• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعات اور ان کا پوسٹ مارٹم

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
15 ۔ دعائے جمیلہ
یازدہ سورہ شریف میں ہے کہ جو آدمی اس دعا کو پڑھے یا اپنے پاس رکھے، اگرچہ اس کے گناہ مثل کف دریا یا ریگِ بیاباں کے ہوں تو اس دعائے جمیلہ کی برکت سے حق تعالی بخش دے گا اور اس دعا کا بڑا اجر و ثواب ہے ۔ نیز سولہ سورہ شریف میں ہے کہ جس نے نماز صبح کے بعد ان ناموں کو پڑھا ۔ اس نے ایک سو حج ادا کئے۔ حضرت آدم کے برابر اور جس نے بعد ظہر کے پڑھا اس نے ایک سو حج ادا کئے حضرت خلیل اللہ کے برابر اور جس نے بعد عصر کے پڑھا اس نے پانچ سو حج ادا کئے حضرت عیسیٰ کے برابر اور جس نے بعد مغرب کے پڑھا ، اس نے سات سو حج ادا کئے۔ حضرت یونس کے برابر اور جس نے بعد عشاء پڑھا ، اس نے ہزار حج ادا کئے حضرت موسی کے برابر اور جس نے بعد تہجد کے پڑھا ، اس نے لاکھ حج ادا کئے حضرت محمد ﷺ کے برابر اور ہزار قرآن ختم کئے اور ہزار بندے آزاد کئے اور ہزار بھوکوں کو کھلایا (صفحہ ۲۵۳) ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یَا جَمیلُ یا اﷲ یا رقیب یا اﷲ یا عجیب یا اﷲ
یَا رؤف یا اﷲ یا معروف یا اﷲ یا لطیف یا اﷲ
یا حَنّانُ یا اﷲ یا منَّان یا اﷲ یا مجیب یا اﷲ
یا عظیمُ یا اﷲ یا دَیَّانُ یا اﷲ یَا بُرھَانُ یا اﷲ الی آخرہ

یہ دعا بھی خاصی بڑی ہے اور دعائے گنج العرش کی طرح شرکیہ کلمات سے عاری ہے لیکن خرابی اس میں بھی یہی ہے کہ اس دعا کا ثبوت احادیثِ شریفہ و صحیحہ میں نہیں ملتا۔ نہ ہی اس کے بیان کردہ فضائل اور اجر و ثواب کا کوئی تذکرہ کتب حدیث میں ملتا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک خود ساختہ وظیفہ نما دعا ہے جس کی مسنون ادعیاء و وظائف کے مقابل نہ تو کوئی اہمیت ہے اور نہ حیثیت ہے لہذا ہمیں یہ جان رکھنا چاہیئے کہ دعائے جمیلہ کا پڑھنا ، لکھنا اور اس کی نشرو اشاعت کرنا ، قرآن و حدیث کی خدمت نہیں بلکہ سراسر بدعت ہے۔ جس کا اللہ کے ہاں کوئی اجر و ثواب نہیں ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
16 ۔ دعائے نور
یازدہ سورہ شریف میں ہے ’’ جو شخص اس دعا کو اپنے پاس رکھے یا پڑھے ، دنیا میں عیش و عشرت اور مرتے وقت ایمان سلامت رہے گا اور قیامت میں اس کا چہرہ چاند کی طرح روشن ہو گا اور قرض سے نجات اور بیماری سے صحت اور غم سے نجات اور ظالموں کے ظلم سے آزاد ہو گا اور جنگ میں فتح ہو گی اور تیر اور تلوار کا زخم اثر نہ کرے گا اور کوئی مشکل اس پر نہ پڑے گی ۔ اگر سفر کو جاوے ، سلامتی سے واپس آوے اور بادشاہوں کے نزدیک سرخرو رہے گا۔ اس دعا کو پاس رکھنے پر اللہ تعالی کی رحمت کی نظر ہو گی۔
دعائے معظم و مکرم یہ ہے :۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللّٰھُمَّ یَا نُوْرُ تَنَّوَرْتَ بِالنُّوْرِ وَالنُّورَ فِی النُّورِ نُورِکَ یَانُورُ … الی آخرہ ۔
(یازدہ سورہ شریف صفحہ ۲۰۳)
یہ دعا بھی سابقہ دعاؤن کی طرح شرکیہ کلمات سے پاک ہے لیکن ایسے فضائل کے ساتھ مکتوب ہے جو کہ خود ساختہ ہیں۔ جو دعائیں رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کردہ ہیں ان میں تو ایسی مبالغہ آرائی کہیں بھی نہیں ہے کہ پڑھنے والے کا چہرہ بروزِ محشر چاند کی طرح روشن ہو گا۔ اور اس پر تیر و تلوار اثر نہیں کریں گے ۔ مقام غور یہ ہے کہ احد کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ زخمی ہوئے ، دندانِ مبارک شہید ہوئے۔ جبین مبارک خون آلود ہوئی ۔ کیا یہ دعا آپؐ کو خود نہیں آتی تھی کہ پڑھ لیتے اور ان تکالیف سے بچ جاتے یا لکھ رکھتے ؟ لیکن آپؐ نے نہ یہ دعا پڑھی اور نہ ہی کسی کو تلقین کی کہ وہ زخمی ہونے سے بچ جائے۔ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کو شکست ہوئی ۔ کیا آپ ﷺیا کسی صحابی کو یہ دعا یاد نہ تھی کہ پڑھ لیتے اور لڑائی میں فتح حاصل کر لیتے؟ حالانکہ اس دعا کے پڑھنے والے اس کے فضائل کی نسبت رسول اللہ ﷺ سے کرتے ہیں جبکہ یہ تہمت اور افتراء ہے۔ صوفیاء نے یہ دعا خود ہی گھڑی ہے اور خود ہی اس کے فضائل گھڑے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حدیث کی کسی بھی معتبر کتاب میں یہ دعا بعینہ انہی کلمات کے ساتھ موجود نہیں ہے۔
چنانچہ صاف ظاہر ہے کہ یہ کسی بدعتی صوفی کی ایجاد ہے جو کہ بدعت بھی ہے اور رسول اللہ ﷺ پر تہمت و افتراء بھی ہے ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
17 ۔ درودِ اکبر
درودِ و سلام پڑھنے سے کسی مسلمان کو انکار نہیں مگر سوال یہ ہے کہ کونسا درود اور سلام رسول اللہ ﷺ پر پڑھا جائے ۔ وہ درود جس کی تعلیم خود رسول اللہ ﷺ نے دی ہے یا وہ درود جو صوفیاء اور اہلِ بدعات نے از خود ایجاد کرلئے ہیں اور ان ہی کو پڑھنا کارِ ثواب جانتے ہیں بلکہ ان کے فضائل خود ہی گھڑ کر اس طرح پھیلاتے ہیں کہ مسنون درود و سلام جہلاء کی نظروں میں بے وقعت ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی بدعی درودوں میں سے ایک درودِ اکبر ہے جسے بدعتی حضرات کی اکثریت بڑی محبت کے ساتھ پڑھتی ہے یا زدہ سورہ شریف میں اس کے بارے میں مذکور ہے :
’’ بزرگانِ سلف سے صحیح روایات میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص صدق دل اور نیتِ خالص سے اس درود معظم کو پڑھے تو رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے خواب میں مشرف ہو گا چنانچہ اس کے پڑھنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جمعہ کی رات کو یا پنچ شنبہ کی رات کو عشاء کی نماز کے بعد غسل اور وضو کرکے اور تھوڑی سی خوشبو اپنے بدن پر لگائے ۔ بعد میں دو رکعت نماز نفل پڑھ کے اس درود شریف کو سات مرتبہ پڑھے۔ پھر اسی جگہ سو جائے۔ اگر خود نہ پڑھا ہو یا نہ پڑھ سکے تو لکھ کر سرہانے کے نیچے رکھے اور سو جائے تو اسی رات رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے مشرف ہو گا مگر شرط یہ ہے کہ غیبت اور جھوٹ اور جملہ محرمات اور ممنوعات شرعیہ سے پرہیز کرے تو فوائد اس کے دنیا اور آخرت میں بے شمار دیکھے اور لازم ہے کہ پابند صوم و صلاۃ رہے ۔ اس واسطے کہ تارک صلاۃ سے رسول اللہ ﷺ ناخوش ہوتے ہیں اور حقہ اور دیگر اشیاء سے پرہیز کرے ورنہ زیارت سے محروم رہے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ بدبودار اشیاء سے نفرتے کرتے تھے‘‘ ۔ (صفحہ ۱۶۲)
اس عبارت کے بعد پھر درودِ اکبر لکھی گئی ہے جو کہ کافی طویل ہے لیکن اس کی ابتدائی چند سطور بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں : ۔
الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ الصلوۃ والسلام علیک یا نبی اللہ
الصلوۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ الصلوۃ والسلام علیک یا خلیل اللہ
الصلوۃ والسلام علیک یا صفی اللہ الصلوۃ والسلام علیک یا خیر خلق اللہ
الصلوۃ والسلام علیک یا مکی اللہ الصلوۃ والسلام علیک یا قریشی اللہ
الصلوۃ و السلام علیک یا مدنی اللہ

ان ابتدائی سطور کو پڑھنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس درود کے ایجاد کرنے والے سلف صالحن یا بزرگانِ سلف نہیں بلکہ معروف دین فروش اور ان کی روحانی ذریت المعروف بہ ’’سگانِ مدینہ‘‘ ہیں۔ اس درود کے غیر مسنون اور بدعتی ہونے کا ثبوت یازدہ سورہ شریف کی یہ عبارت ہے کہ یہ درود بزرگانِ سلف سے منقول ہے حالانکہ درود وسلام پڑھنا عین عبادت ہے ، اس اعتبار سے اس درود کی تعلیم رسول اللہ ﷺ کی جانب سے ضروری تھی ۔ اس درود کے فضائل میں یہ بات زور دیگر کر بتکرار کہی گئی ہے کہ اس کے پڑھنے سے یا سرہانے کے نیچے رکھ کر سونے سے رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہو گئی جو کہ سراسر لغو کلام ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی خوابوں میں آمد اور زیارت کا عقیدہ رکھنا ایک مشرکانہ عقیدہ ہے (احقر نے اس موضوع پر ایک باقاعدہ کتاب تحریر کی ہے ’’خوابوں میں دیدارِ رسول ﷺ کی حقیقت‘‘ جس میں اس مسئلے کی قرآن و حدیث کی روشنی میں بہت تفصیل کے ساتھ وضاحت کر دی ہے) ۔
الغرض درود اکبر کا پڑھنا ، لکھنا اور اس کو سرہانے رکھنا بدعت کے سوا کچھ بھی نہیں جسے درود و سلام کا اشتیاق ہے وہ مسنون درود و سلام کی طرف مراجعت کرے ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
18 ۔ درودِ قبرستان
یازدہ سورہ شریف ہی میں اس درود کی تفصیل و فضائل مذکور ہیں جس پر صوفیاء اور بدعتی حضرات کی اکثریت کا تعامل ہے۔ کتاب میں لکھا ہے ’’اگر کوئی اس درود شریف کو قبرستان میں تین مرتبہ پڑھے تو اس درود شریف کی برکت سے اللہ تعالی ان مردوں میں سے ستر سال کے لئے عذاب اٹھا لیتا ہے۔ اگر کوئی اس درود شریف کو چار مرتبہ پڑھے تو قیامت تک ان مردوں سے اللہ تعالی عذاب اٹھا لے گا اور اگر کوئی چوبیس دفعہ پڑھے اور اس کا ثواب اپنے ماں باپ کو بخشے وہ تمام حقوق اپنے ماں باپ کے بجا لایا ۔ اللہ تعالی تمام فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ قیامت کے دن تک اس کے ماں باپ کی زیارت کرتے رہو‘ (صفحہ ۱۴۲)
اس کے بعد درودِ قبرستان مذکور ہے جو بطور نمونہ نقل کی جارہی ہے ۔ پڑھئے اور اس کی فصاحت و بلاغت پر سر بھی دھنئے : ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمّدٍ ما دامت الصّلاۃُ وَ صَلّ علیٰ مُحَمَّدٍ ما دامت الرحمۃ ۔ وَ صَلِّ علیٰ محمد ما دامت البرکات وَ صَلِّ علیٰ محَمَّدٍ فِی الدرْوَاحِ وَصَلِّ علیٰ صورۃ محَمَّدٍ فِی الصُّوَرِ وَصَلِّ علیٰ اِسْمِ محَمَّدٍ فِی الاسمآئِ وَصَلِّ علیٰ نفسِ مُحَمَّدٍ فِی النُّفُوْسِ وَصَلِّ علیٰ قَلْبِ محَمَّدٍ فِی الْقُلُوبِ وَصَلِّ علیٰ قَبْرِ محَمَّدٍ فِی الْقُبورِ وَصَلِّ علیٰ رَوْضَۃِ محَمَّدٍ فِی الریاض وَصَلِّ علیٰ جَسَدِ محَمَّدٍ فِی الاجْسادِ وَصَلِّ علیٰ تربَۃِ محَمَّدٍ فِی التُّرابِ وَصَلِّ علیٰ خیر خلقہٖ سیّدنَا محَمَّدٍ وَعلیٰ اٰلِہٖ و اصحابہٖ وَاَزْوَاجِہٖ وَ ذُرِّیَاتِہٖ وَاَھْلِ بَیْتِہٖ وَ اَحْبابِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمتِکَ یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنؐ
(حوالہ مذکورہ سابقہ)
قارئین کرام ! سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ یہ درود حدیث کی کسی بھی کتاب میں نہیں ہے ۔ ذرا غور کیجئے کہ یہ درود پڑھے اولاد اور فرشتے زیارت کریں والدین کی ، یہ کیسی بکواس و خرافات ہے ؟ اگر عکرمہ بن ابی جہل یہ درود پڑھے تو کیا فرشتے ابو جہل کی زیارت کریں گے ؟ اگر تارا سنگھ کی اولاد مسلمان ہو کر یہ درود پڑھے تو کیا تارا سنگھ کی زیارت کا حکم فرشتوں کو ہو گا؟ پھر ذرا اس درود کے الفاظ پر غور کریں کہ کس قدر بے ربط ، مہمل ، فرسودہ اور جاہلانہ طرزِ کلام ہے جس میں افصح العرب اور افصح العالم سید الکونینﷺ پر صلاۃ و سلام پڑھا جا رہا ہے۔ ہمارے جو قارئین عربی زبان سے نابلد ہیں ان کے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کے لئے اس درود کا اردو ترجمہ بھی نقل کیا جاتا ہے
اے اللہ درود بھیج محمدؐ پر جب تک کہ ہو درود اور درود بھیج محمدؐ پر جب تک کہ ہو رحمت اور درود بھیج محمد ؐ پر جب تک کہ ہوں برکات اور درود بھیج روحِ محمد ؐ پر روحوں میں اور درود بھیج صورتِ محمدؐ پر صورتوں میں اور درود بھیج اسمِ محمد پر ناموں میں اور درود بھیج نفس محمد پر نفسوں میں اور درود بھیج دلِ محمد پر دلوں میں اور درود بھیج قبر محمد ؐ پر قبروں میں اور درود بھیج روضہ محمد پر روضوں میں اور درود بھیج بدنِ محمدؐ پر اور ان کی آل پر اور ان کے اصحاب پر اور ان کی ازواج پر اور ان کی اولاد پر اور ان کے گھر والوں پر اور ان کے تمام دوستوں پر اپنی رحمت کے ساتھ اے رحم کرنے والے تمام رحم کرنے والوں کے ۔
قارئین کرام ! ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ اہل بدعت نے اور صوفیاء نے کس قدر لچر زبان اور عامیانہ انداز میں نبی اکرم ﷺ پر برائے صلاۃ و سلام لب کشائی کی ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ درود کے نام پر اس غیر فصیح درود کے پڑھنے والے عذاب قبر سے تو کیا بچ سکیں گے الٹے اس کے پڑھنے کے سبب عذابِ قبر و جہنم میں مبتلا ہوں گے۔ اس کے فضائل لکھنے والا بہت بڑا مفتری ہے۔ اس نے اپنی جانب سے نہ صرف یہ درود گھڑا بلکہ اس کے فضائل بھی گھڑ لئے پھر عذاب دوزخ اور عذابِ قبر سے بچنے کی خبریں تک سنا ڈالیں اور بنا ڈالیں۔
اس درود کا پڑھنا اس کے وضَّاع کے افتریٰ کی تصدیق کرتا ہے جو کہ کسی بھی مسلم و مومن و مؤحد کے لئے جائز نہیں ہے ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
19 ۔ درودِ ماہی
یہ ایک مشہور درود ہے جس کے فضائل اہلِ بدعات میں بہت پھیلے ہوئے ہیں ۔ اس کے بارے میں کئی روایتیں بھی مشہور ہیں جن میں سے ایک یازدہ سورہ شریف سے نقل کی جاتی ہے : ۔
’’ ایک روز نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ کی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اعرابی آیا اور ایک طباق کے اوپر سرپوش دیا ہوا نبی کریم ﷺ کے آگے رکھ دیا ۔ حضور نبی ﷺ نے پوچھا کہ اس میں کیا ہے؟ جواب دیا، یا رسول اللہ ﷺ تین روز ہوئے میں اس مچھلی کو پکا رہا ہوں لیکن یہ پکتی ہی نہیں ہے ۔ اس کو آگ کا اثر ہی نہیں ہوتا ۔ اب میں اس کو آپ کے پاس لایا ہوں۔ حضرت نے اس مچھلی سے پوچھا وہ بحکم خدا بولنے لگی۔ مچھلی نے عرض کیا یا رسول اللہ ایک روز میں پانی میں کھڑی تھی ۔ ایک آدمی اس درود شریف کو پڑھ رہا تھا کہ اس کی آواز میرے کانوں میں آئی اور میں نے کچھ نہیں کیا۔ آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ سنا ۔ مچھلی نے درود شریف سنایا۔ حضرت ﷺ نے فرمایا ، اے علی اس درود شریف کو لکھ لو اور لوگوں کو سنا دو۔ ان شاء اللہ دوزخ کی آگ اس پر حرام ہو جائے گی ‘‘
درود شریف یہ ہے : ۔
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ محَمَّدٍ وَ عَلیٓ آلِ محمّدٍ خَیْرَ الْخَلائقِ وَاَفْضَلِ الْبَشَر وَ شَفِیعِ الاُمَمِ یَوْمَ الْحَشْرِ وَالنّشْر وَصَلِّ عَلیٰ سیّدِنَا محَمَّدٍ وَّ عَلیٰ سیّدنا محمَّدٍ بَعْدَ کلِّ مَعلومٍ لَکَ وَصلِّ عَلیٰ محَمَّدٍ وَبَارِک وسَلَّم عَلیٰ جَمِیْع الانبیائِ والْمرسلینَ وَصلِّ عَلیٰ کلِّ الْملائِکۃِ المُقَرَّبِیْنَ وَعَلیٰ عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِیْنَ وَسَلَّمْ تَسْلِیْماً کَثیراً کثِیراً بِرَحْمتک و بِفَضْلِکَ وَبِکَرْمِکَ یَا اکرمُ الاکرمیْنَ بَرحْمتِکَ یا ارحم الرَّاحمین یا قدیمُ یا دائمُ یا حییُّ یا قیُّوْمُ یا وِتْرُ یا اَحَدُ یا صَمَدُ یا من لَّمْ یُلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ بِرحمتکَ یَا اَرْحَمَ الرَّحمِینَ (یازدہ سورہ شریف ص ۲۵۳)
درودِ ماہی اور اس کی سند میں جو روایت پیش کی گئی ہے وہ احادیث کی کسی بھی معتبر کتاب میں موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بدعات نے یہ روایت گھڑ کر حسبِ معمول رسول اللہ ﷺ پر افتراء باندھا ہے ۔
اس روایت میں چند ایسے شواہد موجود ہیں جو خود ہی اس کے جھوٹ ، موضوع اور افتراء ہونے پر دلیل ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں کوئی نہر، ندی اور دریا نہیں جہاں سے اعرابی مچھلی پکڑتا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ مچھلی پانی میں کھڑی نہیں ہوتی بلکہ تیرتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ مچھلی انسانوں کی اور انسان مچھلی کی زبان نہیں سمجھتے۔ چوتھی بات یہ کہ مچھلی کے کان نہیں ہوتے لہذا مچھلی نے انسان سے درود کیسے سن لیا ؟ پانچویں بات یہ ہے کہ درود پڑھنے والے نے درود مچھلی پر پڑھا تھا یا رسول اللہ ﷺ پر ؟ اگر رسول اللہ ﷺ پر پڑھا تھا تو آپ اس درود سے بے خبر کیسے رہ گئے جبکہ درود آپ پر پیش کیا جاتا ہے اور آپ اس کا جواب بھی دیتے ہیں ؟ چھٹی بات یہ کہ مچھلی نے درود کو نسی ندی ، کونسی نہر اور کونسے دریا میں سنا جبکہ مدینہ منورہ میں نہ اور نہ ہی مکہ مکرمہ میں کوئی ندی ، نہر اور دریا ہے ؟ نہ ہی اس دور کے بازاروں میں مچھیرے کہیں اور سے مچھلی لا کر مدینہ کے بازاروں میں فروخت کرتے تھے۔ ساتویں بات یہ کہ وہ کیسی مچھلی تھی کہ تین دن سے پانی سے باہر تھی لیکن بغیر پانی کے زندہ رہی ؟ حالانکہ مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی ۔ جیسے انسان بغیر ہوا کے زندہ نہیں رہ سکتا ۔ اگر وہ مر چکی تھی اور پک نہیں رہی تھی تو پھر درود کی تاثیر کہاں گئی ؟ شکار کیسے ہو گئی ؟ اگر درود کی تاثیر صرف آگ ہی سے بچانا ہے تو دوزخ میں صرف آگ ہی کے عذاب نہیں اس میں جاڑے کا عذاب بھی ہے۔ اس میں پتھروں سے سر کچلے جانے کا عذاب بھی ہے ۔ اس میں زخموں کے خون اور پیپ کو پینے کا عذاب بھی ہے۔ اس میں لبوں کے کترنے ، دوزخ میں انتڑیاں گھسیٹنے کے ، صعود پہاڑ پر چڑھنے کے اور حلق میں پھنس جانے والا کھانا کھانے کے بھی عذاب ہیں۔ ان عذابوں سے بچانے کے لئے اہلِ بدعات کو ابھی اور محنت کرنی ہو گی اور درودِ ماہی کی طرح جھوٹی روایات جنم دے کر ان پر نت نئے درود اپنے کاروبار کے تحفظ کے لئے ایجاد کرنے ہوں گے۔ آخری بات یہ کہ حضور ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اس درود کو لکھ لیں۔
سوال یہ ہے کہ آپؐ نے اس درود کو کہاں لکھا؟ پھر آپ رضی اللہ عنہ سے کس کس نے یہ درود سیکھا ؟ پھر کونسے محدث تک کس سند کے ساتھ یہ درود پہنچا ؟ ہے کوئی اس درود کا پڑھنے والا جو ان سوالات کے جوابات دے سکے ؟
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
20 ۔ درودِ مقدس
یہ درودبھی درود قبرستان کی طرح عجیب و غریب الفاظ پر مشتمل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی مجذوب کی بڑ کا نتیجہ ہے۔ جسے اس کے نادان عقیدت مندوں نے الہامی کلام سمجھ کر لکھ لیا ہے ۔ صوفیاء اپنے روحانی حلقوں میں اسے بصد شوق و ذوق پڑھتے ہیں ’’قارئین کی خدمت میں اس کے فضائل اور اس کا کچھ نمونہ یازدہ سورہ شریف سے پیش کیا جاتا ہے ‘‘ ۔
’’جو کوئی خواہ مرد ہو خواہ عورت اس درود مقدس کو تعظیم و تکریم سے پڑھے گا اللہ تعالی سے اس کے پڑھنے والوں کو دین و دنیا دونوں جہاںکے مقاصد و مطالب حاصل ہو جائیں گے۔ اور سب حاجتیں اس کی بر آئیں گی بشرطیکہ وضو کر کے پاکیزہ کپڑے معطر معطر پہنے اور پاک مکان خواہ مسجد ہو ، خواہ دوسرا لیکن پہلے گیارہ بار درود شریف پڑھ کر ثواب سرورِ کائنات ، فخرِ موجودات، سرورِ عالم، سردارِ انبیاء ، رسول خدا، احمد مجتبیٰ ، محمد مصطفی ﷺ کی روحِ مقدس کو بخشے پھر دعا مانگے ۔ دعا اسی وقت قبول ہو گی ۔
(یازدہ سورہ شریف ص ۲۵۴)
درود مقدس یہ ہے : ۔
یَا اِلٰھی بِحُرْمَۃِ اَقْوالِ مُحَمَّدٍ وَّ اَفْعَالِ مُحَمَّدٍ وَّ اَحْوَالِ مُحَمَّدٍ وَّ اَصْحابِ مُحَمَّدٍ وَّ ﷺ یَا اِلٰھِی بِحُرْمَۃِ بَدَنِ مُحَمَّدٍ وَّ بَطْنِ مُحَمَّدٍ وَّ بَرَکتِ مُحَمَّدٍ وَّ بَیْعَۃِ مُحَمَّدٍ وَّ براق مُحَمَّدٍ ﷺ پھر آگے چل کر لکھا ہے یا اِلھٰی بحرمۃ روح مُحَمَّدٍ وَّ راس محمد … پھر کچھ آگے چل کے پھر آگے لکھتا ہے یَا الہٰی بحرمۃ کلام مُحَمَّدٍ وَّ کشف مُحَمَّدٍ وَّ کوشش مُحَمَّدٍ وَّ وکتابۃِ مُحَمَّدٍ (یازدہ سورہ شریف ص ۲۵۶)
یہ درودِ مقدس کتاب مذکور میں کافی طویل ہے ۔ میں نے اس میں سے چند مقامات برائے نمونہ اور برائے تسکین ذوق نقل کئے ہیں۔ اس درود کو پڑھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کسی جاہل صوفی کا بنایا ہوا درود ہے جو اللہ کو اس میں رسول اللہ ﷺ کی حرمت کے واسطے دیکر دعا مانگ رہا ہے۔ بات یہاں تک بھی ہوتی تو اس میں سنجیدگی تھی مگر اس پاگل نے آگے چل کر اللہ تعالی کو جو واسطے دیئے ہیں وہ اس کے پاگل و دیوانہ اور مجذوب ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جب تک اس عبارت کا ترجمہ نہ ہو گا بیشتر قاری سمجھ ہی نہ پائیں گے کہ اس پاگل نے کیا کہا اور لوگ کیا سمجھے ۔ لہذا پہلے ترجمہ پھر تبصرہ ۔
’’اے میرے اللہ حرمت اقول محمد کے طفیل، افعال محمد کے طفیل، حالاتِ محمد کے طفیل اور اصحاب محمد کے طفیل، اے میرے معبود حرمتِ بدن محمد کے طفیل ، محمد کے پیٹ کے طفیل اور برکاتِ محمد کے طفیل، اور محمد کی فروخت کے طفیل اور ان کے سر کے طفیل … اے میرے معبود محمد کی کمزوریوں کے طفیل … اے میرے معبود محمد ؐ کی غربت کے طفیل اور محمد کے غار کے طفیل … اے میرے معبود، محمد ؐ کے کلام کی حرمت کے طفیل اور کشف ِ محمد ؐ کے طفیل اور محمد کی کوششوں کے طفیل اور محمد کی لکھائی کے طفیل … اے میرے معبود محمد ؐ سے یاری اور محمد سے یگانگی کے طفیل‘‘ ۔
محترم قارئین ! پہلے تو اس پاگل مجذوب مستانے کے ان الفاظ کو پڑھیئے کہ اللہ سے ، رسول کے پیٹ ، سر، ان کے جانور، ان کی کمزوری، ان کی غربت اور ان کے ناز و نخرے کے واسطے دیکر سوال کیا جا رہا ہے۔ ایسے سوال کرنے والا کوئی پاگل ہی ہو سکتا ہے ۔ ہم نے آج تک کسی عقل مند کو اس طرح کے واسطے دیکر دعا مانگتا نہ دیکھا ہے نہ سنا ہے ۔ پھر اس کی عربی دانی پر غور کریں کہ کس طرح عربی درود میں فارسی اور اردو کے پیوند لگائے ہیں۔ کوشش محمد ، ناز محمد نمازمحمد ، یاری محمد اور یگانگی محمد کے مرکب الفاظ اس کے پاگل ہونے کے ساتھ جاہل ہونے کا ثبوت بھی ہیں۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر پاگل و جاہل وہ ہیں جو اس درود کو شائع کر رہے ہیں ، جو اس درود کو پڑھ رہے ہیں، جو اس درود پر یقین کر رہے ہیں اور اسے پڑھنا کارِ ثواب سمجھ رہے ہیں ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
21۔ درودِ ناریہ
یہ درود بھی اہل بدعات کے ہاں پائے جانے والے وظائف ناموں ، پنچ سورہ شریفوں میں ملتا ہے۔ اس کے فضائل میں لکھا ہے
’’یہ ایسا درود ہے کہ جس کے فوائد لکھنا ممکن نہیں۔ فی الحقیقت یہ درود صدق دل سے پڑھ کر اگر پہاڑ کو انگلی سے اشارہ کیا جائے تو پہاڑ فوراً ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے۔ اللہ تعالی نے اس سے بھی زیادہ طاقت اس درود شریف میں رکھ دی ہے۔ یہ درود شریف ایک ایسا راز ہے جس کو عارفوں اور خاص الخاص ولیوں کے سوا کوئی بھی سمجھ نہیں سکا۔ اس میں بے شمار خاص فوائد ہیں جن کو اگر لکھا جائے تو دنیا کی سیاہی اور کاغذ ختم ہو جائیں ۔ سب سے زیادہ اس درود شریف کا فائدہ یہ ہے کہ جب بھی رنج و ملال ہو یا کوئی مصیبت آ جائے تو فوراً اس کو پڑھ اجائے ۔ ان شاء اللہ تمام مصیبتیں منٹوں میں ختم ہو جائیں گی۔ اندھیرا اجالے میں بدل جائیگا۔ زحمت ، رحمت میں تبدیل ہو جائے گی۔
درود یہ ہے : ۔
’’اَلَّھُمَّ صَلِّ صَلاَۃً کَامِلَۃً وَ سَلِّم سَلاَماً تَاماً عَلیٰ سیدِنَا و مَولاَنا محَمَّدٍ اَلّذِی تَنْحَلُّ بِہٖ الْعَقْدُ وَ تَنْفَرَجُ بِہٖ الْکَرْبُ وَ تُقْضیٰ بِہٖ الْحَوائجُ وَ تَنَالُ بِہٖ الرَّغائِبُ وَ حُسْنُ الْخَواتِمُ ۔ وَ یَسْتَسْقیٰ الْغَامُ بِوَجْہِہٖ الکَرِیم وَ عَلیٰ آلہٖ وَ صَحْبِہٖ فِی کُلِّ لَمْحَۃً وّ نَفْسٍ بِعَدَدَ کُلِّ مَعْلُومٍ لَکَ یَا اﷲ یَااﷲ یَا اﷲ ‘‘
قارئین محترم ! درود نادیہ کے بارے میں سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ یہ احادیث کی کسی بھی کتاب میں مذکور و مروی نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ من گھڑت درود ہے دوسری بات یہ کہ فضائل درود نادیہ لکھنے والے نے ان پہاڑوں کی نشاندہی نہیں کی جنہیں اس سے دیگر صوفیوں نے اپنی انگلیوں کے اشارے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہو تیسری بات کہ اللہ نے اس درود میں بڑی طاقت رکھی ہے بڑی لچر ہے گویا درود نہ ہو قوت مردمی کا نسخہ ہو گیا یہ تو صرف قرآن مجید کی شان ہے کہ اگر حق تعالی اسے پہاڑ پر نازل کر دیتا تو پہاڑ ہیبت قرآنی سے پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتا جیساکہ سورہ حشر میں ارشاد باری تعالی ہے :۔
لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْآنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَّرَأیتَہٗ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ ا ﷲِ
چوتھی بات یہ کہ اس کے فوائد اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر لکھے جائیں تو دنیا کی سیاہی اور کاغذ ختم ہو جائیں تو یہ بھی جھوٹی مبالغہ آرائی ہے یہ کلام صرف حق تعالی کے لئے اور اس کی شان بیان کرنے کے لئے خود اس نے اپنے پاک کلام میں بیان فرمایا ہے ۔
قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادً لِکَلِمَاتِ رَبِیّ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفِدَ کَلِمَاتُ رَبِیّ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَداً ۔
آخری بات یہ کہ درود پہاڑوں کو ٹکڑے کرنے کے لئے یا اندھیروں کو اجالوں میںبدلنے کے لئے نہیں پڑھے جاتے بلکہ امتی اپنے پیارے پیغمبر پر درود پڑھ کر رحمت وبرکت کی دعائیں بھیجتے ہیں لیکن اہل بدعت کے تو درود بھی عجیب و غریب ہیں نام بھی ناری اور کام بھی ناری ۔ درود تو باعثِ رحمت ہوتے ہیں لیکن یہاں درود کا نام ہی ناری ہے اور خواص ایٹم بم کے ہیں اس درود کے پڑھنے والے اس پر یقین رکھنے والے بھی یقیناً ناری ہی ہوں گے اور اللہ کے ہاں اس قول کے مصداق ہوں گے ۔
سَیَصْلیٰ ناراً ذاتَ لَھَبٍ ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
22۔ دعا قدح معظم :
سورہ شریفہ مطبوعہ خاں برادرس میں کراچی مین یہ دعا درج ذیل اسناد کے ساتھ مع فضائل مذکور ہے جو کہ درج ذیل ہیں :۔
روایت ہے حضرت انس ؓ سے کہ یہ دعا جبرئیل علیہ السلام پیغمبر خدا ﷺ کے واسطے معراج کی رات تحفہ لائے اور کہا کہ یہ دعا تم کو خدائے تعالی نے عنائیت کی ہے یہ دعا معلق آسمان میں سبز خط سے لکھی ہوئی ہے اور فوائد اس کے بہت ہیں خدائے تعالی نے جب زمین و آسمان کو پیدا نہیں کیا تھا تب اس کے آگے پانسو برس اس دعا کو نور کے ورقوں پر لکھ کر پردے میں رکھا تھا اب حکم ہوا کہ آپ کی امت اس دعا کو پڑھے اور آپ کی امت میں سے جو کوئی یہ دعا پڑھے گا تو اسے بے حساب ثواب ملے گا ۔ اور وہ شخص ولی ہو گا اگر تمام آدمی اور پریاں اور چرند اور پرند اور سب مل کر فضیلت اس دعا کی بیان کریں تو بھی اس کی فضیلت کا بیان نہ ہو سکے گا جو کوئی اس دعا کو دریا کے سفر میں پڑھے وہ موجِ طوفان سے سلامت رہے اور امن و امان سے گھر آئے اور جو کوئی صدقِ دل سے لوہے پر پڑھے تو عجب نہیں کہ لوہا پانی ہو جائے اور آگ پر پڑھے تو آگ سرد ہو جائے اور کاغذ کپڑے پر لکھ کر مردے کے کفن میں رکھے تو خدائے تعالی اس بندے کو روزِ قیامت قبر میں عذاب نہ کرئے گا اور قبر اس کی کشادہ ہو گی اور نور سے روشن ہو گی اور جنت کی کھڑکی اس بندے کے واسطے کھولی جائے گی اور جو کوئی قبرستان میں اس دعا کو پڑھے گا تو اللہ تعالی بارہ ہزار فرشتوں کو نور کا طبق دے کر ان مردوں کے پاس بھیجے گا اور عذاب قبر کا ان سے دور کرے گا اور قیامت کے دن حشر کے میدان میں اس شخص کو سواری ملے گی اور پینے کہ واسطے شراب طہور ملے گی
اور اس کو دیکھ کر اہل جنت کہیں گے یا الہٰی یہ بندہ کوئی پیغمبر ہے یا ولی ؟ فرشتے جواب دیں گے یہ بندہ امت ہے محمد ﷺ کی اور اتنی عزت اس کی اس سبب ہے کہ یہ بندہ دنیا میں دعائے قدح پڑھتا تھا ۔ اور جو کوئی اس دعاکو مشک اور زعفران سے طبق میں لکھ کر گلاب سے دھوئے اور وہ پانی شیشے میں حفاظت سے رکھے تو وہ پانی ہر بیماری کے لئے کام آئے اگرچہ تمام طبیب اس مرض کے علاج سے عاجز ہوں خدائے تعالی اس کو شفا بخشے گا اور جس کے اولاد نہ ہوتی ہو تو وہ صدقِ نیت سے اس دعا کو گیارہ مرتبہ پڑھے تو خدا تعالی اسے اولاد بخشے ، اگر کسی شہر میں یا گھر میں یا کسی زمین پر کچھ آفت نازل ہو تو اس دعا کو مٹی پر پڑھ کر اس شہر کے یا گھر کے یا زمین کے چاروں کونوں میں ڈال دے تو خدائے تعالی اس دعا کی برکت سے سب آفت اور بلا اس سے دور کر دے اور جو بندہ مؤمن اس دعا کو صدقِ نیت سے ایک وقت پڑھے تو وہ بلا حساب بہشت میں جائے اور اس دعا کے پڑھنے والے کو خدائے تعالی دوست رکھتا ہے اور نظر رحمت کی اس پر ہمیشہ کرتا ہے یقین رکھو ‘‘اس کے بعد دعائے قدح معظم لکھی ہے اس دعا میں شرکیہ الفاظ نہیں ہیں لیکن اس کا سب سے بڑا عیب اس کا من گھڑت ہونا اور اس کے فضائل و اوصاف قرآن سے بھی بڑھ کر بیان کئے ہیں وہی اس کے موضوع اور من گھڑت ہونے کا ثبوت ہیں ۔ ایک دفعہ قرآن مجید پڑھنے پر کوئی بلا حساب بہشت میں نہیں جاسکتا اس دعا کے پڑھنے پر کیسے جا سکتا ہے؟ جبکہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور تمام کلاموں پر فضیلت رکھنے والا کلام ہے۔ حافظ قرآن ، عالم قرآن ، اور صاحب قرآن کو تو بروز محشر سواری نہیں ملے گی اس دعا کے پڑھنے والے کو کیسے ملے گی جبکہ کونین کے تاجدار محمد ﷺ خود بغیر سواری کے میدان حشر میں موجود ہوں گے ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ صوفیاء اور دین فروش ملاؤں کی من گھڑت باتیں ہیں جن کے ذریعے وہ بندگان خدا کو فریب دیتے ہیں انھیں حقیقی دین سے برگشتہ کرتے ہیں بجائے کتاب و سنت کی تعلیم دینے کے انھیں بدعات کے بکھیڑوں ،وظیفوں ، دعاؤں اور درودوں کی تعلیم دیتے ہیں جو کہ من گھڑت ہوتے ہیں ۔ وہ بھائی بہن جو ان بدعتی وظائف و اوراد کو پڑھتے ہیں انھیں چاہیئے کہ ان کی تحقیق کریں پھر اس کے بعد عمل کریں ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
23۔ درود لکھی :۔
سولہ سورہ شریف مطبوعہ خان برادرس کراچی میں یہ درود ان فضائل کے ساتھ مکتوب ہے ’’ سلطان محمود غزنوی کا معمول تھاکہ ہر روز بطور وظیفہ صدق نیت اور فرط محبت سے لاکھ بار درود پڑھے تھے چونکہ اس قدر پڑھنے میں تمام دن گزر جاتا تھا اور انتظام سلطنت کے لئے کوئی وقت فرصت کا ہاتھ نہ آتا تھا اس وجہ سے خلل کلّی نے سیاست مہمات مملکت میں ظہور پایا اور انتظام سلطنت میں فطور آیا ۔ ایک شب عالم خواب میں جناب رسالت مآب ﷺ نے کہ آپ ہی کی ذات بابرکات کا دنیاو آخرت میںامت عاصی کو سہارا ہے ، سلطان محمود کو اپنی زیارت سے سرفراز فرمایا اور یوں ارشاد فرمایا کہ اے محمود اس درود شریف کو ہر روز بعد نماز فجر کے ایک مرتبہ پڑھ کر لاکھ درود کا ثواب پائے گا ۔ پس سلطان محمود نے حسب ارشاد ہر روز اس درود شریف کی مواظبت کی اور اس مثردہ سے ہر شخص کو خبر دی پس ایک مرتبہ پڑھ کر لاکھ درود کا ثواب پانے سے درود خوانوں کو سرور تام ہو اسی واسطے درود لکھی اس کا نام ہوا ‘‘اس کے بعد یہ درود لکھا ہے ۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اللھم صل علی سیدنا و مولنا محمد و علی آل سیدنا محمد و رحمۃ اﷲاللھم صل علی سیدنا و مولنا محمد و علی آل سیدنا محمد بعد و فضل اﷲ الی آخر ۔

اس درود شریف کے الفاظ شرکیہ عبادتوں سے پاک ہیں لیکن یہ درود غیر مسنون ہے اگر واقعتاً اس کے یہی فضائل وغیرہ تھے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو اس کی تلقین کیون نہیں فرمائی ؟ کیا محمود غزنوی رسول اللہ ﷺ کو ابوبکر ؓ ، عمرؓ ، عثمانؓ ، علیؓ اور دیگر صحابہ کرام سے زیادہ محبوب تھا ؟ رسول اللہ ﷺ اپنی وفات کے بعد محمود غزنوی کے خواب میں کیسے آئے ؟محمود غزنوی نے آپؐ کو کیسے پہچانا ؟ محمود غزنوی سے آپؐ نے کس زبان میں گفتگو کی ؟ محمود غزنوی پٹھان تھااور فارسی النسل تھا اسے عربی نہیں آتی تھی اورآپؐ کو فارسی اور پشتو نہیں آتی تھی اتنی بڑی دعا آپ نے اسے ایک خواب میں کیسے یاد کرا دی اور اس نے کیسے یاد کر لی ؟ کیا آپؐ نے اس کو دعا املا کروائی تھی یا کسی کاغذ پر لکھ کر دی تھی جبکہ آپؐ کو اللہ تعالی نے پڑھنے لکھنے سے محفوظ فرمایا تھا ؟ محمود غزنوی تک اس روایت کی سند کا کیا ہے اس نے کس کو خواب سنایا ؟ کس سے تصدیق کروائی ؟ ان تمام سوالوں کے جوابات میں درود لکھی پڑھنے والے خاموش ہیں وہ ان سوالوں کے جوابات نہیں دے سکتے ہیں اور یہی ہماری دلیل ہے کہ جس عمل کی سند نبی کریم ﷺ سے نہیں ملتی ہے اس پر عمل سے گریز کیا جائے اس لئے کے وہ بدعت ہو سکتا ہے ۔
درود لکھی کا تو دارومدار ہی ایک جھوٹے خواب پر ہے لہذا اس کے بدعی دور ہونے میں شک و شبہ کی تو کوئی گنجائش نہیں بلکہ یقینا درود لکھی کسی بدعت اور پڑھنے والے بدعتی ہیں ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
24۔ درود اکسیراعظم لسیدنا غوث الاعظم :۔
یہ درود خان برادرس کراچی کے شائع سولہ سورہ شریف میں مکتوب ہے لکھا ہے کہ ’’یہ درود اکسیر اعظم ہے ۔ مصنفہ جناب شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی اہل اللہ و مشائخ و عظام کا قول ہے کہ اس درود کا نام اکسیر اس وجہ سے رکھا ہے کہ جیسے اکسیردھاتوں کو سونا بنا دیتا ہے اسیطرح یہ درود اپنے عامل کے ظاہر کو نورانی اور باطن کو روشن بنا دیتا ہے ۔ اکثر اہل اللہ اور اصحاب طریقت نے اس کے ورد کے لئے روز جمعہ مقرر کیا ہے اور اگر یہ ناممکن ہو تو ہفتہ بھر میں کسی روز اول سے آخر تک پڑھکر ختم کر لیا کریں اس کے ظاہری و باطنی برکات بے شمار ہیں کہ سرتاج اولیاء کی تصنیف ہے درود کے الفاظ یہ ہیں :
نحمدہ و نصلی علی رسولہٖ الکریم ، اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیَّدِنَا وَ نَبِیّنَا محمد صَلاَۃً تُقْبَلُ بِمَا دَعَآئَ اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سیّدنَا و نَبِیّنا محمد صَلاَۃً تَسْمَعُ بِمَا اِسْتَغاثَنَا وَ نِدَائَ نَا اللَّھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سیَّدنا و نَبِیّنا محمد تَغْفِر بِمَا ذُنُوبَنَا ، اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سیّدنا و نبیّنا محمد تَسْتُرْ بِہَا عُیُوبَنَا … الی آخر (صفحہ ۲۵۵)
یہ درود ابھی کافی طویل ہے اس کا ابتدائی حصہ بطور نمونہ نقل کیا گیا ہے پچھلے تمام مذکور کردہ درودوں کی طرح اس درود کا بھی کتب حدیث میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے جو اس کے موضوع اور جعلی ہونے کی واضح دلیل ہے جس کا مؤلف سولہ سورہ شریف نے بھی یہ لکھتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ یہ سرتاج اولیاء کے لقب سے جس شخصیت پر یہ تہمت تصنیف لگائی گئی ہے انکی تصانیف غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب میں بھی یہ درود مکتوب نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بدعتی صوفی نے یہ درود گھڑ کر حضرت شیخ سے منسوب کر دیا ہے اس درود کے مشرکانہ الفاظ بھی اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ یہ استعانت من غیر اللہ کے قائل اہل شرک و بدعات کے کارخانہ بدعات کی مصنوعات میں سے ہے مثلاً کہا جارہا ہے کہ ’’اے اللہ درود بھیج ہمارے سردار اور ہمارے نبی محمد ﷺ پر جن کے ذریعہ تو ہماری فریادیں اور ہماری پکار سنتا ہے ‘‘ یہ عقیدہ خلاف قرآن مجید اور خلاف تعلیمات رحمت عالم ﷺ ہے اس لئے کہ قرآن میں اللہ خود فرما رہا ہے ’’اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ ‘‘اس آیت میں یہ امر واضح ہے کہ مجھے بغیر کسی وسیلے کے پکارو میں تمہاری پکار کا خود جواب دیتا ہوں ۔ مسلمان بھائی بہنوں کو چاہیئے کہ درودوں کی آڑ میں پھیلائے جانے والے خلاف قرآن عقائید اور نظریات کو پہچانیں ، خود ساختہ اور جعلی درود پڑھ کر مشرک و بدعتی نہ بنیں بلکہ درود مسنون پڑھا کریں اور بکثرت پڑھا کریں تاکہ اللہ کی رحمتیں ہر وقت ہمارے شامل حال رہیں ۔
 
Top