اوکے۔یعنی میت کی بیوی میت کے بھائی سے شادی کرلیتی ہے تو میت کو ماں باپ سے ملنے والی وراثت کی بھی حصہ دار ہوگی۔اور جو وراثت میت کے ماں باپ کی طرف سے اس کے بھائی کو ملے گی۔اس کی بھی وارث ہوگی۔
جی بالکل آپ نے صحیح فرمایا ۔دوبارہ ذکر کردیتا ہوں۔لیکن ذکر سے پہلے ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ جو میت ہے اس کو اپنے والدین سے وراثت نہیں ملی۔کیونکہ والدین کے حیات ہونے کی وجہ سے ابھی تک وراثت تقسیم ہی نہیں ہوئی۔یعنی جب میت فوت ہوتا ہے تو اس کے اپنے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ اس کے پاس وہ مال ہوتا ہے جو ماں باپ سے اس کو وراثت میں ملنا تھا ابھی تک ملا نہیں تھا۔
میت کے ماں باپ،بیوی،دوبچے،تین بھائی،تین بہنیں،چار پھوپھیاں،اور ہاں میں نے اس وجہ سے ماقبل طریقہ سے بیان کیا تھا کیونکہ میت کو ماں باپ سے ابھی تک وراثت ملی ہی نہ تھی۔اگر میت کی ذاتی کوئی وراثت ہوتی تو پھر آپ نے جو فرمایا اسی طرح بیان کیا جاتا۔مزید آپ تصحیح فرمادیں۔
نہیں بھائی! آپ بالکل غلط سمجھے۔ میں نے یہ جو ساری تفصیل بیان کی ہے، یہ سمجھ کر کی ہے کہ یہ ترکہ (ایک کروڑ بیس لاکھ) میت کا ہے۔
اگر یہ ترکہ میت کا نہیں بلکہ یہ اس کے ماں باپ یا صرف باپ کا مال ہے اور وہ زندہ ہیں تو اسے ترکہ کہنا ہی صحیح نہیں کیونکہ ’ترکہ‘ سے مراد مرتے وقت چھوڑی ہوئی جائیداد ہوتی ہے۔
قرآن وحدیث میں تقسیم وراثت کی جو ساری تقسیم بیان ہوئی ہے وہ ’ترکہ‘ (یعنی مرتے وقت چھوڑے ہوئے مال) سے ہے۔
اگر یہ شخص (میت) ماں باپ کی زندگی میں فوت ہوگیا ہے تو یہ ماں باپ کے ترکہ کا وارث نہیں ہوگا۔ کیونکہ وارث ہونے کیلئے شرط ہے کہ وہ میت کی وفات کے وقت زندہ ہو۔ اگر کوئی بیٹا ماں باپ کی زندگی میں فوت ہوجائے تو وہ ترکہ میں کسی شے کا حق دار نہیں ہوتا۔
ہاں ماں باپ میں سے کسی کے فوت ہونے پر اس وقت زندہ ورثا ہی ان کے ترکہ کے وارث ہوں گے۔
یہ عورت صرف اور صرف میت کے ترکہ (خواہ وہ تھوڑا ہے یا زیادہ) کی وارث ہے۔ ماں باپ کے مال کی نہیں۔
ہاں اگر ماں باپ فوت ہوجاتے ہیں اور ان کا ترکہ ان کی اولاد میں تقسیم کر دیا جاتا ہے یا ماں باپ یہ مال اپنی اولاد میں عدل کے بعد ہبہ کر دیتے ہیں ، جن میں اس عورت کا حالیہ شوہر (جو پہلے دیور تھا) بھی شامل ہے اور پھر یہ شوہر بھی فوت ہوجائے اور یہ عورت زندہ ہو تو یہ اپنے شوہر کے ترکہ میں حق دار ہوگی۔
یہاں پر ایک سوال ہے وہ یہ کہ میت کی اولاد صرف میت کی وراثت سے حصہ لے گی یا دادا،دادی کی وراثت سے بھی حصہ لے گی ؟ یعنی جو حصہ میت کو ماں باپ کی وراثت سے ملے گا۔وہ صرف میت کی بیوی اور میت کے بچوں میں تقسیم ہوگا۔؟ کیونکہ آپ نے کہا کہ
بہن بھائی بیٹوں کی وجہ سے محروم ہیں۔
میں پہلے واضح کر چکا ہوں کہ مرنے والا شخص چونکہ ماں باپ سے پہلے فوت ہوچکا ہے، لہٰذا اب وہ اپنے ماں یا باپ کے ترکہ میں شرعاً وارث نہیں ہوگا۔
میت کا پوتا پوتی اپنے دادا یا دادی کے وارث ہو سکتے ہیں کہ اگر ان کی وفات کے وقت ان کا کوئی بیٹا موجود نہ ہو۔ (اگرچہ بیٹیوں کی صورت میں اس میں کچھ مزید تفصیل بھی ہے۔) حالیہ مسئلے میں اگر دادا دادی فوت ہوجاتے ہیں اور ان کی اپنی اولاد (بیٹا، بیٹی) موجود ہوں تو پوتا پوتی شرعاً وارث نہ ہوں گے۔ الا یہ کہ وہ ان کے لئے کچھ وصیت کر جائیں۔
نوٹ:
ایک اہم بات ذہن میں ضرور رکھیں یہ وہ وراثت ہے جو ماں باپ کی حیات میں تقسیم کی جارہی ہے۔کیونکہ والدین چاہتے ہیں کہ ہماری موجودگی میں وراثت تقسیم کردی جائے۔اور تمام کو اپنا اپنا حصہ مل جائے۔
اور ماں باپ کے بیٹوں میں ایک بیٹا وفات پا چکا ہے اور اس کے دو بیٹوں کےساتھ اس کی بیوی نے آگے اس کے بھائی سے شادی کرلی ہے۔
نہیں بھئی! ماں باپ کی زندگی میں ان کی وراثت تقسیم نہیں ہو سکتی، کیونکہ تقسیم وراثت کا تعلق مرنے والے کے ترکہ سے ہوتا ہے اور وہ میت کی وفات کے وقت اس کے صرف زندہ ورثا میں تقسیم ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں مرنے والا اپنی وراثت خود تقسیم نہیں کرتا، اس کی تقسیم تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے لے کر اس کی وفات کے بعد اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾ ... النساء: 11
کہ ’’تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہچانے میں زیاده قریب ہے، (لہٰذا) یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کرده ہیں بے شک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔‘‘
ویسے بھی کوئی شخص خواہ وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہو اگر اپنی زندگی میں شرعی طریقے سے بھی اپنی وراثت تقسیم کرنا چاہے تو یہ صحیح نہیں کیونکہ کوئی پتہ نہیں کہ اس کے وفات کے وقت کون کون ورثا نئے پیدا ہوجائیں گے اور کون کون اس کے مرنے سے پہلے فوت ہوچکے ہوں گے؟؟؟
ہاں البتہ اپنی زندگی میں اپنا مال ہبہ کیا جا سکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم!