• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برزخی زندگی اور اعادہ روح

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
برزخی زندگی اور اعادہ روح

محمد رفيق طاهر​

سب سے پہلے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ عذاب ِ قبر برحق ہے۔ قبر وبرزخ کے اندر سزاو جزاکا ہونادرست ہے، اللہ کے جو نیک بندے ہوتے ہیں، مرنے کے بعد قیامت سے پہلےان کی روحیں ان کے بدنوں میں لوٹا دی جاتی ہیں، انہیں راحت وآرام پہنچتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے نافرمان بندے ہوتے ہیں، ان کی روحیں، مرنے کے بعد قیامت سے پہلے ان کے بدنوں میں لوٹا دی جاتی ہیں اور ان کو سزا وعقاب ہوتا ہے۔ قبرو برزخ کے اس عذاب پر یا ثواب و جزا پر بہت سی آیات و احادیث دلالت کرتی ہیں۔
مثلاً: " وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ "
کاش کہ آپ دیکھ لیں جب ظالم لوگ موت کے سکرات میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھوں کو پھیلانے والے ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ اب تم اپنی جانیں نکالو آج تمہیں رسوا کن عذاب دیا جائے گا۔
یعنی جس دن بندے کی روح نکالی جارہی ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمارہے ہیں کہ اسی دن ہی عذاب اس کو دیا جائے گا۔اور اسی دن قیامت نہیں قائم ہوئی بلکہ یہ قبروبرزخ والا عذاب ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
عذاب قبر کہاں ہوتا ہے ؟

کچھ لوگ ایک اعتراض کرتے ہیں کہ بندہ ابھی فوت ہوا ہے، سامنے اس کی میت پڑی ہوئی ہے، اس کو اگلے دن دفنایا جائے گا، لیکن قرآن مجید فرقان حمید کی یہ آیت کہہ رہی ہے کہ جس دن روح نکلی، اس کے بعد اسی دن عذاب شروع ہوجاتا ہے۔ چاہے اس دن میت دفن کی جائے یا نہ ۔تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب ِ قبر تو ہوتا ہے لیکن اس دنیا والی قبر میں نہیں، یہ قبر وبرزخ کہیں آسمانوں میں ہے ، جہاں پر عذاب ہوتا ہے اور لوگوں کو راحت بھی پہنچائی جاتی ہے۔
یہ اعتراض کرنے کے بعد چند ایک دلائل ایسے بھی پیش کیے جاتے ہیں جن میں مرنے کے بعد جنت کی نعمتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔مثلاً :اللہ رب العالمین شہداء کے بارہ میں فرماتے ہیں :" أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ " [آل عمران : 169]
زندہ ہیں, اللہ کے پاس ان کو رزق دیا جاتا ہے۔
نیز فرمایا: " فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ "اللہ نے جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے یہ لوگ اس پر خوش بھی ہیں۔ ان کو خوشخبریاں بھی دی جاتی ہیں۔
اسی طرح نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ شہداء احدکی روحیں سبز رنگ کے پرندوں میں ہیں، وہ جنت کے جو مرضی پھل چاہیں، کھائیں، خوشہ چینی کریں۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ اس قبر کے اندر عذاب اور سزا نہیں بلکہ عذاب کےلیے آسمانوں سے اوپر کوئی برزخ و قبر ہے، جہاں پر اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔اور روح اس جسم کے اندر نہیں لوٹتی، بلکہ اس روح کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے۔
اعتراض کا جواب :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: " وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ " اس مرنے والے کے درمیان اور دنیا والوں کے درمیان آڑ اور پردہ ہے۔
نیز فرمایا: " أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ " [البقرة : 154]
یہ زندہ ہیں ,ان کی زندگی کا تمہیں شعور نہیں ہے۔
یعنی یہ غیب کی باتیں ہیں، جن کے بارے میں ہمارا علم صرف اس قدر ہے جس قدر اللہ تعالیٰ نے یا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتادیا ہے، ایک مؤمن بندے پر لازم ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بتایا ہے، اس پر غیر مشروط ایمان لائے۔ اس کی سمجھ اور عقل میں کوئی بات آتی ہے ، پھر بھی مانے، اس کی عقل اور سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی ، پھر بھی مانے۔ یہ ایمان لانے کا تقاضا ہے۔
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: شیطان انسان کے دماغ میں وسوسہ پیدا کرتا ہے، دل کے اندر خیال ڈالتا ہے ، فلاں کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں کو کس نے پیداکیا؟ شیطان دماغ میں سوال کھڑا کرتا ہے "من خلق الله" تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جب تم ایسا وسوسہ پاؤ تو سمجھ جاؤ کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ تمہیں اس کے شر سے، اس کے وسوسہ سے محفوظ رکھے اور کہو آمنت باللہ
[ صحيح مسلم كتاب الإيمان باب بيان الوسوسة من الإيمان (134)]
یہ ایمان کا بنیادی اصول اور قاعدہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے فرامین اور امام الانبیاء جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کے فرامین کو من وعن ، بلا چوں چرا، تسلیم کیا جائے ۔ سو اللہ رب العالمین نے جیسی خبر قرآن مجید میں دی ہے، نبیﷺ نے جیسی خبر حدیث میں دی ہے، ہماری عقل اس کو سمجھنے سے اگر کوتاہ ہے تو ہوتی رہے۔ہمارا کام ایمان لانا ہے۔ بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو انسان کی عقل سے بالاتر ہیں۔ انسان کی عقل چھوٹی سی اورمحدود سی۔ اور اللہ رب العالمین کا علم بڑا وسیع ہے، اللہ تعالیٰ کی کائنات بڑی وسیع ہے۔انسان کی عقل میں سما نہیں سکتی۔
اب دیکھئے! یہ اعتراض کہ قبر میں تو اس کو دفنایا ہی نہیں گیا۔ اور منکرین ِ عذاب قبر ، جو کہتے ہیں کہ عذابِ قبر ہوتا ہی نہیں، وہ کہتے ہیں کہ کئی بندے ایسے ہیں جن کو قبرملتی ہی نہیں۔بم بلاسٹ ہوگیا، چیتھڑے بکھر گئے ۔کسی کو جانورکھا گئے، کسی کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔سمندروں میں بہا دیا گیا، اس کو تو قبر ملی ہی نہیں۔ تو پہلے یہ سمجھ لیں کہ اللہ رب العالمین کے ہاں قبر کیا ہے ؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
قبر کیا ہے؟؟؟

اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں وضاحت کی ہے: " ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21] " اللہ رب العالمین نے انسان کو زندگی دی اور زندگی کے کچھ عرصہ بعد موت دی تو مرتے ہی اس کو قبر دی۔
موت کس کو آئی ہے؟ انسان کو، جو انسان روح وجسم کا مجموعہ تھا۔جو زمین پر چلتا تھاتو یہ روح وجسم کا مجموعہ تھا! " ثُمَّ أَمَاتَهُ " اللہ نے جب تک چاہا اس کو زندگی بخشی، پھر کچھ عرصہ بعد اللہ نے اسے موت دی " فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21]" پھر اسی روح وجسد کے مجموعے کو اللہ رب العالمین نےقبر عطا کردی۔
عربی زبان کا اصول ہے"فا" اور "ثم"ان دونوں کا مطلب ہوتا ہے "بعد، پھر" "ثم " کا معنی بھی "پھر " اور "فا" کا معنی بھی "پھر" لیکن تھوڑا سا فرق ہے۔ "ثم" کے اندر لفظ زیادہ ہیں، اس کا معنی ذرا وسیع ہے۔ "تھوڑی سی مہلت" 'ثم' کا معنى ہوتا ہے کہ 'ثم' سے پہلے جو لفظ استعمال ہوا ہےاور بعد میں جو لفظ استعمال ہوا ہے ان دونوں کے درمیان کچھ وقفہ ہے ۔اور 'فا' کا معنی ہوتا ہے کہ 'فا' سے پہلے جولفظ استعمال ہوا ہے اور جو بعد میں استعمال ہوا ہے ان دونوں کے درمیان وقفہ نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں: ' ثُمَّ 'تھوڑے سے وقفے کے بعد' أَمَاتَهُ ' اس کو موت دی۔' فَ ' موت دینے کے فوراً بعد ' أَقْبَرَهُ' اس کو قبر دے دی۔
تو نتیجہ کیا نکلا کہ مرنے کے بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر بھی ہو، چاہے وہ چارپائی پر پڑا ہو، چاہے زمین کے نیچے دبا دیا گیا ہو، چاہے ریزہ ریزہ ہوگیا ہو، جل کر راکھ ہوجائے، وہ اس کی قبر ہے۔مرنے کے بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوگی ، وہ اس کےلیے قبر ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21]
مسعود الدین عثمانی اور اسکے پیروکار جس آسمانی برزخ وقبر کے دعویدار ہیں اس میں توانکے زعم کے مطابق صرف مرنے والے کی روح جاتی ہے جبکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ تونہیں کہا: 'فاقبر روحہ' اللہ نے اس کی روح کو قبر دی، ۔ بلکہ فرمایا ہے : فَأَقْبَرَهُ جس کو اللہ نے موت دی ہے اسی کو اللہ نے قبر دی ہے۔ موت روح وجسم کے مجموعہ ایک انسان کو ملی ہے ، تو قبر بھی اکیلی روح کو نہیں، اکیلے جسم کو نہیں کیونکہ اللہ نے 'فاقبرروحہ' 'فاقبر جسدہ'نہیں فرمایا یعنی کہ اللہ نے اس کی روح کو قبر دی، یا اللہ نے اس کے جسم کو قبر دی۔بلکہ فرمایا ہے: " ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21] " اللہ نے اس روح وجسم کے مجموعہ انسان کو موت دی اور پھر اسی روح وجسم کے مجموعہ کو قبر بھی عطا کی ہے۔ اسی ایک آیت سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ مرنے کے فوراً بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوتی ہے وہ اس کےلیے قبر ہے۔ اور یہ بھی علم ہو گیا کہ مرنے کے بعد بندے کے جسم میں اس کی روح لوٹتی ہے ، کیونکہ مرنے کے بعد روح لوٹی ہے تو روح وجسم کے مجموعے کو قبر ملی ہے! اگر روح علیحدہ ہوتی، اور جسم علیحدہ ہوتا تو پھر 'فاقبر روحہ واقبر جسدہ' آنا چاہیے تھا، علیحدہ علیحدہ ہوتی بات۔لیکن ایسا نہیں ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
موت کسے کہتے ہیں (موت کی تعریف)

ایک یہ اشکال پیدا کرتے ہیں کہ اگر روح مرنے کے بعد بندے میں لوٹ آتی ہے ، پھر تو بندہ زندہ ہوگیا ، پھر تو مردہ تو نہ رہا۔ کیونکہ بندے کے جسم میں روح ہوتو بندہ زندہ ہے، روح نہ ہوتو بندہ فوت شدہ ہے۔ اسکی بنیاد انکا یہ اصول ہے کہ : جسم کے اندر روح کی موجودگی کا نام زندگی ہے اور جسم سے روح کے نکل جانے کا نام موت ہے۔
حقیقت میں موت اور زندگی کی یہ تعریف ہی ہے غلط۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ بندے کے جسم میں روح نہیں ہوتی ،لیکن بندہ زندہ ہوتا ہے۔اور قرآن مجید میں ہی اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ بندے کے جسم میں روح ہوتی ہے اور بندہ مردہ ہوتا ہے۔لہٰذا یہ تعریف کرنا موت کی کہ روح کا جسم سے نکل جانا موت ہے ، یہ تعریف ہی غلط ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر میں بیان فرمایا ہے: " اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا " اللہ روحوں کو موت کے وقت بھی نکال لیتا ہے اور نیند کے وقت بھی نکال لیتا ہے
سوئے ہوئے کو مردہ نہیں زندہ ہی مانا جاتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ اللہ سوئے ہوئے کی روح کو نکال لیتا ہے اور حالت نیند میں جس کو موت دینی ہوتی ہے ، اس کی روح کو تھوڑی دیر کےلیے روک لیتا ہے۔ جس کو موت نہیں دینی ہوتی ، اس کی روح کو واپس جسم میں لوٹا دیتا ہے ، جس میں روح واپس آتی ہے تو بندہ جاگ جاتا ہے، بیدا رہوجاتا ہے۔ یعنی نیند کی حالت میں بندے کے اندر روح نہیں ہوتی ۔ لیکن کیا وہ مردہ ہے؟ یقینًا نہیں۔ ساری کائنات اس کو زندہ مانتی ہے کہ یہ زندہ ہے، مردہ نہیں ہے۔ لہٰذا موت کی یہ تعریف کرنا کہ روح جسم سے نکل جائے تو موت ہوتی ہے ، غلط قرار پاتی ہے۔ موت کی یہ صحیح تعریف نہیں ہے۔
موت کی صحیح تعریف اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں بیان کی ہے:
" أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاء [النحل : 21] " مردہ ہیں، زندہ نہیں۔
یعنی موت کی تعریف یہ ہے: دنیوی زندگی کے ختم ہوجانے کا نام موت ہے۔
دنیوی زندگی کے ختم ہوجانے کا نام موت ہے۔ لہٰذا روح کا جسم میں لوٹ آنا یہ دنیاوی زندگی کو مستلزم نہیں۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بندہ زندہ ہوگیا۔قیامت سے قبل مرنے والے کے جسم میں روح کا لوٹنا قرآن سے ثابت ہے اور یہی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ ہے !!!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اعاده روح پر دوسری قرآنی دلیل

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: " حَتَّى إِذَا جَاء أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ [المؤمنون : 99] " ان میں سے کسی کو موت آتی ہے، تو وہ کہتا ہے: اے اللہ!مجھے واپس لوٹا دیجئے۔
مرنے کے بعد وہی کہہ رہا ہے جس کو موت آئی ہے۔تو روح اور جسم کے مجموعے کو آئی تھی۔ کیونکہ جب زندہ تھا تو روح وجسم کا مجموعہ تھا ! اکیلا جسم نہیں تھا, نہ ہی اکیلی روح تھی ۔ مرنے کے بعد روح اور جسم کا مجموعہ یہ کلمات کہہ رہا ہے ۔ تو ثابت ہوگیا کہ مرنے کے بعد روح اور جسم اکھٹے ہوتے ہیں۔ تو روح کا لوٹنا بھی قرآن مجید سے ثابت ہوگیا۔ اس میں اشکال والی بات ہی کوئی نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کی روح کہتی ہے: مجھے واپس جسم میں لوٹا دو ۔ عجیب عجیب قرآن کی تاویل کرتے ہیں۔ سچ کہا تھا کسی نے :

احكام تیرے حق ہیں مگراپنے مفسر
تاویل سے کردیتے ہیں قرآن کو پاژند​

اللہ نے یہ تو نہیں کہا کہ جب ان میں سے کسی موت آتی ہے تو 'قال روحہ' اس کی روح کہتی ہے : مجھے لوٹاؤ۔ روح کا لفظ تو اللہ نے نہیں بولا، اپنی طرف سے لگا رہے ہیں۔ اللہ کہہ رہا ہے کہ جس کو موت آئی تھی وہی کہہ رہا ہے کہ مجھے لوٹاؤ تاکہ میں نیک اعمال کروں۔ اللہ فرمائے گا: " كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ" [المؤمنون : 100]
ہرگز ایسا نہیں ہوگا ہاں! یہ بول یہ ضرور بولے گا۔ ان کے اور دنیا کے درمیان قیامت تک کےلیے اب ایک آڑ اور برزخ ہے۔ توقرآن مجید سے بھی ثابت ہے کہ بندے کے جسم میں روح لوٹتی ہے۔
اور رسول اللہﷺ نے واضح لفظوں میں فرمایا ہے: "فتعاد روحہ في جسدہ , " بندہ نیک ہو بد ہو، دونوں کی روح مرنے کے بعد جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔
سنن ابی داؤد(4753) , مسند احمد(389,ط:الرسالة)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
آسمانی قبر میں جزاء و سزا ہونے کا عقیدہ قرآن وحدیث دونوں کے خلاف ہے !!!

منكرين حديث کا عقیدہ ہے کہ عذاب وثواب اس زمین والی قبر میں نہیں بلکہ آسمانوں والی قبر میں ہوتا ہے ، اور وہ اس بات کا بہت ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ لیکن انکا یہ عقیدہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ دونوں کےمتضاد ہے ۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : اور جو بد آدمی ہے اس کی روح کو سختی کے ساتھ نکالا جاتا ہے، ، بدبودار ٹاٹ میں اس کو لپیٹا جاتا ہے۔ اور اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے، آسمان کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے ، لیکن دروازہ نہیں کھلتا۔ ساتھ ہی نبیﷺ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کردی۔" لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء " ان کےلیےآسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ " وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ "یہ جنت میں بھی نہ جائیں گے " حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ [الأعراف : 40] " حتی کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے داخل ہوجائے۔جب تک اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے داخل نہیں ہوجاتا تب تک نہ توا ن کےلیے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی یہ جنت میں داخل ہوسکیں گے۔ مسند احمد(389,ط:الرسالة)
دوسروں پر کفر کے فتووں کی توپ چلانے والے ذرا خود ہوش کے ناخن لیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں: " لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ " دونوں کام نہیں ہوسکتے۔نہ آسمان کے دروازے کھلیں اور نہ یہ جنت میں جائیں۔ " حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ " حتى کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں داخل ہو جائے ۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ روح کے جسم میں لوٹائے جانے کا عقیدہ , رسول اللہﷺ کا عقیدہ ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
برزخ کیا ہے ؟؟؟

اللہ تعالى کافرمان ہے :
" وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [المؤمنون : 100] "
ان کے (یعنی جس کو موت آئی تھی۔ موت کس کو آئی تھی؟ روح وجسم کے مجموعے کو , اس روح وجسم کے اس مجموعے کے) درمیان اور " رَبِّ ارْجِعُونِ [المؤمنون : 99] " ان کی اس بات کے جواب کے درمیان یعنی دنیا میں لوٹنے کے درمیان آڑ ہے ۔تو برزخ کیا ہے؟ مرنے کے بعد بندے کی روح اور جسم جہاں ہوتا ہے وہی اس کےلیے قبر ہے اور وہی اس کےلیے برزخ ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ایک اعتراض کہ دنیاوی قبر تو مرقد ہے

عذاب قبر کے منکرین کہتے ہیں کہ اگر قبر میں عذاب ہوتا ہے تو قیامت کے دن مشرکین کہیں گے " يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا " ہمیں ہماری 'مرقد' آرام گاہ سے کس نے بیدار کیا ہے؟ آرام گاہ تو کہا جاتا ہے آرا م کرنے کی جگہ کو۔ اگر عذاب ہوتا ہے تو اس کو عذاب گاہ کہنا چاہیے ۔ آرام گاہ نہیں کہنا چاہیے۔
اولا: مرقد کا معنی آرام گاہ نہیں ہوتا۔ یہ معنی ہی غلط ہے۔ غلط معنی کرکے اس پر ایک غلط عقیدے کی بناء استوار کیا جارہی ہے۔ لہٰذا اعتراض ہی غلط ہے۔
ثانیا: فرض کر لیا کہ مرقد کا معنى آرام گاہ ہے, اور یہ قبر آرام گاہ ہی ہے۔ تو اس پر سوال اٹھتا ہے کہ آرام اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے یا نہیں؟ یقینًا نعمت ہے ! تو پھر جزا مل گئی!! اگر مرقد کا معنی آرام گاہ کرتے ہو تو پھر قبر میں جزا تو مل گئی۔ سزا کا تم کہتے ہو کہ نہیں ملتی ، جزاتو پھر بھی مان ہی گئے ہو۔ تو جب جزا قبر میں مل سکتی ہے تو سزا کیوں نہیں؟

الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا​

ثالثا: اللہ تعالى نے قرآن مجید فرقان حمید میں قیامت سے پہلے ایک صعقہ یعنی بے ہوشی کا بھی ذکر فرمایا ہے ۔ اللہ تعالى فرماتے ہیں "وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ" ( الزمر:68) ۔ یعنی روز محشر صور پھونکا جائے گا ۔ تو فورا زمین وآسمان کے تمام تر مخلوق بے ہوش ہو جائے گی سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالى بچا لے پھر اسکے تھوڑی دیر بعد دوسرا صور پھونک جائے گا تو سارے ہی کھڑے ہوکر دیکھ رہے ہوں گے ۔
اس آیت کریمہ میں دو صوروں کے درمیان ایک بے ہوشی کا تذکرہ ہے ۔کہ پہلے صور کے بعد بے ہوشی ہوگی اور پھر تھوڑی دیر بعد دوسرا صور پھونک جائے گا تو سبھی ہوش میں آجائیں گے ۔ یہ لوگ جنہیں سزا مل رہی تھی پہلے صور کے بعد بےہوش ہوں گے انہیں بے ہوشی کی وجہ سے عذاب کا احساس ختم ہو جائے گا تو جونہی دوسرا صور پھونک جائے گا یہ کہیں گے "من بعثنا من مرقدنا" ہمیں ہماری مرقد سے کس نے اٹھایا ہے ۔ مرقد اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں بندہ سوتا ہے ۔ خواہ سوتے میں تکلیف ہو یا راحت وآرام ۔ تو یہ بے ہوشی کی وجہ سے اسے مرقد کہہ رہے ہیں ۔ خوب سمجھ لیں۔
لنک
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ہر مذہب یا معاشرے کا اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جیسے ہندو اپنے مردے جلا دیتے ہیں اور انکی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ہے اسی طرح پارسی اپنے مردوں کو پرندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ انکے خیال میں یوں مردہ جسم کو قدرت کے حوالے کر دینا ہی مناسب طریقہ ہے، اسی طرح بہت سی لاوارث لاشوں کو چیر پھاڑ کر میڈیکل کے طالبعلم اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ایسی لاشوں کو بعد میں تیزاب میں گلا کر ختم کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی بہت سے لوگوں کو تو دنیا میں قبر ملتی ہی نہیں لیکن جب ہم قران پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔​
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ

انسان پر اللہ کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔

سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲

پس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے دنیا میں اسکی لاش جلا کر راکھ کردی جائے اور یا پھر وہ جانوروں اور مچھلیوں کی خوراک بن جائے اور یہی وہ اصلی قبر ہے جو ہر ایک کو ملتی ہے اور جہاں روح کو قیامت تک رکھا جائے گا اور ثواب و عذاب کے ادوار سے گزارا جائے گا۔ اسی حوالے سے ایک اور مثال ہمیں فرعو ن اور اسکے حواریوں کی ملتی ہے جن کے بارے میں قران ہمیں بتاتا ۔

حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِي۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زيادتی سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب ڈوبنےلگا کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبردار میں سے ہوں۔ اب یہ کہتا ہے اورتو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔ سو آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو اوربے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔

سورة یونس، آیات ۹۰ تا ۹۲

فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ

پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا۔ وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔

سورة غافر، آیات ٤۵۔٤٦

اسطرح ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فرعون اور اسکے لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور قیامت کے بعد اس عذاب میں مزید شدت آ جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو صبح و شام کا یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے؟ کیونکہ مصر کے لوگ تو اپنے مردوں کو ممی بنا کر محفوظ کر لیتے تھے اور آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انکی لاشیں یا ممیاں شیشے کے تابوتوں میں مصر اور دنیا کے دیگر عجائب خانوں میں ساری دنیا کے سامنے پڑی ہیں۔ اب جو یہ فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کی ارواح کو انکی قبروں میں مدفون مردہ اجسام سے جوڑ دیا جاتا ہے تو فرعون اور فرعونیوں کے حوالے سے یہ سب ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ کیا کبھی کسی نے ان ممیوں کو ہلتے یا عذاب کی حالت میں چیختے چلاتے دیکھا ہے؟

قران کے علاوہ حدیث میں بھی ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ مردے سے سوال و جواب اور اسکے بعد عذاب کا سلسلہ فوراً ہی شروع ہو جاتا ہے چاہے اسکی لاش ابھی دفنائی بھی نہ گئی ہو۔ ملاحظہ کیجئے صحیح مسلم کی یہ حدیث:

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرۃبنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اسکی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔

صحیح مسلم، جلد اول، جنازوں کا بیان

فرقوں کے بقول مردہ انسان کی تدفین کے فوراً بعد انسانی روح اسکے جسم میں واپس ڈال دی جاتی ہے پھر فرشتے آکر اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال و جواب کرتے ہیں اور پھر اسکے جوابات کی روشنی میں اس پر عذاب یا راحت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو جسم اور روح دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کہ پھر مندرجہ بالاحدیث میں اس یہودیہ کے سوال و جواب کہاں ہوئے اور کہاں اس پر عذاب شروع بھی ہو گیا جبکہ اسے ابھی دفن بھی نہیں کیا گیا تھا؟ اور کیوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے؟ لہذا ایک بار پھر ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ مردے کے سوال و جواب اور پھر سزا و جزا اسکی اصلی قبر یعنی برزخ میں وفات کے فوراً بعد ہی شروع ہو جاتے ہیں چاہے اسکے لواحقین کئی دن اسے دفن نہ بھی کریں کہ اللہ کا نظام اور اس کی سنّت انسانوں کے قوانین اور ضابطوں کے محتاج نہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لاوارث لاشیں کئی کئی ماہ مردہ خانوں میں پڑی رہتی ہیں جب تک کہ انکے رشتہ دار مل نا جائیں اور یا پھر جو لوگ قتل ہوتے ہیں انکا پہلے پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے، تحقیقات ہوتی ہیں اور پھر کہیں جا کر لاش ورثاء کو ملتی ہے​


تو کیا فرشتے اتنا عرصہ انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب مردے کے لواحقین لاش کو دفن کریں اور وہ اس میں روح لوٹا کر سوال و جواب کرنا شروع کر دیں -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
شہداء۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہا ہے، اللہ رب العالمین فرما رہے ہیں :" أَحْيَاء "زندہ ہیں" عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ [آل عمران : 169] " اللہ کے پاس ان کو رزق دیا جاتا ہے۔اور پھر فرمار ہے ہیں: " فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ "اللہ نے جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے یہ لوگ اس پر خوش بھی ہیں۔" وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ" ان کو خوشخبریاں بھی دی جاتی ہیں۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ شہداء احدکی روحیں سبز رنگ کے پرندوں میں ہیں، وہ جنت کے جو مرضی پھل چاہیں، کھائیں، خوشہ چینی کریں۔لہٰذا ثابت ہوا کہ اس قبر کے اندر عذاب اور سزا نہیں بلکہ عذاب کےلیے آسمانوں سے اوپر کوئی برزخ ہے ، کوئی قبر ہے، جہاں پر اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔اور روح اس جسم کے اندر نہیں لوٹتی، بلکہ اس روح کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ساری کی ساری باتیں اور اعتراضات غلط ہیں"

محترم : جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تھی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اشکال ہوا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے جواب میں جو ارشاد فرمایا تھا اسے غور سے پڑھیں:

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ وَعِيسَی بْنُ يُونُسَ جَمِيعًا عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ
أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا
حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا


صحیح مسلم:جلد سوم:امارت اور خلافت کا بیان :شہدا کی روحوں کے جنت میں ہونے اور شہدا کے زندہ ہونے اور اپنے رب سے رزق دیے جانے کے بیان میں حدیث قدسی مکررات 4 متفق علیہ 1 بدون مکرر

یحیی بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ، محمد بن عبداللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ
ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں
یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔


قرآن مجید فرقان حمید کی اس آیتِ کریمہ کی تفسیر رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے اور اس میں آپ ﷺ نے صاف صاف فرمایا کہ شھدا کی ارواح سبز رنگ کے پرندوں کے جوف میں رہ کر جنت میں سیر کرتی ہیں اورعرش کے نیچے لٹکی قندیلوں بسیرا کرتی ہیں اور جن اللہ رب العزت اُن سے پوچھتے ہیں

کہ کچھ مانگو تو وہ کہتے ہیں "يَا رَبِّ نُرِيدُأَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا"

اے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں

جناب کہتے ہیں کہ روحیں قبروں میں مدفون جسموں میں ہوتی ہیں اور امام الانبیاء ﷺفرماتے ہیں کہ شھدا کی روحیں جنت میں ہوتی ہیں اور شھدا کہتے ہیں کہ ہماری روحیں جسموں میں لو ٹا دے ۔اگر شھدا کی روحیں اُن کے جسموں میں ہوتیں تو وہ یہ مطالبہ کیوں کرتے۔

ایک اور حدیث مبارکہ پڑھیں:

حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔

(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)

مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔

ثابت ہوا کہ مرنے کے بعدمومنین کی روحوں کا ٹھکانہ جنت میں ہوتا ہے اور قیامت سے پہلے وہ اپنے جسموں میں نہیں لوٹائی جاتیں ۔

دلائل تو اور بھی بہت ہیں مگر ماننے والوں کے لئے یہی کافی ہیں


سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 2077 حدیث مرفوع مکررات 4

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ کَانَ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَبْعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ


قتیبہ، مالک، ابن شہاب، عبدالرحمن بن کعب، کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومن کی جان جنت کے درختوں پر پرواز کرتی رہے گی یہاں تک کہ خداوند قدوس اس کو قیامت کے دن اس کے جسم کی طرف بھیج دے گا۔


سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1152 حدیث مرفوع مکررات 4

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَعْبٍ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ کَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ يَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَرْجِعَ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ يُبْعَثُ
سوید بن سعید، مالک بن انس، ابن شہاب، عبدالرحمن حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں چگتی پھرتی ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اپنے اصلی بدن میں ڈالی جائے گی۔
 
Top