محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹرعلی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے19 رجب 1436 کا خطبہ جمعہ بعنوان "بدعت اور اہل بدعت اسلام کے دشمن" ارشاد فرمایا جس کے اہم نکات یہ تھے:
٭ باشعور لوگوں کیلئے حکم
٭ شریعت کے بغیر فطرت ناقص ہے
٭ نقص فطرت دور کرنے کیلئے پیغمبر آئے
٭ نبی ﷺ نے ہر اعتبار سے امت کی رہنمائی فرمائی
٭ بدعات ہی گمراہی ہیں
٭ نعمتوں کے دوام کا راز
٭ بدعات کی تباہ کاریاں
٭ نبی ﷺ اور آپکے تابعدار بدعتی لوگوں سے بری ہیں
٭ بدعت اور اہل بدعت سے اجتناب
٭ بدعات اسلام کی دشمن
٭ اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ اہل بدعت ملوث ہوتے ہیں
٭ تاریخی حقائق
٭ بدعتی تنظیموں کے لیے آئینہ
٭ مسلمان انکا مقابلہ کرتے رہے گے
٭ بدعت کیا ہے؟
٭ تحفظ اسلام کیلئے بدعات سے اجتناب ضروری
٭ حکومت، علمائے کرام، اور عامۃ الناس کی ذمہ داریاں
٭ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اقدام
٭ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خطاب
٭ قرآن مجید مشعل راہ
٭ حصولِ جنت کا نسخہ
٭ اختلافات کیلئے اکسیر
٭ اختلافات میں کتاب و سنت پر کاربند شخص کی فضیلت
٭ الجھاؤ کیلئے حل۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، وہ بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، وہی صاحبِ علم و حکمت ہے، میں اپنے رب کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں ، اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اسی سے بخشش چاہتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، وہی عظمت و کبریا ئی کا مالک ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور عالی شان رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، انکی اولاد اور راہِ الہی پر گامزن صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی اختیار کرو اور رضائے الہی تلاش کرتے ہوئے اللہ کا قرب حاصل کرو، حرام کردہ امور سے دور رہو تو رضائے الہی سمیت اللہ کی جنت بھی پا لو گے۔
مسلمانو!
تمام باشعور لوگوں کو نفع بخش اور دنیا و آخرت کی خوشحالی کے ضامن امور کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح نقصان دہ اور دنیاوی و اخروی بد بختی کا باعث بننے والے امور سے روکا گیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ}
اور بلاشبہ یہی میری سیدھی راہ ہے لہذا اسی پر چلتے جاؤ اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کر دیں گی اللہ نے تمہیں انہی باتوں کا حکم دیا ہے شاید کہ تم [کجروی سے]بچ جاؤ [الأنعام : 153]
جس فطرت پر اللہ تعالی نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے، اس کی بنا پر نفع بخش اور نقصان دہ اشیاء میں امتیاز تو ممکن ہے لیکن خیر و شر اور حق و باطل کی تفصیلات جاننے کیلئے شریعت کے بغیر اکیلی "فطرت" نا کافی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی نے اپنی رحمت، حکمت اور علم کے مطابق خاتم الانبیاء ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اور حکمت کو نازل فرمایا، اور انہی دونوں نے ہمیں ہر اچھا کام بتایا اور ہر برے عمل سے خبردار کر دیا۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو پروردگار کی طرف سے نازل شدہ شریعت پر عمل کی دعوت دی اور اس طرح ایمان لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا، انہوں نے قرآن و سنت سے تعلیمات حاصل کیں، اور شریعتِ محمدی کے ذریعے ساری زمین کی اصلاح کی ، نیز اللہ تعالی نے اس امت کیلئے دین مکمل فرما کر اسے غلبہ بھی عطا فرمایا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو عقائد، عبادات، منہج، شریعت اور صلاحیت کے اعتبار سے بہترین حالت پر چھوڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(میں نے تمہیں روشن شریعت پر چھوڑا ہے، اس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں، چنانچہ میرے بعد صرف وہی گمراہ ہوگا جو خود ہلاک ہونا چاہے)
اس حدیث کو ابن ماجہ نے عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسے امر سے خبردار فرمایا جو دین سے متصادم اور دینی تباہی کا باعث بنے، چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا کرتے تھے:
(بیشک بہترین بات کتاب اللہ ہے، اور بہترین منہج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج ہے، جبکہ خود ساختہ امور بد ترین امور میں سے ہیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے) مسلم
نعمتوں کی بقا شکر ، اسبابِ زوال سے بچنے اور ناشکری سے اجتناب میں پوشیدہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ}
اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا کہ : اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب بہت سخت ہے ۔[ابراہیم : 7]
جبکہ گمراہ کن بدعات نعمتِ اسلام کی ناشکری، دین کیلئے تباہی، اور پوری امت کیلئے شر انگیزی کا باعث ہوتی ہیں، جن سے دلوں میں دوری اور اتحاد و اتفاق میں دراڑیں پیدا ہوتی ہیں۔
بدعات بدعتی لوگوں سمیت تمام مسلمانوں کی تباہی کا باعث بنتی ہیں، بلکہ بدعات زمین پر فساد، ظلم کے پھیلاؤ، اور معصوم لوگوں پر زیادتی کا ذریعہ بھی بنتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ}
آپ ان سے کہہ دیں کہ: اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تم پر تمہارے اوپر سے کوئی عذاب نازل کرے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے تم پر کوئی عذاب مسلط کردے یا تمہیں فرقے فرقے بنا کر ایک فرقے کو دوسرے سے لڑائی [کا مزا]چکھا دے۔ دیکھئے ہم کس طرح مختلف طریقوں سے آیات بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں [الأنعام : 65]
لوگوں میں تفرقہ اور گروہ بندی صرف گمراہ کن بدعات کی وجہ سے ہی ممکن ہوتی ہے۔
اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے تابعداروں کو بدعتی لوگوں کے افکار سے بالکل بری قرار دیا، چنانچہ فرمایا:
{إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ}
بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں فرقہ بندی کی اور کئی گروہ بن گئے آپ کسی حال میں بھی ان میں سے نہیں ہیں ان کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے [الأنعام : 159]
اسی طرح فرمایا:
{ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (31) مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ }
نمازیں پڑھو اور مشرکین میں سے نہ بنو [31] جن لوگوں نے اپنے دین میں فرقہ بندی کی اور وہ کئی گروہ بن گئے، ہر گروہ اپنے پاس موجود [اثاثے] پر خوش ہے۔[الروم : 31 - 32]
حمزہ اور کسائی نے {إِنَّ الَّذِينَ فَارَقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ }اس قراءت کا ترجمہ یہ ہے[بے شک جو لوگ اپنے دین کو چھوڑ کر مختلف گروہ بن گئے آپ کسی حال میں بھی ان سے نہیں ہیں] پڑھا ہے۔
اللہ تعالی نے امت اسلامیہ کو بدعات اور بدعتی لوگوں کے پیچھے لگنے سے سختی کیساتھ منع فرمایا، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ [105] يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ [106] وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ }
نیز تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور روشن دلائل آ جانے کے بعد آپس میں اختلاف کرنے لگے۔ یہی لوگ ہیں جنہیں بہت بڑا عذاب ہوگا [105] اس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ سیاہ ، چنانچہ جن کے چہرے سیاہ ہونگے [ان سے کہا جائے گا] کیا تم ہی نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا تھا ؟ تواب اپنے کفر کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھو [106] رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو یہ اللہ کے سایہ رحمت میں ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔[آل عمران : 105 - 107]
مفسرین ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں:
جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہونگے یہ بدعتی لوگ ہونگے، جبکہ جن لوگوں کے چہرے روشن ہونگے ان کا تعلق اہل اسلام سے ہوگا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے صحابہ کرام کی اتباع کی ہوگی۔
گمراہ کن بدعات پوری کائنات کیلئے ہلاکت اور دین و دنیا کی تباہی کا سامان ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (11) أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ }
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ کرو، تو وہ کہتے ہیں: "ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں"[11] خبردار! یہی لوگ فسادی ہیں، لیکن انہیں اس بات کا شعور ہی نہیں ہے۔[البقرة : 11 - 12]
اگر بدعتی لوگ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہیں تو گمراہ کن بدعات اسلام کی ایک ایک بنیادی تعلیم کو سخت نقصان پہنچاتی ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ امت اسلامیہ کو کوئی بھی اندرونی تکلیف پہنچی ہے تو اس کا سبب بدعتی اور منافق لوگ ہی ہیں، تاریخ اسلام کی ورق گردانی ، اور ماضی کے بارے میں جستجو رکھنے والا شخص یہ دیکھے گا کہ اسلام کو مصیبتوں میں گمراہ کن بدعتی لوگوں نے ہی ڈالا ہے، چنانچہ سب سے پہلے رونما ہونیوالی بدعت کی وجہ سے خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت اور ان کا خون بہایا گیا، پھر انہی خارجی لوگوں نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زندگی کو کرکرا ، آپکی فوج کو کمزور ، مسلمانوں کے اتحاد کو تار تار اور معصوم لوگوں کا قتل عام کیا ۔
اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا نقصان عباسی خلیفہ مستعصم کے قتل اور سقوطِ بغداد سے ہوا، اس کا سبب بھی گمراہ کن بدعتی لوگ ہی بنے تھے۔
اسلامی علاقوں میں خونریزی کرنے والوں کیساتھ بھی بدعتی لوگ ہی تھے، اور یہی لوگ آجکل مختلف ناموں اور تنظیموں کی شکل میں موجود ہیں تاہم ان سب کا اسلام کے خلاف جنگ لڑنے پر اتفاق ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ سب تنظیمیں مسلم ممالک میں فساد، بے چینی ، اور امن و امان سبوتاژ کرنے کیلئے سرگرداں ہیں، اگر تمام بدعتی جماعتیں اپنی تاریخ کو پڑھ لیں تو آئینہ میں خود ہی سرکش، باغی اور اپنے دین کیخلاف برسر پیکار نظر آئیں، انہیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ بدعتی جماعتوں نے کیا کھویا اور کیا پایا،
فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنَ الْأَنْبَاءِ مَا فِيهِ مُزْدَجَرٌ}
اور یقیناً انہیں پہلے لوگوں کی خبریں مل چکی ہیں، جن میں تنبیہ کیلئے کافی [مواد] ہے۔[القمر : 4]
کیا بدعتی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان انہیں اسی طرح دندناتا چھوڑ دیں گے؟ جیسے چاہے اللہ کے دین میں تبدیلیاں کر دیں؟ حالانکہ اللہ تعالی نے خالص دین کو اپنے بندوں کیلئے پسند کیا ہے اور لوگوں میں بہتری بھی آئی،
{سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ}
انکا فیصلہ بہت برا ہے[الأنعام : 136]
"بدعت" ہر وہ کام ہے جو دین میں بغیر کسی شرعی دلیل کے داخل کر دیا جائے، چنانچہ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی بھی شخص کسی خود ساختہ چیز کو دین کی طرف منسوب کرے، اور دین میں اس کے اثبات کیلئے کوئی دلیل نہ ہو، تو وہ گمراہی ہے، اور دین اس سے بری ہے، چاہے اس کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے یا ظاہری یا باطنی اقوال سے" انتہی
جس اسلام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تھے اس اسلام کا تحفظ کتاب و سنت کے التزام کے بغیر ممکن نہیں ہے، ساتھ میں امت کو بدعات اور بدعتی لوگوں کے شر سے محفوظ رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔
اس امت کو بدعات سے تحفظ دینا حکمران اور سربراہان کے ذمہ واجب ہے، اسی طرح علمائے کرام اور عامۃ الناس پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
اس بارے میں حکمرانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ بدعتی لوگوں کو بزورِ بازو روکیں، اور انہیں سخت سے سخت سزا بھی دیں۔
جبکہ علمائے کرام کی ذمہ داری یہ ہے کہ:
بدعات سے دور رکھنے کیلئے لوگوں کو ان سے خبردار کریں، انکے غلط ہونے پر دلائل دیں، اور پوری امت کو ان دلائل سے بہرہ ور کریں۔
عامۃ الناس کی ذمہ داری یہ ہے کہ : بدعتی لوگوں سے قطع تعلقی رکھیں، اسکی بدعتی گفتگو پر بالکل کان نہ دھریں، اور نہ ہی اس کی کوئی بدعتی بات مانیں۔
عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک آدمی جسے "صَبِیغ" کہا جاتا تھا، وہ عموماً قرآن مجید کے متشابہ مسائل کے متعلق پوچھتا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ایسا کرنے سے منع کر دیا تا کہ کوئی بھی اس کے شبہات سے متاثر نہ ہو، پھر آپ نے اسے کوڑوں کی سزا دی، اور اپنے گورنر کو لکھ بھیجا کہ اس کے ساتھ کسی کو بیٹھنے مت دینا، چنانچہ جب پہلے کوڑوں کے زخم ختم ہوگئے تو پھر دوبارہ اسے کوڑوں کی سزا دی، تو اس نے کہا: "امیر المؤمنین! اب میرے ذہن میں وہ باتیں نہیں آتیں جو پہلے آیا کرتی تھیں"، چنانچہ پھر آپ نے لوگوں کو اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی اجازت دی، یہ عمر رضی اللہ عنہ کا اس کے بارے میں سخت اور ٹھوس موقف [کا فائدہ ہوا] تھا ۔
بدعات کے شر سے تحفظ ؛ کتاب و سنت پر سختی کیساتھ عملدر آمد ، مسلمانوں کی اجتماعیت کیساتھ رہنا اور مسلم حکمران کے خلاف بغاوت نہ کرنے سے ملے گا۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :
عمر رضی اللہ عنہ نے "جابیہ" مقام پر ہم سے خطاب کیا، اور کہا: "لوگو! میں تمہارے سامنے ایسے کھڑا ہو جیسے ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے، پھر آپ نے فرمایا تھا : میں تمہیں اپنے صحابہ کرام کے بارے میں ، پھر انکے بعد آنیوالوں کے بارے میں، پھر آئندہ آنیوالوں کے بارے میں خیر خواہی کی وصیت کرتا ہوں، پھر اس کے بعد جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ لوگ قسم کے مطالبے کے بغیر ہی قسمیں اٹھائیں گے، اور گواہی کے مطالبے کے بغیر ہی گواہی دیتے پھریں گے، خبردار! کوئی بھی کسی [غیر محرم] عورت کیساتھ خلوت اختیار نہ کرے، کیونکہ ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم اجتماعیت لازم پکڑنا، اپنے آپ کو فرقہ واریت سے بچانا، کیونکہ شیطان دو کی بجائے ایک کے زیادہ قریب ہوتا ہے، جو شخص جنت کی خوشبو پانا چاہتا ہے تو وہ اجتماعیت کو لازم پکڑے، جس شخص کیلئے نیکی خوشی کا باعث ہو، اور گناہ ندامت کا باعث ہو، تو وہ شخص مؤمن ہے" احمد ، ترمذی
فرمانِ باری تعالی ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (102) وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا }
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، جیسے ڈرنے کا حق ہے، اور تمہیں موت آئے تو تم اسلام کی حالت میں ہو [102] اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، فرقہ واریت میں مت پڑو۔ [آل عمران : 102 - 103]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
Last edited: