز فرمایا:
(( مَنْ غَدَا إِلَی الْمَسْجِدَ وَرَاحَ أَعَدَّ اللّٰہُ لَہٗ نُزُلَہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ کُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ۔))
أخرجہ البخاري في کتاب الأذان، باب: فضل من غدا إلی المسجد ومن راح، رقم: ۶۶۲۔
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص صبح یا شام (نماز کے لیے) مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مہمانی تیار کرتا ہے، جب بھی صبح یا شام کو جائے گا۔ ''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
(( مَنْ تَطَھَّرَ فِيْ بَیْتِہٖ ثُمَّ مَشٰی إِلیٰ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ لِیَقْضِيَ فَرِیْضَۃً مِنْ فَرَائِضِ اللّٰہِ کَانَتْ خُطْوَتَاہُ إِحْدَاھُمَا تَحُطُّ خَطِیْئَۃً وَالْأُخْرٰی تَرْفَعُ دَرَجَۃً۔ ))
أخرجہ مسلم في کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب: ثواب المشي إلی الصلاۃ، رقم: ۱۵۲۱۔
'' جس نے گھر میں وضو کیا، پھر اللہ کے فرائض میں سے ایک فرض کو پورا کرنے کے لیے اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر کی طرف چلا تو اس کے دونوں قدموں میں سے ایک خطا گراتا ہے اور دوسرا درجہ بلند کرتا ہے۔ ''
نیز فرمایا:
(( مَنْ خَرَجَ مِنْ بَیْتِہٖ مُتَطَھِّرًا إِلَی صَلَاۃٍ مَکْتُوْبَۃٍ فَأَجْرُہٗ کَأَجْرِ الْحَاجِ الْمُحْرِمِ وَمَنْ خَرَجَ إِلیٰ تَسْبِیْحِ الضُّحٰی لَا یَنْصِبُہٗ اِلاَّ اِیَّاہُ فَأَجْرُہٗ کَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ، وَصَلَاۃٌ عَلیٰ أَثَرِ صَلَاۃٍ لَا لَغْوَ بَیْنَھُمَا کِتَابٌ فِیْ عِلِّیِِّیْنَ۔ ))
صحیح سنن أبي داود، رقم: ۵۲۲۔
'' جو آدمی اپنے گھر سے وضو کی حالت میں فرض نماز کی (ادائیگی کے لیے) نکلا تو اس کا اجر احرام باندھنے والے حاجی کے اجر کی مثل ہے اور جو کوئی چاشت کی نماز کو نکلتا ہے اور وہ صرف اسی نماز کی خاطر ہی جاتا ہے تو اس کا اجر عمرہ کرنے والے کی طرح ہے ۔ایک نماز کے بعد دوسری نماز پڑھنا جن کے درمیان لغو نہ ہو تو ایسی نماز علیین میں ہے (یعنی جنت میں جانے کا ذریعہ ہے)۔''
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( بَشِّرِ الْمَشَّائِیْنَ فِيْ الظُّلَمِ إِلَی الْمَسَاجِدِ بِالنُّوْرِ التَّامِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ ))
صحیح سنن أبي داود، رقم: ۵۲۵۔
'' اندھیروں میں مساجد کی طرف کثرت سے چلنے والوں کو قیامت کے دن (میں) مکمل نور کی خوشخبری سنا دو۔ ''
نیز فرمایا:
(( لَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَائِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ یَجِدُوْا إِلاَّ أَنْ یَسْتَھِمُوْا لَاسْتَھَمُوْا عَلَیْہِ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الأذان، باب: فضل التہجیر إلی الظہر، رقم: ۶۵۲۔
'' رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو علم ہوجائے کہ اذان اور پہلی صف میں شامل ہونے میں کیا (ثواب) ہے تو وہ قرعہ اندازی کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہ پائیں، تو وہ اس پر ضرور قرعہ اندازی کریں۔ ''
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
(( أَلْمَلَائِکَۃُ تُصَلِّيْ عَلیٰ أَحَدِکُمْ مَا دَامَ فِيْ مُصَلاَّہُ مَا لَمْ یُحْدِثْ: اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ، أَللّٰھُمَّ اَرْحَمْہٗ۔ لَا یَزَالُ أَحَدُکُمْ فِيْ صَلَاۃٍ مَا دَامَتِ الصَّلَاۃُ تَحْبِسُہٗ، لَا یَمْنَعُہُ أَنْ یَّنْقَلِبَ إِلیٰ أَھْلِہِ إِلاَّ الصَّلَاۃُ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الأذان، باب: من جلس في المسجد ینتظر الصلاۃ، وفضل المساجد، رقم: ۶۵۹۔
'' تم میں سے کوئی جب تک اپنی نماز کی جگہ بیٹھا رہے تو فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں جب تک اس کا وضو نہ ٹوٹے (یوں دعا کرتے ہیں) اے اللہ! اس کو بخش دے۔ اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ اور تم میں سے کوئی جب تک نماز کے لیے رکا رہتا ہے تو وہ گویا نماز ہی میں ہے بشرطیکہ اس کو اپنے گھر لوٹ جانے سے نماز کے سوا اور کوئی چیز نہ روکتی ہو۔ ''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کی بھی وضاحت کی کہ مساجد میں نماز پڑھنے سے خصوصاً کر صبح اور عشاء کی نماز سے منافق ہی غیر حاضر ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے رہنے والوں کے گھروں کو جلا ڈالنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
(( لَیْسَ صَلَاۃٌ أَثْقَلَ عَلَی الْمُنَافِقِیْنَ مِنَ الْفَجْرِ وَالْعِشَائِ، وَلَوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِیْھِمَا لَأَتَوْھُمَا وَلَوْ حَبْوًا۔ لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ آمُرَ الْمُؤَذِّنَ فَیُقِیْمَ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا یَؤُمُّ النَّاسَ، ثُمَّ آخُذَ شُعَلًا مِنْ نَّارٍ فَأُحَرِّقَ عَلیٰ مَنْ لَا یَخْرُجُ إِلَی الصَّلَاۃِ بَعْدُ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الأذان، باب: فضل العشاء في الجماعۃ، رقم: ۶۵۷۔
'' منافقوں پر کوئی نماز صبح اور عشاء کی نماز سے زیادہ بھاری نہیں ہے اور اگر لوگ ان دونوں نمازوں کے ثواب کو جان لیتے (اور چل نہ سکتے) تو گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے ان کے لیے آتے۔ اور میں نے یہ ارادہ کیا کہ مؤذن سے کہوں، وہ اقامت کہے اور ایک شخص کو امام بنا دوں وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں آگ کی چنگاریاں لے کر لوگوں کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلے۔ ''
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مریضوں اور ان منافقین کے سوا جن کا نفاق معلوم تھا، جماعت سے پیچھے کوئی نہیں رہتا تھا بلکہ اگر کوئی مریض دو آدمیوں کے کندھوں کا سہارا لے کر مسجد میں آسکتا تو ضرور حاضری دیتا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جس کو یہ بات اچھی لگے کہ مسلمانی کی حالت میں قیامت کے دن اللہ سے ملاقات کرے تو وہ ان نمازوں کی حفاظت کرے جب بھی ان نمازوں کی اذان دی جائے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لیے طریقے مقرر کردیے اور یہ نمازیں بھی انہی میں سے ہیں۔ اگر تم ان کو گھر میں پڑھو، جیسے جماعت کا چھوڑنے والا کوئی شخص اپنے گھر میں پڑھتا ہے تو یقینا تم نے اپنے نبی علیہ السلام کا طریقہ چھوڑ دیا اور اگر تم نے اپنے نبی کا طریقہ چھوڑ دیا تو یقینا تم گمراہ ہوگئے۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ طہارت حاصل کرے اور اچھی طرح طہارت حاصل کرے، پھر ان مسجدوں میں سے کسی مسجد کا ارادہ کرے مگر اللہ تعالیٰ اس کے ہر اس قدم پر جو وہ اٹھاتا ہے، ایک نیکی لکھتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ گھٹاتا ہے۔ ہم اپنے ساتھیوں کو ایسا دیکھتے تھے کہ جماعت سے غیر حاضر کوئی نہیں ہوتا تھا مگر منافق جس کا نفاق کھلا معلوم ہوتا۔ بسااوقات کوئی آدمی دو شخصوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر چلایا جاتا تھا یہاں تک کہ صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا۔
مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ باب فضل صلاۃ الجماعۃ والتشدید فی التخلف عنہا۔


اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ
بہت بہت شکریہ شیخ نعیم۔ اللہ تعالی آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے آمین
 
Top