• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کو سمجھنے کے 4 اصول !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

بدعت کو سمجھنے کے 4 اصول !

بسم اللہ الرحمن الرحیم قرانی آیات اوراحادیث صحیحہ میں چاراصول ایسے بیان ہوئے ہیں کہ اگرکوئی بھی شخص ان اصولوں کو سمجھ لے تو دین میں کسی بھی قسم کی بدعت نکالنے کی جرات نہیں کرسکتا خواہ بدعت سیئہ ہو یا بدعت حسنہ ، ذیل میں یہ چاروں اصول قران وحدیث کے دلائل کے ساتھ پیش خدمت ہیں:

پہلا اصول دین بنانے کا حق صرف اللہ کو ہے قران سے دلیل:

اللہ تعالی کا ارشادہے:

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } [الشورى: 21]

کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں اگر فیصلے کا دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کر دیا جاتا یقیناً (ان) ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے".

اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرمادیا کہ دین بنانا اور احکام دین مقرر کرنا یہ صرف اللہ کا حق ہے، اور اگر کوئی شخص اللہ کے علاوہ یہ حق کسی دوسرے انسان کو بھی دیتا ہے تو وہ اللہ کے حق میں کسی اور کو شریک مانتا ہے، ایسا شخص ظالم ہے اوراللہ نے اس کے لئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اس آیت سے یہ اصول واضح‌ ہوگیا کہ دین بنانا صرف اورصرف اللہ کا حق ہے۔

نیز اللہ تعالی کا ارشادہے:

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ} [التوبة: 31]

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے".

اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل روایت ملتی ہے:

عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ. فَقَالَ: «يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الوَثَنَ» ، وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ: {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ} ، قَالَ: «أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ، وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ»

[سنن الترمذي ت شاكر (5/ 278) رقم 3095 - حكم الألباني : حسن]

صحابی رسول عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدی اس بت کو اپنے سے دور کر دو پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورت براة کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا

(اِتَّخَذُوْ ا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ)،

(انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے۔)

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن اگر وہ (علماء اور درویش) ان کے لئے کوئی چیز حلال قرار دیتے تو وہ بھی اسے حلال سمجھتے اور اسی طرح ان کی طرف سے حرام کی گئی چیز کو حرام سمجھتے۔


معلوم ہوا حلال وحرام کرنے کا حق صرف اللہ تعالی کا ہے یہی حق اگر کوئی کسی اورکے اندر تسلیم کرتا ہے تواس کامطلب یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنا رب بنا لیا ہے اس آیت میں ان لوگوں کے لئے بڑی تنبیہ ہے جویہ سمجھتے ہیں کہ علمائے دین بھی دین میں بدعت حسنہ کا اضافہ کرسکتے ہیں ،کیونکہ دین میں کوئی بھی چیز مقرر کرنا صرف اللہ کا حق ہے اس میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں‌ ہے۔

حدیث‌ سے دلیل:

بخاری میں معراج رسول سے متعلق صحابی رسول ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں یہ مذکورہے کہ :

۔۔۔۔ فَفَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلاَةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ، حَتَّى مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: مَا فَرَضَ اللَّهُ لَكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِينَ صَلاَةً، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ، فَوَضَعَ شَطْرَهَا۔۔۔الحدیث [صحيح البخاري (1/ 79)رقم 349 ]

۔۔۔اللہ تعالی نے میری امت پر پچاس وقت کی نماز فرض کی ،پھر میں اسے لیکر واپس ہوا یہاں تک کہ موسی علیہ السلام کے پاس سے گذرہوا توانہوں نے کہا: اللہ تعالی نے آپ کی امت پر کیا چیز فرض کی ہے؟ تومیں نے کہا: پچاس وقت کی نمازفرض کی ہے ، موسی علیہ السلام نے کہا: آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں ، کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحدیث۔

قارئین بخاری کی اس حدیث میں غور کیجئے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دین بنانے کا حق تو کسی نبی کو بھی نہیں دیا گیا ہے عام علماء کا اس کا حقدارہونا تودورکی بات ہے ۔ کیونکہ موسی علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نماز کی تعداد کو پچاس کے بجائے کم کر دیجے بلکہ یہ کہا کہ آپ اللہ کے پاس واپس جائیے اور اللہ سے یہ تعداد کم کرائیے ، اوریہ مشورہ کئی بار دیا۔ ساتھ ہی اس حدیث‌ سے بدعت حسنہ کی جڑبھی کٹ جاتی ہے ، یعنی کسی عالم یا ولی کے لئے جائز نہیں کہ وہ کوئی کام اچھا سمجھ کردین میں اپنی پسند سے داخل کر دے۔ اگر ایساجائز ہوتا تو موسی علیہ السلام، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے پاس نہ بھیجتے بلکہ خود ہی پچاس وقت کی نماز کو کم کرنے کا مشورہ دیتے".

غورکریں کی دو جلیل القدر نبی موسی علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو اچھا سمجھ رہے تھے کہ نماز پچاس وقت سے کم ہونی چاہئے لیکن اس کے باوجود بھی انہیں اختیار نہیں کہ کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اپنی طرف سے دین بنا لیں۔ نیز جب اللہ تعالی نے پچاس وقت کی نماز کو کم کرکے پانچ وقت کردیا تو اس کے بعد بھی موسی علیہ السلام نے یہ اچھا مشورہ دیا کہ ابھی بھی مزید کم کرائیے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مشورہ کو اچھا سمجھا ،اسے غلط نہیں قراردیا، بلکہ یہ کہا کہ اب مزید کم کرانے سے مجھے شرم آتی ہے۔ گویا کہ نماز پانچ وقت سے بھی کم ہونی چاہئے یہ چیز موسی علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کی نظر میں اچھی تھی لیکن ان دونوں انبیاء کے اچھا سمجھنے کے باوجودیہ چیز دین اس لئے نہ بن سکی کیونکہ یہ اللہ کا فیصلہ نہیں تھا۔ معلوم ہواکہ انبیاء علیہ السلام حتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بات کا اختیارنہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیز کو اچھا سمجھ کر دین میں داخل کریں اسی لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طرف سے دین کی کوئی تعلیم نہیں پیش کی ہے بلکہ پورا دین اللہ کا بنا یا ہوا ہے اور اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے امت تک پہنچایا ہے، اللہ تعالی کا ارشادہے:

{ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى } [النجم: 3، 4]

اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں،وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔

الغرض قران وحدیث‌ کے مذکورہ دلائل سے معلوم ہوا کہ دین بنانے کا حق صرف اللہ کو ہے اور اس معاملے میں انبیاء تک کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے اچھا سمجھتے ہوئے دین میں کوئی بات داخل کریں تو پھر دیگر انسانوں کو یہ حق کہاں سے مل سکتاہے؟؟؟

دوسرا اصول:

اللہ اپنا یہ حق ادا کر چکا ہے اس سے پہلے بتلایا گیا کہ دین بنانا یہ صرف اللہ کا کام ہے، اب یہ بھی جان لیجئے کہ اللہ تعالی اپنا یہ کام مکمل کرچکاہے، اس میں کسی اور کے کرنے کے لئے کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے،قران وحدیث‌ سے اس کے دلائل ملاحظہ ہوں:

قران سے دلیل, اللہ تعالی کا ارشادہے:

{ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ } [المائدة: 3]

آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا ۔

اس آیت سے معلوم ہواکہ دین بنانا جو اللہ کا کام تھا تو اللہ اپنا یہ کام مکمل کرچکاہے۔

حدیث سے دلیل:

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ لَيْسَ شَيْءٌ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ , وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ النَّارِ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ , وَلَيْسَ شَيْءٌ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ النَّارِ , وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا قَدْ نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ

[شعب الإيمان (13/ 19) رقم 9891 صحیح بالشواہد:انظرالصحیحۃ رقم1803ایضا رقم2866]

صحابی رسول عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے فرمایا : کوئی بھی ایسی چیز باقی نہیں ہے جو تمہیں جنت سے قریب کرے اورجہنم سے دور کرئے مگر میں تمھیں اس کا حکم دے چکا ہوں ، اور کوئی بھی ایسی چیز باقی نہیں جو تمھیں جہنم سے قریب کرے اورجنت سے دورکرے مگر میں تمھیں اس سے منع کر چکا ہوں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العالمین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دین کی تکمیل کردی ہے۔ لہٰذا جب دین مکمل ہوچکا ہے ، اس میں اضافہ کے لئے کچھ باقی ہیں نہیں‌ بچا ہے تو پھر یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ اپنی طرف سے اچھا سمجھ کردین میں کوئی نئی چیز داخل کی جائے۔

تیسرا اصول :

اللہ نے کسی اور کو یہ کام کرنے سے منع کر دیا ہے قران وحدیث میں جہاں یہ اصول بتلایا گیا ہے کہ دین بنانا اللہ کا حق ہے ،اوراللہ اپنا یہ حق ادا کرچکا ہے وہیں ایک تیسرا اصول بھی پیش کیا گیا ہے کہ تمام لوگوں یہ کام انجام دینے سے صراحۃ منع بھی کردیا گیاہے۔ قران سے دلیل, اللہ تعالی کا ارشادہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} [الحجرات: 1]

اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔

اس آیت میں‌ سب کو اس بات سے منع کردیا گیا ہے کہ اللہ ورسول سے ایک قدم بھی کوئی آگے بڑھائے ، یعنی اللہ ورسول کے زبانی جو دین پیش کیا گیا ہے اس میں اپنی طرف سے کوئی بھی اضافہ نہ کرے۔

حدیث سے دلیل:

صحابی رسول عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت مروی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»

[سنن أبي داود (4/ 201) رقم 4607- حكم الألباني : صحيح]

اے لوگو! تم دین میں نئی چیزیں لانے سے بچو، کیونکہ دین میں ہرنئی چیز بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے۔

قران وحدیث سے معلوم ہوا کہ دین میں نئی چیز لانے سے سب کو منع بھی کردیا گیا ہے۔

چوتھا اصول :

اگر کسی نے دین میں کوئی نیا عمل ایجادکیا تو وہ عمل مردود ہے قران و حدیث‌ میں جہاں یہ اصول پیش کیا گیا ہے کہ دین بنانا صرف اللہ کا حق ہے، اور اللہ اپنا یہ حق مکمل ادا کرچکا ہے، اور دوسروں کو یہ حق ادا کرنے سے منع کردیا گیا ہے۔ وہیں پر ایک چوتھا اصول یہ بھی ہے کہ اگر کسی نے یہ حق ادا کرنے کی کوشش کی یعنی دین میں اپنی طرف سے کوئی نیا عمل ایجاد کیا تواس کا یہ عمل باطل ہے اورمردودہے۔ قران وحدیث‌ سے اس کی دلیل ملاحظہ ہو:

قران سے دلیل, اللہ تعالی کا ارشادہے:

{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ } [محمد: 33]

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو باطل وبرباد نہ کرو۔

حدیث سے دلیل:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ»

[صحيح البخاري (3/ 184)رقم 2697 ]

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہمارے اس معاملے (دین ) میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جواس میں نہ تھی تووہ مردود ہے۔

اس حدیث‌ میں ’’امرنا‘‘ سے مراد ’’دیننا ‘‘ ہے جیسا کہ ایک دوسری روایت میں‌ اس کی صراحت ہے ،چنانچہ امام ابو جعفر،محمد بن سلیمان، لوین المصیصی رحمہ اللہ فرماتے :

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي دِينِنَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ»

[جزء لوين (ص: 83)رقم 71 - واسنادہ صحیح ]

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہ تھی تو وہ مردود ہے۔

معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص گذشتہ تینوں اصولی باتوں سے غافل ہو کر دین میں کوئی نیا عمل ایجادکر لے تو وہ مردود ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اگر کوئی شخص یہ چار اصول یعنی یہ چاربنیادی باتیں سمجھ لے تو وہ کبھی بھی بدعت ایجادکرنے کی جرات نہیں کرے گا۔

[1] پہلی بات یہ کہ دین بنانا اللہ کا حق ہے ، اورجب یہ اللہ کا حق ہے تو دوسروں کو اس کی اجازت ہر گز نہیں ہو سکتی۔

[2] دوسری بات یہ کہ اللہ اپنا یہ حق اداکرچکاہے یعنی اللہ نے دین مکلمل کردیاہے، لہٰذا جب دین مکمل ہوگیا ہے تو اس میں نئی چیز کی گنجائش ہی باقی نہیں ہے۔

[3] تیسری بات یہ کہ تمام لوگوں کو دین میں نئی چیز ایجاد کرنے سے منع کر دیا گیا ہے، لہٰذا جب یہ چیز منع ہے تو اس کے جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

[4] چوتھی بات یہ کہ اگرکوئی شخص نادانی یا سرکشی کی بنا پر دین میں نئی چیز ایجاد کرتا ہے تو وہ مردود ہے، لہٰذا جو چیز مردود ولا یعنی ہے اسے ایجاد کرنا حماقت ہے۔

اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو بدعات و خرافات سے بچائے ، آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
علامہ شاطبیؒ لکھتے ہیں:

فاعلمو أنّ البدعۃ لا یقبل معھاعبادۃ من صلاۃ ولا صیام و لا صدقۃ ولا غیرھا من القربات ومجالس صاحبھا تنزع منہ العصمۃ و یوکّل إلی نفسہ، والماشی إلی و موقُوۃ معین علی ھدم الإسلام، فما الظّنّ بصاحبھا، وھو ملعون علی لسان الشّریعۃ، ویزداد من اللہ بعبادتہ بعدا، وھی المظّنۃ إلقاء العداوۃ و البغضاء، ومانعۃ ،من الشّفاعۃ المحمّدیۃ، ورافعۃ للسّنن الّتی تقابلھا، وعلی مبتدعھا إثم من عمل بھا، ولیس لہ توبۃ، وتلقی علیہ الذّلۃ والغضب من اللہ، ویبعد عن حوض رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم، ویخاف علیہ أن یکون معدودا فی الکفّار الخار جین عن الملّۃ، وسوء الخاتمۃ عند الخروج من الدّنیا، ویسودّ وجھہ فی الآخرۃ، یعذّب بنار جھنّم، وقد تبرأ منہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم، و تبراٗمنہ المسلمون، ویخاف علیہ الفتنۃ فی الدّنیا زیادہ إلی عذاب الآخرۃ۔۔۔۔۔

‘‘جان لو کہ بدعت کے ہوتے ہوئے نماز، روزہ اور صدقہ وغیرہ کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ بدعتی کی مجالس سے عصمت چھین لی جاتی ہے، وہ اپنے نفس کے سپرد کر دیا جاتاہے۔ بدعت کی طرف چلنے والا اور اس کی توقیر کرنے والا اسلام کو منہدم کرنے پر تعاون کرنے والا ہے۔

اب بدعتی کے بارے میں کیا خیال ہے؟

وہ تو شریعت کی زبانی ملعون ہے، وہ اپنی عبادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دور ہی ہوتا ہے۔ بدعت دشمنی و بغاوت ڈالنے کا سبب، محمدﷺ کی شفاعت کو روکنے والی اور اپنے مقابلے میں آنے والی سنتوں کو ختم کرنے والی ہوتی ہے۔ اس کو ایجاد کرنے والے پر ان تمام لوگوں کا گناہ ہوگا، جو اس پر عمل کریں گے۔ اس کے لیے کوئی توبہ نہیں ہو گی۔ اس پر ذلت اور اللہ تعالیٰ کا غضب ڈال دیا جائے گا، وہ رسول کریمﷺکے حوض سے دور کر دیا جائے گا، اس کے بارے میں ڈر ہے کہ وہ اسلام سے خارج کفار میں شمار ہوجائے اور دنیا سے جاتے ہوئے سوئے خاتمہ کا شکار ہو جائے۔ آخرت میں اس کا چہرہ سیاہ ہو جائے گا اور اسے جنہم کا عذاب دیا جائے گا۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس سے بیزاری کا اعلان کردیاہے، مسلمان بھی اس سے بری ہیں۔ ڈر ہے کہ آخرت کے عذاب کے ساتھ ساتھ اسے دنیا میں بھی کوئی بڑا فتنہ آن لے۔’’

(الاعتصام للمشاطبی:۱۰۷-۱۰۶/۱)
 
Top