• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم بدر کے بعد کی جنگی سر گرمیاں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

بدر کے بعد کی جنگی سر گرمیاں

بدر کا معرکہ مسلمانوں اور مشرکین کا سب سے پہلا مسلح ٹکراؤ اور فیصلہ کن معرکہ تھا جس میں مسلمانوں کو فتحِ مبین حاصل ہوئی اور سارے عرب نے اس کا مشاہدہ کیا۔ اس معرکے کے نتائج سے سب سے زیادہ وہی لوگ دل گرفتہ تھے جنہیں براہ ِ راست یہ نقصان ِ عظیم برداشت کرنا پڑا تھا ، یعنی مشرکین ، یا وہ لوگ جو مسلمانوں کے غلبہ وسر بلندی کو اپنے مذہبی اور اقتصادی وجود کے لیے خطرہ محسوس کرتے تھے ، یعنی یہود۔ چنانچہ جب سے مسلمانوں نے بدر کا معرکہ سر کیا تھا یہ دونوں گروہ مسلمانوں کے خلاف غم وغصہ اور رنج والم سے جل بھن رہے تھے ، جیسا کہ ارشاد ہے :
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَ‌كُوا (۵: ۸۲)
''تم اہل ِ ایمان کا سب سے زبردست دشمن یہود کو پاؤ گے اور مشرکین کو۔''
مدینے میں کچھ لوگ ان دونوں گروہوں کے ہمرازو دمساز تھے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ اپنا وقار برقرار رکھنے کی اب کوئی سبیل باقی نہیں رہ گئی ہے تو بظاہر اسلام میں داخل ہوگئے۔ یہ عبد اللہ بن اُبی اور اس کے رفقاء کا گروہ تھا۔ یہ بھی مسلمانوں کے خلاف یہود اور مشرکین سے کم غم وغصہ نہ رکھتا تھا۔
ان کے علاوہ ایک چوتھاگروہ بھی تھا ، یعنی وہ بدو جو مدینے کے گرد وپیش بود وباش رکھتے تھے۔ انہیں کفر و اسلام سے کوئی دلچسپی نہ تھی، لیکن یہ لٹیرے اور رہزن تھے ، اس لیے بدر کی کامیابی سے انہیں بھی قلق و اضطراب تھا۔ انہیں خطرہ تھا کہ مدینے میں ایک طاقت ور حکومت قائم ہوگئی تو ان کی لوٹ کھسوٹ کاراستہ بند ہوجائے گا ، اس لیے ان کے دلوں میں بھی مسلمانوں کے خلاف کینہ جاگ اٹھا اور یہ بھی مسلم دشمن ہوگئے۔
اس طرح مسلمان چاروں طرف سے خطرے میں گھر گئے ، لیکن مسلمانوں کے سلسلے میں ہر فریق کا طرزِ عمل دوسرے سے مختلف تھا۔ ہر فریق نے اپنے حسبِ حال ایسا طریقہ اپنایا تھا جو اس کے خیال میں اس کی غرض وغایت کی تکمیل کا کفیل تھا ، چنانچہ اہل ِ مدینہ نے اسلام کا اظہار کرکے درپردہ سازشوں ، دسیسہ کا ریوں اور باہم لڑانے بھڑانے کی راہ اپنائی۔ یہود کے ایک گروہ نے کھلم کھلا رنج وعداوت اور غیظ وغضب کا مظاہرہ کیا۔ اہل ِ مکہ نے کمر توڑ ضرب کی دھمکیاں دینی شروع کیں اور بدلہ اور انتقام لینے کا کھلا اعلان کیا۔ ان کی جنگی تیاریاں بھی کھلے عام ہورہی تھیں ، گویا وہ زبان ِ حال سے مسلمانوں کو یہ پیغام دے رہے تھے۔

ولا بد من یوم أغرّ محجل​
یطول استماعی بعدہ للنوادب​

''ایک ایسا روشن اور تابناک دن ضرور ی ہے جس کے بعد عرصہ ٔ دراز تک نوحہ کرنے والیوں کے نوحے سنتا رہوں۔''
اور سال بھر کے بعد وہ عملاً ایک ایسی معرکہ آرائی کے لیے مدینے کی چہاردیواری تک چڑھ آئے جو تاریخ میں غزوہ ٔ احد کے نام سے معروف ہے اور جس کا مسلمانوں کی شہرت اور ساکھ پر برا اثر پڑا تھا۔
ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں نے بڑے اہم اقدامات کیے جن سے نبیﷺ کی قائدانہ عبقریت کا پتا چلتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ مدینے کی قیادت گرد وپیش کے ان خطرات کے سلسلے میں کس قدر بیدار تھی اور ان سے نمٹنے کے لیے کتنے جامع منصوبے رکھتی تھی۔ اگلی سطور میں اسی کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جارہا ہے:
۱۔ غزوہ بنی سلیم بہ مقام کدر1:
غزوہ ٔ بدر کے بعد سب سے پہلی خبر جو مدینے کے شعبۂ اطلاعات نے فراہم کی وہ یہ تھی کہ قبیلۂ غطفان کی شاخ بنو سُلیم کے لوگ مدینے پر چڑھائی کے لیے فوج جمع کررہے ہیں۔ اس کے جواب میں نبیﷺ نے دوسو سواروں کے ساتھ ان پر خود ان کے اپنے علاقے میں اچانک دھا وا بول دیا اور مقام کدر 1میں ان کی منازل تک جاپہنچے۔ بنوسلیم میں اس اچانک حملے سے بھگدڑ مچ گئی اور وہ افراتفری کے عالم میں وادی کے اندر پانچ سو اونٹ چھوڑ کر بھا گ گئے۔ جس پر لشکر ِ مدینہ نے قبضہ کر لیا اور رسول اللہﷺ نے اس کا خمس نکال کر بقیہ مالِ غنیمت مجاہدین میں تقسیم کردیا۔ ہر شخص کے حصے میں دو دو اونٹ آئے۔ اس غزوے میں یسار نامی ایک غلام ہاتھ آیا جسے آپﷺ نے آزاد کردیا - اس کے بعد آپﷺ دیار بنی سلیم میں تین روز قیام فرما کر مدینہ پلٹ آئے۔
یہ غزوہ شوال ۲ ھ میں بدر سے واپسی کے صرف سات دن بعد یا نصف محرم ۳ ھ میں پیش آیا۔ اس غزوے کے دوران سباعؓ بن عرفطہ کو اور کہا جاتا ہے کہ ابن ِ ام مکتوم کو مدینے کا انتظام سونپا گیا تھا۔2
۲۔نبیﷺ کے قتل کی سازش:
جنگ بدر میں شکست کھا کر مشرکین غصے سے بے قابو تھے اور پورا مکہ نبیﷺ کے خلاف ہانڈی کی طرح کھول رہا تھا۔ بالآخر مکے کے دوبہادر نوجوان نے طے کیا کہ وہ ...اپنی دانست میں...اس اختلاف وشقاق کی بنیاد اور اس ذلت ورسوائی کی جڑ (نعوذ باللہ ) یعنی نبیﷺ کا خاتمہ کردیں گے۔
چنانچہ جنگ بدر کے کچھ ہی دنوں بعد کا واقعہ ہے کہ عُمیر بن وہب جمحی - جو قریش کے شیطانوں میں سے تھا اور مکے میں نبیﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اذیتیں پہنچا یا کرتا تھا اور اب اس کا بیٹا وہب بن عُمیر جنگ بدر میں گرفتار
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 کد ر۔ ک پر پیش اور دال ساکن ہے۔ یہ دراصل مٹیا لے رنگ کی ایک چڑیا ہوتی ہے لیکن یہاں بنوسلیم کا ایک چشمہ مراد ہے جو نجد میں مکے سے (براستہ نجد ) شام جانے والی کاروانی شاہراہ پر واقع ہے۔
2 زاد المعاد ۲/۹۰، ابن ہشام ۲؍۴۳ ، ۴۴۔ مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۲۳۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ہوکر مسلمانوں کی قید میں تھا۔ اس لیے عمیر-نے ایک دن صفوان بن امیہ کے ساتھ حطیم میں بیٹھ کر گفتگو کرتے ہوئے بدر کے کنویں میں پھینکے جانے والے مقتولوں کا ذکر کیا۔ اس پر صفوان نے کہا :''اللہ کی قسم! ان کے بعد جینے میں کوئی لطف نہیں۔'' جواب میں عمیر نے کہا :''اللہ کی قسم! تم سچ کہتے ہو۔ دیکھو اللہ کی قسم! اگر میرے اوپر قرض نہ ہوتا ، جس کی ادائیگی کے لیے میرے پاس کچھ نہیں، اور اہل وعیال نہ ہوتے ، جن کے بارے میں اندیشہ ہے کہ میرے بعد ضائع ہوجائیں گے ، تو میں سوار ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا اور اسے قتل کر ڈالتا ، کیونکہ میرے لیے وہاں جانے کی ایک وجہ موجود ہے۔ میرا بیٹا ان کے ہاں قید ہے۔ ''
صفوان نے اس صورت حال کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا :''اچھا چلو ! تمہارا قرض میرے ذِمے ہے میں اسے تمہاری جانب سے ادا کردوں گا ، اور تمہارے اہل وعیال میرے اہل وعیال ہیں۔ جب تک وہ موجود رہیں گے میں ان کی دیکھ بھال کرتا رہوں گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ میرے پاس کوئی چیز موجود ہو اوران کو نہ ملے۔''
عمیر نے کہا :اچھا تو اب میرے اور اپنے معاملے کو صیغہ ٔ راز میں رکھنا۔ صفوان نے کہا: ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔
اس کے بعد عمیر نے اپنی تلوار پر سان رکھا ئی اور زہر آلود کرائی ، پھر روانہ ہوا اور مدینہ پہنچا ، لیکن ابھی وہ مسجد کے دروازے پر اپنی اونٹنی بٹھا ہی رہا تھا کہ حضرت عمر بن خطابؓ کی نگاہ اس پر پڑ گئی ...وہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے درمیان جنگ ِ بدر میں اللہ کے عطا کردہ اعزاز واکرام کے متعلق باتیں کررہے تھے ...انہوں نے دیکھتے ہی کہا :''یہ کتا ، اللہ کا دشمن عمیر ، کسی بُرے ہی ارادے سے آیا ہے۔'' پھر انہوں نے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! یہ اللہ کا دشمن عمیر اپنی تلوار حمائل کیے آیا ہے۔آپﷺ نے فرمایا : اسے میرے پاس لے آؤ۔ عمیر آیا تو حضرت عمرؓ نے اس کی تلوار کے پرتلے کو اس کے گلے کے پاس سے پکڑ لیا اور انصار کے چند افراد سے کہا کہ تم لوگ رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور وہیں بیٹھ جاؤ اور آپﷺ کے خلاف اس خبیث کے خطرے سے چوکنارہو ، کیونکہ یہ قابل اطمینان نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ عمیر کو اندر لے گئے۔ رسول اللہﷺ نے جب یہ کیفیت دیکھی کہ حضرت عمرؓ اس کی گردن میں اس کی تلوار کا پر تلا لپیٹ کر پکڑ ے ہوئے ہیں تو فرمایا :''عمر ! اسے چھوڑ دو اور عمیر ! تم قریب آجاؤ۔'' اس نے قریب آکر کہا : آپ لوگوں کی صبح بخیر ہو۔ نبیﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے تحیہ سے مشرف کیا ہے جو تمہارے اس تحیہ سے بہتر ہے ، یعنی سلام سے ، جو اہل ِ جنت کا تحیہ ہے۔
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا : اے عمیر ! تم کیوں آئے ہو ؟ اس نے کہا : یہ قیدی جو آپ لوگوں کے قبضے میں ہے اسی کے لیے آیاہوں۔ آپ لوگ اس کے بارے میں احسان فرمادیجیے۔
آپﷺ نے فرمایا : پھر یہ تمہاری گردن میں تلوار کیوں ہے ؟ اس نے کہا : اللہ ان تلواروں کا بُرا کرے کہ یہ ہمارے کچھ کام نہ آسکیں۔
آپﷺ نے فرمایا: سچ سچ بتاؤ کیوں آئے ہو ؟ اس نے کہا : بس صرف اسی قیدی کے لیے آیاہو ں۔
آپﷺ نے فرمایا : ''نہیں بلکہ تم اور صفوان بن امیہ حطیم میں بیٹھے،اور قریش کے جو مقتولین کنویں میں پھینکے گئے ہیں ان کا تذکرہ کیا ، پھر تم نے کہا : اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل وعیال نہ ہوتے تو میں یہاں سے جاتا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیتا۔ اس پر صفوا ن نے تمہارے قرض اور اہل وعیال کی ذمے داری لی بشرطیکہ تم مجھے قتل کردو، لیکن یاد رکھو کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔
عمیر نے کہا :''میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ ہمارے پاس آسمان کی جو خبریں لاتے تھے ، اور آپﷺ پر جو وحی نازل ہوتی تھی ، اسے ہم جھٹلادیا کرتے تھے لیکن یہ تو ایسا معاملہ ہے جس میں میرے اور صفوان کے سوا کوئی موجود ہی نہ تھا۔ اس لیے واللہ مجھے یقین ہے کہ یہ بات اللہ کے سوا اور کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچائی۔ پس اللہ کی حمد ہے جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی اور اس مقام تک ہانک کر پہنچایا۔'' پھر عمیر نے کلمۂ حق کی شہادت دی اور رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے فرمایا : ''اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ ، قرآن پڑھا ؤ اور اس کے قیدی کو آزاد کردو۔''
ادھر صفوان لوگوں سے کہتا پھر رہاتھا کہ یہ خوشخبری سن لو کہ چند ہی دنوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آئے گا جو بدر کے مصائب بھلوادے گا۔ ساتھ ہی وہ آنے جانے والوں سے عمیرؓ کی بابت پوچھتا بھی رہتا تھا۔ بالآخر اسے ایک سوار نے بتایا کہ عمیر مسلمان ہوچکا ہے۔ یہ سن کر صفوان نے قسم کھائی کہ اس سے کبھی بات نہ کرے گا اور نہ کبھی اسے نفع پہنچائے گا۔ ادھر عمیر نے اسلام سیکھ کر مکے کی راہ لی اور وہیں مقیم رہ کر اسلام کی دعوت دینی شروع کی۔ ان کے ہاتھ پر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ 1
۳۔ غزوۂ بنی قینقاع:
رسول اللہﷺ نے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہود کے ساتھ جو معاہدہ فرمایا تھا اس کی دفعا ت پچھلے صفحات میں ذکر کی جاچکی ہیں۔ رسول اللہﷺ کی پوری کوشش اور خواہش تھی کہ اس معاہدے میں جو کچھ طے پا گیا ہے وہ نافذ رہے ، چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جو اس معاہدے کی عبارت کے کسی ایک حرف کے بھی خلاف ہو۔ لیکن یہود جن کی تاریخ غدر وخیانت اور عہد شکنی سے پُر ہے وہ بہت جلد اپنے قدیم مزاج کی طرف پلٹ گئے۔اورمسلمانوں کی صفوں کے اندر دسیسہ کاری ، سازش ، لڑانے بھڑانے اور ہنگامے اور اضطراب بپا کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ لگے ہاتھوں ایک مثال بھی سنتے چلیے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۶۶۱، ۶۶۲ ، ۶۶۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہود کی عیاری کا ایک نمونہ:
ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ ایک بوڑھا یہودی شاش بن قیس -جو قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے تھا ...بڑا زبردست کافر تھا ، اور مسلمانوں سے سخت عدوات وحسد رکھتا تھا...ایک بار صحابۂ کرام کی ایک مجلس کے پاس سے گذرا ، جس میں اوس خزرج دونوں ہی قبیلے کے لوگ بیٹھے باہم گفتگو کررہے تھے۔ اسے یہ دیکھ کر کہ اب ان کے اندر جاہلیت کی باہمی عداوت کی جگہ اسلام کی الفت واجتماعیت نے لے لی ہے ، اور ان کی دیرینہ شکر رنجی کا خاتمہ ہو گیا ہے ، سخت رنج ہوا۔ کہنے لگا : ''اوہ ! ا س دیار میں قیلہ کے اشراف متحد ہوگئے ہیں۔ واللہ ! ان اشراف کے اتحاد کے بعد تو ہمارا یہاں گذر نہیں۔'' چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی کو جو اس کے ساتھ تھا حکم دیا کہ ان کی مجلس میں جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر پھر جنگ بعاث اور اس کے پہلے کے حالات کا ذکر کرے۔ اور اس سلسلے میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے ہیں کچھ ان میں سنائے۔ اس یہودی نے ایساہی کیا۔ اس کے نتیجے میں اوس وخزرج میں تو تو میں میں شروع ہوگئی۔ لوگ جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر فخر جتانے لگے حتی ٰ کہ دونوں قبیلوں کے ایک ایک آدمی نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ردّ وقدح شروع کردی ، پھر ایک نے اپنے مدّ ِ مقابل سے کہا : اگر چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے پلٹا دیں - مقصد یہ تھا کہ ہم اس باہمی جنگ کے لیے پھر تیار ہیں جو اس سے پہلے لڑی جاچکی ہے- اس پر دونوں فریقوں کو تاؤ آگیا اور بولے : چلو تیار ہیں، حرہ میں مقابلہ ہوگا -- ہتھیا ر ... ! ہتھیار ...!
اب لوگ ہتھیار لے کر حرہ کی طرف نکل پڑے، قریب تھا کہ خونریز جنگ ہوجاتی لیکن رسول اللہﷺ کو اس کی خبر ہوگئی۔ آپﷺ اپنے مہاجرین صحابہ کو ہمراہ لے کر جھٹ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا :''اے مسلمانوں کی جماعت ! اللہ۔ اللہ۔ کیا میرے رہتے ہوئے جاہلیت کی پکار ! اور وہ بھی اس کے بعد کہ اللہ تمہیں اسلام کی ہدایت سے سرفراز فرماچکا ہے اور اس کے ذریعے تم سے جاہلیت کا معاملہ کا ٹ کر اور تمہیں کفر سے نجات دے کر تمہارے دلو ں کو آپس میں جوڑ چکا ہے۔'' آپﷺ کی نصیحت سن کر صحابہ کو احساس ہوا کہ ان کی حرکت شیطا ن کا ایک جھٹکا اور دشمن کی ایک چال تھی ، چنانچہ وہ رونے لگے اور اوس وخزرج کے لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے۔ پھر رسول اللہﷺ کے ساتھ اطاعت شعار وفرمانبردار بن کر اس حالت میں واپس آئے کہ اللہ نے ان کے دشمن شاش بن قیس کی عیاری کی آگ بجھادی تھی۔1
یہ ہے ایک نمونہ ان ہنگاموں اور اضطراب کا جنہیں یہود مسلمانوں کی صفوں میں بپا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور یہ ہے ایک مثال اس روڑے کی جسے یہ یہود اسلامی دعوت کی راہ میں اٹکاتے رہتے تھے۔ اس کام کے لیے انہوں نے مختلف منصوبے بنا رکھے تھے۔ وہ جھوٹے پروپیگنڈے کرتے تھے۔ صبح مسلمان ہو کر شام کو پھرکافر ہوجاتے تھے تاکہ کمزور اور سادہ لوح قسم کے لوگوں کے دلوں میں شک وشبہے کے بیج بو سکیں۔ کسی کے ساتھ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۵۵۵، ۵۵۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مالی تعلق ہو تا اور وہ مسلمان ہوجاتا تو اس پر معیشت کی راہیں تنگ کردیتے ، چنانچہ اگر اس کے ذمے کچھ بقایا ہوتا تو صبح وشام تقاضے کرتے اور اگر خود اس مسلمان کا کچھ بقایا ان پر ہوتا تو اسے ادا نہ کرتے بلکہ باطل طریقے پر کھاجاتے اور کہتے کہ تمہارا قرض تو ہمارے اُوپر اُس وقت تھا جب تم اپنے آبائی دین پر تھے لیکن اب جبکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے تو اب ہمارا اور تمہارا کوئی لین دین نہیں۔1
واضح رہے کہ یہود نے یہ ساری حرکتیں بدر سے پہلے ہی شروع کردی تھیں ، اورا س معاہدے کے علی الرغم شروع کردیں تھیں جو انہوں نے رسول اللہﷺ سے کر رکھا تھا۔ ادھر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال تھا کہ وہ ان یہود کی ہدایت یابی کی امید میں ان ساری باتوں پر صبر کرتے جارہے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بھی مطلوب تھا کہ اس علاقے میں امن وسلامتی کا ماحول برقرار رہے۔
بنو قینقاع کی عہد شکنی:
جب یہود نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میدان ِ بدر میں مسلمانوں کی زبردست مدد فرماکر انہیں عزت وشوکت سے سرفراز فرمایا ہے اور ان کا رعب ودبدبہ دور ونزدیک ہر جگہ رہنے والوں کے دلو ں پر بیٹھ گیا ہے تو ان کی عداوت وحسد کی ہانڈی پھٹ پڑی۔ انہوں نے کھلم کھلا شر وعداوت کا مظاہرہ کیا اور علی الاعلان بغاوت وایذا رسانی پر اتر آئے۔
ان میں سب سے زیادہ کینہ تو زاور سب سے بڑھ کر شر یر کعب بن اشرف تھا جس کا ذکر آگے آرہا ہے ، اسی طرح تینوں یہودی قبائل میں سب سے زیادہ بدمعاش بنو قینقاع کا قبیلہ تھا۔ یہ لوگ مدینہ ہی کے اندر تھے اور ان کا محلہ انہیں کے نام سے موسوم تھا۔ یہ لوگ پیشے کے لحاظ سے سونار ، لوہار اور برتن ساز تھے۔ ان پیشوں کے سبب ان کے ہرآدمی کے پاس وافر مقدار میںسامانِ جنگ موجود تھا۔ ان کے مرد ان جنگی کی تعداد سات سو تھی اور وہ مدینے کے سب سے بہادر یہودی تھے۔ انھی نے سب سے پہلے عہد شکنی کی۔ تفصیل یہ ہے :
جب اللہ تعالیٰ نے میدان ِ بدر میں مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا تو ان کی سر کشی میں شدت آگئی۔ انہوں نے اپنی شرارتوں ، خباثتوں اور لڑانے بھڑانے کی حرکتوں میں وسعت اختیار کرلی۔ اور خلفشار پیدا کرنا شروع کر دیا ، چنانچہ جو مسلمان ان کے بازار میں جاتا اس سے مذاق واستہزاء کرتے اور اسے اذیت پہنچاتے حتیٰ کہ مسلمان عورتوں سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ اس طرح جب صورت ِ حال زیادہ سنگین ہوگئی اور ان کی سرکشی خاصی بڑھ گئی تو رسول اللہﷺ نے انہیں جمع فرماکر وعظ ونصیحت کی اور رشدو ہدایت کی دعوت دیتے ہوئے ظلم و بغاوت کے انجام سے ڈرایا۔ لیکن اس سے ان کی بدمعاشی اور غرور میں کچھ اور ہی اضافہ ہوگیا۔
چنانچہ امام ابو داؤد ؒ وغیرہ نے حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے قریش کو بدر کے دن شکست دے دی۔ اور آپ مدینہ تشریف لائے تو بنو قینقاع کے بازار میں یہود کو جمع کیا اور فرمایا :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مفسرین نے سورہ آل عمران وغیرہ میں ان کی اس قسم کی حرکات کے نمونے ذکر کیے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
''اے جماعت ِ یہود ! اس سے پہلے اسلام قبول کر لو کہ تم پر بھی ویسی ہی مار پڑے جیسی قریش پر پڑ چکی ہے۔'' انہوں نے کہا : ''اے محمد ! تمہیں اس بنا پر خود فریبی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ تمہاری مڈ بھیڑ قریش کے اناڑی اور نا آشنا ئے جنگ لوگوں سے ہوئی، اور تم نے انہیں مارلیا۔ اگر تمہاری لڑائی ہم سے ہوگئی تو پتہ چل جائے گا کہ ہم مرد ہیں اور ہمارے جیسے لوگوں سے تمہیں پالا نہ پڑا ہوگا۔'' اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :1
قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُ‌وا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُ‌ونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴿١٢﴾ قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَأُخْرَ‌ىٰ كَافِرَ‌ةٌ يَرَ‌وْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَ‌أْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّـهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِ‌هِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَ‌ةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ‌ ﴿١٣﴾ (۳: ۱۲ ،۱۳ )
''ان کافروں سے کہہ دو کہ عنقریب مغلوب کیے جاؤ گے اور جہنم کی طرف ہان کے جاؤ گے ، اور وہ برا ٹھکا نا ہے۔ جن دوگروہوں میں ٹکر ہوئی ان میں تمہارے لیے نشانی ہے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑرہاتھا اور دوسرا کا فرتھا، یہ ان کو آنکھوں دیکھنے میں اپنے سے دگنا دیکھ رہے تھے ، اور اللہ اپنی مدد کے ذریعے جس کی تائید چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس کے اندر یقینا نظر والوں کے لیے عبرت ہے۔''
بہر حال بنو قینقاع نے جو جواب دیا تھا اس کا مطلب صاف صاف اعلانِ جنگ تھا ، لیکن نبیﷺ نے اپنا غصہ پی لیا اور صبر کیا۔ مسلمانوں نے بھی صبر کیا اور آنے والے حالات کا انتظار کرنے لگے۔
ادھر اس نصیحت کے بعد یہود بنو قینقاع کی جرأت رندانہ اور بڑھ گئی ، چنانچہ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ انہوں نے مدینہ میں بلوہ اور ہنگامہ بپا کردیا جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھود لی اور اپنے اوپر زندگی کی راہ بندکر لی۔
ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنو قینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے ) ایک سنار کے پاس ، جو یہودی تھا ، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کردیا۔ اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا پچھلی طرف باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی اور بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگا یا۔ اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مار ڈالا۔ جوابا ً یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مارڈالا۔ اس کے بعد مقتول مسلمان کے گھر والوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اور بنی قینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہو گیا۔2
محاصرہ ، سپردگی اور جلاوطنی:

اس کے بعد رسول اللہﷺ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ آپﷺ نے مدینے کا انتظام ابو لبابہؓ بن
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۳/۱۱۵ ، ابن ہشام ۱/۵۵۲ 2 ابن ہشام ۲/۴۷، ۴۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عبد المنذر کو سونپا اور خود، حضرت حمزہؓ بن عبد المطلب کے ہاتھ میں مسلمانوں کا پھریرا دے کر اللہ کے لشکر کے ہمراہ بنو قینقاع کا رخ کیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو گڑھیوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ آپﷺ نے ان کا سختی سے محاصر ہ کر لیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور شوال ۲ ھ کی ۱۵ تاریخ۔ پندرہ روز تک -یعنی ہلال ذی القعدہ کے نمودار ہونے تک - محاصرہ جاری رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کی سنت ہی یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو شکست وہزیمت سے دوچار کرنا چاہتا ہے تو ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ بنو قینقاع نے اس شرط پر ہتھیا ر ڈال دیئے کہ رسول اللہﷺ ان کی جان ومال ، آ ل واولاد اور عورتوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے انہیں منظور ہوگا۔ اس کے بعد آپﷺ کے حکم سے ان سب کو باندھ لیا گیا۔
لیکن یہی موقع تھا جب عبد اللہ بن اُبی نے اپنا منافقانہ کردار ادا کیا۔ اس نے رسول اللہﷺ سے سخت اصرار والحاح کیا کہ آپﷺ ان کے بارے میں معافی کا حکم صادر فرمائیں۔ اس نے کہا :''اے محمد! میرے معاہدین کے بارے میں احسان کیجیے'' واضح رہے کہ بنو قینقاع خزرج کے حلیف تھے - لیکن رسول اللہﷺ نے تاخیر کی۔ اس پر اس نے اپنی بات پھر دہرائی۔ مگر اب کی بار آپﷺ نے اس سے رُخ پھیر لیا۔ لیکن اس شخص نے آپﷺ کے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ آپﷺ نے فرمایا : مجھے چھوڑ دو اور ایسے غضبناک ہوئے کہ لوگوں نے غصے کی پرچھائیاں آپﷺ کے چہرے پر دیکھیں۔پھر آپﷺ نے فرمایا: تجھ پر افسوس مجھے چھوڑ۔ لیکن یہ منافق اپنے اصرار پر قائم رہا اور بو لا : ''نہیں واللہ! میں آپ کو نہیں چھوڑ وں گا یہاں تک کہ آپﷺ میرے معاہدین کے بارے میں احسان فرمادیں۔ چار سو کھلے جسم کے جوان اور تین سوزِرہ پوش جنہوں نے مجھے سرخ وسیاہ سے بچایا تھا آپ انہیں ایک ہی صبح میں کاٹ کر رکھ دیں گے ؟ واللہ! میں اس سے زمانے کی گردش کا خطرہ محسوس کررہا ہوں۔''
بالآخر رسول اللہﷺ نے اس منافق کے ساتھ (جس کے اظہارِ اسلام پر ابھی کوئی ایک ہی مہینہ گزرا تھا ) رعایت کا معاملہ کیا اور اس کی خاطر ان سب کی جان بخشی کردی۔ البتہ انہیں حکم دیا کہ وہ مدینہ سے نکل جائیں اور آپﷺ کے پڑوس میں نہ رہیں ، چنانچہ یہ سب اذرعات شام کی طرف چلے گئے اور تھوڑے ہی دنوں بعد وہاں اکثر کی موت واقع ہوگئی۔
رسول اللہﷺ نے ان کے اموال ضبط کر لیے۔ جن میں سے تین کمانیں ، دو زِرہیں ، تین تلواریں اور تین نیزے اپنے لیے منتخب فرمائے اور مالِ غنیمت میں سے خمس بھی نکالا۔ غنائم جمع کرنے کاکام محمدبن مسلمہؓ نے انجام دیا۔ 1
۴۔ غزوہ ٔ سویق:
ایک طرف صفوان بن امیہ ، یہوداورمنافقین اپنی اپنی سازشوں میں مصروف تھے تو دوسری طرف ابوسفیان بھی کوئی ایسی کاروائی انجام دینے کی ادھیڑ بن میں تھا جس میں بار کم سے کم پڑے لیکن اثر نمایاں ہو۔ وہ ایسی کاروائی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۷۱،۹۱ ابن ہشام ۲؍۴۷ ، ۴۸ ، ۴۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جلد از جلد انجام دے کر اپنی قوم کی آبرو کی حفاظت اور ان کی قوت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ اس نے نذر مان رکھی تھی کہ جنابت کے سبب اس کے سر کو پانی نہ چھوسکے گا یہاں تک کہ محمدﷺ سے لڑائی کرلے۔ چنانچہ وہ اپنی قسم پوری کرنے کے لیے دوسو سواروں کو لے کر روانہ ہوا اور وادیٔ قناۃ کے سرے پر واقع نیب نامی ایک پہاڑی کے دامن میں خیمہ زن ہوا۔مدینے سے اس کا فاصلہ کوئی بارہ میل ہے ، لیکن چونکہ ابو سفیان کو مدینے پر کھلم کھلا حملے کی ہمت نہ ہوئی اس لیے اس نے ایک ایسی کارروائی انجام دی جسے ڈاکہ زنی سے ملتی جلتی کارروائی کہا جاسکتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں اطرافِ مدینہ کے اندر داخل ہوا اور حیی بن اخطب کے پاس جاکر اس کا دروازہ کھلوایا۔ حیی نے انجام کے خوف سے انکار کردیا۔ ابو سفیان پلٹ کر بنونضیر کے ایک دوسرے سردار سلام مشکم کے پاس پہنچا جو بنو نضیر کا خزانچی بھی تھا۔ ابو سفیان نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اس نے اجازت بھی دی اور مہمان نوازی بھی کی۔ خوراک کے علاوہ شراب بھی پلائی اور لوگوں کے پس پردہ حالات سے آگاہ بھی کیا۔ رات کے پچھلے پہر ابو سفیان وہاں سے نکل کر اپنے ساتھیوں میں پہنچا اور ان کا ایک دستہ بھیج کر مدینے کے اطراف میں عریض نامی ایک مقام پر حملہ کردیا۔ اس دستے نے وہاں کھجور کے کچھ درخت کاٹے اور جلائے اور ایک انصاری اور اس کے حلیف کو ان کے کھیت میں پاکر قتل کردیا اور تیزی سے مکہ واپس بھاگ نکلا۔
رسول اللہﷺ نے واردات کی خبر ملتے ہی تیز رفتاری سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا تعاقب کیا لیکن وہ اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بھاگے ، چنانچہ وہ لوگ تو دستیاب نہ ہوئے لیکن انہوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ستو ، توشے اور سازوسامان پھینک دیا تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ رسول اللہﷺ نے کرکرۃ الکدر تک تعاقب کر کے واپسی کی راہ لی۔مسلمان ستو وغیرہ لاد پھا ند کر واپس ہوئے اور اس مہم کا نام غزوہ ٔسویق رکھ دیا۔ (سویق عربی زبان میں ستو کو کہتے ہیں۔) یہ غزوہ ، جنگ بدر کے صرف دوماہ بعد ذی الحجہ ۲ ھ میں پیش آیا۔ اس غزوے کے دوران مدینے کا انتظام ابو لبابہ بن عبد المنذرؓ کو سونپا گیا تھا۔1
۵- غزوہ ٔ ذی امر:
معرکہ ٔ بدر واحد کے درمیانی عرصے میں رسو ل اللہﷺ کے زیر قیادت یہ سب سے بڑی فوجی مہم تھی جو محرم ۳ ھ میں پیش آئی۔
اس کا سبب یہ تھا کہ مدینے کے ذرائع اطلاعات نے رسول اللہﷺ کو یہ اطلاع فراہم کی کہ بنو ثعلبہ اور محارب کی بہت بڑی جمعیت مدینے پر چھا پہ مارنے کے لیے اکٹھی ہورہی ہے۔ یہ اطلاع ملتے ہی رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا اور سوار وپیادہ پر مشتمل ساڑھے چار سو کی نفری لے کر روانہ ہوئے اور حضرت عثمان بن عفانؓ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرمایا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/ ۹۰ ، ۹۱ ، ابن ہشام ۲/ ۴۴ ، ۴۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
راستے میں صحابہؓ نے بنو ثعلبہ کے جبار نامی ایک شخص کو گرفتار کرکے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر کیا۔ آپﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے اسے حضرت بلالؓ کی رفاقت میں دے دیا اور ا س نے راہ شناس کی حیثیت سے مسلمانوں کو دشمن کی سرزمین تک راستہ بتایا۔
ادھر دشمن کو جیش مدینہ کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ گردوپیش کی پہاڑیوں میں بکھر گئے لیکن نبیﷺ نے پیش قدمی جاری رکھی اور لشکر کے ہمراہ اس مقام تک تشریف لے گئے جسے دشمن نے اپنی جمعیت کی فراہمی کے لیے منتخب کیا تھا۔ یہ درحقیقت ایک چشمہ تھا جو ''ذی امر ''کے نام سے معروف تھا۔ آپﷺ نے وہاں بدوؤں پر رعب ودبدبہ قائم کرنے اور انہیں مسلمانوں کی طاقت کا احساس دلانے کے لیے صفر (۳ ھ) کا پور ا یا تقریباً پورا مہینہ گزار دیا اور اس کے بعد مدینہ تشریف لائے۔1
۶۔ کعب بن اشرف کا قتل:
یہودیوں میں یہ وہ شخص تھا جسے اسلام اور اہل ِ اسلام سے نہایت سخت عداوت اور جلن تھی۔ یہ نبیﷺ کو اذیتیں پہنچا یا کرتا تھا اور آپﷺ کے خلاف جنگ کی کھلم کھلا دعوت دیتا پھرتا تھا۔
اس کا تعلق قبیلہ طی کی شاخ بنو نبھان سے تھا اور اس کی ماں قبیلہ بنی نضیر سے تھی۔ یہ بڑا مالدار اور سرمایہ دار تھا۔ عرب میں اس کے حسن وجمال کا شہرہ تھا اور یہ ایک معروف شاعر بھی تھا۔ اس کا قلعہ مدینے کے جنوب میں بنو نضیر کی آبادی کے پیچھے واقع تھا۔
اسے جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح اور سردارانِ قریش کے قتل کی پہلی خبر ملی تو بے ساختہ بول اٹھا :''کیا واقعتا ایسا ہواہے ؟ یہ عرب کے اشراف اور لوگوں کے بادشاہ تھے۔ اگر محمد نے ان کو مارلیا ہے تو روئے زمین کا شکم اس کی پشت سے بہتر ہے۔''
اور جب اسے یقینی طور پر اس خبر کا علم ہوگیا تو اللہ کا یہ دشمن ، رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کی ہجو اور دشمنانِ اسلام کی مدح سرائی پر اتر آیا۔ اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے لگا۔ اس سے بھی اس کے جذبات آسودہ نہ ہوئے تو سوار ہوکر قریش کے پاس پہنچا اور مطلب بن ابی وداعہ سہمی کا مہمان ہوا۔ پھر مشرکین کی غیرت بھڑکانے ، ان کی آتش ِ انتقام تیز کرنے اور انہیں نبیﷺ کے خلاف آمادہ ٔ جنگ کرنے کے لیے اشعار کہہ کہہ کر ان سردارانِ قریش کا نوحہ وماتم شروع کردیا جنہیں میدان ِ بدر میں قتل کیے جانے کے بعد کنویں میں پھینک دیا گیا تھا۔ مکے میں اس کی موجودگی کے دوران ابو سفیان اور مشرکین نے اس سے دریافت کیا کہ ہمارا دین تمہارے نزدیک زیادہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۴۶ ، زاد المعاد ۲/۹۱ کہا جاتا ہے کہ دعثور یا غورث محاربی نے اسی غزوے میں نبیﷺ کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک دوسرے غزوے میں پیش آیا ، دیکھئے: صحیح بخاری ۲/۵۹۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
پسندیدہ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کا ؟ اور دونوں میں سے کون سا فریق زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟ کعب بن اشرف نے کہا :''تم لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ اور افضل ہو۔'' اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُ‌وا هَـٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا ﴿٥١﴾ (۴: ۵۱)
'' تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ہے کہ وہ جبت اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہیں۔''
کعب بن اشرف یہ سب کچھ کرکے مدینہ واپس آیا تو یہاں آکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عورتوں کے بارے میں واہیات اشعار کہنے شروع کیے اور اپنی زبان درازی وبدگوئی کے ذریعے سخت اذیت پہنچائی۔
یہی حالات تھے جن سے تنگ آکر رسول اللہﷺ نے فرمایا :''کون ہے جو کعب بن اشرف سے نمٹے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی ہے۔''
اس کے جواب میں محمد بن مسلمہ ، عبادہ بن بشرؓ ، ابو نائلہ - جن کانام سلکان بن سلامہ تھا اور جو کعب کے رضاعی بھائی تھے - حارث بن اوسؓ اور ابو عبسؓ بن جبر نے اپنی خدمات پیش کیں۔ اس مختصر سی کمپنی کے کمانڈر محمد بن مسلمہ تھے۔
کعب بن اشرف کے قتل کے بارے میں روایات کا حاصل یہ ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کعب بن اشرف سے کون نمٹے گا ؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو اذیت دی ہے ، تو محمد بن مسلمہ نے اٹھ کر عرض کیا:''یارسول اللہ!میں حاضر ہوں۔کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں ؟آپﷺ نے فرمایا : ہاں ! انہوں نے عرض کیا : ''تو آپ مجھے کچھ کہنے کی اجازت عطافرمائیں۔'' آپﷺ نے فرمایا : کہہ سکتے ہو۔
اس کے بعد محمدبن مسلمہؓ ،کعب بن اشرف کے پاس تشریف لے گئے اور بولے : ''اس شخص نے - اشارہ نبیﷺ کی طرف تھا - ہم سے صدقہ طلب کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے۔''
کعب نے کہا :''واللہ ، ابھی تم لوگ اور بھی اکتاجاؤ گے۔''
محمدبن مسلمہؓ نے کہا : اب جبکہ ہم اس کے پیروکار بن ہی چکے ہیں تو مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ اس کا ساتھ چھوڑ دیں جب تک یہ دیکھ نہ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے ! اچھا ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں ایک وَسق یا دووسق غلہ دے دیں۔''
کعب نے کہا :''میرے پاس کچھ رہن رکھو۔''
محمدبن مسلمہؓ نے کہا : ''آپ کو ن سی چیز پسند کریں گے ؟''
کعب نے کہا :''اپنی عورتوں کو میرے پاس رہن رکھ دو۔''
محمدؓ بن مسلمہ نے کہا :''بھلا ہم اپنی عورتیں آپ کے پاس کیسے رہن رکھ دیں جبکہ آپ عرب کے سب سے خوبصورت انسان ہیں۔''
اس نے کہا :''تو پھر اپنے بیٹوں ہی کو رہن رکھ دو۔''
محمد بن مسلمہؓ نے کاکہا :''ہم اپنے بیٹوں کو کیسے رہن رکھ دیں ؟ اگر ایسا ہوگیا تو انہیں گالی دی جائے گی کہ یہ ایک وسق یا دووسق کے بدلے رہن رکھا گیا تھا۔ یہ ہمارے لیے عار کی بات ہے۔ البتہ ہم آپ کے پاس ہتھیار رہن رکھ سکتے ہیں۔''
اس کے بعد دونوں میں طے ہوگیا کہ محمدبن مسلمہؓ (ہتھیار لے کر ) اس کے پاس آئیں گے۔
ادھر ابو نائلہ نے بھی اسی طرح کا اقدام کیا ، یعنی کعب بن اشرف کے پاس آئے۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر کے اشعار سنتے سناتے رہے پھر بو لے :''بھئ ابن اشرف ! میں ایک ضرورت سے آیا ہوں ، اسے ذکرکرنا چاہتا ہوں ، لیکن اسے آپ ذراصیغہ ٔ راز ہی میں رکھیں گے۔''
کعب نے کہا:'' ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔ ''
ابو نائلہؓ نے کہا :'' بھئ اس شخص ...اشارہ نبیﷺ کی طرف تھا ...کی آمد تو ہمارے لیے آزمائش بن گئی ہے۔ ساراعرب ہمارا دشمن ہوگیا ہے۔ سب نے ہمارے خلاف اتحاد کرلیا ہے ، ہماری راہیں بند ہوگئی ہیں، اہل وعیال برباد ہورہے ہیں ، جانوں پر بن آئی ہے، ہم اور ہمارے بال بچے مشقتوں سے چورچور ہیں۔'' اس کے بعد انہوں نے بھی کچھ اسی ڈھنگ کی گفتگو کی جیسی محمدؓ بن مسلمہ نے کی تھی۔ دورانِ گفتگو ابو نائلہؓ نے بھی کہا کہ میرے کچھ رفقا ء ہیں جن کے خیالات بھی بالکل میرے ہی جیسے ہیں۔ انہیں بھی آپ کے پاس لانا چاہتا ہوں۔ آپ ان کے ہاتھ بھی کچھ بیچیں اور ان پر احسان کریں۔
محمدؓ بن مسلمہ اور ابو نائلہؓ اپنی اپنی گفتگو کے ذریعے اپنے مقصد میں کامیاب رہے کیونکہ اس گفتگوکے بعد ہتھیا ر اور رفقاء سمیت ان دونوں کی آمد پرکعب بن اشرف چونک نہیں سکتا تھا۔ اس ابتدائی مرحلے کو مکمل کر لینے کے بعد ۱۴۔ ربیع الاول ۳ ھ کی چاندنی رات کو یہ مختصر سا دستہ رسو ل اللہﷺ کے پاس جمع ہوا۔ آپﷺ نے بقیع غَرقد تک ان کی مشایعت فرمائی۔ پھر فرمایا : اللہ کے نام لے کر جاؤ۔ اللہ تمہاری مدد فرمائے۔ پھر آپﷺ اپنے گھر پلٹ آئے اور نماز و مناجات میں مشغول ہوگئے۔
ادھر یہ دستہ کعب بن اشرف کے قلعے کے دامن میں پہنچا تو اسے ابو نائلہؓ نے قدرے زور سے آواز دی۔ آواز سن کر وہ ان کے پا س آنے کے لیے اٹھا تو اس کی بیوی نے...جو ابھی نئی نویلی دلہن تھی... کہا : '' اس وقت کہاں جارہے ہیں ؟ میں ایسی آواز سن رہی ہوں جس سے گویا خون ٹپک رہا ہے۔''
کعب نے کہا :''یہ تو میرا بھائی محمدؓ بن مسلمہ اور میرا دودھ کا ساتھی ابو نائلہؓ ہے۔ کریم آدمی کو اگر نیزے کی مار کی طرف بلایا جائے تو اس پکار پر بھی وہ جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ باہر آگیا۔ خوشبو میں بسا ہواتھا اور سر سے خوشبو کی لہریں پھوٹ رہی تھیں۔
ابو نائلہؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہہ رکھاتھا کہ جب وہ آجائے گا تومیں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا۔ جب تم دیکھنا کہ میں نے اس کا سر پکڑ کر اسے قابو میں کرلیا ہے تو اس پر پل پڑنا ... اور اسے مار ڈالنا۔ چنانچہ جب کعب آیا تو کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں۔ پھر ابو نائلہؓ نے کہا :''ابن اشرف!کیوں نہ شِعب عجوز تک چلیں، ذرآج رات باتیں کی جائیں۔'' اس نے کہا : اگر تم چاہتے ہو تو چلتے ہیں ؟ اس پر سب لوگ چل پڑے۔ اثنا ء راہ میں ابو نائلہؓ نے کہا : آج جیسی عمدہ خوشبوتو میں نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔یہ سن کر کعب کا سینہ فخر سے تن گیا۔ کہنے لگا : میرے پاس عرب کی سب سے زیادہ خوشبو والی عور ت ہے۔ ابو نائلہ نے کہا : اجازت ہوتو ذرآپ کا سر سونگھ لوں ؟ وہ بو لا: ہا ں ہاں۔ ابو نائلہ نے اس کے سر میں اپنا ہاتھ ڈالا۔ پھر خود بھی سونگھا اور ساتھیوں کو بھی سونگھایا۔
کچھ اور چلے توابو نائلہؓ نے کہا : بھئ ایک بار اور۔ کعب نے کہا : ہاں ہاں ، ابو نائلہ نے پھر وہی حرکت کی یہاں تک کہ وہ مطمئن ہوگیا۔
اس کے بعد کچھ اور چلے تو ابو نائلہؓ نے پھر کہا : بھئ ایک باراور۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے۔ اب کی بار ابو نائلہ نے اس کے سر میں ہاتھ ڈال کر ذرا اچھی طرح پکڑ لیا تو بولے :''لے لو اللہ کے اس دشمن کو۔'' اتنے میں اس پر کئی تلواریں پڑیں ، لیکن کچھ کام نہ دے سکیں۔ یہ دیکھ کر محمدؓ بن مسلمہ نے جھٹ اپنی کدال لی اور اس کے پیڑو پر لگا کر چڑھ بیٹھے۔ کدال آر پار ہوگئی ا ور اللہ کا دشمن وہیں ڈھیر ہوگیا۔ حملے کے دوران اس نے اتنی زبردست چیخ لگائی تھی کہ گرد وپیش میں ہلچل مچ گئی اور کوئی ایسا قلعہ باقی نہ بچا جس پر آگ روشن نہ کی گئی ہو۔ (لیکن ہوا کچھ بھی نہیں)
کارروائی کے دوران حضرت حارثؓ بن اوس کو بعض ساتھیوں کی تلوار کی نوک لگ گئی تھی۔ جس سے وہ زخمی ہوگئے تھے اور ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا ، چنانچہ واپسی میں جب یہ دستہ حرہ ٔ عریض پہنچا تو دیکھا کہ حارثؓ ساتھ نہیں ہیں، اس لیے سب لوگ وہیں رک گئے۔ تھوڑی دیر بعد حارث بھی ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوئے آن پہنچے۔ وہاں سے لوگوں نے انہیں اٹھا لیا اور بقیع غرقد پہنچ کر اس زور کا نعرہ لگایا کہ رسول اللہﷺ کو بھی سنائی پڑا۔ آپﷺ سمجھ گئے کہ ان لوگوں نے اسے مار لیا ہے ، چنانچہ آپﷺ نے بھی اللہ اکبر کہا ، پھر جب یہ لوگ آپﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا: ((افلحت الوجوہ )) یہ چہرے کامیاب رہیں۔ ان لوگوں نے کہا: (ووجہک یا رسول اللہ) آپﷺ کا چہرہ بھی اے اللہ کے رسول! اور اس کے ساتھ ہی اس طاغوت کا سر آپﷺ کے سامنے رکھ دیا۔ آپﷺ نے اس کے قتل پر اللہ کی حمد وثنا کی اور حارث کے زخم پر لعابِ دہن لگادیا جس سے وہ شفایاب ہوگئے اور آئندہ کبھی تکلیف نہ ہوئی۔1
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اس واقعے کی تفصیل ابن ِ ہشام ۲/۵۱ - ۵۷ صحیح بخاری ۱/۳۴۱ -۴۲۵ ، ۲/۵۷۷۔ سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۲/۴۲، ۴۳۔ اور زاد المعاد ۲/۹۱ سے ماخوذ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ادھر یہود کو جب اپنے طاغوت کعب بن اشرف کے قتل کا علم ہوا تو ان کے ہٹ دھرم اور ضدی دلوں میں رعب کی لہر دوڑ گئی۔ ان کی سمجھ میں آگیا کہ رسول اللہﷺ جب یہ محسوس کرلیں گے کہ امن وامان کے ساتھ کھیلنے والوں، ہنگامے اور اضطراب بپا کرنے والوں اور عہد وپیمان کا احترام نہ کرنے والوں پر نصیحت کا ر گر نہیں ہورہی ہے تو آپﷺ طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہ کریں گے ، اس لیے انہوں نے اپنے اس طاغوت کے قتل پر چوں نہ کیا بلکہ ایک دم ، دم سادھے پڑے رہے۔ ایفاء عہد کا مظاہرہ کیا اور ہمت ہار بیٹھے، یعنی سانپ تیزی کے ساتھ اپنی بلوں میں جاگھسے۔
اس طرح ایک مدّت تک کے لیے رسول اللہﷺ بیرون مدینہ سے پیش آنے والے متوقع خطرات کا سامنا کرنے کے لیے فارغ ہوگئے اور مسلمان ان بہت سی اندرونی مشکلات کے بارِ گراں سے سبکدوش ہوگئے جن کا اندیشہ انہیں محسوس ہورہا تھا اور جن کی بُو وقتاً فوقتا ًوہ سونگھتے رہتے تھے۔
۷۔ غزوہ ٔ بحران:
یہ ایک بڑی فوجی طلایہ گردی تھی جس کی تعداد تین سوتھی۔ اس فوج کو لے کر رسول اللہﷺ ماہ ربیع الآخر ۳ھ میں بحران نامی ایک علاقے کی طرف تشریف لے گئے تھے ...یہ حجاز کے اندر فرع کے اطراف میں ایک معدنیاتی مقام ہے ...اور ربیع الآخر اور جمادی الاولیٰ کے دو مہینے وہیں قیام فرمارہے۔ اس کے بعد مدینہ واپس تشریف لائے۔ کسی قسم کی لڑائی سے سابقہ پیش نہ آیا۔1
۸۔ سَرِیہ زید بن حارثہ:
جنگ احد سے پہلے یہ مسلمانوں کی یہ آخری اور کامیاب ترین مہم تھی جو جمادی الآخر ۳ ھ میں پیش آئی۔
واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ قریش جنگ بدر کے بعد قلق واضطراب میں مبتلا تو تھے ہی مگر جب گرمی کا موسم آگیا اور ملک شام کے تجارتی سفر کا وقت آن پہنچا توانہیں ایک اور فکر دامن گیر ہوئی۔ اس کی وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ صفوان بن امیہ نے ...جسے قریش کی طرف سے اس سال ملکِ شام جانے والے تجارتی قافلے کا میرکارواں منتخب کیاگیا تھا ...قریش سے کہا : ''محمد اور اس کے ساتھیوں نے ہماری تجارتی شاہراہ ہمارے لیے پُر صعوبت بنادی ہے ، سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اس کے ساتھیوں سے کیسے نمٹیں۔ وہ ساحل چھوڑ کر ہٹتے ہی نہیں اور باشندگانِ ساحل نے ان سے مصالحت کرلی ہے۔ عام لوگ بھی انہیں کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کون سا راستہ اختیار کریں ؟ اگر ہم گھروں ہی میں بیٹھ رہیں تو اپنا اصل مال بھی کھا جائیں گے اور کچھ باقی نہ بچے گا ، کیونکہ مکے میں ہماری زندگی کا دار ومدار اس پر ہے کہ گرمی میں شام اور جاڑے میں حبشہ سے تجارت کریں۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ِ ہشام ۲/ ۵۰ ، ۵۱۔ زاد المعاد ۲/۹۱۔ اس غزوے کے اسباب کی تعیین میں مآخذ مختلف ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مدینہ میں یہ خبر پہنچی کہ بنو سلیم مدینہ اور اطراف مدینہ پر حملے کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر جنگی تیاریاں کررہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے کسی قافلے کی تلاش میں نکلے تھے۔ابن ہشام نے یہی سبب ذکر کیا ہے اور ابن قیم نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ پہلا سبب سر ے سے ذکر نہیں کیا ہے۔
 
Top