• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعات اور ان کا پوسٹ مارٹم

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
عرضِ مصنف
پیش نگاہ کتاب ’’ بدعات اور ان کا تعارف‘‘ کے بعد بدعت کے موضوع پر احقر کی دوسری تصنیف ہے۔ اس کتاب میںقارئین ان بہت سی بدعات کا پوسٹ مارٹم ملاحظہ فرمائیں گے جن کا احاطہ ’’بدعات اور ان کا تعارف‘‘ میں نہیں ہو سکا تھا لیکن یہ کتاب ابھی بھی تمام مروجہ بداعت کا احاطہ نہیں کر سکی ہے اور اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بہت سی بدعات ایسی بھی ہیں جو کہ کتابوں میں سرے سے مذکور ہی نہیں بلکہ وہ سنی سنائی باتیں ہیں جوکہ سینہ بہ سینہ اہلِ بدعات میں چلی آ رہی ہیں ان کا احاطہ تب ہی ممکن ہو سکے گا جب انہیں اہلِ بدعات کے معتبر افراد سے سنا جائے اور پھر قلم بند کیا جائے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ میں اپنی دیگر مصروفیات و مشغولیات کے سبب اس جانب کامل توجہ نہیں کر سکا جس کی وجہ سے بھی بہت سی بدعات کا احاطہ اور ان کا پوسٹ مارٹم نہیں ہو سکا جس کے لئے (بشرطِ حیات) مجھے اس موضوع پر ایک یا ایک سے زائد بار قلم اٹھانا پڑے گا ۔ (ان شاء اللہ ) ۔
میں قارئین کتاب سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں قلمی تعاون فرمائیں اور بدعات ِ غیر مذکورہ کی نشاندہی فرمائیں تاکہ عوام الناس کی اس سلسلے میں رہنمائی کی جا سکے اور انہیں بدعات کی راہ پر سے ہٹا کر سنتِ رسول ﷺ کی راہ پر چلنے کی دعوت دی جائے ۔
کتابِ ھذا کی اشاعت میں جن احباب نے جس قسم کا بھی تعاون کیا ہے میں بارگاہِ الہی میں ان کے لئے اجر عظیم کے لئے بدستِ دعا ہوں۔ ساتھ ہی اللہ کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اس محنت کو قبول فرمالے جو کتابِ ھذا کی صورت میں منظرِ عام پر آ رہی ہے اور اس کتاب کو شرک و بدعات کے اندھیروں میں بھٹکنے والے لوگوں کے لئے حصولِ ہدایت کا ذریعہ اور سبب بنا دے آمین یاربِ العالمین
عبدہ الاحقر
سعید بن عزیز یوسف زئی
صفر المظفر1420 ھ
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بدعات اور ان کا پوسٹ مارٹم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم ، اما بعد فاعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم ’’ و ان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ (الاعراف ) و عن عائشۃ ؓ قالت قال رسول اﷲ ﷺ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (متفق علیہ )
ترجمہ :۔ حمدو ثناء رب العالمین اور صلوٰۃ و سلام علی رحمت للعالمین کے بعد (ارشاد الٰہی ہے ) اور جان لو کہ بے شک میرا ہی راستہ سیدھاہے پس تم اسی کی پیروی کرو اور دوسری راہوں پر نہ چلو وہ راہیں تمہیں اللہ کی سیدھی راہ سے ہٹا دیں گی ۔ نیز عائشہ ؓ ام المومنین نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات نکالی (دین سمجھ کر ) جو دین میں سے نہیں تو وہ مردود ہے ۔
سورہ الاعراف کی آیتِ مذکورہ بالا اور حدیثِ ام المومنین ؓ دونوں اس امر کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ اللہ اوراس کے رسول ﷺ کے تابعداروں پر یہ لازم اور فرض ہے کہ اللہ اوررسول کی دکھائی ہوئی راہ پر چلیں ، ان کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کریں ۔ انکے فرمائے ہوئے فرامین کو اپنائیں ، جن کاموں سے انھوں نے روک دیا ہے ان سے رک جائیں ۔ سوال یہ ہے کہ لوگ ایمان و اسلام کے دعوی کے ساتھ ساتھ یہی کچھ کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے ہیں ؟ یا صرف اسلام و ایمان کے دعوے ہی ان کے پاس ہیں اور عمل کسی اور چیز پر ہو رہا ہے ۔ جب اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہم نے امت مسلمہ پر ایک طائرانہ وغائرانہ نظر ڈالی تو اس امت کی ایک بڑی تعداد کو بالخصوص برصغیر پاک و ہند میںبسنے والے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کو شرک و بدعات کی غلاظتوں میں لتھڑا ہوا پایا ۔ اسلام کا خالص چشمہ جو کہ قرآن و حدیث سے عبارت ہے برصغیر میں شرک و بدعات کی کثرت سے اب خالص نہیں بلکہ کثرتِ غلاظت کے سبب متعفن ہے اور اس کی شکل بالکل بدل دی گئی ہے وہ اسلام جو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں پر پیش کیا تھااس نام نہاد اسلام سے بالکل مختلف ہے جو آج برصغیر کے اہل بدعت کے ہاں رائج ہے ۔ وہ اسلام جسے رسول اللہ ﷺ نے لوگوں پر پیش کیا تھا وہ ایک اللہ کی بندگی و اطاعت اورایک رسول ﷺ کی اطاعت فرماں برداری تک محدود تھا لیکن موجودہ مسخ شدہ اسلام ایک اللہ کے ساتھ ڈھیر سارے معبودانِ باطلہ کی عبادت و اطاعت اور ایک رسول ﷺ کی اطاعت کے ڈھیر سارے خود ساختہ اور جعلی اماموں کی تقلید سے عبارت ہے شرک اور بدعت میں ڈوبے ہوئے لوگوں میں اللہ کی توحید ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ عوام ایک بار پھر جہالت اور گمراہی کے ان عمیق اندھیروں میں ڈوبتے جارہے ہیں جہاں سے انھیں نکالنے کے لئے حق تعالی نے نبی رحمت ﷺ کو مبعوث فرمایا تھا ۔چنانچہ اس امر کی ضرورت ہے کہ سنت رسول اکرم ﷺ پر عمل کیا جائے شرک و بدعات کا قلع قمع کیا جائے، توحید الٰہی کو عوام الناس تک پہنچایا جائے اور انہیں برائی کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے یہ وہ جہاد ہے جس کا حکم خود نبی رحمت ﷺ نے ان الفاظ میں دیا ’’من رای منکم منکرافلیغیرہ بدیہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ ذالک اضعف الایمان رواہ مسلم ‘‘ یعنی تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے پس چاہئے کہ وہ اس برائی کو اپنے ہاتھ سے ہٹا دے ۔اگر وہ ہاتھ سے ہٹانے کی قوت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اسے برا کہے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو کم از کم اپنے دل میں اسے برا جانے اور کمزور ایما ن کی علامت ہے ۔آپﷺ کی اس حدیث مبارکہ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ برائی کو دیکھ کر چپ نہ رہا جائے بلکہ اسے ختم کرنے کی ہر ممکن تدبیر ہاتھ اور زبان سے کی جائے بدعت ، جس کے رد میں یہ تحریر لکھی جارہی ہے برے کامون میں سب سے برا کام ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بدعت کے بارے میں فرمایا کہ وہ مردود ہے یعنی اللہ کے ہاں ناقابل قبول ہے اور بدعتی کو اس کا کوئی اجر نہیں ملے گا بلکہ بدعات میں گرفتار ہونے کے سبب بدعتی لوگ جہنم میں داخل کئے جائیں گے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے ۔ کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار ۔ رواہ النسائی۔
یعنی ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی کا ٹھکانہ دوزخ ہے ۔علاوہ ازیں بدعت کی مذمت کرتے ہوئے مزید ارشاد فرمایا ۔ مابتدع قوم بدعۃفی دینھم الا نزع اﷲ سنتھم مثلھا ثم لا یعیدھا الیھم الی یوم القیامۃ (رواہ الدارمی ) یعنی نہیں نکالتی کوئی قوم اپنے دین میں بدعت مگر یہ کہ اللہ تعالی اسی قدر سنت ان کے درمیان سے اٹھا لیتا ہے اور پھر وہ اسی سنت کو قیامت کے دن تک ان کی طرف نہیں لوٹائے گا ۔ معلوم ہوا کہ بدعت اتنی بڑی برائی ہے جس کے اپنانے سے اللہ رب العالمین ناراض ہو جاتا ہے اور اپنے نبی علیہ السلام کی سنتوں کوبدعتی بندوں کے درمیان سے اٹھا لیتا ہے تاکہ جس بھلائی سے انہوں نے دوری اختیار کی ہے اس کی سزا میںا نہیں مستقلاً اس بھلائی سے محروم کر دیا جائے اور جس برائی کو انہوں نے اپنے سروں پر لادا ہے ہمیشہ ہمیشہ اس میں گرفتار رہیں پھر یہ بدعتی اللہ کے نزدیک اتنے بڑے مجرم ہیں کہ ان کی تعظیم اللہ تعالی نے اپنے نبی علیہ السلام کی زبانی منع فرمائی اور آپ ﷺ نے فرمایا ’’ من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان الی ھدم الاسلام ‘‘ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان ) یعنی جس نے کسی بدعتی کی تعظیم کی تو گویا اس نے اسلام کے ڈھا دینے پر مدد کی ۔ اس سے ثابت ہوا کہ بدعتی کو سلام کرنا ، بدعتی کے ساتھ رشتہ داری کرنا ، بدعتی کو اپنا امام بنانا اور اس کی اقتداء میںنماز پڑھنا یہ سب کے سب عمل غلط ہیںاور اسلام کو ڈھا دینے کے مترادف ہیں اس لئے کہ ان تمام کاموں سے بدعتی کی تعظیم ہوتی ہے جبکہ ہمیں اس کی تعظیم کرنے سے منع کیا گیا ہے اب وہ موحد بھائی ذرا غور کریں جو اپنی نمازیں بدعتیوں کی اقتداء میں پڑھ کر نہ صرف ضائع کر رہے ہیں بلکہ بدعتیوں کواپنا امام بنا کر اسلام ڈھانے میںان کے ساتھ تعاون بھی کر رہے ہیں ۔ جب ان بھائیوں کو ان کاموں سے منع کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف جماعت سے نماز پڑھنے کی خاطر ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے سے نماز ہوتی ہی نہیں ہے کجا یہ کہ نماز باجماعت کا اجر و ثواب ملے
اور اس پر دلیل یہ فرمان رسول ہے
’’لا یقبل اﷲ لصاحب بدعۃ صوما ولا صلاۃولا صدقۃ ولا حجا ولا عمرۃ ولا جھادا ولا صرفا ولا عدلا یخرج من الاسلام کما تخرج الشعرۃ من العجین ۔ (رواہ ابن ماجہ ) یعنی اللہ تعالیٰ بدعتی شخص کا نہ روزہ قبول کرتا ہے نہ نماز، نہ صدقہ ، نہ حج ،نہ عمرہ، نہ جہاد، نہ اللہ کی راہ میں اس کا خرچ اور نہ اس کا انصاف ، وہ اسلام سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے آٹے سے بال نکل جاتا ہے ۔
نیز ابن ماجہؔ ہی میں بروایت ابن عباسؓ اللہ کے رسولؐ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے ’’ اَبٰی اﷲُ اَنْ یُّقْبِلَ عَمَلَ صَاحِبِ بِدْعَۃٍ حَتّٰی یَدَعَّ البِدْعَۃَ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ بدعتی کے کسی بھی عمل کو اس وقت تک قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ وہ بدعت کو ترک نہ کردے اور مجمع الزوائد میں ہے ’’اِنَّ اﷲَ حَجَبَ التَّوْبَۃَ عَنْ کُلِّ صَاحِبِ بِدْعَۃٍ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب بدعت سے توبہ کو چھپا دیا ہے یعنی بدعتی کو اللہ توبہ کی توفیق ہی نہیں دیتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل بدعت اپنی اپنی بدعات کو گناہ سمجھتے ہی نہیں بلکہ بدعات پر عمل پیرا ہو کر اپنے زعم باطل میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اس سے ثواب حاصل ہو گا لہٰذا نہ وہ ارتکابِ بدعت پر توبہ کرتا ہے اور نہ ہی اسے توبہ کرنا کبھی نصیب ہو گی ۔ الغرض حق تعالیٰ اہل بدعت کا کوئی بھی عمل قبول نہیں کرتا انکے اچھے ا عمال بھی بدعت کے سا تھ اور بدعت کے سبب ضائع ہو جاتے ہیں اسی طرح اہل بدعت کی تعظیم کرنے والے مسلمانوںکی عبادات جو وہ اہل بدعت کی اقتداء میں ادا کرتے ہیں انہیں کوئی فائدہ نہیں دیں گی اس لئے کہ بدعتی کی تعظیم کر کے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے فرمانِ مبارک کو ٹھکرایا ۔
آپؐ کی حدیث پر بدعتی کی تعظیم کو ترجیح دی اس کی اقتداء میں نماز پڑھ کر صرف نماز ہی ضائع نہیں کی بلکہ اپنے دینِ اسلام کو ڈھانے پر اس نے بدعتی کی مدد کی ۔ ہمارے سامنے سیدنا عمرؓ بن خطاب کے صاحبزادے سیدنا عبداللہؓ کا فیصلہ اس سلسلے میں موجود ہے جب انہوں نے ایک مسجد میں اذان کے بعد تثویب سنی یعنی مؤذن پکار پکار کر لوگوں کو نماز کی ترغیب دلانے لگا، سیدنا عبداللہؓ اس وقت کافی بوڑھے تھے اور ان کی بینائی ختم ہو چکی تھی یہ تثویب سن کر آپؓ نے اپنے شاگرد سے فرمایا تھا ’’اَخْرِجْ بِنَا فَاِنَّ ہٰذِہٖ بِدْعَۃٌ‘‘ (ابو داؤد)
یعنی ہمیں یہاں اس مسجد سے لے چل کیونکہ یہ تو بدعت ہے ۔ دیکھئے صحابئ رسول نے ایک بدعتی کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے کراہیت کی اور معذور ہو نے کے باوجود اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی جہاں ارتکاب بدعت ہو رہا تھا آج وہ لوگ جو بدعتیوں کے پیچھے نمازیں پڑھ رہے ہیں وہ ذرا اپنے کردار کا صحابئ رسولؐ کے کردار سے موازنہ کریں اور دیکھیں کہ صحابۂ کرام بدعات سے کس قدر نفرت کیا کرتے تھے ۔ سیدناابن مسعودؓ کے سامنے ایک بار چند ایسے لوگوں کا ذکر کیا گیا جو مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھتے اور ایک خاص انداز سے ذکر کرتے تھے آپؓ ان لوگوں کے پاس گئے اور فرمایا ’’مَنْ عَرَفَنِیْ فَقَدْ عَرَفَنِیْ وَمَنْ لَّمْ عَرَفَنِیْ فَاَنَا عَبْدُ اﷲِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ تُعْلَمُوْنَ اَنَّکُمْ لَاَہْدٰی مِنْ مُحَمَّدٍ ﷺ وَاَصْحَابِہٖ اِلٰی اَنْ قَالَ لَقَدْ جِئتُم بِِبدْعَۃٍ عُظْمٰی اَوْ لَقَدْ فَضَلْتُمْ اَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ﷺ عِلْمًا (احکام الاحکام) یعنی جو مجھے جانتا ہے وہ تو مجھے جانتا ہی ہے لیکن جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں عبداللہ ہوں مسعود کا بیٹا ۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تم لوگ محمدﷺ کے صحابہ سے زیادہ ہدایت یاب ہو (پھر آپ نے انہیں اس بدعت پر کافی ڈانٹنے کے بعد فرمایا) اے لوگو تم نے ایک بہت بڑی بدعت پیدا کی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ تم علم میں صحابہ کرام سے بڑھ چکے ہو۔ اور ایک روایت میں یہاں تک آتا ہے کہ ابن مسعودؓ نے ان لوگوں کو دھکے دے کر مسجد سے نکال دیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم بدعتی ہو ۔ (ملاحظہ فرمائیے فتاویٰ قاضی خان)
نیز حبر الامّۃ سیدنا ابن عباسؓ نے آیتِ قرآنی ’’فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ‘‘ کی تشریح و تفسیر میں ارشاد فرمایا ’’دَخَلَ فِیْ ہٰذِہٖ الآیۃِ کُلُّ مُحْدَثٍ فِیْ الدِّیْنِ وَکُلُّ مُبْتَدِعٍ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ‘‘ (معالم برخازن بحوالہ شب برات ایک تحقیقی جائزہ)
یعنی اس آیت کی رو سے ہر بدعتی اور دین میں نئے امور ایجاد کرنے والے کے ساتھ قیامت تک کے لئے بیٹھنے کی ممانعت ہے حالانکہ ظاہری طور پر اس آیت میں بدعتیوں کا ذکر نہیں ہے لیکن مفسر قرآنؓ فرماتے ہیں کہ بدعتی بھی اس کے حکم میں داخل ہیں اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہیں چاہئیے بھلا بتائیے کہ جب بدعتی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہی درست نہیں تو اس کو سلام کرنا ، اس سے رشتہ داری کرنا ، اس کا احترام کرنا، اور اس کی اقتداء میں نمازیں پڑھنا کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ سیدنا علیؓ سے مروی ہے کہ ’’لَعَنَ اﷲُ مَنْ اٰ وٰی مُحْدِثًا‘‘ (خطبات توحید)یعنی جو کوئی بدعتی کو اپنے گھر میں ٹھکانہ دیتا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بدعتی کا کام اسلام کو ڈھانا ہے اور ایسے شخص کو ٹھکانہ دینے کا مطلب یہی ہے کہ ٹھکانہ دینے والا بھی اس کام میں بدعتی کا شریک ہے وگرنہ ہر مسلمان کا فریضہ ہے ان خبیثوں کو جوتے مار مار کر اپنے گھروں سے نکال دے ۔ ٹھکانہ دینا تو بہت دور کی بات ہے یہ لوگ مسلمانوں کی محبت کے نہیں بلکہ نفرت اور غضب کے مستحق ہیں ان سے نفرت کرنا ایمان کی تکمیل کی علامت ہے ، جو لوگ اپنے گھروں میں بدعتی مولویوں اور پیروں کو ٹھہراتے ہیں وہ سب کے سب اس روایت کی رو سے اللہ تعالیٰ کے لعنت کردہ ہیں بھلا اس سے بڑھ کر بھی کائنات میں کوئی ذلیل ہو سکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہو ۔
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مَنْ دَعَا اِلٰی ہُدًی کَانَ لَہٗ مِنَ الاَجْرِ مِثْلَ اُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہٗ لاَ یَنْقُضُ ذَالِکَ مِنْ اُجُوْرِہِمْ شَیْئًا وَّمَنْ دَعَا اِلٰی ضَلاَلَۃٍ کَانَ عَلَیْہٖ مِنَ الاِثْمِ مِثْلُ اٰ ثَامِ مَنْ تَبِعَہٗ لاَ یَنْقُضُ ذَالِکَ مِنْ اٰ ثامِہِمْ شَیْئًا (بحوالہ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنتہ) یعنی جو شخص ہدایت کی طرف بلائے تو اس کے لئے وہی اجر ہے جو ا سکی اتباع کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرر ہیں اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے،اور جوشخص گمراہی کی طرف بلائے (واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدعت کو ضلالۃ قرار دیا ہے اور یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے ۔ )
تو اس کے لئے وہی گناہ ہے جو اس کی اتباع کرنے والوں کے لئے اللہ کے ہاں مقرر ہیں اور انکے گناہوں میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے ۔ یہ ایک دستور چلا آرہا ہے کہ اہل بدعات تو پہلے تو بدعات ایجاد کرتے ہیں پھر لوگوں کو اس کی طرف بلاتے ہیں پھر لوگ ان بدعات کے حامل ہو کر دوسروں کو دعوت دیتے ہیں اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ قرآن خوانی ایک بدعت ہے اس کا موجد تو کب کا مر کھپ گیا لیکن یہ بدعت ابھی تک موجود ہے اب اگر کوئی شخص اپنے یہاں قرآن خوانی کا اہتمام کرتا ہے تو اس بدعت میں شریک ہونے والے سب افراد گناہ گار ہوں گے باوجودیکہ قرآن کی تلاوت کار ثواب ہے مگر اسی طریقے جو کہ مسنون ہے باقی تمام طریقے باطل ہیں ۔ پھر ان گناہ گاروں کے گناہوں میں وہ شخص بھی حصہ دار ہے جس نے انھیں اس بدعت کی طرف دعوت دی اور اس کے گناہ میںرب العالمین کوئی کمی نہیں فرمائے گا کیونکہ سب سے بڑا گناہ گار بدعت کی طرف دعوت دینے والاہوتا ہے پھر ان تمام بدعتیوں کے گناہوں میں وہ شخص بھی حصہ دار ہے جس نے یہ بدعت ایجاد کی تھی اور جب تک اس بدعت کا وجود روئے زمین پر رہے گا ایجاد کنندہ کو اس کا گناہ ملتا رہے گا ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
برادران اسلام !
اہل بدعت کے خلاف ہمارا یہ تحریری مشن ذاتی مشن نہیں ہے بلکہ یہ وہ لڑائی اور جہاد ہے جو اللہ کے دین اور سنن رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کی خاطر ہم لڑ رہے ہیں پھر ہم کوئی خدائی فوجدار نہیں کہ زبردستی ’’آبیل مجھے مار ‘‘ والی لڑائی لڑیں بلکہ ہمیں ہمارے نبی ﷺ نے یہ جنگ لڑنے کا حکم دیا اور اسے جنگ نہیںبلکہ جہاد گردانا جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ثابت ہو رہا ہے ۔
عن ابن مسعود قال قال رسول اﷲ ﷺ ما من نبی بعثہ اللہ تعالی فی امتہ قبلی الا کان لہ فی امتہ حواریون و اصحاب یا خذون بسنتہ و یقتدون بامرہ ثم انھا تخلف من بعدھم خلوف یقولون مالا یفعلون ما لا یومرون فمن جاھدھم بیدہ فھو مومن و من جاھدھم بلسانہ فھو مومن ومن جاھدھم بقلبہ فھو مومن ولیس ورآء ذالک من الایمان حبۃ خردل رواہ المسلم (بحوالہ مشکوۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ )
یعنی ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں ہے کہ جسے اللہ تعالی نے مجھ سے پہلے اس کی امت میں اسے نہ بھیجا ہو مگر اس حال میں کہ اس کی امت میں اس کے جاں نثار ہوتے اور اس کے صحابی ہوتے کہ اس کی سنتوں کو پکڑے رہتے ہیں اور اس کے احکام کی پیروی و تابعداری کرتے ہیں پھر ایک مدت کے بعد یہ حال ہو جاتا ہے کہ ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوجاتے ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں جن پر خودعمل پیرا نہیں ہوتے اور ایسے کام کرتے ہیں جن کا ان کو حکم دیا نہیں جاتا ہے (جیسے بدعات ) پس جو کوئی ان ناخلف لوگوں کے خلاف اپنے ہاتھ سے لڑے تو وہ ایماندار ہے اور جو ان کے خلاف اپنی زبان کی مدد سے لڑے وہ بھی ایماندار ہے اور جو ان لوگوں کے خلاف اپنے دل کی مددسے لڑے یعنی دل میں انھیں برا جانے تو وہ بھی ایماندار ہے اور جو کوئی ان تینوں کاموں میں سے کوئی کام بھی نہ کرے تو اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے ۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اہل بدعات سے لڑنا اور عوام الناس کو بدعات پر عمل پیرا ہونے سے روکنا عین جہاد ہے ۔ اور اگر کوئی عالم دین یہ فریضہ انجام نہیں دیتا تو اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان پڑھ لیجئے جسے سیدنا معاذ بن جبل ؓ نے مرفوعا بیان کیا ہے ’’اذا حدث فی امتی البدع و شتم اصحابی فلیظھر العالم علمہ فمن لم یفعل فعلیہ لعنۃ اﷲ والملائکۃ والناس اجمعین‘‘ (کتاب السنۃ ) ترجمہ اگر واقع ہو جائیں میری امت میں بدعات اور میرے صحابہ پر سب و شتم پس چاہیئے میری امت کے عالم دین کو ظاہر کرے اپنے علم کو ( یعنی اپنے علم قرآن و حدیث سے ان کا مقابلہ کرے اور حق کو واضح کرے ) اور جو کوئی عالم دین اپنی اس ذمہ داری کو ادا نہ کرے تو اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی ، اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔
برادران اسلام ! بدعت کی حقیقت یہ ہے کہ یہ سنت کی ضد ہے ، بدعتی کا عمل رسول اللہ ﷺ کے عمل اورقول دونوں کے خلاف ہوتا ہے کیا بروز محشر ایسا شخص آپؐ کی شفاعت کا مستحق بن سکتا ہے جو ساری زندگی بدعات پر عمل پیرا ہو کر آپؐ کے فرامین مبارکہ اور سنن مبارکہ کی مخالفت کرتا رہا ؟ سن لیجئے کہ ایسے لوگوں سے رسول اللہ ﷺ بروز محشر بیزاری کا اعلان فرمائیں گے چنانچہ ارشاد گرامی ہے
’’اِنِّیْ فَرَّطُّکُمْ عَلٰی الْحَوْضِ مَنْ مَرَّ عَلَیَّ شَرِبَ وَمَنْ شَرِبَ لَمْ یَظْمَائُ اَبَدًا لَیَردْنَ عَلَیَّ اَقْوَامٌ اَعْرِفِہُمْ وَیَعْرِفُوْنَنِیْ ثُمَّ یُحَالُ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُمْ فَاَقُوْلُ اِنَّہُمْ مِنِّیْ فَیُقَالُ اِنَّکَ لاَ تَدْرِیْ مَاَاحْدَثُوْا بَعْدَکَ فَاَقُوْلُ سُحْقًا سُحْقًا لِّمَنْ غَیَّرَ بَعْدِیْ رواہٗ البخاری (بحوالہ مشکوٰۃ) ترجمہ :۔ میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا ۔ جو شخص میرے حوض کے پاس سے گزرے گا وہ اس حوض سے پئیے گا اور جو اس حوض سے پئیے گا وہ پھر پیاسا نہیں ہو گا ۔ پھر کچھ لوگ میرے حوض پر وارد ہوں گے جنہیں میں پہچانتا ہوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے (یعنی یہ آپ کے امتی ہوں گے) پھر میرے اور ان کے درمیان رکاوٹ قائم کر دی جائے گی (یعنی انہیں میرے پاس آنے سے روک دیا جائے گا) میں کہوں گا کہ یہ تو میرے امتی ہیں (انہیں کیوں روکا جا رہا ہے انہیں آنے دو) پس مجھ سے کہا جائے گا کہ اے نبی بے شک آ پ اس بات سے بے خبر ہیں کہ انہوںنے آپ کی وفات کے بعد کیا کیا بدعات نکالی تھیں ، پس میں کہوں گا کہ دوری ہو دوری ہو یعنی ہلاکت ہو ان کے لئے جنہوں نے میرے بعد (میری شریعت میں) تبدیلیاں کیں ۔
وہ افراد جو کہ دن رات بدعات میں مبتلا ہیں اپنے عبرتناک انجام پر غور کریں اگر دنیا اور آخرت میں اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی درکار ہے تو آج ہی بدعات سے دامن چھڑا کر نبی اکرم ﷺ کی سنتوں سے ناطہ جوڑ لیں کہ یہی کامیابی اور فلاح کا راستہ ہے اور اس راستے پر چلنے کی دعوت ہمیں خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیارے ہونٹوں اور سچی زبان سے دی ہے ۔ آپؐ نے فرمایا ’’اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوٰی اﷲِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَاِنْ کَانَ عَبْدًا حَبْشِیًّا ، فَاِنَّہٗ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرٰی اِخْتِلاَفًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃَ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَّکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٍ وَکُلُّ ضَلاَلَۃٍ فِیْ النّارِ رواہٗ النسائی وابو داؤد والترمذی وابن ماجہ والدارمی‘‘
ترجمہ اے لوگو ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، حاکم کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، اگرچہ وہ حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، پس بے ِشک جو میری وفات کے بعد زندہ رہے کا وہ عن قریب بکثرت اختلافات دیکھے کا پس ایسے موقع پر تم میری اور میرے راشد و ہدایت یافتہ خلفاء کی سنتوں کو لازم پکڑ لینا اور میری سنتوں کو ڈاڑھوں یعنی نہایت سخت مضبوطی سے پکڑ لینا اور دین میں نئے امور ایجاد کرنے سے بچنا پس بے شک دین میں نکالا جانے والا ہر نیا امر بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ دوزخ کی آگ ہے براداران اسلام ! دیکھئے خود رسول اللہ نے فساداور اختلافات کے مواقع پر اپنی سنتوں پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے اگر ہم واقعی اپنے پیارے نبیﷺ سے محبت کے دعویٰ میں مخلص ہیں تو پھر آج ہی ہمیں یہ عہدکر لینا چاہیئے کہ ہم آپ کی سنتوں پر عمل کریں گے پھر سو شہیدوں کے برابر کا ثواب اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبی کے فرمان کے مطابق ہمیں ضرور عطا فرمائے گا جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا ’’مَنْ اَحْیَا سُنَّتِیْ عِنْدَ فِسَادِ اُمَّتِیْ فَلَہٗ اَجْرُ مِأَۃٍ شَہِیْدًا‘‘ (بحوالہ مشکوٰۃ) یعنی جس نے میری مردہ سنت کو میری امت میں فساد و اختلاف کے موقع پر عمل کے ذریعے زندہ کیا میرا رب اسے سو شہیدوں کا اجر عطا فرمائے گا ۔
معلوم ہوا کہ بدعت کے مقابلے میں سنت پر عمل پیرا ہونا اللہ تعالیٰ کو بے انتہا محبوب ہے اور جو لوگ بدعات سے نفرت اور سنتوں سے محبت کرتے ہیں ان کے بارے نبی علیہ السلام نے فرمایا ’’مَنْ اَحَبَّ سُنَّتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیْ فِیْ الْجَنَّۃِ‘‘ (بحوالہ مشکوٰۃ) یعنی جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ رہے گا ۔ بدعت پر اس تفصیلی بحث کے بعد اب فرداً فرداً ان بدعات کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے جو کہ نام نہاد مسلمانوں نے اپنا رکھی ہیں اللہ انہیں ان بدعات سے چھٹکارا حاصل کرنے اور سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
1۔ قضائے عمری

رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اپنی اولادوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہو جائیں او ردس برس کی عمر میںنماز نہ پڑھنے پر انہیں تنبیھہً مارو (درمنثور) لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نہ والدین نے اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دیا نہ رغبت دلائی ، نہ خود مسجد گئے نہ اولاد کومسجد کا راستہ دکھایا ۔ عمر عزیز کاایک طویل عرصہ گمراہیوں میں گزار کر کبھی کسی فطرتِ سلیمہ رکھنے والے کو اس کا ضمیر کچوکے لگاتا ہے اور اسے بندگئ رب العالمین کی طرف راغب کرتا ہے پھر یہ شرمندۂ نظر و قلب اللہ کے گھر میں داخل ہوتا ہے او راپنی معصیت کا ذکر اپنے پیش امام صاحب سے کرتا ہے کہ میں نے اب اللہ کے فضل و کرم سے نماز پڑھنا شروع کر دیا ہے آپ استقامت کی دعا فرمائیے ۔ ادھر سے جواب ملتا ہے کہ قضائے عمری بھی پڑھتے ہو کہ نہیں ؟ یہ سوال کرتا ہے ، جی یہ قضائے عمری کیا چیز ہوتی ہے ؟ فرماتے ہیں گیارہ برس کی عمر سے لیکر اب تک کی عمر کا حساب لگاؤ کہ کتنے برس تم نے نماز نہیں پڑھی پھر اس کے بعد اتنے ہی برس تک ہر فرض نماز کے ساتھ ان سالوں کی فوت شدہ قضاء نماز ادا کیا کرو ۔ اگر قضائے عمری ادا نہیں کرو گے تو یہ نماز بھی جو کہ تم پڑھ رہے ہو کوئی فائدہ نہیں دے گی چنانچہ عوام کی اکثریت جو کہ بے خبر رموز شریعت ہے ان جاہل ملاؤں کی بات مان کر قضائے عمری نام کی نمازیں ادا کرتی ہے ۔ مین کہتا ہوں کہ قضائے عمری کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا ہے نماز نہ پڑھنا بلا شک و شبہہ گناہ عظیم ہے لیکن یہ گناہ شرک کی مانند توبہ کر لینے سے معاف ہو جاتا ہے توبہ کا فلسفہ ہی یہ ہے کہ اس کے سبب پچھلے تمام گناہ حق تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے ۔
بنی اسرائیل کے اس مسلمان کے واقعے سے کون ناواقف ہو گا جس نے سو قتل کئے تھے پھر توبہ کرنے کے بعد کوئی نیکی کرنے سے قبل ہی اسے موت آگئی لیکن حق تعالیٰ نے چونکہ اس کی توبہ قبول فرما لی تھی لہٰذا صرف اسی بنیاد پر اسے اپنی جنت کا مستحق قرار فرمایا اور سنئے کہ معصیت رسول کتنا بڑا گناہ ہے
غزوئہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے تین صحابیوں کا یہ گناہ بھی حق تعالیٰ نے ان کی توبہ اور استغفار کے سبب معاف فرما دیا جس کا ذکر سورئہ توبہ اور سورئہ نساء میں بیان کیا کیا ہے ۔ مشرکین مکہ کے شرک سے کون بے خبر ہے؟ انہوں نے اللہ کے گھر میں تین سو ساٹھ بت سجا رکھے تھے اور علی الاعلان ان بتوں کو پوجا کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے موقع پر جب انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے حضور معافی مانگی تو آپ نے انہیں معاف فرما دیا پھر ان کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا لیکن ان میں سے کسی ایک کو اللہ کے رسول نے قضائے توحید بشکل قضائے عمری کا حکم نہیں دیا اس لئے کہ توبہ کر لینے سے ان کے گناہوں کو حق تعالیٰ نے معاف فرما دیا تھا
میرا خیال ہے کہ قضائے عمری پڑھنے والوں کی توبہ اللہ کے ہاں یقینا مقبول نہیں ہوتی ہے جبھی توانہیں توبہ کے ساتھ ساتھ قضائے عمری بھی پڑھنی پڑتی ہے میں کہتا ہوں کہ قضائے عمری پڑھنے والوں نے اللہ ارحم الراحمین سے نا امیدی اختیار کر رکھی ہے اور شریعت اسلامی میں قضائے عمری کی صورت میں ایک ایسا قبیح عمل ایجاد کیا ہے جس نے توبہ اور استغفار کے مفہوم کو یکسر غلط انداز میں عوام الناس کے سامنے پیش کیا ہے ۔ قضائے عمری کو عبادت سمجھنا یکسر غلط ہے اس لئے کہ عبادت صرف وہی ہے جو اللہ کے رسول سے عملاً، قولاً اور تقریراً ثابت ہو جائے جبکہ قضائے عمر یکا ان تینوں صورتوںمیں کسی ایک صورت سے بھی ثبوت نہیں ملتا ہے ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
2۔ کفارئہ نماز
روزنامہ جنگ کراچی میں لدھیاؔنے کے ایک مولوی صاحب آپ کے مسائل اور ان کا حل نامی کالم میں اکثر لکھتے رہتے ہیں کہ جو شخص بے نمازی مر گیاہو اور اس کے وارثین اگر اُس کی نمازوں کا کفارہ ادا کرنا چاہیں تو انہیں چاہئیے کہ ہر نماز کا کفارہ ڈھائی کلو گندم فطرئہ عید کے حساب سے ادا کر دیں اس طرح اس بے نمازی کی نمازوں کا کفارہ ادا ہو جائے گا ۔لدھیاؔنے کے ان مولوی صاحب کے ساتھ دیگر مفتیان فرقہ ہائے مقلدین کا یہی فتویٰ ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ مرنے سے پہلے نماز غیر ادا شدہ کا کفارہ قضائے عمری ہے اور مرنے کے بعد نماز کا کفارہ فی نماز ڈھائی کلو گندم ہے اب ذرا حساب لگائیے کہ ایک دن کی پانچ نمازوں کا کفارہ ساڑھے بارہ کلو گندم ہوا اور ایک سال کی ۱۸۲۵ نمازوں کا کفارہ تقریباً ۴۵۰۰ کلو گرام ہوا ۔ دس سال کی نمازوں کا کفارہ ۴۵۰۰۰ کلو گرام ہوا اور بیس سال کا تقریبا ۹۰۰۰۰ کلو گرام ہوا اسی طرح حساب لگاتے چلے جائیں پھر یہ ہزاروں اور لاکھوں کلوگرام تک پہنچنے والا کفارہ بصورت گندم یا اس کی قیمت کی مساوی رقم لدھیانے کے مولوی کے ہاں جمع کرا دی جائے ادھر کفارہ جمع ہوا اور ادۃر قبول ہو گیا
۔ کیسے قبول ہو گیا ؟ کس نے قبول کر لیا ؟ یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہ تو کسی نے محسوس کی اور نہ ہی اس کاروبار لات و منات کو چلانے والے مولوی نے ا سکے بتانے کی زحمت گوارا کی ۔ کفارہ دینے والوں کو اپنے سر سے بوجھ اتارنا تھا ، سو اتار دیا شریعت اس معاملے میں کیا کہتی ہے ؟ اس بارے میں لدھیانے کے مولوی کا قول ان کے لئے کافی و شافی ہے حالانکہ قرآن مجید میں صاف صاف لکھا ہے کہ بے نمازی پکے دوزخی ہیں اگر ادائییگی کفارئہ نماز کے ذریعے یہ گناہ معاف ہو سکتا ہوتا او رکفارئہ نماز کو خود حق تعالیٰ نے مقرر کیا ہوتا یا اپنے رسولؐ کو اس کے مقرر کرنے کا حکم دیا ہوتا تو پھر بے نمازیوں کے حق میں اس نے کیوں فرمایا
’’مَا سَلَکَکمْ فِیْ سَقَرَ ۔ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ ا لْمُصَلِّیْنَ (المدثر ۴۲،۴۳) ترجمہ وہ جنتی پوچھیں گے کہ کونسی چیز تمہیں دوزخ میں لے گئی ؟ وہ کہیں گی کہ ہم لوگ بے نمازی تھے پھر اسی سورۃ کی اڑتالیسویں آیت میں فرمایا کہ کسی سفارش کرنے والے کی سفارش ان بے نمازیوں کے حق میں نفع مند نہیں ہو گی ۔
لیکن قرآن کے برعکس لدھیانے کے مولوی صاحب جن کاکام اختلاف امت ہی پیدا کرنا ہے مسلسل یہ فتویٰ دے رہے ہیں کہ ڈھائی کلو گندم فی نماز کفارہ نکالو نہ صرف وہ بلکہ ساری ہی مفت خور مفتی یہی فتویٰ دیتے ہیں اور کفارہ کھانے کے لئے اپنے مدارس کوپیش کرتے ہیں جہاں ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کی دھومیں مچی ہوئی ہیں
کفارئہ نماز کی حقیقت بخاری و مسلم میں صرف اتنی ہے ’’مَنْ نَسِیَ صَلاَۃً فَلْیُصَلِّہَا اِذَا ذَکَرَہَا لاَ کَفَّارَۃَ لَہَا اِلاَّ ذَالِکَ‘‘ یعنی جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے تو جب اسے یاد آجائے اسی وقت پڑھ لے یہی اس نماز کا کفارہ ہے ۔ معلوم ہوا کہ کفارئہ نماز صرف نماز کا پڑھنا ہی ہے اور اسی کے لئے ہے جو نماز پڑھنا بھول جائے یا نماز کے وقت سوتا رہ جائے جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے ۔ اس کے لئے نہیں جو ساری زندگی بے نمازی رہا اور اسی حالت میں مر کر جہنم رسید ہوا ۔ ان جہنمی لوگوں کے بارے میں نبی علیہ اسلام واضح الفاظ میں فرما گئے ہیں کہ ’’مَنْ تَرکَ الصَّلوٰۃَ مُتعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ‘‘ یعنی جس نے جان بوجھ کر نماز چھوری تحقیق وہ کافر ہو گیا ان کافروں کی نمازوں کے کفارہ کا ٹھیکہ لدھیانے کے مولوی صاحب اور ان کے دیگر ساتھیوں نے ایسے ہی لے رکھا ہے جیسے مردوں کو قرآن بخشنے کا ٹھیکہ انہوں نے قرآن خوانی کی شکل میں لے رکھا ہے ۔ جیسے قرآن خوانی کی مروجہ صورت قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے اسی طرح مروجہ کفارئہ نماز کا بھی قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ کفارئہ نماز ایک بدعت اور اس کے مرتکب بدعتی ہیں ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
3۔ صلوٰۃ عاشورہ
غنیۃ الطالبین میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے چند ایسی راتوں کے نام لکھے ہیں جن میں شب بیداری کرنا اورنوافل ادا کرنا ان کے نزدیک مستحب ہے ان راتوں میں سے ایک رات شبِ عاشورئہ محرم ہے جس میں بعض بدعتی صلوٰۃ عاشورہ پڑھتے ہیں ۔ غنیہ الطالبین ہی میں لکھا ہے کہ ’’اگر کوئی آدمی عاشورے کے رزہ رکھے اور شب بیدار رہے تو اللہ تعالیٰ اس آدمی کو جب تک وہ چاہتا ہے زندہ رکھتا ہے ‘‘ اس روایت کی بنیاد پر اور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے اس شب کے بیان کردہ فضائل پر نیز دوسرے صوفیاء سے منقول روایات کے سبب پر بھی اس شب کو لوگ جن کا تعلق فرقہ حنفیہ سے ہے مساجد مین اہتمامِ نوافل کرتے ہیں، اس شب کی عبادت حنفیہ فرقے کی جماعت رائے ونڈیہ اور بریلویہ کے تمام افراد کرتے ہیں ۔ بہت سے لوگ یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے چونکہ اس شب کے فضائل بیان کئے ہیں لہٰذا یہ شب معتبر ہے لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ غنیہ الطالبین احادیث صحیحہ کی کتاب نہیں ہے اس میں شیخ صاحب نے بہت سی ایسے روایات بھی لکھ دی ہیں جو کہ علمائے حدیث اور فقہاء کے نزدیک موضوعات میں شمار ہوتی ہیں البتہ فرق ہائے باطلہ پر ان کی تحقیق لاجواب ہے جس نے فرقہ حنفیہ اور اس کے بانی و مبانی کا سار کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے اور میں کہتا ہوں کہ یہ موضوع روایات ہمارے نزدیک ناقابل عمل ہیں حالانکہ امت کی اکثریت ان پر عمل پیرا ہے لیکن ہمارے نزدیک مطاع یعنی لائق اطاعت رسول اللہ ﷺ ہیں نہ کہ شیخ عبدالقادر جیلانی ، پھر دوسری بات یہ کہ عبادت کی تعریف یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے تعامل سے ثابت ہو ، وہ عبادت بنفسہٖ عبادت نہیں جو آپؐ سے ثابت نہیں بلکہ وہ بدعت ہے چاہے اس پر عمل کرنے والا اور اس کی تائید کرنے والا کوئی بھی ہو ۔ پھر دیکھئے کہ اپنی کتاب میں مشہور حنفی ملا علی قاری کیا لکھ گئے ہیں ۔ فرماتے ہیں ’’اسی طرح نمازِ عاشورا ، نماز رغائب بالاتفاق موضوع ہیں اسی طرح رجب کی بقیہ راتوں کی نمازیں ، ستائیسویں رجب کو (شب معراج) اور پندرھویں شعبان کی نمازیں موضوع ہیں‘‘۔ تعجب ہے احناف پر کہ اپنے عالم کی بات نہیں مانتے ہیں ۔ (موضوعاتِ کبیر ص۴۷۵)
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
4۔ صلوٰۃ الکفایہ
یہ نماز صوفیوں میں کافی معروف ہے جبکہ عوام الناس کی اکثریت اس نماز سے اور ا سکے طریقِ ادائیگی سے بے خبر ہے لیکن جنہیں اس کا علم ہو جاتا ہے پھر وہ صوفیاء کی زبانی اس کے فضائل وغیرہ سن کر اس بدعت پر عمل پیرا ہونے سے باز نہیں رہ سکتے ہیں ۔ چونکہ بہت سے لوگ صوفیاء سے اس کے فضائل سن کر او رکتب ِ صوفیاء میں پڑھ کر اس کے عامل ہوئے ہیں اسی سبب میں یہ لکھ رہا ہوں کہ یہ بدعت سے نہیں رہ سکتے ۔ میںنے اس نماز کے فضائل بھی بالخصوص غنیہ الطالبین میں پڑھے ہیں ۔ اس میں اس نماز کا طریقہ لکھا ہے کہ ’’نماز کفایہ دو رکعت ہے اور ہر ایک رکعت میں ایک دفعہ سورئہ فاتحہ پڑھے اور گیارہ دفعہ قُلْ ہُوَ اﷲُ اَحَدٌ اور پچاس دفعہ یہ پڑھے فَسَیَکْفِیْکَہُمْ اﷲُ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ اور اس کے بعد سلام پھیر کر یہ دعا پڑھے‘‘۔ (غنیہ الطالبین مترجم ص۵۹۳)
میں نے بخوف طوالت دعا کے الفاظ درج نہیں کئے ہیں وگرنہ دعا کے الفاظ بھی خود ساختہ ہیں اور مسنون نہیں پھر دعا لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’جو آدمی اس دعا کو پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے واسطے کافی ہوتاہے اور اس نماز کے پڑھنے سے آدمی کا غم اور الم جاتا رہتا ہے اس کی دل جمعی ہو جاتی ہے اور اس کی بدی اس سے جاتی رہتی ہے ‘‘۔ (غنیہ الطالبین ص۵۹۴)
اس سے قبل کہ میں اس بدعت کے رد مین کچھ کہوں ۔
سیدنا علیؓ کا ایک فرمانِ عالی شان آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں یہ فرمان ایک واقعہ کی شکل میں ہے ۔ ’’سیدنا علیؓ نے عید کے روز نماز کی ادائیگی سے قبل ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نفل نماز پڑھنے کا ارادہ کر رہا ہے آپؓ نے اس کو منع فرمایا ۔ اس شخص نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں اور وہ عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کسی عبادت پر عذاب نہیں دیتا آپ نے جوابًا فرمایا ’’میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے فعل پر ثواب نہیں دیتا جب تک اس کو رسول اللہ ﷺ انجام نہ دے لیں یا اس کی ترغیب نہ فرما لیں اس صورت میں تیری یہ نماز بے کار ثابت ہوئی اور بیکار شے پر عمل کرنا حرام ہے پس شاید اللہ تعالیٰ تجھے رسول اللہﷺ کی مخالفت کی وجہ سے عذاب دے‘‘۔
(نظم البیان ص۷۳، لجنہ ص۱۶۵ مؤلف سید جمال الدین محدث بحوالہ شبِ برأت ایک تحقیقی جائزہ از حبیب الرحمن کاندھلوی)
اسی طرح سنن دارمیؔ میں ہشام بن حجیر سے روایت ہے کہ طاؤسؒ عصر کی نماز کے بعد دوگانہ پڑھا کرتے تھے ، ابن عباسؓ نے ان سے فرمایا کہ یہ چھوڑ دو ، طاؤسؒ نے کہا کہ ممانعت تو ان دو رکعتوں کی ہے جنہیں لوگ غروب آفتاب تک پڑھنے کا ذریعہ نہ بنا لیں ۔ ابن عباسؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے میں نہیں جانتا ہے کہ اس نماز کے پڑھنے پر تجھے ثواب ملے کا یا عذاب اس لئے کہ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ ’’وَمَا کَاَنَ لِمُؤْمِنِ وَّلاَ مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیْرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ
(سنن دارمی)
ابن عباسؓ اور سیدنا علیؓ کے ان فرامین کو ملاحظہ فرمانے کے بعد احادیث صحیحہ کا بغور مطالعہ فرمائیں کہ کیایہ نماز رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے ؟ احادیث کی تمام معتبرکتابیں اس موضوع نماز اور اس کی فضیلت سے پاک ہیں ۔ اب سیدنا علیؓ کے فرمان کی روشنی میں اس بات کا تعین فرما لیجئے کہ اس نماز کے پڑھنے والے ، پڑھانے والے اہل سنّت کہلانے کے لائق ہیںیا بدعتی؟ نیز یہ بھی کہ عنداللہ وہ ثواب کے مستحق ہیں یا اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں؟
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
5۔ صلوٰۃ اسبوعی
یہ نماز بھی صوفیاء میں بالخصوص سلسلۂ قادریہ سے تعلق رکھنے والے افراد پڑھتے ہیں اور اس کا وجود بھی غنیہ الطالبین سے ثابت ہے وگرنہ احادیث صحیحہ میں صلاۃِ اسبوعی کاکہیں بھی ذکر نہیں ہے ۔ غنیہ الطالبین میں جو کچھ صلوٰۃ اسبوعی کے بارے میں لکھا ہے میں اسے اختصار سے پیش کرتا ہوں ۔
جمعہؔ کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب آفتاب نیزہ بھر بلند ہو جائے اگر دو رکعت پڑھی جائیں تو دو سو نیکیاں اس کے عوض ملیں گی اور دو سو گناہ معاف ہوں گے اگر چار رکعت پڑھی جائیں تو اللہ تعالیٰ نمازی کے جنت میں چار سو درجے بڑھا دیتا ہے اگر آٹھ رکعت پڑھے تو جنت میں آٹھ سو درجے بلند کیا جائے گا اور تمام گناہ م عاف ہوں گے اور اگر بارہ رکعت پڑھے تو اس کے بدلے میں دو ہزار دو سو نیکیاں ملیں گی ۔ دو ہزار دو سو گناہ معاف ہوں گے اور جنت میں دو ہزار دو سو درجے بڑھا دئیے جائیں گے اگر نماز جمعہ اور نماز عصر کے درمیان دو رکعت نماز یوں پڑھے پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ ایک بار ، آیۃ الکرسی ایک بار ، سورۃ الفلق پچیس بار ، دوسری رکعت میں سورۃ الفاتحہ ایک بار ، سورۃ اخلاص ایک بار اور سورۃ الفلق بیس بار پھر سلام پھیر کر پچاس بار لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲِپڑھے تو یہ شخص مرنے سے قبل خواب میں اللہ کا دیدار کرے گا اور جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے گا اس کے علاوہ چند اور طریقوں سے بھی یہ نماز اس کتاب میں لکھی ہے ۔
ہفتہؔ کی نماز چار رکعت ہے ہر رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ ، تین بار سورئہ اخلاص پھر سلام پھیر کر آیت الکرسی پڑھی جائے تو ایک سال کے روزوں اور قیام اللیل کے برابر ثواب ملے کا نیز ایک حرف کے بدلے ایک شہید کا اجر بھی ملے گا اور بروز محشر ایک ہزار انبیاء اور شہداء کے ہمراہ سایہ عرش نصیب ہو گا ۔
پیرؔ کی نماز آفتاب بلند ہونے کے بعد دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ ایک بار آیۃ الکرسی ایک بار سورئہ اخلاص ایک بار اور معوذ تین بھی ایک بار ہی پڑھی جائے بعد سلام کے دس بار استغفار کرے اور دس بار ہی نبی علیہ السلام پر درود بھیجے تو تمام گناہ معاف ہوں گے نیز یہ بھی لکھا ہے کہ بارہ رکعت پڑھے ہر رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ اور آیۃ الکرسی پڑھے بعد سلام کے بارہ بار سورئہ اخلاص پڑھے اور بارہ ہی مرتبہ استغفار کرے توبروز محشر اسے پکار کر بارگاہِ الہٰی سے بطور ثواب ایک ہزار بہشتی حُلّے دئیے جائیں گے تاجپوشی ہو گی پھر بہشت میں ایک لاکھ فرشتہ بمعہ تحفوں کے اس کا استقبال کرے گا اور ایک ہزار نوری محلات سے گزرے گا ۔
بدھؔ کی نماز بلندئ آفتاب کے بعد بارہ رکعت ہے ہر رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ ، ایک بار آیۃ الکرسی ، تین بار سورئہ اخلاص اور تین بار معوذتین پڑھے تو بروز محشر عرش کے پاس سے اسے پکارا جائے گا ، عذابِ قبر سے بچایا جائے گا نیز اس کا اعمال نامہ مثل پیغمبروں کے لکھا جائے گا ۔
منگلؔ کی نماز آفتاب بلند ہونے کے بعد دس رکعت ہے ہررکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ ایک بار آیت الکرسی اور تین بار سورئہ اخلاص پڑھے توستر دن تک نامۂ اعمال میں کوئی گناہ نہیں لکھا جائے کا اگر ستر روز کے اند ر مر گیا تو شہید ہو گا اور ستر برس کے گناہ بھی معاف ہوں گے ۔
جمعراتؔ کی نماز ظہر اور عصر کے درمیان ہے پہلی رکعت مین ایک بار سورئہ فتحہ اور سوبار آیت الکرسی ، دوسری رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ اور سو بار سورئہ اخلاص پڑھے بعد سلام کے سو بار درود پڑھے تو رجب و شعبان کے روزوں کے برابراجر اور حجاج کے برابر ثواب ملتا ہے ۔
اتوارؔ کی نماز ظہر کے بعد ہے اور دو طریق سے ہے پہلا یہ کہ ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ اور آمَنَ الرَّسُوْلُ پڑھے تو جتنی نصرانیوں کی تعداد ہے اتنا ثواب ملے گا، ایک پیغمبر کا ثواب بھی ملے گا، نیز ایک حج اور ایک عمرے کا بھی ثواب ملے گا ہر رکعت کے عوض ایک ہزار نماز کا ثواب اور ہر حرف کے عوض بہشت میں ایک شہر ملے گا ۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ چار رکعت پڑھے پہلی رکعت میں فاتحہ اور الم سجدہ پڑھے ، دوسری میں فاتحہ اور ملک پڑھے ، بعد کی دو رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ سورئہ جمعہ پڑھے پھر جو مانگے گا اللہ وہ حاجت پوری کرے گا اور نصاریٰ کے عقیدہ و مذہب سے اللہ اسے بچائے گا ۔
یہ ہیں وہ نمازیں جو کہ صلوٰۃ اسبوعی کہلاتی ہیں ان کا ثبوت کسی بھی صحیح حدیث سے نہیں ملتا ہے ۔ معلوم نہیں کہ غنیہ الطالبین میں یہ موضوع روایات کس نے داخل کر دی ہیں ۔ ہمارایہ ایمان ہے کہ کوئی بھی عالم دین ان غلط روایات کی تائید نہیں کر سکتا ۔ ضرور یہ کسی رافضیؔ یا حنفی کی حرکت ہے کہ اس نے غنیہ الطالبین میں ان روایات کو اس لئے داخل کر دیا ہے کہ ان کی بنیاد پر یہ پوری کتاب بے اعتبار قرار پا جائے یہی وجہ ہے کہ شبِ برأت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے متعصب حنفی اور نام نہاد امام الحدیث حبیب الرحمن کاندھلوی نے شیخ عبدالقادر جیلانی کی شخصیت پر رکیک حملے کئے ہیں اسکی وجہ وہی ہے کہ پہلے گزر گئی ہے کہ شیخ نے اس کتاب میں ان کے خود ساختہ اور جعلی امام کی حقیقت بیان کی ہے بس اسی پر چراغ پا ہو کر بہت سے حنفی ان کے خلاف بکواس بازی کرتے ہیں ۔ میں کہتاہوں کہ بے شک صلوٰۃ اسبوعی سے متعلق روایات موضوع ہیں ان پر تعامل بدعت ہے ، ان کے فضائل و محاسن بیان کرنا کسی بھی اعتبار سے لائق استحسان نہیں ۔ ہم شیخ عبدالقادر جیلانی کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں ہیں اگر یہ واقعتًا انہی کی عبارت ہے تو پھر ان کا معاملہ ہم اللہ کے حوالے کرتے ہیں اور اگر یہ تحریفات ہیں تو پھر اللہ کے عذاب میں انہیں کوئی گرفتار نہیں کرا سکتا ہے ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
6۔ قبر کا عذاب دور کرنے والی نماز​
غنیہ الطالبین ہی میں اس نماز کا تذکرہ ہے علاوہ ازیں کافی تعداد میں بدعتی لوگ یہ نماز پڑھتے بھی ہیں اس کا طریقہ یہ لکھا ہے
کہ اگرکوئی آدمی دو رکعت نماز پڑھے اور ایک رکعت میں سورئہ فرقان کا آخری رکوع بڑھے اور دوسری رکعت میں سورئہ مومنون کو فَتَبَارَکَ اﷲُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ تک پڑھے تو یہ آدمی جنوں اور انسانوں کے مکر سے بچا رہے گا اور بروز محشر اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا ، عذاب قبر اور نزع اکبر سے بچا رہے گا ‘‘
(غنیہ الطالبین مترجم صفحہ ۵۹۵)
میں نے کتب احادیث میں اس روایت کو تلاش کیا لیکن مجھے یہ روایت کہیں بھی نہیں ملی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نماز بدعت ہے اور بعد میں ایجاد کی گئی ہے ۔ چونکہ اس نماز کے پڑھنے والے زیادہ تر سلسلۂ قادریہ سے تعلق رکھنے والے حنفی دیو بند اور بریلوی لوگ ہیں لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ وہی اس بدعت کے موجد ہیں اگر عبدالقادر جیلانی نے یہ بدعت ایجاد کی ہوتی توان کے عقیدے سے تعلق رکھنے والوں میں یہ نماز آج ہمیں بآسانی مل جاتی لیکن ہم نے کوئی بھی اہل حدیثؔ، اہل سنتؔ اور حنبلیؔ ایسا نہیں پایا جس کا اس بدعت پر تعّمل ہوا اور یہیں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ غنیہ الطالبین میںاگر تحریف کی کئی ہے تو وہ تحریف کرنے والے کون لوگ ہیں ؟ یاد رکھئے ایسی نماز عذاب قبر سے تو کیا خاک بچائے کی جہنم میں البتہ ضرور لے جائے گی اس لئے کہ بدعتی افراد کا ٹھکانہ حق تعالیٰ نے جنت میں نہیں بلکہ جہنم میں مقرر فرمایا ہے ۔
 
Top