• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بارگاہ رسالت میں سانپ کی حاضری

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
بارگاہ رسالت میں سانپ کی حاضری


سوال: بارگاہ رسالت میں سانپ کی حاضری کے عنوان سے ایک ویڈیو کسی پیج پر شیئر کیا گیا تھا جس میں ایک عالم صاحب ایک حدیث بیان کر رہے ہیں کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ اچانک ایک سانپ آیا اور آپ ﷺ کے پہلوئے مبارک میں کھڑا ہو گیا پھر اس نے اپنا منہ پیارے آقا ﷺ کے مبارک کان کے قریب کر لیا گویا آپ سے کان میں کچھ عرض کرنے لگا تو نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں ٹھیک ہے پھر وہ سانپ واپس چلا گیا۔ میں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا تو پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ جنات کا ایک فرد تھا اور وہ یہ کہ گیا ہے کہ آپ اپنی امت کو حکم فرما دیجئے کہ وہ گوبر اور پرانی ہڈی سے استنجا نہ کیا کریں۔ اس لئے کہ اللہ ﷻ نے اس میں ہمارا رزق بنا دیا ہے۔ (لقط المرجان)
مجھے اس کی تحقیق مطلوب ہے!


جواب: یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ مجھے باسند کہیں نہیں مل سکی اور جس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے یعنی ”لقط المرجان“ اس میں بھی یہ روایت باسند موجود نہیں۔ ”لقط المرجان“ کے الفاظ ہیں:
وروى ابن العربي بسنده عن جابر بن عبد الله قال: بينا أنا مع رسول الله ﷺ إذ جاءت حية فقامت إلى جنبه فأدنت فمها من أذنه وكأنها تناجيه، فقال النبي ﷺ: نعم، فانصرفت، فسألته، فأخبرني أنه رجل من الجن، وأنه قال: مر أمتك الا يستنجوا بالروث ولا بالرمة، فإن الله جعل لنا في ذلك رزقا
(لقط المرجان فی احکام الجان للسیوطی ط مکتبۃ القرآن: 26)

اس کے علاوہ درج ذیل علماء نے بھی اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے:
1) عبد الرحمن بن عبد اللہ بن احمد الخثعمی السہيلی:
وروينا في حديث سمعته يقرأ على الشيخ الحافظ أبي بكر بن العربي بسنده إلى جابر بن عبد الله، قال بينا أنا مع رسول الله ﷺ نمشي إذ جاءت حية فقامت إلى جنبه وأدنت فاها من أذنه وكانت تناجيه أو نحو هذا، فقال النبي ﷺ "نعم" فانصرفت قال جابر فسألته، فأخبرني أنه رجل من الجن، وأنه قال له مر أمتك لا يستنجوا بالروث ولا بالرمة فإن الله جعل لنا في ذلك رزقا
(الروض الانف للسہیلی ط دار احياء التراث العربی: 5/32)

2) محمد بن عبد اللہ الشبلی:
وروى ابن العربي بسنده إلى جابر ابن عبد الله قال بينا أنا مع رسول الله ﷺ يمشى إذ جاءت حية فقامت إلى جنبه فأدنت فاها من أذنه وكأنها تناجيه أو نحو هذا فقال النبي ﷺ نعم فانصرفت قال جابر فسألته فأخبرني أنه رجل من الجن وأنه قال مر أمتك لايستنجوا بالروث ولا بالرمة فإن الله جعل لنا في ذلك رزقا
(آکام المرجان فی احکام الجان للشبلی ط مکتبۃ القرآن: 56)

3) نور الدین الحلبی:
وعن جابر بن عبد الله رضي الله تعالى عنهما قال «بينا أنا مع رسول الله ﷺ أمشي إذ جاءت حية فقامت إلى جنبه ﷺ وأدنت فاها من أذنه وكأنها تناجيه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: نعم فانصرفت، قال جابر: فسألته، فأخبرني أنه رجل من الجن، وأنه قال له مر أمتك لا يستنجوا بالروث ولا بالرمة: أي العظم، لأن الله تعالى جعل لنا في ذلك رزقا
(السیرۃ الحلبیہ: دار الكتب العلميۃ: 2/510)

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی نے بھی اس روایت کی سند ذکر نہیں کی ہے صرف ابن العربی کی طرف اس روایت کو منسوب کر دیا ہے حالانکہ ابن العربی کی کتب میں بھی یہ روایت مجھے نہیں مل سکی۔ گویا کہ یہ روایت بلا سند مروی ہے لہٰذا اس کی نسبت ان الفاظ کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ جنوں کے وفد کا آپ ﷺکے پاس آنا اور آپکا ہڈی اور گوبر سے استنجا کرنے سے منع کرنا دونوں باتیں ثابت ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث موجود ہے:
عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَلْقَمَةَ هَلْ كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ شَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: فَقَالَ عَلْقَمَةُ، أَنَا سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقُلْتُ: هَلْ شَهِدَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: لَا وَلَكِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَفَقَدْنَاهُ فَالْتَمَسْنَاهُ فِي الْأَوْدِيَةِ وَالشِّعَابِ. فَقُلْنَا: اسْتُطِيرَ أَوِ اغْتِيلَ. قَالَ: فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا هُوَ جَاءٍ مِنْ قِبَلَ حِرَاءٍ. قَالَ: فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ فَقَدْنَاكَ فَطَلَبْنَاكَ فَلَمْ نَجِدْكَ فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ. فَقَالَ: «أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ فَذَهَبْتُ مَعَهُ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ» قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَا فَأَرَانَا آثَارَهُمْ وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ وَسَأَلُوهُ الزَّادَ فَقَالَ: " لَكُمْ كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا يَكُونُ لَحْمًا وَكُلُّ بَعْرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلَا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا فَإِنَّهُمَا طَعَامُ إِخْوَانِكُمْ»
ترجمہ (مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری): عامر (بن شراحیل) سے روایت ہے، کہا: میں نے علقمہ سے پوچھا: کیا جنوں (سے ملاقات) کی رات عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے؟ کہا: علقمہ نے جواب دیا: میں نے خود ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ لوگوں میں سے کوئی لیلۃ الجن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں، لیکن ایک رات ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو ہم نے آپ ﷺ کو گم پایا، ہم نے آپ کو وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا، (آپ نہ ملے) تو ہم نے کہا کہ آپ کو اڑا لیا گیا ہے یا آپ کو بے خبری میں قتل کر دیا گیا ہے، کہا: ہم نے بدترین رات گزاری جو کسی قوم نے (کبھی) گزاری ہوگی۔ جب ہم نے صبح کی تو اچانک دیکھا کہ آپ حراء کی طرف سے تشریف لا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو گم پایا تو آپ کی تلاش شروع کر دی لیکن آپ نہ ملے، اس لئے ہم نے وہ بدترین رات گزاری جو کوئی قوم (کبھی) گزار سکتی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا: ”میرے پاس جنوں کی طرف سے دعوت دینے والا آیا تو میں اس کے ساتھ گیا اور میں نے ان کے سامنے قرآن کی قراءت کی۔‘‘ انہوں نے کہا: پھر آپ (ﷺ) ہمیں لے کر گئے اور ہمیں ان کے نقوش قدم اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ جنوں نے آپ سے زاد (خوراک) کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تمہارے لیے ہر وہ ہڈی ہے جس (کے جانور) پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور تمہارے ہاتھ لگ جائے، (اس پر لگا ہوا) گوشت جتنا زیادہ سے زیادہ ہو اور (ہر نرم قدموں والے اونٹ اور کٹے سموں والے) جانور کی لید تمہارے جانوروں کا چارہ ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے (انسانوں سے) فرمایا: ’’تم ان دونوں چیزوں سے استنجانہ کیا کرو کیونکہ یہ دونوں (دین میں) تمہارے بھائیوں (جنوں اور ان کے جانوروں) کا کھانا ہیں۔‘‘
(صحیح مسلم: 450)

لہذا صحیح روایات کو بیان کیا جانا چاہئے بلا سند اور ضعیف روایات بیان کرنے سے بچنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عمر اثری عاشق علی اثری
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بارک اللہ فیک
 
Top