• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی حقیقت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کیا موذنین کو صلوۃ وسلام کی تعلیم دی گئی؟
پہلے بیان ہو اکہ سنت محمد ﷺ یا فعلیہ ہے یا ترکیہ۔
یعنی رسول اللہ ﷺ کی جیسے آپ کے فعل میں اتباع کی جائے گی ایسے ہی آپ کے ترک (اس موقع پر کسی فعل کونہ بجا لانے)میں بھی اتباع کی جائے گی اِسے سنت ترکیہ کہتے ہیں۔
جیسے پہلی کو سنت فعلیہ کہتے ہیں اس لحاظ سے آپﷺ نے ابومحذورۃ ؓ اور دیگر موذن صحابہ کو اذان کے کلمات سکھلائے۔کسی کو انکار نہیں!
اذان سننے والوں کو تعلیم
فرمایا کہ مؤذن کے ساتھ وہی کلمات کہیں جو وہ کہتا ہے۔اورحی علی الصلوۃ ،حی الفلاح کے جواب میں لاحول ولاقوۃ الا باللہ ثم صلّواعلیّ پھر میر ے اوپر صلوۃ ،درود پڑھو صحیح مسلم
ہماری گزارش
غور کیجیے کہ یہاں آپ ﷺ نے اذان کہنے اور سننے والوں کی تعلیم میں فرق رکھا ہے۔ہر ایک سے الگ عمل مطلوب ہے۔اگر اذان کے بعد موذن سے صلوۃ (درود) پڑھنا مطلوب ہوتا تو آپ اذان کہنے والوں کواذان کے ساتھ یہ بھی تعلیم فرما دیتے۔
جیسے آپ نے اذان سننے والوں کو تعلیم دی اور جواب سکھلایا۔پس آپ کا اذان سننے والوں کو بعد میں صلوۃ (درود) پڑھنے کی تعلیم دینااور اذان کہنے والوں کو صلوۃ(درود) پڑھنے کی تعلیم نہ دینا۔بلکہ سکوت اور خاموشی اختیار فرمانا حالانکہ آپ تعلیم ہی کیلئے مبعوث ہوئے ہیں،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ موذّن سے اذان کے الفاظ کہنے کے علاوہ صلوۃ (درود) کا ترک کرناہی مطلوب ہے پس یہ موذن کے حق میں سنت ترکیہ ہو گی ،
آپ کی سنت معلوم ہو جانے کے بعد قیاس پر عمل نہ کیا جائے گا۔
مزید وضاحت
کہ عہد نبویﷺ میں اذان کے بعدمؤذن سے صلوۃوسلام (درود) سننے میں نہیں آیا اور یہ احتمال پیدا کرنا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آہستہ آواز میں ادا کرتے ہوں دور کا احتمال ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ۔
اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ج وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا ہ
نہیں پیروی کرتے وہ مگر گمان کی اور گمان حق کے مقابلے میںکچھ حیثیت نہیں رکھتا۔
من گھڑت درود کو سامنے رکھیں تو بظاہررسول اللہ ﷺ کے وقت کے مؤذن اس صلٰوۃ وسلام(درود وسلام)کے تارک ٹھہرے اور رسول اللہ ﷺ نے کئی سال تک اسی پر ان کو برقرار رکھا اور ان کے اس عمل کی تصدیق فرمائی اور کسی ایک دن بھی اس کے ترک پر ان پر ناراضگی نہ فرمائی پس رسول اللہ ﷺ کا اقرار بجائے خود ایک حجت اور دلیل ہے جیسے آپ کا قول وعمل حجت ہے ایسے ہی آپ کی تقریر بھی حجت ہے ۔تو معلوم ہوا کہ مؤذن کا آپ ﷺ پر صلوۃوسلام کو ترک کرنا سنت ہے اور اس کو بجا لانا بدعت مذمومہ ہے۔
البتہ یہ کہنا کہ صحیح مسلم کی حدیث موذن اور سامع دونوں سے صلوۃ پڑھنے کے تقاضے پر دلالت کرتی ہے اور ثم صلّوا میں تمام کو حکم ہے تویہ تکلّف ہے۔حدیث کا سیاق اس کو ثابت نہیں کرتا کیونکہ حدیث شریف میں (اذاسمعتم الموذن الحدیث )سننے والوں کیلئے ہے لہذا ثم صلّوامیں ضمیرانتم ان ہی کی طرف راجع ہوگی۔لہذا موذنین کو اس عمل کا مکلف کہناظاہر کے خلاف اور بلا دلیل ہے۔
اوراگر ہم قاعدہ مذکورہ کو نظر انداز کرتے ہوئے قیاس کے ساتھ اس کے سنت کہنے میں کھلی چھوٹ دے دیںتو کیا رسول اللہ ﷺ نے موذن کے بلند آواز سے اذان کہنے کی طرح سننے والوں کو بھی بلند آواز سے جواب دینے کا پابند فرمایا ہے اور کیا اسے بلند آواز سے صلوۃوسلام کہنے کا مکلف ٹھہرایا ہے جیسے کہ اذان میں بخدا کوئی عاقل اس کاقائل نہیں ورنہ ہر جواب دینے والا موذن بن جائے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مسنون طریقہ
پس یہ کہنا واجب ٹھہرا کہ اذان سننے والا اتنی آواز میں جواب دے جو اسے خود سنے اور ایسے ہی صلوۃ(درودشریف) پڑھے کہ خود کو سنے یا اسکے پاس والے کو سنائے اس حد تک اذان کا روپ نہ دھار لے۔پس جب سامع سے یہی مطلوب ہے تو اذان کہنے والے سے بھی ایسے ہی مطلوب ہے کیونکہ اذان کے بعد اذان کی طرح بلند آواز سے صلوۃوسلام پڑھنا خلاف سنت ہے اور ایسا کرنا اسے اذان ہی بنا دیتا ہے۔(اگرچہ ہمارے بادشاہ لوگ اسے جز وِاذان اور خلاف سنت نہ سمجھیںاور معلوم نہیں کہ خلاف سنت ان کے نزدیک کس چیز کانام ہے)
ماخوذ از "اصول فی البدع والسنن" لاستاذ محمد العدوی
ملحوظہ
گذشتہ جملہ ابحاث میں ہم نے کتاب وسنت سے ادلّہ یہ پیش کی ہیں کہ شرعی بدعت ضلالت وگمراہی ہے اور یہ بدعت عبادات میں جاری ہوتی ہے۔عادات میں شرع شریف کی طرف سے ممانعت تک اس کے حسب ضرورت کرنے کی گنجائش ہے کیونکہ یہ عقلی چیز ہے۔
لیکن دین میں عبادات بدونِ اذنِ شرع اضافہ اور کمی سے عمل صالح اکارت چلاجائے گا۔
موصوف مولوی صاحب نے اپنے معمولات میںاوراد وظائف خاص طور پر اذان سے پہلے اور بعد کیلئے سیدنابلالؓ سے سنن ابی داؤد ص۷۷ ج۱ سے ایک دعا پیش فرمائی ہے اے کاش موصوف اپنے ہمنواؤں سمیت اس دعا کا بھر م رکھتے اسے اپنے موذنین کویا د کرواتے اور اس کے مضمون کی پاس داری کرواتے اللہ سے مدد مانگتے ہوئے کہ اس میں اللہ تعا لیٰ کی حمدکرکے قریش (جو کفار تھے) کیلئے یہ دعاکی گئی ہے کہ اللہ انہیں اقامت ِدینِ اسلام کی توفیق بخشے۔
اس کے یہ معنی کب ہیں کہ اسلام قبول کرکے اس کے احکام میں اختراع وایجاد کرکے اس میں اضافہ کریں۔اقامت دین سیدنابلالؓ کے پیش نظر تھی اور یہی مقصدامام ابو داؤد ؒ کے پیش نظر تھا۔اس لئے انہوں نے تبویب میں باب الاذان فوق المنارۃ کا عنوان قائم کیاہے۔جس کا مقصد یہی ہے کہ دعوت الیٰ اللہ دعوت تامہ کو دنیا جہاں کے لوگوں تک محفوظ طور پر پہنچانے کیلئے جو ذرائع کارآمد ہیں وہ اختیار کیے جا سکتے ہیں۔اذان مقصد ہے اور منارہ اس کی رفعت کا ذریعہ ۔
مگر افسوس! آپ نے اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ذرائع میں اضافہ کیلئے استنباط نہیں کیا۔
ہم بھی یہی کہتے ہیںکہ عبادات مقا صد سے ہیںانہیں آپ نہ چھیڑیںمبادی اور ذرائع کیلئے آپ کی ذہنی ورزشیں اور توانائیاں اگر دین کی اقامت وخدمت کیلئے ہوںگی تو نیت کے خلوص سے اس کا بھی ثواب ملے گا۔
لاؤڈا سپیکر واقعی ذکرواذان کی بلندی کا ذریعہ ہیں۔ لیکن اس کو مقصد سمجھنا اور اسکی بنیاد پر عبادات میں اضافہ کاحکم عاقبت نااندیشی ہے۔عبادات کو اصل اور وصف کے لحاظ سے اسوۂ حسنہ کے مطابق رہنے دیا جانے میں ہی اقامت دینی ہے جوسیدنا بلالؓ کی خواہش ودعا میں جھلک رہی ہے۔صحابی رسول ﷺ کی یہ دعاملحق بالسنتہ ہونے کے قبیل سے مؤذنین کو یاد کرنی چاہیے۔تاکہ اقامت دین میں انہیں بھی احساس ذمہ داری ہو ۔وباللہ التوفیق۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نماز جنازہ کے سلام کے بعد متصلا ہاتھ اٹھا کر دفن سے پہلے دعا
گذشتہ اوراق میںمدلّل طور پر بیان ہو چکا ہے کہ کوئی عبادت بدون ِاذن شرع مشروع نہیں ہو سکتی ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہر عبادت وقربت پر عمل کرکے دکھا دیا ہے اور اس سے زندگی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔خوشی وغمی کے ہر موقعہ میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ راہنمائی کرتی نظر آتی ہے۔آیئے دیکھیں آیا رسول اللہ ﷺ نے نماز جنازہ کے فوراً بعد کوئی دعا مانگی ہے یا نہیںاگر مانگی ہے تو سر تسلیم خم اور اگر ثابت نہیں تو اجتناب ضروری ،کیونکہ دین مکمل ہے ۔
یہ ملحوظ رہے کہ یہ دعامتعین اور موقعہ کے لحاظ سے محدود ہے لہذادعا کیلئے قرآن وحدیث کے عام دلائل سے یہ خصوصی دعا ثابت نہیں ہوگی جیسے نماز کے عمومی دلائل سے صلوۃ فجر،ظہر،عصر،مغرب اور عشاء ثابت نہیں کی جاتیںبلکہ ان کیلئے خصوصی نصوص ودلائل ہی بیان کیے جاتے ہیں۔
جذبہ اتباع بدعت
مولوی صاحب موصوف اس دعا کیلئے اپنے دل میں خاصہ جذبہ اور فکر رکھتے ہیں۔اسی لئے اپنے رسا لہ بدعت کی حقیقت میں اس کو معمولاتِ اہل سنت بریلویہ سے ہونے پر یار لوگوں( اہل ِحدیث) کی طرف سے بدعت ہونے کے فتویٰ کا شکوہ کرتے ہیں۔چونکہ ان کے نزدیک یہ دُعا سنت جنازہ سے زائد ہونے کے باوجود سنت میں کسی تبدیلی کا باعث نہیں اس لئے وہ اسے اپنی اصل اباحت کے تحت دھڑلے سے مانگتے ہیںاور ساتھ اس کے حرام ہونے اور اسکی ممانعت کی دلیل کا مطالبہ پیش کرتے ہیںاور ان کے اصول کے مطابق یہ بدعت حسنہ ہے جو رافع سنت نہیں لہذاوہ اس پر مُصر ہیں۔
دعا بعد ازجنازہ
ہم گذشتہ معروضات کی روشنی میںاس کے ثبوت کا تقاضا کرتے ہیںکہ جیسے احکام جنائز ثابت ہیں ان میں جنازے کی دعائیںرسول اللہﷺ کی زبان فیض ترجمان سے ادا کی ہوئی کتبِ حدیث میں موجودہیںاور آپ ﷺسے صادر شدہ ایک ایک کلمہ محفوظ ہے۔لیکن یہاں اس عنوان کو کتب حدیث وفقہ میں کیوں خالی چھوڑاگیا ہے تو اس کا یہی مقصد ہے کہ اگر ثبوت نہیں تو ترک ہے اور اس دعاکا مانگنا سنت ترکیہ کے خلاف ہے اور یہی بدعت ہونے کی نشانی ہے اور اس کو اختیار کرنا نص پر زیادتی کی وجہ سے اور مسکوت عنہ اورمعفوعنہ ہونے کے لحاظ سے ہمارے اجتھاد وقیاس کا محتاج نہیں۔
ہمیں مسنون دعاؤں کو یاد کرکے ان کے محل ومقام پر ادا کرکے اپنے نبی ﷺ کی سیرت پر قناعت کرنی ضروری ہے کیونکہ انہی کو باذن ِاللہ شریعت کے بیان کی اتھارٹی ہے ان کی اتباع اللہ کی محبت کا معیار ہے آپ کا فرمان ہے
ان خیر الحدیث کتاب اللّٰہ وخیر الھدی ھدی محمد ﷺ وشرالامور محدثاتھا وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃوکل ضلالۃ فی النار
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دعابعد ازجنازہ اور فقھاء حنفیہ
عدم ثبوت کی وجہ سے فقہاء حنفیہ نے نماز جنازہ کے سلام کے بعد دعا مانگنے سے منع فرمایا ہے۔
بحرالرائق جلد دوم میں ص۱۸۳ پر لکھا ہے۔دعا ء بعد الثالثۃ لانہ لایدعوبعد التسلیمیعنی جنازہ میں تیسری تکبیر کے بعد (جودعا کے لیے خاص ہے) دعا ہے اس لیے بعد سلام کے کوئی دعانہ مانگے۔
طاہر بن محمد بن عبد الرشید البخاری نے خلاصہ الفتاوی کے ص۲۲۵ میں لکھا ہے۔ولایقوم بالدعاء بعد صلوٰۃ الجنازۃ نماز جنازہ سے فراغت کے بعد کوئی دعا نہ مانگے ۔
خلاصہ الفتاوی ہی کے ص۲۲۵ میں ہے ولایقوم بالدعاء فی قرأۃ القران لأہل المیت بعد صلوٰۃ الجنازۃوقبلھا اور دعا نہ مانگے اہل میت کیلئے قرآن پڑھ کر نہ نماز جنازہ کے بعد نہ پہلے اس کے۔
ایسے ہی فتاوی سراجیہ باب الصلوٰۃعلی الجنازۃ ص۱۲۱ میں ہے نماز جنازہ کے بعد دعا نہ مانگے۔
نفع المفتی والسائل میں مولاناعبدالحی ؒ لکھتے ہیں۔نماز جنازہ کے بعد دعا مکروہ ہے۔
ملّا علی القاری مرقاۃ شرح مشکاۃ میں فرماتے ہیں ۔ولا یدعو للمیت بعد صلاۃ الجنازۃ لأنہ یشبہ الزیادۃ فی صلاۃ الجنازۃ ص۱۴۹ج۴
اورنمازجنازہ کے بعد میت کے لیے دعانہ کرے کیونکہ یہ نماز جنازہ میں ذیادتی کے مشابہ ہے
عرض یہ کہ !تمام حوالہ جات پیش کرنا مقصود نہیں بلکہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان فقہاء کرام نے نہی فرماکراور مکروہ لکھ کراباحت کی اصل کی نفی فرمائی ہے اور یہ نہی تحریمی تنزیھی اور ارشادی کے قبیل سے ہے۔
موصوف سے سوال
کیا یہ نفی یا نھی امام سیوطی ؒ کی الاشباہ والنظائر سے اما م ابو حنیفہؒ کے نزدیک ألاصل فی الاشیاء التحریم کی روشنی میں ہی نہیں فرمائی گئی؟
اب آپ کا فیصلہ اباحت وتحریم کے تعارض و تناقض میں ترک اولی ہوگا؟یاآپ ان فقہاء حنفیہ کے مقابلے میں احمد یار گجراتی اور محمد عمر اچھروی صاحبان کے نقش قدم پر اس کی سنیت ثابت کریں گے؟اِنہوںنے جو مواد فراہم کیا ہے اس میں تحریف اور تاویل کے سوا کچھ بھی نہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تحریف کے خوگر
احمد یار گجراتی اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ سے الشیخ عبد الحق دہلوی ؒکی عبارت جاء الحق میں لکھتے ہیں۔
صحیح بخاری کی حدیث میں سیدناابن عباس ؓ کی حدیث ہے کہ انہوں نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھی اور پوچھنے پر فرمایا لتعلموا انھا سنّۃ میں نے یہ اس لئے پڑھی ہے کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ سنت ہے۔
اس قرأت فاتحہ میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد نماز جنازہ کے بعد سورۃفاتحہ کا پڑھنا ہو جیسے کہ اب معروف ومتعارف ہے۔
حالانکہ اشعۃ اللمعات میں انہوں نے لکھا ہے کہ ظاہر مراد اس سے سورۃفاتحہ نماز جنازہ کے اندر پڑھناہے اور احتمال دارد...
صاحب جاء الحق نے ظاہرمرادازیں کی عبارت چھوڑ دی اور احتمال پر بنیاد رکھ دی۔یہ ایک طرح کی تحریف ہے، اب یہ احتمال بھی بے دلیل ہے اور متعارف کہہ کر رواج کو سند بنا دیا گیا ہے۔
سورۃ فاتحہ کا نماز جنازہ کے اندر پڑھنااسے سیدنا ابن عباس ؓسنت فرما رہے ہیںاورآپ نے بدعت کی سادہ اور عام فہم یہ پہچان بتلائی ہے کہ بدعت رافع سنت ہوتی ہے۔
لہذا آپ کا سورۃ فاتحہ کا نماز جنازہ سے ترک کرنا بھی بدعت ہے۔
اور جس دعا بعد جنازہ کا سنت میں ذکر نہیں اور علماء حنفیہ کے منع کے باوجود آپ اسے سنت کہتے ہیں تووہ دعا کن الفاظ اور صیغوں سے کی گئی ہے؟
اگر احتمال دارد پر بنیاد ہے تو آپ کے بقول نماز جنازہ کے اندر ایسی تبدیلی رافع سنت نہ ہوگی کہ سنت میں بقول سیدنا ابن عباسؓ کے جنازہ کے اندر سنت ہے آپ اسی کو باہر لے آئے۔حالانکہ ایسی تبدیلی کوبدعت کہتے ہیں اوراس تبدیلی کو نبی کریم ﷺ کے طریقہ کی تبدیلی کہنے سے کوئی چیزمانع نہیں ہے۔ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اہل بدعت کی عربی زبان سے عدم واقفیت
موصوف اور ہمنواؤں نے فقہاء کے نہی کے الفاظ لایقوم بالدعاء کے لفظی معنی کرکے مروجہ دعا کیلئے راہ نکالنے کی کوشش کی ہے ،
کہ کھڑے ہوکر نہ دعا کرے،صفیں توڑکر بیٹھ کر دعا کی جا ئے تو جائز ہے۔
حالانکہ لایقوم بالدعاء تو مطلق طور پر دعا کے اہتمام سے نہی اورممانعت ہے کیونکہ فقھاء حنفیہ نے نہی و ممانعت کی علت لانہ یشبہ الزیادۃ کیونکہ یہ نماز جنازہ مسنونہ میں زیادتی کے مشابہ ہے یہ وجہ بیان فرمائی۔
غور فرمائیں کہ یہی زیادتی طریقہ رسول کریم ﷺ میں تبدیلی ہے اور یہی رافع سنت ہے۔
سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا بیٹھ کر دعا مانگنے سے مسنون پر زیادتی کی مشابہت نہ ہو گی؟
لایقوم بالدعاء کے معنی (کھڑے ہوکر نہ دعا کرے) عربی اطلاق سے ناواقفی کی واضح دلیل ہے کیاموصوف ان جملوں کاترجمہ بھی اسی طرح( کھڑے ہو کر)کریں گے؟
قام بالأمر قامت الحکومتہ الرشیدہ باِشاعۃ القرآن والحدیث قام الدکتور بالفحص کہ یہ سب کھڑے ہیں؟
حالانکہ یہاں مطلق اہتمام ہی مقصود ہے کہ فلاں شخص نے اس کا م کا اہتمام کیا ۔حکومت نے اشاعت قرآن وحدیث کا بندوبست کیا۔ ڈاکٹر نے علاج معالجہ میں تشخیص کی۔
قام الدکتور بالفحص سے یہ مراد نہیں ہے کہ بجائے بیٹھنے لیٹنے کے کھڑے ہوکر تشخیص کرنے لگا۔اس طرز عمل کو بادشاہوں کی سادگی ہی کہا جاسکتا ہے کہ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔
ایک حدیث مبارکہ ہے کہ ابو بکر صدّیق ؓ نے اپنی بیوی اسماء ؓ کو وصیت فرمائی کہ وہ اُن کو غسل دیں تو حدیث کے الفاظ ہیں فقامت بہ اسما ء و ساعدھا عبدالرحمٰن ابن ابی بکرؓ
جس کا مطلب ہے کہ اسماء بنت عمیس ؓ نے آپ ؓ کی وصیت کے مطابق خود غسل دیا اور عبدالرحمٰن بن ابوبکرصدیقؓ نے اُن کی معاونت کی ۔
اب یہا ں یہ مراد تونہیں کہ وہ دوران غسل کھڑی رہیں ۔
بیسیوں حوالے کتب فقہ حنفیہ میں ایسے ملتے ہیں کہ ان میں لایقوم بالدعاء کے لفظ نہیں بلکہ اسے صریحاً مکروہ لکھاگیا ہے اور لفظ مکروہ مطلق ہو تو کراھت تحریمی مراد ہوتی ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر کیے جا چکے ہیں۔
لہذا صفیں توڑکے بیٹھ کر دعا کی توجیہ عدم ثبوت کی بنا پر بدعت ہی شمار ہوگی۔
جنازے کے بعد دعا کیلئے پیش کردہ حدیثِ ابو ھریرہ ؓ جسے امام ابو داود نے اور امام ابن ماجہ ؒ نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے ان کے علاوہ امام طحاویؒ نے شرح معانی الآثارمیں اور امام ابوعبداللہ الحاکم نے المستدرک میںاس کی تخریج فرمائی ہے ان کے علاوہ ریاض الصالحین میں امام نووی ؒنے اور مسندخوارزمی میں اسے وارد کیا گیا ہے۔
تما م ائمہ کرام نے اس سے نماز جنازہ کے اند ر کی دعا مراد لی ہے اور ساتھ دوسری دعائیں جورسول اللہﷺنے مختلف مواقع پر پڑھی ہیں ان کا ذکر فرمایا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حدیث مبارکہ سے دعا بعد جنازہ کی تردید
امام ابو عبداللہ الحاکم نے ایک حدیث مبارکہ کے الفاظ یوں روایت کیے ہیں۔
عن ابی ھریرہ ؓقال قال رسول اللّٰہ ﷺاذاصلیتم علی ا لمیت فاخلصوا لہ الدعاء فی التکبیرات الثلاث
ترجمہ :۔جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میت پر جنازہ کی نماز پڑھو تو اس کیلئے تینوں تکبیروں میں خلوص سے دعا کرو۔
غور فرمائیں :تکبیرات سلام سے پہلے ہوتی ہیں نہ کہ بعد میںاور اس حدیث میں دعا کا حکم نماز جنازہ کے اندر ہے نہ کہ نماز جنازہ کے بعد مروجہ دعامیں۔
یہ نکتہ آفرینی اس صدی کی ایجاد ہے۔
تکبیرات جنازہ کے اندر ہوتی ہیںاور ان تکبیرات کے درمیان میں خلوص ِدعا کا حکم ہے۔
مزید وضاحت
عر ض کیا جاتاہے کہ اس حدیث میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ اذا حرف شرط ہے صلیتم ماضی ہے فاء جزائیہ ہے اَخلصوا امر ہے لہذا چونکہ فاء تعقیب کیلئے آئی ہے۔اس سے مراد نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا مراد ہے اور ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ جب تم نماز جنازہ پڑھ چکو تو پھر میت کیلئے خلوص سے دعا کرو۔
کونسی دعا کرو؟ا وراس کے الفاظ اور صیغے کیاہیں؟
یہ ثابت کرنا مباح اور جائزکہنے والوں کے ذمے ہے۔
کیونکہ جنازہ کے اندر کی دعائیں تو اپنے الفاظ وصیغوں میں محفوظ ملتی ہیں جیسے کہ احمد رضا صاحب نے وصایا شریف میں ۱۳۔۱۴ دعائیں اپنے جنازے کے اندر پڑھنے کی اپنے فرزند کو وصیت فرمائی اور بہار شریعت میں ان کا ذکر موجود ہے اور فتاوی رضویہ سے ازبر کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔
ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بادشاہ لوگ جنازہ میں نہ خود اِن جملہ دعاؤں کو پڑھتے ہیں اور نہ اپنی رعایا کو پڑھنے کا موقعہ دیتے ہیں۔ بلکہ ان دعاؤں کے بدلے میں آسان طریقے سے نماز جنازہ کے اندر سے سورۃفاتحہ نکال کر ساتھ تین قل ملا کراپنی ایجاد کردہ دعا ادا فرما دیتے ہیں۔پھر تن آسانی کا طعنہ بھی اہل حدیث کو دیتے ہیں۔
خیال رہے کہ فاتحہ اور تین قل کی روایت نہایت ضعیف ہونے کے علاوہ اس کا تعلق قبرستان میں پڑھنے سے ہے نہ کہ نماز جنازہ کے بعد اور نماز جنازہ احناف فقھاء کے نزدیک قبر ستان میں نہیں ہوتابہر صورت زیر بحث حدیث ۔
اذاصلیتم علی ا لمیت فاخلصوا لہ الدعاء
کا اگر وہ ترجمہ لیا جائے جو ہمارے بادشاہ لوگ اختیار فرماتے ہیں تو قرآن مجید کی متعددآیات اور احادیث مبارکہ جو اس حدیث کے سیاق سے مشابہہ ہیں ان کا ترجمہ نماز جنازہ کے بعدمتصلاً دعا ثابت کرنے والوں کے ترجمہ مطابق نہایت بے محل بنتا ہے مثلاً قرآن مجید میں ہے۔
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ہ
جب قرآن پڑھو تو اللہ سے پناہ مانگو یعنی پڑھنے اور تلاوت کرنے سے پہلے
اعوذ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم
پڑھا کرو۔جمہورتلاوت کے شروع میں اعوذباللہ پڑھنے کے قائل ہیںیہاں باوجود فاء کے تعوّذ یعنی اعوذ باللہ پڑھنا فعل قرأت وتلاوت سے پہلے ہو اہے اور فاء سے استدلال باطل ہواکیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جب میت پر نماز جنازہ شروع کرو تو اس کیلئے اخلاص سے دعاکروکیونکہ سارے جنازہ کو دعا ہی کہتے ہیں۔ لفظ میںاگرچہ احتمال ہے لیکن ہمارا پیش کردہ احتمال ہی صحیح اور با دلیل ہے کیونکہ نماز جنازہ میں دعاثابت ہے اور بعد میں متصلاً قبل از دفن دعاقطعاً ثابت نہیں ہے۔پس شروع میں دعا کرنا اتصال کے منافی نہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خلاصہ کلام یہ کہ فاء تعقیب والی عبارت میں فعل کا شروع مراد ہوتا ہے اور کبھی فعل کا فراغ جیسے آیات کریمہ اذا طعمتم فانتشروا الآیۃ میںہے کہ جب کھا ناکھا چکوتو منتشر ہو جاؤاب اس حدیث میں فعل جنازہ کے شروع سے ہی اخلاص سے دعا کرنا مراد ہونے میں جنازہ کے اندر دعاؤں کے ثابت ہونے کے علاوہ المستدرک للحاکم کی روایت نے وضاحت کر دی کہ جب تم میت پر جنازہ پڑھو تو اس کیلئے تینوں تکبیروں کے درمیان خلوص سے دعا کرو اور تکبیریں جنازے کے اندر ہوتی ہیںنہ کہ باہر۔
ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ جنازے سے سورۃ فاتحہ نکال کر بعد میں شامل کرلینے کی طرح تکبیرات بھی ساتھ ملالیا کریںکیونکہ ممانعت کہیں وارد نہیں۔صرف سیدھی راہ سنت کی بیان ہوئی ہے، صحابہ وتابعین تو سب متبع سنت تھے اور ان کے سامنے ممانعت کیلئے کسی قسم کے احداث سے بدعت ہونا ہی ممانعت کی دلیل تھا۔
آمدم برسرِمطلب کہ جنازہ کے بعد کی دعا ثابت نہیں اور جن دلائل سے ثبوت فراہم کیا جاتاہے وہ بے دلیل احتمالات ہیں اس کے علاوہ جو دلائل دیے جاتے ہیں ان کیلئے صرف یہی ملحوظ خاطر رہے کہ جہاں اس کی دلیل ہے اسی جگہ اس کی تردید ثابت ہے۔
قارئین کرام سے یہ درخواست ہے کہ جب اس مسئلہ میں انہیں ایسے لوگ کوئی حوالہ پیش کریں تو ان سے اصل کتاب کا تقا ضا کریں کیونکہ اصل کتاب سے فوراًمغالطہ دور ہو جائے گا۔وباللہ التوفیق۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ دین وحی الہٰی سے نازل ہو ا ہے اور اس میں عبادات ومعاملات ہیں اور عبادات کی وضع اور صورت میں انسانی عقل کو کچھ دخل نہیںہے اور محض تعبد (توقیفی أمر )ہے اور دین میں عقل اور رائے کو شامل کرنا کسی طور پر جائز نہیں جہاں عقل کو دخل ہو تویہ اسے دنیا بنا دیتاہے۔لیکن بعض لوگ دنیاوی ایجادات کی طرح دین میں بھی قیاس کرتے ہوئے عبادات کو نئی نئی شکلیں دے کر اختیار کرتے ہوئے انہیں کار ثواب سمجھتے ہوئے اِن کی دعوت دیتے ہیں اور اسے اسلام کی دعوت کہتے ہیں اور ان کے ثبوت شرعی نہ ہونے کے باوجود کمزور دلائل پر انحصار کرتے ہیں۔
یومنون ببعض ویکفرون ببعض
اپنے تعامل ومعمولات کیلئے عامۃالمسلمین یعنی عوام الناس کے عمل کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے یہ لوگ ایک روایت عبداللہ بن مسعود ؓ سے پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا۔ما رأہ المسلمون حسناًفھو عنداللّٰہ حسنٌ جس کام کو مسلمان اچھا خیال کریں وہ اللہ کے نزدیک بھی حسن اور اچھا ہے
لہذا ہمارے کام جوعامۃ الناس مسلمانوںنے اختیار کر رکھے ہیں۔اس روایت سے ان کو سند جواز مل جاتی ہے۔
حالانکہ یہ غلط فہمی کچھ روایت پیش کرنے اور کچھ پیش نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں!
عن ابن مسعود ؓ قال ان اللّٰہ نظرفی قلوب العبادفاختارمحمدا ﷺفبعثہ برسالتہ ثم نظرفی قلوب العبادفاختار لہ اصحابافجعلھم انصاردینہ ووزراء نبیّہ فمارأہ المسلمون حسنافھو عنداللّٰہ حسنٌومارأہ المسلمون قبیحا فھوعنداللّٰہ قبیح وھو موقوف حسن(احمد فی کتاب السنۃوالبزّاروالطیالسی والطبرانی وابونعیم فی ترجمۃ ابن مسعود من الحلیۃوالبیھقی فی الاعتقادمن وجہ آخر
ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو محمدﷺ کو نبوت کیلئے چن لیا۔پھر بندوں کے دلوں کو دیکھا تومحمدﷺ کیلئے اصحاب چن لیے جو اللہ کے دین کے مددگار اور اس کے نبیﷺ کے وزیر تھے پس جس امر کو مسلمانوں نے اچھا دیکھا پس وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہے اور جس کو مسلمانوں نے برادیکھا وہ اللہ کے نزدیک براہے۔المقا صد الحسنہ للسخاویؒ صفحہ ۱۷۳
اس روایت سے صاف طور پر معلوم ہوتاہے کہ عبداللہ بن مسعودؓکی مرادمسلمانوں سے صحابہ کرام ہیں نہ کہ بعد کے عوام الناس مسلمان جیساکہ جاء الحق میں احمد یار گجراتی اور محمد فیض احمد اویسی صاحب نے اپنے رسالہ اذان اور صلوۃوسلام میں عام سمجھا ہے ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
المسلمون سے مراد صحابہ کرام (ایک اور دلیل)
عبداللہ بن مسعودؓکی اس روایت میں المسلون سے صحابہ ہی کے مراد ہونے کی دوسری یہ دلیل ہے جو پہلے سنن دارمی سے بالتفصیل گذری کہ انہوں نے مسجد میں حلقہ باندھ کر بزعم خویش ایک اچھا عمل یعنی ذکر کلمہ طیبہ اور تسبیحات پڑھنے والوں پر لعن طعن فرمائی اور کہا کہ تمہیں ہلاکت ہو ۔ابھی سے تم نے دین کو بدلنا شروع کر دیا اور گمراہی کا دروازہ کھول دیاابھی تو نبی ﷺ کے صحابہ کثرت سے موجو دہیں اور آپ ﷺ کے برتن کپڑے وغیرہ بھی موجود ہیں۔
ذکر کے نئے طریقے کو گمراہی فرمایا۔اگر عبداللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک عام ہوتا ۔تو اس طریق ذکر کو گمراہی کیوں فرماتے کیونکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے اس کو انہوں نے خیر اور اچھا سمجھا اور ہر فرقہ جو کچھ کرتا ہے اپنے خیال میں اچھا کرتاہے پس معلوم ہواکہ مارأہ المسلون حسنا (الحدیث) عبداللہ بن مسعودؓ کے نزدیک عام نہیں جیسا کہ سمجھا جاتاہے بلکہ اس سے ان کی مراد صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین ہی ہیں۔
ایک اورأثر
عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مشکوۃ شریف کتاب العلم میں مروی ہے۔
من کان مستنافالیستن بمن قدمات فان الحی لا تومن علیہ الفتنۃاولئک اصحاب محمد کانواافضل ھذہ الامۃ ابرّھاقلوباو اعمقھاعلماواقلھاتکلفااختا رھم اللّٰہ لصحبۃ نبیہ ولاقامۃ دینہ فاعرفوھم من فضلھم واتبعوا اثرھم وتمسکوابمااستطعتم من اخلاقھم وسیرھم فانھم کانوا علی الھدیٰ المستقیم
یعنی جو اقتداء کرنا چاہے وہ فوت شدہ لوگوں کی اقتداء کرے کیونکہ زندہ فتنہ اور آزمائش سے محفوظ نہیں۔وہ قابل ِاقتداء محمدﷺ کے اصحاب ہیں۔وہ اس امت کے افضل تھے اور دلوں کے لحاظ سے اس امت کے نیکوکار اور صالح ترین تھے اور علم کے لحاظ سے بہت راسخ اور گہرے تھے اورتکلف کے لحاظ سے بہت کم تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت اور دین کے قائم کرنے کیلئے چن لیا اور پسند فرمایالیا۔پس ان کی فضیلت پہچانواور ان کے آثار کے پیچھے جاؤان کے اخلاق اور سیرت وعادات سے حتی الوسع تعلق مضبوط کروکیونکہ وہ سیدھے راستے پر تھے
ایک اور حدیث
عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے۔
فان جا ء ک مالیس فی کتاب اللّٰہ ولم یقض بہ رسول اللّٰہﷺ فلیقض بما قضٰی بہ الصالحون۔
یعنی جس بات کا اللہ کی کتاب میں فیصلہ نہ ملے اور اس کا رسول اللہ ﷺ نے بھی فیصلہ نہ کیا ہو تو اس کا فیصلہ اس طرح کریں جس طرح صالحین ( صحابہ )نے کیا ہو۔سنن دارمی ص۳۲
ملحوظ رہے کہ مذکورہ روایت عبداللہ بن مسعود ؓ کا فرمان یعنی موقوف روایت ہے۔مرفوعاً ثابت نہیں اور پھر یہ عام نہیں بلکہ اس سے مراد صحابہ ہیں چنانچہ اس سے آج کل کے عام مسلمانوں کے تعامل اور معمولات کے لئے سند نہیں پکڑی جا سکتی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اھداء ثواب کی شرعی حیثیت
رسالہ بدعت اور اس کی حقیقت میں مولّف نے اس کے علاوہ کسی عمل سے سنت کی شکل وہیت میں تبدیلی کا ایک معیار پیش فرمایا تھاجس کے لئے ہم نے بادلائل ثابت کیا کہ سنت کی تبدیلی اوراس کی مخالفت کا یہ معنی نہیںکہ مسنون عمل کے برعکس عمل ہو بلکہ اصل ثابت ہونے کے باوجود اس کے وصف میں تبدیلی کو بھی مخالفتِ رسول اور بدعت سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
چنانچہ نماز جنازہ کے سلام کے متصل ہاتھ اٹھاکر دعا پر قدرے بحث گذر چکی ہے۔
اس کے علاوہ آپ فرماتے ہیں کہ میت کیلئے ایصال ثواب کی مجلس منعقد کرنے سے کونسی سنت ختم ہوتی ہے ۔اگر کسی معین ومقرر طریقہ میں تبدیلی آجاتی ہے تو براہ کرم مخالفین اس معین طریقہ کی نشاندہی فرمائیںورنہ بدعت کا فتوی لگانے سے گریز کریں انتھی بلفظہ
پہلے مبادی اور مقاصد کے عنوان کے تحت اس کا ذکر ہوچکا ہے۔تاہم دوبارہ افادہ کے طور پرمزید عرض کیاجاتا ہے۔
سوگ کی شرعی حد
تعجب ہے اس بات پرکہ ایصال ثواب کی مجلس منعقد کرنے والے مسنون طریقہ کو انپے نئے سانچوں میں بدلنے پر کیوں مصرہیں جبکہ احادیث مبارکہ میں عام میت کے لئے تین دن کے سوگ اور کسی عورت کے خاوند کی وفات پر چارماہ دس دن کے سوگ کی اجازت ہے اس کے علاوہ سوگ کی اجازت نہیں جبکہ شیعہ کی مجالس عزاء کی طرح اہل سنت وجماعت بریلویہ کی مجالس ایصال ثواب اس سے چنداں مختلف نہیں صرف نام کا فرق ہے،نا م کے مختلف ہونے سے حیثیت نہیں بدلتی مجالس ِایصال ثواب میں محفل اور مجالس کا انعقادہے اور یہ ماتم اور سوگ ہی کی شکل ہے جیسے مخصوص ایام تیسرے،ساتویں،چالیسواں اور برس گزرنے پر اپنے اوپر طاری کیا جاتا ہے۔یہ ماتم کی محفل نہیں تو کیا یہ عرس وسرور ہے ۔
جبکہ صحابی رسول جریر بن عبداللہ البجلی ؓ روایت فرماتے ہیں۔کنا نعد الاجتماع الیٰ اھل ا لمیت وصنعۃ الطعام بعد دفنہ من النیاحۃ یعنی میت کے دفن کے بعد اہل میت کی طرف جمع ہونا اور کھانا تیار کرنا ہم ہمیشہ نوحہ شمار کرتے تھے ۔رواہ ابن ماجہ و احمد فی مسندہ
اور سنن ابن ماجہ میں کنا نری الاجتماع الخ۔ کے الفاظ ہیںاور صحابی جب کنا نریٰ یا کنا نعد یا نفعل کذا کے الفاظ استعمال کریںتو یہ مرفوع حدیث ہوتی ہے اور اس سے عرفِ نبویﷺ مراد ہوتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل میت کے ہاںاجتماع اور مجلس کا انعقاداور وہاں کھانا تیار کرنانوحہ (ماتم) ہے جوکہ حرام ہے۔تو بعد میں اہل میت کے ہاںپکوان ِایصال ثواب، اھداء ثواب، شکم پروری، غریب پروری کے بہانے کیسے ثابت ہوئے یہ مروجہ دعوتیںمذکورہ حدیث کی رو سے حرام اور بدعت ہی شمار ہوں گی۔ نہ ان کا ثبوت رسول اللہ ﷺ سے اور نہ خیر القرون میں ثبوت ملتا ہے۔اس میں صحابی جریربن عبداللہؓ فرماتے ہیں کنا نری اور پہلے عبداللہ بن مسعود ؓکے فرمان مارأٰہ المسلمو ن حسنا جسے مومن اچھا سمجھیں وہ اللہ کے ہاںاچھا ہے اورجیسے مومن قبیح جانیں وہ اللہ کے ہاں قبیح ہے۔لہذا جب صحابہ اہل میت کے ہاں اجتماع اور کھانے کی تیاری کو نوحہ فرمائیںتو بعد میں اس اہتمام کو ثابت کرنے کی دلیل مطلوب ہے۔ حالانکہ میت کیلئے دعا اور صدقہ تو بغیر مجالس کے انعقاد کے بھی ہو سکتا ہے۔
 
Top