• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدر کی لڑائی میں فلاں فلاں مارے جایئں گے.اس کے متعلق آپ صلٰی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کا بیان

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
حدیث نمبر: 3950
حدثني أحمد بن عثمان،‏‏‏‏ حدثنا شريح بن مسلمة،‏‏‏‏ حدثنا إبراهيم بن يوسف،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ عن أبي إسحاق،‏‏‏‏ قال حدثني عمرو بن ميمون،‏‏‏‏ أنه سمع عبد الله بن مسعود ـ رضى الله عنه ـ حدث عن سعد بن معاذ،‏‏‏‏ أنه قال كان صديقا لأمية بن خلف،‏‏‏‏ وكان أمية إذا مر بالمدينة نزل على سعد،‏‏‏‏ وكان سعد إذا مر بمكة نزل على أمية،‏‏‏‏ فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة انطلق سعد معتمرا،‏‏‏‏ فنزل على أمية بمكة،‏‏‏‏ فقال لأمية انظر لي ساعة خلوة لعلي أن أطوف بالبيت‏.‏ فخرج به قريبا من نصف النهار فلقيهما أبو جهل فقال يا أبا صفوان،‏‏‏‏ من هذا معك فقال هذا سعد‏.‏ فقال له أبو جهل ألا أراك تطوف بمكة آمنا،‏‏‏‏ وقد أويتم الصباة،‏‏‏‏ وزعمتم أنكم تنصرونهم وتعينونهم،‏‏‏‏ أما والله لولا أنك مع أبي صفوان ما رجعت إلى أهلك سالما‏.‏ فقال له سعد ورفع صوته عليه أما والله لئن منعتني هذا لأمنعنك ما هو أشد عليك منه طريقك على المدينة‏.‏ فقال له أمية لا ترفع صوتك يا سعد على أبي الحكم سيد أهل الوادي‏.‏ فقال سعد دعنا عنك يا أمية،‏‏‏‏ فوالله لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنهم قاتلوك‏.‏ قال بمكة قال لا أدري‏.‏ ففزع لذلك أمية فزعا شديدا،‏‏‏‏ فلما رجع أمية إلى أهله قال يا أم صفوان،‏‏‏‏ ألم ترى ما قال لي سعد قالت وما قال لك قال زعم أن محمدا أخبرهم أنهم قاتلي،‏‏‏‏ فقلت له بمكة قال لا أدري‏.‏ فقال أمية والله لا أخرج من مكة،‏‏‏‏ فلما كان يوم بدر استنفر أبو جهل الناس قال أدركوا عيركم‏.‏ فكره أمية أن يخرج،‏‏‏‏ فأتاه أبو جهل فقال يا أبا صفوان،‏‏‏‏ إنك متى ما يراك الناس قد تخلفت وأنت سيد أهل الوادي تخلفوا معك،‏‏‏‏ فلم يزل به أبو جهل حتى قال أما إذ غلبتني،‏‏‏‏ فوالله لأشترين أجود بعير بمكة ثم قال أمية يا أم صفوان جهزيني‏.‏ فقالت له يا أبا صفوان وقد نسيت ما قال لك أخوك اليثربي قال لا،‏‏‏‏ ما أريد أن أجوز معهم إلا قريبا‏.‏ فلما خرج أمية أخذ لا ينزل منزلا إلا عقل بعيره،‏‏‏‏ فلم يزل بذلك حتى قتله الله عز وجل ببدر‏.

مجھ سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا کہ مجھ سے عمرو بن میمون نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ وہ امیہ بن خلف کے (جاہلیت کے زمانے سے) دوست تھے اور جب بھی امیہ مدینہ سے گزرتا تو ان کے یہاں قیام کرتا تھا۔ اسی طرح حضرت سعد رضی اللہ عنہ جب مکہ سے گزر تے تو امیہ کے یہاں قیام کرتے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو ایک مرتبہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ مکہ عمرہ کے ارادے سے گئے اور امیہ کے پاس قیام کیا۔ انہوں نے امیہ سے کہا کہ میرے لیے کوئی تنہائی کا وقت بتاو تاکہ میں بیت اللہ کا طواف کروں۔ چنانچہ امیہ انہیں دوپہر کے وقت ساتھ لے کر نکلا۔ ان سے ابوجہل کی ملاقات ہو گئی۔ اس نے پوچھا، ابوصفوان! یہ تمہارے ساتھ کون ہیں؟ امیہ نے بتایا کہ یہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں۔ ابوجہل نے کہا، میں تمہیں مکہ میں امن کے ساتھ طواف کرتا ہوا نہ دیکھوں۔ تم نے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور اس خیال میں ہو کہ تم لوگ ان کی مدد کرو گے۔ خدا کی قسم! اگر اس وقت تم، ابوصفوان! امیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامتی سے نہیں جا سکتے تھے۔ اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا، اس وقت ان کی آواز بلند ہو گئی تھی کہ اللہ کی قسم اگر آج تم نے مجھے طواف سے روکا تو میں بھی مدینہ کی طرف سے تمہارا راستہ بند کر دوں گا اور یہ تمہارے لیے بہت سی مشکلات کا باعث بن جائے گا۔ امیہ کہنے لگا، سعد! ابوالحکم (ابوجہل) کے سامنے بلند آواز سے نہ بولو۔ یہ وادی کا سردار ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا، امیہ! اس طرح کی گفتگو نہ کرو۔ اللہ کی قسم کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن چکا ہوں کہ تو ان کے ہاتھوں سے مارا جائے گا۔ امیہ نے پوچھا۔ کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ اس کا مجھے علم نہیں۔ امیہ یہ سن کربہت گھبرا گیا اور جب اپنے گھر لوٹا تو (اپنی بیوی سے) کہا، ام صفوان! دیکھا نہیں سعد رضی اللہ عنہ میرے متعلق کیا کہہ رہے ہیں۔ اس نے پوچھا، کیا کہہ رہے ہیں؟ امیہ نے کہا کہ وہ یہ بتا رہے تھے کہ محمد نے انہیں خبر دی ہے کہ کسی نہ کسی دن وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ میں نے پوچھا کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کی مجھے خبر نہیں۔ امیہ کہنے لگا خدا کی قسم اب مکہ سے باہر میں کبھی نہیں جاؤں گا۔ پھر بد ر کی لڑائی کے موقع پر جب ابوجہل نے قریش سے لڑائی کی تیاری کے لیے کہا اور کہا کہ اپنے قافلہ کی مدد کو چلو تو امیہ نے لڑائی میں شرکت پسندنہیں کی، لیکن ابوجہل اس کے پاس آیا اور کہنے لگا، اے صفوان! تم وادی کے سردار ہو۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ تم ہی لڑائی میں نہیں نکلتے ہو تو دوسرے لوگ بھی نہیں نکلیں گے۔ ابوجہل یوں ہی برابر اس کو سمجھا تا رہا۔ آخر مجبور ہو کر امیہ نے کہا جب نہیں مانتا تو خدا کی قسم (اس لڑائی کے لیے) میں ایسا تیز رفتار اونٹ خریدوں گا جس کا ثانی مکہ میں نہ ہو۔ پھر امیہ نے (اپنی بیوی سے) کہا، ام صفوان! میرا سامان تیار کر دے۔ اس نے کہا، ابوصفوان! اپنے یثربی بھائی کی بات بھول گئے؟ امیہ بولا، میں بھولا نہیں ہوں۔ ان کے ساتھ صرف تھوڑی دور تک جاؤں گا۔ جب امیہ نکلا تو راستہ میں جس منزل پر بھی ٹھہرنا ہوتا، یہ اپنا اونٹ (اپنے پاس ہی) باندھے رکھتا۔ وہ برابر ایسا ہی احتیاط کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قتل کرا دیا۔

صحیح بخاری
کتاب المغازی
 
Top