• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی حقیقت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک غلطی کا ازالہ:
عموماً اہل بدعت بدعات کے ثبوت کیلئے اصل اباحت کا سہارا لیتے ہیں کہ چونکہ ان کا فلاں کام عفو کردہ کی ذیل میں آتاہے لہذا منع نہ ہواحالانکہ مسکوت عنہ اور عفو کی احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ان سے بحث نہ کرویعنی اللہ تعالیٰ نے جن امور کی حد بندی کردی اب تم اپنی طرف سے جہاںسکوت ہو حد بند ی نہ کرو اور یہ ظاہر ہے کہ بدعت میں اپنی طرف سے حد بندی ہوتی ہے۔پس بدعت تحدید کی بنا پر حدیث عفو کے خلاف ہوئی ۔(الاصلاح حصہ دوم، ص:۱۴۲)
شیخ عبدالحق ؒکے نزدیک بدعتی:
اشعۃ اللمعات میں حدیث انما الاعمال بالنیات پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
''والمتابعۃ کما تکون فی الفعل تکون فی الترک ایضاًفمن واظب علیَ فعل لم یفعلہ الشارع فھو مبتدعٌ''
یعنی رسول اللہ ﷺ کی متابعت جیسے فعل میں ہوتی ہے ایسے ہی ترک میں ہوگی تو جو شخص ایسے کام پر مواظبت اور ہمیشگی کرے جسے آپﷺ نے نہیں کیاسو وہ بدعتی ہے۔
لہذا مسکوت عنہ اور عفو سے امور دینی میں احداث نہیں ہو سکتا۔
بدعت اسلام دشمنوں کی نقالی ہے :
حدیث مبارکہ جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
'' ابغض الناس الی اللّٰہ ثلاثۃ ملحد فی الحرم ومبتغٍ فی الاسلام سنۃ الجا ھلیۃومطلبُ دم امرء مسلم لیریقہ''(مشکوٰۃ ص: ۳۷:ج ۱)
اللہ تعالیٰ کے ہاں بدترین تین آدمی ہیں۔
(۱)۱حرم میں کجروی کرنے والا۔ (۲)اسلام میں کفر کی رسم تلاش کرنے والا۔ (۳) کسی مسلمان کا خون بہانے کا متلاشی۔
عید میلاد جو نصاریٰ سے مشابہت میں ایجاد کی گئی ہے اور صدقہ خیرات کی نئی شکلیں جن میں ہند و مشرکین سے مشابہت ہے ۔ ان پر اصرار اور ان کی مجالس کیلئے خصوصی اہتمام کرنے والے مذکورہ بالا حدیث پاک پر غور فرمائیں۔
ایک اور حدیث پاک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
''جعل رزقی تحت ظل رمحی وجعل الذلۃ والصغار علی من خالف امری ومن تشبہ بقوم فھو منھم'' ( ابوداؤد)
میرا رزق میرے نیزے کی انّی اور سایہ میں رکھ دیا گیاہے اور ذلت ورسوائی اس کا مقدر بنادی گئی ہے جو میری شریعت اور میرے دینی حکم کی مخالفت کرے اور جوکسی دوسری قوم سے مشابہت اختیار کرے تو وہ انہیں میںسے ہے۔
ان احادیث مبارکہ میں اسوئہ نبوی کو اپنا شعار اور شناخت بنانے اور غیر قوموں کے شعار اور شناخت سے پرہیز کی تعلیم دی گئی ہے۔
عبادات تو ایک طرف رہیںعادات میں بھی رسول اللہ ﷺ نے غیر قوموں کی مخالفت کا حکم دیاہے اور ان کی موافقت سے منع فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ہے۔
'' ان الیھود والنصاری لا یصبغون فخالفوھم'' (متفق علیہ)
یہود اورنصاری بال نہیں رنگتے تم ان کی مخالفت کرو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حالانکہ بڑھاپا طبعی امر ہے انسان اس میں اختیاری مشا بہت نہیں کرتا پھر بھی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے، پس معلوم ہواکہ تشبّہ کے لئے قصد شرط نہیں۔یعنی کسی کا یہ کہنا کہ ہم مشابہت کفار و مشرکین کے لیے نہیں کررہے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
ایک اور حدیث میں ہے جو مسند احمد ابن ماجہ اور طبرانی میں ہے۔صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ اہل کتاب پاجامے پہنتے ہیں اور ازار نہیں باندھتے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
'' تَسَرْوَ لُوْاوَاتَّزِرُوْاوَخَالِ فُو اَھْلَ الْکِتَابِ ''
پاجامے اور اِزار دونوں پہنو اہل کتاب کی مخالفت کرو۔
الاستاذ المحدث گوندلوی ؒ فرماتے ہیں: اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ اہل اسلام تقلید کے عادی نہ ہو جائیںبلکہ استقلال کے خوگربنیں عادات میں استقلال قوموں کے امتیازی امور میں شمار ہوتا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ قوم میں دینی لسانی اور ادبی استقلال قوی سے قوی تر ہو جاتا ہے،اسی کو قومی ثفافت کہتے ہیں،اسی بنا پر عمرفارق ؓ فوجیوں کے قواد(جرنیلوں) اور عمال(افسروں) کو عربوں کی عادات پر موافقت کی تاکید کرتے تھے۔
ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
'' لیس منا من تشبَّہ بِغیرِنا''
جو ہمارے غیر(غیر مسلم قوموں) کے ساتھ مشابہت اختیار کرے وہ ہم سے نہیں۔
حافظ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیںغیر مسلوں سے تشبّہ کے حرام ہونے میں کوئی کلام نہیں اس کے ساتھ کافر ہوجانے میں کلام ہوسکتاہے۔
عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں:
''من بنی بارض المشرکین وصنع نیروزَھم ومھرجانَھم تشبَّہَ بھم حتی یموتَ حُشِرَ مَعَھُمْ ''
جو مشرکین کی زمین پر گھر بنائے نیروز مہرجان(مجوس کے میلے) منائے ان کے ساتھ آخری دم تک مشابہت کرے قیامت کے دن انہیں کے ساتھ اٹھے گا۔
معین المفتی میں ہے جو کفار کے ساتھ عمداً مشابہت کرے اور نصاری کی نشانی لگائے یا جین پہنے یا مجوس کی ٹوپی پہنے کافر ہو جاتاہے،جب اسلام کی توہین کا ارادہ کرے اگر ایسا نہ کرے توگہنگار ہو جاتاہے۔(یعنی کافر نہیں ہوتا)ابو السعود اور حموی کہتے ہیں۔اس وقت کافر ہوتا ہے جب اسلام کی توہین کا ارادہ کرے،اگر ایساارادہ نہ کرے تو گنہگار ہوتا ہے۔اسی طرح مالکیہ اور حنابلہ کی کتابوں میں لکھا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ رسوم تیجا۔ساتواں اور چالیسواں ہندووں کی رسوم ہیں اور عید میلاد نصاری کے میلادِ عیسیؑ کی نقل ہے۔اگرچہ بقول طاہرا لقادری صاحب کے شرعی عید نہیںہے تو پھرمشابہت نصاریٰ کی ضرور ہے، اس تشبّہ سے روکا گیاہے تاکہ اسلام کے تہواروں کا اپنا تشخص قائم ہو۔
خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں۔میں کہتا ہوں فاتحہ درود کرنے والوں کو ایصال ثواب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ محض اپنی ناموری کیلئے سوئم ،چہلم کی رسمیں ادا کرتے ہیں۔ سوئم اور چہلم دسویں بیسویںکا رواج رسول اللہﷺ کی سنت سے ثابت نہیں ہے بلکہ یہ رسمیں مسلمانوں نے ہندووں سے سیکھی ہیں۔(رسالہ درویش یکم جون 1938؁ئ)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وضاحت:
سوال: تشبہ بری بات میں مکروہ ہوتا ہے۔
جواب: الاستاذ المحدث گوندلویؒ اس سوال کے جواب میںفرماتے ہیں۔'' تشبہ سے ان امورمیں مشابہت مراد ہے،جو فرض سنت نہ ہوں نہ ضروری امور ہوں جن سے چارہ نہ ' 'ہو حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ایک دفعہ کسی عذر کی بنا پر بیٹھ کر جماعت کرائی۔صحابہ نے آپ کی اقتداء کھٹرے ہوکر شروع کی رسول اللہ ﷺ نے اشارہ کیا (کہ بیٹھ جاؤ) سب بیٹھ گئے سلام کے بعد آپﷺ نے فرمایا:
''ان کدتم ان تفعلوافعل فارس والروم'' (صحیح مسلم)
تم قریب تھے کہ فارس وروم کا سا فعل کرو۔
اس کو فارس وروم کا فعل قرار دیا ہے،اس کا مطلب یہ نہیںکہ وہ نماز میں امام کو بٹھاکرکھڑے رہتے تھے بلکہ وہ انپے بادشاہوں کے پاس کھڑے رہتے تھے حالانکہ بادشاہ بیٹھے رہتے تھے۔پس معلوم ہوا کہ تشبہ میں یہ ضروری نہیںکہ ہر طرح سے فعل برابر ہو بلکہ بعض کا وجوہ میں اتفاق کرنے سے مشابہت پیدا ہو جاتی ہے۔
احمد رضاخان کہتے ہیں:
تشبہ کیلئے ایک ہی بات میں مشابہت کافی ہے۔( ملفوظات حصہ دوم ، ص:۱۰۲)
سوال : اہل اسلام نے غیر قوموں سے جنگی آلات لئے۔
جواب: کفار کا دفاع فرض ہے اور آلات اس کے اسباب ہیں جس ہتھیار سے دفاع ہوسکے اس کا استعمال فرض ہوگا اور فرائض میں تشبہ نہیں ہوتااسی طرح دیگر امور مشروع میںتشبہ معتبر نہیں ۔یہی حال امور طبّیہ کا ہے۔بشرطیکہ ان کی تبدیلی میں اختیار نہ ہو۔قرآن مجید میں ہے{ لایکلف اللّٰہ نفسا الاوسعھا} اللہ تعالیٰ ہر جان کو طاقت کے مطابق مکلف بناتا ہے۔
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ تشبہ ثابت کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ ہر چیز میں مشابہت ثابت کی جائے۔
مطلب یہ کہ کفار سے صنعت کاری لی جا سکتی ہے اور ان کی گنہگاری سے پرہیز ضروری ہے لہذا مذکور ہ بالا بدعات صدقہ کی نئی نئی صورتوں عید میلاد اوردعابعد جنازہ قبل از دفن کے ممنوع ہونے میں بدعت ،اصرار اور تشبہ وجہ ممانعت ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تیسرا پہلو
بدعت کی حقیقت :موصوف بدعت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے صفحہ ۱۶ پر لکھتے ہیں کہ یہ بات پہلے بیان ہو چکی ہے کہ شریعت مطھر ہ نے نئی چیز کو ہرگز بدعت قرار نہیں دیا ہے،سوچنے کی بات ہے کہ دین اسلام صرف چند صدیوں تک کیلئے قابل عمل نہیں یہ تو قیامت تک کیلئے قابل عمل ہے اور یہ بات بھی بالکل ظاہر ہے کہ قیامت تک ہزاروں لاکھوںنئی چیزیں ایجاد ہوں گی اسلام کی تبلیغ کیلئے بھی اور اسلام کی شان وشوکت کے اظہار کیلئے بھی،زمانہ کے تقاضوں کے مطابق نئے نئے طریقے ایجاد ہوتے رہیں گے اگر ان سب چیزوں کو بدعت قرار دے دیا جائے تو اسلام کا دامن بالکل تنگ ہوکر رہ جائے گا۔
قابل غور:
اوپر کی سطور میںموصوف فرماچکے ہیں کہ جس طرح شرک بہت بڑا گناہ ہے اس طرح بدعت بھی بہت بری چیز ہے۔ جس طرح مشرک کے سب اعمال اکارت جاتے ہیں۔اسی طرح بدعتی کی بھی اللہ تعالیٰ کوئی نیکی قبول نہیں فر ماتا ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کے پیش نظر ہر مسلمان کو شرک اور بدعت سے بہرصورت بچنا چاہیے کیونکہ نجات بہر صورت کتاب وسنت سے وابستگی ہی میں ہے۔
گذشتہ صفحات میں ہم نے جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دینی امور میں جو نیا کام بطور دین کے ایجاد ہووہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ضلالت ہے۔اس بات سے مولّف رسالہ"بدعت کی حقیقت "کو بھی اتفاق ہے اور یہ کہ بدعت شرعی ناقابل تقسیم ہے یعنی یہ بدعت حسنہ اور سیئہ کی طرف منقسم نہیں ہوتی ''وکل بدعۃ ضلالۃ''ہر بدعت گمراہی ہے اس کے باوجود موصوف اپنے معمولات میں بعض چیزوں اور اعمال کو جو دین میں بالکلیہ نوایجاد ہیںیا بعض جزیات میں نئے ہیں،بدعت کہنے سے گریزاں ہیں ہمارے خیال میںانہوں نے بدعت کا مفہوم اور اس کی حقیقت سمجھنے میں لغزش کھائی ہے۔
موصوف نے بطور دین کے اصلی اور اضافی کاموں کو مباح قرار دے کر جواز کا فتویٰ صادر فرمایا ہے اور اس کے بدعت ہونے پر یہ شرط ذکر کی ہے کہ اس میں جب تک ممانعت اور نہی وارد نہ ہوہم اس کے مجاز ہیں کہ اپنی صوابدید کے مطابق لکھتے ہیں کہ جوبدعت اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف ہو وہی بدعت ضلالت اور سیئہ ہے اور جوبدعت اللہ اوراس کے رسول ﷺ کے احکام کے موافق ہوگو اس کی پہلے سے کوئی مثال نہ ہووہ ہرگز بدعت نہیں ہے جیسے صدقہ خیرات کی نئی شکلیں عید میلاد۔جنازہ کے بعددفن سے پہلے وغیرہ معمولاتِ اہل سنت بریلویہ ،کہ اذان سے پہلے یا بعدمیں برکت کیلئے درود شریف پڑھتے ہیں۔اس کیلئے بدعت کی نہایت آسان پہچان بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''ما احدث قوم بدعۃ الا رفع مثلھا من السنۃ'' (مشکوۃ ،ص : ۱ ۳ )
یعنی بدعت وہ ہے جس سے سنت بدل جائے اگر کسی عمل سے سنت نہیں بدلتی تو وہ عمل بدعت بھی نہیں کہلائے گا
نیز موصوف لکھتے ہیں مذکورہ اعمال کے بجالانے سے دین میں کونسی کمی اور نقصان واقع ہوتا ہے۔
ہم نے موصوف کی پوری عبارتیںنقل کر دی ہیں تاکہ قارئین کو موصوف کی غلط فہمی یا مغالطہ آمیزی پر شرح صدر حاصل ہو۔وباللّٰہ التوفیق
بنیادی طور پر تمام مسلمانوں کا عقیدہ اور اتفاق ہے کہ دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
{ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمْ الِاسْلَامَ دِیْنًا} الآیۃ
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اورتمہارے اوپراپنی نعمت تمام کر دی اورتمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند فرمایا۔
جب اس آیت کا نزول ہوا تو عمرفاروقؓ نے روتے ہوئے فرمایا''ما بعد الکمال الا النقصان'' تکمیل کے بعدنقصان اور کمی کاہی اندیشہ ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
امام مالکؒ سے بدعت کی تردید:
یہ آیت کریمہ دین میں کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں رکھتی اور اس کا مطلب امام مالک ؒامام ِدارالہجرت یوں سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں
''من بدع بدعۃ فیراھا حسنۃفزعم ان محمدا قد خان الرسالۃ'' لقولہ تعالی{ٰ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمْ الِاسْلَامَ دِیْنًا} الآیۃ'' فمالم یکن یومئذدینالم یکن الیوم دیناً '' (الاعتصام للشاطبی ؒالاحکام لابن حزم ص:۵۸،جلد:۶)
جو شخص دین میں بدعت ایجاد کرے پھر اسے حسنہ اور اچھی کہے تو اس نے یہ گمان اور زعم واعتقاد رکھا کہ رسول اللہ ﷺنے رسالت میں (معاذاللہ )خیانت کی ہے۔سو جو بات اِس آیت کے نزول کے وقت دین نہ تھی وہ آج بھی دین نہ ہوگی ۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ عمرفاروق ؓکا کامل دین میں نقصان سے یہ مقصدنہ تھا کہ مصحف شریف یااسوئہ رسول ناقص ہو جائے گا بلکہ یہی تھا کہ کمًّا وکیفًاومرتبۃً ہماری طرف سے اس کی تعمیل میں کوتاہیاں سرزد ہوںگی۔اسی کو نقصان ِدین سے تعبیر فرمایا اور اس پر رودئیے۔
'' الحدیث یفسر بعضہ بعضا '' کے مصداق رسول اللہ ﷺنے عورتوں کو عیدکے موقعہ پر فرمایا کہ میں نے زیادہ عورتوں کو اہل نار یعنی دوزخی پایا ہے لہذا صدقہ کریںاور تم سے بڑھ کردین میں اورعقل میں ناقص وکوتاہ کسی کو نہیں دیکھا،سوال کیا گیانقص ِدین وعقل کیاہے فرمایا کئی دنوں تک نماز سے محروم رہتی ہیں یہ نقص دین ہے اور دوعورتوں کی گواہی ایک مرد کے مساوی ہوتی ہے یہ نقص عقل ہے ۔ اِس کو دین کے نقص سے تعبیر فرمایا حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی وارد کردہ جبلی فطری حالت ہے۔
لہذا ارادۃً مکلفین کی کوتاہی بالاولیٰ باعث نقصان دین ہوگی اور یہی عمرفاروق ؓ کو فکر لاحق تھی۔
بہرصورت دین اپنی جگہ مکمل ہے اس میں کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے اور یہ قیامت تک کے مسائل وحوادث کو محیط ہے اور امام مالک ؒ کے استنباط سے تکمیل دین کا اظہار مقصود ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
امام مالکؒ بدعت کا رد فرماتے ہیں:
سفیان بن عیینہؒ فرماتے ہیں۔ '' میں نے امام مالکؒ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا جو مدینہ سے یا میقات سے پہلے احرام باندھتاہے تو انہوں نے فرمایا:'' یہ اللہ اوراس کے رسولﷺ کا مخالف ہے،مجھے دنیا میں اِس کے فتنہ میں مبتلاء ہونے اورآخرت میں درد ناک عذاب ہونے کا ڈر ہے اور پھر آیت تلاوت کی
{فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃ'' اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَاب'' اَلِیْم'' ہ}(الآیۃ)ٓٓٓٓ
ان لوگوں کو جو محمدﷺکے امر کی مخالفت کرتے ہیں ڈرناچاہیے کہ ان کوکوئی آزمائش یادردناک عذاب اپنی لپیٹ میں نہ لے لے(سورۃ النور۶۳) پھر میقات کی حدیث بیان کی ۔
مذکور الصدر سوال اور امام مالکؒ کے جواب سے یہ صاف طورپرمعلوم ہوتاہے کہ رسول اللہﷺ کے مقرر کردہ میقات میں اضافہ آپﷺ کی مخالفت ہے کیونکہ حاجی کا احرام میقات متعینہ سے پہلے پہننے سے میقات میں تو بظاہر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی جیسے ہمارے بادشاہ لوگوں کا خیال ہے کہ جنازہ کے مسنون عمل کے بعد دفن سے پہلے اباحت کی اوٹ میں سنت میں کونسی تبدیلی آجاتی ہے حالانکہ ایسی ہی تبدیلی اور اضافے کو امام مالکؒ رسول اللہ ﷺکی مخالفت اوردین کا فتنہ اور آخرت کے درد ناک عذاب کا مستوجب فرما رہے ہیں۔
خلیفہ رابع علیؓ بدعت کا رد فرماتے ہیں:
ایک شخص عید گاہ میںعیدکی نماز سے پہلے نفل پڑھنے لگا تو علی المرتضیٰ ؓ نے اسے روکا تو اس نے کہا کہ میں خیر ہی کا ارادہ رکھتا ہوں اور ثواب کا طالب ہوں تو آپ نے فرمایاکتنے خیرکا ارادہ رکھنے والے خیر پانے سے محروم رہتے ہیں چونکہ رسول اللہ ﷺ نے عید گاہ میں عید سے پہلے نماز نہیں پڑھی اس لئے تیری نماز عبث ہے اور عبث حرام ہے اور شاید کہ اللہ تعالیٰ تجھے رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے عذاب میں مبتلاء کردے آپ کے آخری لفظ ہیں
''فلعلہ تعالی یعذبک لمخالفتک رسول اللّٰہﷺ '' (مجمع البحرین)
اب مولّف کایہ کہنا کہ جو بدعت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف میں ہورہی ہو وہی بدعت ضلالت اورسیئہ ہے۔ اگرخلاف سے اِن کی مراد وہی ہے جو امام مالک ؒاور علی المرتضیٰؓ کی ہے تودرست اور اگر کچھ اور ہے تو دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔کہ
{اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارناالباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ } (اللّٰھم آمین)
موصوف کا داؤ:
آگے چل کرموصوف فرماتے ہیں۔آمدم برسرِ مطلب۔
بدعت وہ ہے جو رافع سنت ہو یعنی جس کے کرنے سے نبی اکرم ﷺ کا تعلیم فرمایا ہو اطریقہ بدل جائے اور جس عمل سے نبی اکرم ﷺ کی سنت ختم نہ ہووہ چیز ہرگز بدعت نہیںہے۔صفحہ ۲۱۔
ان کا خیال ہے کہ ہربدعت چونکہ سنت کو مٹاتی ہے اس لئے بدعت کااطلاق اُسی فعل پر ہوناچاہیے جو سنت فِعلیہ کے خلاف ہو پس اس صورت میں حدیث '' ما احدث قوم بدعۃ الا رفع مثلھا من السنۃ '' (مشکوۃ ، ص: ۳۱) (جب کوئی قوم بدعت نکالے تواس سے اسی قدر سنت اٹھ جاتی ہے)یعنی جو بدعت مخالف سنت ایجاد ہوگی ظاہر ہے کہ سنت کو مٹادے گی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
موصوف کے داؤ کا ازالہ:
قارئین کرام مکمل روایت ہم آپ کے سامنے پیش کر دیتے ہیں ،اس کو مکمل سامنے رکھ کر غور کریں۔
''عن غُضَیف بن الحارث قال بعث الیّ عبدالملک بن مروان فقال یا ابااسماء انّا قداجمعناالناس علیٰ أمرین۔قال وماھماقال رفع الایدی علی المنابر یوم الجمعۃ والقصص بعد الصبح والعصر فقال انھما امثل بدعتکم عندی ولست مجیئک الی شیء منھا۔قال لِمَ۔قال لان النبی ﷺ قال ما احدث قوم بدعۃ الا رُفِع مثلھامن السنۃ ''فتمسّک بسنۃ خیرمن احداث بدعۃ۔ (اخرجہ احمد۱۷۴۳۳ بسند جید فتح الباری، مشکوٰۃ :۳۱)
غضیف بن حارث فرماتے ہیں ۔خلیفہ عبدالملک بن مروان نے میری طرف فرمان بھیجا کہ ہم نے لوگوں کوجمعہ کے دن منبر پر( دعا میں) ہاتھ اٹھانے اور صبح اور عصر کے بعدوعظ کرنے پر جمع کیاہے پس غضیف نے کہا تمہاری (بنوامُیہ کی)سب بدعات سے یہ دونوں بدعات (نسبتاً)اچھی ہیں مگر میں کسی بدعت کے قبول کرنے میں تمہاری ا طاعت نہیں کروں گاکیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ''جب کوئی قوم بدعت ایجاد کر ے تو ان سے اسی قدر سنت اٹھالی جاتی ہے'' اس لیے سنت پر عمل پیرا ہونا بدعت کے احداث سے بہترہے(مسند احمد)
معلوم ہوا صحابی ہر بدعت کو رافع سنت قرار دے رہے ہیں اور موصوف ادھور ی بات سے اپنا مطلب نکال رہے ہیں{ یؤمنون ببعض ویکفرون ببعض}
المحدث محمد گوندلوی ؒفرماتے ہیں:
اس حدیث میں جن دو چیزوں(جمعہ کے خطبہ میں دعا کرتے ہوئے ہاتھ اٹھانے صبح اور عصر کے بعد وعظ کرنے) کو صحابی نے بدعت (ناقابل عمل جس پر عمل کرنے سے سنت کے اٹھ جانے کی سزا ملتی ہے)بیان کیا ہے وہ دونوں چیزیں صرف سنت ترکیہ اور بدعات کی مذمت اور اس سے ممانعت کی ادلّہ کے خلاف ہیں کسی اور نہی کے خلاف نہیں۔ (الاصلاح ص:۱۸،۱۹،ج:۲)
پس ثابت ہوا کہ بدعت کی یہ تعریف کرنا کہ وہ کسی خاص نہی کے خلاف ہویاکسی مشروع کے چھوڑنے کی صورت ہو بالکل ہی بے بنیاد اور غلط ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں اس صورت میں بدعت قبیحہ ٹھہرتی ہیں۔جب شرعی بدعت کی وہ تعریف کی جائے جو ہم نے کی ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں اس معنی میں خلاف حق نہیں جو اہل بدعت نے مراد لیاہے اور ا س کی تائید علی المرتضیٰؓ کے سابق مذکور اثر سے بھی ہوتی ہے ان کایہ اثر صاف طور پر دلالت کرتاہے کہ جو دینی فعل رسول اللہ ﷺ نے نہ کیاہو اور اس پر ترغیب بھی نہ دی ہو اس کا کرنا رسول اللہ ﷺکی مخالفت ہے اور بدعت پر عام ادلّہ سے استدلال کرنا درست نہیں ورنہ سائل کہہ سکتاتھا کہ نماز پڑھنے کی عام اجازت ہے۔اس وقت نماز پڑھنے کی خاص طور پرممانعت وارد نہیں ہوئی لہذا جائز ہے پس علیؓنے جو اس وقت نماز پڑھنے کو رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کہاہے تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہ سنت ترکیہ کے خلاف ہے لہذا جب مسنون عمل میں کمیت وکیفیت اور رتبہ ومرتبہ کے لحاظ سے زیادتی اور نقصان ہو تو یہی کمی بیشی بدعت شرعی مذموم اور ضلالت کہلائے گی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اہل کتاب کی مشابہت اورعمرؓ :
فرض نماز کے بعد متصل اُسی جگہ پر نفل ادا کرنے والے شخص کوخلیفہ ثانی عمرؓ کی شرزنش اور آپ کیلئے رسول اللہ ﷺ کی تائید اور دعا باب الرجل یتطوع فی مکانہ الذی صلیّٰ فیہ المکتوبۃمیں امام ابودائود ، اَزرق بن قیس سے روایت کرتے ہیںوہ ابو رمثہ سے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں آپﷺ کی اقتداء میںفرض پڑھنے کے فوراًبعد کھڑاہو کر نفل پڑھنے لگا۔تو عمرؓنے اچھل کر اس کوگریبان سے پکڑ کر جھنجوڑا اور فرمایا کہ بیٹھ جاؤتاکہ اپنے فرض ونفل میں فاصلہ کرو اہل کتاب کی بربادی اور ہلاکت کایہی سبب تھا کہ انہوں نے اپنی نمازوں میں فاصلہ یعنی فرائض ونوافل کو الگ سے ادا نہیں کیا تو رسول اللہ ﷺ نے عمر ؓ کی طرف نظر اٹھاکر دیکھا اور فرمایا ''اصاب اللّٰہ بک یاابن الخطاب'' اے ابن خطاب ! اللہ تعالیٰ تیرا بھلاکرے۔(سنن ابی دائو مع عون المعبود، ص: ۳۸۵، ج:۱)
جنابِ عمرؓ کا مقصد یہ تھا کہ ہم سے پہلے لوگوںنے نوافل کو فرائض سے ایسے ملا دیا کہ تمام کو واجب کا درجہ دینے لگے اور یہی شریعتوں کی تبدیلی ہے جو بالاِجماع حرام ہے۔اس سے معلوم ہواکہ نوافل کافرائض سے ایسے اتصال کرنا جس سے وجوب کاتاثّر ملے ممانعت میں شدیدتر ہے۔
(فائدہ) یہاں نوافل سے روکا نہیں گیابلکہ باہم فرض ونفل کے ملاکر پڑھنے پر شرزنش فرمائی گئی ہے اور اسے شریعت کی شکل بگاڑ نے اور تحریف کرنے سے تعبیر فرمایا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہلاکت وبربادی کی وعید سنائی گئی ہے۔جس کی تصدیق فرما کر رسول اللہ ﷺ نے عمرؓ کیلئے اصابت وبھلائی کی دعا کا مژدہ سنایا ہے۔
یہاں اصل اباحت(مباح) کی بنیاد پر اپنے معمولات پر اصرار کرنے والوں کو جو پیغام رسالت ﷺ ملتا ہے قابل غور اور باعث تحذیر ہے۔
مذید تنبیہ و تحذیر:
مذکورہ واقعہ اور حدیث شریف سے واضح ہے کہ یہ نوافل مسنون تھے صرف ان کی ادائیگی میں سنت کا لحاظ نہیں رکھا گیا تو سرزنش ہوئی ایسے ہی اگر مسنون اعمال میں تنوّع ہو جیسے کہ صلوٰۃ خوف میں مختلف اور کئی طور پر رسول اللہ ﷺ کی ادائیگی کا ذکر ملتاہے۔چنانچہ ان میں سے کسی ایک کیفیت پر ادائیگی مسنون ہوگی اور ایسا اختلاف مسنون عمل میں مباح کہلاتاہے۔
لیکن ہمارے بھائیوں کے مباح اور مسنون مباح میں کوئی تقابل کی گنجائش ہی نہیں۔ یہ مباح تو اپنا اختراع ہے جس کیلئے طرح طرح سے حیلے اختیار کیے جاتے ہیں۔لیکن جب اصل ہی ثابت نہ ہووصف کی تبدیلی کی کیا بات ہوگی زیر نظر حدیث میں فرض کے متصل صحابی نے اپنی نشست سے کھڑے ہوکر گویاکیفیت بدلی تو عمرؓ نے اُسے پکڑ کر جھنجوڑا۔
اپنا محاسبہ کریں:
آپ لوگ مقتدیوں کو صفیں توڑکر بِٹھاکر دعاکاحیلہ کرتے ہیں کھڑے بیٹھے ہونے سے کیا فرق پڑتاہے اصل بات اس کی مشروعیت کی ہے آپ اپنے مباح کو شریعت بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا علم مخفی رکھاہے اور اس پر بحث کرنے سے منع کر دیاہے اور ایسے بے جا تکلف فرماکر اختیارکرنے سے روک دیاہے اوراسے سے مشتبھات میں شمار کیا ہے جس میں پڑنے سے حرام کا ارتکاب ہوتا ہے اور اس سے پرہیز کرنے سے دین میں نقص سے حفاظت ہوتی ہے ۔و باللہ التوفیق
خلط سے بچائو اور اصابت کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی سے ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کیا امر دین اور دنیامیں کوئی فرق نہیں؟
اہل بدعت مخالف دین اس امر کو سمجھتے ہیں جس کی ممانعت وارد ہو چکی ہو۔امر دین اور امر دنیا میں کوئی فرق نہیں کرتے یہ ان کی فاش غلطی ہے کیونکہ دین اور دنیا کے امور میں اختلاف ہے،دینی امور میں یہ قانون ہے کہ جب تک شریعت سے کوئی امر ثابت نہ ہو اس کا کرنامنع ہوتاہے اور الاصل فی الاشیائِ التحریم کا مطلب بھی یہی ہے ۔
دنیاوی امور میں اصل یہی ہے کہ جب تک ممانعت وارد نہ ہواس وقت تک اس کا کرناجائز ہوتا ہے۔
د ینی امو ر میں اصل حرمت ہے ا ور د نیا وی امو رمیں اصل اباحت ہے
شاہ ولی اللہؒ حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں۔
''دین کا کا م نبی کریم ﷺ کی سنت کی پیروی پر موقوف ہے اور سیاست کبرٰی وحکومت کا انتظام خلفاء کی ان باتوں کی پیروی کرنے پر موقوف ہے جو نظم ونسق اور جہاد وغیرہ کے متعلق اپنے اجتہاد سے بتائیںجب تک وہ شریعت میں بدعت نہ ہویا نص کے مخالف''۔
المحدث الحافظ محمد گوندلوی ؒ فرماتے ہیں۔
''اس عبارت میں شاہ صاحب نے انتظامی امو ر میں حکام کی اتباع کو لازم قرار دیتے ہوئے دو چیزوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے''۔
jجب وہ حکم بدعت ہو kنص کے مخالف ہو
اس جگہ مخالف ِنص کامطلب یہ ہے کہ حاکم کا حکم شریعت کے حکم کی ضد پر ہو مثلاً شر یعت میں حکم ہو کہ کرواور وہ کہے کہ اس کے خلاف کرو یا شریعت میں ہوکہ یوں کروو ہ کہے کہ اس طرح نہ کرو۔
بدعت کو اس سے الگ ذکر کیا گیا ہے۔پس معلوم ہوا کہ بدعت کے تحقق کیلئے کسی خاص نص کی مخالفت ضروری نہیں،بلکہ سنت ترکیہ کے خلاف ہونے کو بھی بدعت کہ سکتے ہیں۔
پس امور دنیا میں" منع کی صورت" نص کی مخالفت اور امر دین میں" منع کی صورت "اس کا بدعت ہونا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی عبادت اسی طور طریقہ سے کرنی چاہیے جو اس نے پیغمبروں کی زبان پر متعین فرمایاہے کیونکہ عبادت اس کا حق ہے اور اس کاحق وہی بن سکتاہے جواس نے ثابت کیاہو اور اس پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہو اور اس کو مشروع کیا ہو۔لیکن خریدوفروخت شرطیںاور معاملات ان میں انسان کو معافی ہے جب تک کسی امر کی حرمت وارد نہ ہو کرسکتاہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جناب شیح احمد سرہندی المعروف بہ (مجدد الف ثانی کا فتویٰ)
خواجہ عبدالرحمٰن مفتی کابل کو سنت کی پیروی اور بدعت سے پرہیز کرنے اور ہر بدعت کے سیئہ ہونے میں لکھا ہے۔
آپ کا مکتوب فارسی میں ہے ،فرماتے ہیں۔بندہ حق سبحانہ وتعالیٰ سے عاجزی، انکساری ،زاری اور محتاجی سے پوشیدہ اور ظاہر سوال کرتاہے کہ جو چیزدین میں نئی اور بدعت نکالی گئی ہے جو خیرالبشر اور خلفاء علیہ وعلیھم الصلوات والتسلیمات کے زمانے میںنہ تھی۔اگرچہ اس کی روشنی صبح صادق کی طرح ہواللہ تعالیٰ اس ضعیف اور اس کے ساتھ علاقہ رکھنے والوں کو اس نئی بات میں گرفتار نہ کرے اور اس بدعت کے فتنہ میں نہ ڈالے۔
ُ
لوگ کہتے ہیں کہ بدعت دو قسم پر ہے ۔حسنہ اور سیئہ
حسنہ اس نیک کام کو کہتے ہیںجو رسول اللہﷺاور خلفاء راشدین علیہ وعلیہم الصلوٰ ۃوالتسلیماۃ کے زمانہ کے بعد ہوئی یہ سنت کی رافع نہیں اور سیئہ وہ ہے جو سنت کواٹھائے ،یہ فقیر کسی بدعت میں خوبی اور روشنی مشاہدہ نہیں کرتاصرف تاریکی اور گندگی محسوس کرتاہے اگر بالفرض بدعت کا کام آج کے دن بینائی کی کمزوری سے تروتازہ نظر آئے۔قیامت کے دن جب لوگ تیز نظر ہوجائیں گے اُس وقت معلوم کریںگے کہ سوائے پشیمانی اور نقصان کے کچھ نتیجہ نہ تھا۔
؎ وقت صبح شود ہمچو روز معلومت کہ باکہ باخستہ عشق درشب ویجور
سید البشر علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
''مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِناَ ھٰذا مالَیْسَ مِنْہ فَھُوَ رَدٌ ''
ُٔ جو شخص اس دین میں نئی بات نکالے وہ مردود ہے
جو چیز مردود ہوخوبی اس میں کس طرح پیداہوسکتی ہے(اس کے بعد دو حدیثیں جو بدعت کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں لکھ کر فرماتے ہیں۔جس وقت ہر نئی بات بدعت ہوئی اور ہر بدعت گمراہی پس بدعت میں خوبی کہاں سے آئی؟ حدیث سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ ہر بدعت سنت کو مٹانے والی ہے کسی خاص بدعت کی خصوصیت نہیں ۔پس ہر بدعت سیئہ ہوئی۔
 
Top