• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برطانیہ میں نوجوان سفید فام لڑکیوں کا استحصال - پاکستانی نژاد افراد پر الزامات

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
گو کہ یہ ایک منفی نیوز ہے اور برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد نوجوانوں سے متعلق ہے۔ انٹرنیٹ تحقیق سے علم ہوا کہ یہ برطانیہ کا موجودہ بڑا اسکینڈل ہے۔ ہندوستان کی قومی نیوز ایجنسیوں نے بھی اس کی کوریج کی جس کے سبب ہند کے اردو اخبارات میں بھی اس اسکینڈل سے متعلق خبریں پچھلے دنوں اشاعت پذیر ہوئیں۔
معروف ہندوستانی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی۔ٹی۔آئی) کی اسی ذیل کی ایک خبر پیش ہے۔ دور ایسا آ گیا ہے کہ آجکل کسی بھی خبر کو آنکھ بند کر کے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے بعض حقائق اوجھل ہو گئے ہوں یا جان بوجھ کر اوجھل کر دئے گئے ہوں۔ برطانیہ میں مقیم اراکین ہمیں اس موضوع سے متعلق حقائق شائد بہتر بتا سکیں۔

×××
برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ ان ٹولیوں کے مسئلہ کی یکسوئی کریں جو منظم خطوط پر فروغ پاتے ہوئے نوجوان سفید فام لڑکیوں کا استعمال بیجا کررہے ہیں۔
آکسفورڈ میں 11سال عمر تک کی لڑکیوں کے خلاف قرون وسطی کی بدچلنی پر مبنی جرائم کے ارتکاب کی پاداش میں 7افراد کو سزا سنائی گئی۔ برطانوی وزیر انصاف ڈیمین گرین نے یہ بات بتائی۔
انہوں نے بتایاکہ وقت آچکا ہے کہ اس مسئلہ کی سیاسی تصحیح کے کسی بھی امکان کو مسترد کردیاجائے۔ پاکستانی نژاد افراد کو لڑکیوں کے خلاف جنسی جرائم کا قصور وار قرار دیا گیا۔ بحیثیت مجموعی ان کے خلاف 43 جرائم پر انہیں خاطی قراردیا گیا۔ آکسفورڈ کے رہنے والے قمر جمیل، اختر ڈوگر، انجم ڈوگر، اسد حسین، محمد کرار، باسم کرار، ذیشان احمد اور محمد حسین جن کی عمریں 20 تا 30 سال ہے انہیں عصمت ریزی یا اس جرم کی سازش پر متاثرہ لڑکیوں کو جنسی افعال کے ارتکاب سے قبل الکحل اور منشیات کا استعمال کروایا گیا تھا۔ بعض کو زدوکوب کیا گیا اور دیگر کو جھلساتے ہوئے دھمکیاں بھی دی گئیں۔
اولڈ بیلی کے جج نے آج اپنے فیصلے میں بتایاکہ
"تم لوگوں کو انتہائی سنگین جرائم کا قصور وار قرار دیا گیا ہے اور مدت طویل تک حراست کے فیصلے ناگزیر ہیں"۔
متاثرہ لڑکیاں جن کی عمریں11 تا 15 سال تھیں انہوں نے پولیس کو اپنی استحصال اور ان دہشت ناک سرگرمیوں پر چوکس کیا تھا جو آکسفورڈ کے علاقہ کا ولی میں کھلے مقامات اور پارکس میں واقع فلیٹس اور گیسٹ ہاوزس میں جاری تھیں۔ اگرچہ کہ بعض سماجی ورکرس اس بات سے واقف تھے کہ چند لڑکیوں کو تیار کیا جارہا تھا تاہم کسی نے بھی کوئی کارروائی نہیں کی اور ثبوت اکٹھا نہیں کیا۔
بعدازاں ایک تحقیقاتی عہدیدار نے 2010 کے اواخر میں اس کیس کا جائزہ حاصل کیا تھا۔ پولیس اور سماجی خدمات کی جانب سے متاثرین سے معذرت خواہی کی گئی ۔ جبکہ پولیس نے ان کی تعداد امکانی طورپر 50سے متجاوز بتائی ہے۔ 2010ء کے بعد یہ پانچواں آکسفورڈ اسکینڈل رہا ہے جبکہ مذکورہ سال کے دوران پاکستانیوں کے ٹولوں کو راشڈیل، ڈرجی، راٹرہیمپ اور شراپ شائر میں ممثال کیسس پر سزا سنائی گئی تھی۔
ڈیلی ٹیلیگراف کو دئیے گئے انٹرویو میں پولیس اور فوجداری انصاف کے وزیر گرین نے بتایاکہ وہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد کی کارروائی کے مسئلہ سے نمٹنے دفتر داخلہ کی زیر قیادت گروپ تشکیل دے رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے بتایاکہ پاکستانی قائدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پوری طرح اس بات کو واضح کریں کہ اس قسم کا رویہ صد فیصد ناقابل قبول ہے۔

تعمیر نیوز : نوجوان سفید فام لڑکیوں کا جنسی استحصال - پاکستانی نژاد افراد پر برطانوی وزیر کا الزام
Pakistani community must tackle gangs grooming and abusing young white girls: UK minister
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

واقعہ ہوا ھے اور اخباروں میں بھی آیا ھے مگر اس اخبار نے اسے اپنے ہی ڈھنگ میں پیش کیا ھے۔

اگر کوئی پوچھنا چاہے تو اس خبر کے حوالہ سے معلومات کے لئے اپنے سوال لکھ سکتا ھے کوشش کروں گا جواب دینے کی۔

والسلام
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
گو کہ یہ ایک منفی نیوز ہے اور برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد نوجوانوں سے متعلق ہے۔ انٹرنیٹ تحقیق سے علم ہوا کہ یہ برطانیہ کا موجودہ بڑا اسکینڈل ہے۔ ہندوستان کی قومی نیوز ایجنسیوں نے بھی اس کی کوریج کی جس کے سبب ہند کے اردو اخبارات میں بھی اس اسکینڈل سے متعلق خبریں پچھلے دنوں اشاعت پذیر ہوئیں۔
معروف ہندوستانی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی۔ٹی۔آئی) کی اسی ذیل کی ایک خبر پیش ہے۔ دور ایسا آ گیا ہے کہ آجکل کسی بھی خبر کو آنکھ بند کر کے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے بعض حقائق اوجھل ہو گئے ہوں یا جان بوجھ کر اوجھل کر دئے گئے ہوں۔ برطانیہ میں مقیم اراکین ہمیں اس موضوع سے متعلق حقائق شائد بہتر بتا سکیں۔

×××
برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ ان ٹولیوں کے مسئلہ کی یکسوئی کریں جو منظم خطوط پر فروغ پاتے ہوئے نوجوان سفید فام لڑکیوں کا استعمال بیجا کررہے ہیں۔
آکسفورڈ میں 11سال عمر تک کی لڑکیوں کے خلاف قرون وسطی کی بدچلنی پر مبنی جرائم کے ارتکاب کی پاداش میں 7افراد کو سزا سنائی گئی۔ برطانوی وزیر انصاف ڈیمین گرین نے یہ بات بتائی۔
انہوں نے بتایاکہ وقت آچکا ہے کہ اس مسئلہ کی سیاسی تصحیح کے کسی بھی امکان کو مسترد کردیاجائے۔ پاکستانی نژاد افراد کو لڑکیوں کے خلاف جنسی جرائم کا قصور وار قرار دیا گیا۔ بحیثیت مجموعی ان کے خلاف 43 جرائم پر انہیں خاطی قراردیا گیا۔ آکسفورڈ کے رہنے والے قمر جمیل، اختر ڈوگر، انجم ڈوگر، اسد حسین، محمد کرار، باسم کرار، ذیشان احمد اور محمد حسین جن کی عمریں 20 تا 30 سال ہے انہیں عصمت ریزی یا اس جرم کی سازش پر متاثرہ لڑکیوں کو جنسی افعال کے ارتکاب سے قبل الکحل اور منشیات کا استعمال کروایا گیا تھا۔ بعض کو زدوکوب کیا گیا اور دیگر کو جھلساتے ہوئے دھمکیاں بھی دی گئیں۔
اولڈ بیلی کے جج نے آج اپنے فیصلے میں بتایاکہ
"تم لوگوں کو انتہائی سنگین جرائم کا قصور وار قرار دیا گیا ہے اور مدت طویل تک حراست کے فیصلے ناگزیر ہیں"۔
متاثرہ لڑکیاں جن کی عمریں11 تا 15 سال تھیں انہوں نے پولیس کو اپنی استحصال اور ان دہشت ناک سرگرمیوں پر چوکس کیا تھا جو آکسفورڈ کے علاقہ کا ولی میں کھلے مقامات اور پارکس میں واقع فلیٹس اور گیسٹ ہاوزس میں جاری تھیں۔ اگرچہ کہ بعض سماجی ورکرس اس بات سے واقف تھے کہ چند لڑکیوں کو تیار کیا جارہا تھا تاہم کسی نے بھی کوئی کارروائی نہیں کی اور ثبوت اکٹھا نہیں کیا۔
بعدازاں ایک تحقیقاتی عہدیدار نے 2010 کے اواخر میں اس کیس کا جائزہ حاصل کیا تھا۔ پولیس اور سماجی خدمات کی جانب سے متاثرین سے معذرت خواہی کی گئی ۔ جبکہ پولیس نے ان کی تعداد امکانی طورپر 50سے متجاوز بتائی ہے۔ 2010ء کے بعد یہ پانچواں آکسفورڈ اسکینڈل رہا ہے جبکہ مذکورہ سال کے دوران پاکستانیوں کے ٹولوں کو راشڈیل، ڈرجی، راٹرہیمپ اور شراپ شائر میں ممثال کیسس پر سزا سنائی گئی تھی۔
ڈیلی ٹیلیگراف کو دئیے گئے انٹرویو میں پولیس اور فوجداری انصاف کے وزیر گرین نے بتایاکہ وہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد کی کارروائی کے مسئلہ سے نمٹنے دفتر داخلہ کی زیر قیادت گروپ تشکیل دے رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے بتایاکہ پاکستانی قائدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پوری طرح اس بات کو واضح کریں کہ اس قسم کا رویہ صد فیصد ناقابل قبول ہے۔

تعمیر نیوز : نوجوان سفید فام لڑکیوں کا جنسی استحصال - پاکستانی نژاد افراد پر برطانوی وزیر کا الزام
Pakistani community must tackle gangs grooming and abusing young white girls: UK minister
یہی توموجودہ معاشروں کی دسیسہ کاریاں ہیں پہلےخود ہی عورت کو نیم برہنہ کرکےاور بدکاری بےحیائی کو قانونی تحفظ فراہم کر کےاسےکھرسےنکالا۔ایک پوراہیجانی ماحول پیداکیا۔پھر اگر جرائم رونماہوتےہیں توچہخناچلاناشروع کردیا۔اس سےہم مجرم نوجوانوں کادفاع تو نہی کرناچاہتےالبتہ یہ ضرور کہیں گےکہ عورت شمع محفل نہیں بلکہ چراغ خانہ ہوتو تب ہی ایک صالح تہذیب جنم لےسکتی ہے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

یہی تو موجودہ معاشروں کی دسیسہ کاریاں ہیں پہلے خود ہی عورت کو نیم برہنہ کر کے اور بدکاری بےحیائی کو قانونی تحفظ فراہم کر کے اسے کھر سے نکالا۔ ایک پورا ہیجانی ماحول پیدا کیا۔ پھر اگر جرائم رونما ہوتے ہیں تو چہخنا چلانا شروع کر دیا۔ اس سے ہم مجرم نوجوانوں کا دفاع تو نہی کرنا چاہتے البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ عورت شمع محفل نہیں بلکہ چراغ خانہ ہو تو تب ہی ایک صالح تہذیب جنم لے سکتی ہے۔
محترم کیلانی بھائی شائد آپ نے خبر صحیح سے توجہ نہیں کی یا سمجھنے میں غلطی کر گئے کیونکہ ایک طرف آپ شریعت پر لکھتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی نہیں سمجھتے کہ مسلمان کو اس پر کہیں بھی ایسے حرام فعل کو کسی بھی نسل کے ساتھ کرنے کی اجازت نہیں بھلہ ایسی بدفعلی مسلم لڑکی سے ہو یا یہود نصاری سے۔

گو کہ یہ ایک منفی نیوز ہے اور برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد نوجوانوں سے متعلق ہے۔ انٹرنیٹ تحقیق سے علم ہوا کہ یہ برطانیہ کا موجودہ بڑا اسکینڈل ہے۔ ہندوستان کی قومی نیوز ایجنسیوں نے بھی اس کی کوریج کی جس کے سبب ہند کے اردو اخبارات میں بھی اس اسکینڈل سے متعلق خبریں پچھلے دنوں اشاعت پذیر ہوئیں۔
معروف ہندوستانی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی۔ٹی۔آئی) کی اسی ذیل کی ایک خبر پیش ہے۔ دور ایسا آ گیا ہے کہ آجکل کسی بھی خبر کو آنکھ بند کر کے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے بعض حقائق اوجھل ہو گئے ہوں یا جان بوجھ کر اوجھل کر دئے گئے ہوں۔ برطانیہ میں مقیم اراکین ہمیں اس موضوع سے متعلق حقائق شائد بہتر بتا سکیں۔

: نوجوان سفید فام لڑکیوں کا جنسی استحصال - پاکستانی نژاد افراد پر برطانوی وزیر کا الزام


جزاک اللہ خیر۔ بہت اچھا طریقہ آپ نے استعمال کیا آپ کافی سمجھدار ہیں شائد آپ کا تعلق انڈیا سے ھے،
معلومات طویل ہو جائے اس لئے میںکوشش کروں کا خاص نقطہ پوانٹ آؤٹ کروں اگر کسی بھی ایک نقطہ پر پوری تفصیل جاننے کی خواہس ہو تو اس پر بعد میں سوالیہ یا جیسے مناسب سمجھیں پوچھ سکتے ہیں۔ میری کہی ہوئی بات اگر غلط ثابت ہو تو میں یہیں ہوں اسے کوئی بھی چیلنج کر سکتا ھے۔ ساری باتیں قانونی کروں گا، اب جہاں قانون کا استعمال نہیں ہوتا اس پر کوئی تفصیلی معلومات ابھی اس مراسلہ میں شیئر نہیں ہو سکتی۔ ایسے ایسے مہرباں ہمارے پاکستانی بھائی ہیں جنہیں اپنے ملک کے حالات یا قانون کا بھی علم نہیں۔


ان ممالک میں مسلمان چاہے وہ کسی بھی ملک سے ہی کیوں نہ ہوں وہ ایسے سیرئیس و نن سیرئیس کرائمز سے بہت محتاط رہتے ہیں کہ جس سے انہیں مسلمانوں کو شرمندہ کرنے کا موقع ملے

پاکستان میں ہمارے بہت سے ایسے انڈر ایج اور کچھ اوور ایج تبقہ بھی ایسا ھے کہ جن کے ذہن میں یہاں کا کنسپٹ بہت غلط ھے اور کی وجہ وہ جو دیکھتے ہیں، وہ حقیقت نہیں بلکہ ایک مافیا ھے جو ایسے پروگرام نشر کرتا ھے جیسے اب اس طرح کی نشریات پاکستان سے بھی ٹیوبوں میں ہو رہی ھے، اس لئے تھوڑا سوچنا چاہئے کہ اگر وہ نظر سے گزریں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کی ہر عورت ایسی ھے بلکہ وہ مافیا ایسی عورتوں کو کسی طرح ڈرگز دے کر ایسے کام کرتے ہیں ویسا ہی یہاں بھی ھے۔ ہر عورت چاہے وہ انگلش ہی کیوں نہ ہو ایسی نہیں۔

خبر کے مطابق 5 پاکستانی انوالو ہیں اور انہوں نے اپنے جرم بھی قبول کئے ہیں جس پر انہیں سزا ہوئی ھے۔ س

قانون میں ہر چھوٹے سے چوٹا اور بڑے سے بڑا جرم پر سزائیں جرمانہ کے ساتھ لکھی ہوئی ہیں۔

آسانی اسی میں ھے کہ اگر آپکا قصور ھے تو کورٹ کی پیشی پر جانے کی ضرورت نہیں وکیل کو بتا دیں یا وکیل خود ہی کہتا ھے کہ اس کیس میں سارے ثبوت آپ کے خلاف ہیں اگر آپ اپنا جرم قبول کر لیتے ہیں تو سزا بہت ہی کم ہو گی، جس پر کورٹ پیشی سے پہلے ہی سزا مدت بہت کم سنا کے وکیل کو یا گھر میں لیٹر بھیج دیتی ھے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر کورٹ کی پیشی کے دن اپنا جرم قبول کر لیں تو بھی سزا کام ہو گی، اگر کورٹ کی پیشی پر اپنا کیس وکیل کے ذریعے لڑتے ہیں تو پھر سزا اور جرمانہ جو قانون میں ھے جج کو اختیار ھے کہ وہ اس پر کتنی سزا کا فیصلہ سناتا ھے مگر یہ سزا بھاری ہوتی ھے۔

جرمانہ پر بھی یہاں کا قانون بہت بےمثال ھے۔ کورٹ ہیئرنگ شروع ہونے سے پہلے ہی کورٹ ایک فارم دیتی ھے اس پر اپنی تنخواہ اور اخراجات لکھنے ہیں۔ جس پر بچت کتنی ھے کورٹ اگر سزا سناتی ھے تو جرمانہ بچت کے مطابق فقیرانہ ہوتا ھے یعنی بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔

لڑکیوں کی عمر 11 سے 15 سال ھے

پاکستان میں بھی لڑکا ہو یا لڑکی قانون ھے 18 سال سے کم عمر لڑکا یا لڑکی کے ساتھ اگر کوئی میچیور ایج والا زیادتی کرتا ھے تو اس کی پاکستان میں بھی بہت سخت سزا ھے۔

برطانیہ میں بھی 18 سال سے کم عمر کا لڑکا ہو یا لڑکی سے اگر کوئی میچیور ایج والا زیادتی میں پکڑا گیا یا شکایت ہوئی تو اسے سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ یہاں کوئی بلیک میلنگ یا رشوت کام نہیں کرتی۔ یہاں ہر اوور 18 اس بات کو جانتا ھے۔

کوئی بھی اوور 18 ، انڈر 18 کے ساتھ گلے میں ہاتھ ڈال کر یا اس کے بغیر باہر نہیں گھوم سکتا اگر سی آئی ڈی پولیس نے دیکھ لیا تو وہ شناخت مانگے گی اگر تو باب بیٹا، بیٹی میچ ہوتے ہیں تو درست ورنہ اوور 18 کو پکڑ لیا جائے گا۔

انڈر 18 رات کو باہر نہیں گھوم سکتے اگر پولیس نے دیکھ لیا تو پکڑ کر انہیں گھر میں والدین کے سپرد کر کے آئیں گے اور انہیں بھی وارن کریں گے۔

جو لڑکے لڑکیاں سگریٹ یا شراب پینے والے ہیں انہیں ایک آئی ڈی کارڈ بنوانا پڑتا ھے جس پر عمر دیکھی جاتی ھے۔ 18 سال عمر والا اس کارڈ میں اپنی عمر 18 سال شو کروا کے سگریٹ خرید سکتا ھے ورنہ 18 سال سے کم عمر والے کو کوئی دکاندار سگریٹ نہیں بیچتا اگر بیچنے پر پکڑا گیا تو دکاندار کو جرمانہ ھے۔
اسی طرح شراب خریدنے یا پب میں جانے پر 21 سال کی عمر چاہئے، 21 سال سے کم عمر کو نہ شراب ملتی ھے اور نہ وہ کسی کلب و پب میں انٹری ھے۔ وہاں سپیشل باڈری کارڈ کھڑے ہوتے ہیں جو ہر قسم کے خطرات کو نپٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ 18 سال اور 21 سال کی عمر کے بعد وہ میچیور ہو جاتا، جاتی ہیں، اب وہ اپنا ہر فیصلہ خود لے سکتے سکتی ہیں اس پر جو بھی ہو گا وہ اس کے خود ذمہ دار ہونگے۔ والدین کی ذمہ داری ختم۔

اس ملک میں اگر کوئی جرم کیا ھے تو رپورٹ ہونے پر بچنا بہت مشکل ھے کیونکہ ثبوت یہ حاصل کر لیتے ہیں۔ پھر اگر کسی جرم میں سزا ہو گئی تو رہائی کے بعد 3 سال تک کہیں جاب نہیں کر سکتا کیونکہ ہر کمپنی نوکری دینے پر ای۔ ڈی کرواتی ھے جس پر اس کے جرم کی پوری رپورٹ مل جاتی ھے، اور یہ نام 3 سال تک پولیس ریکارڈ میں رہتا ھے اس کے بعد نکال دیا جاتا ھے۔ ایسی صورتوں میں یہاں ہر کوئی جرم کرنے سے پہلے سوچنے کی بھی ضرورت نہیں اس لئے وہ اس طرح جاتا ہی نہیں۔ اور جو جانے کی غلطی کر لے تو پھر اس کا انجام بھی برا ہی پاتا ھے۔

امید ھے کچھ معلومات حاصل ہو چکی ہونگی مزید اگر کوئی کمی ہو یا کراس کویسچن کرنے کو دل کرے تو بندہ حاضر ھے۔

والسلام
 
Top