• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعات اور ان کا پوسٹ مارٹم

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
25۔ درود مستغاث :۔
یہ درود بھی اہل شرک و بدعات کے وظائف و اورادِ یومیہ میں شامل ہے اسے بھی خان برادرس کراچی کے شائع کردہ سولہ سورہ شریف سے نقل کیا جا رہا ہے جس میں یہ درود بغیر اسناد کے مکتوب ہے۔ ملاحظہ فرمایئے : ۔
الحمدُ للہِ الذی زَیَّن النّبیّیٖن بِحَبِـیْـبِہٖ وَ مَنَّ عَلیٰ الْمومِنیْنَ بِنَبِیّہٖ الْنبی والصَّلاۃُ والسَّلام عَلیٰ رَسُولِہٖ محمَّدٍ خَیْرَ الْوَریٰ اَلْمَسیربہٖ مِنْ فَوقِ الْعرشِ اِلیٰ تَحْتِ الثَّری 0 اَلْحَمْدُ ﷲِ عَلیٰ مَا صَفٰی وَالْحَمْدُ عَلیٰ مَا بَقیٰ وَالصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسُولِہٖ محمَّدٍ خَیْرِ الوَریٰ مَرَحْتُکَ یَارَسُولَ اﷲ عَلیٰ النَّبِیِّ الاُمِّیِّ اَنْتَ خِیَارُ اﷲِ الْمُسْتَغَاثُ اِلیٰ حَضَرَۃِ اﷲِ ، الصَّلاۃ والسّلامُ علیکَ یَارسولَ اﷲ وارِثُ الاَنْبِیآئِ رَسُولٌ صَاحِبْ الْوَحِی اَحْمَدْ شَفِیعُ اﷲِ الْمستَغَاثُ اِلیٰ حَضْرۃِ اﷲِ 0 الصَّلاۃ والسّلامُ علیکَ یَارسولَ اﷲ رَسُولٌ سَیّد الکونَینِ والثَّقْلیْنِ وَاِمام الْقِبْلَتَیْنِ شفِیْعُ الاُمَمِ فِی الدّارین فَتَّاحٌ فاتِح اﷲِ الْمُسْتَغاثُ اِلیٰ حَضرۃ اﷲِ … اِلی آخرہ (صفحہ ۲۹۲)
یہ درود بھی مذکورہ سولہ شریف کے کئی صفحات پر پھیلا ہوا ہے چونکہ بغیر سند کے اور بغیر فضائل کے لکھا گیا ہے لہذا یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ اس کے پڑھنے پر کتنا ثواب ملتا ہے اور کتنے درجات بلند ہوتے ہیں۔ البتہ ہماری تحقیق اب بھی وہی ہے کہ درود مذکور موضوع ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے منقول نہیں ہے۔ عبارت خود پکار پکار کر قاری کو اپنی حقیقت سے با خبر کر رہی ہے کہ یہ کلام نہ تو جناب رسول اللہ ﷺ کا تعلیم کردہ ہے ، نہ صحابہ کرام سے نہ تابعین و تبع تابعین سے ایسا لچر اور غیر فصیح کلام کہیں منقول ہے۔ اس درود کو بخوف طوالت مکمل نقل نہیں گیا ہے وگرنہ عربی کے نام پر تہمت سے کم نہیں۔ ایسی جاہلانہ اور سوقیانہ عربی وہی لوگ کہہ سکتے ہیں اور لکھ سکتے ہیں جو ’’اَنْتَ دَسَتْ گیر‘‘ جیسی عربی عبارتوں کے موجد ہیں۔ اور ’’فَـتَّاحٌ فَاتِحُ اﷲ‘‘ کا کیا ترجمہ کیا جائے یہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ۔
عبارت میں جگہ جگہ الْمستَغَاثُ اِلیٰ حَضْرۃِ اﷲِ کے کلمات سے رسول اللہ کو مقلب کیا گیا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ کے حضورہمارا استغاثہ دائر کرنے والے۔ جبکہ اللہ کے حضور استغاثہ دائر کرنا اور امتیوں کے قدمات کی پیروی کرنا رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داری نہیں۔ آپ ﷺ بروزِ محشر اپنے امتیوں کی شفاعت البتہ ضرور فرمائیں گے۔ استغاثے اور شفاعت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو شفاعت کا حق دیا ہے اور اس حق میں بھی واضح کر دیا ہے کہ شفاعت ناجائز امور میں نہیں ہو گی جیسا کہ سورہ نبا میں فرمایا گیا ہے ’’یَوْمَ یَقُومُ الرُّوح وَالْمَلائِکَۃُ صَفَّا لاَّ یَتَکَلَّممُوْنَ اِلاَّ مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ‘‘ ترجمہ ’’جس دن روح الامین اور فرشتے صفیں باندھے کھڑے ہوں گے کوئی کلام نہ کرے گا لیکن جسے رحمن اجازت عطا فرمائے اور وہ بات کہے گا درست‘‘ شفاعت کے مقابلہ میں استغاثہ ایک دوسری شے ہے یعنی مددمانگنا اور قیامت کے دن کسی کو مدد کرنے کا اختیار نہیں ملے گا جیسا کہ سورہ انفطار میں اعلان کر دیا گیا ہے ’’یَوْمَ لا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَیْئاً ‘‘ یعنی اس دن کوئی نفس کسی دوسرے کے لئے ذرہ برابر بھی اختیار کا مالک نہیں ہو گا ۔ چنانچہ یہ موضوع درود خلافِ قرآن بھی ہے۔ اس کا پڑھنا باعث عذاب تو ہو سکتا ہے باعثِ حصولِ ثواب نہیں ہو سکتا ۔
یہ درود مؤلف نے سولہ سورہ شریف میں اورادِ وظائف اہل چشت میں نقل کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا موجد صوفیائے سلسلہء چشت کا کوئی بدعتی صوفی ہے ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
۲۶۔ دعائے سریانی
سولہ سورئہ شریف مطبوعہ خان برادرس کراچی میں مکتوب ہے ۔ اس دعا کے فضائل میں کہ ’’اکثر بزرگان دین ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ دعا خدا تعالی کے نزدیک بہت مقبول ہے اور اس کے پڑھنے کے بہت طریقے ہیں ۔ لیکن اگر کوئی مشکل درپیش ہو تو چالیس روز تک باوضو بعد نماز صبح یا بعد نماز عشاء کے اس کا ورد کرے انشاء اللہ تعالی اس کی مراد پوری ہو گی اور اس کا ورد ہمیشہ رکھنے سے کسی کا محتاج نہ ہوگا اور اس کے روزگار میں برکت ہو گی اور اللہ تعالی کی خوشنودی ظاہر کرنے کا ذریعہ ہو گا۔ اس دعا کے اول و آخر میں درود شریف تین یا پانچ یا سات مرتبہ پڑھے‘‘ ۔
دعا کے کلمات یہ ہیں : ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَنَا الموجود فاطلبنی تجدنی فان تطلب سوائی لم تَجِدْنی
اَنَا المقصودُ لا تَقصُد سِوائی کثیر الخلق فاطلبنی تَجِدْنی
اََنَا الرَّبُّ الَّذِی یَخْشٰی عَذابی جَمِیْعُ الخلقِ فَا طلبنی تَجِدْنی …
الی آخرۃ (صفحہ ۲۵۸)
دعائے سریانی اللہ کی زبان میں بندوں کے لئے لکھی گئی ہے اور پھر اسے دعا بھی کہا گیا ہے جو کہ تعجب خیز امر ہے۔ دعا میں بندہ اپنے رب کو پکارتا ہے اور اس میں رب اپنے بندے کو پکار رہا ہے، معلوم نہیں یہ دعا کن بزرگانِ دین سے منقول ہے جن کے بقول یہ عنداللہ بھی بہت مقبول ہے۔ جبکہ اس کلامکی مؤلف نہ کوئی سند پیش کی ہے ، نہ کوئی حوالہ پیش کیا ہے۔ مضمون کے اعتبار سے اس کلام کو قرآن مجید میں ہونا چاہیئے تھا ، لیکن قرآن مجید میں ایسا کوئی کلام نہیں۔
احادیثِ قدسیہ میں اس مضمون سے ملتی جلتی چند احادیث ملتی تو ہیں لیکن یہ منظوم کلام جو دعائے سریانی کے نام سے وضع کیا گیا ہے ان میں بھی کہیں نہیں ملتا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد بزرگانِ دین کی آڑ میں کسی بدعتی صوفی کے کارخانہ بدعات کی ایجاد ہے۔ اسی نے اس کی عبارت بنائی، اسی نے اس کے فضائل گھڑے اور اسی نے اس کی نشر و اشاعت کی ہے۔ چونکہ اس دعائے سریانی کے بارے میں قرآن و حدیث سے کچھ ثبوت ِ وجود نہیں ملتا ہے لہذا اس کا بدعت ہونا واضح ہے۔ اس کا ترک کرنا لازم اور اس سے اجتناب ضروری ہے ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
27 ۔ صلاۃ الاسرار
اس نماز کے اسرار راقم پر اس وقت منکشف ہوئے جب ماہنامہ کنزالایمان لاہور اگست 1997ء کے شمارے میں اس صلاۃ الاسرار کے فضائل نگاہ سے گزرے، ملاحضہ فرمایئے : ۔
’’امام ابوالحسن نور الدین علی بن جریر شطنونی قدس سرہ العزیز ’’بہجۃ الاسرار‘‘ شریف میں بسند صحیح حضور پر نور، قطبِ ربانی ، غوث صمدانی، محبوب سبحانی، پیر لا ثانی، قندیل نورانی، سیدنا مولانا ابو محمد محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہٗ عنّا، سے راوی فرماتے ہیں ’’جو کسی سختی میں میری دہائی دے تو اس سے وہ سختی دور ہو جائے، اور جو کوئی مشکل میں میرا نام لیکر ندا کرے ، وہ مشکل اس کی حل ہو جائے، اور جو کسی حالت میں اللہ عزوجل کی طرف مجھ سے توسل کرے تو اس کی وہ حاجت پوری ہو جاوے ، اور جو شخص دو رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں بعد سورئہ فاتحہ ، سورئہ اخلاص گیارہ بار پڑھے ، پھر بعد سلام نبی کریم رؤف و رحیم ﷺ پر درود بھیجے اور مجھے یاد کرے، پھر عراق شریف کی طرف گیارہ قدم چلے اور میرا نام لیتا جاوے ، پھر اپنی حاجت کا ذکر کرے تو بے شک وہ حاجت باذن اللہ پوری ہو۔ یہ مبارک نماز اس سلطانِ بندہ نواز سے اکابر ائمہ دین مثل امام یافعی و ملا علی قاری و مولانا شیح عبدالحق محدث دہلوی وغیرہم رحمۃ اللہ تعالی علیہم نے نقل و روایت فرمائی اور امام اہلسنت مجدد ملت اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز نے ایک مبسوط رسالہ اس کی تحقیق و اثبات و رد شکوک و شبہات میں مسمی بنام تاریخی ’’انہار الانوار من یم صلاۃ الاسرار‘‘ اور دوسرا رسالہ عربی مختصر اس کی ترکیب و کیفیت و طریقہ حضراتِ مشائخ قدست اسرارہم میں مسمی بنام تاریخی ’’ازھار الانوار من صبا صلاۃ الاسرار‘‘ تصنیف فرمایا …
ترکیب صلاۃ الاسرار، جسے دینی و دنیوی حاجت ہو وہ بعد سنن مغرب صلاۃ الاسرار کی نیت سے ربِ الہی کے لئے اور حضور پر نور محی الملت ، مقیم السنت ، ملاذ العلمائ، کاشف النعمہ، ملجاء الامۃ ، قطب الاعظم غوثنا الاعظم رضی اللہ عنہ وارضاہ عنا حرزنا فی الدارین رضاہ کو ہدیہ پیش کرنے کے لئے دو رکعت نماز پڑھیں۔ اگر تازہ وضو کرلیں تو بہتر ہے ۔ نیز اگرپہلے کچھ صدقہ دے دیں تو جلد مطلب حل ہو اور ردِّ بلا کا سبب ہو ۔ نماز میں بعد سورئہ فاتحہ قرآن سے جو یاد ہو پڑھیں۔ اگر قل ھو اللہ احد یعنی سورئہ اخلاص شریف گیارہ بار پڑھے تو بہتر ہے۔ پھر حسبِ دستور نماز پوری کرے۔ پھر قبلہ رو کھڑے ہو کر سورئہ فاتحہ ایک بار ، آیت الکرسی سات بار پڑھے پھر درود شریف ’’ اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلیٰ محمَّدٍ معدن الجودِ والکرمِ وَاٰلِہٖ وابْنِہٖ الکریمِ واُمَّتِہٖ الکریم یا اَکْرمَ الاَکْرَمِینَ و بارِکْ وَسَلَّمْ ‘‘ پڑھے ۔ پھر دل کو مدینہ کی طرف متوجہ کرکے گیارہ بار کہے …
یَا رَسُولَ اﷲِ یَا نَبیَّ اﷲ اَغثِنی وَامَرُدْنِی فِی قَضَآئِ حَاجتی یا قاضی الْحاجاتِ
پھر عراق کی طرف گیارہ معتدل قدم چلے ، خضوع و ادب ملحوظ رہے اور یہ خیال رہے کہ گویا بغداد میں حاضر ہوں اور روضہ پاک میرے سامنے ہے اور سرکار اس میں قبلہ رو آرام فرما ہیں، اور چاہیئے کہ ان کے کرم پر اعتماد رکھے اور یہ سمجھے کہ وہ رضی اللہ عنہ دیکھ رہے ہیں اور ہر قدم پر یہ کہتا جائے …
یَا غَوْثَ الثَّقْلَیْنِ یَا کَریْم الطَّرْفَیْنِ اَغِثْنِی وَامْرُدْنِی فِی قَضَآئِ حَاجَتِی یَا قَاضِیَ الْحَاجَاتِ
پھر اللہ سبحانہ وتعالی سے عرض کرے یَا اَرْحَمَ الرَّحِمِیْنَ (۳ بار) یَا بَدِیْعَ السَّمواتِ والارضِ یَا ذالْجَلاِ والاِکْرامِ بِجَاہِ سَیَّدِ الْمُرسَلِیْنَ وَ بِجَاہِ ابْنِہٖ ھَذا السَّیَّدَ الکَرِیْمِ غَوثِنَا الاَعظم رضی اﷲتعالی عنہ، پھر اپنا مدعا و حاجتیں بیان کرے۔ پھر تین بار آمین کہے پھر تین بار درود شریف پڑھے۔ بہتر ہے کہ الصلاۃ والسلام علی خاتِمِ النبین والحمد ﷲ ربِّ العالمین پر ختم کرے اور بکوشش روئے اور رونا نہ آئے تو رونے الے جیسا منہ بنائے تو اللہ تعالی اس کی حاجت پوری فرما دے گا ‘‘ ۔ (ماہانہ کنز الایمان صفحہ ۳۷ تا ۳۹ اگست ۱۹۹۶ء مطبوعہ لاہور۔
قارئین کرام ! یہ امر کسی صاحبِ علم و دانش سے مخفی نہیں ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی اپنے وقت کے ایک بڑے صاحبِ علم ، صاحبِ کرامات اور ذی وقار شخصیت تھے۔ آپ کی تصنیفات فتوح الغیب اور غنیۃ الطالبین توحید و سنن کی دعوت پر مبنی ہیں۔ غنۃ الطالبین میںالبتہ کچھ موضوع اور ضعیف روایات موجود ہیں جوکہ کسی بدعتی صوفی کا کارنامہ ہے کہ اس نے اس کتاب میں تحریف کر دی اور شیخ سے وہ بدعات منسوب کریں وگرنہ ان کے مستند حالاتِ زندگی یہ بتاتے ہیں کہ وہ شرک و بدعات کے مخالف اور عمل بالحدیث والسنہ کے قائل اور اسی کے داعی و مبلغ تھے۔ فرقہ پرستی کے سخت مخالف تھے۔ فتوح الغیب جو ان کی تصنیفِ جمیل ہے ، اس میں آپ نے بکثرت اللہ رب العالمین کی توحید بیان کی ہے اور خود کو اللہ کا ایک عاجز و ناتواں بندہ قرار دیا ہے۔ لیکن لاہوری جریدے کنز الایمان کے مضمون نگار نے صلاۃ الاسرار کے فضائل میں جو کلام حضرتِ شیخ سے منسوب کیا ہے وہ آپ کی تعلیمات سے مکمل متصادم ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کلام حضرت شیخ کا نہیں ہے۔ نہ اس کلام کی کوئی روایت ہے نہ روایت کی کوئی سند ہے نہ کہنے والے کے پاس کوئی استشہاد ہے جبکہ اس کے مد مقابل ہم فتوح الغیب اور غنیۃ الطالبین کی عبارتوں پر انحصار کرتے ہیں گو کہ یہ کتب بھی بدعتیوں کے ہاتھوں تحریف کا نشانہ بن چکی ہیں لیکن امت مسلمہ کے اہلِ علم و دانش کے نزدیک محرف مواد کے اخراج کے بعد یہ کتب لائقِ اعتماد ہیں اس لئے کہ ان کا حضرتِ شیخ کا تصنیف کردہ ہونا نہ صرف مشہور ہے بلکہ مقبول بھی ہے۔ چنانچہ ہم ان کی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات برملا کہتے ہیں کہ لاہوری جریدے میں شائع ہونے والا یہ مضمون حضرت شیخ پر افتراء اور بہتان ہے اور جس نے اثبات صلاۃ الاسرار کے لئے تصدیقات بصورت کتب لکھی ہ یں وہ تو بدعات کا بانی، بدعتی مذہب کا بانی ، بدعتیوں کا امام، قافلہء اہل بدعات کا سالار، اہل توحید کا دشمن ، مجاہدین کا مخالف اور انگریزوں کا گماشتہ اور پروردہ تھا ۔ اس نے بدعتیوں کی تائید نہیں کرنی تھی تو اور کیا کرنا تھا ؟ برصغیر میں آج جتنی بھی بدعات دین کے نام پر رائج ہیں ان کی اکثریت ان ہی ’’اعلی حضرت‘‘ کی اور ان کے ہم عقیدہ افراد کی ایجاد کردہ ہیں ۔
ترکیبِ صلاۃ الاسرار پڑھیئے اور بار بار پڑھیئے، پھر اس بدعتی مکتبِ فکر کی جانب سے شائع شدہ پنجگانہ نمازوں کی کتب ملاحظہ فرمائیں جس قدر خشوع و خضوع، ادب و احترام ، انکساری اور خاکساری کی تاکید اس نام نہاد نماز میں کی گئی ہے اس کا عشرِ عشیر بھی نمازِ پنجگانہ کی بابت بیان نہیں کیا گیاہے۔ گویا بدعتیوں کے نزدیک نماز پنجگانہ کی وہ اہمیت نہیں جو صلاۃ الاسرار یا نماز غوثیہ کی ہے۔ نماز پنجگانہ میں اس امر کی تاکید نہیں ہے کہ نماز ایسے پڑھو جیسے کہ تم اللہ کے حضور حاضر ہو لیکن صلاۃ الاسرار میں واضح حکم ہے کہ ’’یہ خیال رہے کہ گویا بغداد میں حاضر ہوں اور روضہ پاک میرے سامنے ہے اور سرکار اس میں قبلہ رو آرام فرما ہیں اور چاہیئے کہ ان کے کرم پر اعتماد رکھے اور یہ سمجھے کہ وہ رضی اللہ عنہ دیکھ رہے ہیں‘‘ ۔
اس واضح حکم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صلاۃ الاسرار کے پڑھنے والوں کو اہل بدعات صوفیاء نے اس قدر دینِ اسلام اور اس کی تعلیمات سے درو کر دیا ہے کہ انہوں نے حضرتِ شیخ کا درجہ اللہ تعالی سے بھی بڑھا دیا ہے (نعوذ باللہ من ذٰلک) اس کا ثبوت یہ ہے کہ نماز کے اندر ان کا قبلہ کعبۃ اللہ ہے اور نماز کے باہر بغداد شریف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر بدعتی ائمہ نماز سے سلام پھیر کر شمال کی سمت بغداد کی طرف منہ کرکے بیٹھتے ہیں، اسی حالت میں اوراد پڑھتے اور اسی حالت میں دعائیں مانگتے ہیں۔ نیز صلاۃ الاسرار پڑھ کر بغداد کی سمت گیارہ قدم چلتے ہیں لیکن نماز پنجگانہ پڑھ کر کعبۃ اللہ کی سمت ایک قدم بھی نہیں چلتے (حالانکہ ان کا یہ چلنا بدعت ہی ہو گا چونکہ یہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت نہیں ہے) ۔
پھر اس کے بعد حضرت شیخ کو آوازیں دی کر ان سے مدد و نصرت مانگتے ہیں جو کہ سراسر شرک ہے۔ اسی عقیدہ کی تردید کے لئے اللہ تعالی نے انبیاء اور رسل مبعوث فرمائے اور آسمانوں سے مقدس کتب نازل فرمائیں۔ قرآن مجید میں ایسی بے شمارآیات ہیں جن میں اللہ کو چھوڑ کر یا اللہ کیساتھ کسی اور کو پکارنے کی ممانعت کی گئی ہے ان ہی آیات قرآنیہ اور بے شمار احادیث شریفہ کی روشنی میںیہ بات کسی ریب ، شک اور ترددّ کے کہی جا سکتی ہے کہ صلاۃ الاسرار ایک کھلی بدعی نماز ہے اس کے ایجاد کرنے والے ، اسے پڑھنے والے ، اس کی نشرو اشاعت کرنے والے اور اس کی طرف دعوت دینے والے سب کے سب بدعتی اور پکے دوزخی ہیں تا وقتیکہ یہ توبہ کرکے اس بدعت سے رجوع نہ کر لیں ۔
]
یہ ایک ایسی نماز ہے جس کی ترکیب میں اللہ کی گستاخی ہے ، رسول اللہ ﷺ کی گستاخی ہے اور عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی گستاخی ہے۔
کیونکہ بدعتی لوگ ہی کہا کرتے ہیں کہ جناب منزل (چھت) پر چڑھنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ملک کے صدر کو ملنا ہو تو پہلے کسی تھانیدار، اے ایس پی، ڈی ایس پی، کسی صوبائی اسمبلی کے ممبر یا کسی قومی اسمبلی کے ممبر سے ملاقات کرتے ہوئے جناب صدر سے ملا جاتا ہے یعنی سمجھانا یہ چاہتے ہیں کہ راستے میں ایک Channel ہے ایک ترکیب ہے جسے لازمی طور پر اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اب اس مثال کو سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ بدعتی لوگ اللہ تک پہنچنے کے لئے کسی مولوی ، کسی پیر فقیر، کسی مرشد ، کسی قطب ، کسی قلندر ، کسی غوث ، کسی فلاں ، کسی فلاں تک ہوتے ہوئے عبدالقادر جیلانی تک پھر عبدالقادر جیلانی سے علی رضی اللہ عنہ تک پھر علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ تک پھر رسول اللہ ﷺ سے اللہ تک پہنچنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔ اور عقل کے اندھوں نے ایسی نماز ایجاد کی ہے جس میں یہ اپنی ان تمام منزلوں کوگراتے ہوئے سیڑھیوں کو تہہ و بالا کرتے ہوئے پہلے بڑے کے پاس پھر اس سے چھوٹے کے پاس ، پھر اس سے چھوٹے کے پاس جاتے ہیں ۔
سچ ہے کہ کسی بدعتی نے استنجاء کرنے کے لئے لوٹا پانی سے بھر لیا۔ لوٹا نیچے سے بہتا تھا۔ اور بدعتی کو پتہ نہیں تھا۔اب یہ بدعتی جب قضائے حاجت سے فارغ ہوا تو لوٹے میں پانی نہ ملا تو لوٹے کو برا بھلا کہتا ہوا اٹھا اور چل دیا۔ دوسری دفعہ جب لوٹے کو بھر کر بیت الخلاء میں گیا تو اس بدعتی نے پہلے استنجاء کیا پھر بعد میں قضائے حاجت سے فارغ ہوا اور باہر آ گیا۔ یعنی بدعتی کا ہر کام الٹا ہوا کرتا ہے ۔ اب اس نمازِ غوثیہ یا صلاۃ الاسرار کو لے لیجئے کہ پہلے سب سے بڑے (یعنی اللہ تعالی کی طرف گیا لیکن دل میں کھوٹ اور میل رکھی کہ اس نماز کو میں نے اپنے خود ساختہ مشکل کشا عبدالقادر جیلانی کے قرب کا ذریعہ بنانا ہے واہ ارے بدعتی تیرے اندر شیطان نے کیسی منافقت پیدا کر رکھی ہے۔ تیری عقل کے اوپر پیشاب کر کے بدبودار بنا رکھا ہے۔ کہ اللہ احکم الحاکمین کے گھر کی طرف منہ کر کے جو نماز ادا کر رہا ہے اس میں بھی اللہ ذوالجلال والاکرام کا رعب اور دبدبہ تیرے اوپر طاری نہیں ہوا بلکہ تو نے خشوع و خضوع کو بھی عبدالقادر جیلانی کے لئے خاص کر رکھا ہے۔ یہ ستم ظریفی دیکھ کہ بیت اللہ کی طرف منہ کر ملعون طریقے سے ملعون نماز ادا کرتا ہے اور وہ بھی غیر اللہ کے لئے ۔ کیا یہ اللہ تعالی کی گستاخی نہیں ؟ کیا تو اللہ کو ’’الجبار اور القہار‘‘ نہیں جانتا؟ کیا تو اللہ تعالی کو المنتقم نہیں جانتا کہ اللہ تعالی تجھ سے انتقام لینا چاہے تو لے سکتا ہے؟ ارے تیری عقل کہاں گئی ہے؟ ۔ مرغی تیری کسی اور کے گھر میں انڈہ دیدے تو اس کو ہلاک کرنے کو پھرتا ہے ۔ تیری ماں تجھ کو روئے ، اللہ تعالی کے ساتھ تیرا یہ کیسا سلوک ہے کہ دکھانے کو نماز اور منہ طرف قبلہ شریف اور اندر غیراللہ کو پکارنے کی نیت تیرا ستیاناس ہو کیا تو مسلمان کہلانے کے لائق ہے ۔
ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچ تو سہی۔ کیا تو اشرف المخلوقات یعنی انسان کہلانے کا حقدار ہے؟ ارے کتا بھی اپنے مالک کا وفا دار ہوتا ہے اور تو اپنے آپ کو سگِ مدینہ کہنے والا، سگِ بغداد کہنے والا یعنی مدینے اور بغداد کی گلیوں کا کتا کہنے والا نہ مدینے کا رہا اور نہ بغداد کا ۔ ارے کسی ایک کا تو بن ۔ یا تو اللہ کا بن ۔ اس کے لئے نماز ادا کر۔ اسی کے لئے خالص ہو کر ، اسی کا خشوع و خضوع دل میں رکھ کر، اسی کو حاضر و ناظر جان کر اسی کو اپنے سامنے دیکھتا ہوا نماز ادا کر۔ اگر یہ تیرے بدعتی مذہب نے تجھے نہیں سکھایا تو اپنے قول یعنی ’’مدینہ و بغداد کا کتا‘‘ اسی پر قائم رہتے ہوئے کسی ایک کی طرف منہ کر اور ان کا خشوع و خضوع ، ان کا خیال اپنے دل میں رکھتے ہوئے صرف ان سے مانگنے کے لئے نماز ادا کر۔ لیکن تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا۔
اللہ کا قرآن سچ کہتا ہے یُخٰدِعُوْنَ اﷲوَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلآَّ اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ (البقرۃ آیت نمبر ۹) ارے تم اللہ کو دھوکا دیتے ہو کہ تیری طرف منہ کر کے خود ساختہ نماز تو پڑھ رہے ہیں اور مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہو کہ تمہارے قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں اے بدعتیو ! سن لو کہ تم کسی کو دھوکا نہیں دیتے ہاں تم تو صرف اپنے آپ کو ہی دھوکا دیتے ہو ۔ پھر ان بدعتیوںکا سالارِ اعظم کہتا ہے کہ ’’تازہ وضو کر لیں تو بہتر ہے۔ نیز اگر پہلے کچھ صدقہ دے دیں تو جلد مطلب حل ہو اور ردِّ بلا کا سبب ہو‘‘ تیرا برا ہو جس طرح تو بادشاہوں سے ملنے کے لئے صدر اور وزیر اعظم سے ملنے کے لئے ان کے گماشتوں کو رشوت دیتا ہے اسی طرح مذہب کی پاکیزہ چادر اوڑھ کر رشوت کے طور پر کچھ صدقہ و خیرات کرتا ہے تاکہ نعوذ باللہ اللہ تعالی بھی عبدالقادر جیلانی کو اس نماز کا واسطہ دے اور مطلب جلد حل ہو جائے ۔ کیونکہ ایسی رشوت نہ تو وزیرِ اعظم تک پہنچائی جاتی ہے اور نہ صدر تک بلکہ یہ رشوت تو ملاقات کرانے والا خود اپنے پاس ہی رکھتا ہے۔ یعنی تو اللہ کے نام کا صدقہ و خیرات کرکے نعوذ باللہ اللہ کی مٹھی بھی گرم کر کے اپنے مطلب کو جلد حل کروانا چاہتا ہے ۔ او ظالموں کے سپہ سالار تو نے یہ کیوں نہ سوچا کہ اس طریقے میں تو تُو نے اللہ احکم الحاکمین کی الصمد ذات کوایک راشی گماشتے کے درجے پر رکھ دیا ہے کیا یہ اللہ تعالی کی گستاخی نہیں ہے؟
ارے او اللہ کے مقابلے میں طاغوت کو کھڑا کرنے والے بدعتیوں کے امام اب تو اس خود ساختہ صلاۃ الاسرار کی ترکیب میں رسول اللہ کی گستاخی کرتا ہے اپنے رب سے بھی زیادہ ان کو رسوا کرتا ہے کہ درود شریف پڑھتا ہے ۔ پھر دل کو مدینہ کی طرف متوجہ کرکے گیارہ مرتبہ یہ شرکیہ کلمات کہتا ہے یَا رَسُولَ اﷲِ یَا نَبیَّ اﷲ اَغثِنی وَامَرُدْنِی فِی قَضَآئِ حَاجتی یا قاضی الْحاجاتِ کیا یہ اللہ کے رسول ﷺ کی گستاخی نہیں ہے کہ تو نے ان کو بھی قاضی الحاجات کہہ دیا جو صرف اللہ تعالی کا خاصہ ہے۔ تجھے اللہ کا ذرا بھی خوف نہیں آتا کہ وہ مقامِ عبادت جو صرف اللہ کے لئے خاص ہے تو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ﷺ کے لئے اختیار کر رہا ہے۔ تو اللہ کے رسول ﷺ کے مدینے کا کتا تو بنتا ہے لیکن یہاں بھی تیرا گذرا نہیں ہوتا اور تو کسی رنڈی کی طرح یہاں بھی داغِ جدائی دیتے ہوئے اپنی اصل منزل کی طرف جاتا ہے ۔ ارے عقل کے اندھے جاہل سپہ سالارِ بدعات اب تو اپنے ماننے والوں کو عراق کی طرف گیارہ معتدل قدم چلاتا ہے ۔ یہاں تجھے خشوع و خضوع اور ادب بھی یاد آتا ہے اور جہاں اللہ کو اپنے سامنے رکھنا چاہیئے تھا وہاں اب تو بغداد کو اپنے ذہن میں سمایا ہوا ہے اور اس میں بھی عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی قبر کو اور اس پر بنے ہوئے قبے کو اپنے سامنے رکھ رہا ہے اور یہ بھی خیال کر رہا ہے کہ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تیرے ذہن میں سمائے ہوئے ہیں۔ ارے یہاں تو اللہ تعالی کی ذات کا حق ہے کہ ’’گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو‘‘ اور تیرے شرک کی کوئی حد نظر نہیں آتی کہ تو اللہ تعالی کی ذات کے اس حق کو اس کے بندے اور غلام عبدالقادر جیلانی کو دے رہا ہے ۔ بتا کیا یہ گستاخی نہیں ہے ؟ بتا کیا یہ شرک نہیں ہے کہ اللہ کا حقِ عبادت تو اللہ کے سوا اوروں میں بانٹ رہا ہے ؟ ارے بتا تو سہی ظالم اور شرک کیا ہے ؟ ارے ابو جہل سے ابو لہب سے زیادہ گندہ عقیدہ رکھنے والے نام نہاد مسلمان بتا کہ جب ان دشمنانِ دین کو دریا میں کشتی پر سفر کرتے ہوئے بھنور گھیر لیتا تو یہ کیا کہتے تھے ؟ کیا یہ کہتے تھے کہ لات ، منات اور عُزّٰی کو بلاؤ یا یہ کہتے تھے کہ ’’اب صرف اللہ جو عرشِ معلی پر مستوی ہے اس کو بلاؤ‘‘ ارے او عتبہ شیبہ سے پرلے درجے کے مشرک تو کیا کہتا ہے کہ ’’لے گیارہویں والے کا نام تو ڈوبی ہوئی تیر جائیگی‘‘ ؟ ہائے ظالم ! غیروں سے تجھ کو امیدیں اللہ سے نا امیدی ۔ بتا تو سہی ظالم اور کافری کیا ہے ؟ تو کیا کہتا ہے کہ ’’ان کے (یعنی عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے) کرم پر اعتماد رکھے اور یہ سمجھے کہ وہ رضی اللہ تعالی عنہ دیکھ رہے ہیں اور ہر قدم پر یہ کہتا جائے یَا غَوْثَ الثَّقْلَیْنِ یَا کَریْم الطَّرْفَیْنِ اَغِثْنِی وَامْرُدْنِی فِی قَضَآئِ حَاجَتِی یَا قَاضِیَ الْحَاجَاتِ ۔ ارے ظالم تو اللہ کو کیا منہ دیکھائے گا کہ اگر اسی پر تیری جان نکل گئی تو تُوغیراللہ کو پکارتے پکارتے مر گیا ہو گا ان سے مرادیں مانگتا ہوا ، اپنی حاجتیں ان سے روا کرواتا ہوا۔ ان کو اللہ تعالی کی ذات کی صفات عطا کرتا ہو مر گیا ہے تو کیا تُو اللہ کو اپنے محبوب ﷺ کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دے سکے گا ؟ کیا تو اللہ کو اپنا رب یعنی پالنے والا (ماں کے پیٹ سے لیکر قبرتک) ماننے والا بتا سکے گا ؟ تف ہے تجھ پر کہ نبی کو جو چاہیں خدا کر دیکھائیں ، ولیوں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں ، شہیدوں سے جاجا کے مانگے دعائیں ؟ ارے ظالم کیا اسلام تیرے گھر کی لونڈی ہے کہ تُو جس طرح چاہے اس کو چلائے ؟ ارے تُو تو مدینے کا کتا بنتے بنتے جنگل کا خنزیر بن گیا ہے جو کہ جانوروں میں سے سب سے زیادہ بے غیرت جانور ہے۔
پھر اپنی بنائی ہوئی خود ساختہ نمازپڑھنے والے کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ اب ’’ پھر اللہ سبحانہ و تعالی سے عرض کرے یَا اَرْحَمَ الرَّحِمِیْنَ (۳ بار) یَا بَدِیْعَ السَّمواتِ والارضِ یَا ذالْجَلاِ والاِکْرامِ بِجَاہِ سَیَّدِ الْمُرسَلِیْنَ وَ بِجَاہِ ابْنِہٖ ھَذا السَّیَّدَ الکَرِیْمِ غَوثِنَا الاَعظِ رضی اﷲتعالی عنہ، پھر اپنا مدعا و حاجتیں بیان کرے۔ پھر تین بار آمین کہے پھر تین بار درود شریف پڑھے۔ بہتر ہے کہ الصلاۃ والسلام علی خاتِمِ النبین والحمد ﷲ ربِّ العالمین پر ختم کرے اور بکوشش روئے اور رونا نہ آئے تو رونے والے جیسا منہ بنائے تو اللہ تعالی اس کی حاجت پوری فرما دے گا ‘‘
سن لو اس ظالم (اعلی جاہل) کی روحانی اولاد کے گماشتو ! اگر تم میں غیرت ہو تو اپنی بیوی کی نسبت کسی اور کی طرف برداشت نہیں کر سکتے حالانکہ وہ تمہاری لونڈی نہیں ہے۔ غلام نہیں ہے۔ صرف تمہارے ساتھ نکاح میں شریک ہے۔ تو تم یہ کیسے بھول جاتے ہو کہ جو اللہ خود غیرتوں کو پیدا کرنے والا ہے ۔ اس کائنات کا خالق و مالک ہے ۔ جاہ و جلال اور عزت کا مالک ہے وہ اپنی چیز کسی اور کی طرف برداشت کر لے گا ۔ آج کا نام نہاد مسلمان تو بے غیرت ہو سکتا ہے لیکن اللہ تعالی کی ذات اس سے بہت اعلی اور بہت ہی پاکیزہ ہے۔ وہ اپنی شان میں گستاخی کرنے والے کو کبھی نہیں بخشتا ۔ اسی لئے اس نے اپنے پاک کلام میں فرما دیا تھا کہ :
اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ اِلاَّ زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَّ الزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُھَآ اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَ حُرِّمَ ذٰلِکَ عَلیَ الْمُؤْمِنِیْنَ (سورہ النور آیت نمبر ۳)
یعنی ’’زانی مرد زانیہ عورت سے ہی نکاح کرتا ہے یا مشرک عورت سے اور اسی طرح زانیہ عورت صرف زانی مرد سے ہی نکاح کرتی ہے یا مشرک مرد سے ۔ اور یہ (مشرک اور زانی کا رشتہ اللہ نے) مؤمنوں پر حرام کر دیا ہے‘‘۔
اب بتاؤ ! جس طرح ایک زانی مرد کا ایک عورت سے گزارا نہیں ہو سکتا ، اسی طرح ایک مشرک کا ایک اِلہٰ (اللہ ) کے ساتھ گزار نہیں ہو سکتا ، تو کیا تم ایک اِلہٰ کے ساتھ گزارا کر رہے ہو ؟ کیا صلاۃ الاسرار ادا کرکے تم ایک معبود کی بندگی کر رہے ہو ؟ کیا تم صرف ایک اللہ کو پکار رہے ہو یا کہ کبھی اس در ، کبھی اس در ، اور پھر در بدر ، دھوبی کے کتے کی طرح نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ ذرا سوچو ! کہ تمہارا ’’اعلی حضرت مدینے کے کتوں میں سے ایک کتا‘‘ تمہیں کس طرف لے جا رہا ہے ؟ نماز کے بہانے کبھی مصلی پر ، کبھی اللہ کو ، کبھی (غیراللہ ) مدینے کو، کبھی (غیراللہ) عراق شریف کو ، کبھی کہیں کبھی کہیں ؟ کیا کسی ناپاک اور پلید مشرک کا یہی حال نہیں ہے ؟ کیا کسی زانی مرد اور عورت کا یہی حال نہیں ہے کہ وہ کسی ایک کا ہو کر نہیں رہ سکتا ؟ اللہ کے لئے کچھ تو سوچو اور قرآن کو بیسویں پارے سے ہی کم از کم ترجمے کے ساتھ پڑھنا شروع کر دو۔ امید ہے کہ تمہیں ہدایت کا سورج (محمد عربی ﷺ) ایک در پر جھکانے کے لئے بے تاب کھڑا نظر آ ئے گا۔ اور تم ان بدعات سے بچ جاؤ گے جو تم کر رہے ہو
[۔ ص ۱ :۔ از افادات ابو عبداللہ محمد آصف
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
28۔ درود تاج
دیگر مذکور شدہ جعلی درودوںکی طرح یہ درود بھی اہلِ بدعات میں کافی مقبول ہے اور وظائف کی اکثر غیر مستند کتب میں مذکور ہے جنہیں عام مسلمان بھی جو کہ بدعتی نہیں ہوتے ، ان کتابوں میں ان کے فضائل پڑھ کر ان سے متاثر ہو جاتے ہیں اور انہیں بطور وظیفہ پڑھنے لگے ہیں۔ سولہ سوہ شریف مطبوع خان برادرس کراچی میں اس درود کے فضائل میں لکھا ہے کہ :
’’واسطے دیدارِ رسول اللہ عروجِ چاند شبِ جمعہ بعد نماز عشاء باوضو، لباس سے پاک خوشبودار روبہ قبلہ بیٹھ کر ایک سو ستر بار پڑھ کر سو رہا کرے ، تا گیارہ شب مسلسل یہ عمل رہے، دیدار سے مشرف ہو گا۔ صفا و قلب کے لئے بعد نماز صبح سات بار بعد نماز عصر و عشاء تین بار ورد رکھے اور واسطے دفعِ ظلم حاکموں، دشمنوں ، رنج و الم و افلاس ، چالیس یوم تک بعد نماز عشاء اکتالیس بار پڑھے، اور واسطے کشائشِ رزق بعد نماز صبح سات بار وظیفہ رکھے ۔ انشاء اللہ تعالی جلد کامیاب ہو‘‘ ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سیدنا و مولانا محمَّدٍ صاحِبِ التّاج والمِعْراجِ والبُراق وَ الْعَلَمَ دافِعِ البلآئِ وَالْوبَآئِ والْوبَآئِ وَالْقَحْطِ وَالْمَرضِ والْذلم اِسمُہُ مکتوبٌ مَرفُوعٌ مُّشْفُوعٌ مَنْقُوشٌ فِی اللَّوحِ وَالقَلَم سیّد العربِ وَالْعَجَمِ جِسْمُہٗ مقدَّسٌ مُعَطَّرٌ مُّطَہَّرٌ مُّنَوَّرٌ فِیْ الْبَیْتِ وَالْحَرَمِ شَمْسِ الضُّحٰی بَدَرُ الدُّجٰی صَدْرِ الْعُلٰی نُوْرُ الْہُدٰی کَہْفِ الْوَرٰی مِصْبَاحِ الظَّلمِ جمیلِ الشِّیْمِ شَفِیْعِ الاُمَمِ صَاحِبِ الْجَوْدِ وَالکَرمِ وَاﷲُ عَاصِمُہٗ وَجِبْرئلُ خادِمُہٗ وَالْبَراقَ مَرْکَبُہٗ وَالْمِعراجُ سَفَرُہٗ وَسِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی مَقَامثہٗ وَقَابَ قَوْسَیْنِ مَطْلُوْبُہٗ وَالْمَطْلُوْبُ مَقْصُوْدُ وَالْمَقْصُوْدُ مَوْجُوْدُہٗ سیّد الْمُرْسَلِیْنَ خَاتَمَ النَّبِیّینَ شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْنَ اَنِیْسَ الْغَرِیْبَیْنَ رَحْمَۃَ لِّلْعَالَمِیْنَ رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْتنَ مُرادِ المُشْتاقِیْنَ شَمْسِ الْعَارِفِیْنَ سِرَاجِ السّالِکِیْنَ مِصْبَاحِ الْمقرَّبِیْن َمُحِبُّ الْفُقَرآئِ وَالْمَسَاکِیْنَ سَیّدِ الثَّقلینِ نبیِّ الْحَرمَیْنِ اِمَامِ الْقَبْلَتَیْنِ وَسِیْلَتَنَا فِیْ الدَّارَیْنِ صَاحِبِ قَابَ قَوْسَیْنِ مِحبُوْبِ رَبُّ الْمشرقَیْنِ وَالْمَغْرَبَیْنِ جَدِّ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ مَوْلاَنَا وَمَوْلَی الثَّقَلَیْنِ اَبِی الْقَاسِمِ مُحَمَّدَ بْنِ عَبداﷲِ نُوْرٍ مِّنْ نُوْرِ اﷲِ یَآاَیُّہَا الْمُشْتَاقُوْنَ بِنُوْرِ جَمَالِہٖ صَلُّوْا عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔
(بحوالہ سولہ سورہ شریف صفحہ ۱۸۴، ۱۸۵، ۱۸۶)
سولہ سولہ شریف سے درود تاج مکمل طور پر اس لئے نقل کر دیاگیاہے کہ یہ سابقہ جعلی درودوں کے مقابلے میں بہت مختصر ہے اس لئے مناسب سمجھا کہ قارئین اس کے پوسٹ مارٹم کے ساتھ ساتھ اس کے مطالعے سے بھی محفوظ ہو جائیں قبل اس کے کہ جعلی درود کا پوسٹ مارٹم شروع کیا جائے پہلے اس کے فضائل کا پوسٹ مارٹم ضروری ہے ۔ جعلی درود کے موجد نے لکھا ہے ’’واسطے دیدار رسول اللہ عروج چاند شب جمعہ بعد نماز عشاء … اِلیٰ آخرہ‘‘ میں کہتا ہوں کہ خواب میں دیدادر رسول اللہ ﷺ کا عقیدہ ہی سرے سے غلط ہے آپؐ کی وفات ہو چکی ہے وفات کے بعد ایسے کسی خواب کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا جو غیر صحابہ نے دیکھا ہو اور جو صحیح حدیث سے ثابت نہ ہو (اس موضوع پر احقر کی ایک تصنیف ’’خوابوں میں دیدار رسولؐ کی حقیقت‘‘ موجود ہے تفصیل کے لئے شائقین اس کا مطالعہ فرمائیں) آپؐاللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں سید اولاد آدم ہیں سید الاولین والآخرین ہیں نعوذ باللہ کسی بدعتی صوفی کے باپ کے ملازم نہیںہیںکہ جب چاہا آواز دی بلالیا اور جب چاہا تسبیح پھیری خواب میں بلالیا یہ عقیدہ سراسر گستاخی و اہانت شانِ رسالت پر مبنی ہے ہم ایسے گستاخانہ عقائید و نظریات سے اللہ کی پناہ پکڑتے ہیں ۔
درود تاج کے بقیہ فضائل بغیر کسی سند و حولے کے منقول ہیں خود یہ جعلی درود بھی بغیر سند کے ہے درود صرف وہی ہے جس کی تعلیم خودرسول اللہ ﷺ نے دی اور جسے پڑھنا آپؐ کے صحابہ کرام سے ثابت ہے درو د تاج کی سند میں ایسی کوئی بات نہیں ہے علاوہ ازیں اس درود میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں بظاہر مبالغہ آرائی کی گئی ہے لیکن بباطن آپؐ کی شان اقدس گھٹائی گئی ہے مثلاً کہا گیا ہے کہ ’’سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی مَقَامُہٗ‘‘ یعنی سدرۃ المنتہیٰ آ پ کا مقام ہے حالانکہ سدرۃ المنتہیٰ اس حدّ فاصل کا نام ہے جس سے آگے جبریل امین بھی نہ بڑھ سکیں جب کہ شبِ معراج آپؐ سدرۃ المنتہٰی سے آگے بڑھے تھے پھر یہ آپ کا مقام کیونکر ہو سکتا ہے ؟ آپؐکامقام تو اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں بیان فرما دیا ہے
عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا (بنی اسرائیل)
یعنی عن قریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا ۔ جبکہ جعلی درود کے مؤجد نے آپ کا مقام سدرۃ المنتہیٰ قرار دے کر نہ صرف شانِ اقدس میں توہین کی ہے بلکہ فرمانِ الٰہی کی تکذیب بھی کی ہے ۔ اس کے علاوہ جن القاب سے آپ کو ملقب کیا گیاہے اس میں ایک لقب ’’جَدّ الحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ‘‘ بھی گردانا گیا ہے جو کہ آپ کی شان اقدس کے منافی ہے آپؐ کا ’’جد الحسنؓ والحسینؓ‘‘ ہونا کوئی شرف کی بات نہیں ابو طالبؔ بھی جد الحسنؓ والحسینؓ تھا لیکن مرنے کے بعد داخل جہنم ہوا اگر حسن و حسین نہ بھی ہوتے تو تب بھی آپ خاتم الانبیاء وامام الانبیاء وسید ولد آدم ہوتے ۔ صاحب خلق عظیم ہوتے ، صاحبِ معراج ہوتے، رحمۃ اللعالمین اور شفیع المذنبین ہوتے، لیکن اگر حسنؓ وحسینؓ آپؐ کی بجائے کسی اور کے نواسے ہوتے ، آپؐ سے ا نہیں نسبت او رکسی قسم کا تعلق نہ ہوتا تو آج دنیا میں کوئی بھی انہیں جاننے والا نہیں ہوتا۔
لہٰذا یہ لقب آپ کے شایان شان نہیں اکثر صوفی او رجاہل مولوی اس لقب سے آ پ کو ملقب کرتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے ۔ اسی طرح نور من نور اللہ قرار دے کر جعلی درود کے موجد نے قرآن کی تکذیب کی ہے قرآن مجید میں آپ کی زبانِ مبارک سے یہ اعلان کروایا گیا ہے ’’قُلْ اِنَّما انَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ‘‘ یعنی آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیساہی انسان ہوں لیکن جعلی درود کامؤجد کہتا ہی کہ آپ اللہ کے نور میں سے نور ہیں ۔ ان حقائق کی روشنی میں ہم یہ بات بالصراحت بیان کرتے ہیں کہ اس جعلی درود کو پڑھنا نہ صرف بدعت بلکہ معصیت اور شانِ رسالت میں توہین بھی ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
29۔ عہد نامہ
عہد نامہ کیا ہے؟
مؤحدین کی اکثریت اس سے بے خبر ہے (میں نے بدعات اور ان کا تعارف میں اس بدعت کا سرسری ذکر کیا تھا اب سے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے )عہد نامہ سے باخبر ہونے کے لئے ان فضائل کاپڑھنا ضروری ہے جو اس کے ساتھ وظائف کی کتب میں مذکور ہیں ۔ سولہ سورہ شریفہ مطبوعہ خاں برادرز کراجی میں اس کے فضائل میں مکتوب ہے کہ
’’پیغمبر خداﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اس عہدنامہ کو ساری عمر میں ایک بار پڑھے البتہ خدا چاہے تو ساتھ ایمان کے جائے اور اس کے بہشتی ہونے کا میں ضامن ہوں ۔اور جابرؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سے سنا ہے کہ آدمی کے بدن میں تین ہزار بیماریاں ہیں اور ایک ہزار بیماریوں کی دوا حکیم جانتے ہیں اور دوا کرتے ہیں او ردو ہزار بیماریوں کی دوا کوئی نہیں جانتا جو کوئی اس عہد نامہ کو اپنے پاس رکھے تو سانپوں او ربچھوؤں سے امن میں رہے اور جادو اس پر کارگر نہ ہو اور زبان بدگو یوں کی بند ہو جائے گی اور اس کو مشک و زعفران سے لکھے اور مینہ کے پانی سے دھو کر کسی کو پلائے تو اسے عقل و فہم زیادہ ہو جو کچھ سنے یادر رہے اور جو کچھ یاد ہو فراموش نہ ہو ۔ اور امیر المؤمنین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سے سنا ہے جو کوئی اس کو پڑھے اور ثواب اس کا مردوں کو بخشے تو قبر اس کی مشرق سے مغرب تک پرنور ہووے اگر اس کو مردے کی قبر میں رکھے تو اس مردے کو سات پیغمبروں کا ثواب ملے اور سوال منکر نکیر کا اس پر آسان ہو او رحق تعالیٰ لاکھ گز اس کے داہنے سے اور چالیس ہزار بائیں سے ا ور چالیس ہزار پاؤں سے عذاب دور کر دے اور قبر اس کی ایسی کشادہ ہووے کہ آنکھ کام نہ کر سکے اور اس عہد نامہ کو حق تعالیٰ نے ایک صورت بنائی ہے کہ قبر میں پاس رکھے اور جب مردہ قیامت کو قبر سے اٹھے تو ایک فرشتہ بن کر سامنے آوے اور جامۂ بہشت کا پہناوے اور براق پر سوار کرے ۔ حق تعالیٰ فرماوے اے مومن! تیرے ساتھ عہدنامہ ہے تو خوش ہو کہ تونے دنیامیں ہر روز عہد نامہ پڑھا ہے آج اس عہد کو میں پورا کرتاہوں تاج سر پر رکھ اور جامہ بہشت کا پہن اور براق پر سوار ہو اور بے حساب اور بے عذاب بہشت میں جا اور جس کو تو شفاعت کرے اسے بخشوں جب اس کو اس طرح سے خلقت قیامت کے دن دیکھئے منہ اس کا چودھویں رات کے چاند کا سا ہے تو میدان حشر میں غل مچ جاوے کہ یہ کونسا پیغمبر ہے ؟ یا کوئی صدیق بزرگ ہے کہ ایسی بزرگی سے آتا ہے تو اس وقت فرشتہ نگہبان کہے گا کہ یہ پیغمبر نہیں ہے بندہ خدا کا ہے اور امتِ محمدﷺ سے، دنیا میں یہ عہدنامہ اپنے پاس رکھتا تھا اس کا یہ نو راور برکت ہے ۔ اس وقت خلقت یہ فریاد کرے گی اور کہے کی کہ اتنی مدت ہم رہے اور افسوس کہ عہد نامہ معظم و مکرم سے غافل رہے ۔ اسناد اسناد عہد نامہ کے بہت زیادہ ہیں لیکن یہاں مختصر لکھی گئی ہے ۔
عہد نامہ یہ ہے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰاتِ وَالاَرْضِ عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ اَنْتَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمِ اَللّٰہُمُ اِنِّیْ اَعْہَدُ اِلَیْکَ فِیْ ہٰذِہٖ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاَشْہَدُ اَنْ لاَّاِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ وَحْدَکَ لاَ شَرِیْکَ لَکْ وَاشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدَکَ وَرَسُوْلُکَ فَلاَ تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ فَاِنَّکَ اِنْ تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ تُقَرِّبْنِیْ اِلٰی الشَّرّ وَتَباعِدْنِیْ مِنَ الْخَیْرِ وَانَّی لآ اَثِقُ اِلاَّ بِرحْمَتِکَ فَاجْعَلْ لِیْ عِنْدِ کَ عَبْدًَا تُوَفِّیْہٖ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ وَصلّی اﷲُ تعالیٰ عَلیٰ خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحمّدٍ وَّعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
(سولہ سورہ شریف صفحہ ۲۴۵،۲۴۸)
اس عہد نامہ کو اس کے وضاع اور موجد نے رسول اللہ ﷺ سے منسوب کیا ہے اور تین جلیل القدر صحابہ کرام سیدناابو بکر صدیق ، سیدنا علی اسد اللہ اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایت کیاہے جبکہ کتب حدیث میں سے کسی ایک کتاب میں بھی نہ ان تینوں صحابہ کرام سے نہ دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس عہد نامہ کاوجودملتا ہے نہ روایت ملتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عہد نامہ کسی کذاب صوفی کا شاخسانہ ہے جس نے اسے جنم دے کر تہمت دھرتے ہوئے اللہ کے محبوب پیغمبرﷺ سے منسوب کر دیا ہے ۔ اس کذاب اور دجال امت نے جو کہ یقینا اہل بدعات کا کوئی بزرگ بدعی امام تھااس عہد نامہ کے ذریعے نہ صرف اللہ کے رسول سے جھوٹ منسوب کیا بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھی افتراء باندھا ہے اور اس سے بھی اس عہد نامے کے فضائل منسوب کئے ہیں حالانکہ اس عہد نامہ کے الفاظ زیادہ تر قرآنی آیات اور مسنون اذکار سے ماخوذ ہیں ان قرآنی آیات کی تلاوت کا اور ان مسنون اذکارکے اوراد کا جو ثواب اس دجّال اور کذاب نے بیان کیا ہے وہ تو مکمل قرآن پڑھنے والے کو بھی صحیح روایات کے مطابق نہیں ملتا نہ ہی مسنون اذکار کا یہ ثواب کسی صحیح روایت میں بیان ہوا ہے ۔ اس عہدنامہ کے جھوٹا اور باطل ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ دور رسالت میں سوائے قرآن کے صحابہ کرامؓ کو کچھ بھی لکھنے کی اجازت نہ تھی سوائے چند صحابہ کے جو احادیث رسولؐ باجازت رسولٗ قلم بند کیا کرتے اور یاد کیا کرتے تھے ۔ اس عہد نامہ کو کس نے لکھا؟ کہاں لکھا؟ کس کس کے پاس مکتوب تھا؟ نہ دجال نے بتایا نہ اس کی امت نے اس معلومات کی زحمت گوارا کی ا ور نہ ہی کوئی قیامت کی صبح تک بتا سکتا ہے ۔

احناف کی جماعت میں سے ایک گروہ اپنے مردوں کو قبر میں دفناتے ہوئے میّت کے سینے پر عہد نامہ رکھتا ہے مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے کہ میّت پر جنازہ اسے مسجد میں داخل کر کے نہیں پڑھتے ان کے بقول کہ مردہ ناپاک ہوتاہے لیکن اسی ناپاک مردے پر عہدنامہ رکھ دیتے ہیں جس میں قرآنی آیات اور مسنون اذکار درج ہوتے ہیں کیا یہ قرآنی آیات کی توہین نہیں ہے کہ انہیں ناپاک میّت پر رکھ دیا جائے ؟ کیا یہی احناف کی غیرت ایمانی ہے؟ کیایہی تمہارے ائمہ کی تعلیم ہے ؟ عیسائی قادیانی او ردیگر غیر مسلم اگر قرآنی آیات ناپاک جگہ پر ڈال دیںتو تم آسمان سر پر اٹھا لیتے ہو کہ قرآن کی بے حرمتی کی گئی ہے اور جو بے حرمتی تم محراب و منبر پر بیٹھ کر کر رہے ہو۔ اس کے بارے میں بھی کبھی غور و فکر کیا ہے یا صرف نبی کے نام پر روٹیاں کھانا ہی تمہارے نزدیک دینداری کا نام ہے ؟
اس عہد نامہ کو اہل بدعات اپنے ان مردوں کے سینوں پر رکھ کر بھی دفن کرتے ہیں جنہوں نے زندگی میں نہ کبھی قرآن پڑھا ، نہ نماز پڑھی ، نہ حج کیا نہ زکوٰۃ دی ، نہ روزے رکھے اور نہ ہی توحید پر عمل پیرا رہے۔ یہ لوگ تو مرتے ہی جہنم رسید ہو جاتے ہیں ۔ نہ انہیں عہد نامہ بخشوا سکتا ہے ، نہ قرآن خوانیاں ، نہ تیجے ، ساتویں ، دسویں ، چالیسویں ، نہ برسیاں اور نہ ہی کوئی شفاعت کرنیوالا قیامت کے دن ان کی شفاعت کریگا جیسا کہ قرآن مجید کی سورئہ مدثر میں بے نمازیوں اور دیگر گناہ کرنیوالوں کے بارے میں حق تعالی نے کھلا اعلان فرما دیا ہے ’’فَمَا تَنْفُعُھُم شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ ‘‘ یعنی ان کے حق میں کسی شفاعت کرنے والے کی شفاعت بھی انہیں فائدہ نہیں دے گی۔ اس آیت کی رو سے جناب رحمتِ عالم ﷺ بھی کسی بے نمازی کے حق میں نہ شفاعت کر سکتے ہیں نہ اسے اللہ سے بخشوا سکتے ہیں ۔ تو پھر یہ عہدنامہ کیا وقعت رکھتا ہے ؟ جبکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل اور دلیل بھی نہیں ہے۔
ان تمام امور کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ عہد نامہ پڑھنے والے ، اپنے پاس رکھنے والے اور مردوں کے ساتھ قبروں میں دفن کرنیوالے نہ صرف ارتکابِ بدعت کر رہے ہیں بلکہ اس بدعت پر عمل کے ذریعے اس تہمت کی تصدیق کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔ جواس کے دجال موجد نے اللہ کے رسول پر افتراء باندھتے ہوئے لگائی ہے ۔ نیز قرآنی آیات اپنے ناپاک مردوں کے سینے پر رکھ کر (عقائد احناف کے مطابق) قرآنی آیات اور اذکارِ مسنون کی توہین کا بھی ارتکاب کر رہے ہیں۔ جن ان جرائم کی پاداش میں یہ عہد نامہ انہیں بہشت میں تو کیا خاک میں لے کر جائے گا ، البتہ دوزخ میں ان کے خلد کا سبب ضرور بنے گا ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
بسم اللہ الرحمن الرحیم


بدعات اور ان کا تعارف، بدعات اور ان کا پوسٹ مارٹم کے بعد شرک و بدعت کے ایوانوں پر توحیدی میزائل کا ایک اور زبردست حملہ​


بدعات اور ان کا آپریشن


از قلم
سعید بن عزیز یوسف زئی

ان شاء اللہ جلد ہی مکمل ہو گی
منصہ مشہود پر آنے والی ہے



اہل بدعات سے پنجہ آزمائی کے ساتھ نام نہاد اہل قرآن، منکرینِ حدیث و سنت
اور دشمنانِ رسول ﷺ کی ہرزہ سرائیوں اور شورہ پشتیوں کے جواب میں

ایک لا جواب کتاب


بیسویں صدی (عیسوی) کے آخری دجال کا
اکیسویں صدی (عیسوی) میں قرآن پر پہلا حملہ

از قلم
سعید بن عزیز یوسف زئی

بہت جلد تکمیلی مراحل سے گزر کر شائع ہونے والی ہے ان شاء اللہ




علامہ جناب سعید بن یوسف زئی کی تصانیف :
1: بدعات اور ان کا پوسٹ مارٹم
2: بدعات اور ان کا تعارف
3: خوابوں میں دیدار رسول ﷺ کی حقیقت
4: کنز الایمان
5: ایک اہل حدیث کی نظر میں
6: تزکیۃ الایمان



الحمدلله كتاب مكمل هوئی
 
Top