• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برصغیر میں فتنۂ انکارِ حدیث کی تاریخ اور اسباب

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خواہشات کی پیروی حدیث کی مخالفت کا ایک بنیادی سبب ہے، اس حقیقت کو مولانا محمد سرفراز یوں بیان کرتے ہیں :
’’اور یہ ایک خالص حقیقت ہے کہ حدیث کی مخالفت آج وہ لوگ کررہے ہیں جو دراصل اسلامی تہذیب وتمدن کے عادلانہ نظام کویکسر توڑنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ اس کی تشریح ہے اور تعینات کی حدود میں، اپنی اَہوا اور خواہشات کی پیروی کے لیے وہ قطعا کوئی گنجائش نہیں پاتے۔ لہٰذا انہوں نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ اس چیز ہی کو اصل سے مٹا دیا جائے جو مکمل طور پر اسلام کے عادلانہ نظام کی تشریح اور حد بندی کرتی ہے۔ تا کہ وہ آزاد ہو جائیں اور اسلام کے ڈھانچے پر جس قدر اور جس طرح چاہیں، گوشت پوست چڑھائیں اور جس طرح چاہیں اپنے خود ساختہ اسلام کی شکل بنا لیں۔‘‘ (۲۳)
ایسے لوگوں کے بارے میں مولانا محمد عاشق الٰہی رقم طراز ہیں:
’’قرآن حکیم میں اوامر و نواہی ہیں جن میں بہت سے احکام ایسے ہیں جن کا اجمالی حکم قرآن میں دے دیا گیا اور ان پر عمل کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ ان احکام کی تفصیلات رسول اللہ ﷺ نے بتائیں۔ جو لوگ آزاد منش ہیں، اعمال کی بندش میں آنے کو تیار نہیں، ان کا نفس زندگی کے شعبوں میں اسلام کو اپنانے کے لئے تیار نہیں۔ لہٰذا یہ لوگ حدیث کے منکر ہوجاتے ہیں۔ چونکہ قرآن مجید میں احکام کی تفصیلات مذکور نہیں ہیں اس لئے آزادی کا راستہ نکالنے کے لئے بار بار یوں کہتے ہیں کہ فلاں بات قرآن میں دکھاؤ۔‘‘(۲۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔کم علمی اور جہالت :
برصغیر کے منکرین حدیث کے لٹریچر کے مطالعہ اور حدیث کے بارے میں ان کے خود ساختہ اور من گھڑت شبہات اور اعتراضات کو دیکھ کر اس چیز کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ نہ تو علم حدیث پر عبور رکھتے ہیں اور نہ ہی علومِ قرآنی کی گہرائیوں سے واقف ہیں۔ چونکہ قرآن وسنت اور ان کے مستند مآخذتک منکرین ِحدیث کی رسائی نہیں لہٰذا ان کی توجیہ بھی ان کے بس کاروگ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث ِرسولؐ پر اعتراض کرنے لگتے ہیں۔ منکرین حدیث کا نامکمل مطالعہ اور جہالت کوبیان کرتے ہوئے پیر محمد کرم شاہ ازہری لکھتے ہیں:
’’جہاں تک میں نے معترضین حدیث کی مشکلات کا اندازہ لگایا ہے، میں ا س نتیجہ پرپہنچا ہوں کہ ان کا مطالعہ صرف چند نامکمل تراجم کتب ِحدیث تک محدود ہوتا ہے۔ وہ ان اُصولوں سے بے خبر ہوتے ہیں جن سے کسی حدیث کی فقہی اور قانونی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ اس سے قطعی ناواقف ہوتے ہیں کہ اس حدیث سے جو حکم ثابت ہے، وہ فرض ہے، سنت ہے، جائز ہے یا مباح ہے بلکہ انہوں نے تو احکام کے اس فرق کو جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی اور پھر بے چارے وہم وگمان کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے لگتے ہیں اور اسی طرح اپنے خود ساختہ اوہام میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔ اس وجہ سے بعض تو اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں اور حدیث پربے جا اعتراض کرنے لگتے ہیں۔‘‘ (۲۵)
مولانا محمد قطب الدین انکارِ حدیث کے اسباب کی تفصیل میں بیان کرتے ہیں کہ
’’انکارِ حدیث کا سب سے پہلا اور بنیادی سبب یہ ہے کہ منکرین حدیث راسخ فی علم القرآن ہی نہیں، وہ علم حدیث پر بھی مکمل عبور نہیں رکھتے اور حدیث کی مختلف انواع و اقسام اور راویوں سے متعلق فن ِتنقید و تحقیق سے بے خبر واقع ہوئے ہیں۔ ان میں تطبیق ِآیات و احادیث کا فن بھی مفقود ہے جس کے لئے مسلسل اور عمیق مطالعہ کی ضرورت ہے اور جس کے بغیر احادیث ِنبویؐ کی صحیح عظمت وافادیت واضح نہیں ہوسکتی۔‘‘ (۲۶)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
منکرین ِحدیث کی جہالت اور اس کی بنیاد پرانکارِ حدیث کو بیان کرتے ہوئے شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رقم طراز ہیں:
’’انکارِ حدیث احساسِ کمتری کی پیداوار ہے جس نے گریز پائی کی صورت اختیار کرلی ہے۔ جب یہ حضرات کسی مخالف کا اعتراض سنتے ہیں تو چونکہ یہ قرآن و سنت اور اس کے مستند مآخذ سے واقف نہیں اور اس کی توجیہ سے ان کا ذہن قاصر ہوتا ہے، اس لئے بھاگنا شروع کردیتے ہیں جس کی صورت یہی ہوسکتی ہے کہ نصوص کا انکار کردیں اور احادیث کے متعلق تو وہ یہ ہتھیار استعمال کرتے ہیں کہ ہم اس حدیث کو نہیں مانتے۔‘‘(۲۷)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔عقل کو معیار بنانا:
تاریخ اسلام اس چیز کی گواہ ہے کہ جب بھی اسلام میں کسی فرقہ یا گروہ نے اپنے عقائد و نظریات کو داخل کرنا چاہا تو عقل کا سہارا لیا اور عقل کی برتری کو منوانے کی کوشش کی۔ چنانچہ دوسری صدی ہجری میںمعتزلہ کے انکارِ حدیث کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے عقل کو فیصلہ کن حیثیت دی اور راہِ راست سے بھٹک گئے۔ برصغیر میں انکارِ حدیث کے دیگر اسباب میں ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ منکرین حدیث نے بعض ایسے اُمور میں عقل کا فیصلہ مانا جہاں عقل عاجز ہے۔ مثلاً جو حدیث عقل میں نہ آئی، اس کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالانکہ انسانی عقل وحی کی محتاج ہے اور اسے قدم قدم پر رہنمائی اور ہدایت کی ضرورت ہے۔ عقل کی بنیاد پر حدیث کو قبول نہ کرنے کے معیار اور عقل کی بے بسی کا تذکرہ کرتے ہوئے محمد ادریس فاروقی لکھتے ہیں:
’’بعض حضرات نے تو حدیث کے ٹھکرانے اور ناقبول کرنے کا معیار اپنی عقل، مشاہدہ اور فکر کو قرار دے رکھا ہے۔ حدیث خواہ کس قدر بے غبار اور صحیح ہو، سند کتنی مضبوط ہو، رواۃ کتنے بے عیب ہوں۔ پوری اُمت نے قبول کیا ہو، ان کی بلا سے، انہیں ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ انہوں نے کامل نبیؐ کو اپنی ناقص عقل سے کم تر مقام دیا جو کہ افسوسناک بلکہ خطرناک ہے۔ عام طور پر ہمارے انگریزی خواں حضرات اور ماڈرن دوست اسی آسان اُصول کوقبول فرما لیتے ہیں کہ جو حدیث عقل میں نہ آئے، اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا حالانکہ عقل کو کیسے معیار قرار دیا جاسکتا ہے۔ عقل تو خام ہے۔ پھر عقل میں تفاوت ہے، سب کی عقل ایک جیسی نہیں۔ بہت سے لوگ ہیں کہ ان کی عقل پر مادّیت کا غلبہ ہے اور اس پر یورپ کی چھاپ ہے اور وہ اسلامی حدود و قیود سے سو فیصد نابلد اور یکسر ناآشنا ہے۔ خود فرمائیے مطلق عقل، اور پھر ایسی عقل حدیث کی جانچ کیسے کرسکتی ہے؟‘‘(۲۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔دنیاوی اغراض و مقاصد کا حصول:
انکارِ حدیث کی ایک وجہ اغراض و مقاصد کا حصول بھی ہے جن کی خاطر جان بوجھ کر منکرین حدیث اس گمراہی کے مرتکب ہوئے چنانچہ مولانا محمد قطب الدین لکھتے ہیں:
’’منکرین حدیث اور ان کے پیشوا علمائِ یہود کی مانند محض دنیوی اغراض و مفادات کے لئے دیدہ و دانستہ ’کتمانِ حق‘ بھی کرتے ہیں اور ’التباسِ حق و باطل‘ بھی۔ ‘‘ (۲۹)
پروفیسر محمد فرمان نے انکار حدیث کی مختلف وجوہات کا احاطہ درج ذیل الفاظ میں کیا ہے :
’’ہمیں یہ تسلیم ہے کہ بعض لوگوں نے دنیاوی جاہ و منصب کے لئے حدیث کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ بعضوں نے کسی محبوب کا اشارہ پاکر یہ تحریک شروع کررکھی ہے بعضوں نے کم علمی اور اسلام کے سطحی مطالعہ کی بنیاد پر یہ روش پسند کرلی ہے۔‘‘(۳۰)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
انکارِ حدیث کے خارجی اسباب

1۔برطانوی سامراج کی سازش:
ہندوستان پر انگریز حکومت کی مکمل عملداری اور ۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی میں کامیابی کے بعد انگریز، مسلمانوں کو اپنی انتقامی کارروائیوں کانشانہ بنانے لگے کیونکہ انہوں نے مسلمان حکمرانوں سے حکومت چھینی تھی اور انہیں ہر وقت مسلمانوں کی طرف سے مزاحمت کا خطرہ رہتا تھا۔ مزید برآں جنگ ِآزادی میں مسلمانوں نے انگریزوں سے سخت مقابلہ کیا تھا، لہٰذا وہ مسلمانوں کو ہر میدان میں کچلنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے رستے کی سب سے بڑا رکاوٹ مسلمانوں کی اپنے بنیادی عقائد کے ساتھ مکمل وابستگی اور آپس کا اتحاد تھا۔ چنانچہ انگریزوں نے مسلمانوں کو دینی اعتبار سے کمزور کرنے کے لئے مختلف سازشیں شروع کردیں۔ مثلاً مسلمانوں میں فرقہ بندی کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں ہی میں ایسے رجال تیار کئے جنہوں نے مختلف دینی احکام سے انحراف کرکے دین میں نئے نئے فتنے پیدا کئے۔ ان فتنوں میں انکارِ ختم نبوت اور انکارِ حدیث کے فتنے نہایت نقصان دہ اور خطرناک ثابت ہوئے۔ انگریزوں نے ان فتنوں کی مکمل پشت پناہی کی۔اس سلسلے میں انگریزوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مفتی محمد عاشق الٰہی بلند شہری لکھتے ہیں:
’’انگریزوں نے جب غیر منقسم ہندوستان میںحکومت کی بنیاد ڈالی تو اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایسے افراد بنائے جو اسلام کے مدعی ہوتے ہوئے اسلام سے منحرف ہوں۔ اس طرح کے لوگوں نے تفسیر کے نام سے کتابیں لکھیں، معجزات کا انکار کیا، آیاتِ قرآنیہ کی تحریف کی۔ بہت سے لوگوں کو انگلینڈ ڈگریاں لینے کے لئے بھیجا گیا۔ وہاں سے وہ گمراہی، الحاد،زندیقیت لے کر آئے۔ مستشرقین نے ان کو اسلام سے منحرف کردیا۔ اسلام پر اعتراضات کئے جو ان کے نفوس میں اثر کرگئے اور علما سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے مستشرقین سے متاثر ہوکر ایمان کھو بیٹھے۔ انگریزوں نے سکول اور کالجوں میں الحاد اور زندقہ کی جو تخم ریزی کی تھی، اس کے درخت مضبوط اور بار آور ہوگئے اور ان درختوں کی قلم جہاں لگتی چلی گئی، وہیں ملحدین اور زندیق پیدا ہوتے چلے گئے۔‘‘ (۳۱)
مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کی سازشوں کے اثرات ظاہر ہونے لگے، فتنۂ انکارِ حدیث ان سازشوں کی ایک اہم کڑی تھی۔ چنانچہ ہندوستان میں فتنۂ انکار حدیث کے اسباب اور اثرات کا نقشہ کھینچتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’تیرہویں صدی میں یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب کہ مسلمان ہر میدان میں پٹ چکے تھے۔ ان کے اقتدار کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاچکی تھی۔ ان کے ملک پر دشمنوں کا قبضہ ہوچکا تھا اور ان کو معاشی حیثیت سے بُری طرح کچل ڈالا گیا تھا، ان کانظامِ تعلیم درہم برہم کردیا گیا تھا اور ان پر فاتح قوم نے اپنی تعلیم، اپنی تہذیب، اپنی زبان، اپنے قوانین، اور اپنے اجتماعی وسیاسی اور معاشی اداروں کو پوری طرح مسلط کردیا تھا۔
ان حالات میں جب مسلمانوں کو فاتحین کے فلسفہ و سائنس اور ان کے قوانین اور تہذیبی اُصولوں سے سابقہ پیش آیا تو قدیم زمانے کے معتزلہ کی بہ نسبت ہزار درجہ زیادہ سخت مرعوب ذہن رکھنے والے معتزلہ ان کے اندر پید ہونے لگے۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ مغرب سے جو نظریات، جو افکار و تخیلات، جو اُصولِ تہذیب و تمدن اور جو قوانین حیات آرہے ہیں، وہ سراسر معقول ہیں۔ ان پر اسلام کے نقطہ نظر سے تنقید کرکے حق و باطل کا فیصلہ کرنا محض تاریک خیالی ہے۔ زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کی صورت بس یہ ہے کہ اسلام کوکسی نہ کسی طرح ان کے مطابق ڈھال دیا جائے۔‘‘ (۳۲)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔مستشرقین کی خوشہ چینی:
مستشرقین نے مسلمانوں کے بنیادی عقائد کو متزلزل کرنے کے لئے حدیث ِرسولؐ کے بارے میں مختلف شکوک و شبہات اور بے بنیاد اعتراضات پیش کرکے حدیث پرمسلمانوں کے اعتماد کو اٹھانے کی سر توڑ کوششیں کیں جس کے اثرات برصغیر کے منکرین حدیث پر بھی پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے بارے میں یہاں کے منکرین حدیث کے بڑے بڑے شبہات اور مستشرقین کے شبہات میں مماثلت پائی جاتی ہے، جس سے یہ واضح نتیجہ نکلتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں انکارِ حدیث کا ایک اہم سبب مستشرقین کی حدیث ِرسولؐ کے خلاف علمی فتنہ انگیزیاں ہیں۔ مستشرقین کے فتنۂ انکار حدیث کے محرک ہونے کی دلیل کے لئے پروفیسر عبدالغنی ’منکرین حدیث کے اعتراضات‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’ان لوگوں کے اکثر اعتراضات مستشرقین یورپ ہی کے اسلام پر اعتراضات سے براہِ راست ماخوذ ہیں مثلاً حدیث کے متعلق اگر گولڈ زیہر (Gold Ziher)، سپرنگر(Sprenger) اور ڈوزی (Dozy) کے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو آپ فوراً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ منکرین حدیث کی طرف سے کئے جانے والے بڑے بڑے اعتراضات من و عن وہی ہیں جو ان مستشرقین نے کئے ہیں۔‘‘(۳۳)
برصغیر کے فتنۂ انکار حدیث میں مستشرقین کے لٹریچر کے اثرات کو مولانا محمد فہیم عثمانی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’افسوس تو زیادہ اس بات کا ہے کہ سب کچھ دشمنانِ اسلام کی پیروی میں ہورہا ہے۔مستشرقین یورپ کے سفیہانہ اعتراضات کی اندھا دھند تقلید سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ ڈھائی سو برس بعد احادیث کے قلمبند ہونے کی باتیں اور اس طرح حدیث کے ذخیرے کو ساقط الاعتبار ثابت کرنے کی سکیمیں، یہ رجالِ حدیث کی ثقاہت پر اعتراضات اور یہ عقلی حیثیت سے احادیث پر شکوک وشبہات کا اظہار، یہ سب کچھ مستشرقین یورپ کی اُتارن ہیں جن کو منکرین حدیث پہن پہن کر اِتراتے ہیں۔‘‘ (۳۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسی حقیقت کو مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی نے یوں بیان کیا ہے:
’’اور عجیب بات ہے کہ موجودہ دور کے منکرین حدیث نے بھی اپنا ماخذ و مرجع انہی دشمنانِ اسلام، مستشرقین کو بنایا ہے اور یہ حضرات انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور جو اعتراضات وشبہات ان مستشرقین نے اسلام کے بارے میں پیش کئے ہیں، وہی اعتراضات و شبہات یہ منکرین حدیث بھی پیش کرتے ہیں۔‘‘ (۳۵)
برصغیر پاک و ہند میں انکارِ حدیث کے فتنے کے اُٹھتے ہی اس خطے کے مسلمانوں میں منکرین حدیث کے خلاف نفرت کی لہر دوڑ گئی۔ علمائِ کرام اور محققین اسلام نے منکرین حدیث کے مبنی برانکارِ حدیث اعتراضات کی تردید کے لئے بیسیوں کتب لکھیں، مختلف رسائل میں حجیت ِحدیث پر مقالے شائع ہوئے۔ قلمی کاوشوں کے ساتھ ساتھ دینی اجتماعات میں فتنۂ انکارِ حدیث کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ جوں جوںمنکرین حدیث آگے بڑھتے گئے اور نئے نئے شبہات لاتے گئے، توں توں حجیت ِحدیث پر بھی زیادہ وزنی دلائل پیش کئے جاتے رہے۔ منکرین حدیث کے ساتھ مختلف علمائِ کرام کے علمی مناظرے بھی ہوئے مگر منکرین حدیث نہ صرف اپنے موقف پر قائم رہے بلکہ نئے نئے حیلوں بہانوں سے انکارِ حدیث کے شبہات سامنے لاتے رہے۔ منکرین حدیث نے اپنے مشن کو باقاعدگی اور مقرر پروگرام کے تحت آگے بڑھایا، مگر اپنی پوری قوتوں کوبروئے کار لانے کے باوجود منکرین حدیث انحطاط کا شکار ہوتے چلے گئے۔ حجیت ِحدیث پر متعدد کتب لکھے جانے کے باعث منکرین حدیث کو منہ کی کھانی پڑی۔ انہیں معاشرہ میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اور حجیت ِحدیث پر برصغیر کے اَدب کے خاطر خواہ نتائج نکلنے لگے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات

1۔ ولی الدین ،ا مام، محمد بن عبداللہ ، مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الایمان باب الاعتصام بالکتاب والسنہ
2۔ صادقسیالکوٹی، محمد ، ضربِ حدیث ، سیالکوٹ، مکتبہ کتاب وسنت ، ۱۹۶۱ء ، ص ۴۸
3۔ابن حزم ، امام ، ابو محمد علی بن احمد ، الاحکام فی اصول الاحکام ، مصر مکتبۃ الخانجی، شارع عبدالعزیز ، ۱۹۲۰ء جلد ۱ ص ۱۱۴
4۔نجم الغنی ،محمد ، مذاہب الاسلام ، انڈیالکھنؤ، مطبع منشی نو لکشور ، ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۰۱
5۔ ولی حسن ٹونکی ، مفتی ، عظیم فتنہ ، کراچی ۱۹۸۴ء ، صفحہ ۲۲
6۔امام ابن حزم ، ابو محمد علی بن احمد ، الاحکام فی اصول الاحکام مصر مکتبہ الخانجی، شارع عبدالعزیز ، ۱۹۲۰ء ، ج ۱ ص ۱۱۹
7۔مودودی ،سیدابو الاعلیٰ ، سنت کی آئینی حیثیت ، لاہور اسلامک پبلیکشنز لمیٹڈ ۱۹۶۳ء ،ص ۱۴
8۔امرتسری، ثناء اللہ، مولانا، حجیت حدیث اور اتباع رسول ﷺ ، ہندوستان، امرتسری کتب خانہ ثنائیہ، ۱۹۲۹ء ص۱
9۔عثمانی، محمد تقی، مولانا، درس ترمذی، کراچی مکتبہ دارالعلوم کراچی، ۱۹۸۰ء ص۲۶
10۔مودودی، ابوالاعلیٰ، مولانا، سنت کی آئینی حیثیت، لاہور اسلامک پبلیکیشنز، ۱۹۶۳ء ص۱۶
11۔رشیداحمد، مفتی، فتنہ انکار حدیث، کراچی کتب خانہ مظہری، ۱۹۸۲ء ص ۷
12۔ندوی، عبدالقیوم، فہم حدیث، کراچی ، ص۱۳۸
13۔اجمیری، نورالدین، حکیم،مقالہ ’انکارِ حدیث کی خشت اوّل‘ ماہنامہ صحیفہ اہل حدیث، کراچی، حدیث نمبر، ۱۹۵۲ء ص ۱۴۷
14۔سلفی، محمد اسماعیل، مولانا، حجیت حدیث، لاہور اسلامک پبلیکیشنز ہاؤس ۱۹۸۱ء ص۱۷
15۔پانی پتی، محمد اسماعیل، مقالات سرسید، لاہور مجلس ترقی ادب، ج۱۳، ص۱۷
16۔انکار حدیث کے ان علمبرداروں کے نام درج ذیل وہ کتب سے ماخوذ ہیں۔
ا۔ کیلانی، عبدالرحمن، آئینہ پرویزیت، لاہور مکتبہ السلام، ۱۹۸۷ء ص۱۰۱
ب۔محمد فرمان، پروفیسر، انکار حدیث ایک فتنہ ایک سازش، گجرات، ۱۹۶۴ء ص ۱۷۸۔۱۷۹
17۔برق، غلام جیلانی، ڈاکٹر، تاریخ حدیث، لاہور مکتبہ رشیدیہ لمیٹڈ، ۱۹۸۸ء
18۔رشیداحمد، مفتی، مولانا، فتنہ انکار حدیث، کراچی کتب خانہ مظہری، گلشن اقبال، ۱۴۰۳ھ، ص ۱۰
19۔عبدالغفار حسن، مولانا، عظمت ِحدیث، مقالات مولانا عبدالجبار عمرپوری، اسلام آباد، دارالعلم، ۱۹۸۹ء ص۴۹
20۔منکرین حدیث کے مبنی برانکار حدیث لٹریچر کی تفصیل بوجہ طوالت پیش نہیں کی جاسکتی۔ چند کتب کے نام درج کئے جارہے ہیں مثلاً عبداللہ چکڑالوی کا ترجمہ قرآن بآیات القرآن، غلام احمد پرویز کا رسالہ طلوعِ اسلام، عبداللہ چکڑالوی کا رسالہ اشاعۃ القرآن اور صلوٰۃ القرآن، سرسید احمد خان کی تصنیف خطباتِ احمدیہ، اور مقالات جیراج پوری وغیرہ۔
21۔پھلواروی، شاہ محمد عزالدین، علوم الحدیث، لاہور ، ۱۹۳۵ء ص۶
22۔محمد ادریس کاندھلوی،’حجیت حدیث‘ لاہور ، ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۶
23۔محمد صفدر سرفراز خان ، شوقِ حدیث، حصہ اول گوجرانوالہ گکھڑ، انجمن اسلامیہ ، ۱۹۸۲ء ، صفحہ۹
24۔محمد عاشق الٰہی، مفتی، فتنہ انکار حدیث اور اس کا پس منظر، لاہور ادارہ اسلامیات، ۱۹۸۶ء ص ۹
25۔ ازہری، محمد کرم شاہ، سنت خیرالانام، لاہور، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ۱۹۵۳ء ص ۱۷۹
26۔ محمد قطب الدین، مولانا، مظاہر حق اردو ترجمہ مشکوٰۃ شریف، لاہور، ۱۹۶۶ء ، ج، دیباچہ کتاب
27۔سلفی ، محمد اسماعیل، مولانا، حجیت حدیث، لاہور، اسلامک پبلی کیشنز ہاؤس، ۱۹۸۱ء ص ۱۷۷
28۔فاروقی، محمد ادریس، مقام رسالت، لاہور مسلم پبلی کیشنز، ۱۹۷۰ئ، ص۱۶
29۔محمد قطب الدین، مولانا، مظاہر حق، ۱۹۶۶ئ، ج۱ ، دیباچہ کتاب
30۔محمد فرمان، پروفیسر، انکار حدیث ایک فتنہ ایک سازش، گجرات، مکتبہ مجددیہ نور پور شرقی، ۱۹۶۴ء ص۲۰۹
31۔محمد عاشق الٰہی، مفتی، فتنہ انکار حدیث اور اس کا پس منظر، لاہور ادارہ اسلامیات، ۱۹۸۶ء ص۷
32۔ مودودی، ابوالاعلیٰ، مولانا، سنت کی آئینی حیثیت، لاہور، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، ۱۹۶۳ئ، ص۱۷
33۔قادری، عبدالغنی، پروفیسر، ریاض الحدیث، لاہور، ۱۹۶۹ئ، ص۱۵۹
34۔ فہیم عثمانی، مولانا محمد محترم، حفاظت و حجیت حدیث، لاہور، دارالکتب، ۱۹۷۹ئ، ص۱۳
35۔ٹونکی، ولی حسن، مفتی ، عظیم فتنہ، کراچی، اقراء روضۃ الاطفال، ناظم آباد، ۱۹۸۴ء ص۲۶
 
Top