• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کی امامت؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا انس بھائی جان
مجھے آپ کی ان تفصیلی پوسٹس سے بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملا ہے۔الحمدللہ
میں طالب علم ہونے کی حیثیت سے شاید مزید کچھ بیان نہ کر سکوں۔لیکن کوشش کرنی چاہیے کہ موحد امام اور اہلحدیث کی مساجد کی موجودگی میں کسی بھی مشرک اور بدعت مکفرہ کے مرتکب کے پیچھے نماز پڑھنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہمیں سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
السلام علیکم !
مطالعہ کے دوران مندرجہ ذیل اقتباس نظر سے گزرا اور دلائل کافی باوزن معلوم ہوئے۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینے والا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف تھوکنے سے منع فرمایا ہے۔
دیکھئے صحیح البخاری (١٢١٣) و صحیح مسلم (٥٤٧)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک امام نے قبلہ کی طرف تھوکا ہے تو فرمایا: ((لا یصلی لکم)) یہ تمھیں نماز نہ پڑھائے۔(سنن ابی داود:٤٨١ وسندہ حسن و صححہ ابن حبان،المورد:٣٣٤) اس روایت کے آخر میں یہ الفاظ ہیں:" وحسبت أنه قال :" إنك اذيت الله ورسوله"
اور میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دی ہے۔معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول کو تکلیف دینے(یعنی قرآن و حدیث کی مخالفت کرنے) والے کو امام نہیں بنانا چاہئے۔
بدعت اور بدعتی سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بیزاری

مجاہد(بن جبر) تابعی شہیر فرماتے ہیں :"میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا کہ ایک شخص نے ظہر یا عصر کی اذان میں تثویب کہ دی(یعنی الصلوۃ خیر من النوم پڑھا) تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ " أخرج بنا فإن هذه . بدعة""
ہمیں یہاں سے نکال لے جاؤ،کیونکہ بے شک یہ (مؤذن کا ظہر و عصر میں الصلوۃ خیر من النوم کہنا) بدعت ہے۔(سنن ابی داود:٥٣٨ وھو حدیث حسن)

بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم از حافظ زبیر علی زئی،صفحہ نمر ١٢،اشاعت دوم مارچ ٢٠١٢
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
معتبر علما اھلدیث بریلوی اور دیوبند کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے


امام صحیح العقیدہ ہونا چاہے!!!!!!!!!شیخ العرب و لعجم
الحدیث شیخ علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ

Islamic Research Centre ~~* Books Shk.Badi ud Sha Rashidi R.A *~~
بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم (جدید!!!فضیلۃ الشیخ زبیر علی زئي حفظہ اللہ
http://www.ircpk.com/irc/Bidati_Kay_...a_Hokam .pdf

امامت کے اہل کون؟ ابو محمد بدیع الدین راشدی, حافظ زبیر علی زئی


امامت کے اہل کون؟ - تقابل مسالک - کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی جانے والی اردو اسلامی کتب کا سب سے بڑا مفت مرکز

قلمہ گو شرک

http://www.ahnafexpose.com/files/Kal... rabani).pdf
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
السلام علیکم !
مطالعہ کے دوران مندرجہ ذیل اقتباس نظر سے گزرا اور دلائل کافی باوزن معلوم ہوئے۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینے والا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف تھوکنے سے منع فرمایا ہے۔
دیکھئے صحیح البخاری (١٢١٣) و صحیح مسلم (٥٤٧)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک امام نے قبلہ کی طرف تھوکا ہے تو فرمایا: ((لا یصلی لکم)) یہ تمھیں نماز نہ پڑھائے۔(سنن ابی داود:٤٨١ وسندہ حسن و صححہ ابن حبان،المورد:٣٣٤) اس روایت کے آخر میں یہ الفاظ ہیں:" وحسبت أنه قال :" إنك اذيت الله ورسوله"
اور میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دی ہے۔معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول کو تکلیف دینے (یعنی قرآن و حدیث کی مخالفت کرنے) والے کو امام نہیں بنانا چاہئے۔
بدعت اور بدعتی سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بیزاری

مجاہد(بن جبر) تابعی شہیر فرماتے ہیں :"میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا کہ ایک شخص نے ظہر یا عصر کی اذان میں تثویب کہ دی(یعنی الصلوۃ خیر من النوم پڑھا) تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ " أخرج بنا فإن هذه . بدعة""
ہمیں یہاں سے نکال لے جاؤ،کیونکہ بے شک یہ (مؤذن کا ظہر و عصر میں الصلوۃ خیر من النوم کہنا) بدعت ہے۔(سنن ابی داود:٥٣٨ وھو حدیث حسن)

بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم از حافظ زبیر علی زئی،صفحہ نمر ١٢،اشاعت دوم مارچ ٢٠١٢
عزیز بھائی! آپ خلطِ مبحث کر رہے ہیں،

اس میں تو کسی کو اختلاف نہیں کہ نبی کریمﷺ کے احکام (بلکہ کسی ایک حکم) کی مخالفت کرنے والے یا بدعتی شخص کو مستقل امام نہیں بنانا چاہئے!

سوال یہ ہے کہ
کیا ایسے فاسق شخص کے پیچھے کبھی مجبوراً نماز پڑھی جائے تو ہو جائے گی یا نہیں؟؟؟

میں سمجھتا ہوں کہ ایک جھوٹے یا بد اخلاق شخص کو بھی امام (نہ نمازوں کا، نہ تمام مسلمانوں کا یعنی خلیفہ) نہیں بنانا چاہئے۔
البتہ!
اگر کبھی مجبورا کسی جھوٹے کے پیچھے نماز پڑھنی پڑ جائے تو ہو جائے گی
اسی طرح اگر کوئی فاسق یا بدعتی شخص حکمران بن جائے تو معروف باتوں میں اس کی سمع واطاعت بھی ضروری ہے، امام بخاری﷫ نے سیدنا انس والی مرفوع حدیث (حبشی امام والی) سے یہی استدلال کیا ہے۔
سیدنا عثمان﷜ اور حسن بصری﷫ بھی یہی فرما رہے ہیں۔
واللہ اعلم!

تفصیل کیلئے دیکھئے یہ پوسٹ ملاحظہ کیجئے!
خاص طور پر ابن ابن حزم کا قول:
ہم یہاں مزید تفصیل میں جانانہیں چاہتے، تاہم یہ بات بہرحال ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ بدعتی کے پیچھے نماز کاجائز ہونا اور بات ہے مگر اُنہیں امام بنانا امرِ دیگر ہے۔امربالمعروف ونہی عن المنکر کا تقاضا ہے کہ اس کی بدعت پرانکار کیاجائے اور اس کی تعظیم و تکریم سے مقدور بھر اجتناب کیا جائے۔ لیکن اگر انکارِ منکر میں فتنہ کا خوف ہو یا دوسری جماعت کی کوئی سبیل نہ ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بھائی! میں نے امام بخاری کی رائے (ترجمۃ الباب) ذکر کی ہے، جس میں انہوں نے ایک مرفوع حدیث مبارکہ (حبشی اَمیر والی)، ایک موقوف حدیث (سیدنا عثمان﷜ والی) اور ایک مقطوع حدیث (سیدنا حسن بصری﷫ والی) سے استدلال کیا ہے۔ کہ بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔
گویا آپ ان تمام روایات کو ان روایات پر ترجیح دے رہے ہیں جو بدعت کی مذمت میں رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں۔

ازراہ کرم کوئی ایک آیت کریمہ یا صحیح حدیث مبارکہ بیان کر دیجئے، جس میں صراحت ہو کہ بدعتی کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
یہی سوال میرا آپ سے ہے کہ آپ قرآن اور رسول اللہ سے ثابت کر دیں کہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کا صراحت کے ساتھ حکم موجود ہو۔

اگر آپ کے پاس کوئی صریح دلیل موجود نہیں، بلکہ یہ کسی آیت کریمہ یا حدیث مبارکہ (مثلاً بدعتی کے تعظیم وغیرہ) سے آپ کا اخذ کردہ مفہوم ہے تو فہم حدیث کو حدیث کہنا بہت بڑی جسارت ہے۔
ہم اس جسارت کے مرتکب نہیں ہیں۔الحمدللہ
لیکن آپ نے بدعت کی مذمت میں جو روایات ثابت ہیں ان کو بالکل بھلا دیا ہے۔گویا آپ کے نزدیک بدعت ایک معمولی سا عمل ہے؟

بہرحال فہم میں اختلاف ہو جاتا ہے، یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس اختلاف کی بناء پر اتنی شدّت مناسب نہیں۔ جیسے شاہد نذیر بھائی نے کہا کہ یہ انتہائی نامعقول اور بے ہودہ فتویٰ ہے۔
شاہد نزیر بھائی اپنے کہے گئے الفاظوں کے خود ذمہ دار ہیں،اور جہاں تک فتوے کا تعلق ہے تو مجھے بھی اس فتوے سے اختلاف ہے ۔اس فتوے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی دلیل ذکر نہیں کی گئی۔
دوسری بات یہ ہے کہ مفتی صاحب نے جس حالت میں فتوی دیا ہے یا تو وہ دیوبندیوں اور بریلویوں کے عقائد سے واقف نہیں یا واقفیت کی بنا پر جانتے بوجھتے ان کی حمایت میں فتوی دے گئے ہیں۔
انس بھائی جان میرا آپ سے سوال ہے کہ:
کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے جو رسول اللہ ﷺ کی شان میں اتنا غلو کرتا ہو کہ اللہ کے ساتھ ملانے کی کوشش کرے۔نعوذباللہ
کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے جو رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث مبارکہ سے مسئلہ ثابت ہو جانے کے بعد بھی اپنے امام کے قول کو ترجیح دے۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
عزیز بھائی! آپ خلطِ مبحث کر رہے ہیں،

اس میں تو کسی کو اختلاف نہیں کہ نبی کریمﷺ کے احکام (بلکہ کسی ایک حکم) کی مخالفت کرنے والے یا بدعتی شخص کو مستقل امام نہیں بنانا چاہئے!

سوال یہ ہے کہ
کیا ایسے فاسق شخص کے پیچھے کبھی مجبوراً نماز پڑھی جائے تو ہو جائے گی یا نہیں؟؟؟

میں سمجھتا ہوں کہ ایک جھوٹے یا بد اخلاق شخص کو بھی امام (نہ نمازوں کا، نہ تمام مسلمانوں کا یعنی خلیفہ) نہیں بنانا چاہئے۔
البتہ!
اگر کبھی مجبورا کسی جھوٹے کے پیچھے نماز پڑھنی پڑ جائے تو ہو جائے گی
اسی طرح اگر کوئی فاسق یا بدعتی شخص حکمران بن جائے تو معروف باتوں میں اس کی سمع واطاعت بھی ضروری ہے، امام بخاری﷫ نے سیدنا انس والی مرفوع حدیث (حبشی امام والی) سے یہی استدلال کیا ہے۔
سیدنا عثمان﷜ اور حسن بصری﷫ بھی یہی فرما رہے ہیں۔
واللہ اعلم!

تفصیل کیلئے دیکھئے یہ پوسٹ ملاحظہ کیجئے!
خاص طور پر ابن ابن حزم کا قول:
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

انس بھائی میں نے تو ایک عالم کی گفتگو تمام دوستوں سے شئیر کی ہے بس۔باقی ہر شخص نے صرف اپنا ہی جواب دینا ہے۔
لہذا میں تو وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ کے تحت خاموشی اختیار کرتا ہوں۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
السلام علیکم۔ اس ساری بحث کو بغور پڑھنے سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ۔۔۔۔
تقریباً سارے ہی علمائے سلف و خلف بدعتی شخص کو مستقل امام بنائے جانے کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے بالکل ایک جیسا مطلب اخذ کرتے ہیں (جو کہ ممانعت پر مبنی ہے)۔

اب موجودہ دور کا ایک بڑا مسئلہ مسجد میں فرض نماز (اور نماز جمعہ) کی ادائیگی کا ہے۔ اور یہ جانی مانی حقیقت ہے کہ دنیا (بشمول برصغیر) کی اکثر و بیشتر مساجد کے مقرر کردہ امام ، ائمہ اربعہ کی تقلید کے حامل ہوتے ہیں۔ اب اگر 'جماعت کے ساتھ مسجد میں نماز' والے اس مسئلے کو تھیوریٹیکل کے بجائے پریکٹکل implement کر کے دیکھا جائے تو یہ بہت مشکل بلکہ قریب قریب ناممکن ہے کہ آدمی نماز کے وقت کسی مسلک/طبقہ کی مخصوص مسجد یا غیربدعتی امام کی تلاش و تحقیق میں لگا رہے اور ڈھونڈنے تک نماز کا وقت پھر بھی باقی رہے۔
یہ مسئلہ آفس کے اوقات میں آنے والی نمازوں کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور آدمی کے رہائشی مقام کے حوالے سے بھی۔
اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ائمہ سلف کو کہ ہمارے دور کے ان پیچیدہ مسائل کا بھی انہیں بخوبی اندازہ رہا تھا لہذا ان کے یہ فیصلے ، ان کی وسعت ظرفی ، دوراندیشی اور معتدل فہم و فراست پر مبنی محسوس ہوتے ہیں :
  • فتنے میں مبتلا اور بدعتی شخص کی امامت کا باب، سیدنا حسن بصری﷫ نے فرمایا: تو (اس کے پیچھے) نماز پڑھ لے، اس کی بدعت اسی پر ہے۔
  • سیدنا عثمان﷜ نے فرمایا کہ نماز ایک بہترین عمل ہے، جب لوگ اچھا عمل کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھا عمل کرو (یعنی ان کے ساتھ نماز پڑھو) اور اگر وہ برا عمل کریں تو تم ان جیسی برائی سے بچو (یعنی خارجی نہ بنو)
  • شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے فرمایا ہے: "۔۔۔ایسے (بدعتی) حکام اُمرا یاان کے مقرر کردہ اماموں کے پیچھے نماز بالخصوص نمازِ جمعہ، عیدین اور حج کے دوران کی نمازیں درست ہیں۔" (مجموع الفتاویٰ:۲۳ ؍۳۴۹)
  • حافظ ابن حزمؒ المحلی:۳؍ ۲۱۳،۲۱۴ میں فرماتے ہیں: ۔۔۔ اگر انکارِ منکر میں فتنہ کا خوف ہو یا دوسری جماعت کی کوئی سبیل نہ ہو تو اس (بدعتی) کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہے۔
  • امام ابوالحسن اشعری فرماتے ہیں: " ہمارے مذہب میں یہی ہے کہ ہم جمعہ،عیدین اور سب نماز میں ہر نیک وفاجر کے پیچھے پڑھ لیں، کیونکہ سیدنا ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ وہ حجاج کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔" (الابانہ: ص۶۱)
اب جن ائمہ اور ان کے معتقدین کا خیال مختلف ہے ، ہمیں یقیناً ان کے اخلاص نیت اور فہم دین پر کوئی شبہ نہیں اور نہ ہی کوئی بڑا اعتراض ہے ، لیکن بہرحال ان کی بہ نسبت شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ اور ان سے متفق ائمہ کا فہم حدیث زیادہ بہتر ، معتدل اور عملی دین کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے مسائل کو بآسانی حل کرنے والا بھی محسوس ہوتا ہے۔

اللہ ہم سب کی نیتوں میں برکت فرمائے اور بدعات سے دامن بچا کر ایک دین پر متحد ہونے والوں کے اتحاد کو بھی شر سے محفوظ رکھے ، آمین۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
پہلی بات شاہد نذیر بھائی کو الفاظ کے استعمال میں احتیاط کوملحوظ خاطر رکھنا چائیے!!
دوسری کہ انس نضر بھائی بدعتی سے آپ کی مراد کن اقسام و درجہ کی بدعت کے مرتکب یا داعی ہیں واضح نہیں!! غالبا یہی اعتراض کا سبب بنا ہے!!
میری دانست میں آپ اس کی تفصیل ہی بیان فرما دیں تو معاملہ ان شاءاللہ سلجھ جائے گا!!
اور تمام بھائی! اسلام سوال جواب کے لنک ضرور ملاحظہ فرمائیں! کافی اشکال رفع ہو جائیں گے ان شاءاللہ!!
 
Top