• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کی امامت؟

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سید نا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسجد نبوی میں نمازوں کی امامت کون کرواتا رہا اور اس امام کے مقتدی کون لوگ تھے اور اس حوالے سے ہمارے اسلاف کا کیا موقف تھا؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا شعیہ کے پیچھے نماز جائز ہے ؟
یہ سوال زبردست ہے، کہ جب تکفیر معین ہی معیار ٹھہرا تو شعیہ اس سے خارج کیوں !!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ سوال زبردست ہے، کہ جب تکفیر معین ہی معیار ٹھہرا تو شعیہ اس سے خارج کیوں !!
سوال بظاہر تو بہت زبردست ہے لیکن کیا عملی طور پر یہ ہمارے معاشرے میں نظر اآتا ہے کہ سنی شیعہ امام بارگاہ میں جا کر ان کے پیچھے نماز پڑھیں کم از کم میں نے تو یہ نہیں دیکھا اور اگر سفر کے دوران چلتے چلتے کوئی شیعہ امامت کروا رہا ہوں تو یہ الگ کیفیت ہے جو نادر و نایاب ہوتی ہے۔ لہذا سوال تو اصل میں وہی ہے جو انس بھائی نے اٹھایا ہے اور جس کے عملی مظاہر ہم اپنے معاشرے میں کثرت کے ساتھ دیکھتے ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محمد فیض الابرار بھائی! مدعا یہ ہے کہ کسی کے پیچھے نماز کے ناجائز ہونے کے لئے معیار تکفیر معین کو ٹھہرایا گیاہے؛
اب اس معیار کا اعتبار شعیہ کے متعلق بھی کیا جاتا ہے یا نہیں!!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محمد فیض الابرار بھائی! مدعا یہ ہے کہ کسی کے پیچھے نماز کے ناجائز ہونے کے لئے معیار تکفیر معین کو ٹھہرایا گیاہے؛
اب اس معیار کا اعتبار شعیہ کے متعلق بھی کیا جاتا ہے یا نہیں!!
فرضی سوال کے مقابلے میں ایسا سوال یقینی طور پر قابل غور ہونا چاہیے جس کا وجود ہو
آپ بتائیں کیا آپ نے ہمارے معاشرے میں شیعہ کے پیچھے کسی اہل حدیث کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے؟
کیوں کہ ان لوگوں کی مسجد نہیں بلکہ مخصوص عبادت گاہ ہے اور عمومی طور پر اہل سنت خواہ بریلوی ہو یا دیوبندی یا اہل حدیث کوئی بھی ان کی عبادت گاہ میں جا کر ان کے پیچھے اپنی نماز ادا نہیں کرتا ۔
بہرحال پھر بھی اس سوال کو سابقہ سوال کے ساتھ ملانا ہے تو کوئی حرج نہیں شیعہ کو بھی فاسق اور مبتدع گردانا جا سکتا ہے یا نہیں اس طرح سوال پر سوال نکلتا جائے گا اور موضوع سمیٹنا مشکل ہو جائے گا
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
بھائی جان خلاف سنت کی اگر بات ہے تو بدعتی جو بدعت کرتا ہے وہ کون سی سنت کے مطابق ہوتی ہے ؟ اختلافی مسائل میں وہ دلائل تو رکھتا ہی ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس کے دلائل کس درجہ کے ہیں۔ لیکن بدعت تو دین میں ایک نیا کام ہوتا ہے۔ جس کا دین میں تو کوئی ثبوت ہی نہیں ہوتا۔اور پھر اس کی بدعت اسی پر ہی ہوتی ہے۔
تو اس لیے ان مسائل کو ایشو نہ بنایا جائے۔اسی میں ہی بھلائی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا

اس سلسلے میں دلائل دیے جاتے ہیں کہ صحابہ نے خوارج کے پیچھے نماز پڑھی

ابن تيمية في “منهاج السنة” 5/247 میں لکھتے ہیں

ومما يدل أن الصحابة لم يُكَفروا الخوارج أنهم كانوا يصلون خلفهم، وكان عبد الله بن عمر رضي الله عنه وغيره من الصحابة يصلون خلف نجدة الحروري، وكانوا أيضاً يحدثونهم ويفتونهم ويخاطبونهم كما يخاطب المسلمُ المسلمَ، كما كان عبد الله بن عباس يجيب نجدة الحروري لما أرسل يسأله عن مسائل، وحديثه في البخاري ، وكما أجاب نافع بن الأزرق عن مسائل مشهورة، وكان نافع يناظره في أشياء بالقرآن كما يتناظر المسلمان.


اور جو اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ نے خوارج کی تکفیر نہیں کی وہ یہ ہے کہ انہوں نے ان کے پیچھے نماز پڑھی اور ابن عمر رضی الله عنہ اور دیگر اصحاب رسول نے نجدة بن عامر الحروري کے پیچھے نماز پڑھی اور وہ اس سے بات کرتے اس کو فتویٰ بھی دیتے اور اس سے ایسے مخاطب ہوتے جسے کہ ایک مسلم ، مسلم سے ہوتا ہے جیسا کہ عبد الله ابن عبّاس نے نجدة الحروري کو جواب دیا جب اس نے مسئلہ لکھ بھیجا اور حدیث بخاری میں ہے اور جیسا نافع بن الأزرق نے مسائل مشہورہ پر جواب دیا


مسلم باب بَابُ النِّسَاءِ الْغَازِيَاتِ يُرْضَخُ لَهُنَّ وَلَا يُسْهَمُ، وَالنَّهْيِ عَنْ قَتْلِ صِبْيَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ میں یہ روایت موجود ہے

ابی داود کی روایت ہے جس کو البانی صحیح کہتے ہیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ، أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ، حِينَ حَجَّ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى


نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ الْحَرُورِيَّ رَئِيس الْخَوَارِج نے فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ کے دور میں حج کیا اور ابن عبّاس رضی الله عنہ سے سوال و جواب بھی کیے


کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة از ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کی روایت ہے

أَسَدٌ قَالَ حَدَّثَنِي اَلرَّبِيعُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ سَوَّارَ بْنِ شَبِيبٍ قَالَ

حج نجدة الحروري في أصحابه فوادع ابن الزبير، فصلى هذا بالناس يوماً وليلة، وهذا بالناس يوماً وليلة، فصلى ابن عمر خلفهما فاعترضه رجل، فقال: يا أبا عبد الرحمن أتصلي خلف نجدة الحروري؟ فقال ابن عمر: (إذا نادوا حي على خير العمل أجبنا، وإذا نادوا إلى قتل نفس قلنا: لا، ورفع بها صوته


سوار بن شبيب کہتے ہیں کہ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ الحروري (خوارج) کو ابن زبیر نے مدعو کیا اور ان لوگوں نے دن و رات نماز پڑھی پس ابن عمر نے بھی ان کے پیچھے نماز پڑھی پس ایک آدمی نے اعتراض کیا کہ اے ابو عبد الرحمن آپ نجدہ حروري کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ؟ پس ابن عمر نے کہا پس جب حي على خير العمل کی ندا اتی ہے تو ہم جواب دیتے ہیں اور جب یہ قتل نفس کی ندا کرتے ہیں تو ہم اپنی آواز بلند کرتے ہیں اور کہتے ہیں نہیں


اس کی سند میں اسد بْنُ مُوسَى ہے جن سے بخاری نے استشہاد کیا ہے الذہبی میزان میں لکھتے ہیں

ابن حزم ذكره في كتاب الصيد فقال: منكر الحديث. ابن حزم نے ان کو منکر الحدیث کہا ہے

دوم اس کی سند میں اَلرَّبِيعُ بْنُ زَيْدٍ ہے جن کو بعض لوگوں نے ربيعة بن زياد کہہ دیا ہے جبکہ ربيعة بن زياد صحابی ہیں – حق یہ ہے کہ اَلرَّبِيعُ بْنُ زَيْدٍ مجھول ہے

کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة از ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کی روایت ہے

اِبْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ اَلْحَكَمِ بْنِ عَطِيَّةَ قَالَ: سَأَلْتُ اَلْحَسَنَ فَقُلْتُ رَجُلٌ مِنْ اَلْخَوَارِجِ يَؤُمُّنَا أَنُصَلِّي خَلْفَهُ? قَالَ: نَعَمْ، قَدْ أَمَّ اَلنَّاسَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مِنْهُ.


ابن مہدی ، اَلْحَكَمِ بْنِ عَطِيَّةَ سے روایت کرتے کرتے ہیں کہ حسن بصری سے سوال کیا کہ خوارج میں سے ایک شخص نے کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں کہا ہاں


اس کی سند میں الحكم بْن عطية العيشي البصري ہیں جو ضعیف ہیں – الذھبی، میزان میں کہتے ہیں وضعفه أبو الوليد، وقال النسائي: ليس بالقوي. وقال أبو حاتم: يكتب حديثه، ولا يحتج به.

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ تابعین کذاب مختار کے پیچھے نماز پڑھتے تھے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: «كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ يُصَلُّونَ مَعَ الْمُخْتَارِ الْجُمُعَةَ، وَيَحْتَسِبُونَ بِهَا


عبد الله ابن مسعود کے اصحاب مختار کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے اور (ایک دوسرے کو) گنتے تھے


سُفْيَانَ الثوری مدلس عن سے روایت کر رہے ہیں لہذا روایت مظبوط نہیں- دوم اصحاب عبد الله تمام اہل سنت میں سے نہ تھے ان سے بعض داعی شیعہ بھی تھے اور ان کا مختار غالی کے پیچھے نماز پڑھنا چندہ بعید نہیں

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُقْبَةَ الْأَسَدِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، «أَنَّ أَبَا وَائِلٍ جَمَعَ مَعَ الْمُخْتَارِ


يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ کہتے ہیں کہ ابو وَائِلٍ، مختار کے ساتھ (نماز میں؟) جمع ہوئے


سند میں يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ ہے جو مجھول ہے

وہ روایات جن سے یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ صحابہ خوارج کے پیچھے نماز پڑھتے تھے سب ضعیف ہیں اور ایک بھی صحیح السند روایت نہیں دوم کسی خارجی کے سوال کا جواب دینے کا بھی یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ صحابہ کے نزدیک خوارج کی تکفیر نا جائز تھی

امام بخاری، صحیح میں صحابہ کے اقول صحیح میں نقل کرتے ہیں کہ صحابہ نے حدیث نبوی کہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن حلق سے نیچے نہ اترے گا کا مصداق خوارج کو لیا جنہوں نے صحابہ کو ہی کافر کہا

اب ظاہر ہے خوارج صحابہ کے ساتھ نماز کیوں پڑھتے لہذا یہ روایات نہ سندا صحیح ہیں بلکہ تاریخ کے مطابق بھی غلط ہیں
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
موضوع سے کچھ نہ کچھ تعلق تو بنتا ہے،اس لیے فیس بک سے کسی کی پوسٹ پیش کر رہا ہوں:
(یہ بات کہ تمام شعیہ کافرانہ عقائد رکھتے ہیں، تحقیق سے ثابت نہیں ہوئی)
جو شعیہ کفریہ عقائد رکھتے ہوں، مثلا قرآن کریم میں تحریف کے قائل ہوں یا یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ حضرت جبریل علیہ السلام سے وحی لانے میں غلطی ہوئی، یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتے ہوں، ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن یہ بات کہ تمام شعیہ اس قسم کے کافرانہ عقائد رکھتے ہیں، تحقیق سے ثابت نہیں ہوئی۔ اور کئی شعیہ یہ کہتے ہیں کہ الکافی یا اصول الکافی وغیرہ میں جتنی باتیں لکھی ہیں، ہم ان سب کو درست نہیں سمجھتے۔ دوسری طرف کسی کو کافر قرار دینا چونکہ نہایت سنگین معاملہ ہے، اس لئے اس میں بے حد احتیاط ضروری ہے۔ اگر بالفرض کوئی تقیہ بھی کرے تو وہ اپنے باطنی عقائد کی وجہ سے عند اللہ کافر ہو گا، لیکن فتوی اس کے ظاہری اقوال پر ہی دیا جائے گا۔ اسی لئے چودہ سو سال میں علمائے اہل سنت کی اکثریت شعیوں کو علی الاطلاق کافر کہنے کی بجائے یہ کہتی آئی ہے کہ جو شعیہ ایسے کافرانہ عقائد رکھے، کافر ہے۔ اور یہی طریقہ بیشتر اکابر علمائے دیوبند کا رہا ہے، اور چونکہ جمہور علماء کے اس طریقے میں کوئی تبدیلی لانے کے لئے کافی دلائل محقق نہیں ہوئے، اس لئے دارالعلوم کراچی، حضرت مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کے وقت سے اکابر کے اسی طریقے کے مطابق فتوی دیتا آیا ہے کہ جو شعیہ ان کافرانہ عقائد کا قائل ہو، وہ کافر ہے مگر علی الاطلاق ہر شعیہ کو خواہ اس کے عقائد کیسے بھی ہوں، کافر قرار دینے سے جمہور علمائے امت کے مسلک کے مطابق احتیاط کی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شعیوں کی گمراہی میں کوئی شبہ ہے، جن شعیوں کو کافر قرار دینے میں احتیاط کی گئی ہے، بلاشبہ وہ بھی سخت ضلالت میں ہیں۔ اللہ تعالی ان گمراہیوں سے ہر مسلمان کی حفاظت فرمائیں، آمین۔
فتاوی عثمانی، جلد اول، کتاب الایمان والعقائد
محمد تقی عثمانی
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
موضوع سے کچھ نہ کچھ تعلق تو بنتا ہے،اس لیے فیس بک سے کسی کی پوسٹ پیش کر رہا ہوں:
(یہ بات کہ تمام شعیہ کافرانہ عقائد رکھتے ہیں، تحقیق سے ثابت نہیں ہوئی)
جو شعیہ کفریہ عقائد رکھتے ہوں، مثلا قرآن کریم میں تحریف کے قائل ہوں یا یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ حضرت جبریل علیہ السلام سے وحی لانے میں غلطی ہوئی، یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتے ہوں، ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن یہ بات کہ تمام شعیہ اس قسم کے کافرانہ عقائد رکھتے ہیں، تحقیق سے ثابت نہیں ہوئی۔ اور کئی شعیہ یہ کہتے ہیں کہ الکافی یا اصول الکافی وغیرہ میں جتنی باتیں لکھی ہیں، ہم ان سب کو درست نہیں سمجھتے۔ دوسری طرف کسی کو کافر قرار دینا چونکہ نہایت سنگین معاملہ ہے، اس لئے اس میں بے حد احتیاط ضروری ہے۔ اگر بالفرض کوئی تقیہ بھی کرے تو وہ اپنے باطنی عقائد کی وجہ سے عند اللہ کافر ہو گا، لیکن فتوی اس کے ظاہری اقوال پر ہی دیا جائے گا۔ اسی لئے چودہ سو سال میں علمائے اہل سنت کی اکثریت شعیوں کو علی الاطلاق کافر کہنے کی بجائے یہ کہتی آئی ہے کہ جو شعیہ ایسے کافرانہ عقائد رکھے، کافر ہے۔ اور یہی طریقہ بیشتر اکابر علمائے دیوبند کا رہا ہے، اور چونکہ جمہور علماء کے اس طریقے میں کوئی تبدیلی لانے کے لئے کافی دلائل محقق نہیں ہوئے، اس لئے دارالعلوم کراچی، حضرت مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کے وقت سے اکابر کے اسی طریقے کے مطابق فتوی دیتا آیا ہے کہ جو شعیہ ان کافرانہ عقائد کا قائل ہو، وہ کافر ہے مگر علی الاطلاق ہر شعیہ کو خواہ اس کے عقائد کیسے بھی ہوں، کافر قرار دینے سے جمہور علمائے امت کے مسلک کے مطابق احتیاط کی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شعیوں کی گمراہی میں کوئی شبہ ہے، جن شعیوں کو کافر قرار دینے میں احتیاط کی گئی ہے، بلاشبہ وہ بھی سخت ضلالت میں ہیں۔ اللہ تعالی ان گمراہیوں سے ہر مسلمان کی حفاظت فرمائیں، آمین۔
فتاوی عثمانی، جلد اول، کتاب الایمان والعقائد
محمد تقی عثمانی
فتوے تو میں نے بھی پہلے پیش کیے تھے لیکن آپ نے قبول نہ کیے ۔بہتر ہے آپ دلیل سے جواب دیں ۔
ثنایا: آپ اہل حدیث سے بات کر رہے ہیں ۔ کس دیوبندی سے نہیں اس لیے دیوبندی کے فتاوی پیش نہ کریں اگر آپ کے نزدیک دیوبند کے فتاؤے قابلقبول ہوتے ہیں تو یہ فتاوی قبول کریں
سوال:

کیا غیرمقلد امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا درست ہے؟جنید کشمیری

جواب:

جی نہیں۔ کیونکہ یہ گمراہ ہیں اور ان کے عقائد قرآن وسنت اور اجماع امت کے خلاف ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ تعالی کی کتب کا مطالعہ فرمائیں اور حضرت کے بیانات سنیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء مرکز اہل السنّت والجماعت ، سرگودھا

3 رمضان المبارک 1435 ھ 2 جولائی 2014 ء
http://ahnafmedia.com/question-a-answers/item/4462-gher-muqallid-imam-k-pichay-namaz-ka-hukm
 
Top