• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کی امامت؟

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بہر حال میں یہاں بحث میں حصہ لینے نہیں آیا مگر بحث کو ختم کرنے کے لیے ایک فیصلہ کن مضمون آپ لوگوں کے گوش گزار کرنے آیا ہوں۔
اہل بدعت وفسق کے پیچھے نماز کے بارے میں صحیح سلفی مؤقف
اس مضمون کا ضرور مطالعہ کیجئے۔ قوی اُمید ہے کہ کافی شبہات رفع ہونگے۔ان شاءاللہ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
ابوبکر بھائی آپ کے اس ’’فیصلہ کن‘‘ مضمون میں ایک بہت بڑا ابہام ہے جو اس مضمون کے فیصلہ کن ہونے میں مانع ہے۔ اور وہ ابہام ہے دیوبندی پر غلط حکم لگانے کا اور ان دیوبندیوں کو بدعت مکفرہ کے بجائے بدعت غیر مکفرہ کے مرتکبین میں شمار کرنے کا۔

آپ نے لکھا ہے:
محدث نذیر حسینؒ حنفی دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل وفاعل تھے۔
ہمیں اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل و فاعل تھے۔ لیکن اگر اس دور کے حالات پر ایک نظر ڈال لی جائے تو نذیرحسین دہلوی اور وہ دیگر اہل حدیث علماء جو دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل تھے کے بارے میں صحیح موقف سامنے آجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ تمام علماء دیوبندی عقائد نہ جاننے کے سبب معذور تھے۔ اور کسی کی غلطی، لاعلمی یا معذوری سے استدلال جائز نہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے:

دیوبندی انگریز کے دور میں پیدا ہونے والا ایک نومولود فرقہ ہے جس کا مسکن و مولد غیرمنقسم ہندوستان ہے۔ کوئی بھی نیا فرقہ وقت کے ساتھ ارتقائی عمل سے گزرتا ہے اور ایک زمانہ گزرنے کے بعد ہی اس کے عقائد و اعمال میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ بہت زیادہ ممکن ہے کہ میاں نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے دور مبارک میں دیوبندی کفریہ اور شرکیہ عقائد نہ رکھتے ہوں۔ میرے نزدیک یہی بات قرین قیاس ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سابقہ ادوار سے تعلق رکھنے والے علماء دیوبندیوں کو موحد جانتے تھے اور ان سے اتحاد کے لئے کوشاں تھے اس کی تفصیل اہل حدیث کی کئی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اب اگر کوئی اہل حدیث عالم اپنے نزدیک موحد دیوبندی کے پیچھے نماز ادا کرلے تو اس میں حرج کیا ہے؟؟؟ بلکہ اس عالم کا دیوبندی عالم کے پیچھے نماز ادا کرنے کا عمل اس کی لاعلمی کے سبب درست ہے۔ لیکن دوسروں کو اس سے دلیل پکڑنا جائز نہیں۔

اہل حدیث علماء کو دیوبندیوں کے بارے میں غلط فہمی لاحق ہونے کا ایک بڑا سبب دیوبندیوں کا تقیہ بردار رویہ بھی ہے۔ انھوں نے دانستہ اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد کو چھپائے رکھا حتی کہ ان کے بعض عام علماء بھی ان کفریہ و شرکیہ عقائد سے لا علم رہے۔ عبدالشکور ترمذی دیوبندی نے المہند علی المفند کی عام فہم انداز میں تلخیص کی ہے جس کا نام عقائد علماء دیوبند رکھا ہے اس میں انھوں نے واضح طور پر اعتراف کیا ہے کہ بہت سے دیوبندی علماء بھی اپنے مسلمہ عقائد سے ناواقف اور لاعلم ہیں اور اسی لاعلمی میں وہ بسا اوقات ان عقائد کی تردید کردیتے ہیں۔ عبدالشکور دیوبندی لکھتے ہیں: اسی طرح یہ بھی واضح ہوگا کہ اصلی دیوبندیت کیا ہے اور اس زمانہ میں بعض مقررین جن عقائد کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔اس کو اصلی دیوبندیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔(عقائد علماء دیوبند، صفحہ١١٠)
عبدالشکور ترمذی دیوبندی کا اس کتاب کی تالیف سے مقصود دیوبندی علماء کو انکے مسلمہ عقائد سے روشناس کرانا ہے۔

اہل حدیث علماء نے بارہا دیوبندیوں کو انکے عقائد پر مناظرہ کی دعوت دیتی لیکن وہ اس پر تیار نہ ہوئے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ عام لوگوں پر انکے کفریہ شرکیہ عقائد آشکار نہ ہوں۔ بہرحال جب اہل حدیث علماء نے خود ہی دیوبندیوں کے عقائد سے متعلق عوامی شعور بیدار کرنے کی کوشش کی تو دیوبندیوں کو مجبورا اپنے عقائد کو عام عوام کے سامنے لانا پڑا۔یہ کچھ اسباب تھے جن کی وجہ سے اہل حدیث علماء کما حقہ دیوبندی عقائد پر مطلع نہ ہوسکے۔

سید طالب الرحمنٰ حفظہ اللہ نے اہل حدیث علماء اور عوام کی اس غلط فہمی کے ازالے کے لئے دیوبندیت لکھی جس کے مقدمے میں شیخ لکھتے ہیں: دیوبندی حضرات کے بارے میں عام اہلحدیث اور اکثر علماء کا بھی یہ نظریہ ہے کہ یہ لوگ موحد ہیں۔جیسا کہ حکیم محمود صاحب دیوبندیوں کے خلاف ’’علمائے دیوبند کا ماضی تاریخ کے آئینہ میں‘‘ نامی کتاب لکھتے ہوئے وہ اپنا اور دیوبندیوں کا ناطہ ان الفاظ میں جوڑتے ہیں۔
’’آج ہم اور دیوبندی ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔اور الحمداللہ عقائد میں بھی کوئی ایسا بعد نہیں رہا بلکہ ہمارا اور اس مسلک کا مستقبل بھی دونوں کے اتحاد پر موقوف ہے۔‘‘ ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’اہل توحید کے ناطے سے ایک تعلق موجود ہے اور اختلاف کے باوجود وہ باقی ہے اور رہے گا اور یہی دکھ کی بات ہے۔‘‘
حکیم صاحب کا یہ معذرت خواہانہ رویہ شاید مصلحانہ ہو، ورنہ دیوبندیوں کے بارے میں عام اہلحدیثوں کا نظریہ ان کے عقائد سے ناواقفی کی وجہ سے ہے۔ اسی لئے یہ ان سے رشتہ ناطہ کرنے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔
(دیوبندیت تاریخ وعقائد، صفحہ٧)

اب انصاف سے بتائیں کہ کیا نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ وغیرھم کے لاعلمی اور غلطی پر مبنی فعل سے بعض روشن خیالوں کا استدلال ناجائز اور لوگوں کے ایمان اور نمازوں سے کھیلنے کے مترادف نہیں؟؟؟؟؟

ہمیں یقین ہے کہ اگر نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ دیوبندیوں کی عقیدے کے مستند کتاب المہند علی المفند پڑھ لیتے اور جان لیتے کہ دیوبندی وحدت الوجودی صوفی بھی ہیں تو کبھی بھی ان کے پیچھے نماز نہ پڑھتے جیسا کہ وہ خود گمراہوں کے پیچھے نماز کے قائل نہیں تھے۔ دیکھئے:
رافضی کے پیچھے نماز جائز نہیں قال المرغینانی یجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولاتجوز خلف الرافضی والجہمی والقدری والمشبہ ومن یقول بخلق القرآن کذا فی التفاوی العالمگیریۃ وغیرھامن کتب الفقہ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (علامہ مرغینانیؒ فرماتے ہیں کہ صاحب ہوی وبدعت کے پیچھے نماز جائز ہے لیکن رافضی، جہمی، قدری، مشبہ اورجو قرآن کریم کو اللہ تعالی کی مخلوق کہتا ہے کہ پیچھے نماز جائز نہیں، اسی طرح فتاوی عالمگیری وغیرہ کتب فقہ میں لکھاہے)۔
(سید محمد نذیر حسین ۔ فتاوی نذیریہ ج 1 ص 332، فتاوی علمائے حدیث کتا وب الصلاۃ حصہ اول باب الامامۃ ص 217)

یاد رہے کہ دیوبندی جہمی بھی ہیں۔اور یہ لوگ حنفی بھی نہیں ہیں کیونکہ خود انکی فقہ کی کتابیں دیوبندیوں کے پیچھے نماز کو ناجائز کہتی ہیں جیسا کہ یہی مذکورہ حوالہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے۔

ابوبکر بھائی آپ کے مضمون سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
سوال: میلوں کے دیکھنے والا عرسوں پر حاضر ہونے والا امام ہوتو اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟

جواب: قبریا درخت یا کسی اور چیز کو سجدہ کرنا شرک ہے۔ قبروں پر میلہ کرنا اور عرسوں اور میلوں کو دیکھنا گمراہی ہے ایسے لوگوں کو امام بنانا ناجائز ہے اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جاوے حدیث ‘‘مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ’’([4]) (جس کسی نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ ان ہی میں سے ہے) اور حدیث ‘‘مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ’’([5]) (جس کسی نے کسی قوم کی جماعت کو بڑھادیا وہ ان ہی میں سے ہے) یہ دو حدیثیں ہیں اور قرآن شریف اللہ عزوجل فرماتا ہے:

﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ﴾
(النساء: 140)
(اللہ تعالی کتاب (قرآن مجید) میں تم پر یہ اتار چکا ہے کہ جب تم سنو اللہ تعالی کی آیتوں سے کفر اور ٹھٹھا کیا جاتا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ (جو کفر اور ٹھٹھا کررہے ہوں) مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ دوسری کسی بات میں لگیں۔ اگر تم ایسا کروگے تو تم بھی انہی کی طرح (کافر) ہوجاؤ گے)
(فتاوی غزنویہ ص48، فتاوی علمائے حدیث کتا ب الصلاۃ حصہ اول باب الامامۃ ص 188)
جب ایک عرس اور میلا دیکھنے والے پیچھے نماز جائز نہیں تو بریلویوں اور دیوبندیوں کے پیچھے نماز کیسے جائز ہوگی جو باقاعدہ کفریہ اور شرکیہ عقائد کے حاملین ہیں؟؟

اسی مضمون سے ایک اور سوال جواب دیکھیں:
سوال: ہمارے محلہ میں نزدیک ترین مسجد کا امام بریلوی ہے اس کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے یا علیحدہ پڑھنی چاہیے؟

جواب: بریلویوں کے بعض عقائد کفریہ ہیں اگر یہ امام بھی عام بریلویوں کی طرح ان کے کفریہ عقائد رکھتا ہے تو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے
جب بریلویوں کے پیچھے اس لئے نماز نا جائز ہے کہ ان کے بعض عقائد کفریہ ہیں تو اسی سبب دیوبندیوں کے پیچھے بھی نماز ناجائز ہے کیونکہ انکے بھی بعض عقائد کفریہ ہیں۔

مضمون سے یہ اقتباس بھی دیکھنے کے لائق ہے:
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ​

سوال: ہمیں ایک امام نماز کی امامت کرواتا ہے، اور وہ کہتا ہے: اللہ تعالی نہ اوپر ہے نہ نیچے بلکہ وہ تو ہر جگہ ہے، کیا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟

جواب: ایسا شخص بدعتی گمراہ ہے، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔ جو یہ کہے کہ اللہ تعالی نہ اوپر ہے نہ نیچے وہ کافر ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا واضح فرمان ہے:

﴿اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾
(طہ : 5)
(جو رحمن ہے، عرش پر بلند ہے)

﴿اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ﴾
(الاعراف: 54، یونس: 3)
(بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے)

اور فرمایا:

﴿وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ﴾
(البقرۃ: 255، الشوری: 4)
(اور وہ بلند اور بہت عظیم ہے)

﴿وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ﴾
(الحج: 62، لقمان: 30)
(بیشک اللہ ہی بلندی والا کبریائی والا ہے)

﴿فَالْحُكْمُ لِلّٰهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيْرِ﴾
(المؤمن: 12)
(پس اب فیصلہ اللہ بلند و بزرگ ہی کا ہے)

﴿اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُه﴾
(فاطر: 10)
(تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں ، اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے)

﴿مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ۔ تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ﴾
(المعارج: 3-4)
(اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں/ آسمانی زینوں والا ہے۔ جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں)
بس اس فتوے سے ثابت ہوا کہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں کیونکہ دیوبندی بھی اللہ کو ہر جگہ مانتے ہیں۔الیاس گھمن دیوبندی نے لکھا ہے: ہم نے عقیدہ بیان کیا میں کہتا ہوں اللہ ہر جگہ پر ہے۔(خطبات گھمن،جلد١، صفحہ ٢٠٠)

ابوبکر سلفی بھائی آپ کے پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک ایسے بدعتی کے پیچھے مجبوری میں نماز جائز ہے جس کی بدعت ہلکی ہو یعنی بدعت صغرہ ہو۔جیسا کہ آپ کے مضمون میں درج ہے:
٭جس کی بدعت مکفرہ ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں اور جس کی غیر مکفرہ ہو تو جائز ہے ۔
میں بھی اس کا قائل ہوں جس کا اظہار سابقہ پوسٹس میں کرچکا ہوں۔ میرے نزدیک بھی ایسے بدعتی کے پیچھے نماز ناجائز ہے جس کی بدعت مکفرہ ہو اور اس کے عقائد میں کفر اور شرک پایا جاتا ہو۔ پس اس کی رو سے کسی بھی دیوبندی یا بریلوی امام کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ دیوبندیوں کی عقیدہ کے مستند کتاب المہند علی المفند ان کے عقیدے کے کفریہ اور شرکیہ ہونے پر دال ہے۔ اس کے علاوہ ان کا وحدت الوجودی صوفی ہونا بھی انکے پیچھے نماز سے مانع ہے۔

ہمیں حیرت ہے کہ پچھلے زمانے میں تو معلومات تک رسائی مشکل ہونے کے سبب کچھ لوگ دیوبندیوں کے عقائد سے لاعلم رہ گئے تھے لیکن اس دور میں جب دیوبندیوں کے عقائد کھل کر سامنے آچکے ہیں اور ان تک رسائی بھی بہت آسان ہے تو اب دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہوجانے کے فتوؤں کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟؟؟ اگر اب بھی یہاں کوئی شخص جو دیوبندیوں کے پیچھے نماز کا حامی و قائل ہے اور واقعی دیوبندیوں کے عقائد سے نا واقف ہے تو ہماری اس بحث کے بعد اس کا لاعلمی کا عذر ختم ہوجاتا ہے۔ دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہونے یا نہ ہونے کے مسئلہ کی توضیح اور تشریح کے بعد بھی اگر کوئ اپنے سابقہ غلط موقف پر ڈٹا ہوا ہے تو ہم اس کی ہدایت کے لئے اللہ کے حضور دعا ہی کرسکتے ہیں۔

آخر میں عرض ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے سے متعلق صحابہ،تابعین و تبع تابعین سے جتنے بھی دلائل منقول ہیں وہ سب اس بدعتی کے بارے میں ہیں جس کی بدعت کفر تک نہ پہنچتی ہو۔ دیوبندی عقائد میں کفر و شرک رکھنے کی وجہ سے ان دلائل کے مستحق قرارنہیں پاتے۔ بلکہ بدعت مکفرہ کے حاملین کے دلائل ہی دیوبندیوں پر فٹ آتے ہیں۔
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
74
پوائنٹ
20
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
ابوبکر بھائی آپ کے اس ’’فیصلہ کن‘‘ مضمون میں ایک بہت بڑا ابہام ہے جو اس مضمون کے فیصلہ کن ہونے میں مانع ہے۔ اور وہ ابہام ہے دیوبندی پر غلط حکم لگانے کا اور ان دیوبندیوں کو بدعت مکفرہ کے بجائے بدعت غیر مکفرہ کے مرتکبین میں شمار کرنے کا۔
یہی تو غلطی ہے اور یہی سوچ تکفیری زہنیت کو فروغ دیتا ہے۔
آپ صرف اتنا سمجھ لیں کہ اگر آپ کسی کے پیچھے نماز پڑھنے سے گریز کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ اسکو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ کیا آپ پر اسامہ بن زید ﴿رضی اللہ عنہ﴾ والی حدیث پیش نہیں کی جاسکتی جنہوں نے اپنے ظن کی بنیاد پر ایک شخص کو کافر سمجھا؟
جب تک اسکا عقیدہ واضح نہ ہو جائے آپ اور ہم کون ہوتے ہیں کے اُس کے اسلام کو ناقص ثابت کریں؟
آپ بھی کراچی میں ہیں اور میں بھی کراچی میں ہم دونوں جانتے ہیں کہ دیوبندی مسجدوں کے امام عالم نہیں ہوتے ۔ وہ تو بس حافظ ہوتے ہیں بلکہ انکو تو یہ دھوکہ دیا جاتا ہے کہ کتاب وسنت کے حاملین میں سے ہو۔ اسی لئے دیوبندیوں کے لئے تھوڑا نرم مزاج رکھا جاتا ہے۔ جبکہ بریلوی حضرات کی مساجد میں داخل ہوتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں کس قدر شرک کی غلاظت موجود ہے تو امام کا کیا عقیدہ ہوگا۔

آپ نے لکھا ہے:
ہمیں اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل و فاعل تھے۔ لیکن اگر اس دور کے حالات پر ایک نظر ڈال لی جائے تو نذیرحسین دہلوی اور وہ دیگر اہل حدیث علماء جو دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل تھے کے بارے میں صحیح موقف سامنے آجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ تمام علماء دیوبندی عقائد نہ جاننے کے سبب معذور تھے۔ اور کسی کی غلطی، لاعلمی یا معذوری سے استدلال جائز نہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے:
آپ کے اس اقتباس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ نے مکمل مضمون پڑھا ہی نہیں۔ ہم اھل البدعة کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل اس لئے نہیں کہ کسی عالم کا قول ہے کہ پڑھ لیا کرو بلکہ اس پر دلائل موجود ہیں۔
کسی کو عقیدہ معلوم ہو کہ نہ معلوم ہو وہ اھل قبلہ ہو اور بظاہر اس میں کوئی شرک و کفر ظاہر نہ ہو تو مجبوراً اس کو امام بنایا جا سکتا ہے۔
اسی لئے بارہا کہا تھا کہ اس مضمون کو مکمل پڑھیں ایک ایک شبہ کا ان شاء اللہ جواب موجود ہے۔

دیوبندی انگریز کے دور میں پیدا ہونے والا ایک نومولود فرقہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوبندی ہوں یا کوئی اور یہ مسئلہ صرف دیوبندیوں کے لئے نہیں جو بھی بدعتی مسلمان ہے اس کے لئے ہے۔
کیا آپ تمام دیوبندیوں کو کافر سمجھتے ہیں؟
اگر ہاں تو آپ کے لئے جائز نہیں کہ آپ انکے پیچھے نماز پڑھیں۔

سلفی علماء قدیم اور جدید سب اس بات کے قائل ہیں کہ جس بدعتی کی بدعت اس کو کفر تک نہ لے جائے اُس کے پیچھے نماز جائز ہے جیسا کہ آپ بھی اس کے قائل ہیں۔ اب اختلاف اس پر ہے کہ آیا دیوبندی اس قابل ہیں کہ انکے پیچھے نماز پڑھی جائے کہ نہیں؟
تو یہ فیصلہ آپ خود کر لیجئے اگر آپ کو کسی امام کا عقیدہ معلوم ہے کہ اس کا عقیدہ حلول یا کوئی شرکیہ عقیدہ ہے تو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں اور کوشش کریں کہ اس کو نصیحت کریں۔
اگر آپ کو نہیں معلوم اور آپ نے معلوم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی تو اس کے پیچھے نماز پڑھتے رہیں۔


اہل حدیث علماء کو دیوبندیوں کے بارے میں غلط فہمی لاحق ہونے کا ایک بڑا سبب دیوبندیوں کا تقیہ بردار رویہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب آپ ایک دیوبندی عالم کو لے کر پورے دیوبند پر ایک فتویٰ نہ لگائیں۔ یہ طریقہ صحیح نہیں۔


ہمیں یقین ہے کہ اگر نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ دیوبندیوں کی عقیدے کے مستند کتاب المہند علی المفند پڑھ لیتے اور جان لیتے کہ دیوبندی وحدت الوجودی صوفی بھی ہیں تو کبھی بھی ان کے پیچھے نماز نہ پڑھتے جیسا کہ وہ خود گمراہوں کے پیچھے نماز کے قائل نہیں تھے۔ دیکھئے:
سبحان اللہ۔ جناب آج کے علماء تو ان کے عقیدہ سے واقف ہیں ناں؟
مولانا عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ
مولانا ارشاد الحق اثری حفظة اللہ

یاد رہے کہ دیوبندی جہمی بھی ہیں۔اور یہ لوگ حنفی بھی نہیں ہیں کیونکہ خود انکی فقہ کی کتابیں دیوبندیوں کے پیچھے نماز کو ناجائز کہتی ہیں جیسا کہ یہی مذکورہ حوالہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے۔
یہ بات بھی صحیح نہیں۔
میں اسی لئے کہہ چکا ہوں کہ ایک عام دیوبندی اور عالم دیوبندی میں فرق ہے۔
جبکہ اکثر علماء دیوبند بھی حقیقت جانتے ہیں اور وہ تاویل وغیرہ پیش کرتے ہیں۔


ابوبکر بھائی آپ کے مضمون سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
جب ایک عرس اور میلا دیکھنے والے پیچھے نماز جائز نہیں تو بریلویوں اور دیوبندیوں کے پیچھے نماز کیسے جائز ہوگی جو باقاعدہ کفریہ اور شرکیہ عقائد کے حاملین ہیں؟؟
اس سوال کو مکمل نقل کرتے اور مکمل جواب لکھتے تو بہتر ہوتا ۔

سوال پوچھنے والا تو کسی بھی قسم کا سوال پوچھ سکتا ہے۔
یہ لیجئے سوال پوچھنےو الے کو جو جواب ملا ہے وہ کیا ہے۔

سوال: میلوں کے دیکھنے والا عرسوں پر حاضر ہونے والا امام ہوتو اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟

جواب: قبریا درخت یا کسی اور چیز کو سجدہ کرنا شرک ہے۔ قبروں پر میلہ کرنا اور عرسوں اور میلوں کو دیکھنا گمراہی ہے ایسے لوگوں کو امام بنانا ناجائز ہے اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جاوے حدیث ‘‘مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ’’([4]) (جس کسی نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ ان ہی میں سے ہے) اور حدیث ‘‘مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ’’([5]) (جس کسی نے کسی قوم کی جماعت کو بڑھادیا وہ ان ہی میں سے ہے) یہ دو حدیثیں ہیں اور قرآن شریف اللہ عزوجل فرماتا ہے:

﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ﴾
(النساء: 140)
(اللہ تعالی کتاب (قرآن مجید) میں تم پر یہ اتار چکا ہے کہ جب تم سنو اللہ تعالی کی آیتوں سے کفر اور ٹھٹھا کیا جاتا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ (جو کفر اور ٹھٹھا کررہے ہوں) مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ دوسری کسی بات میں لگیں۔ اگر تم ایسا کروگے تو تم بھی انہی کی طرح (کافر) ہوجاؤ گے)

(فتاوی غزنویہ ص48، فتاوی علمائے حدیث کتا ب الصلاۃ حصہ اول باب الامامۃ ص 188)
اسی مضمون سے ایک اور سوال جواب دیکھیں:
جب بریلویوں کے پیچھے اس لئے نماز نا جائز ہے کہ ان کے بعض عقائد کفریہ ہیں تو اسی سبب دیوبندیوں کے پیچھے بھی نماز ناجائز ہے کیونکہ انکے بھی بعض عقائد کفریہ ہیں۔
اس سوال کو بھی مع جواب پیش کرنا چاہئے تھا۔
سوال: بریلوی عقیدہ رکھنے والے حنفی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں ؟ ایک امام دیوبندی عقیدہ رکھتا ہےلیکن قومہ اور جلسہ میں دعاء نہیں پڑھتا اور اس کے پیچھے اہلحدیث مقتدی اس کی کچھ عجلت کی وجہ سے قومہ اور جلسہ کی دعائیں نہیں پڑھ سکتے کیا ایسے امام کے پیچھے نماز ہوجائے گی؟

جواب: کسی بریلوی حنفی کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ ان کے بعض عقائد واعمال شرکیہ اورکفریہ ہیں (مثلا رسول اللہ ﷺ کے متعلق ان کا یہ عقیدہ کے آپ کوغیب کا کلی علم تھا اور آپ ﷺ ہر جگہ حاضر وناظر ہیں اور اولیاء اللہ کائنات میں تصرف کی قوت رکھتے ہیں اورتصرف کرتے ہیں اور اہل قبور کو حاجت روا سمجھ کر ان سے استمداد واستعانت اور قبروں اور پیروں کو سجدہ وغیرہ ذلک من العقائد الکفریۃ) اور شرک وکفرکرنے والوں کے پیچھے قطعا ًنماز جائز نہیں ہے۔فانہ لا فرق بین الکفرۃ من الیھود والنصاری والھنادک وبین ھؤلاء القبوریین(کیونکہ ان قبرپرستوں اور یہود، نصاری اورہندوؤں میں شرک کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں)۔

اگر یہ دیوبندی امام رکوع سے سر اٹھانے کے بعد سیدھا کھڑا ہوجاتا ہےاور سجدہ کےلیے سرجھکانے سے پہلے کچھ توقف کرکے سجدہ میں جاتا ہےاور پہلےسجدہ سے سر اٹھانے کے بعد سیدھا بیٹھ جاتا ہے اور قدرے توقف کرکے دوسرے سجدہ میں جاتا ہے تو اس کے پیچھے اہلحدیث کی نماز ہوجائے گی۔ اگرچہ یہ امام بجز تحمید کے قومہ اور جلسہ بین السجدتین کی دعاء نہ پڑھے۔ اور نہ اس کی اس قدر عجلت کی وجہ سے اہلحدیث مقتدی کو پڑھنے کا موقع ملے۔ قومہ میں سیدھا کھڑا ہونا اور سجدہ کے لیے جھکنے سے پہلے اطمینان اور قدرے توقف کرنا اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھنا اور اطمینان اور کچھ توقف کرنا فرض ہے۔بغیراس کے نماز صحیح نہیں ہوسکتی اور ان دونوں مقاموں میں دعاء وذکر ضروری نہیں بلکہ سنت ہے لیکن تعجب ہے ان لوگوں پر جو اپنے تئیں اہل سنت والجماعت کہلوانے کے باوجود ان صحیح حدیثوں پر عمل نہیں کرتے جن میں قومہ اورجلسۃ بین السجدتین کا رکوع وسجدہ کے قریب ہونا اور ان دونوں مقاموں میں دعاء وذکر مخصوص مروی اور مذکور ہے۔ (بخاری ومسلم عن انس وبراء بن عازب ترمذی ابوداود، ابن ماجہ عن ابن عباس احمد عن ابی ہریرۃ ترمذی ابودواد نسائی عن رفاعۃ الزرقی۔ بخاری ومسلم عن ابی ہریرۃ مسلم نسائی عن ابن عباس مسلم ترمذی ابوداود نسائی ابن حبان دراقطنی عن علیؒ) اور ان حدیثوں کی دعاؤں کو بلادلیل نفل نماز کے ساتھ مخصوص کرکے فرائض میں قصداً دیدہ دانستہ اس سنت ثابتہ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ لکنہ لیس باول قارورۃ کسرت فلاعجب فانہ قد سول لھم قرینھم رد السنن الصحیحۃ الثابتۃ حتی صار ذلک عادتھم فلا یبالون بمایفعلون باحادیث رسول اللہ ﷺ (اور یہ کوئی عجب بات نہیں شیطان نے ان کے لیے تو ثابت شدہ سنتوں کو رد کرنا مزین کردکھایا ہے کہ یہ ان کی عادت بن چکا ہے اور احادیث رسول ﷺ کے ایسا سلوک کرکے انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی) اور اگر یہ دیوبندی امام قومہ میں سیدھا کھڑا ہوئے اور کچھ توقف کرنے کے بغیر دوسرے سجدہ میں چلاجاتا ہے تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔

(محدث دہلی ج 9 شمارہ 8، فتاوی علمائے حدیث کتا ب الصلاۃ حصہ اول باب الامامۃ ص 240)
یاد رہے کہ بریلویوں اور دیوبندیوں میں علماء اھل الحدیث فرق کرتے ہیں۔

ابوبکر سلفی بھائی آپ کے پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک ایسے بدعتی کے پیچھے مجبوری میں نماز جائز ہے جس کی بدعت ہلکی ہو یعنی بدعت صغرہ ہو۔
اگر بدعت صغرہ کا مطلب بدعت غیر مکفرہ ہے تو پھر آپ کسی گروہی میعار پر یہ قانون نہیں لگاسکتے بلکہ جو شخص بظاہر بدعت مکفرہ میں ملوث نظر آئے گا اس کے پیچھے نماز نہیں اور جس کی بدعت غیر مکفرہ ہو اس کے پیچھے نماز ہو جائیگی۔ اور یہ بات تو ہم بھی کہتے ہیں کہ قصداً بدعتی امام نہ بنایا جائے۔ امام سلفی العقیدہ ہی ہونا چاہیئے۔


ہمیں حیرت ہے ۔۔۔۔۔۔۔اگر کوئ اپنے سابقہ غلط موقف پر ڈٹا ہوا ہے تو ہم اس کی ہدایت کے لئے اللہ کے حضور دعا ہی کرسکتے ہیں۔
جناب دلائل و براھین کی دنیا میں آئیے ظن کی بنیاد پر تو کتنے اھل الحدیث مسلمان نہیں رہتے۔ کیا اھل الحدیث میں ایسا گروہ نہیں جو شرکیہ و کفریہ تعویز کےقائل ہیں خواہ مجبوری ہی صحیح؟ تو پھر یہ عقیدہ معلوم ہوجانے کے بعد آپ کو تو اھل الحدیث کے پیچھے بھی نماز نہیں پڑھنی چاہیےجیسے تکفیری حضرات کے نزدیک انکے علاوہ تمام لوگ کافر ہو چکے ہیں بس جب انکا ہم عقیدہ امام بنے گا تو نماز باجماعت ہوگی ورنہ نہیں۔
اسی لئے میں کہہ رہا ہوں کہ یہ نظریہ تکفیری زہنیت کو پروان چڑھاتا ہے۔

آخر میں عرض ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے سے متعلق صحابہ،تابعین و تبع تابعین سے جتنے بھی دلائل منقول ہیں وہ سب اس بدعتی کے بارے میں ہیں جس کی بدعت کفر تک نہ پہنچتی ہو۔
سبحان اللہ۔
ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ جس شخص کی بدعت مکفرہ ہو اس کے پیچھے نماز نہیں۔ کیا اس بات کو مزید مختصراً بیان نہ کیا جائے؟
ہر اُس شخص کے پیچھے نماز جائز ہے جس کا مسلمان ہونا ثابت ہو۔ اب اگر وہ دل میں جو بھی عقیدہ رکھتا ہے وہ دل سے ہے۔ اگر وہ اس کو ظاہر نہیں کرتا تو آپ کو کوئی حق نہیں کہ اس کو کافر قرار دیں۔

دیوبندی عقائد میں کفر و شرک رکھنے کی وجہ سے ان دلائل کے مستحق قرارنہیں پاتے۔
یہ بات محتاج دلیل ہے۔ کیونکہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اکثر دیوبندی امام جو مسجدوں میں ہوتے ہیں وہ اس طرح کا عقیدہ نہیں رکھتے کبھی کسی امام کو پکڑ کر پوچھ لیجئے گا۔
ہم نے تو ایک امام کو اللہ کہاں ہے پر پکڑ لیا تھا جب اُس نے کہا کہ اللہ ہر جگہ ہے تو ہم نے سوالاً پوچھا کہ کیا کچرے کے ڈھیر پر بھی؟ کیا شراب خانے پر بھی؟ تو اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا کہ نہیں نہیں علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے۔ اب اس نے جان چھڑانے کے لئے ایسا کہا ہو تو الگ بات ہے وگرنہ بظاہر وہ مسلمان ہی ہے۔
ورنہ آپ دیوبندیوں کی عوام میں سے کسی پہ یہ فارمولا اپلائی کر لیجئے گا۔

بہر حال میرا بحث کرنے کا موڈ نہیں تھا۔ اسی مضمون میں مکمل طور پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ طالب علم وہاں رجوع کر سکتے ہیں۔

اکثر ہمارے اھل الحدیث بھائی کسی بھی دیوبندی کے بارے میں تجسس کرتے ہیں کہ آیا اس کا عقیدہ درست ہے کہ نہیں۔ تو اس کا بھی یہی جواب ہے حکم ظاہر پر ہی لگایا جائیگا اگر بظاہر کوئی ایسی بدعت نظر آئے جو اسلام کو ناقص کرتی ہو تو پھر اس کے پیچھے نماز نہیں اور اگر ایسا نہیں تو پھر جائز ہے۔
وگرنہ آپ اھل الحدیث مساجد میں نماز پڑھتے ہیں تو کیا آپ کو تمام اھل الحدیث امام کے عقائد معلوم ہوتے ہیں؟
یا پھر اھل الحدیث کہلانے کے بعد کوئی شرک و کفر نہیں کرسکتا؟
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
74
پوائنٹ
20
قارئین کی آسانی کے لئے کچھ برصغیر کے علماء کا کلام یہاں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔
ان میں سے پہلے شیخ وصی اللہ عباس حفظہ اللہ ہیں جو خود انڈیا سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دیوبندیوں کے عقیدہ کو بھی نہیں جانتے ہوں گے۔

سائل: حیاک اللہ یا شیخ! ٹورنٹو، کینیڈا میں جہاں ہم رہتے ہیں وہاں سب سے قریب ترین مسجد تبلیغی جماعت (دیوبندیوں) کی ہے؟

شیخ: تبلیغی جماعت؟

سائل: جی تبلیغی جماعت۔ تو جو بات ہم پوچھنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ کیا ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟

شیخ: اگر جہاں آپ رہتے ہیں وہاں کوئی صحیح العقیدہ لوگوں کی مسجد ہوتو پھر تبلیغی جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ لیکن اگر قریب میں ایسی کوئی مسجد نہ ہو تو پھر جماعت سے نماز پڑھنا نہ چھوڑیں (خواہ تبلیغی جماعت کے پیچھے ہو)۔ میں پھر دوہرا دیتا ہوں کہ اگر کوئی مسجد ہو تو ایسے بدعتی عقائد نہیں رکھتے تو پھر تبلیغی جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھیں، لیکن اگر ایسی مسجد نہیں تو پھر (انہی تبلغیوں کے پیچھے پڑھ لیں) باجماعت نماز کو نہ چھوڑیں۔اور آج کے اس دور میں صرف سلفی لوگوں کا ہی صحیح عقیدہ ہوتا ہے۔

سلفیوں کے علاوہ جو لوگ ہوتے ہیں ان کے عقیدے میں (اگر کفر نہیں تو)کم از کم کوئی نہ کوئی بدعت ضرور ہوتی ہے۔ (ہر جگہ آپ کو سلفی نہیں ملیں گے تو کہاں جائیں گے) لہذا محض عقائد میں بعض بدعات کا پایا جانا تبلیغی جماعت کے پیچھے باجماعت نماز چھوڑنے کا عذر نہیں بن سکتا۔ اور آپ اور میں اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جو بدعات تبلیغی جماعت کے عقائد میں پائی جاتی ہے۔ مگر پھر بھی ان کے پیچھے باجماعت نماز چھوڑنے کی محض اسے وجہ نہیں بنانا چاہیے۔

"ہر نیک وبد کے پیچھے نماز پڑھ لو" (ابو داود، دارقطنی) یہ محض ایک حدیث نہیں بلکہ یہ ہمارا عقیدہ ہے، سمجھے آپ؟ یہ عبارت صرف ایک حدیث ہی نہیں بلکہ عقیدۂ اہل سنت والجماعت ہے۔ پس ان کے پیچھے نماز پڑھا کریں جو غلطیاں ان کی ہیں وہ انہی کے سر ہیں، اور جو صحیح بات آپ کی ہے وہ آپ کے لیے ہے۔ مگر اسے جماعت چھوڑنے کا عذر نہ بنائیں۔ بایں صورت آپ مجبور کے حکم میں ہے کہ اگر کوئی صحیح العقیدہ لوگوں کی مسجد نہیں تو آپ مجبوراً ان تبلیغی جماعت والوں بدعتیوں کے پیچھے ہی نماز پڑھ رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو صحیح العقیدہ لوگ مل جائیں کہ جن کی مسجد میں جماعت ہوتی ہے اگرچہ جماعتیوں کی تعداد بہت تھوڑی ہی کیوں نہ ہو آپ انہی کے پیچھے نماز پڑھیں۔

(شیخ وصی اللہ حفظہ اللہ کو ٹورنٹو سے کی گئی کال بروز جمعرات، بتاریخ 16 مارچ، 2006)


شیخ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ

سوال: اہلحدیث مسجد دور ہونے کی صورت میں قریب بریلوی اور دیوبندی مسجد ہیں کیا وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: اگر وہ نماز وقت پر اور سکون سے پڑھاتے ہیں کہ صحیح طور پر ارکان ادا کرسکیں تو پڑھ سکتے ہیں۔

سوال: اہلحدیث علماء کرام کی کتب موجود ہیں کہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز جائز نہیں ان کے عقائد صحیح نہیں؟
جواب: غلطیاں تو ہر ایک میں موجود ہوتی ہیں خود ہم میں بھی کچھ نہ کچھ ہوں گی۔ نماز ہوجاتی ہے ان کے پیچھے۔

سوال: لیکن شیخ ان کے شرکیہ وحدت الوجود جیسے عقائد ہیں؟
جواب: معلوم ہے ان کے اس قسم کے عقائد ہوتے ہیں بہرحال تاویلات وغیرہ موجود ہوتی ہیں لہذا صریح حکم تو لگانا درست نہیں۔اور امام کے بدعقیدہ ہونے سے آپ کے عقیدے پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا وہ تو اس تک ہی محدود ہے۔ آپ کا عقیدہ تو صحیح ہے آپ کی تو نماز بہرحال ہوجائے گی۔

سوال: بریلوی مساجد میں واضح شرکیات پر عمل ہورہا ہوتا ہے؟
جواب: ہاں ان کے پیچھے نہ پڑھیں مجبوری میں ان کے بجائے دیوبندیوں کے پیچھے پڑھنا بہتر ہے۔

(11 دسمبر، 2011 کو کی گئی ٹیلیفونک گفتگو)

حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ (فیصل آباد)

سوال:اگر قریب کوئی اہلحدیث مسجد نہ ہو تو کیا ہم قریبی دیوبندی مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: دیوبندی بریلوی احناف اہل سنت والجماعت میں سے ہیں ان کے پیچھے نماز جائز ہےالبتہ دیوبندی توحید وغیرہ کے تعلق سے اہل حدیث سے قریب تر ہیں ان کے پیچھے تو بالاولی نماز جائز ہے۔ جو باتیں ان کی قرآن وحدیث کے خلاف ہیں وہ گمراہیاں ہیں لیکن یہ کافر ومشرک نہیں ہیں۔ یہی جمہور اہلحدیث علماء کرام کا مؤقف ہے جیسے حافظ محمد گوندلوی ، عبداللہ روپڑی وغیرہ۔ اوراب بھی میرا مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ وغیرہ کا یہی مؤقف ہے۔ بعض علماء جیسے علامہ بدیع الدین شاہ راشدی، عبداللہ بہاولپوری ؒ اور حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ وغیرہ کا مؤقف اس کے برخلاف ہے کہ دیوبندیوں کی بدعت بہت بڑی ہے کہ جو ان کے پیچھے نماز پڑھنے سےمانع ہے۔ لیکن راجح مؤقف وہی جمہور کا ہے۔بلکہ ہمارے ساتھی علماء کرام جب دیوبندیوں کے ساتھ مشترکہ کسی پروگرام میں شریک ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے پیچھے پڑھ لیاکرتے ہیں۔

(یکم دسمبر سن 2011ع کو ٹیلی فونک گفتگو)

مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ

سوال: ہمارے گھر کے قریب کوئی اہلحدیث مسجد موجود نہیں تو کیا ہم دیوبندی مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟ اس بارے میں اہلحدیث علماء کرام کی مختلف رسائل پڑھیں ہیں کوئی جائز کہتا ہے توکوئی ناجائز، صحیح مؤقف سے آگاہ فرمائیں؟

جواب: اگر اہلحدیث مسجد موجود نہ ہو تو دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے یہی صحیح مؤقف ہے، جماعت کو کسی طور پر چھوڑنا جائز نہیں۔ اگرچہ بعض سندھ کے اور کچھ پنجاب کے بھی اہلحدیث علماء اس کے مخالف مؤقف رکھتے ہیں کہ یہ بہت بڑے بدعتی لوگ ہیں کہ ان کے پیچھے نماز بالکل ناجائز ہے۔

سوال: مگر وہ علماء ان کے شرکیہ عقائد بھی تو بیان کرتے ہیں؟
جواب: کونسے شرکیہ عقائد؟

سوال: جیسے وحدت الوجود؟
جواب: وحدت الوجود تو تاویل کا مسئلہ ہے اس کی مختلف تاویلات کرتے ہیں لہذا صریح حکم نہیں لگتا ورنہ آپ میاں نذیر حسین دہلوی " پر کیا حکم لگائیں گے وہ بھی تو مولوی بشیرالدین سے مناقشے کے بعد ان کی بتائی ہوئی ایک معقول سی تعریف پر اس نظریے کے قائل ہوگئے تھے!۔

سوال: اس کے علاوہ بھی شرکیہ عقائد بیان ہوتے ہیں جیسے عقیدہ حیات النبی e؟
جواب: یہ بھی زیادہ سے زیادہ بدعت ہے کفر نہیں بدعت غیرمکفرہ ہے۔

سوال: اور قبروں سے فیض ملنے کا عقیدہ جیسے المفند میں ہے کہ خواص کو قبروں سے فیض ملتا ہے؟
جواب: ہم تو فیض کے قائل نہیں وہ ہوں تو ہوں ہم نے تو نہیں دیکھا امام کو کہ قبروں سے فیض لیتا ہے تو جائز ہے نماز۔

سوال: اور اگر بریلوی ودیوبندی میں سے کسی مسجد کو اختیار کرنا ہو؟
جواب: تو دیوبندیوں کے پیچھے پڑھنا زیادہ بہترہے کہ ظاہر شرکیات موجود نہیں ہوتیں۔ بلکہ آپ ان اہلحدیث علماء کے پوچھیں جو دیوبندیوں کے پیچھے نماز کے قائل نہیں کہ اب سے کچھ برس قبل سعودی حکومت سے پہلے حرمین پر کس کی حکومت تھی؟ عثمانیوں کی جو خود صوفی ہی نہیں قبرپرست تھے قبریں اور قبے موجود تھے۔

سوال: جی انہی علماء نے علماء دیوبند کے غلط عقائد المفند کی تصدیق بھی کی تھی۔۔
جواب: جی، تو آپ ان سے پوچھیں کہ اس وقت بھی تو علماء اہلحدیث حج وعمرہ پر جاتے تھے تووہ انہی کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ بریلوی دیوبندی تو بتاتے ہیں اپنے اکابرکا کہ وہ وہاں پڑھتے تھے ان سے بھی پوچھیں۔ میرا اس پر مقالہ بھی ہے مقالات میں اسے پڑھ لیں۔ اس قسم کا حکم لگانے سے کتنی پریشانی ہوتی ہے کہ ہم سفر میں ہیں کسی دوسرے علاقے میں ہیں اور ڈھونڈتے پھر رہے ہیں کہ اہلحدیث مسجد کدھر ہے۔ اسکے پیچھے نمازنہیں ہوتی اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔

(12 دسمبر، 2011 کوکی گئی ٹیلیفونک گفتگو)

دوسرے مقام پر شیخ حفظہ اللہ اپنے مقالات جلد اول ط ادارہ العلوم الاثریہ، فیصل آباد ص 23-26 میں ایک دیوبندی حنفی مقلد ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب کے اس مندرجہ ذیل اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

اعتراض: اس دورمیں اہلحدیث نام سے اپنا فرقہ وارانہ امتیاز کرنا اور اپنی علیحدہ مسجدیں بنانا یہ صرف بیسویں صدی عیسوی کی ایجاد ہے۔ اس سے قبل کہیں اس فرقے کی نہ علیحدہ کوئی جماعت تھی نہ کوئی مسجد اور نہ کہیں عوام اس سے موسوم ہوتے تھے۔ (دارالعلوم، شمارہ ماہ جون 1995ع ص 16)

شیخ فرماتے ہیں: حالانکہ اہلحدیث مقلدین کی طرح کوئی فرقہ نہیں۔ ۔ ۔۔اہلحدیث مشرک کے علاوہ ہر مسلمان کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل ہیں۔ سرخیل اہلحدیث میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ جامع مسجد دہلی میں نماز جمعہ حنفی امام کے پیچھے ادا کرتےرہے ہیں۔ (الحیات بعد الممات)بلاشبہ پہلے اہلحدیث کی مسجدیں علیحدہ نہیں تھیں۔ انہيں علیحدہ مسجدیں بنانے پر اگر مجبور کیا ہےتو ڈاکٹر صاحب آپ کےحنفی بھائیوں نے ۔۔۔اور پھر شیخ نے ان رسالوں کا ذکر کیا جو متعصب مقلدین نے اس بارے میں لکھے جیسے "انتظام المساجد باخراج اھل الفتن والمفاسد" از مولانا محمد لدھیانوی جس میں انہوں نے اہلحدیث کو مرتد لکھا۔اورحکام سے ان کے قتل کا مطالبہ کیا اور ساتھ یہ بھی فتوی صادر فرمایا کہ اگر یہ لوگ توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول نہ کی جائے۔ اس کےعلاوہ "جامع الشواھد فی اخراج الوھابیین من المساجد" بھی مولانا وصی احمد سورتی نے 1883ع میں لکھا جس پر لدھیانہ، دیوبند، گنگوہ، پانی پت، رامپور اور دوسرے شہروں کے علمائے احناف کے دستخط لیےگئے۔ جس میں اہلحدیث کو کافر تک قرار دیا گیا اور عوام سے اپیل کی گئی کہ ان کے خلاف ہاتھ اور زبان سے مقابلہ کیا جائے۔ یہ اہلسنت سے خارج اور مثل دیگر فرق ضالہ رافضی، خارجی وغیرھما کے ہیں بلکہ پاکستان بننے کے بعد 1958ع میں بھی یہ رسالہ مکتبہ نبویہ، لاہور سے شائع ہوا۔ اور اب بھی بعض نوآموز دیوبندی مقلدین اپنے اکابر کے اس "کارنامے" پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب بتلائیے ان رسائل کے نتیجے میں جو طوفان بدتمیزی اٹھا اس کا سدباب اگر اہلحدیث نے علیحدہ مسجدیں بناکر کرلیا تو آپ کو یہ بھی ناگوار کیوں ہے؟
اہلحدیث علماء تو ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ مسجدوں کی تفریق نہ ہو۔ جس کا زندہ ثبوت آج بھی "فتاوی علمائے اہلحدیث" میں دیکھا جاسکتا ہے۔ چناچہ آج سےتقریباً ساٹھ سال قبل ایک صاحب نےسوال کیا جس کا جواب از مولانا احمد اللہ صاحب اوپر بیان ہوچکا ہے۔ (فتاوی علمائے اہلحدیث ج 2ص 220-221)

اس لیے اہلحدیث حضرات نےاگرعلیحدہ مسجدیں بنائیں تو ان فتنوں کے نتیجے میں، فتنہ وفساد سے بچنے اور مسلمانوں کو خونریزی سےبچانے کےلیے، کتنے افسوس کی بات ہے کہ فتنہ وفساد بھی آپ کھڑا کریں اور الٹا علیحدہ مسجدیں بنانےکا الزام بھی عائدکریں۔اگر علیحدہ مسجد بن جانے سےتفریق بین المسلمین کا اتنا ہی غم جناب ڈاکٹر صاحب کو کھائے جارہا ہے تو وہ ذرا بتلائیں کہ برصغیرمیں خود حنفی مقلدین کی مسجدیں جدا جدا کیوں ہیں؟

آج سے چند سال قبل دیوبندی حضرات میں مسئلہ حیاۃ النبی ﷺ کے سلسلے میں حیاتی، مماتی تفریق اوراسی بنیاد پر علیحدہ مسجدوں کا غم آخر ڈاکٹر صاحب کو کیوں نہیں؟
﴿شیخ کا کلام ختم ہوا﴾

اس کے علاوہ علماء عرب کا بھی اس موضوع پر کافی کلام موجود ہے اورآئمہ محدثین نے بھی اس موضوع کو بیان کیا ہے کیا انکے زمانے میں بدعتی موجود نہ تھے؟ بالکل موجود تھے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ابوبکر صاحب نے جن فتاوی جات کو یہاں نقل کیا ہے،ان کو دیکھ کر واقعی آج مجھے قلبی دُکھ ہوا ہے۔

ان فتووں پر میں تفصیلی گفتگو لکھوں گا جن کا جواب ابوبکر صاحب دیں گے جنہوں نے یہاں اپنے موقف کے حق میں انہیں نقل کیا ہے۔ان فتووں کی نظر سے تو ابوبکر صاحب کا اپنا موقف بھی نہیں ملتا۔تفصیل بعد میں ان شاءاللہ
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
یہی تو غلطی ہے اور یہی سوچ تکفیری زہنیت کو فروغ دیتا ہے۔
آپ صرف اتنا سمجھ لیں کہ اگر آپ کسی کے پیچھے نماز پڑھنے سے گریز کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ اسکو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ کیا آپ پر اسامہ بن زید ﴿رضی اللہ عنہ﴾ والی حدیث پیش نہیں کی جاسکتی جنہوں نے اپنے ظن کی بنیاد پر ایک شخص کو کافر سمجھا؟
جب تک اسکا عقیدہ واضح نہ ہو جائے آپ اور ہم کون ہوتے ہیں کے اُس کے اسلام کو ناقص ثابت کریں؟
بالکل درست کہا !! اللہ آپ کی بات کو کھلے دل و دماغ سے سمجھنے کی توفیق سبھی کو عطا فرمائے ، آمین !

ویسے ۔۔۔ :) ، میں ان صاحبان علم کی دور اندیشی اور حقیقت فہمی کو سلام کرتا ہوں (جن پر ہمارے بعض بھائی "مقلدین" کا لیبل چسپاں کرتے ہیں) کہ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔
"توحید کو جاننے کا غرور و تکبر اور علمی تفوق کچھ افراد کو اس موڑ پر لے جاتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی فہم کو معتبر و معروف علمائے دین کے فہم سے برتر سمجھتے ہیں اور ان کے فتاویٰ کو جاہلانہ فتویٰ قرار دینے اور مفتیان کرام کے لیے ہدایت کی دعا کرنے سے نہیں ہچکچاتے"

بالکل درست کہتے ہیں !!
شاید ایک حدیث کا یہ ٹکڑا دور حاضر کے ایسے ہی جذباتیت پسند غیرت مندوں کے لیے بیان ہوا ہو : فيبقى ناس جهال يستفتون فيفتون برأيهم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے "راہ اعتدال" پر چلنے کا جو حکم اور جو ترغیب ملتی ہے ، اس کی ضرورت یہیں محسوس ہوئی جاتی ہے۔ ایک طرف وہ گروہ ہے جو تقلید کی راہ پر اس قدر شدت پسند ہے کہ اس نے اپنے ائمہ کو معصوم اور ان کے دفاع کو فرض عین سمجھ رکھا ہے اور دوسری جانب اس کا مخالف گروہ وہ جس نے معتبر علماء و ائمہ کے فہم اور غیرت کو اس قدر نیچے گرا دیا ہے کہ اس کے نزدیک سوائے خود اس کے کوئی دوسرا دین کو بہتر نہیں سمجھ سکتا۔
اللہ ہم سب کو اپنی پناہ میں صراط مستقیم اور راہ اعتدال پر گامزن رکھے ، آمین۔
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
74
پوائنٹ
20
ان فتووں پر میں تفصیلی گفتگو لکھوں گا جن کا جواب ابوبکر صاحب دیں گے جنہوں نے یہاں اپنے موقف کے حق میں انہیں نقل کیا ہے۔ان فتووں کی نظر سے تو ابوبکر صاحب کا اپنا موقف بھی نہیں ملتا۔تفصیل بعد میں ان شاءاللہ
جی ہاں۔ شوق سے ان پر نفیس رد پیش کیجئے گا۔ کیونکہ اھل الحدیث ہی اصل اھل السنة ہیں اور اھل السنة کا منہج مشہور ہے کہ عقل سے پہلے نقل۔ اس اصول کو یاد رکھتے ہوئے رد کیجئے گا۔

مگر اس طرح اس کو جہالت کہنا صحیح نہیں۔ اسطرح آپ رجوع کرنے کا راستہ بند کردیتے ہیں۔ پہلے کسی مسئلہ پر مکمل تحقیق کیجئے اور پھر اس پر کوئی حکم لگایئے میں آپ کی اطلاع کے لئے عرض کر دوں کہ میں پچھلے چار سال تک اسی موقف کا قائل رہا ہوں کہ اھل البدعة میں فرقہ دیوبندیہ کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ مگر اھل الحدیث کے روشن منہج کی وجہ سے الحمدللہ حق کو اپنایا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہی موقف حق ہے کہ جس کا اسلام ظاہری عمل سے ثابت ہے اسکے پیچھے نماز جائز ہے۔ یہی ایک معتدل موقف ہے۔

ہم نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے اور اُس قاعدہ کو ہی سب پر منطبق کیا ہے۔ ہمیشہ جوش سے ہی کام نہیں لینا چاہیے یہ بات اچھی ہے کہ اھل بدعت کے لئے سختی اپنائی جائے مگر حد سے آگے نہ جایا جائے۔ اھل البدعہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انکو حق پر سمجھتے ہیں۔ بلکہ اھل البدعة کے پیچھے نماز پڑھ لینا اھل السنة کے عقیدہ میں سے ہے۔
مثلاً
نری الصلاۃ خلف کل اھل القبلۃ برا کان او فاجرا(تمام اہل قبلہ کے پیچھے ہم نماز پڑھنا جا‏ئز سمجھتے ہیں خواہ نیک ہو یا بد)۔
کل من صحت صلاتہ صحت الصلاۃ خلفہ (جس کی اپنی نماز صحیح ہے اس کے پیچھے نماز صحیح ہے)۔


اللہ تعالیٰ ہم کو حق بات سمجھنے کی توفیق دے۔ اور توفیق تو اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

ابوبکر سلفی بھائی آپ نے بلاوجہ اتنی توانائی خرچ کرکے اتنا ڈھیر سارا لکھ دیا۔ ورنہ بنیادی طور پرتو آپ کے اور ہمارے درمیان کوئی اختلاف ہی نہیں بلکہ خود آپ کے مضمون میں جو لائن بطور خلاصہ درج ہے میں نے نہ صرف اسے نقل کیا ہے بلکہ اس سے اتفاق بھی کیا ہے۔ دیکھئے:
ابوبکر سلفی بھائی آپ کے پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک ایسے بدعتی کے پیچھے مجبوری میں نماز جائز ہے جس کی بدعت ہلکی ہو یعنی بدعت صغرہ ہو۔جیسا کہ آپ کے مضمون میں درج ہے:
٭جس کی بدعت مکفرہ ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں اور جس کی غیر مکفرہ ہو تو جائز ہے ۔
میں بھی اس کا قائل ہوں جس کا اظہار سابقہ پوسٹس میں کرچکا ہوں۔ میرے نزدیک بھی ایسے بدعتی کے پیچھے نماز ناجائز ہے جس کی بدعت مکفرہ ہو اور اس کے عقائد میں کفر اور شرک پایا جاتا ہو۔
بہتر یہ تھا کہ آپ اس چیز پر بات کرتے جو ہمارے درمیان باعث نزاع ہے۔ یعنی دیوبندیوں کا حکم۔ آپ نے دیوبندیوں کے بارے میں جس رائے کا اظہار فرمایا ہے وہ اتنی مبہم اور متضاد ہے کہ میں آپ کا موقف سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں۔ میں آپ کو جواب دے رہا ہوں شاید آپ کی جانب اس پوسٹ کے جواب الجواب کے بعد ہم صحیح طورپر آپ کا موقف جان لیں؟

یہ بات سمجھ لیں کہ میں دیوبندیوں کو مطلق طور پر کافر نہیں کہتا۔ کیونکہ ان میں صرف نام کے دیوبندی بھی ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک دیوبندی کس کو کہتے ہیں؟ میں اس پوسٹ میں اس بارے اپنا تفصیلی موقف پیش کرچکا ہوں۔دیکھ لیں:
محترم بھائ شاہد نذیر صاحب -السلام علیکم ورحمۃ اللہ -مداخلت کے لئے معافی چاہتا ہوں لیکن عام دیوبندیوں کا عقیدہ المھند والا نہیں ہوتا ہے-اکثر عام دیوبندی بلکہ دیوبندی مولوی بھی نہ اس عقیدہ کے قائل ہوتے ہیں نہ اس عقیدہ کو جانتے ہیں- جہالت اور تعصب کی بنیاد پر اورغلط حسن ظن کی بنیاد پر اپنے گمراہ اماموں کی اتباع کرتے ہیں -ایسے میں انہیں گمراہ اور بدعتی قرار دینا سمجھ میں آتا ہے لیکن کافر کہنا زیادتی ہے-المھند کے عقیدہ والے ہزار میں ١ بھی نہ ہوگا- یہ بات اتنی بصیرت سے کہنے کی وجہ یہ ہے کہ میں خود سابق دیوبندی ہوں- اور دیوبندیوں کے علاقہ میں رہتا ہوں- میرے بھائ تکفیر م یں احتیاط کریں- یہ سطورمحض خیر خواہی کے جذبے سے لکھ رہا ہون -واسلام
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین

مجھے علم تھا کہ یہ مسئلہ ضرور اٹھایا جائےگا اسی لئے میں پہلے ہی اس بات کا تفصیلی جواب دے دیا ہے۔شاید آپ نے میری پوسٹ بغور نہیں پڑھی۔واللہ اعلم
اس بات کو یوں سمجھیں کہ اسلام کے کچھ مسلمہ عقائد ہیں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ماننا ان پر ایمان لانا اور حشر نشر پر ایمان لانا وغیرہ اگر کوئی شخص جو خود کو مسلمان کہتا ہے اسلام کے مسلمہ عقائد میں سے کسی ایک بھی مسلمہ عقیدہ سے انحراف کرلے تو کیا وہ خود کو مسلمان کہلاوانے میں حق بجانب ہے؟ اور اگر وہ لاکھ خود کو مسلمان کہتا رہے تو کیا صرف زبانی دعوے سے وہ مسلمان ثابت ہوجائے گا؟ حاشا وکلا

پس اسی طرح ہر فرقے کے کچھ مسلمہ عقائد ہوتے ہیں اگر کوئی شخص ان سے واقفیت نہیں رکھتا یا ان میں سے کسی عقیدے کو تسلیم نہیں کرتا تو وہ ہرگز اس فرقے سے تعلق رکھنے والا نہیں کہلائے گا جب تک وہ اس فرقے کے تمام مسلمہ عقائد کا اقرار نہیں کرتا۔ اگر کوئی دیوبندی المہند علی المفند کے کسی عقیدہ کا انکاری ہے تو وہ خود کو دیوبندی کہلانے کا حق نہیں رکھتا اور نہ ہی اسے دیوبندی کہا جاسکتا ہے۔ خود علمائے دیوبند کی میں پچھلی پوسٹ میں ایسی عبارات پیش کرچکا ہوں جس میں وہ کسی ایسے شخص کو دیوبندی تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں جو المہند کے کسی عقیدے سے اختلاف رکھتا ہو۔ اس لئے جن اشخاص کی آپ بات کررہے ہیں اگر وہ المہند کے تمام شرکیہ و کفریہ عقیدوں سے بے زاری کا اظہار کرتے ہوں تو وہ دیوبندی نہیں اور نہ ہی ان کے دعوے دیوبندیت کا کوئی اعتبار ہے۔ لہذٰا ایسے اشخاص اس بحث سے خارج ہیں۔ ہم صرف ان دیوبندیوں کی بات کررہے ہیں جو اپنے عقائد سے واقف اور انہیں تسلیم کرنے والے ہیں۔

ہم نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ وہ بریلوی ودیوبندی حضرات جو اپنے مسلکی عقائد سے واقف نہیں ہوتے جب انکے سامنے ان عقائد کو رکھا جاتا ہے تو اول تو وہ ان عقائد سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب اپنے مولوی کی طرف رجوع کرتے ہیں تو پھر ان عقائد کو نہ صرف تسلیم کر لیتے ہیں بلکہ انکا دفاع بھی کرتے ہیں لہذا عام لوگوں کا اپنے عقائد کو نہ جاننا کوئی معقول عذر نہیں۔ پھر ہم عام عوام کی تو بات ہی نہیں کررہے کیونکہ احناف کے ہاں عامی لامذہب ہوتا ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے: لامذہب کون؟جن کا کوئی مذہب ہی نہیں جو نہ حنفی ہیں نہ دیوبندی ہیں اور نہ ہی کچھ اور تو ایسے لوگوں کے متعلق بات کرنا وقت کا ضیاع ہے۔

یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ دیوبندی اور بریلوی مساجد میں امامت کے فرائض سر انجام دینے والے عامی نہیں بلکہ مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں جو اپنے عقائد کو نہ صرف جانتے ہیں بلکہ مانتے بھی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ماضی قریب میں بعض دیوبندی علماء بھی المہند میں درج عقائد سے ناواقف تھے۔ اسکا احساس دیوبندی فرقے کو بھی بخوبی تھا۔لہذا انھوں نے تحریک چلا کر اپنے علماء کو المہند کے عقائد سے اچھی طرح واقف کرا دیا ہے۔ عبدالشکور ترمذی دیوبندی نے اسی سبب المہند سے ماخوذ عام فہم زبان میں ایک مختصر کتاب بنام ’’عقائد علمائے دیوبند‘‘ ترتیب دی ہے۔تاکہ دیوبندی اپنے مسلمہ عقائد سے واقف ہوجائیں۔پھر اس میں ایک بڑا کردار ان قابل قدر علمائے اہل حدیث کا بھی ہے جنھوں نے مناظرہ،تحریر و تقریر کے ذریعے اپنوں اور غیروں کو دیوبندیوں کے کفریہ اور شرکیہ عقائد سے روشناس کرایا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ بہت کم دیوبندی علماء اب ایسے ہیں جو واقعی المہند کے عقائد سے واقفیت نہیں رکھتے لیکن یہ کوئی عذر نہیں کیونکہ زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ معلوم ہونے پر وہ بھی اپنے مسلمہ عقائد کو تسلیم کرلینگے۔اور جو دیوبندی واقعی کفریہ و شرکیہ عقائد سے براء ت کا اظہار کردیں تو انھیں دیوبندی کہنا انصاف نہیں ۔انکے دعویٰ دیوبندیت سے وہ دیوبندی نہیں ہو جائینگے ایسے لوگ بحث سےخارج ہیں۔

الحمداللہ ہمارا دعویٰ اپنی جگہ مضبوط بنیادوں پر قائم و دائم ہے کہ دیوبندی کے پیچھے نماز نہیں ہوتی کیونکہ انکے عقائد کفریہ اور شرکیہ ہیں انکے پیچھے نماز ادا کرنا یا نماز ادا کرنے کا فتویٰ دینا ایمان اور نمازوں کی تباہی ہے۔
ابوبکر بھائی آپ کے نزدیک دیوبندی امام کے پیچھے نماز جائز ہے۔ لیکن اس میں آپ یہ شرط لگاتے ہیں کہ وہ اپنے عقائد سے واقف نہ ہو۔ اگر کسی کے پیچھے نماز پڑھنے کی یہ کوئی معقول شرط ہے تو بریلویوں اور قادیانیوں اور رافضیوں کےپیچھے بھی اس فارمولے کے تحت نماز پڑھی جاسکتی ہےکیونکہ عام طور پر کسی بھی فرقے کی عوام اور بعض علماء بھی اپنے فرقے کے عقائد سے مکمل طور پر واقف نہیں ہوتے۔

آپ صرف اتنا سمجھ لیں کہ اگر آپ کسی کے پیچھے نماز پڑھنے سے گریز کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ اسکو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ کیا آپ پر اسامہ بن زید ﴿رضی اللہ عنہ﴾ والی حدیث پیش نہیں کی جاسکتی جنہوں نے اپنے ظن کی بنیاد پر ایک شخص کو کافر سمجھا؟
جب تک اسکا عقیدہ واضح نہ ہو جائے آپ اور ہم کون ہوتے ہیں کے اُس کے اسلام کو ناقص ثابت کریں؟
کیا آپ تمام قادیانیوں کے جھٹ سے کافر کہہ دیتے ہیں یا اس وقت تک اس کو مسلمان سمجھتے ہیں جب تک اس کا عقیدہ واضح نہ ہوجائے؟؟؟ یاد رہے کہ جس طرح بریلویوں اور دیوبندیوں کی عوام اپنے مسلمہ عقائد سے ناواقف ہوتی ہے اسی طرح قادیانیوں یا کسی بھی دوسرے گمراہ فرقوں کی عوام بھی اپنے فرقے کے مسلمہ عقائد سے کما حقہ واقف نہیں ہوتی۔ اس لئے جب یہ رعایت آپ دیوبندیوں اور بریلویوں کو دے رہے ہیں تو قادیانی اس رعایت کے حقدار کیوں نہیں؟؟؟ آپ نے کسی کو کافر کہنے سے پہلے اس کے عقیدہ کے واضح ہونے کی جو شرط لگائی ہے اس کی رو سے آپ کو ان قادیانیوں کو مسلمان سمجھنا چاہیے جو اپنے عقائد سے واقف نہیں اس کے علاوہ وہ قادیانی بھی آپ کے نزدیک مسلمان ہونے چاہییں جو اپنے عقائد سے تو واقف ہیں لیکن آپ پر انکے کفریہ عقائد واضح نہیں ہوئے ظاہر ہے آپ صرف اس کا مسلک سن کر تو اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگاؤ گے۔

آپ بھی کراچی میں ہیں اور میں بھی کراچی میں ہم دونوں جانتے ہیں کہ دیوبندی مسجدوں کے امام عالم نہیں ہوتے ۔ وہ تو بس حافظ ہوتے ہیں بلکہ انکو تو یہ دھوکہ دیا جاتا ہے کہ کتاب وسنت کے حاملین میں سے ہو۔ اسی لئے دیوبندیوں کے لئے تھوڑا نرم مزاج رکھا جاتا ہے۔ جبکہ بریلوی حضرات کی مساجد میں داخل ہوتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں کس قدر شرک کی غلاظت موجود ہے تو امام کا کیا عقیدہ ہوگا۔
آپ خود اندازہ کرلیں کہ آپ دیوبندیوں اور بریلویوں میں کس قدر نا انصافی سے کام لے رہے ہیں جب کہ عقیدہ کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ بریلوی امام کا عقیدہ جاننے کے لئے تو صرف مسجد کا معائنہ کافی ہے لیکن دیوبندی امام کا عقیدہ جاننے کے لئے ذاتی تحقیق ضروری ہے۔سبحان اللہ!

پوسٹ کو مزید طویل کیا جاسکتا ہے لیکن غیر ضروری ہے۔ میں آخری بات کہہ کر تحریر ختم کررہا ہوں۔
آپ لوگ دیوبندی کے پیچھے نماز کو جائز کہہ دیتے ہیں۔ جب کہ مطلق طور پر خود بھی اس کے قائل نہیں بلکہ یہ شرط لگاتے ہیں کہ اگر دیوبندی امام کے عقیدہ کے بارے میں معلوم ہو کہ کفریہ اور شرکیہ ہے تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ جیسے تقی عثمانی دیوبندی، الیاس گھمن دیوبندی اور وہ تمام دیوبندی علماء جو اپنے عقائد سے بخوبی واقف ہیں بلکہ اس کا تحریر اور تقریر کے ذریعے اس کا دفاع کرتے ہیں۔

آپ لوگوں کا صحیح موقف یہ ہے اور اسے ایسے ہی پیش کرنا چاہیے۔لیکن جس طرح آپ لوگ اپنے موقف کو پیش کرتے ہو اس سے لوگ ہر دیوبندی کے پیچھے نماز جائز سمجھتے ہیں جو کہ آپ کے نزدیک بھی غلط ہے۔

١۔ صرف ایسے دیوبندی کے پیچھے نماز جائز ہے جس کے عقائد میں کفر اور شرک نہ پایا جاتا ہو۔
٢۔ بڑے دیوبندی علماء کے پیچھے نماز نا جائز ہے کیونکہ یہ علماء نہ صرف کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھتے ہیں بلکہ ان کا دفاع بھی کرتے ہیں۔

ہمارے نزدیک کسی بھی دیوبندی کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ اگر وہ اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد نہ بھی جانتا ہو تو کم ازکم اتنا ضرور جانتا ہے کہ وہ مقلد ہے اور مقلد پر تقلید واجب ہے۔ تقلید کو واجب سمجھنا اور کہنا شریعت سازی ہے۔ دین میں شریعت سازی کفر ہے۔ اس کے علاوہ خلاف سنت نماز پڑھانا بذات خود بہت بڑا جرم ہے۔ دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنا بدعتی کی تعظیم کرنا بھی ہے جو کہ منع ہے اس سے عام لوگوں کے گمراہ ہونے کا بھی قوی خدشہ ہے کیونکہ وہ صرف نماز کے جواز کی وجہ سے انکے تمام عقائد اور معاملات کو درست سمجھنے لگتے ہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
آپ کے نزدیک جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ دیوبندی امام کے عقائد کفریہ اور شرکیہ ہیں اس وقت تک بغیر تحقیق اس کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔آپ نے لکھا ہے؛
تو یہ فیصلہ آپ خود کر لیجئے اگر آپ کو کسی امام کا عقیدہ معلوم ہے کہ اس کا عقیدہ حلول یا کوئی شرکیہ عقیدہ ہے تو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں اور کوشش کریں کہ اس کو نصیحت کریں۔
اگر آپ کو نہیں معلوم اور آپ نے معلوم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی تو اس کے پیچھے نماز پڑھتے رہیں۔
جبکہ اس کے برعکس آپ کے مضمون میں بطور خلاصہ لکھا ہوا ہے:
حاصل کلام یہ ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھی جائے گی۔ الا یہ کہ بدعتی بدعت مکفرہ والا ہو تو اس کی اپنی نماز صحیح نہیں۔ اور اگر ہمیں فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو ہم اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے۔لیکن دوسری صورت میں کہ اگر امام بدعت غیر مکفرہ والا بدعتی ہو اور ہم اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں تو نماز صحیح ہے(اسے لوٹایا نہیں جائے گا) جبکہ مکفرہ والے کے پیچھےنماز درست نہیں(اور اسے لوٹانا پڑے گا)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بدعتی کے پیچھے بغیر تحقیق نماز نہیں پڑھنی چاہیے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ بدعت مکفرہ کا مرتکب ہو اور اس کے پیچھے آپ کی نماز ہی نہ ہو اور نماز لوٹانی پڑے۔

اگر کوئی شخص تقی عثمانی یا الیاس گھمن کے پیچھے لاعلمی کی بنا پر نماز پڑھ لے تو کیا اس کو نماز دہرانی پڑے گی یا اس کی نماز ہوجائے گی؟؟؟ یاد رہے کہ تقی عثمانی اور الیاس گھمن کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھتے ہیں۔

اسی طرح اگر کوئی قادیانی کے پیچھے لاعلمی میں نماز پڑھتا رہے تو کیا اس کو نمازیں دھرانی ہونگی یا نماز ہوجائے گی؟ اور اگر وہ قادیانی اپنے کفریہ عقائد سے پوری طرح واقف نہ ہو یا اگر واقف ہو تو تاؤیل کرتا ہو تو ایسی صورت میں اس کے پیچھے نماز ہوجائے گی؟؟؟
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
کیا آپ تمام قادیانیوں کے جھٹ سے کافر کہہ دیتے ہیں یا اس وقت تک اس کو مسلمان سمجھتے ہیں جب تک اس کا عقیدہ واضح نہ ہوجائے؟؟؟
واللہ بھائی ! کم از کم آپ سے تو ایسی امید نہیں تھی۔ کیا قادیانیوں کے کفر پر امت کے علماء و ائمہ کا اجماع نہیں ہے؟
جبکہ آپ اگر ایسا لکھتے ہیں :
یاد رہے کہ تقی عثمانی اور الیاس گھمن کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھتے ہیں۔
تو یہ ایک معنوں میں "تکفیر" کا ہی الزام ہے۔ ایسا الزام یعنی اسی طرح باقاعدہ نام لے کر سلفی علماء نے لگایا ہے تو پورا ثبوت دیجیے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ہمیں آپ کی ذاتی سوچوں سے بھلا کیا غرض ہو سکتی ہے؟
آپ لوگ دیوبندی کے پیچھے نماز کو جائز کہہ دیتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ایسا لکھنے سے قبل آپ نے شاید اس جملے پر غور نہیں کیا ہوگا :
حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ (فیصل آباد) :::: دیوبندی بریلوی احناف اہل سنت والجماعت میں سے ہیں ان کے پیچھے نماز جائز ہےالبتہ دیوبندی توحید وغیرہ کے تعلق سے اہل حدیث سے قریب تر ہیں ان کے پیچھے تو بالاولی نماز جائز ہے۔ جو باتیں ان کی قرآن وحدیث کے خلاف ہیں وہ گمراہیاں ہیں لیکن یہ کافر ومشرک نہیں ہیں۔ یہی جمہور اہلحدیث علماء کرام کا مؤقف ہے جیسے حافظ محمد گوندلوی ، عبداللہ روپڑی وغیرہ۔ اوراب بھی میرا مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ وغیرہ کا یہی مؤقف ہے۔ بعض علماء جیسے علامہ بدیع الدین شاہ راشدی، عبداللہ بہاولپوری ؒ اور حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ وغیرہ کا مؤقف اس کے برخلاف ہے کہ دیوبندیوں کی بدعت بہت بڑی ہے کہ جو ان کے پیچھے نماز پڑھنے سےمانع ہے۔ لیکن راجح مؤقف وہی جمہور کا ہے۔بلکہ ہمارے ساتھی علماء کرام جب دیوبندیوں کے ساتھ مشترکہ کسی پروگرام میں شریک ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے پیچھے پڑھ لیاکرتے ہیں۔
میری ذاتی گذارش ہے کہ آپ اتنے نامور اور معتبر سلفی علماء کے فتویٰ سامنے آنے کے بعد اپنی ضد اور بحث کو ختم کر دیں۔ یہ ہم سب کے حق میں بہتر ہوگا!!
آپ اور آپ کے ہمخیال بھائی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ ۔۔۔
اس معاملے (بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کی امامت) میں ہم علامہ بدیع الدین شاہ راشدی، عبداللہ بہاولپوری ؒ اور حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ وغیرہم کے موقف کے قائل ہیں !!

جب خود نامور سلفی علماء بھی اس معاملے میں ایک دوسرے کا رد کئے بغیر فریقین کے نقطہ نظر کو صاف صاف بتا رہے ہیں تو ہم اور آپ جیسے عامیوں کو بھلا ضد پر اڑے رہنے کی ضرورت ہی کیا ہے آخر؟ امید ہے کہ آپ ٹھنڈے دل سے میری بات پر غور کریں گے۔
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
74
پوائنٹ
20
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
کیا حال ہیں محترم ؟





یہ بات سمجھ لیں کہ میں دیوبندیوں کو مطلق طور پر کافر نہیں کہتا۔
دیوبندیوں کو مطلق طور پر کوئی بھی کافر نہیں کہتا بلکہ بریلوی حضرات کو بھی کوئی مطلق طور پر کافر نہیں کہتا۔
جبکہ رافضہ کو علماء سلف نے کافر قرار دیا ہے۔
اور کچھ نے شیعہ اور رافضہ کی تفریق کر کے نرمی برتی ہے۔


کیونکہ ان میں صرف نام کے دیوبندی بھی ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک دیوبندی کس کو کہتے ہیں؟ میں اس پوسٹ میں اس بارے اپنا تفصیلی موقف پیش کرچکا ہوں
بھائی یہ علم الکلام والے انداز ہم کو سمجھ نہیں آتے۔
ہم تو سیدھی سادھی اور اصولی بات کہتے اور سمجھتے ہیں کہ جس کی بدعت ہمارے سامنے ظاہر ہو اور وہ بدعت کفر نہ ہو تو اسکا اسلام ثابت ہے اور جس کا اسلام ثابت ہے اُس کے پیچھے نماز بھی جائز ہے۔ اتنے سہل انداز میں جب میں نے اپنی بات بیان کی تو اسکو مبہم ثابت کرنا میرے نزدیک ناانصافی ہے۔
جو بھی شخص اپنی نسبت اسلام کی طرف کرے اور ظاہری اعمال سے اس میں کفر ثابت نہ ہو تو وہ مسلمان ہے۔ ہمیں کسی کے اسلام کے بارے میں شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اس کی دلیل تو یہ آیت بھی بن سکتی ہے۔
یاایھاالذین آمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن ان بعض الظن اثم

آج تو سلفی﴿قطبی﴾ میں بھی ایک گروہ موجود ہے جو کہتا ہے کہ زرداری کو کافر سمجھتے ہو تو مسلمان ہو ورنہ جو کافر کو کافر نہ جانے وہ بھی کافر ہے۔

ابوبکر بھائی آپ کے نزدیک دیوبندی امام کے پیچھے نماز جائز ہے۔
صرف دیوبندی نہیں مسلمان کے پیچھے جس کا مسلمان ہونا ثابت ہے۔
ایک مثال دیتا ہوں۔
آپ کسی کے گھر دعوت میں گئے اور وہاں مسجد بہت دور ہے۔ تو جس کے گھر آپ دعوت میں گئے تھے انہوں نے ہی جماعت کرا لی اور آپ نے انکے پیچھے نماز پڑھ لی کیونکہ بظاہر آپ کو نہیں معلوم کہ انکا کیا عقیدہ ہے۔ مگر جب نماز پڑھ چُکے تو معلوم ہوا کہ یہ تو صوفی ہے۔ غیر اللہ سے مدد کا قائل ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ تو اُس کے بعد آپ کے لئے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ مگر جب تک اسکا اسلام ثابت ہےوہ مسلمان ہے۔
اسی طرح بریلویوں کی مسجد میں تو داخل ہوتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ عبادت گاہ مشرکوں کی ہے تو پھر ہمیں اس مسجد میں نماز پڑھنے سے رکنا پڑتا ہے۔ مگر دیوبندی و مودودیوں کی مساجد میں ایسے کچھ بھی شواہد موجود نہیں ہوتے بلکہ اکثر دیوبندیوں کی مسجد میں سورہ جن کی آیت لکھی ہوتی ہے کہ
وان المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احدا، تو ہمیں یقین ہو جاتا ہے کم از کم غیر اللہ سے مدد وغیرہ مانگنے کا عقیدہ تو انکا نہ ہوگا۔ البتا توسل کا عقیدہ شرک نہیں بدعت ضرور ہے۔ جو کہ غیر مکفرہ ہے۔ اگر توسل میں وہ اللہ ہی کو پکارتا ہے مگر کسی کو بیچ میں وسیلہ بناتا ہے تو شرک نہیں لیکن وہ وسیلے میں من دون اللہ پکارتا ہے تو یہ شرک ہے ۔ میرے علم کے مطابق دیوبندی ایسے ویسے کے قائل نہیں۔
جب بظاہر ایسا شخص مسلمان ہی معلوم ہو رہا ہے تو پھر ہم اُس کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں اور اُس کے اسلام میں شک نہیں کرتے۔

لیکن اس میں آپ یہ شرط لگاتے ہیں کہ وہ اپنے عقائد سے واقف نہ ہو۔
اگر کسی کے پیچھے نماز پڑھنے کی یہ کوئی معقول شرط ہے تو بریلویوں اور قادیانیوں اور رافضیوں کےپیچھے بھی اس فارمولے کے تحت نماز پڑھی جاسکتی ہےکیونکہ عام طور پر کسی بھی فرقے کی عوام اور بعض علماء بھی اپنے فرقے کے عقائد سے مکمل طور پر واقف نہیں ہوتے۔
یہ بات عام ہے کہ کوئی یہودی، نصرانی یا ہندو نماز نہیں پڑھتا۔ نماز مسلمان ہی پڑتا ہے اور اس کی پہچان میں سے ہے۔ اب جو شخص امام بنا ہمیں بظاہر اس میں کوئی کفر و شرک نظر نہیں آتا تو ہم اس کے پیچھے نماز پڑھ لینگے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو قادیانی یا پھر رافضی۔
آپ کے اس اعتراض پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے مجموع الفتاوی جلد 3 کے ایک مقام پر فرماتے ہیں:
(اہل سنت والجماعت کے اصولوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بہرصورت جمعہ اور باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں کسی طور پر بھی جمعہ وجماعت کو ترک نہیں کرتے جیسا کہ اہل بدعت رافضہ وغیرہ کرتے ہیں۔ اگر امام مستور الحال ہو یعنی اس کا حال ظاہر نہ ہو وہ اپنی بدعت یا فسق کا مظاہرہ نہ کرتا ہوتو اس کے پیچھے جمعہ اور جماعت پڑھی جائے گی اس پر آئمہ اربعہ اور ان کے علاوہ تمام آئمہ مسلمین کا اتفاق ہے۔ آئمہ کرام میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ جب تک امام کے باطن یعنی عقیدے کا علم نہ ہو تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ بلکہ نبی کریمﷺ کے بعد سے تمام مسلمان ایسے مسلمان امام کہ جس کا حال معلوم نہ ہو کے پیچھے نماز پڑھتے چلے آئے ہیں۔ لیکن اگر امام اپنی بدعت یا فسق کو ظاہر کرتا ہو اور مقتدی کے لیے کسی اور کے پیچھے نماز پڑھنا ممکن بھی ہو مگر پھر وہ اسے فاسق یا بدعتی جانتے ہوئے بھی اس کے پیچھے نماز پڑھے تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس کی نماز صحیح ہے اور یہی امام شافعی، ابوحنیفہ اور امام مالک واحمد کے مذہب کے ایک قول کے مطابق ہے۔لیکن اگر کسی نماز کو سوائے بدعتی یا فاسق کے پیچھے پڑھنا ممکن ہی نہ ہو جیسے جمعہ کی نماز کہ جس کا امام بدعتی یا فاسق ہو اور اس کے علاوہ کہیں اور جمعہ نہ ہوتا ہو تو اسے اسی کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے۔ یہی اہل سنت والجماعت کا عام مذہب اور امام شافعی، ابوحنیفہ واحمد بن حنبل s جیسے آئمہ سنت کا مذہب ہے کہ جس میں کوئی اختلاف نہیں۔﴾


کیا آپ تمام قادیانیوں کے جھٹ سے کافر کہہ دیتے ہیں یا اس وقت تک اس کو مسلمان سمجھتے ہیں جب تک اس کا عقیدہ واضح نہ ہوجائے؟؟؟
ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ وہ قادیانی ہے جب تک وہ خود نہ کہے؟
یہی تو بات ہے اگر کوئی اپنا عقیدہ بتا دے کہ میرا ایسا عقیدہ ہے اور وہ عقیدہ کفر ہو تو اُس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔


یاد رہے کہ جس طرح بریلویوں اور دیوبندیوں کی عوام اپنے مسلمہ عقائد سے ناواقف ہوتی ہے اسی طرح قادیانیوں یا کسی بھی دوسرے گمراہ فرقوں کی عوام بھی اپنے فرقے کے مسلمہ عقائد سے کما حقہ واقف نہیں ہوتی۔
یہ بات صحیح نہیں۔ اگر کوئی قادیانی ہے تو اُس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کیوں قادیانی ہے کیونکہ وہ مرزا ملعون کو ظلی نبی مانتا ہے۔اور جبکہ قادیانیوں کے کافر ہونے پر تمام امت مسلمہ متفق ہے تو کیا احمد رضا خان بریلوی اور اشرف علی تھانوی پر کسی اھل حدیث نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے؟

اس لئے جب یہ رعایت آپ دیوبندیوں اور بریلویوں کو دے رہے ہیں تو قادیانی اس رعایت کے حقدار کیوں نہیں؟؟؟
یہ سوال ہی غلط ہے۔


آپ نے کسی کو کافر کہنے سے پہلے اس کے عقیدہ کے واضح ہونے کی جو شرط لگائی ہے اس کی رو سے آپ کو ان قادیانیوں کو مسلمان سمجھنا چاہیے جو اپنے عقائد سے واقف نہیں اس کے علاوہ وہ قادیانی بھی آپ کے نزدیک مسلمان ہونے چاہییں جو اپنے عقائد سے تو واقف ہیں لیکن آپ پر انکے کفریہ عقائد واضح نہیں ہوئے ظاہر ہے آپ صرف اس کا مسلک سن کر تو اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگاؤ گے۔
میرے بھائی مسلک سن کر بھی کفر کا فتویٰ لگے گا۔ کیوئنکہ قادینی مسلک پر مطلق کفر کا فتویٰ موجود ہے۔
یعنی قادیانیت اسلام سے ہٹ کر کوئی گروہ ہے۔
جبکہ دیوبندی بریلوی ۷۲ گمراہ گروہ میں سے ہے۔ یہ بات آپ علماء سے پوچھ سکتے ہیں کہ یہ ۷۲ گروہ مسلمان ہیں۔ کافر نہیں ہیں۔

آپ لوگ دیوبندی کے پیچھے نماز کو جائز کہہ دیتے ہیں۔ جب کہ مطلق طور پر خود بھی اس کے قائل نہیں بلکہ یہ شرط لگاتے ہیں کہ اگر دیوبندی امام کے عقیدہ کے بارے میں معلوم ہو کہ کفریہ اور شرکیہ ہے تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
جی ہاں ۔ یعنی اگر عقیدہ معلوم ہو کہ کفریہ اور شرکیہ ہے تو نماز جائز نہیں۔
ہم نے یہ تو نہیں کہا کہ دیوبندی خواہ کافر ہی کیوں نہ ہو مگر دیوبندی ہو تو نماز جائز ہے۔
جناب ہم بار بار اسی لئے کہہ رہے تھے کہ جس کااسلام ثابت ہے اس کے پیچھے نماز پڑھی جائیگی اور شک نہیں کیا جائیگا۔

جیسے تقی عثمانی دیوبندی، الیاس گھمن دیوبندی اور وہ تمام دیوبندی علماء جو اپنے عقائد سے بخوبی واقف ہیں بلکہ اس کا تحریر اور تقریر کے ذریعے اس کا دفاع کرتے ہیں۔
یہ سب فالتو باتیں ہیں۔ اصول پر بات کریں۔

آپ لوگوں کا صحیح موقف یہ ہے اور اسے ایسے ہی پیش کرنا چاہیے۔لیکن جس طرح آپ لوگ اپنے موقف کو پیش کرتے ہو اس سے لوگ ہر دیوبندی کے پیچھے نماز جائز سمجھتے ہیں جو کہ آپ کے نزدیک بھی غلط ہے۔
یہاں بھی آپ نے لوگوں کو شبہات میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے نہین کہا کہ ہر دیوبندی کے پیچھے نماز جائز ہے۔ ہم تویہ بھی نہیں کہتے کہ ہر سلفی کے پیچھے نماز جائز ہے۔ بلکہ جو مسلمان ہو اس کے پیچھے نماز جائز ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ آج کے دور میں سلفیوں کے ہی عقیدے بدعت سے محفوظ ہیں تو ان کے پیچھے نماز پڑھنا افضل ہے۔ مگر مجبوراً بدعتی کے پیچھے بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ جماعت کو چھوڑا نہیں جاسکتا۔

١۔ صرف ایسے دیوبندی کے پیچھے نماز جائز ہے جس کے عقائد میں کفر اور شرک نہ پایا جاتا ہو۔
ہر مسلمان کے پیچھے نماز جائز ہے۔ جس کا کفر و شکر واضح نہ ہو۔

٢
۔ بڑے دیوبندی علماء کے پیچھے نماز نا جائز ہے کیونکہ یہ علماء نہ صرف کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھتے ہیں بلکہ ان کا دفاع بھی کرتے ہیں۔
اگر ان کے عقیدہ کی وضاحت نہ ہو تو جائز ہے۔
یعنی ان پر بھی وہی قانون لاگو ہوگا کہ جب تک ان سے کوئی کفر و شرک ثابت نہیں یہ مسلمان ہیں اور ان کے پیچھے بھی نماز جائز ہے۔

ہمارے نزدیک کسی بھی دیوبندی کے پیچھے نماز جائز نہیں
یہ بات دُرست نہیں۔


کیونکہ اگر وہ اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد نہ بھی جانتا ہو تو کم ازکم اتنا ضرور جانتا ہے کہ وہ مقلد ہے اور مقلد پر تقلید واجب ہے۔
تقلید پر تکفیر جب ہوگی جب وہ اللہ و رسول کی بات جان جائے اسکے بعد بھی کہے کہ مجھ پر میرے امام کی تقلید واجب ہے اور میں یہ بات نہیں مان سکتا۔

تقلید کو واجب سمجھنا اور کہنا شریعت سازی ہے۔
اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ ہر دیوبندی یہ عقیدہ رکھنے کی وجہ سے کافر ہو چکا ہے؟ تو پھر دیوبندیوں پر قادیانیوں کی طرف مطلق فتویٰ لگا کر سائٹ پر کریں۔ یہ ڈرامہ کیوں رچایا ہوا ہے کہ مطلق کافر نہیں۔
یا ہر دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنے سے پہلے پوچھا جائیگا کہ تقلید واجب سمجھتے ہو کہ نہیں؟ پھر اگر یہی پوچھنا ہے تو اس سے زیادہ ضروری چیز تو نواقص اسلام ہیں ایک ایک کر کے تمام نواقص کے بارے میں سوال کیجئے۔


دین میں شریعت سازی کفر ہے۔
بدعتی شریعت ساز ہی ہوتا ہے۔ مگر کیا ہم نے ہر بدعتی کو کافر مانا؟
ہم یہ بات مان چکے ہیں کہ ہر بدعتی کافر نہیں۔ جبکہ یہ بات حق ہے کہ بدعت ایجاد کرنا دین میں شریعت سازی ہے۔

اس کے علاوہ خلاف سنت نماز پڑھانا بذات خود بہت بڑا جرم ہے۔
مگر کفر نہیں۔
ہاں البتا نماز میں ایسے کام کرتا ہے جس سے نماز ناقص ہو جائے تو جائز نہیں۔ جیسے رکوع، رکوع کے بعد قیام اور سجدہ وغیرہ پورا نہیں کرتا تو پھر اس کے پیچھے نماز نہیں۔ کیوئنکہ ایسے شخص کی نماز نہیں ہوتی البتا وہ مسلمان ہی ہوتا ہے۔یہ بات بخاری کی مشہور حدیث سے ثابت ہے۔


دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنا بدعتی کی تعظیم کرنا بھی ہے
اوپر ہی تو آپ نے مانا ہے کہ غیر مکفرہ بدعت کے مرتکب کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔ مگر دیوبندی پر آپ اختلاف کرتے ہیں۔
تو اوپر جو آپ نے فتویٰ دیا ہے کہ غیر مکفرہ بدعت کے مرتکب کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے تو وہاں بدعتی کی تعظیم کرنا کیوں لازم نہیں آتا؟
جناب اگر کتاب وسنت کے لئے فہم سلف بہت ضروری ہے ورنہ آج جتنے گمراہ گروہ موجود ہیں کبھی یہ بھی حق پر ہوا کرتے تھے۔


جو کہ منع ہے اس سے عام لوگوں کے گمراہ ہونے کا بھی قوی خدشہ ہے
ہدایت اللہ ہی دیتا ہے۔ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی ہدایت نہیں پا سکتا اور جب تک اللہ نہ چاہے کوئی گمراہ نہیں ہوسکتا۔ ہم لوگوں کی وجہ سے شریعت کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ شریعت نے نماز کی پابندی کا حکم دیا ہے وہ بھی باجماعت خواہ بدعتی کے پیچھے ہی کیوں نہ پڑھی جائے۔

کیونکہ وہ صرف نماز کے جواز کی وجہ سے انکے تمام عقائد اور معاملات کو درست سمجھنے لگتے ہیں۔
لوگ اگر دین کی تفقہ حاصل نہیں کرتے تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ انہیں تحقیق کرنی چاہیے۔
 
Top