• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدامنی اورفتنوں کاانسدادتعلیم کےذریعےممکن ہے۔((ظفر اقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
  1. ((ظفر اقبال ظفر))
بدامنی اورفتنوں کاانسدادتعلیم کےذریعےمکن ہے۔
ارشاد نبوی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "آئندہ زمانے میں علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت اور فتنے عام ہوں گے اور ہرج زیادہ ہو گا۔" عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہرج کیا چیز ہے؟ آپ نے اپنے دست مبارک سے اس طرح ترچھا اشارہ کر کے فرمایا، گویا آپ کی مراد قتل تھی۔
(صحیح بخاری‘کتاب العلم ‘ رقم الدیث:85)
علم حاصل نہ کرنےکے نقصانات اور اس سے پیدا ہونے والے فتنوں کی طرف اشارہ ہے کہ علم حاصل نہ کرنے کے کسی بھی معاشرے یا قوم پر کیااثرات ہو سکتے ہیں۔ذیل میں ہم اس بات کی طرف اشارہ کیے دیتے ہیں۔
جہالت کا عام ہونا
آج ہمارے نظام تعلیم کا یہ المیہ ہے کہ تعلیمی ادارے ایک دکان کی نیت سے تعمیر کئے جاتے ہیں۔ تعلیمی نظام ایک منافع بخش کاروبارخیال کیا جانے لگا ہے۔ جس میں تعلیم یافتہ لوگ اپنا کاروبار کررہے ہیں اسی لیے پہلے تو علم حاصل کرنے سے انسان اللہ پاک کے قریب ہوتا تھا پر آج دور ہو رہا ہے۔ علم سے انسان میں نرمی اور احساس پیدا ہوتا تھا پر آج اتنے ہی سخت دل اور بے حس بن رہے ہیں۔پہلے علم حاصل کرنے سے طالبِ علم اپنے بڑوں کی اساتذہ کی عزّت و احترام کرتا تھا پر آج ان سے زبان درازی بد تمیزی کرتا دیکھائی دیتا ہے۔تعلیم سے جو انسان میں انسانیت اپنائیت اور احساس پیدا ہونا تھا وہ ہماری نسلیں بھول رہی ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کہ باوجود وہ کفر کا راستہ بھی اپنا لیتے ہیں اپنے مذہب سے دور‘ الحاد اور گمراہی کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں۔جس سے آئے روز جہالت اور بے روز گاری کا جن سر چڑھ کر بولنے لگا ہے ۔
قتل و غارت گری کا عام ہونا
مذکورہ حدیث میں جب صحابہ کرام نے عرض کیا گیا:
یا رسول اللہ! ہرج کیا چیز ہے؟ آپ نے اپنے دست مبارک سے اس طرح ترچھا اشارہ کر کے فرمایا، گویا آپ کی مراد قتل تھی۔

تفرقہ بازی
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
لوگو سب مل کر اللہ کی رسی(یعنی قرآن)مضبوطی سے تھام لیں اور فرقوں میں تقسیم نہ ہو۔(آل عمران:103)
لوگ توحید و سنت پر دین اسلام پر اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرتے کیونکہ وہ اس علم سے محروم ہوتے ہیں جو علم شرعی انہیں جماعت کے ساتھ منسلک رہنے کا حکم دیتا ہے اور کتاب و سنت کو اسکی اساس قرار دیتا ہے۔
جہالت انسان کو بہت سے فرقوں میں تقسیم کردیتی ہے کیونکہ عقائدونظریات میں اختلاف فرقہ بندی کا سبب بنتاہے اور اس اختلاف کی بنیاد علم کی کمی یا جہالت بنتی ہے جہالت کے حملے اسےعقائد و اعمال، اخلاقیات و معاملات کے بگاڑ میں مبتلا کرتے ہیں ،جسکے نتیجے میں خرافات و تعصبات جنم لیتے ہیں اور لوگ مختلف لسانی ، قومی ، ٹولیوں اور گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں کیونکہ لوگ اس علم شرعی سے جاہل ہیں جو انہیں انسانوں کی ایک دوسرے پر برتری کا حقیقی معیارتقوی بتاتا ہے نہ کہ رنگ و نسل۔

گمراہی کی طرف پیش قدمی
یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہے کہ جس طرح غیرمسلح اور کمزور شخص دشمن کے لئے آسان ہدف ثابت ہوتا ہے اسی طرح علم دین سے ناواقف شخص شیطان کا آسان ہدف ثابت ہوتا ہے ، وہ انکی جہالت سے فائدہ اٹھاکر انہیں مختلف قسم کی گمراہیوں میں مبتلا کردیتا ہے،خواہ وہ بڑا عبادت گذار ہی کیوں نہ ہو۔
چنانچہ مشہور مقولہ ہے کہ :

’’العلم بلا عمل کشجر بلا ثمر‘‘
علم عمل کے بغیر اس درخت کی مانند ہے جو دیکھنے میں تو بہت قدآور‘ خوبصورت ہو مگر پھل کے بغیر اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہوتی۔
ایک عالم عمل کے ساتھ اپنے علم کے ذریعے شیطان کا وار پہچان جاتا ہے جبکہ جاہل حلال و حرام کا علم نہ ہونے کے باعث اسکے بچھائے جال میں بآسانی پھنس جاتا ہے ،مسیح دجال جو شر و فساد کا سرخیل ہے وہ بھی لوگوں کی جہالت سے فائدہ اٹھائے گا ،لوگ اس بات سے ناواقف ہوں گے کہ انکے رب حقیقی کی کیا صفات ہیں ، وہ کانا نہیں ، وہ انسانی شکل و صورت نہیں رکھتا نہ ہی وہ گوشت وغیرہ کا بنا ہے نہ اسکی ایسی پیشانی ہے جس پر کافر لکھا ہے ، نہ ہی وہ اپنے ماننے کا مطالبہ کرنے خود مخلوق کے درمیان آتا ہے بلکہ اپنے پیغمبروں کو بھیجتا ہے ، اپنے بندوں سے صرف وحی کے ذریعے خطاب کرتا ہے اور دنیا کی کوئی آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی ، وہ حی لا یموت ہے الغرض کوئی بھی اسکی مثل نہیں جبکہ دجال کانا ہوگا، انسانی شکل و صورت میں ہوگا ، گوشت پوست سےبنا ہوگا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام اسے قتل کریں گے، اسکی پیشانی پر کافر لکھا ہوگا، وہ لوگوں سے روبرو ہوکر انہیں براہ راست خطاب کرکے مطالبہ کرے گا کہ وہ اسے رب مانیں اور لوگ اسے دیکھیں گے ، سنیں گے ، اسی طرح لوگ اس بات سے بھی ناواقف ہوں گے کہ اس سے بچنے کے لئے سورۃ الکھف کی ابتدائی دس آیات اہم ہیں ، اسی طرح وہ دجال سے متعلق احادیث صحیحہ سے نابلد ہوں گے اور انکی یہی جہالت دجال کے لئے کار آمد ثابت ہوگی۔

حلال اور حرام ‘ حق اور باطل میں تمیز کا خاتمہ
اس جہل کی بنا پر بسا اوقات انسان خالق اور مخلوق میں تمیز کو فراموش کردیتا ہے لہذا شرک کا مرتکب بن جاتا ہے مثلا مقدس شخصیات اور خالق کے مابین فرق کو فراموش کردینا ، ایسے ہی کبھی مقدس شخصیات کو ان کےصحیح مقام و مرتبہ سے بڑھ کر مقام دےدیتا ہے۔ اسطرح غلو کا شکار بن جاتا ہے بلکہ کبھی یہی غلو اسے شرک میں مبتلا کردیتا ہے ، کبھی سنت اور بدعت میں تمیز نہیں کرپاتا اور بدعت کا شکار بن جاتا ہے ، کبھی حلال اور حرام میں تمیز نہیں کرپاتا اور حرام کا مرتکب بن جاتا ہے ، جبکہ علم ان تمام مصائب سے بچاتا ہے۔
سیدناجابررضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ہم سفر میں تھے کہ ہمار ایک ساتھی سر پر پتھر لگنے سے زخمی ہوگیا ، پھر اسے احتلام ہو گیا ، اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا : کیا تم میرے لئے تیمم کی اجازت پاتے ہو ؟ انہوں نے کہا :ہم تیرے لئے اجازت نہیں پاتے کیونکہ تو پانی استعمال کررسکتا ہے، چنانچہ اس نے غسل کیا پھر مرگیا ، جب ہم نبی مکرمﷺ کے پاس آئے تو آپکو بتایا گیا ، آپ نے فرمایا:اللہ انہیں ہلاک کرے انہوں نے اسے قتل کردیا ، جب انہیں علم نہ تھا انہوں نے پوچھا کیوں نہیں ؟ کیونکہ نابینا کہ لئے پوچھ لینا باعث اطمئنان ہوتا ہے ، دراصل اسکے لئے کافی ہوتا کہ وہ تیمم کرتا اور پٹی باندھ لیتا پھر اس پر مسح کرلیتا اور باقی جسم دھو لیتا ۔
(سنن ابی داؤد،کتاب الطھارۃ،رقم:336)
اللہ تعالی نے انسان کو تمیز کا ملکہ عطا کیا ، وہ اپنے حواس کے ذریعے حسی اشیاء کی حقیقت کو جان سکتا ہے ، لیکن وہ اشیاء جو غیر محسوس ہیں مثلا : سچ یا جھوٹ ، صحیح یا غلط ، جائز و ناجائز ، حلال و حرام وغیرہ انکی حقیقت کا ادراک حواس خمسہ کے ذریعے ممکن نہیں ، ان میں تمیز کے لئے علم کی ضرورت ہے ، اور اگر انکا تعلق شرعی امور سے ہو تو انکے لئے شرعی علم چاہیئے ، اسکے بغیر وہ بے راہ روی کا شکار ہو سکتا ہے۔
سرکشی اور بغاوت
فطری طور پر انسان بہت جلد سرکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے ، شیطان اس کمزوری سے بخوبی واقف ہے لہذا وہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتا ہے اور انسان کو اپنے ہاتھوں کھلونا بنالیتا ہے، اس کا علاج ضروری تھا، وگرنہ معاشرے میں بگاڑ بڑھتا ہی جاتا ، اسکی روک تھام ناممکن ہوجاتی ، اور نتائج انتہائی خطرناک ہوتے ، لہذا اللہ عز و جل نے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا حکم دیا ، تاکہ اس بگاڑ کو پھیلنے سے روکا جاسکے اور معاشرے کے افراد میں خیر کا داعیہ اور شر سے ناھیہ باقی رہے ، لیکن اس فریضے کو ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خیر اور شر کے پیمانے بالتفصیل معلوم ہوں اور یہ بھی کہ نیکی کی اشاعت اور برائی کی روک تھام کا شرعی ضابطہ کیا ، اسکے دلائل کیا ہیں ، اسکا صحیح موقع کیا ہے ، تاکہ یہ فریضہ علی وجہ البصیرۃ ادا ہو اور اسکے حقیقی ثمرات حاصل ہوں ۔
 
Last edited:
Top