• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برصغیر پاک و ہند میں تجوید و قراء ت کا آغاز واِرتقاء

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
برصغیر پاک و ہند میں تجوید و قراء ت کا آغاز واِرتقاء

قاری اظہار اَحمدتھانوی
فاروق احمدحسینو ی​
نوٹ

ماہنامہ رشد علم قراءت نمبر حصہ اول کی فہرست پر جانے کےلیے یہاں کلک کریں​
زیرنظر مضمون ہمارے شیخ المشائخ، شیخ القراء قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ اور ان کے تلمیذ خاص قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ کی تصنیف قیم شجرۃ الأساتذۃ فی أسانید القراءات العشر المتواترۃسے ماخوذ ہے۔ مجلس التحقیق الاسلامی کے رکن محمد فاروق حسینوی نے اس مضمون کی تلخیص کے ساتھ ساتھ انتہائی عرق ریزی سے شیخ القراء قاری اظہار احمدتھانوی رحمہ اللہ کے ذاتی حالات اور پھر ان کے تلامذہ کے ضمن میں تجویدوقراءات کاارتقاء یوں پیش کردیا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اہل حدیث قراء کے تجوید و قراء ات کے فروغ و ارتقاء میں کردار پر بھی ایک تاریخی دستاویز تیارہوگئی ہے۔ہم استاذ القرا ء الشیخ قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ کے انتہائی شکرگزار ہیں کہ جنہوں نے اپنی طبیعت کی انتہائی علالت کے باوجود اس مسودے پرکئی دفعہ نظرثانی فرمائی اور بیشتر مقامات پر گراں قدر اِضافہ جات فرماتے ہوئے تاریخی اغلاط کی مکمل تصحیح بھی فرمائی۔ اللہ تعالیٰ قاری صاحب حفظہ اللہ کو صحت کاملہ عاجلہ عطاء فرمائے اور ’رشد‘ سے علمی تعاون پر اجر عظیم عطاء فرمائے۔ آمین (ادارہ)

یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمان جہادی جذبہ سے سرشار رہے ہیں۔ جس کی مثال ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف ایک عظیم جہادی تحریک کا نمایاں کردار ہے۔ اس جہادی تحریک کی خوبی اور وصف یہ تھا کہ اس تحریک میں شمولیت اختیار کرنے والی عوام نے کالے گورے، عربی و عجمی، رنگ و نسل اور علاقہ و وطن کے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے تن من دھن کی بازی لگا دی۔ جس کی بدولت شروع میں یہ تحریک فوز و کامیابی پر گامزن رہی، لیکن یہ بات قرونِ اولی سے چلی آ رہی ہے کہ ہرمضبوط ارادہ کی حامل تحریک و تنظیم میں غداروں اور منافقوں کا ٹولہ موجود ہوتا ہے۔ اس تحریک کا بھی یہی حال تھا۔ جس کی بنا پر یہ جہادی تحریک ناکام ٹھہری۔ جس کے بعد مسلمانوں پر مختلف قسم کے مصائب و آلام ڈھائے گئے۔ ان پر تکالیف و مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے اور ان کوسزاؤں اور ظلم و ستم کا تختہ مشق بنایا گیا۔ مسلمانوں کی عزتوں کو پامال، جائیدادوں کو ضبط اور کالے پانیوں کی سزائیں دی گئیں۔ گویا تہذیب ِمسلم کو غاصبوں اور ظالموں نے مسمار کرکے رکھ دیا۔ ان مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے برصغیر پاک و ہند کے بعض معزز خاندانوں نے ہجرت کا پروگرام بنایا۔ مکہ معظمہ کو کئی وجوہ کی بنا پر مناسب سمجھا اور اسی کی طرف حضرت مولانا حاجی امداداللہ فاروقی مہاجر مکی رحمہ اللہ نے تھانہ بھون سے اور رد عیسائیت کے پاسبان حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانی مہاجر مکی رحمہ اللہ نے کیرانہ سے اور جناب محمد بشیر خان رحمہ اللہ، ان کے بڑے بھائی اور ان کے خاندان سمیت سترہ افراد نے ہندوستان سے مکہ معظمہ کی طرف ہجرت فرمائی۔

خاندان محمد بشیر رحمہ اللہ پر مشکلات اور مولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ کی سرپرستی

برصغیرپاک و ہند کے سترہ باشندے جب مکہ معظمہ ، رباط اور برما میں جاکر رہائش پذیر ہوگئے، تو ان کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اشیاء خوردونوش کا فقدان اس قدر تھا کہ بسا اوقات آب ِزمزم پرہی گزارہ کرنا پڑتااور دوسری طرف رنج و الم کا یہ عالم کہ مکہ معظمہ گئے ہوئے ابھی تین سال ہوئے تھے کہ محمد بشیر خان رحمہ اللہ کے بردار اکبر خالق حقیقی سے جاملے اور پورے خاندان کی معاشی و اقتصادی ذمہ داری محمد بشیر خان رحمہ اللہ پرپڑگئی۔ ایسی بے بسی کے عالم میں محمد بشیر خان رحمہ اللہ کے خاندان کی سرپرستی کی ذمہ داری مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ نے سنبھال لی، محمد بشیر خان رحمہ اللہ چونکہ جلد سازی میں مہارت رکھتے تھے، لہٰذامولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ نے ارباب مال وزرسے محمد بشیر خان رحمہ اللہ کا رابطہ کرایا اور محمد بشیر خان رحمہ اللہ ان کے ہاں اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے خاندان کی ساکھ بچانے میں کامیاب ہوئے۔محمدبشیر خان رحمہ اللہ کے تین صاحبزادے تھے: بڑا بیٹا عبداللہ، اس سے چھوٹاعبدالرحمن اور سب سے چھوٹا بیٹاحبیب الرحمن تھا۔ محمد بشیر خان رحمہ اللہ نے مذکورہ تینوں صاحبزادوں کو مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں دے دیا۔ چند ماہ بعد محمد بشیر خان رحمہ اللہ کاانتقال ہوگیا تو بچے مکمل طور پر مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں آگئے۔ انہی ایام میں مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ اور مولانا حاجی امداد اللہ رحمہ اللہ نے مل کر ایک درس گاہ کا سنگ بنیاد رکھا۔

قیام مدرسہ صولتیہ اور فروغ علم تجوید و قراء ت


۱۲۹۱ھ بمطابق ۱۸۷۶ء میں مولانا حاجی امداداللہ رحمہ اللہ اور مولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ نے مل کر مکہ مکرمہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مدرسہ قائم کیا، جس کا نام مدرسہ صولتیہ رکھا، جس میں مکمل درس نظامی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی بچوں کے لیے قرآن کریم کی تعلیم کاباقاعدہ اہتمام فرمایا۔

مدرسہ صولتیہ کی وجہ تسمیہ

مدرسہ صولتیہ کا نام ایک نہایت نیک صولت النساء نامی خاتون کی طرف نسبت کرتے ہوے رکھا گیا ہے،جس کی وجہ یہ بنی کہ کلکتہ کی یہ نیک اور خوشحال خاتون اپنی بیٹی اورداماد کے ساتھ حج بیت اللہ کے ارادہ سے مکہ مکرمہ تشریف لائی اور وہاں بطور صدقہ جاریہ ’مسافر خانہ‘ بنانے کا ارادہ فرمایا۔ صولت النساء کے داماد مسجد حرام میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ سے اپنے پاکیزہ ارادہ کا ذکر کیا۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ نے نہایت اہم مشورہ سے نوازتے ہوے فرمایا کہ یہاں مکہ مکرمہ میں مسافر خانے تو بہت ہیں، آپ کویہاں ایک مدرسہ تعمیر کروانا چاہیے، جس میں ہندستانی طریقہ کے مطابق تعلیم دی جاے، تاکہ ہندستانی بچے یہاں سے خوب استفادہ کرسکیں۔ مولانا کے اس مشورہ سے متفق ہوتے ہوئے صولت النساء نے مدرسہ کی زمین اورتعمیر کے تمام اخرجات پنے ذمہ لیے اور۱۲۹۱ ھ میں اس کی تعمیر فرمائی۔
مدرسہ صولتیہ کے قیام سے قبل مکہ معظمہ میں مدرسہ ہندیہ مولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ کی سرپرستی میں چل رہا تھا، جس میں محدود پیمانے پر قرآن کریم کی علم تجوید کی تعلیم کا انتظام تھا۔ اس مدرسہ میں قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کے فرائض مولانا قاری عبدالقادر مدارسی اَزہری رحمہ اللہ سر انجام دے رہے تھے۔ قاری عبداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ نے انہی سے قرآن کریم حفظ فرمایا اور تجوید کے بنیادی قواعد سیکھے۔ اس کے بعد قاری عبداللہ مہاجر مکیa نے مدرسہ صولتیہ میں حضرت ابراہیم سعد بن علی الازہری رحمہ اللہ سے تلمذ اختیار کیا اور علم تجوید و قراء ت میں اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کو بیدار کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاری مقری ابراہیم سعد بن علی رحمہ اللہ کا مختصر تعارف


پورا نام : ابراہیم سعد بن علی الشافعی مصری الازہری الخلوتی رحمہ اللہ
سن پیدائش : ۱۲۲۵ھ
اَساتذہ: حسن بن بدیر الجریسی الکبیری رحمہ اللہ (جو الشیخ محمد متولی رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید تھے)
نامور تلامذہ: ١ قاری محمد عبداللہ مکی رحمہ اللہ
٢ قاری سبحان اللہ رحمہ اللہ
سن وفات: ۱۲۹۵ھ بمطابق ۱۸۷۹ء

قاری الشیخ ابراہیم سعد بن علی رحمہ اللہ کی تدریسی خدمات

قاری ابراہیم سعدبن علی رحمہ اللہ جو فن تجوید و قراء ت کے ماہر تھے، مدرسہ صولتیہ کے آغاز سے قبل ہی مکہ مکرمہ میں تشریف لائے تو قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ نے الشیخ ابراہیم سعد بن علی رحمہ اللہ کے وجود کو غنیمت جانتے ہوئے اوراس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے باقاعدہ فن تجوید و قراء ت میں استفادہ فرمایا۔ مدرسہ صولتیہ کے آغاز سے ہی الشیخ قاری ابراہیم سعد بن علی رحمہ اللہ نے یہاں تدریس ِعلم تجوید و قراء ات کا آغاز فرمایا۔ انہی تدریسی کاوشوں اور خدمات کے نتیجے میں ایک نامور تلمیذ اور زندہ جاوید کتاب قاری محمد عبداللہ مکی رحمہ اللہ کی صورت میں چھوڑی، جن کے ذریعے برصغیر پاک و ہند میں فن و علم تجوید و قراء ات کااجراء و ارتقاء ہوا۔ الشیخ ابراہیم سعد بن علی رحمہ اللہ مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں دوران ِتدریس ہی وفات پاگئے۔ بعد ازاں الشیخ ابراہیم رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید قاری محمد عبد اللہ رحمہ اللہ ہی آپ کے جانشین مقرر ہوئے،جن کا اب تذکرہ کیا جاتاہے۔

اِمام القراء قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ کا تعارف


نام: محمد عبداللہ مکی بن بشیر احمدخان
تاریخ پیدائش وجائے پیدائش:امام القراء رحمہ اللہ۱۲۷۲ھ بمطابق ۱۸۵۶ قصبہ قاسم گنج، ضلع فرخ آباد میں پیدا ہوئے۔
اَساتذہ: ١ الشیخ القاری عبدالقادر مدارسی الازہریرحمہ اللہ
٢ الشیخ ابراہیم سعد بن علی الشافعی الازہری مصری رحمہ اللہ

امام القراء قاری محمد عبداللہ مکی رحمہ اللہ کے تعلیمی شب و روز

امام القراء قاری محمد عبداللہ مکی رحمہ اللہ نے مدرسہ صولتیہ، مکہ مکرمہ میں الشیخ ابراہیم سعد بن علی رحمہ اللہ کے سامنے زانوائے تلمذ اختیار کرلیا اور الشیخ ابراہیم سعدرحمہ اللہ نے بھی اپنے ہونہار تلمیذ رشید کی علمی پیاس بجھانے کے لیے لیل و نہار کو ایک کئے رکھا۔ اس بارے میں قاری عزیز احمدتھانوی حفظہ اللہ (مدیر قراء ت اکیڈمی)لکھتے ہیں:
’’حضرت قاری ابراہیم سعد بن علی رحمہ اللہ اس زمانہ میں حجازمقدس میں اپنے فن کے امام شمار ہوتے تھے۔ مدرسہ صولتیہ کے قیام کے بعد قاری ابراہیم سعد رحمہ اللہ درس و تدریس میں ہمہ تن اور ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ دن رات چوبیس گھنٹوں میں بمشکل دو تین گھنٹے آرام فرماتے، بقایا اوقات میں تعلیم قرآنی کی عظیم خدمت ہی آپ کا کام تھا۔ تہجد کے وقت اپنے بہت محبوب اور خاص شاگردوں، مثلاً حضرت قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ اور حضرت قاری سبحان اللہ رحمہ اللہ، جیسے اجل شاگردوں پر خصوصی توجہ ہوتی۔ حضرت قاری ابراہیم سعدرحمہ اللہ نے قیام صولتیہ کے دوران ہی بعمر ستر سال انتقال فرمایا۔‘‘ (تذکرہ منبع علوم و فنون: ص ۳۴۹)
الغرض امام القراء قاری محمد عبداللہ مکی رحمہ اللہ نے پہلے روایت حفص کی تکمیل فرمائی اور بعد ازاں قراء ات عشرہ بطریق درہ و طیبہ کی تعلیم حاصل کی۔ حضرت قاری ابراہیم سعد رحمہ اللہ نے اپنے ہونہار شاگرد پربے انتہا محنت کی۔ روایت کا نہایت عمدہ حفظ،ان کی ادائیگی بے تکلف،اور عربی لہجوں کی بے حد پختگی نے حضرت قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ کو امام وقت بنا دیا۔
امام القراء کے بارے مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ اور الشیخ ابراہیم سعدرحمہ اللہ کا تبصرہ

امام القراء قاری محمد عبداللہ مکی کے دوران تدریس علم و فن تجوید قراء ات مولانا رحمت اللہ نے الشیخ ابراہیم سعد سے کہا:
’’أظن أن القاری عبد اﷲ صار ماھرا ولا نظیر لہ فی الھند‘‘
’’میں سمجھتا ہوں کہ قاری عبداللہ نے بڑی مہارت حاصل کرلی ہے۔ ہندوستان میں ان کی نظیراور مثال نہیں۔ ‘‘
تو امام القراء قاری محمد عبداللہ مکی صاحب کے استاد محترم الشیخ ابراہیم سعد نے فوراً فرمایا:
’’بل لا نظیر لہ فی العالم‘‘
’’نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پورے عالم میں اس کی نظیر نہیں ہے۔‘‘
امام القراء قاری محمد عبداللہ مکی رحمہ اللہ کی تدریسی خدمات اور دیگر مشاغل

امام القراء قاری محمد عبداللہ مکی تحصیل علم و فن تجوید و قراء ات کے بعد مدرسہ صولتیہ میں اپنے استاد قابل صد احترام الشیخ ابراہیم سعد کے معاون استاد مقرر ہوئے۔ آغاز تدریس میں ہی آپ کے استاد الشیخ ابراہیم خالق حقیقی سے جاملے۔ امام القراء قاری محمد عبداللہ مکی مدرسہ صولتیہ میں بطور صدر مدرس مقرر ہوئے۔ امام القراء چوبیس گھنٹوں میں صرف چار گھنٹے آرام فرماتے۔ باقی تمام وقت تدریس قرآن کے لیے وقف تھا۔ امام القراء کے دونوں چھوٹے بھائیوں قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ اور قاری حبیب الرحمن مکی رحمہ اللہ نے آپ سے ہی فیض علمی پایا۔ اولاً تو انہوں نے آپ سے روایت حفص میں کمال حاصل کیا اور بعد میں سبعہ و عشرہ بطریق درہ و طیبہ کی تکمیل فرمائی۔ گویا اس طرح پوری دنیا میں آپ کا فیض علمی جاری ہوا۔

اِمام القراء قاری محمد عبداللہ مکی رحمہ اللہ کا حرم میں نماز تراویح کی ادائیگی

امام القراء قاری محمد عبداللہ مکی رحمہ اللہ مدرسہ صولتیہ میں تدریس کے ایام میں حرم میں نماز تراویح پڑھاتے تھے۔ ان کی اقتدا میں خلق ِخدا کا اژدھام اور ہجوم ہوتا۔ امام القراء کی آواز اتنی پُرسوز تھی کہ مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ، حاجی امداد اللہ رحمہ اللہ اور استاد القراء الشیخ ابراہیم سعد بن علی رحمہ اللہ اور دیگر سرداران مکہ امام القراء رحمہ اللہ کی اقتداء میں نماز تراویح ادا فرماتے۔

امام القراء کے نامور تلامذہ

١ حضرت قاری عبدالرحمن مکی الہ آبادی رحمہ اللہ (فاضل قراء ات سبعہ و عشرہ بطریق الشاطبیہ و الدر ہ والطیبہ)
٢ حضرت قاری محمد سلیمان بھوپالی رحمہ اللہ( فاضل قراء ات سبعہ و عشرہ)
٣ حضرت قاری مرزا محمود بیگ رحمہ اللہ (فاضل قراء ات سبعہ و عشرہ)
٤ حضرت قاری عبدالخالق رحمہ اللہ (روایت حفص عبداللہ مکیؒ سے اور قراء ات سبعہ و عشرہ قاری عبدالرحمن مکیؒ سے سیکھیں)
٥ حضرت قاری عبدالمالک رحمہ اللہ (روایت حفص عبداللہ مکیؒ سے اور قراء ات سبعہ و عشرہ قاری عبدالرحمن مکیؒ سے سیکھیں)
٦ قاری حبیب الرحمن مکی رحمہ اللہ ( روایت حفص قاری عبداللہ مکی سے اور سبعہ و عشرہ قاری عبدالرحمن مکی سے)
٧ حضرت قاری عبدالوحید رحمہ اللہ (سبعہ و عشرہ قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ سے، لیکن سفر حج کے بعد قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ سے توثیقاًدوبارہ پڑھا )
سن وفات: امام القراء قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ ۲۵شوال بروز منگل ۱۳۳۷ھ بمطابق ۲۳ جون ۱۹۱۹ء کو اس دارفانی سے رحلت فرماگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون

شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کی سوانح عمری اور علم تجوید وقراء ات کا ارتقاء

نام: محمدعبدالرحمن مکی الہ آباد بن محمدبشیراحمد خان
سن پیدائش: آپ ۱۲۸۰ھ بمطابق۱۸۶۴ء میں پیدا ہوئے۔

شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کا تعلیمی دور

الشیخ ابراہیم سعد بن علی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد امام القراء قاری عبداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ مدرسہ صولتیہ میں بطورِ صدر مدرس مقرر ہوئے اور ان کے دونوں بھائیوں قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ اور قاری حبیب الرحمن مکی رحمہ اللہ نے امام القراء قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ سے روایت حفص اور سبعہ و عشرہ بطریق درہ و طیبہ میں فیض پایا۔

شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کی وطن واپسی اور تدریسی خدمات

شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی مدرسہ صولتیہ میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ایک دن مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ اور مولانا حاجی امداد اللہ رحمہ اللہ نے باہم مشورہ کرکے متعدد علماء وصلحا کی موجودگی میں دونوں بھائیوں قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ اور قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کو بلوا بھیجا۔ ان کے آنے پر مولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ نے دونوں بھائیوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’ عبداللہ تم کو تو میں یہاں مدرسہ صولتیہ کے لیے رکھتا ہوں اور عبدالرحمن تم کو حکم دیتا ہوں تم ہندوستان جاکر قرآن کی خدمت کرو اور تجوید و علوم قراء ات کی ترویج کرو نیزمصری اور عربی لہجوں کی بھی تعلیم دو جن سے اہل ہند نابلد ہیں۔‘‘
مولانارحمت اللہ رحمہ اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے شیخ القراء قاری عبدالرحمن رحمہ اللہ ۱۳۰۰ھ بمطابق ۱۸۸۳ء میں ہندوستان واپس تشریف لائے۔
مہرمنیر میں مؤلف رقم طراز ہیں:
’’قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ کے چھوٹے بھائی عبدالرحمن رحمہ اللہ نے بھی مدرسہ صولتیہ میں تعلیم پائی اور وہاں سے واپس آکر کانپور میں کچھ عرصہ قیام کیا جہاں مولانا احمد حسن کانپوری رحمہ اللہ کے فرزندان و دیگر نامور طلباء نے آپ سے علم تجوید و قراء ات حاصل کیا۔‘‘ (ص۱۲۶)

ایک غلط فہمی کا ازالہ

شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ برادر اصغر قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ کے حالات لکھتے ہوئے اکثر تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ نے مکہ معظمہ سے واپس ہندوستان آکر جامع العلوم میں درس نظامی کی تکمیل فرمائی ہے یہ بات سو فیصد غلط ہے۔ درحقیقت قاری عبدالرحمن جونپوریa نے جامع العلوم میں تحصیل علم کیاہے اور شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ نے جامع العلوم میں تدریس کی ہے ، نہ کہ تعلیم حاصل کی ہے۔

جامع العلوم جونپور اور احیاء العلوم الہ آباد میں شیخ القراء کی تدریس

شیخ القراء رحمہ اللہ مدرسہ صولتیہ، مکہ مکرمہ ہی سے تکمیل تعلیم کرکے واپس ہندوستان پلٹے اور ہندوستان میں جامع العلوم کانپور میں تدریسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور کچھ عرصہ ادھر تدریس تجوید و قراء ات کرتے رہے۔ یہاں سے آپ سے بہت سے لوگوں نے فیض علمی پایا ۔ بعدازاں آپ مدرسہ احیاء العلوم الہ آباد جو ریلوے اسٹیشن سے متصل مسجد عبداللہ میں واقع تھا،میں اپنی حیات و زندگی کا اکثر حصہ تدریسی خدمات سرانجام دیتے ہوئے بسر کیا۔ یہاں سے آپ کے کثیر تعداد میں ماہر علم و فن تلامذہ تیار ہوئے۔

مدرسہ جامع العلوم میں شیخ القرائکے نامور تلامذہ

١ قاری عبدالخالق رحمہ اللہ( فاضل قراء ات سبعہ و عشرہ بطریق درہ و طیبہ)
٢ قاری عبدالمالک رحمہ اللہ( فاضل قراء ات سبعہ وعشرہ بطریق درہ و طیبہ)
٣ قاری نثار احمد کانپوری رحمہ اللہ (صاحبزادہ مولانا احمد حسن مدیر التعلیم جامع العلوم کانپور)
٤ حضرت مولانا مشتاق احمد کانپوری رحمہ اللہ (ایضاً)
٥ قاری ضیاء الدین رحمہ اللہ
٦ قاری فضل حق رحمہ اللہ
٧ قاری عبدالستار کانپوری رحمہ اللہ

مدرسہ احیاء العلوم میں شیخ القراء کے نامور تلامذہ

١ قاری عبدالوحید رحمہ اللہ (سابق صدر مدرس تجوید و قراء ات دارالعلوم دیوبند)
٢ قاری محمدصدیق میمن سنگھی رحمہ اللہ (مدرس مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ)
٣ قاری عبدالمعبود رحمہ اللہ(مدرس عالیہ فرقانیہ لکھنؤ)

شیخ القراء کی وفات

شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ ۶؍جمادی الاوّل بروز منگل ۱۳۴۹ھ بمطابق ۱۹۳۰ء کو دنیا فانی سے رخت سفر باندھتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون

شیخ القراء کی تصنیفی خدمات

١ فوائد مکیہ ( یہ اُردو زبان میں ہے، جوتیرہ فصلوں اور تین ابواب پر مشتمل ہے)
٢ أفضل الدُّرر المعروف درر العقیلۃ فی شرح متن عقیلۃ للشاطبی(یہ کتاب عربی زبان میں ہے)
٣ شرح شاطبیہ از ملا علی قاری کی تقریظ بھی شیخ القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ نے لکھی ہے۔
٤ قواعد سبعہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الشیخ قاری حبیب الرحمن رحمہ اللہ کا ارتقاء علم تجوید میں حصہ

الشیخ قاری حبیب الرحمن مکی لکھنوی رحمہ اللہ قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ اور قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کے چھوٹے بھائی تھے، جو کہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ قاری حبیب الرحمن رحمہ اللہ جوں ہی بڑے ہوئے تو علم تجوید و قراء ت کے ذوق و شوق نے اضطراب کا شکار کردیا تو آپ نے مدرسہ صولتیہ میں برادر اکبر قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ سے علم تجوید و قراء ت حاصل کیا۔ تکمیل تعلیم کے بعد آپ کے عملی دور کا آغازہوا۔ آپ کی صوت ِقرآن اتنی پُرکشش اور سریلی تھی کہ اکثر اوقات قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ آپ سے قرآن سننے کی فرمائش کرتے۔ جب آپ تلاوت کلام پاک فرماتے تو وہ بہت مسرور ہوتے۔

تدریسی خدمات

الشیخ قاری حبیب الرحمن مکی رحمہ اللہ نے تدریسی خدمات کا آغاز مدرسہ صولتیہ میں کیا وہاں کچھ عرصہ تدریس علم و تجوید و قراء ات کرتے رہے اور ساتھ ساتھ حرم میں قرآن سناتے رہے۔ بعدازاں وطن واپسی ہوئی تو آپ نے لکھنؤ میں قیام فرمایا اور وہاں مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آپ چونکہ تپ دق کے مریض تھے۔اسی عارضہ کی وجہ سے حضرت زیادہ دیر تدریس نہ کرسکے۔ آپ سے اس دور میں قاری محمد حسن رحمہ اللہ نے استفادہ کیا۔ بعد میں آپ کی طبیعت ناساز ہوگئی۔

وفات

الشیخ قاری حبیب الرحمن رحمہ اللہ نے ۱۳۴۲ھ بمطابق ۱۹۲۴ء کومدرسہ عالیہ فرقانیہ میں داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے خالق کو جاملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون

خاندان جیون علی رحمہ اللہ کا سفر حج

علی گڑھ کے معزز باشندے جیون علی رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے دو ہونہار اور سعادت مند بیٹوں سے نوازا۔ بڑے بیٹے کا نام عبدالخالق رکھا، جو ۱۲۹۸ء میں پیدا ہوئے اور بعد میں استاد القراء کے نام سے شہرت پائی اور چھوٹے بیٹے ۱۳۰۳ھ میں پیدا ہوئے، جس کا اسم گرامی عبدالمالک رکھا گیا، جو بعد میں برصغیر میں استاد القراء کے نام سے معروف ہوئے۔ جب قاری عبدالمالک رحمہ اللہ پیدا ہوئے تو ان سے باپ کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا۔ قاری عبدالخالق رحمہ اللہ نے ہندوستان میں ہی قرآن کریم حفظ کرلیا، تو ان کی والدہ محترمہ نے دونوں ذہین و فطین بیٹوں کے ساتھ حج کے لیے رخت سفر باندھا۔ فراغت حج کے بعد ان کی والدہ نے مکہ میں طویل مدت قیا م فرمایا اور مقصد یہی تھاکہ اپنے جگر گوشوں کو تعلیم قرآنی سے آراستہ کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے دونوں بیٹوں کو مدرسہ صولتیہ میں داخل کرادیا۔ ان دنوں شیخ العرب والعجم قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ مدرسہ صولتیہ میں صدر مدرس اور مدیر التعلیم تھے۔

قاری عبدالخالق رحمہ اللہ اور قاری عبدالمالک رحمہ اللہ صاحبان کا تعلیمی دور

مدرسہ صولتیہ میں داخل ہوتے ہی قاری عبدالمالک رحمہ اللہ نے حفظ قرآن فرمایا اور پھر دونوں بھائیوں نے شیخ العرب والعجم قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ سے علم تجوید و قراء ات میں بالخصوص اور دیگر علوم میں بالعموم خوب استفادہ فرمایا۔ دونوں بھائیوں کے تحصیل علم سے قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ بہت خوش تھے۔ دونوں بھائیوں نے کئی سالوں کی بھرپور محنت کے بعد روایت حفص کی تکمیل قاری عبداللہ رحمہ اللہ سے فرمائی اورتکمیل ِروایت ِحفص کے بعد وطن واپسی کا سوچا۔

ہندوستان واپسی اور علم تجوید و قراء ات کا فروغ

استاد القراء قاری عبدالخالق رحمہ اللہ اور قاری عبدالمالک رحمہ اللہ تکمیل روایت حفص کے بعد وطن واپس تشریف لائے۔ دونوں شیوخ القراء کو والہانہ استقبال کے بعد مدرسہ تجوید القرآن سہارنپور میں تدریس کی پیش کش ہوئی، جسے دونوں شیوخ نے بخوشی قبول فرمایا اور تجوید و قراء ات کے فروغ و اشاعت کے لیے کوشاں ہوگئے۔

اُستاد القراء قاری عبدالخالق رحمہ اللہ کی تدریسی خدمات

استاد القراء قاری عبدالخالق رحمہ اللہ برصغیر سے مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کرکے گئے تو ان کی والدہ محترمہ کو قاری عبدالخالق کے حفظ کے اُستاد مولوی صدیق حسین رحمہ اللہ نے رخصت کرتے وقت یہ وصیت فرمائی کہ مکہ مکرمہ جاکر انہیں علم قراء ات ضرور پڑھانا۔ اسی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کے بعد برصغیر میں آکر مدرسہ تجوید القرآن، سہارنپور کو اپنی تدریسی سرگرمیوں اور خدمات کا دائمی مرکز و محور بنایا، جبکہ قاری عبدالمالک رحمہ اللہ اسے خیر باد کہہ گئے۔ یہاں آپ سے بہت سے لوگوں نے علم قراء ات میں استفادہ فرمایا۔

نامور تلامذہ قاری عبدالخالق رحمہ اللہ

استاد القراء قاری عبدالخالق رحمہ اللہ سے دوران تدریس مدرسہ تجوید القرآن، سہارنپور میں ایک نامور تلمیذ رشید قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ تیار ہوئے، جن کی شہرت بعدازاں آفاق میں پھیل گئی۔ شیخ القراء قاری اظہاراحمدرحمہ اللہ کی سوانح عمری اور خدمات آئندہ صفحات میں پیش کی جائیں گی۔قاری عبد الخالق رحمہ اللہ کے دوسرے نامورتلمیذ رشید قاری تاج محمود رحمہ اللہ تھے، جن کے شاگرد قاری خدا بخش رحمہ اللہ تھے۔ قاری خدا بخش رحمہ اللہ وہی ہیں، جن سے شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ نے قرآن کریم حفظ کیا۔ قاری عبد الخالق رحمہ اللہ کے ایک اور شاگر د قاری افتخار عثمانی رحمہ اللہ بھی تھے، جنہوں نے دیگر تلامذہ کی طرح اس فن کی نہائت خدمت کی۔

وفات

اُستاد القراء قاری عبدالخالق رحمہ اللہ دوران تدریس مدرسہ تجوید القرآن، سہارنپور میں۱۱؍اپریل ۱۹۵۷ء بروز جمعرات خالق کائنات سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کی تدریسی خدمات

استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ نے چونکہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں تدریسی خدمات سرانجام دی ہیں اورپہلے ہندوستان میں اور پھر پاکستان کی عوام کو علم تجوید و قراءات سے مستفید فرمایا ہے، اسی ترتیب سے ہم استاد القراء کی تدریسی خدمات کا تذکرہ کرتے ہیں۔

استاد القراء کی ہندوستان میں تدریسی خدمات اور بڑی بڑی محافل حسن قراء ات میں شرکت

استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کی مکہ سے ہندوستان تشریف آوری کے فوراً بعد انہیں مدرسہ تجوید القرآن، سہارنپور میں تدریس علم تجوید و قراء ات کی دعوت دی گئی، جسے آپ نے بخوشی قبول فرمایا۔ دورانِ تدریس مدرسہ تجوید القرآن، سہارنپور میں تین روزہ محفل قراء ات و جلسہ منعقد ہوا، جس میں بڑی بڑی علمی و فنی شخصیات کو مدعو کیاگیا اور قاری عبدالمالک رحمہ اللہ اور قاری عبدالخالق رحمہ اللہ کوبھی محفل قراء ت میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ دونوں بھائی بڑے جوش و خروش سے عربی لباس پہنے اس محفل ِقراء ات میں جلوہ افروز ہوئے، لیکن دونوں محفل قراء ت میں شریک بڑے بڑے شیوخ اور قراء کو دیکھ کر گھبرائے ہوئے تھے۔ اس محفل ِقراء ت میں مدعو اکثر قراء کرام پانی پتی تھے۔
محفل قراء ت میں دعوت ِتلاوت کلام پاک کا ضابطہ یہ تھا کہ پہلے اکابر، پھر اصاغر قراء کرام کو دعوت دی جائے گی۔ جب اکابرین قراء کی تلاوتیں ہوئیں تو ان کے لب و لہجے میں کوئی سوز اور کشش نہ تھی اور آوازوں میں تمکنت اور عربیت کا نکھار مفقود تھا۔ عربی جبہ و عقال میں ملبوس دونوں بھائی پڑھنے کے لیے اپنے اندر ایک نئی اُمنگ محسوس کرنے لگے، جب ان نوجوان عرب قراء کودعوت ِتلاوت دی گئی تو ایسی پُرسوز اور حجازی لہجوں میں پختہ گرفت کے ساتھ تجوید سے معمور تلاوتیں فرمائیں کہ تمام مجمع حیرت و استعجاب سے دردوسوز میں ڈوب گیا۔ آنسوؤں کی لڑیاں بندھ گئیں۔ ایسی تلاوتیں ہندوستان کے باشندوں نے پہلے کبھی نہ سنی تھیں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اس جلسہ میں تشریف فرماتھے۔ آکر قراء کرام سے بڑے خلوص کے ساتھ ملے۔ خوشی کا اظہار کرنے کے بعد استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ سے درخواست کی کہ آپ میرے ہاں امدادالعلوم، تھانہ بھون میں علم تجوید و قراء ات میں خدمات سرانجام دیں۔آپ کی پانچ یا پندرہ روپے تنخواہ مقرر ہوئی۔ مدرسہ امداد العلوم، تھانہ بھون میں انتہائی محنت سے طلباء کو پڑھایا، جس سے تھانہ بھون میں علم تجوید و قراء ات کو کافی حدتک فروغ ملا۔

استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کی بریلی میں خدمت قرآن

استاد القراء کو امداد العلوم، تھانہ بھون میں ایک سال ہوچکا تھا، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے برادر اصغر منشی اکبر علی تھانوی رحمہ اللہ تھانہ بھون تشریف لائے اور مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے اجازت طلب کی کہ استاد القراء کو میرے ساتھ بریلی جانے کی اجازت دی جائے اور وہاں چونکہ جامع مسجد ہے، اس لیے عوام زیادہ مستفید ہوں گے تو استاد القراء نے بریلی میں خدمت قرآن کاآغاز فرمایا اور ایک سال تک وہاں تدریسی فرائض سرانجام دیے۔ وہاں آپ سے استفادہ کرنے والوں کا اژدھام ہوتا۔

استاد القراء کی آگرہ میں آمد اور تدریس تجوید و قراء ات

استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ دوستوں کے مدعو کرنے پربریلی سےآگرہ تشریف لے آئے، آگرہ کی جامع مسجد میں مدرسہ عالیہ کے نام سے تجوید و قراء ات کی خدمت سرانجام دیتے رہے۔یہاں آپ سے قاری حفظ الرحمن پرتاپ گڑھی رحمہ اللہ ، صدر شعبہ دارالعلوم، دیو بند نے بالخصوص اور دیگر طلباء نے بالعموم روایت حفص میں فیض پایا۔

قاری عبدالمالک aکا قراء ات سبعہ و عشرہ سیکھنا

استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ ابھی مدرسہ عالیہ آگرہ میں تدریس فرما تھے کہ چند اصحاب مدرسہ صولتیہ سے آگرہ تشریف لائے اور استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کی تدریس کا اعلیٰ معیار اور پورے ہندوستان میں پھیلی ِعلمی شہرت کا جب اس وفد کو علم ہوا تو انہوں نے بہت زیادہ فرحت و انبساط کااظہار کیا اورواپس مدرسہ صولتیہ پہنچ کر قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ کو اس چیزکی خبر دی۔ حضرت الاستاد قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ اپنے تلمیذ رشید کی حسن کارکردگی سے بے حد خوش ہوئے اور خط لکھ کر قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کو دعائیہ کلمات سے نوازا اور مشورہ تحریر فرمایا کہ میرے بھائی قاری عبدالرحمن رحمہ اللہ کے پاس الہ آباد جاؤ اور قراء ات سبعہ و عشرہ کی تکمیل کرلو۔۱۳۳۴ھ میں قاری عبدالمالک،قاری عبدالخالق اور قاری حفظ الرحمن پرتاب گڑھی رحمہم اللہ امام القراء قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کی خدمت میں احیاء العلوم میں حاضر ہوئے۔ چونکہ قاری عبدالخالق رحمہ اللہ اور قاری عبدالمالک رحمہ اللہ قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ کے خاص تلامذہ میں سے تھے، اس چیز کو پیش نظر رکھتے ہوئے قاری عبدالرحمن رحمہ اللہ نے انہیں بڑی عزت و تکریم سے نوازا اور انہیں مدرسہ میں داخلہ دے دیااور ہر طرح کی ضرورت کا خیال فرماتے۔ جب قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ نے قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کی عمدہ پڑھت اور پُرسوز آواز سنی تو بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ آپ یہاں مدرسہ احیاء العلوم میں داخل طلباء کو مشق کرایا کریں، تو قاری عبدالمالک رحمہ اللہ انہیں مشق کراتے اور کئی رکاوٹوں کی بنا پر بڑے قاری صاحب رحمہ اللہ سے استفادہ سے رُکے ہوئے طلباء کو قاری عبدالمالک رحمہ اللہ نے اس قابل بنا دیا کہ وہ بڑے قاری صاحب رحمہ اللہ سے استفادہ کرنے کے اہل ہوگئے ۔ قاری عبدالخالق ، قاری عبدالمالک اور قاری حفظ الرحمن پرتاپ گڑھی رحمہم اللہ نے ۱۳۳۷ھ میں سبعہ و عشرہ بطریق درہ و طیبہ کی تکمیل فرمائی۔

قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کی مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں تدریسی خدمات

استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ تکمیل سبعہ و عشرہ بطریق درہ وطیبہ کے بعد ۱۳۳۷ھ کو مدرسہ عالیہ فرقانیہ، لکھنؤمیں تشریف لے گئے۔ ان دنوں قاری حبیب الرحمن رحمہ اللہ بطور صدر مدرس اور قاری ضیاء الدین رحمہ اللہ وہاں تدریس تجوید و قراء ات فرما رہے تھے۔ مدرسہ کاماحول خوبصورت عربی، مصری اور حجازی لہجوں سے گونج اٹھا۔ چند سالوں کے بعد ۱۳۴۲ھ میں استاد القراء قاری حبیب الرحمن رحمہ اللہ وفات پاگئے اور مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں مسند صدر مدرس شعبہ تجوید و قراء ات خالی ہوگئی، جس کے لیے قاری ضیاء الدین رحمہ اللہ بہت خواہشمند تھے۔ مہتمم مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ مولانا عین القضاۃ رحمہ اللہ نے قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ سے رابطہ کر کے کہا کہ مسند صدر مدرس کے لیے آپ مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ تشریف لے آئیں۔ انہوں نے بذات خود آنے کی بجائے مشورہ دیا کہ آپ کے ہاں موجود قاری عبدالمالک رحمہ اللہ اس مسند کے مستحق ہیں اور وہ اس منصب کا صحیح حق ادا کریں گے۔ مولانا عین القضاۃ رحمہ اللہ نے اسی مشورہ پر عمل کرتے ہوئے قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کو بطور صدر مدرس برائے تجوید و قراء ات مقرر فرمایا۔

قاری ضیاء الدین احمد رحمہ اللہ اور قاری عبدالمالک رحمہ اللہ میں اختلاف

جب مدرسہ عالیہ فرقانیہ، لکھنؤ میں منصب صدر مدرس قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کے سپرد کردیاگیا، تو قاری ضیاء الدین رحمہ اللہ یہ خبر سن کر انتہائی کبیدہ خاطر ہوئے۔ اس لیے کہ وہ قاری عبدالمالک رحمہ اللہ سے عمر میں بھی بڑے تھے اور مدرسہ عالیہ میں تدریس بھی ان سے پہلے سے کررہے تھے۔ انہوں نے اور ان کے متعلقین نے کہا کہ قاری عبدالمالک رحمہ اللہ تو قاری ضیاء الدین رحمہ اللہ کے سبعہ کے شاگرد ہیں اور استاد کے ہوتے ہوئے شاگرد کا صدرمدرس کے منصب پر فائز ہونا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟حالانکہ قاری عبد المالک رحمہ اللہ نے قاری ضیاء الدین رحمہ اللہ سے ایک لفظ بھی نہیں پڑھا۔ اس مسئلے پر گفت و شنید اور اسے رفع کرنے کے لیے قاری احمد رحمہ اللہ ، قاری ضیاء الدین رحمہ اللہ کے رہائشی کمرہ میں گئے۔ قاری ضیاء الدین رحمہ اللہ گھر جانے کی تیاری میں مصروف تھے۔ قاری احمد رحمہ اللہ نے ابھی ان سے استفسار ہی کیا تھا کہ قاری ضیاء الدین رحمہ اللہ ان پر اس قدر ناراضگی سے برسے جس کااندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے فوراً بعد وہ گھر چلے گئے اور دوسرے دن کسی کے ہاتھ استعفیٰ لکھ کر بھیج دیا۔ اسے حقیقت سے ناواقف اور ناآشنا طلباء نے بہت ہوا دی، جس سے مدرسہ کی فضا کافی حد تک خراب ہوگئی۔ قاری عبدالمالک رحمہ اللہ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو مدرسہ عالیہ فرقانیہ، لکھنؤ کو خیر آباد کہہ کر مدرسہ عالیہ، ٹونک تشریف لے گئے اورقاری ضیاء الدین aکو مسند صدر مدرس پرفائز کردیا گیا۔

مدرسہ عالیہ ٹونک میں قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کی تدریسی خدمات

مولاناحیدر حسن ٹونکوی رحمہ اللہ عرصہ دراز سے خواہش کررہے تھے کہ قاری عبدالمالک رحمہ اللہ علم تجوید و قراء ات کے فروغ کے لیے ٹونک تشریف لائیں، تو قاری عبدالمالک رحمہ اللہ نے مدرسہ عالیہ فرقانیہ، لکھنؤ کو خیر آباد کہنے کے فوراً بعد ان سے رابطہ کیا اور ۱۳۴۲ھ کو مدرسہ عالیہ، ٹونک تشریف لے آئے اور وہاں دوسال تدریسی سرگرمیاں سر انجام دیں، جس سے بے شمار قراء کرام تیار ہوئے۔ دوسری طرف مولانا عین القضاۃ رحمہ اللہ، مہتمم مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ نے مزید تحقیق و تفتیش اورتسلی کے لیے قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ سے رابطہ کیا، مکمل تسلی کے بعد منشی اصغر علی اور دیگر حضرات جو قاری ضیاء الدین رحمہ اللہ کے موقف کے حاملین تھے، ان کا خروج لگادیا جو بعدمیں مدرسہ سبحانیہ الہ آباد چلے گئے۔

قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کی دوبارہ مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ میں آمد اور خدمت ِقرآن

مولانا عین القضاۃ رحمہ اللہ نے استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کو دوبارہ مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں رئیس الاساتذہ کے منصب پرفائز ہونے کی التماس کی، لیکن بے سود۔ مولانا عین القضاۃ رحمہ اللہ نے اپنی تمام کاوشوں کو ناکام دیکھتے ہوئے قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ سے عرض کی کہ قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کو حکم فرمائیں کہ وہ یہاں مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ میں علم تجوید و قراء ات کی خدمات سر انجام دیں۔ جب قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ نے مدرسہ عالیہ فرقانیہ کے حالات کو روبہ زوال ہوتے دیکھا تو قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کے پاس ٹونک تشریف لے گئے، جب وہاں پہنچے اور قاری عبدالمالک رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے آپ کو تشریف فرما ہونے کا کہا، تو امام القراء قاری عبدالرحمن رحمہ اللہ نے فرمایا کہ پہلے ایک وعدہ کرو پھر بیٹھوں گا، ورنہ بغیر بیٹھے واپس چلا جاؤں گا۔ قاری عبدالمالک رحمہ اللہ نے کہا، جو آپ فرمائیں گے سرتسلیم خم ہوگا اور اس کی قدرکی جائے گی۔ امام القراء تشریف فرما ہوکر فرمانے لگے کہ مدرسہ عالیہ فرقانیہ واپس چلو اور وہاں خدمت قرآن سرانجام دو۔ اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قاری عبدالمالک رحمہ اللہ واپس مدرسہ عالیہ فرقانیہ، لکھنؤ تشریف لے گئے اورعلم تجوید و قراء ات کی اشاعت کے لیے کوشاں ہوگئے۔ ایک سال بعد مولانا عین القضاۃ رحمہ اللہ کی ۸؍ جنوری۱۹۲۵ء کو عصر اور مغرب کے درمیانی وقت میں روح پرواز کرگئی۔قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور وہ اسی مدرسہ کے احاطہ میں اپنے والد سید وزیرعلی رحمہ اللہ کے پہلو میں سپرد خاک کر دیے گئے۔ مولانا کی وفات کے بعد قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں قاری عبدالمالک رحمہ اللہ مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں علم تجوید و قراء ات کی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ پانچ سال بعد ۱۹۳۰ء کو قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ وفات پاگئے۔ ان کے بعد مدرسہ عالیہ کے سرپرست رئیس الاساتذہ قاری عبدالمالک رحمہ اللہ قرار پائے۔ اس دور میں قاری عبدالمالک رحمہ اللہ نے قاری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ کی تصنیف فوائد مکیہ کیبڑے شاندار انداز حواشی تعلیقات مالکیہ کے نام سے تحریر فرمائے۔ اس حاشیہ کے مقبول ہونے پر قاری ضیاء الدین رحمہ اللہ کے تلامذہ میں پھر سے حسد کی لہر دوڑ گئی۔ بہرحال استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کو مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں تجوید و قراء ات کے حوالے سے طویل عرصہ خدمات سرانجام دیتے ہوئے اب تیس برس ہوگئے تھے اور اس وقت پاکستان کو معرض وجود میں آئے تین برس ہوئے تھے کہ مدرسہ عالیہ فرقانیہ کے معاشی و اقتصادی حالات دگرگوں ہوگئے، چنانچہ امام القراء کا وہاں رہنا مشکل ہوگیا تو آپ مدرسہ عالیہ فرقانیہ، لکھنؤکوخیر باد کہہ کر پاکستان تشریف لے آئے۔

پاکستان آمد اور تدریسی خدمات کاآغاز

تقسیم ہند کے بعد مولانا احتشام الحق تھانوی رحمہ اللہ،مہتمم دارالعلوم ٹنڈوالہ یار اور مولانا محمد حسن رحمہ اللہ، مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور و دیگر اَکابرین کے پرزور اِصرار پر استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ نے ۱۳۷۰ھ بمطابق ۱۹۵۰ء کو پاکستان کی سرزمین میں قدم رکھا اور دارالعلوم ٹنڈوالہ یار (سندھ) میں تشریف فرما ہوئے اور دو سال انتھک محنت سے طلباء کو پڑھاتے رہے۔ وہاں آپ سے قاری عبد الوہاب مکی رحمہ اللہ نے استفادہ کیا۔ دوسال مکمل ہونے پر ۱۳۷۲ھ بمطابق ۱۹۵۲ء، ٹنڈوالہ یار کی معاشی و اقتصادی اور انتظامی بے قاعدگیوں کی بنا پر اسے خیر باد کہنے پر مجبور ہوگئے۔

دارالعلوم اِسلامیہ، لاہور میں تدریسی سرگرمیاں

استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ ٹنڈوالہ یار (سندھ) سے لاہور مدرسہ دارالعلوم اسلامیہ، پرانی انارکلی میں رونق افروز ہوئے۔یہاں آنا ایسے ہواکہ مدرسہ دارالعلوم اسلامیہ، لاہور کے مہتمم قاری سراج احمد رحمہ اللہ،قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کی تدریسی سرگرمیاں اور خدمات سے بے حد متاثر تھے اور ہمیشہ سے اس خواہش کو پورا کرنے کو شدت سے بے چین تھے کہ کوئی موقع ملے تو قاری عبد المالک رحمہ اللہ کی خدمات حاصل کی جائیں۔ انہوں نے بڑی عجلت اور سرعت کے ساتھ استاد القراء سے رابطہ کیا اور تمام قسم کی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ استاد القراء رحمہ اللہ بھی جذبہ خدمت قرآن کے جذبے سے سرشار تھے اور قاری سراج احمد رحمہ اللہ بھی مدرسہ دارالعلوم اسلامیہ کو تجوید و قراء ات کا مرکز بنانا چاہتے تھے، چنانچہ استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ نے مدرسہ ہذا میں تدریس ِعلم تجوید و قراء ات کا آغاز فرمایا۔
استاد القراء ۱۹۵۲ء سے ۱۹۵۸ء تک مدرسہ ہذا میں علم تجوید و قراء ات کی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس قلیل دور میں مدرسہ دارالعلوم اسلامیہ کو تعلیمی حوالے سے انتہا درجہ عروج ملا، مگر کارپردازان ِہوا و ہوس نے استاد القراء کو اس مدرسہ میں بھی دلجمعی سے کام کرنے کا موقع فراہم نہ ہونے دیا۔ بعدازاں آپ مدرسہ دارالترتیل منتقل ہوگئے۔ آپ کے بعد کبھی قاری محب الدین رحمہ اللہ اور کبھی قاری مستجاب الدین رحمہ اللہ کو بلایا گیا، لیکن عوام استادالقراء کی لحن داؤدی کے اسیر ہوچکے تھے، چنانچہ مذکورہ دونوں حضرات مایوس واپس ہندوستان چلے گئے۔
مدرسہ دارالترتیل میں تدریسی خدمات اور استاد القراء کا داعئ اجل کو لبیک کہنا

استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ نے مدرسہ دارالعلوم اسلامیہ کے کٹھن حالات کی تاب نہ لاتے ہوئے اسے خیرباد کہہ کر لٹن روڈ مسجد دھیان شاہ میں مدرسہ دارالترتیل کا اجراء کیا۔ ان دنوں حالات اتنے خوشحال نہ تھے۔ آغاز میں تو استاد القراء نے اپنے مدرسہ دارالترتیل میں خود پڑھانا شروع فرمایا، لیکن بعد ازاں اپنے معاونین قاری محمد شاکرانوررحمہ اللہ (صاحبزادہ قاری عبدالمالک رحمہ اللہ) اور مسجد دھیان شاہ کے امام قاری غلام نبی رحمہ اللہ کو مدرس مقرر کیا۔ استادالقراء سے استفادہ کرنے والے کثیر تعداد میں یہاں بھی جمع ہوئے ۔ استاد القراء ایک، سوا سال تدریس بطریق احسن سرانجام دینے کے بعد ۲۹ جمادی الثانی ۱۳۷۹ھ بمطابق ۳۰ دسمبر ۱۹۵۹ء، بروز منگل کو اس عالم فانی سے داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے خالق حقیقی کو جاملے۔ آپ کی نماز جنازہ شیخ التفسیر مولانا احمد علی رحمہ اللہ نے پڑھائی۔

نامور تلامذہ

ہندوستانی تلامذہ
١ قاری محمد یامین رحمہ اللہ
٢ قاری حفظ الرحمن صاحب پرتاپ گڑھی رحمہ اللہ
پاکستانی تلامذہ
١ قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ(فاضل سبعہ وعشرہ)
٢ قاری شریف رحمہ اللہ(فاضل سبعہ وعشرہ)
٣ قاری عبدالوھاب مکی رحمہ اللہ(فاضل سبعہ وعشرہ)
٤ قاری محمد افضل رحمہ اللہ (فاضل سبعہ وعشرہ)
٥ قاری محمد حسن شاہ رحمہ اللہ (فاضل سبعہ وعشرہ)
٦ قاری عبدالقادربہاولپوری رحمہ اللہ(فاضل سبعہ وعشرہ)
٧ قاری محمد اسلم بلوچی رحمہ اللہ (فاضل سبعہ وعشرہ)
٨ قاری غلام نبی رحمہ اللہ(فاضل سبعہ وعشرہ)
٩ قاری حبیب اللہ ٹونکوی رحمہ اللہ(فاضل سبعہ وعشرہ)
١٠ قاری محمد انور شاکر(فاضل سبعہ وعشرہ)
١١ قاری صدیق کیمل (فاضل سبعہ وعشرہ)
١٢ قاری محمد سعید احمد(فاضل سبعہ)
١٣ قاری سرفراز احمد (فاضل سبعہ وعشرہ)
قاری عبد الماجد
اب ہم قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کے تلامذہ میں سے قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ کا تذکرہ کرکے واضح کرتے ہیں کہ پاکستان میں علم تجوید و قراء ات کو بالعموم اور اہل حدیث حضرات کو بالخصوص مزید کیسے ترقی اور عروج ملا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ المشائخ قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ کی سوانح عمری


قاری اظہار احمد رحمہ اللہ کا نام و نسب

تھانہ بھون میں حافظ اعجاز احمد تھانوی بن منشی ابراہیم احمد تھانوی رحمہ اللہ کے ہاں ۹؍ ذیقعدہ ۱۳۴۵ھ بروز منگل بمطابق ۱۹۳۰ء، بوقت گیارہ بجے دن ایک لڑکاپیداہوا، جس کا نام ان کے والد محترم نے اظہار احمد رکھا، جو تحصیل ِعلم کے بعد ایک شاہکار ستارہ ثابت ہوا۔

شیخ المشائخ قاری اِظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ کا تعلیمی دور

قاری مقری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ نے ابتدائی تعلیم یعنی حفظ القرآن اپنے والے قاری اعجاز احمد رحمہ اللہ سے اور ابتدائی عربی و فارسی،سیرت ، ہدایۃ النحو اور ادب، مولانا محی الدین بنگالی رحمہ اللہ، مولاناشریف رحمہ اللہ اور مولانا امیراحمدرحمہ اللہ سے مدرسہ امداد العلوم تھانہ بھون میں پڑھیں اور اس کے بعد آپ مدرسہ مظاہر العلوم (سہارنپور) میں۱۳۶۳ھ بمطابق ۱۹۴۴ء کو داخل ہوئے اور ۱۳۶۵ھ بمطابق ۱۹۴۷ء تک وہاں مختلف علوم حاصل کئے۔ اس کے بعد آپ مدرسہ تجوید القرآن سہارنپور تشریف لے گئے اور وہاں امام القراء قاری عبدالخالق رحمہ اللہ سے کئی برس تک تجوید و قراء ات کے رموز کا حصول اور مشق کرتے رہے اور ۱۹۵۲ء میں قاری مقری اظہار احمدرحمہ اللہ مدرسہ دارالعلوم اسلامیہ، پرانی انارکلی لاہور میں دوران تدریس استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ سے استفادہ کیا۔ وہاں استاد القراء سے ۱۹۵۲ء میں روایت حفص اور ۵۶-۱۹۵۵ء میں قراء ات سبعہ و عشرہ بطریق درہ و طیبہ کی تکمیل فرمانے کا شرف حاصل ہوا۔ قاری مقری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ نے حصول تعلیمِ قراء ات سبعہ و عشرہ کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ۱۹۵۲ء میں منشی فاضل اور ۵۵-۱۹۵۴ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ یہ امتحان پاس کرنے سے قبل ہی تدریس تجوید و قراء ات اور امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے شروع کردیئے تھے، جن کا بلافصل تذکرہ کیا جاتاہے۔

قاری اظہار صاحب کی تدریسی خدمات اور علم تجوید و قراء ات کی آبیاری

١ جامعہ اشرفیہ (نیلا گنبد لاہور)اور مسجد مقدس میں تدریسی خدمات
قاری مقری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ پاکستان تشریف لائے اور آتے ہی جامعہ اشرفیہ،نیلا گنبد لاہورمیں اپنی تدریسی خدمات کاآغاز کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ جامع مسجد مقدس، پرانی انارکلی لاہور میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ مدرسہ ہذا میں کچھ عرصہ تدریس کے بعد استاد القراء جامعہ دارالعلوم اسلامیہ، لاہور میں تشریف لائے۔
٢ دارالعلوم اسلامیہ، لاہور میں تدریسی خدمات
قاری مقری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ،قاری سراج احمدرحمہ اللہ اور استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کے کہنے پر دارالعلوم اسلامیہ، لاہور تشریف لے آئے اور وہاں قاری صاحب نے تقریباً ۹؍ سال خدمت قرآن اور علم تجویدو قراء ات کےفروغ و اشاعت کے لیے اپنے لیل و نہار کو ایک کئے رکھا اور ساتھ ساتھ استاد القراء قاری عبدالمالک رحمہ اللہ سے سبعہ و عشرہ کی تکمیل بھی فرمائی اور قاری عبدالمالک رحمہ اللہ کی معاونت میں علم تجوید وقراء ات کی ترقی میں ایک منبع وستون ثابت ہوئے۔
٣ مدرسہ تعلیم القرآن مکھڈ (کیمبل پور) میں تدریسی خدمات
دارالعلوم اسلامیہ، لاہور کے بعد قاری اظہار احمدرحمہ اللہ کی خدمات تجویدو قراء ات ایک سال کے لیے مدرسہ تعلیم القرآن، مکھڈ کو حاصل ہوئیں اورایک سال کے بعد قاری صاحب نے اسے اپنی اہلیہ کیعلالت کی بنا پر چھوڑ دیا، لیکن اس کے بعدقاری صاحب کا مستقل تعلق اس مدرسہ سے قائم ہوگیا۔ شیخ القراء اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ ہرسال شوال میں امتحان لینے کے لیے وہاں تشریف لے جاتے اورعلم تجوید و قراء ات میں طلباء آپ سے استفادہ کرتے۔
٤ مدرسہ تجوید القران مسجد چینیانوالی اہلحدیث لاہور
قاری مقری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ مدرسہ تعلیم القرآن، مکھڈ کے بعد مدرسہ تجوید القرآن، مسجد چینیانوالی اہلحدیث، لاہور کے شعبہ تجوید و قراء ات سے منسلک ہوگئے۔ قاری صاحب رحمہ اللہ کی خدمات مدرسہ تجویدالقرآن مسجد چینیانوالی کو اس طرح حاصل ہوئیں کہ ایک دفعہ حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ مدرسہ زینت القرآن، پرانی انارکلی میں قاری اظہاراحمد تھانوی رحمہ اللہ کے پاس تشریف لائے اور انہیں کہا کہ ہمارے ہاں قائم شعبہ تجوید کے فروغ و اشاعت کے لیے آپ کی خدمات درکار ہیں، تو قاری صاحب رحمہ اللہ نے حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی شخصیت کو عزت بخشتے ہوئے، وہاں تشریف آوری کا وعدہ فرمایا۔
اس وعدہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے قاری صاحب موصوف رحمہ اللہ ، مدرسہ تجوید القرآن، مسجد چینیانوالی میں ۱۹۵۹ء میں جلوہ افروز ہوئے۔ ۱۹۶۳ء تک پانچ سال کا عرصہ بڑی دلجمعی سے خدمت ِقرآن فرمائی۔ یہاں آپ کے بے شمار تلامذہ تیار ہوئے، جن میں سے اکثر عصر حاضرمیں بھی علم تجوید و قراء ات میں ستاروں کی طرح دمک رہے ہیں اور اپنے علم کی کرنوں سے عوام الناس کو مستفید فرما رہے ہیں۔ جن کاتذکرہ خیر آئندہ صفحہ میں کیا جائے گا۔
٥ مدرسہ تجوید القرآن رنگ محل اور انٹرنیشنل یونیورسٹی (اسلام آباد) میں تدریس
شیخ المشائخ قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ۱۹۸۰ء میں مدرسہ تجوید القرآن، رنگ محل میں تشریف لائے اورایک سال میں بیسیوں طلباء نے آپ سے روایت حفص اور سبعہ و عشرہ میں استفادہ کیا۔ ۱۹۸۱ء میں شیخ القراء قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ کی تقرری انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسرکے ہوئی۔ وہاں آپ ۱۹۹۱ء تک علم تجوید و قراء ات ماسٹر ڈگری کے سٹوڈنٹس کو پڑھاتے رہے۔
٦ مدرسہ تجوید القرآن میں تدریسی سرگرمیاں اور خدمات
شیخ القراء قاری اظہاراحمد تھانوی رحمہ اللہ اپنے اسلام آباد میں قیام کے دوران مدرسہ تجوید القرآن، سہریانوالہ بازار لاہور میں ہفتہ وار دو دن پڑھانے جایا کرتے تھے۔ مدرسہ تجوید القرآن ، سہریانوالہ بازار میںچار سال تک علم تجوید و قراء ات کی اشاعت کے لیے شب و روز کوشاںرہنے کے نتیجے میں یہاں سے آپ کے بے شمار تلامذہ تیار ہوئے، جو آپ کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

نامور تلامذہ

١ قاری محمد یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ (فاضل قراء ات سبعہ و عشرہ)
٢ قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ (فاضل قراء ات سبعہ وعشرہ و خریج مدینہ یونیورسٹی )
٣ قاری اَحمد میاں تھانوی حفظہ اللہ (فاضل قراء ات سبعہ و عشرہ)
٤ قاری عبدالرحمن ڈیروی رحمہ اللہ (فاضل قراء ات سبعہ و عشرہ)
٥ قاری محمد عزیر حفظہ اللہ (فاضل قراء ات سبعہ)
٦ قاری عبدالستار رحمہ اللہ (فاضل قراء ات عشرہ)
٧ قاری عبدالباعث سواتی حفظہ اللہ (فاضل قراء ات عشرہ)
٨ قاری عطاء اللہ ڈیروی رحمہ اللہ (فاضل قراء ات سبعہ و عشرہ)
٩ قاری محمد یوسف سیالوی حفظہ اللہ (فاضل قراء ات سبعہ)

تصنیفی خدمات

١ جمال القرآن مع حواشی جدیدہ
٢ تیسیر التجوید مع حواشی مفیدہ
٣ اشعار مقدمۃ الجزریۃ وتحفۃ الاطفال کا اردو ترجمہ
٤ خلاصۃ التجوید
٥ مجموعۃ نادرۃ
٦ الجواہر النقیۃ شرح مقدمۃ الجزریۃ
٧ الحواشی المفہمۃ فی شرح المقدمۃ
٨ شرح شاطبیہ مفصَّلا (اُردو)
٩ أمانیہ شرح شاطبیہ (اُردو)
١٠ توضیح المرام فی وقف حمزہ و ہشام (اُردو)
١١ تنشیط الطبع فی اجراء السبع محشی (اُردو)
١٢ الدراری شرح الدرۃ (اُردو)
١٣ إیضاح المقاصد شرح عقیلہ
١٤ اَخلاق محمدی
١٥ پیغام ِرمضان (اُردو)
١٦ شجرۃ الاساتذۃ فی أسانید القراء ات العشر المتواترۃ
١٧ تقاریر ابوداؤد شریف (اُردو)
١٨ المرشد فی مسائل التجوید والوقف (اردو)

وفات

استاد الاساتذہ قاری مقری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ ۱۰؍جمادی الثانی ۱۴۱۲ھ، بمطابق ۱۷؍ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز منگل کو بوقت فجر اس فانی دنیا سے رحلت فرما گئے۔ آپ کی نماز جنازہ مولانا عبداللہ صاحب ، والد محترم مولانا عبدالرشید غازی شہید رحمہ اللہ نے اسلام آباد میں اورقاری محمد رفیع نے چوبرجی کوارٹر پارک، لاہورمیں پڑھائی۔ اس جگہ شیخ القراء قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ نماز ِعید پڑھایا کرتے تھے۔ شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم رحمہ اللہ اور قاری ظہور الحسن رحمہ اللہ نے آپ کا جسد خاکی قبر میں اتارا، نیز قاری محمد اد ریس عاصم رحمہ اللہ نے دوسرے دن مسجد لسوڑھیا ں والی لاہور میں بعد از نماز جمعہ آپ کی غائبانہ نماز جنازہ سہ بارہ پڑھائی ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم تجوید وقراء ت کے ارتقاء میں اہلحدیث قراء کا کردار


جس وقت سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نازل کیا اسی وقت سے اہل حدیث کو اللہ تعالیٰ نے اس کے پڑھنے پڑھانے اور اس کی تجوید وقراء ات کی نشرواشاعت، درس وتدریس اور تحریر کے ذریعے خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائی۔ زیر بحث عنوان کے تحت اب ہم ہند وپاک میں اہل حدیث کی خدمات کا ذکر کرتے ہیں۔حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ، جہاں حدیث میں بلند پایا مقام رکھتے تھے، وہاں وہ علم تجوید سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اس امر کی دلیل یہ ہے کہ انہو ں نے ’فتاوی نذیریہ‘ میں لفظ ’ضاد‘ کے تلفظ پر اور اس کی صحیح ادا پر بڑی تحقیقی اور عمدہ بحث کی ہے۔ پھر انہی کے شاگر د اور مفسر قرآن حضرت حافظ محمد لکھوی رحمہ اللہ نے ’ضاد‘ کے تلفظ پر ایک مفصل رسالہ لکھا، جو اوکاڑہ میں مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ کے کتب خانہ میں موجود ہے۔اسی طرح ایک رسالہ حضرت مولانا عبدالستار دہلوی رحمہ اللہ نے ’ضاد‘ پر لکھا۔ ایسے ہی حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے بھی اپنے ’فتاوی ثنائیہ‘ میں بڑی محقق بحث کی اور مفسر قرآن حضرت مولانا میر سیالکوٹی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ’ حلاوۃ الایمان بتلاوۃ القرآن‘میں علم تجوید پر بڑی عمدہ بحث کی۔ نواب سید محمد صدیق حسن خاں رحمہ اللہ جہاں حدیث میں ید طولیٰ رکھتے تھے وہاں علم تجوید میں بھی ماہر تھے اور اس موضوع پر انہوں نے ایک بہترین کتاب ’ فصل الخطاب فی فضل الکتاب‘ کے نام سے تحریر کی۔ اسی طرح امام ِمحدثین حضرت مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ جہاں احادیث اور دیگر علوم شرعیہ میں اپنا مقام رکھتے تھے، وہاں انہوں نے شاطبیہ اور مقدمہ جزریہ بھی زبانی یاد کر رکھی تھی۔

حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کا ایک دلچسپ واقعہ

حافظ صاحب رحمہ اللہ کے متعلق ان کے شاگرد رشید حافظ احمد شاکرحفظہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ حافظ صاحب ایک جگہ درس حدیث دینے کے لیے تشریف لے گئے، وہاں کسی قاری صاحب نے روایات میں تلاوت کی۔جب وہ تلاوت کر کے فارغ ہوئے تو حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ نے مذکورہ قاری صاحب کی قراء ات کی غلطیوں کی اصلاح فرمائی۔ نیز آپ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’ دوامِ حدیث‘ میں بھی قراء ات کے متعلق مفید بحث فرمائی ہے۔
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ اگرچہ قرآن مجید سادہ انداز میں پڑھتے تھے، لیکن قواعد تجوید کا بے انتہا خیال رکھتے تھے۔ شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے استاد شیخ الحدیث حضرت مولانا ابو البرکات رحمہ اللہ بھی قرآن کریم صحت تجوید کے ساتھ پڑھتے تھے اور اپنے خاص انداز میں تلاوت کیا کرتے تھے۔آپ جب تفسیر بیضاوی اور جلالین پڑھاتے تو ’’سَوَائٌ عَلَیْہِمْ ئَ اَنْذَرْتَہُمْ‘‘ اور اس طرح کے دیگر کلمات کی نہ صرف قراءات بتاتے، بلکہ ان کی پڑھ کر وضاحت بھی فرماتے۔ ایسے ہی بہت سے علماء نے حضرت مولانا عطاء اللہ لکھوی رحمہ اللہ کے بارے میں بتایا ہے کہ انہوں نے دہلی میں کسی قاری صاحب سے قرآن مجید پڑھا۔ آپ نہایت خوبصورت انداز میں قواعد تجوید کا لحاظ رکھتے ہوئے تلاوت کلام مجید فرماتے تھے۔ حافظ محمد یحییٰ عزیزمیر محمدی رحمہ اللہ قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ اور خوش آوازی کے ساتھ پڑھتے تھے، نیز انہوں نے ’ترتیل القرآن‘ کے نام سے ایک کتاب بھی تحریر فرمائی جو بڑی سہل اور عمدہ ہے۔
حافظ عبدالرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ کے والد محترم بہت بڑے قاری تھے۔ ان کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حاجی شیخ بہادر رحمہ اللہ کے صاحبزادے حافظ عبدالرحیم رحمہ اللہ تھے، انہیں بھی بارگاہ خداوندی سے ممتاز مقام ودیعت فرمایا گیا تھا۔ وہ ’بڑے حافظ صاحب‘ کے عرف سے معروف تھے، انہوں نے قرآن مجید کی قراء ات وتجوید کاعلم قاضی امام الدین جونپوری رحمہ اللہ سے حاصل کیا تھا، جو اپنے عہد اور علاقے میں اس فن کے بہت بڑے عالم تھے۔ پھر اس مرتبہ کمال کو پہنچے کہ جب تک مبارکپور اور اس کے قرب وجوار کا کوئی شخص حفظ قرآن کے بعد حافظ عبدالرحیمaکو قرآن نہ سنا لیتا اسے حافظ شمار نہیں کیا جاتا تھا۔اس اعتبار سے کہنا چاہیے کہ اس عہد میں اس نواح کے تمام حفاظ ان کے شاگرد تھے۔
(دبستان حدیث از مولانا محمد اسحاق بھٹی)
اسی طرح بہت سے اہلحدیث علماء کرام قرآن پاک کو صحیح تجوید کے ساتھ پڑھتے تھے، لیکن تدریس اور تحریر کے میدان میں زیادہ کھل کر خدمات اداء نہ کر سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت بہت سارے فتنے تھے، کہیں عیسائیت اور مرزائیت کا فتنہ تو کہیں انکار حدیث کا فتنہ، سو علماء اہلحدیث ان فتنوں اور بدعات کے رد میں حدیث کی اشاعت اور درس وتدریس میں منہمک ہوگئے، جس کی وجہ سے تجوید وقراء ت کی تدریس اور تالیف کا کام نہ ہوسکا۔
پھر ایک دور آیا کہ تقسیم ہند سے پہلے لاہور میں سب سے پہلا تجوید وقراء ت کا مدرسہ، جامع مسجد اہلحدیث چینیانوالی میں تھا اور وہ حضرت مولانا محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے کھولا۔ اس کے لیے انہوں نے حضرت قاری فضل کریم رحمہ اللہ کی خدمات حاصل کیں اور انہیں امرتسر سے بلوایا۔اور پھر وہاں انہوں نے حفظ اور تجوید کا کام شروع کیا۔ قاری فضل کریم رحمہ اللہ نے اس میں مزید اضافہ کیا وہ اپنے لائق ترین ساتھی اور ماہر تجوید وقراء ات حضرت قاری محمد اسماعیل رحمہ اللہ کو لائے۔ ان دونوں حضرات نے مل کر بڑی محنت سے تجوید وقراء ت پر کام کیا۔ اس دور میں وہاں سے بڑے بڑے حفاظ اور قراء نے کسب فیض کیا۔ اس دور میں جامع مسجد چینیانوالی سے فارغ التحصیل ہونے والے چند مشہور قراء کرام کے نام درج ذیل ہیں:
١ قاری نورمحمد رحمہ اللہ (ریڈیو پاکستان کے معروف قاری)
٢ قاری احمددین رحمہ اللہ (اہلحدیث) (مدرس جامعہ محمدیہ گوجرانوالا)
٣ قاری احمد دین رحمہ اللہ (دیوبندی) (مدرس تجوید القرآن موتی بازار)
٤ قاری عبدالقوی (تلمیذقاری فضل کریم aوقاری محمد اسماعیل رحمہ اللہ)
٥ قاری مظفرعلی (مدرس تجوید القرآن موتی بازار)
٦ قاری مقبول الٰہی (امریکہ)
٧ قاری حبیب اللہ میرمحمدی (استاد الشیخ المُحَیسَنی)
٨ قاری محمدیحییٰ بھوجانی
٩ قاری محمدموسی وغیرہم
پھر حالات کچھ اس طرح ہوئے کہ قاری فضل کریم رحمہ اللہ جامع مسجد چینیانوالی سے موتی بازار تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے اپنا مدرسہ تجوید القرآن قائم کیا۔ قاری محمد اسماعیل رحمہ اللہ کافی دیر تک چینیانوالی میں پڑھاتے رہے۔ پھر موصوف نے بھی شاہ عالم چوک میں ایک مدرسہ قائم کر لیا اور وہاں تشریف لے گئے۔ ان حضرات کے جانے کے بعد حضرت مولانا دواؤد غزنوی رحمہ اللہ نے استاذ القراء قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ اور استاذ القراء قاری محمد صدیق لکھنوی رحمہ اللہ کو دعوت دی اور وہ تشریف لائے اور کئی سال تک تجوید وقراء ات کا کام کرتے رہے۔ اس عرصہ میں بہت سارے حفاظ اور قراء وہاں سے فارغ ہوکر نکلے۔ سن ۶۳ء میں حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کا انتقال ہوا تو بعض اَحباب جماعت نے تجوید وقراء ت کا مدرسہ بند کردیا۔ چنانچہ حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ موتی بازار مدرسہ تجوید القرآن میں تشریف لے گئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے چند آدمی پیدا کر دئیے جو تجوید وقراء ت کے ماہر بن گئے اور تجوید وقراء ت کی تحریراً وتدریساً خدمت کرنے میں لگ گئے ۔اللہ کے فضل وکرم سے چینیانوالی مسجد سے اہلحدیث کے علاوہ دیوبندی اور بریلوی مکتبہ فکر کے لوگوں نے بھی استفادہ کیا۔چینیانوالی مسجد میں اہل حدیث قراء جنہوں نے حضرت قاری اظہار احمد تھانوی صاحب سے سند حاصل کی ان کے نام درج ذیل ہیں:
١ قاری محمد یوسف میرمحمدی رحمہ اللہ
٢ قاری نور احمدرحمہ اللہ اوکاڑوی آف درس ڈھلیانہ
٣ قاری محمد یونس رحمہ اللہ آف سرگودھا
٤ قاری محمد یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ
٥ قاری سیف اللہ حافظ آبادی رحمہ اللہ
٦ قاری عبدالشکوربرق جدہ رحمہ اللہ
٧ قاری عابد آف پتوکی
٨ قاری زاہد آف پتوکی
٩ قاری محمد یوسف لکھوی رحمہ اللہ
عصر حاضر میں علم تجوید و قراء ت کی نشرواشاعت کے لئے اقدامات اور ان کی ارتقائی صورت حال کو دیکھنے سے یقینا یہی معلوم ہوتاہے کہ پاکستان میں فکراہلحدیث کے حاملین قراء کرام علم تجوید وقراء ت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ شہرت آفاقی کے حاملین اہلحدیث قراء کرام میں سے قاری محمد اسلم رحمہ اللہ، قاری محمد یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ، قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ،قاری عزیر احمدحفظہ اللہ اور قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کے نام قابل ذکرہیں۔ مذکورہ قراء کرام کی مختصر سوانح عمری اور علم تجوید وقراء ت کے ارتقاء میں ان کی خدمات کو قلم بند کیا جاتاہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
استاد القراء قاری محمد اسلم رحمہ اللہ


نام و نسب اور پیدائش
محمد اَسلم بن محمد دین ۱۹۳۶ ء کو انڈیا کے ضلع گورداس پور کے گاؤں نال پور پنڈوری میں پیداہوئے۔ آپ کل چار بہن بھائی تھے۔ قاری محمد اسلم کی پیدائش کے تین سال بعد ۱۹۳۹ء کو آپ کے والد محترم خالق حقیقی سے جاملے یوں باپ کا سایۂ عاطفت سر سے اُٹھ گیا۔

ہجرت ِ پاکستان اور آغاز تعلیم

۱۹۴۷ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا قاری محمد اسلم رحمہ اللہ کا سارا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا اور اس خاندان نے فیصل آباد کے نواحی گاؤں چک جھومرہ کے قریب گھنا گوجرہ (مل پورہ گوجرہ) چک نمبر ۱۵۷ میں رہائش رکھی اور قاری محمد اسلم رحمہ اللہ کو اسی گاؤں کے سکول میں داخل کروا دیا۔ جہاں پرانہوں نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔پرائمری پاس کرنے کے بعد آپ کو نزدیک ہی دوسرے گاؤں چک لاہوریاں کے مڈل سکول میں داخل کروا دیا گیا۔یہاں پر آپ نے مڈل تک تعلیم مکمل کی۔

ابتلاء و آزمائش کا دور

قاری محمد اسلم رحمہ اللہ مڈل پاس کرنے تک توبصحت و عافیت رہے، لیکن کچھ عرصہ بعد آپ پر شدیدبخار کاحملہ ہوا۔ جس سے آپ کی قوت بصارت ختم ہوگئی۔ موصوف کوعلاج کے لیے ڈسکہ، معروف ڈاکٹر سلطان احمد چیمہ کے پاس لایا گیا۔جنہوں نے چیک اَپ کے بعد یہ افسوسناک خبرسنائی کہ آپ کی آنکھیں صحیح نہیں ہوسکتیں۔ آپ پریشانی کے عالم میں گاؤں واپس چلے آئے، لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی خدمت کے لیے چن لیا۔گھر والوں کی مشاورت سے انہیں پروفیسر غلام احمد حریری رحمہ اللہ کے پاس لے جایاگیا (جو ان کے بہنوئی تھے) ان سے مشاورت کے بعد طے پایا کہ انہیں قرآن مجیدکی تعلیم دلوائی جائے۔

تعلیمی تسلسل

آنکھوں سے محروم قاری محمد اسلم رحمہ اللہ کو قرآن مجیدکی تعلیم کے حصول کے لیے حافظ آباد میں مولانا حکیم ابراہیم صاحب رحمہ اللہ والی مسجد میں داخل کروا دیاگیا۔ایک دن ایساہوا کہ علامہ احسان الٰہی ظہیررحمہ اللہ کے والد محترم شیخ ظہور الٰہی رحمہ اللہ اس مسجد میں تشریف لائے، نمازادا کی، کیادیکھتے ہیں کہ ایک بصارت سے محروم لڑکے کا دو لڑکے سبق سن رہے ہیں۔حاجی صاحب رحمہ اللہ نے اس کے شوق اور لگن کو دیکھا تو حکیم ابراہیم صاحب سے اس لڑکے کےبارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے قاری محمد اسلم رحمہ اللہ کے سارے حالات حاجی صاحب رحمہ اللہ کے سامنے رکھے اور قاری محمد اسلم رحمہ اللہ کے ذوق و شوق کی تعریف کی۔ حاجی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ اسے میری نگرانی میں دے دو، میں خود اسے تعلیم دلاؤں گا۔ اجازت ملنے پر قاری محمداسلم رحمہ اللہ نے حاجی ظہور الٰہی رحمہ اللہ کے سائے میں سیالکوٹ کے محلہ رحمت پورہ میں قدم رکھے اورحاجی ظہورالٰہی نے اس محلہ میں قائم مدرسہ شہابیہ میں داخل کروا دیا۔ یہاں پر محترم قاری محمد اسلم رحمہ اللہ نے چھ ماہ تعلیم حاصل کی، پھر حاجی صاحب رحمہ اللہ نے حکیم محمد صادق کی مسجد میں داخل کروا دیا۔ یہاں سے موصوف نے مکمل حفظ کیا۔ حفظ کے بعد چند سال درس نظامی پڑھتے رہے، لیکن حاجی ظہور الٰہی رحمہ اللہ نے فیصلہ کیاکہ قاری صاحب رحمہ اللہ کو دیوبندی مدرسہ میں داخل کروا کر بہترین قاری بنایا جائے اور اہلحدیثوں کی اس کمی کو پورا کیا جائے۔ اس مشاورت کے بعد قاری محمد اسلم رحمہ اللہ کو مدرسہ تجوید القرآن، موتی بازار کنڈی گراں لاہور میں داخل کروا دیا۔ یہاں آپ نے دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد تجوید کی سند حاصل کی اور موصوف کے استاد قاری محمدشریف رحمہ اللہ کے مشورہ پر آپ کو کراچی بھیج دیا گیا۔ وہاں ایک سال حصول تعلیم کے بعد سند فراغت حاصل کی۔ قاری محمد اسلم رحمہ اللہ کی ذہانت وفطانت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ہر روز سترہ پارے منزل سنایا کرتے تھے۔ بعدازاں موصوف نے ملتان کے ایک مدرسہ خیرالمدارس میں مسلکی اختلافات سے بالاتر ہوکر تعلیم حاصل کی، کیونکہ اس مدرسہ میں اہلحدیث طلباء کا داخلہ ممنوع تھا ۔ وہاں پر قاری محمد اسلم رحمہ اللہ نے قراء ات سبعہ پڑھی اور اس پرعبور حاصل کیا۔گویا قاری محمد اسلم رحمہ اللہ کی سند اس طرح سے ہے۔ قاری محمد اسلم رحمہ اللہ نے قاری محمد شریف رحمہ اللہ سے پڑھا، انہوں نے خدابخش مراد آبادی رحمہ اللہ سے، انہوں نے محمد صدیق حنیف رحمہ اللہ سے، انہوں نے قاری مقری عبدالرحمن مکی رحمہ اللہ سے، انہوں نے شیخ القراء قاری عبداللہ مکی رحمہ اللہ سے، انہوں نے شیخ ابراہیم سعد بن علی رحمہ اللہ سے پڑھا۔ گویا اس طرح آپ کی سند مدرسہ صولتیہ کے شیوخ تک پہنچتی ہے۔

فراغت تعلیم اور تدریسی دور کا آغاز

قاری محمد اسلم رحمہ اللہ جب مدرسہ خیرالمدارس سے فارغ ہوئے تو ان کے استاد مولانا خیرمحمدرحمہ اللہ نے انہیں گلے لگا لیااور کہا، اب تم بیٹا اسلم نہیں ’’قاری محمد اسلم‘‘ بن گئے ہو۔ تم اس مدرسہ میں پڑھاؤ، لیکن قاری محمد اسلم رحمہ اللہ نے نہایت ہی سلیقہ سے کہا کہ میں اہلحدیث ہوں اور کسی اہلحدیث مدرسہ میں ہی پڑھاؤں گا۔ یہ بات سنتے ہی ان کے استاد ناراض ہوگئے اور انہوں نے سند دینے سے انکار کردیا۔ قاری صاحب رحمہ اللہ نے کہا کہ بے شک آپ مجھے سند نہ دیں، لیکن میں شاگرد آپ کا ہی کہلاؤں گا اور آپ بھی میرے استاد ہونے سے انکار نہیں کرسکتے۔ اس پر مولانا خیرمحمدرحمہ اللہ نے ان کو گلے لگا لیا اور کہا! جاؤ بیٹا، اہلحدیث مدرسہ میں ہی پڑھاؤ۔یہ الفاظ سنتے ہی قاری محمد اسلم رحمہ اللہ کو اس قدر خوشی ہوئی، جیسے ان کی نئی زندگی کا آغاز ہوگیا ہو۔ ۱۹۶۲ء میں قاری محمد اسلم رحمہ اللہ نے جامعہ محمدیہ چوک اہلحدیث میں’تجوید وقراء ات‘ کی بنیاد رکھ کر تدریس کا آغاز کیا۔ تین سال تک اسی ادارہ کو اپنی خدمات سے نوازا اور سینکڑوں طلباء کوعلم تجوید و قراء ات میں استفادے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے بعد مولانا حکیم محمود آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی درس گاہ میں پڑھانے کی خواہش ظاہر کی تو مولانا حکیم محمود کی خواہش پر قاری محمد اسلم رحمہ اللہ جامعہ اسلامیہ سلفیہ، گوجرانوالہ تشریف لے گئے اور علم تجوید وقراء ات کی اشاعت کے لیے مسند تدریس سنبھالی۔ پانچ سال تک اس جامعہ میں پڑھاتے رہے۔ ۱۹۹۷ء میں قاری محمد اسلم رحمہ اللہ نے اپنے ہم سفر مدرسین اور نہایت مشفق مہتمم کے ہمراہ جامعہ اسلامیہ سلفیہ، نصرالعلوم عالم چوک، گوجرانوالہ میں قدم رکھے اور تاحیات علم تجوید و قراء ات کی اشاعت کے لیے اسی ادارہ میں اپنے علم سے طلباء کے دلوں کو منور کرتے رہے۔

وفات

قاری محمد اسلم رحمہ اللہ جامعہ اسلامیہ سلفیہ نصرالعلوم عالم چوک گوجرانوالہ میں دوران تدریس ۱۷ رجب ۱۴۲۴ھ بمطابق ۱۵ستمبر ۲۰۰۳ء بروز سوموار ملک اجل کو لبیک کہتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون

اَساتذہ

١ قاری عبدالرحمن رحمہ اللہ ٢ قاری محمد شریف رحمہ اللہ
٣ قاری رحیم بخش پانی پتی رحمہ اللہ ٤ قاری محمد علی شکارپوری رحمہ اللہ
٥ قاری سید حسن شاہ رحمہ اللہ

نامور تلامذہ

قاری محمد اسلم رحمہ اللہ کے تلامذہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں ان میں سے نامور تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں:
١ حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی حفظہ اللہ (نائب امیر جماعۃ الدعوہ پاکستان)
٢ میاں محمد جمیل ، ایم ۔اے حفظہ اللہ (پرنسپل ابو ہریرہ شریعہ کالج، لاہور)
٣ حافظ احمد شاکر حفظہ اللہ (مکتبہ سلفیہ)
٤ حافظ عبدالعظیم اسد حفظہ اللہ (مدیرمکتبہ دارالسلام لاہور )
٥ قاری احسان اولکھ ٦ قاری عبدالسّلام بنگالی
٧ حافظ طاہر الاسلام عسکری ٨ قاری سعد کلیروی
٩ قاری طیب بھٹوی ١٠ حافظ عبداللہ شیخوپوری
١١ قاری محمد ایوب سیالکوٹی ١٢ قاری قمر الدین
١٣ قاری ابراہیم حافظ آبادی ١٤ قاری محمدیحییٰؒ
١٥ مولانا محمد شریف سلفی گوجرانوالہ ١٦ قاری نعیم الحق نعیم
١٧ قاری احمد دین ١٨ قاری اقبال گجراتی
١٩ قاری عبدالحفیظ (ستارہ فیکٹری والے) ٢٠ قاری فضل الرحمن ، برطانیہ
٢١ پروفیسر حافظ خالد محمود حیات (اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)
٢٢ قاری عتیق الرحمن (زرعی یونیورسٹی فیصل آباد)
٢٣ قاری مطیع الرحمن،ڈسکہ ٢٤ قاری شمس الاسلام بنگالی
٢٥ قاری سیف اللہ (صدر مدرس شعبہ تجوید و قراء ات جامعہ نصرالعلوم گوجرانوالہ)
٢٦ قاری عبدالودود ہزاری ٢٧ قاری عطاء اللہ، فیصل آباد
٢٨ قاری محمد موسیٰ ٢٩ قاری محمد عارف ، سعودی عرب

تصانیف

قاری محمد اسلم رحمہ اللہ نعمت بصارت سے محروم ہونے کی بنا پر تدریس علم تجوید و قراء ات پر زیادہ زور دیتے رہے تاہم مذکورہ کتب اُمت مسلمہ کے لیے صدقہ جاریہ چھوڑ گئے۔
١ خلاصہ جمال القرآن ٢ ترجمۃ المقدمۃ الجزریۃ
نوٹ: قاری محمد اسلم حفظہ اللہ کے بارے میں مذکورہ بالا معلومات قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ ،قاری سیف اللہ حفظہ اللہ اور قاری سعد امین حفظہ اللہ سے حاصل کی گئی ہیں، اس تعاون پر راقم مذکورہ مشائخ کا شکرگذار ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
استاد القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگر ی حفظہ اللہ


تاریخ پیدائش

قاری محمدیحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ ۱۹۴۵میں کوٹ کپور ضلع فیروزپور انڈیا(بھارت) میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم

قاری محمدیحییٰ رسولنگر ی حفظہ اللہ نے ناظرہ قرآن اپنے والد محترم سے پڑھا اورساتھ ہی شیخ القراء نے اپنے آبائی گاؤں کے سکول میں داخلہ لیا اور وہاں سے پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ ان دنوں چک نمبر ۱۶ میں قاری نوراحمدحفظہ اللہ کو قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ عربی لہجہ میں قرآن کریم پڑھاتے۔ ان قراء کرام کی پر سوز آواز میں تلاوتیں سننے سے شیخ القراء کے دل میں بچپن سے قرآن کریم کی اس طر ح تلاوت کی تڑپ پیدا ہوئی کہ بچپن کے اس ذوق و شوق نے بعد ازں قاری محمد یحییٰ رسولنگر ی حفظہ اللہ کواستاد القراء بنادیا۔
اسی مقصد کے حصول کے لئے استاد القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ جامعہ عثمانیہ اوکاڑہ میں قاری عبدالرزاق سے حفظ قرآن شروع فرمایاجس کی تکمیل ۱۹۶۱میں قاری فاروق احمددیوبندی کے پاس ہوئی ۔یہی وہ وقت تھا جب استاد القراء کوعلم تجویدوقراء ات میں مہارت حاصل کرنے کا ذوق وشو ق پیدا ہوا، جس کے حصول کے لئے استاد القراء قاری محمد یحییٰ حفظہ اللہ مدرسہ تجوید القرآن فاروقی، کراچی میں تشریف لے گئے اوروہاں قاری حبیب اللہ افغانی رحمہ اللہ سے تجوید پڑھی۔ بعد ازں حضرت استاد القراء اوکاڑہ جامعہ عثمانیہ میں تشریف لے آئے اور یہاں رہ کر مشکوۃ پڑھی ۔ اس کے بعد جامعہ بحرالعلوم کراچی میں مولانا فاروق داؤد رحمہ اللہ ، شیخ الحدیث بحرالعلوم کراچی سے سنن نسائی پڑھی ۔پھر علم قراء ت پڑھنے کی دل میں تڑپ پید ا ہوئی۔ اس کے لئے استاد القراء مدرسہ تجوید القرآن فاروقی میں قاری حبیب اللہ افغانی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضرہوئے اور ان سے سبعہ وعشرہ کی تکمیل فرمائی۔ اس کے بعد استاد القراء نے لاہور میں اپنی تدریسی سرگرمیوں کے دوران استاد القراء قاری اظہاراحمد تھانوی رحمہ اللہ سے دوبارہ ازسرنو تبرکا ۱۹۷۱ء سے ۱۹۷۷ء تک مدرسہ تجوید القرآن، موتی بازار میں سبعہ و عشرہ کی تکمیل فرمائی ۔ یادرہے اس سے قبل استاد القراء ۱۹۶۲سے ۱۹۶۳کے دورانی عرصہ میں ’روایت حفص‘میں قرآن کریم استاد القراء قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ سے پڑھ چکے تھے۔

استادالقراء کے نامور اَساتذہ

١ قاری عبدالرزاق رحمہ اللہ
٢ قاری فاروق احمد رحمہ اللہ
٣ قاری اظہاراحمد رحمہ اللہ
٤ قاری حبیب اللہ افغانی رحمہ اللہ
٥ شیخ الحدیث مولانافاروق داؤد رحمہ اللہ

اُستاد القراء کی تدریسی خدمات

مدرسہ بحرالعلوم کراچی

استاد القراء قاری محمد یحی رسولنگر ی حفظہ اللہ نے تحصیل علم تجوید وقراء ت ودیگر علوم عربیہ واسلامیہ کے بعد تدریسی سرگرمیوں اورتعلیمی خدمات کا آغاز ۱۹۶۸میں اپنی مادر علمی مدرسہ بحرالعلوم کراچی سے کیا۔ استاد القراء وہاں تقریباَ َدوسال تجوید وقراء ت فرماتے رہے۔ اس کے بعد استاد القراء حفظہ اللہ نے لاہور کارخ کیا۔

مدرسہ تجوید القرآن مسجد لسوڑھیاںوالی

استاد القراء نے مدرسہ بحرالعلوم کراچی کو ۱۹۷۰میں خیرباد کہا اور لاہور مدرسہ تجوید القرآن مسجد لسوڑیاں والی میں تدریس علم تجوید وقراء ت کی ابتداء کی یہاں کافی عرصہ تدریس کرتے رہے اور علم تجوید کی نشرواشاعت کے لئے بھر پور محنت کرتے رہے، یہی وہ دورہے جس میں آپ دوران تدریس شیخ استاد القراء قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ کے سامنے اپنے زانوئے تلمذطے کرتے رہے اور استاد القراء رحمہ اللہ سے سبعہ وعشرہ میں بھر پور استفادہ فرماتے رہے۔الغرض استاد القراء نے مسجد لسوڑیاں والی میں علم تجوید وقراء ت کی نشرواشاعت کے لئے انتھک محنت کی جس کے نتیجے میں علم تجوید وقراء ت کے روشن ستاروں کی ایک بہت بڑی کھیپ تیارہوگئی، جن میں سے چند نامور تلامذہ یہ ہیں:
قاری محمدابراہیم صاحب میرمحمدی حفظہ اللہ
قاری صدیق الحسن رحمہ اللہ
قاری خلیل احمد رحمہ اللہ
قاری محمود الحسن بڈھیمالوی حفظہ اللہ

مدرسہ رحمانیہ (اہلحدیث)میں تدریسی خدمات

استاد القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ نے رجب ۱۹۷۷ء میں مدرسہ تجوید القرآن کو خیرباد کہا اور اپنے استاد حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کی خواہش پر مدرسہ رحمانیہ، ۹۹؍ جے بلاک، ماڈل ٹاؤن،جہاں آج کل مجلس التحقیق الاسلامی اور اسلامک انسٹیٹیوٹ موجودہیں، میں اوائل ِشعبان میں تدریس ِتجوید کا آغاز فرمایا اور کچھ عرصہ یہاں پڑھاتے رہے۔ اس دوران ان سے فیض پانے کے لئے لوگوں کا مدرسہ رحمانیہ میں ہجوم ہوتا۔ مدرسہ رحمانیہ، لاہور میں آپ سے بالخصوص علم تجوید میں قاری عبدالقادر، قاری اسحاق اور قاری عمرنے استفادہ فرمایا ۔

جامعہ عزیزیہ میں تدریسی خدمات

استا د القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ ۱۹۷۸میں لاہور کوچھوڑتے ہوئے ساہیوال میں تشریف لے گئے اور وہاں جامعہ عزیزیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ کاسنگ بنیاد رکھا اور وہاں تدریسی اورانتظامی خدمات سرانجام دینے کا آغاز فرمایا۔تقوی ورضاالٰہی کی بنیادوں پر قائم اس دینی درسگاہ کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی سے سرفراز فرمایا اور آپ ان دنوں بھی جامعہ عزیزیہ ہی میں علم تجوید وقراء ت کے فروغ کے لئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہاں سے استادالقراء حفظہ اللہ کے سیکڑوں تلامذہ فیض یاب ہوکرگئے ہیں اورآج کل بھی بہت سے تلامذہ ان سے علمی وفنی استفادہ فرمارہے ہیں۔
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ بابائے تجوید، قاری محمد یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ کوصحت والی دراز عمر عطا فرمائے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلباء آپ سے مستفید ہوسکیں اورعلم تجوید وقراء ت کا خو ب بول بالا ہوسکے۔(آمین)
استاد القراء کے نامور تلامذہ

١ ڈاکٹر قاری عبدالقادر عبدالکریم حفظہ اللہ (مدرس جامعہ ریاض،انچارج عربی ڈیپارٹمنٹ پاکستانی سفارتخانہ)
٢ قاری مقری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی ،رئیس کلیۃ القرآن، مرکز البدر بونگہ بلوچاں)
٣ قاری محمد ابراہیم البلوشی حفظہ اللہ (مدرس ریاض)
٤ قاری عبدالرحمن البلوشی حفظہ اللہ (ادارہ جالیات)
٥ قاری عبدالوحید حفظہ اللہ (مدرس ،خریج ام القری مکہ)
٦ الشیخ سیف اللہ عبدالکریم حفظہ اللہ (مدرس شعبہ تحفیظ القرآن)
٧ قاری محمداقبال عزیزی حفظہ اللہ (مدرس شعبہ تحفیظ القرآن)
٨ قاری محمدسلمان حفظہ اللہ (انچارج ورئیس مکتبہ دارالشباط)
٩ قاری بشیراحمدعبدالکریم حفظہ اللہ (مدرس شعبہ تحفیظ القرآن)
١٠ قاری عبدالحفیظ حفظہ اللہ (مدرس شعبہ تحفیظ القرآن)
١١ قاری عبدالمجید حفظہ اللہ (مدرس شعبہ تحفیظ القرآن)

سعودی نامورتلامذہ

١ الشیخ عادل سالم الکلبانی حفظہ اللہ (امام وخطیب حرم مکی)
٢ الشیخ ابراہیم الجبیرین حفظہ اللہ (امام وخطیب حرم مکی)
٣ الشیخ ابراہیم العسیری حفظہ اللہ (تفتیشی افسر)
٤ الشیخ عبدالعزیزالقرنی حفظہ اللہ (امام ،خطیب)
٥ الشیخ محمد بن عبداللہ حفظہ اللہ (امام ،خطیب)
٦ الشیخ محمد بن راشد حفظہ اللہ (امام ،خطیب)
٧ الشیخ بندر القرنی حفظہ اللہ (امام ،خطیب)
٨ الشیخ محمد ثارف حفظہ اللہ (مدرس اللغۃ العربیۃ)
٩ الشیخ علی الغامدی حفظہ اللہ (استاد کلیۃ المعلمین،ریاض)
١٠ الشیخ محمد ناصرحفظہ اللہ
١١ الشیخ سعودالمانع حفظہ اللہ
١٢ الشیخ محمد بن عبدالکریم یمنی حفظہ اللہ
١٣ الشیخ عبداللطیف حفظہ اللہ
١٤ الشیخ عبدالعزیز السلیم حفظہ اللہ (قاضی)
١٥ الشیخ محمد سعود المقرن حفظہ اللہ (قاضی)
١٦ الشیخ عبدالعزیز الحسن حفظہ اللہ (قاضی)

اُستاد القراء کی تصنیفی وتالیفی خدمات

١ اسہل التجوید (طبع شدہ)
٢ تحفۃ القراء (طبع شدہ)
٣ جمال القراء فی الوقف والابتداء (زیرطباعت)
٤ روضۃ العلماء فی تراجم القراء (زیرطباعت)
٥ أنوار عزیزیہ فی شرح جزریہ (زیرطباعت)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ


نام ونسب

محمد اِدریس بن محمد یعقوب بن غلام اللہ۔ بعد میں استاذ القراء نے اپنے نام کے ساتھ عاصم کا اضافہ کیا۔

العاصم کی وجہ تسمیہ

شیخ القراء محمد ادریس عاصم حفظہ اللہ سے مکتب الدعوۃ اسلام آباد میں حافظ عبدالرشید اظہرحفظہ اللہ نے سوال کیاکہ عاصم کواپنے نام کے ساتھ لگانے کی کیا وجہ ہے؟استاذ القراء نے فرمایا ’’میں نے اپنے نام کے ساتھ عاصم امام عاصم کی نسبت سے لگایا ،مقصود یہ تھا کہ میں لوگوں کو اغلاط قرآن سے بچاؤں۔‘‘ (ماخوذ از انٹرویوقاری مقری)

تاریخ پیدائش وجائے پیدائش

قاری مقری محمد ادریس d ۱۹۴۹ء میں یعنی پاکستان بننے کے ڈیڑھ سال بعد سریاں والا بازارمیں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم

استاذالقراء قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ کاگھر مسجد چینیانوالی کے قریب ہی تھا۔اس لئے قاری صاحبd کے والد ین موصوف کومسجد چینیانوالی میں بھیجتے۔قاری صاحب حفظہ اللہ نے مسجد چینیانوالی میں قاری عبدالغفارسے نورانی قاعدہ پڑھا اورچینیانوالی مسجد کے قریب ایک سکول میں پرائمری تک سکول پڑھا۔ اس کے بعد قاری صاحب حفظہ اللہ نے مسجد چینیانوالی میں قاری محمد اسماعیل حفظہ اللہ سے حفظ القرآن شروع کیا۔ استاذ القراء قاری محمدصدیق حفظہ اللہ سے حفظ کرتے رہے۔ ان ایام میں استاد القراء قاری اظہار احمد تھانوی حفظہ اللہ مسجد چینیانوالی میں تجوید پڑھا یاکرتے تھے اور شعبہ حفظ کے طلباء کو بعد از نماز ظہر مشق کرایا کرتے تھے ۔
بعدازںشیخ موصوف نے استاد القراء قاری اظہار احمد تھانوی حفظہ اللہ مدرسہ تجوید القرآن موتی بازار میں تجوید پڑھتے رہے اور بدیع الزماں حفظہ اللہ سے نحو، صرف ،عربی کتب ،ترجمۃالقرآن اور خطاطی میں استفادہ کرتے رہے۔الغرض قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ نے قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ سے مدرسہ تجوید القرآن، موتی بازار میں دوسال تجوید پڑھی۔ ان دوسالوں میں استادالقراء قاری تھانوی رحمہ اللہ نے تجوید کی درج ذیل کتب پڑھائیں:
١ جمال القرآن ٢ تیسیرالتجوید ٣ فوائد مکیۃ ٤ المقدمۃ الجزریۃ
گویاقاری محمدادریس العاصم حفظہ اللہ نے ۱۹۶۶ء میں قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ سے مدرسہ تجوید القرآن، موتی بازار میں تجوید مکمل کی اور پھر جامعہ محمدیہ ، رینالہ خورد اوکاڑہ تشریف لے گئے ، جس کا نیانام جامعہ ابو ہریرہ ہے۔

جامعہ ابوہریرہ اور جامعہ اسلامیہ میں حصول علم

حضرت قاری صاحب حفظہ اللہ جامعہ ابوہریرہ، رینالہ خورد اوکاڑہ میں مولانا حبیب الرحمن اورحافظ شفیق الرحمن سے استفادہ فرمارہے تھے کہ حافظ اسماعیل الذبیح حفظہ اللہ،جو کہ قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ کے والدہ کی طرف سے عزیز تھے، قاری صاحب حفظہ اللہ کے گھر تشریف لائے، دورانِ گفتگو والدہ سے انہوں نے بچوں کے بارے میں پوچھا کہ آپ کے بچے کیا کررہے ہیں۔ قاری ادریس حفظہ اللہ کی والدہ نے آپ کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے حفظ کرنے کے بعدتجوید پڑھ لی ہے۔پوچھا کہاں پڑھ رہے ہیں؟بتایاکہ جامعہ ابوہریرہ۔ حافظ اسماعیل الذبیح رحمہ اللہ کہنے لگے کہ کسی اچھے سے مدرسہ میں بھیجو۔انہوں نے جامعہ اسلامیہ گوجرانوالامیں داخلہ لینے کا مشورہ دیا۔اس مشورہ کوعملی جامہ پہناتے ہوئے شیخ القراء محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ نے جامعہ اسلامیہ گوجرانوالا میں داخلہ لیا۔
شیخ القراء محمدادریس العاصم حفظہ اللہ نے جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں مولانا ابوالبرکات رحمہ اللہ سے سنن ابو داؤد ، جامع ترمذی ،صحیح مسلم ،صحیح بخاری ،تفسیربیضاوی اورتفسیرجلالین، سراجی، الاتقان فی علوم القرآن، تاریخ ادب العربی وغیرہ پڑھیں اور ۱۹۷۵ء میں جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے سند فراغت حاصل کی۔

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ

شیخ القراء قاری محمدادریس العاصم حفظہ اللہ نے دورانِ تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں دیکھادیکھی مدینہ یونیورسٹی کے لئے کاغذات تیارکئے اور بغیرتصدیق کے ہی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی مدینہ منورہ کاغذات ارسال کردئیے۔انہوں نے تصدیق کے لئے کاغذات واپس پاکستان روانہ کردئیے ۔قار ی صاحب رحمہ اللہ نے تصدیق کروا کردوبارہ کاغذات ارسال کئے توآپ کاداخلہ ہوگیا ۔
استاذ القراء محمد اِدریس عاصم حفظہ اللہ ان دنوں مسجدلسوڑیاں والی میں تجوید اور کتب عربیہ پڑھاتے تھے اور استاد القراء قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ سے سبعہ و عشرہ پڑھ رہے تھے ۔موصوف مدینہ تشریف لے گئے اور مدینہ یونیورسٹی میں ایک سال شعبہ لغہ اورچار سال کلیہ القرآن میں پڑھتے رہے ۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے سندفراغت حاصل کرنے کے بعد مکہ مکرمہ میں مرکز تدریب الدعاۃ رابطہ العالم الاسلامی میں ایک سال کا کورس کیا، نیز وہاں پر ایک مسجدمیں امامت کرواتے رہے۔ اس کے بعد پاکستان میں علم تجویدو قراءت کی اشاعت کے لئے مبعوث ہوئے ۔
قاری محمد اِدریس العاصم کے شیوخ

١ فضیلۃالشیخ علامہ عبد الفتاح سید عجمی المرصفی المصری رحمہ اللہ
٢ فضیلۃ الشیخ المحقَّق عبد الرزاق بن علی بن ابراہیم موسی المصری رحمہ اللہ
٣ فضیلۃ الشیخ محمود بن سیبویہ البدری المصری رحمہ اللہ
٤ فضیلۃالشیخ محمودبن عبدالخالق جادو المصری رحمہ اللہ
٥ فضیلۃ الشیخ عبدالرافع بن رضوان الشرقاوی المصری حفظہ اللہ
٦ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرمحمد سالم المُحَیسن المصری رحمہ اللہ
٧ شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات احمد رحمہ اللہ
٨ استادالقراء قاری اظہاراحمد تھانوی رحمہ اللہ
٩ قاری مقری محمد صدیق لکھنوی رحمہ اللہ
١٠ شیخ الحدیث مولانا محمدعبداللہ بڈہیمالوی رحمہ اللہ
١١ مولانا محمداعظم حفظہ اللہ
١٢ قاری محمد اسماعیل رحمہ اللہ
١٣ قاری اَحمد دین رحمہ اللہ
استاد القراء قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ نے الشیخ عبد الفتاح المرصفی رحمہ اللہ سے قراء ات عشرہ صغری اور قراء ات عشرہ کبری دونوں میں مکمل قرآن سنا کر اجازت حاصل کی۔قاری صاحب رحمہ اللہ پاکستان کی وہ نمایاں شخصیت ہیں، جنہوں نے مکمل قرآن کریم سنا کر مصری مشائخ سے عشرہ کبری کی تکمیل فرمائی اور موجودہ دور کے عالی ترین سلسلہ روایت کو اخذ فرمایا۔

نامور تلامذہ

١ قاری عبد الباسط منشاوی ٢ قاری عبدالودود عاصم ٣ قاری نجم الصبیح تھانوی
٤ قار ی محمد صفدر ٥ قاری آصف اقبال (ریاض) ٦ قار ی حبیب الرحمن (ریاض)
٧ قاری محمدنواز(ریاض) ٨ قاری عنایت اللہ ربانی کشمیری ٩ قاری ابوبکر عثمانی
١٠ قاری حبیب اللہ ساقی ١١ قاری عمران یوسف میرمحمدی ١٢ قار ی محمدداؤد گوندلوی
١٣ قاری عاصم سلفی ١٤ قاری سعیداللہ بٹ ١٥ قاری نصیراحمد
١٦ قاری ابوبکر عاصم ١٧ قاری محمدصادق ١٨ قاری عبدالواحد
١٩ قاری عبدالر حمن محمود (اسلام آباد) ٢٠ قاری محمد یعقوب شیخ(مرکزی راہنما جماعۃ الدعوہ پاکستان)
٢١ قاری محمدیعقوب ہزاروی ٢٢ قار ی شاہدمحمود عاصم ٢٣ قاری محمد یوسف صدیقی
٢٤ قاری ابوبکرمنشاوی ٢٥ قاری عبدالرحمن ہاشمی ٢٦ قاری عبدالرحمن آدم (مالدیپ)
٢٧ قاری ابراہیم رمزی (بنگلہ دیش) ٢٨ قاری محمدریاض (بنگلہ دیش) ٢٩ قاری احمدناشر(بنگلہ دیش)
٣٠ قاری ندیم سرفراز(بنگلہ دیش) ٣١ قاری ہشام (بنگلہ دیش) ٣٢ قاری غلام رسول
٣٣ قاری طارق بالاکوٹی ٣٤ قاری خدا بخش بصری ٣٥ قاری حفیظ الرحمن (ماموںکانجن)
٣٦ قاری امان عظیم کورستانی(مدیر التعلیم معہد القراء ات، پشاور)
٣٧ قاری احسان اللہ ہزاروی(استاد القراء ات معہد القراء ات، پشاور)
٣٨ قاری احسان اللہ ہزاروی(استاد القراء ات معہد القراء ات، پشاور)
٣٩ قاری سلمان احمد میرمحمدی( استاد تجویدوقراء ات، کلِّیۃ القرآن الکریم، مرکز البدر، بونگہ بلوچاں )
٤٠ قاری خُبیب احمد میر محمدی
٤١ قاری عثمان انور(استاد مدرسہ تجوید القرآن موتی بازار)
٤٢ قاری محمد سعید( استاد مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ)
٤٣ قاری احسان اللہ پشاور (استاد تجوید وقراء ت)
٤٤ قاری ولی اللہ مردان (استاد تجوید وقراء ت)
٤٥ قاری مظفر بریلوی (استاد تجوید و قراء ت )

پاکستان واپسی اورعلم تجوید وقراء ت کے فروغ میں نمایاں کردار

قار ی محمدادریس العاصم حفظہ اللہ ۱۴۰۲ھ میں جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ سے فارغ ہونے کے کچھ عرصہ بعد پاکستان تشریف لائے اور شیرانوالاگیٹ کے قریب مسجد لسوڑیاں والی اہلحدیث ملحقہ المَدْرسۃ العالیۃ تجوید القرآن لاہور میں تدریس تجوید کا آغاز فرمایا۔ استاد القراء قار ی محمدادریس عاصم حفظہ اللہ کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے قرآن کریم اور قراء ات قرآنیہ کا خادم بنالے۔
اللہ تعالیٰ نے قاری صاحب حفظہ اللہ کی اس عظیم خواہش کوپورا فرمایا۔ آپ کو خد مت قرآن کی توفیق عطاء فرمائی۔قاری صاحب حفظہ اللہ کو ماشاء اللہ تقریبا ۲۸؍ سال بیت چکے ہیں کہ آپ مسجد لسوڑیاں والی ہی میں تدریس فرما رہے ہیں۔ راقم الحروف کے مشاہدے کے مطابق کم وبیش ۱۵۰؍ طلباء ان دنوں آپ سے علم تجوید میں بھر پور استفادہ کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں چار اساتذہ المدرسۃ العالیۃ، تجویدالقرآن میں قاری صاحب حفظہ اللہ کی زیر نگرانی تدریس فرمارہے ہیں۔قاری صاحب حفظہ اللہ سے کثیرتعداد میں طلباء علم تجوید وقراء ت میں استفادہ کرکے پاکستان کے مختلف شہروں میں علم تجوید وقراء ت کی اشاعت اور ارتقاء کے لئے کوشاں ہیں۔

تصانیف

شیخ القرا ء قاری محمدادریس العاصم حفظہ اللہ نے دوران ِتدریس المدرسۃ العالیۃ، تجوید القرآن میں کئی ایک شاندار کتبتصنیف فرمائیں، جن کے اسماء درج ذیل ہیں:
١ تحبیر التجوید ٢ تحفۃ الاخوان فی تجوید القرآن
٣ شرح فوائدمکیہ ٤ زینت المصحف
٥ حق التلاوۃ ٦ الفوائد السلفیہ
٧ الاہتداء فی الوقف والابتداء ٨ ابلاغ النفع فی القراء ت السبع
٩ ایضاح المقاصد ١٠ نفائس البیان فی رسم القرآن
١١ أحسن المقال فی القراء ت الثلاث
١٢ شجرۃ الاساتدہ فی اسانید القراء ت العشرالمتواترہ کی تکمیل
١٣ تدریب المعلِّمین ١٤ متشابہات القرآن
١٥ متشابہات القرآن المتؤوَّل
١٦ محاسن قرآن ١٧ یومیہ تعلیمی کیفیت
١٨ اللّٰہم ١٩ سبحانی قاعدہ
٢٠ المقدمۃالجزریہ مع تحفۃالاطفال
٢١ قرآنی قاعدہ ٢٢ اہم مسائل قربانی
٢٣ بدعت کیاہے؟

زیر طبع کتب

١ فوائد علمیہ شرح المقدمۃ جزریۃ ٢ شرح الدرۃ المضیئۃ
٣ شرح الوجوہ المسفرہ ٤ شرح طیبۃ النشر
٥ الکواکب النیرۃ فی وجوہ الشاطبیہ والدُّرۃ والطیبۃ ٦ شرح تحفۃ الاطفال
٧ الکنز فی حل وقف حمزہ وہشام علی الہمز ٨ حقیقت سبعہ احرف
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
استاد القراء قاری محمد عزیر حفظہ اللہ


شیخ القراء قاری محمد عزیرحفظہ اللہ ۱۹۳۸ء میں ضلع قصور کے ایک گاؤں میرمحمد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کانام مولانا عبدالحق الشہیدرحمہ اللہ ہے، جو عالم باعمل اور اخلاق حسنہ کے مالک تھے۔

قاری صاحب حفظہ اللہ کاتعلیمی دور

شیخ القراء قاری محمدعزیرحفظہ اللہ کے والدین نیک طبع اورسلفی مسلک ومنہج کے حامل تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے لخت جگر کے لئے دنیاومافیہاسے بہتر اور رفعت وبلندی کی حامل چیز قرآن کریم کا انتخاب فرمایا اور پھر استاد محترم قاری محمد عزیرحفظہ اللہ نے بھی والدین کی تمنا حسنہ میں رنگ بھرتے ہوئے حافظ نذیرشاہ صاحب سے جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں حفظ قرآن کی تکمیل فرمائی۔اور اس کے بعد قرآن وسنت کی تفہیم اورعلم تجوید وقراء ت کے حصول کے لئے جامعہ علوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کا رخ کیا۔ وہاں درس نظامی کے علوم کے ساتھ ساتھ قاری عبدالحق سے روایت حفص میں قرآن مکمل کیا اور۱۹۶۰ میں جامعہ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن، کراچی سے سند فراغت حاصل کی۔
بعد ازں قاری محمد عزیرحفظہ اللہ نے استاد القراء قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ سے قراء ت سبعہ کی تکمیل فرمائی۔ انہوں نے ابھی ’ثلاثہ ‘ شروع ہی کی تھی کہ استاد القراء قاری اظہار احمد تھانوی کاانتقال ہوگیا۔

تدریسی خدمات

شیخ القراء قاری محمد عزیر حفظہ اللہ نے ۱۹۶۰ء میں تدریسی خدمات کا آغاز فرمایا۔ انہوں نے سب سے پہلے مدرسہ تجوید القرآن، تابع مسجد لسوڑھیاں والی میں علم تجوید وقراء ت کی تدریس کاآغاز فرمایااور دوران ِتدریس آپ قاری اظہاررحمہ اللہ کی خدمت میں حاضرہوتے اورقراء ت سبعہ کی تعلیم حاصل کرتے۔ الغرض وہ مسجدلسوڑھیاں والی میں طویل عرصہ تک علم تجوید کی تدریس فرماتے رہے۔ جہاں آپ سے بے شمار لوگوں نے علم تجوید میں استفادہ فرمایا، جن میں سے نامور تلامذہ قاری حنیف فیصل آبادی، قاری عارف وغیرہ قابل ذکرہیں، البتہ شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ نے قاری عزیر حفظہ اللہ سے نحووصرف کی ابتدائی کتب پڑھیں۔ اس کے بعد موصوف نے مدرسہ تجوید القرآن، رحمانیہ، پونچھ روڈمیں تجوید وقراء ات کی تدریس کا آغاز فرمایا اور آج کل قاری صاحب حفظہ اللہ مسجد اقصی، گلشن راوی میں علم تجوید کی نشرواشاعت میں اپنے لیل ونہاربسرکررہے ہیں۔

قاری صاحب حفظہ اللہ کی تصنیفی وتالیفی خدمات

١ المقدمۃالجزریۃ (مختصرشرح وسلیس ترجمہ) (زیرطباعت)
٢ القواعد النحویۃ والصرفیۃ (زیرطباعت)
 
Top