• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باپ کی وفات پر دادا اور دادی کی موجودگی میں بچوں کی وراثت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک لڑکا دو بیٹے دنیا میں چھوڑ کر دنیائے فانی سے چلا جاتا ہے۔اور مرحوم کے والدین یعنی بچوں کے دادا دادی حیات ہیں۔ان لڑکوں کی ماں مرحوم کے بھائی سے شادی کرلیتی ہے۔یعنی وہ اپنے دیور سے شادی کرلیتی ہے۔
دادا دادی اپنی حیات میں ہی وراثت تقسیم کرنا چاہتے ہیں ۔تو کیا یہ بچے وراثت کے مستحق ہیں یا نہیں ۔؟ اگر نہیں تو اوکے اور اگر ہیں تو پھر کتنا حصہ ملے گا۔
رشتہ دار
دادا،دادی،تین بہنیں،چار پھوپھیاں،تین بھائی، مرحوم کےدوبچے،
کل ترکہ ایک کروڑ بیس لاکھ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک لڑکا دو بیٹے دنیا میں چھوڑ کر دنیائے فانی سے چلا جاتا ہے۔اور مرحوم کے والدین یعنی بچوں کے دادا دادی حیات ہیں۔ان لڑکوں کی ماں مرحوم کے بھائی سے شادی کرلیتی ہے۔یعنی وہ اپنے دیور سے شادی کرلیتی ہے۔
دادا دادی اپنی حیات میں ہی وراثت تقسیم کرنا چاہتے ہیں ۔تو کیا یہ بچے وراثت کے مستحق ہیں یا نہیں ۔؟ اگر نہیں تو اوکے اور اگر ہیں تو پھر کتنا حصہ ملے گا؟
رشتہ دار
دادا،دادی،تین بہنیں،چار پھوپھیاں،تین بھائی، مرحوم کےدوبچے،
کل ترکہ ایک کروڑ بیس لاکھ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللہ، اما بعد!
1. میت کے ماں باپ کی موجودگی میں میت کے بچے اور بیوی وارث ہوں گے۔ ان کے وارث ہونے میں کوئی رُکاوٹ موجود نہیں۔
2. بیوہ اگر آگے شادی کر لے، پھر بھی وہ میت کی وارث ہوتی ہے۔ جسے اس کا مقررہ فرضی حصّہ دیا جائے گا۔
3. تقسیم وراثت کا کوئی مسئلہ ہو تو ورثا کا تذکرہ میت کے اعتبار سے کرنا چاہئے نہ کہ میت کی کسی اولاد یا اس کے ماں باپ کے اعتبار سے۔ زیر نظر سوال میں ورثا کا تذکرہ میت کے بیٹے یا بیٹی کے اعتبار سے کیا گیا ہے۔ حالانکہ ورثا کا تذکرہ اس طرح ہونا چاہئے تھا: ماں، باپ، بیوی، 4 بہنیں، 3 بھائی اور 3 بیٹیاں اور 2 بیٹے (اگر میں غلط سمجھا ہوں تو اصلاح کر دی جائے۔ اس کے مطابق دوبارہ وضاحت کر دی جائے گی۔ ان شاء اللہ)
4. میت کی اولاد کی موجودگی کی بناء پر والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہوگا، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَ‌كَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ﴾ ... النساء: 11 کہ ’’اگر میت صاحب اولاد ہو تواس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا۔‘‘
اولاد کی موجودگی کی ہی وجہ سے بیوی کا حصّہ آٹھواں ہوگا، فرمان باری: ﴿ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَ‌كْتُم ﴾ ... النساء: 12 کہ ’’پس اگر تمہاری (مرنے والے شوہر) کی اولاد ہو تو اُن (بیویوں) کا ترکہ میں سے آٹھواں حصّہ ہوگا۔‘‘
جبکہ باقی سارا مال اولاد میں (مرد کیلئے عورت سے دُگنا) کے اصول پر تقسیم کر دیا جائے گا، فرمان باری ہے: ﴿ يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْن ﴾ ۔۔۔ النساء: 11 کہ ’’ تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتے ہیں کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔‘‘
بہن بھائی بیٹوں کی وجہ سے محروم ہیں۔

771428
کل ترکہ
24168
12000000
ماں6؍1428
2000000
باپ
6؍1428
2000000
بیوی
8؍1321
1500000
3 بیٹیاں
2 بیٹے
باقی
13
39 (ہر لڑکی کو 13)
52 (ہر لڑکے کو 26)
2785714 (928571)
3714286 (1857143)


واللہ اعلم!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللہ، اما بعد!
1. میت کے ماں باپ کی موجودگی میں میت کے بچے اور بیوی وارث ہوں گے۔ ان کے وارث ہونے میں کوئی رُکاوٹ موجود نہیں۔
جزاک اللہ واحسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ
2. بیوہ اگر آگے شادی کر لے، پھر بھی وہ میت کی وارث ہوتی ہے۔ جسے اس کا مقررہ فرضی حصّہ دیا جائے گا۔
اوکے۔یعنی میت کی بیوی میت کے بھائی سے شادی کرلیتی ہے تو میت کو ماں باپ سے ملنے والی وراثت کی بھی حصہ دار ہوگی۔اور جو وراثت میت کے ماں باپ کی طرف سے اس کے بھائی کو ملے گی۔اس کی بھی وارث ہوگی۔
3. تقسیم وراثت کا کوئی مسئلہ ہو تو ورثا کا تذکرہ میت کے اعتبار سے کرنا چاہئے نہ کہ میت کی کسی اولاد یا اس کے ماں باپ کے اعتبار سے۔
جزاک اللہ انس بھائی جان آئندہ اس بات کا خیال رکھا جائے گا۔
زیر نظر سوال میں ورثا کا تذکرہ میت کے بیٹے یا بیٹی کے اعتبار سے کیا گیا ہے۔ حالانکہ ورثا کا تذکرہ اس طرح ہونا چاہئے تھا: ماں، باپ، بیوی، 4 بہنیں، 3 بھائی اور 3 بیٹیاں اور 2 بیٹے (اگر میں غلط سمجھا ہوں تو اصلاح کر دی جائے۔ اس کے مطابق دوبارہ وضاحت کر دی جائے گی۔ ان شاء اللہ)
جی بالکل آپ نے صحیح فرمایا ۔دوبارہ ذکر کردیتا ہوں۔لیکن ذکر سے پہلے ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ جو میت ہے اس کو اپنے والدین سے وراثت نہیں ملی۔کیونکہ والدین کے حیات ہونے کی وجہ سے ابھی تک وراثت تقسیم ہی نہیں ہوئی۔یعنی جب میت فوت ہوتا ہے تو اس کے اپنے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ اس کے پاس وہ مال ہوتا ہے جو ماں باپ سے اس کو وراثت میں ملنا تھا ابھی تک ملا نہیں تھا۔
میت کے ماں باپ،بیوی،دوبچے،تین بھائی،تین بہنیں،چار پھوپھیاں،اور ہاں میں نے اس وجہ سے ماقبل طریقہ سے بیان کیا تھا کیونکہ میت کو ماں باپ سے ابھی تک وراثت ملی ہی نہ تھی۔اگر میت کی ذاتی کوئی وراثت ہوتی تو پھر آپ نے جو فرمایا اسی طرح بیان کیا جاتا۔مزید آپ تصحیح فرمادیں۔
یہاں پر ایک سوال ہے وہ یہ کہ میت کی اولاد صرف میت کی وراثت سے حصہ لے گی یا دادا،دادی کی وراثت سے بھی حصہ لے گی ؟ یعنی جو حصہ میت کو ماں باپ کی وراثت سے ملے گا۔وہ صرف میت کی بیوی اور میت کے بچوں میں تقسیم ہوگا۔؟ کیونکہ آپ نے کہا
بہن بھائی بیٹوں کی وجہ سے محروم ہیں۔
4. میت کی اولاد کی موجودگی کی بناء پر والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہوگا، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَ‌كَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ﴾ ... النساء: 11 کہ ’’اگر میت صاحب اولاد ہو تواس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا۔‘‘
اولاد کی موجودگی کی ہی وجہ سے بیوی کا حصّہ آٹھواں ہوگا، فرمان باری: ﴿ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَ‌كْتُم ﴾ ... النساء: 12 کہ ’’پس اگر تمہاری (مرنے والے شوہر) کی اولاد ہو تو اُن (بیویوں) کا ترکہ میں سے آٹھواں حصّہ ہوگا۔‘‘
جبکہ باقی سارا مال اولاد میں (مرد کیلئے عورت سے دُگنا) کے اصول پر تقسیم کر دیا جائے گا، فرمان باری ہے: ﴿ يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْن ﴾ ۔۔۔ النساء: 11 کہ ’’ تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتے ہیں کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔‘‘
جزاک اللہ
نوٹ
ایک اہم بات ذہن میں ضرور رکھیں یہ وہ وراثت ہے جو ماں باپ کےحیات میں تقسیم کی جارہی ہے۔کیونکہ والدین چاہتے ہیں کہ ہماری موجودگی میں وراثت تقسیم کردی جائے۔اور تمام کو اپنا اپنا حصہ مل جائے۔
اور ماں باپ کے بیٹوں میں ایک بیٹا وفات پا چکا ہے اور اس کے دو بیٹوں کےساتھ اس کی بیوی نے آگے اس کے بھائی سے شادی کرلی ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اوکے۔یعنی میت کی بیوی میت کے بھائی سے شادی کرلیتی ہے تو میت کو ماں باپ سے ملنے والی وراثت کی بھی حصہ دار ہوگی۔اور جو وراثت میت کے ماں باپ کی طرف سے اس کے بھائی کو ملے گی۔اس کی بھی وارث ہوگی۔
جی بالکل آپ نے صحیح فرمایا ۔دوبارہ ذکر کردیتا ہوں۔لیکن ذکر سے پہلے ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ جو میت ہے اس کو اپنے والدین سے وراثت نہیں ملی۔کیونکہ والدین کے حیات ہونے کی وجہ سے ابھی تک وراثت تقسیم ہی نہیں ہوئی۔یعنی جب میت فوت ہوتا ہے تو اس کے اپنے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ اس کے پاس وہ مال ہوتا ہے جو ماں باپ سے اس کو وراثت میں ملنا تھا ابھی تک ملا نہیں تھا۔
میت کے ماں باپ،بیوی،دوبچے،تین بھائی،تین بہنیں،چار پھوپھیاں،اور ہاں میں نے اس وجہ سے ماقبل طریقہ سے بیان کیا تھا کیونکہ میت کو ماں باپ سے ابھی تک وراثت ملی ہی نہ تھی۔اگر میت کی ذاتی کوئی وراثت ہوتی تو پھر آپ نے جو فرمایا اسی طرح بیان کیا جاتا۔مزید آپ تصحیح فرمادیں۔
نہیں بھائی! آپ بالکل غلط سمجھے۔ میں نے یہ جو ساری تفصیل بیان کی ہے، یہ سمجھ کر کی ہے کہ یہ ترکہ (ایک کروڑ بیس لاکھ) میت کا ہے۔

اگر یہ ترکہ میت کا نہیں بلکہ یہ اس کے ماں باپ یا صرف باپ کا مال ہے اور وہ زندہ ہیں تو اسے ترکہ کہنا ہی صحیح نہیں کیونکہ ’ترکہ‘ سے مراد مرتے وقت چھوڑی ہوئی جائیداد ہوتی ہے۔

قرآن وحدیث میں تقسیم وراثت کی جو ساری تقسیم بیان ہوئی ہے وہ ’ترکہ‘ (یعنی مرتے وقت چھوڑے ہوئے مال) سے ہے۔

اگر یہ شخص (میت) ماں باپ کی زندگی میں فوت ہوگیا ہے تو یہ ماں باپ کے ترکہ کا وارث نہیں ہوگا۔ کیونکہ وارث ہونے کیلئے شرط ہے کہ وہ میت کی وفات کے وقت زندہ ہو۔ اگر کوئی بیٹا ماں باپ کی زندگی میں فوت ہوجائے تو وہ ترکہ میں کسی شے کا حق دار نہیں ہوتا۔
ہاں ماں باپ میں سے کسی کے فوت ہونے پر اس وقت زندہ ورثا ہی ان کے ترکہ کے وارث ہوں گے۔

یہ عورت صرف اور صرف میت کے ترکہ (خواہ وہ تھوڑا ہے یا زیادہ) کی وارث ہے۔ ماں باپ کے مال کی نہیں۔

ہاں اگر ماں باپ فوت ہوجاتے ہیں اور ان کا ترکہ ان کی اولاد میں تقسیم کر دیا جاتا ہے یا ماں باپ یہ مال اپنی اولاد میں عدل کے بعد ہبہ کر دیتے ہیں ، جن میں اس عورت کا حالیہ شوہر (جو پہلے دیور تھا) بھی شامل ہے اور پھر یہ شوہر بھی فوت ہوجائے اور یہ عورت زندہ ہو تو یہ اپنے شوہر کے ترکہ میں حق دار ہوگی۔

یہاں پر ایک سوال ہے وہ یہ کہ میت کی اولاد صرف میت کی وراثت سے حصہ لے گی یا دادا،دادی کی وراثت سے بھی حصہ لے گی ؟ یعنی جو حصہ میت کو ماں باپ کی وراثت سے ملے گا۔وہ صرف میت کی بیوی اور میت کے بچوں میں تقسیم ہوگا۔؟ کیونکہ آپ نے کہا کہ
بہن بھائی بیٹوں کی وجہ سے محروم ہیں۔
میں پہلے واضح کر چکا ہوں کہ مرنے والا شخص چونکہ ماں باپ سے پہلے فوت ہوچکا ہے، لہٰذا اب وہ اپنے ماں یا باپ کے ترکہ میں شرعاً وارث نہیں ہوگا۔
میت کا پوتا پوتی اپنے دادا یا دادی کے وارث ہو سکتے ہیں کہ اگر ان کی وفات کے وقت ان کا کوئی بیٹا موجود نہ ہو۔ (اگرچہ بیٹیوں کی صورت میں اس میں کچھ مزید تفصیل بھی ہے۔) حالیہ مسئلے میں اگر دادا دادی فوت ہوجاتے ہیں اور ان کی اپنی اولاد (بیٹا، بیٹی) موجود ہوں تو پوتا پوتی شرعاً وارث نہ ہوں گے۔ الا یہ کہ وہ ان کے لئے کچھ وصیت کر جائیں۔

نوٹ:
ایک اہم بات ذہن میں ضرور رکھیں یہ وہ وراثت ہے جو ماں باپ کی حیات میں تقسیم کی جارہی ہے۔کیونکہ والدین چاہتے ہیں کہ ہماری موجودگی میں وراثت تقسیم کردی جائے۔اور تمام کو اپنا اپنا حصہ مل جائے۔
اور ماں باپ کے بیٹوں میں ایک بیٹا وفات پا چکا ہے اور اس کے دو بیٹوں کےساتھ اس کی بیوی نے آگے اس کے بھائی سے شادی کرلی ہے۔
نہیں بھئی! ماں باپ کی زندگی میں ان کی وراثت تقسیم نہیں ہو سکتی، کیونکہ تقسیم وراثت کا تعلق مرنے والے کے ترکہ سے ہوتا ہے اور وہ میت کی وفات کے وقت اس کے صرف زندہ ورثا میں تقسیم ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں مرنے والا اپنی وراثت خود تقسیم نہیں کرتا، اس کی تقسیم تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے لے کر اس کی وفات کے بعد اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُ‌ونَ أَيُّهُمْ أَقْرَ‌بُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِ‌يضَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾ ... النساء: 11
کہ ’’تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہچانے میں زیاده قریب ہے، (لہٰذا) یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کرده ہیں بے شک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔‘‘

ویسے بھی کوئی شخص خواہ وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہو اگر اپنی زندگی میں شرعی طریقے سے بھی اپنی وراثت تقسیم کرنا چاہے تو یہ صحیح نہیں کیونکہ کوئی پتہ نہیں کہ اس کے وفات کے وقت کون کون ورثا نئے پیدا ہوجائیں گے اور کون کون اس کے مرنے سے پہلے فوت ہوچکے ہوں گے؟؟؟

ہاں البتہ اپنی زندگی میں اپنا مال ہبہ کیا جا سکتا ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اگر یہ شخص (میت) ماں باپ کی زندگی میں فوت ہوگیا ہے تو یہ ماں باپ کے ترکہ کا وارث نہیں ہوگا۔ کیونکہ وارث ہونے کیلئے شرط ہے کہ وہ میت کی وفات کے وقت زندہ ہو۔ اگر کوئی بیٹا ماں باپ کی زندگی میں فوت ہوجائے تو وہ ترکہ میں کسی شے کا حق دار نہیں ہوتا۔
ہاں ماں باپ میں سے کسی کے فوت ہونے پر اس وقت زندہ ورثا ہی ان کے ترکہ کے وارث ہوں گے۔
جزاک اللہ واحسن الجزاء انس بھائی جان آپ نے تفصیلی جواب عنایت فرمایا۔لیکن ایک سوال جو بنیاد تھا وہ ابھی باقی ہی ہے ۔یہ تو کنفرم ہوگیا کہ وفات پا جانے والا بیٹا والدین کے مال کا وارث نہیں ۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ میت کی اولاد اور بیوی میت کے والدین کے مال کی وارث ہوگی یا نہیں ۔؟ جب کہ والدین ابھی زندہ ہوں ۔ یا فوت بھی ہوگئے ہوں ۔دونوں صورتوں میں کیا امر ہے۔؟
کیونکہ جھگڑا اس بات پر ہے۔کہ مال کو جب تقسیم کیا جانے لگا تو پھر یہ خیال پیدا ہوا کہ آیا میت کی اولاد یا بیوی میت کے والدین کے مال کی وارث ہے بھی کہ نہیں ۔زندگی میں یا چاہے وفات کے بعد۔؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاک اللہ واحسن الجزاء انس بھائی جان آپ نے تفصیلی جواب عنایت فرمایا۔لیکن ایک سوال جو بنیاد تھا وہ ابھی باقی ہی ہے ۔یہ تو کنفرم ہوگیا کہ وفات پا جانے والا بیٹا والدین کے مال کا وارث نہیں ۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ میت کی اولاد اور بیوی میت کے والدین کے مال کی وارث ہوگی یا نہیں ۔؟ جب کہ والدین ابھی زندہ ہوں ۔ یا فوت بھی ہوگئے ہوں ۔دونوں صورتوں میں کیا امر ہے۔؟
کیونکہ جھگڑا اس بات پر ہے۔کہ مال کو جب تقسیم کیا جانے لگا تو پھر یہ خیال پیدا ہوا کہ آیا میت کی اولاد یا بیوی میت کے والدین کے مال کی وارث ہے بھی کہ نہیں ۔زندگی میں یا چاہے وفات کے بعد۔؟
بھائی! پہلے وضاحت کرچکا ہوں کہ زندگی میں تقسیم ترکہ کا کوئی تک نہیں بنتا، کیا معلوم کہ میت کی وفات کے وقت کون سے نئے ورثا وجود میں آجاتے ہیں یا کون کون فوت ہو جاتے ہیں۔
البتہ زندگی میں کسی کو اپنا مال ہبہ کیا جا سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو مجبور تو نہیں کیا جا سکتا کہ لازماً فلاں فلاں شخص کو ہبہ کیا جائے، وہ جس کو چاہے ہبہ کر سکتا ہے۔ البتہ اولاد کو ہبہ کرنے کی صورت میں عدل لازمی ہے۔

واللہ اعلم!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جزاک اللہ واحسن الجزاء انس بھائی جان آپ نے تفصیلی جواب عنایت فرماکر مسئلہ کو حل کیا۔اللہ تعالی آپ کو اس کے بدلہ میں جنت الفردوس میں اعلی مقام دے۔آمین
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاک اللہ واحسن الجزاء انس بھائی جان آپ نے تفصیلی جواب عنایت فرماکر مسئلہ کو حل کیا۔اللہ تعالی آپ کو اس کے بدلہ میں جنت الفردوس میں اعلی مقام دے۔آمین
وایاک
 
Top