• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برطانیہ میں ’حلالہ‘ کا آن لائن بزنس

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
بی بی سی کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انٹرنیٹ پر متعدد ادارے مطلقہ مسلم خواتین سے حلالہ کے نام پر ہزاروں پاؤنڈ وصول کر رہی ہیں۔ یہ خواتین ایک اجنبی سے شادی کرنے اور جنسی تعلقات استوار کرنے کے بعد اسے طلاق دے کر واپس اپنے پہلے شوہر سے شادی کرنے کے لیے یہ رقم ادا کر رہی ہیں۔ فرح (فرضی نام) جب 20 سال کی تھیں تو خاندانی دوستوں کے ذریعے ان کی شادی ہوئی تھی۔ دونوں کے بچے بھی ہوئے، لیکن فرح کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ان کے ساتھ بدسلوکی شروع ہوئی۔ فرح نے بی بی سی کے ایشین نیٹ ورک اور وکٹوریہ ڈربی شائر پروگرام کو بتایا: 'پہلی بار میرے شوہر نے پیسوں کے لیے بدسلوکی کی۔' فرح نے کہا: 'وہ مجھے بالوں سے بال پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے گھر سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ کئی مواقع پر پاگلوں کی طرح برتاؤ کرنے لگتے۔' ان بدسلوکیوں کے باوجود فرح کو امید تھی کہ حالات بدل جائیں گے لیکن ان کے شوہر کے رویے میں سختی آتی گئی اور پھر ایک دن ان کے شوہر نے ٹیکسٹ میسیج کے ذریعہ انھیں طلاق دے دی۔ فرح بتاتی ہیں: 'میں گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ تھی اور وہ کام پر تھے۔ ایک شدید بحث کے بعد انھوں نے مجھے ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا- طلاق، طلاق، طلاق۔' یہ بعض جگہ مسلمانوں میں مروج شادی کو ختم کرنے کا ایک ہی نششت میں تین طلاق کا نظام ہے۔
زیادہ تر مسلم ممالک میں تین طلاق پر پابندی ہے تاہم برطانیہ میں یہ جاننا تقریبا ناممکن ہے کہ کتنی خواتین کو تین طلاق کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فرح نے کہا: 'میرا فون میرے پاس تھا۔ میں نے یہ پیغام اپنے باپ کو بھیج دیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ کی شادی اب ختم ہو گئی۔ تم اب اس کے ساتھ نہیں رہ سکتیں۔' فرح کا کہنا ہے کہ وہ بری طرح گھبرا گئی تھیں، لیکن وہ اپنے سابق شوہر کے پاس لوٹنا چاہتی تھیں۔ فرح کا کہنا ہے کہ وہ ان کی 'زندگی کا پیار تھا۔' فرح نے کہا کہ ان کے سابق شوہر کو بھی اس طلاق پر افسوس تھا اور اپنے سابق شوہر کو حاصل کرنے کے لیے فرح نے حلالہ کے متنازع نظام کی جانب قدم بڑھایا۔ مسلمانوں کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ حلالہ واحد طریقہ ہے جس کے سہارے دو طلاق شدہ پھر سے آپس میں شادی کرنا چاہیں تو شادی کر سکتے ہیں۔ حلالہ کے بعض معاملوں میں اقتصادی طور پر ان کا استحصال کیا جا سکتا ہے، بلیک میل کیا جا سکتا ہے اور یہاں تک کہ جنسی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مسلمانوں کا بڑا طبقہ اس چلن کے سخت خلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں طلاق سے منسلک قوانین کی ذاتی طور پر غلط تشریح کی جا رہی ہے۔
لیکن بی بی سی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت سی آن لائن سروسز کے ذریعہ حلالہ کو انجام دیا جا رہا ہے اور بہت سے معاملات میں خواتین سے عارضی شادی کے لیے ہزاروں پاؤنڈ وصول کیے جا رہے ہیں۔ فیس بک پر ایک آدمی نے حلالہ سروس کی تشہیر کی تھی۔ اس سے بی بی سی کی ایک انڈر کور رپورٹر نے ایک مطلقہ مسلم خاتون کے طور پر ملاقات کی۔ اس شخص نے کہا کہ ڈھائی ہزار پاؤنڈ کے عوض وہ اس سے شادی کر سکتا ہے اور پھر ہم بستری کے بعد اسے طلاق دے دے گا تاکہ وہ اپنے پہلے خاوند سے دوبارہ شادی کر سکے۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ اور کئی لوگ کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان میں سے ایک نے تو ایک خاتون سے شادی کرنے کے بعد اسے طلاق دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بی بی سی نے جب اس شخص سے ملاقات کی تو اس نے اپنے خلاف تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ حلالہ کی کسی شادی میں ملوث نہیں اور اس نے جو صفحہ بنایا ہے وہ محض تفنن طبع اور سماج کی نبض کو جاننے کے لیے ہے۔ اپنے پہلے شوہر سے ملنے کے اضطراب میں فرح نے ایسے شخص کی تلاش شروع کر دی جو اس سے شادی کرے اور پھر اسے طلاق دے دے تاکہ وہ اپنے سابق شوہر سے دوبارہ شادی کر سکے۔ فرح نے کہا: 'میں ایسی لڑکیوں کو جانتی تھی جو خاندان سے چھپ کر اس کے لیے آگے بڑھی تھیں اور ان کا کئی ماہ تک استعمال کیا گیا تھا۔ 'اس کے لیے وہ ایک مسجد میں گئی تھیں جہاں انھیں مخصوص کمرے میں لے جایا گيا تھا اور وہاں انھوں نے اس خدمت (حلالہ) کو فراہم کرنے والے امام یا دوسرے کسی شخص کے ساتھ ہم بستری کی اور پھر دوسروں کو بھی ان کے ساتھ سونے کی اجازت دی گئی۔
' لیکن مشرقی لندن میں اسلامی شریعہ کونسل جو خواتین کو طلاق کے مسئلے پر مشورے دیتی ہے وہ سختی کے ساتھ حلالہ کی مخالف ہے۔ اس تنظیم کی خولہ حسن نے کہا: 'یہ جھوٹی شادی ہے۔ یہ پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے اور مجبور خواتین کا استحصال ہے۔' انھوں نے مزید کہا: 'یہ مکمل طور پر حرام ہے۔ اس کے لیے اس سے سخت لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے دوسرے طریقے ہیں، مشاورت ہے۔ ہم لوگ ایسا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔ چاہے جو بھی ہو لیکن آپ کو حلالہ کی ضرورت نہیں۔' فرح نے آخر میں طے کیا کہ وہ اپنے سابق شوہر کے ساتھ نہیں جائیں گی اور نہ ہی حلالہ کا راستہ اپنائیں گی۔ تاہم فرح نے متنبہ کیا کہ ان جیسی صورتحال میں بہت سی عورتیں کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں گی۔
وہ کہتی ہیں: 'جب تک آپ اس ایسی صورت حال سے دوچار نہیں ہوئے ہیں اور آپ کو طلاق نہیں ہوئی ہے اور اس درد کو نہیں سہا ہو جو میں نے سہا ہے تو آپ کسی خاتون کی اضطراب کو نہیں سمجھ سکتے۔ 'اب ہوش کے عالم میں اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں ایسا کبھی نہیں کروں گی۔ میں اپنے شوہر کو واپس پانے کے لیے کسی کے ساتھ سونے کو تیار نہیں ہوں۔ لیکن ایک خاص مدت کے دوران میں اپنے شوہر کو واپس حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار تھی۔

بحوالہ:

http://www.bbc.com/urdu/world-39499777
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

فیک رپورٹ ---- ڈیسک میں بیٹھ کر روزانہ سیکڑوں ایسی فرضی رپورٹیں تیار کی جا سکتی ہیں۔ ہر دو سال بعد اس پر اسی طرح کی رپورٹ بی بی سی پر پیش کی جاتی ہے، اگر آپ مزید کچھ ممبران اکٹھے کر لیں تو میں آپکو اس پر کچھ باتیں بتا سکتا ہوں جس سے ثابت ہو جائے گا۔

والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام علیکم

فیک رپورٹ ---- ڈیسک میں بیٹھ کر روزانہ سیکڑوں ایسی فرضی رپورٹیں تیار کی جا سکتی ہیں۔ ہر دو سال بعد اس پر اسی طرح کی رپورٹ بی بی سی پر پیش کی جاتی ہے، اگر آپ مزید کچھ ممبران اکٹھے کر لیں تو میں آپکو اس پر کچھ باتیں بتا سکتا ہوں جس سے ثابت ہو جائے گا۔

والسلام
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے بھی یہ سب ’ من گھڑت ‘ لگ رہا ہے ۔
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
ہمیں اس سے غرض نہیں کہ یہ کہانی جھوٹی ہے یا سچی۔ بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے علما ء کرام نے اس کی اجازت دی ہے یا نہیں۔اس بارے میں ایک فتوٰی نقل کیا جا رہا ہے جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ فتوٰی یہ ہے: "اگر نکاح میں حلالہ کی شرط نہ رکھی جائے تو کوئی گناہ نہیں۔مثلاًاگر کوئی قابلِ اعتماد آدمی ہوتو اس کے سامنے پوری صورتِ حال بیان کر دی جائے توعورت سے عدت گذرنے کے بعدنکاح کرلے اور نکاح میں حلالہ کی شرط نہ رکھی جائے پھر وہ آدمی نکاح کے بعد جماع کرکے طلاق دے دے تو اسمیں کوئی کراہت نہیں بلکہ اگر اچھی نیت ہے تو وہ اجر کا مستحق ہے۔پھرپہلا شوہر عدت گذرنے کے بعد اس سے نکاح کرلے"ازمحمد قاسم العطاری بحوالہ بہارِشریعت۸:۲۷۔ اب آئیں حلالہ کی طرف اس سے پہلے یہ تو دیکھ لیں کہ تین طلاق ہیں بھی یا نہیں۔ قرآن پاک میں کہیں بھی تین طلاق کا ذکر نہیں ہے۔سورہ البقرہ کی آیت نمبر 230 میں جس طلاق کا ذکر ہے(جس کو ہم اکثر تیسری طلاق سے موسوم کرتے ہیں اور جس کوزبر دستی الطلاق و مراتان سے جوڑ کر تیسری طلاق بنادیا جاتا ہے) وہ تیسری طلاق نہیں ہے بلکہ یہ اس عورت کے لئے ہے جو طلاق مال دیکر حاصل کرتی ہے جس کا ذکر البقرہ کی آیت نمبر 229 کے آخری حصہ میں موجود ہے۔جب تین طلاق ہی نہیں تو حلالہ کا جواز کیسے نکل آیا؟
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
نہ تو میں احادیث رسولﷺکا منکر ہوں اور نہ فقہ کا ۔ لیکن ان آپشز کو اس وقت استعمال کرنا چاہیے جب ہمیں قرآ ن کوئی ہدایت نہیں مل رہی ہو۔حضرت معاذ بن جبل والی حدیث کے مطابق پہلے قرآن میں مسئلہ دیکھو، وہاں نہ ملے تو احادیث نبوی ﷺ میں دیکھو وہان نہ ملے تو اپنی عقل سے کام لو خود بھی تفقہ کرو اور دوسروں کے تفقہ سے بھی فائدہ اٹھاؤ۔ طلاق کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو قرآن سے نہ مل رہی ہو۔ قرآن میں ذکر ہے کہ طلاق دو بار ہے اس کے بعد رکھ لینا ہے بھلے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ۔احسان یہ کہ جو تم اس کو دے چکے ہو اسے واپس نہ لو۔ہاں اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے اگر عورت مال دے کر طلاق حاصل کرے لیکن اس صورت میں جب اسے طلاق ہوجائے گی پھر وہ اس(پہلے مرد) کے لئے حلال نہ ہوگی جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے پھر وہ اگر طلاق دےدے تو پہلے مرد کے لئے حلال ہوگی۔
اوپر سے یہی ظاہر ہے کہ نہ تین طلاق ہے اور نہ اس کے نتیجہ میں حلالہ۔دوسرے مرد سے نکاح کی شرط اس عورت کے لئے ہے جومال کے بدلے طلاق خریدتی ہے۔ یہاں بھی جو عورت طلاق خریدے گی یعنی اپنی جان چھڑانے کے لئے مال دیگی وہ دوبارہ پہلے مرد سے نکاح کیوں کریگی۔وہ کسی دوسرے مرد سے ہی نکاح کرے گی۔ اس لئے حلالہ کی ضرورت یہاں بھی پیش نہ آئے گی۔پس حلالہ کی نہ کوئی حیثیت ہے اور نہ اس کا کوئی جواز۔ خواہ مخواہ میں یہ مسئلہ گھڑلیا ہے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم



اب آئیں حلالہ کی طرف اس سے پہلے یہ تو دیکھ لیں کہ تین طلاق ہیں بھی یا نہیں۔ قرآن پاک میں کہیں بھی تین طلاق کا ذکر نہیں ہے۔

سورہ البقرہ کی آیت نمبر 230 میں جس طلاق کا ذکر ہے (جس کو ہم اکثر تیسری طلاق سے موسوم کرتے ہیں اور جس کوزبر دستی الطلاق و مراتان سے جوڑ کر تیسری طلاق بنادیا جاتا ہے) وہ تیسری طلاق نہیں ہے بلکہ یہ اس عورت کے لئے ہے جو طلاق مال دیکر حاصل کرتی ہے جس کا ذکر البقرہ کی آیت نمبر 229 کے آخری حصہ میں موجود ہے۔جب تین طلاق ہی نہیں تو حلالہ کا جواز کیسے نکل آیا؟
پہلے تو آپ کی پوسٹ موضوع سے ہٹ کے ہے پھر بھی اس پر جواب صاحب علم ہی بہتر طریقہ سے دے سکتے ہیں۔ آپ اگر چاہیں تو قرآنی آیات سے اس کا جواب پیش کر سکتے ہیں۔

  1. یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں، پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ 2:229
  2. پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک وه عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے، 2:230

  1. مجھے تو اس سے یہی نظر آ رہا ہے پہلی آیت سے کہ دو طلاق میں "پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے" دو طلاق میں بیوی کے ساتھ تعلق ختم نہیں ہوتا۔
  2. دوسری آیت سے " پھر اگر اس کو طلاق دے سے تو اب اس کے لئے حلال نہیں"۔ یہ تیسری طلاق ہے۔

مثال سے
  1. بالکل ایسے جیسے انگلینڈ میں کہ اگر کسی کو جاب پر پہلی غلطی پر پہلی واننگ ملتی ہے
  2. پھر دوسری غلطی پر غلطی کی نوعیت پر منحصر ہے کہ کمپنی یا حکومت دوسری واننگ دے یا ٹرمنیٹ/استعفٰی لے، اگر تو دوسری مرتبہ بھی واننگ ملے تو جاب بحال رہتی ہے
  3. پھر تیسری مرتبہ غلطی ہونے پر واننگ نہیں بلکہ ٹرمنیشن لیٹر جاری ہوتا ہے اور اسی وقت کام سے روک دیا جاتا ہے خیال رہے تیسری مرتبہ واننگ نہیں۔

والسلام
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
سورہ البقرہ کی آیت نمبر 229 کا پہلا حصہ

سورہ البقرہ کی آیت نمبر 229 کا دوسرا حصہ

سورہ البقرہ کی آیت نمبر 230

الطّلاقُ مرّتٰن، فَاِمساکٌ بَاالمَعرُوفِ اَو تَسرِیحٌ بِاِحسَان، وَلَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَأخُذُو مِمَّا اٰتَیتُمُو ھُنَّ شَیءًااِلَّا اَن یَّخَافَااَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللّٰہ،

فَاِن خِفتُم اَلَّا یُقِیمَاحُدُودَ َاللّٰہِ، فَلَا جُنَاح عَلَیھِمَافِیمَا افتَدَت بِہٖ، تِلکَ حُدُودُ اللّٰہِ فَلَا تَعتَدُوھَاوَمَن یَّتَعَدَّحُدُودَاللّٰہِ فَاُلٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ

”فَاِن
طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِن بَعدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوجَ غَیرُہٗ، فَاِنطَلَّقَھَا فَلَا جُنَاح عَلَیھِمَا اَن یَّتَرَاجَعھَااِن ظَنَّا اَن یُّقِیمَا حُدُودَاللّٰہِ، وَ تِلکَ حُدُودُاللّٰہِ یُبَیِّنُھَا لَقَومٍ یَّعلَمُونَ“

طلاق دو بار ہے، پھر یا تو روک لینا ہے اچھے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ،اور نہیں جائز تمہارے لئے یہ کہ واپس لو تم اس میں سے جو دے چکے ہو انہیں کچھ بھی مگر یہ کہ (میاں بیوی) دونوں ڈریں اس بات سے کہ نہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں

پھر اگر ڈر ہو تم لوگوں کو بھی اس بات کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کی حدوں کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس (معاوضہ) میں جو بطور فدیہ دے عورت، یہ ہیں اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں سو نہ تجاوز کرنا تم ان سے اور جو کوئی تجاوز کرتا ہے اللہ کی(مقرر کردہ)حدوں سے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔


پس اگراس
(فدیہ لینے والے) مردنے اس (فدیہ دینے والی) عورت کو طلاق دے دی،تو پھر نہیں حلال ہوگی وہ عورت(جس نے فدیہ دے کر طلاق لی)اس مرد کے لئے(جس نے فدیہ لے کر طلاق دی)، جب تک کہ نہ نکاح کرے وہ کسی دوسرے مرد سے اس کے سوا، پھر اگر طلاق دے دے(دوسرا)خاوند، تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس بات میں کہ رجوع کر لیں ایک دوسرے کی طرف، بشرطیکہ وہ دونوں یہ خیال کریں کہ قائم رکھیں گے وہ اللہ کی مقرر کردہ حدوں کو، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جن کو وہ کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔
بھائی کنعان صاحب شکریہ آپ نے رسپانس دیا۔میں نے اپنا نقطہ نظر اوپر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کی مزید وضاحت نیچے دی جارہی ہے۔​
اگر ہم غور سے دیکھیں تو سورہ البقرہ کی آیت نمبر 230 کا تعلق آیت 229 کے پہلے حصہ سے نہیں بلکہ دوسر حصہ سے بنتا ہے۔تفصیل نیچے دی جا رہی ہے۔
اب تقریبًا تمام کے تمام مترجم اور مفسرین
فَاِن طَلَّقَھَا کے ساتھ تیسری بار طلاق کا لفظ لگا کر اس کا تعلق اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن کے ساتھ زبر دستی جوڑ کر تیسری طلاق کا جواز تلاش کر لیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن سے مراد دو رجعی طلاقیں تھیں اور اب تیسری طلاق فَاِن طَلَّقَھَا کے ساتھ ہوگئی اس لئے اس تیسری طلاق کے بعد حلالہ کرنا ہوگا ورنہ وہ عورت ہمیشہ کے لئے حرام ہو گئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ”رجعی“ اور”تیسری بار“ کے الفاظ یا ان کے متبادل الفاظ قرآن پاک میں استعمال ہی نہیں کئے۔یہ خالی جگہ پر کرنے والی بات ہے اور اگریہ خالی جگہیں ہی پرکرنی تھیں تاکہ وضاحت ہو جائے، تو پہلی صورت میں وضاحت اس کی کرنا چاہیے تھی کہ دو بار سے مراد کیا ہے نہ کہ طلاق کی قسمیں گنوانا شروع کردو(رجعی طلاق کی ایک قسم ہے، یہ دوبار طلاق کی وضاحت نہیں ہے، کیونکہ طلاق تو ایک ہی ہے وہ دوبار دینے کا مطلب کیا ہے اس کی وضاحت دینی چاہیے تھی)۔ دوسری صورت میں وضاحت اس چیز کی ضروری تھی کہ کس نے کس کو طلاق دی، نہ کہ اسے تیسری بار کہہ اسے تیسری طلاق بنادیا جائے۔

دوسرے یہ کہ
فَاِن طَلَّقَھَا کا تعلق اپنے ما قبل ملحقہ جملے فَلاَ جُنَاحَ عَلَیھِمَا فَیمَا افتَدَت بِہٖ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کا تعلق اس سے بھی پہلے جملے اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ہاں اگر فَلاَ جُنَاحَ عَلَیھِمَا فَیمَا افتَدَت بِہٖ ایک جملہ معترضہ ہوتا تو پھر فَاِن طَلَّقَھَا کا تعلق اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن والے جملہ کے ساتھ بن سکتا تھا، لیکن فَلاَ جُنَاحَ عَلَیھِمَا فَیمَا افتَدَت بِہ با قاعدہ اپنی جگہ ایک حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اوراگر گرائمر کے لحاظ سے ہم یہ تعلق اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن والے جملے سے جوڑنا بھی چاہیں تو نہیں جوڑ سکتے۔ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن والے جملے میں جمع حاضراور جمع غائب کی ضمیریں ہیں مثلًا وَ لَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَأخُذُوا مِمَّا اٰتَیتُمُوھُنَّ میں لَکُم اوراٰتَیتُمُو جمع حاضر مذکر اور ھُنَّ جمع غائب موئنث کی ضمیریں ہیں۔ لیکن طَلَّقَھَا میں دونوں ضمیریں واحد غائب(مذکر اور موئنث) کی ہیں جن کا تعلق فَلاَ جُنَاحَ عَلَیھِمَا فَیمَا افتَدَت بِہٖ سے تو بنتا ہے، اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن والے جملے میں وَ لَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَأخُذُوا مِمَّا اٰتَیتُمُوھُنَّ سے ہرگز نہیں بنتا۔ان سے تعلق تب بن سکتا تھا جب فَاِن طَلَّقَھَا کی بجائے فَاِن طَلَقتُموھُنَّ ثَلٰثَۃَ مَرّٰت ہوتا۔یعنی پھراگرتم ان کو تیسری بار طلاق دو۔ یا پھر کم از کم فَاِن طَلَّقَھَا ثَلٰثَۃَ مَرّٰت:یعنی پھر اگر اس نے عورت کو تیسری بارطلاق دی۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ہاں نعوذ باللہ کوئی ذخیرہ الفاظ (Vocabulary)کی کمی تھی یا پھر یوں کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر ابہام چھوڑا۔ایسا کہنا خاص طور پر اتنے اہم موضوع پر توکسی صورت بھی اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں ہے بلکہ یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ پر بہتان کے مترادف ہوگا۔

اگر ہم غور سے دیکھیں تو طلاق کی جملہ آیات پانچ سورتوں میں بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح سے لگتی ہیں۔ان میں کہیں بھی کسی طرح کا بھی چھوٹا سا تضاد بھی نہیں ہے۔اور ان موتیوں میں چھوٹی سے چھوٹی بات بھی پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے، حتٰی کہ یہ تک بھی بتا دیا گیا ہے کہ طلاق کے بعد بچے کو دودھ پلوانے کی ذمہ داری کس کی ہے، اور کن حالات میں کتنی ہے۔ جو اللہ طلاق کے مسائل کو اتنی تفصیل سے بیان کر رہا ہے، کیا تین طلاق کے اتنے بڑے مسئلے کو نظر انداز کرسکتاتھا۔ اگر تین طلاقیں ہوتیں تو اللہ تعالیٰ ضرور قرآن پاک میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکرصریح الفاظ میں کرتے۔ لیکن اس نے تو تین طلاق کی یہ کہہ کر جڑ ہی کاٹ دی کہ طلاق تو ہے ہی دو بار۔چاہے ہزار بار بھی منہ سے طلاق طلاق کا لفظ نکالیں، وہ دوہی شمار ہونگی۔ دو سے زیادہ بار طلاق دینا ایک بے معنی چیز قرار دے دی گئی۔اور یہ بات اللہتعالیٰ نے آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن مجید بیان کردی۔ لیکن ہم ہیں کہ ہماری کِلّی ابھی تک دور جاہلیت کی طرح تین طلاقوں پر ہی اڑی ہوئی ہے۔ہم اس سے باہر آکر سوچتے ہی نہیں۔

ہمارے فقہا کے ہاں طلاق کے بارے کافی اختلاف پایا جاتاہے، کچھ بیک وقت ایک ہی نشست میں تین طلاق کے قائل نظر آتے ہیں اور کچھ ایسی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق گردانتے ہیں۔ بہر حال تین طلا ق کے سب قائل ہیں۔لیکن قرآن کریم میں تین طلاقوں کا ذکر کہیں نہیں اورجس طریقے سے یہ تین طلاقیں بنائی گئی ہیں وہ طریقہ اوپر بیان کردیا گیا ہے۔اور طرفہ تماشہ یہ کہ آپ کو تقریبًاقرآن پاک کے سارے ہی موجودہ اردوتراجم میں ”رجعی“ اور ”تیسری بار“ کے الفاظ قوسین میں لکھے ہوئے ملیں گے اور اور انگریزی تراجم میں ان کے انگریزی متبادل الفاظ۔ عام قاری جب ان تراجم کو پڑھتا ہے تو اس کے ذہن میں تین طلاق کا تصور اتنا راسخ ہو جاتا ہے کہ وہ انکی مزید توضیح سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔گویا تین طلاق کا بھوت ہمارے سر پر ہروقت سوار رہتا ہے، اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

اوپر کی بحث سے یہ بات ا ظہر من الشمش ہے کہ نہ تو قرآن میں کہیں تین طلاق کا ذکر ہے اور نہ ہی اس کے نتیجے میں کسی حلالے کا۔ صرف یہ بات کہی گئی ہے اگر عورت مال واپس کرکے طلاق حاصل کرتی ہے تو پھر وہ اپنے سابقہ شوہر سے شادی نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرے اور پھر وہ اس کو اتفاقی طور پر طلاق نہ دیدے۔ اب یہ بات بالکل نا ممکنات میں سے ہوگی کہ کوئی عورت مال دے کر خاوند سے طلاق حاصل کرے اور یہ کچھ کرنے کے بعد پھر وہ اسی سے دوبارہ شادی کی خواہش مند ہو۔ وہ بھلا ایسا کیوں کرے گی۔ اگر وہ شادی کرے گی تو کسی اور سے کرے گی۔اس لئے یہاں حلالہ کی صورت ہی نہیں بنے گی۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں نازل ہؤا کتابی شکل میں کیوں نہ دے دیا گیا؟
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
{لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا} [الأحزاب: 21]
اس آیت کا کیا مقصد ہے؟
 
Top