• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برطانیہ میں ’حلالہ‘ کا آن لائن بزنس

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
نہ پرویز ہمارے لئے دلیل ہے اور نہ غامدی۔لفظی موشگافیوں کی بجائے کوئی دلیل ہے تو لاؤ۔ ان باتوں کا کیا فائدہ جن کا ایک بار نہیں کئی بار جواب دیا جا چکا۔
دلیل تو آپ نے لانی ہے وہی دو پہاڑہ ہی پڑھے جا رہے ہیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٢٩﴾ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٢٣٠﴾
طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کر تے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں۔ پھر اگر (دو بارہ طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دیدے تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدود الٰہی پر قائم رہیں گے، تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجو ع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جنہیں وہ اُن لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کر رہا ہے، جو (اس کی حدود کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں۔
قرآن ، سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 230-299

اگر الطلاق مرتان علیحدگی کی حتمی اور آخری حد ہے جس کے بعد زوجین جدا ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالٰی نے او تسریح باحسان کے الفاظ کیوں استعمال فرمائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فامساک بمعروف کا مطلب ہے کہ مرد و عورت دو طلاق کا معاملہ ہونے اور رجوع کے بعد (اگر وہ اللہ تعالٰی کی حدود قائم رکھ سکتے ہیں تو) پھر دوبارہ خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔

لیکن اگر حالات پھر مکدر اور نا خوشگوار ہو جائیں اور مرد و عورت کا آپس میں مل جل کر رہنا ناممکن ہو جائے تو پھر مرد و عورت کے لیے خلاصی کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟

اسی کے جواب کے لیے تیسری طلاق کو
او تسریح باحسان کے الفاظ سے تعبیر فرما یا گیا ہے ۔ کیونکہ او تسریح باحسان سے مراد طلاق دینا ہی ہے اور اس معنی و مفہوم کی تائید مندرجہ ذیل آیات سے بخوبی ہو جاتی ہے :
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ
اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آ جائے، تو یا بھلے طریقے سے انہیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔
قرآن، سورۃ البقرۃ ،آیت نمبر 231

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
﴿الأحزاب: ٢٨﴾
اے نبیﷺ، اپنی بیویوں سے کہو، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں۔
قرآن، سورۃ الاحزاب ،آیت نمبر 28

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ﴿الأحزاب: ٤٩﴾
اَے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو لہٰذا انہیں کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔
قرآن، سورۃ الاحزاب ،آیت نمبر 49

یہ تو ہوا ایک پہلو جس میں مرد عورت کو تیسری اور حتمی طلاق دے کر اس کو آزاد کر دیتا ہے اب اس کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالتے ہیں جس میں آزادی حاصل کرنے کے لیے اقدام عورت کی طرف سے کیا جاتا ہےاور وہ ہے
افتدت بہ۔

ایک پہلو میں گویا مرد کے لیے عورت کو آزاد کر نے کا طریقہ
او تسریح باحسان کی صورت میں تیسری اور فیصلہ کن طلاق دینا ہے ۔ دوسرے پہلو میں اگر مرد عورت کو طلاق دینے پر راضی نہیں اور عورت مرد کے ظلم و ستم کا شکار ہے یامرد اپنے فرائض سے رو گردانی اور کوتاہی برتتا ہے تو فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ کے تحت عورت کو آزادی اور خلاصی حاصل کر نے کا پورا اختیار حاصل ہے۔ گویا معاملہ ایک ہی زیرِ بحث ہے لیکن اس کے دو پہلو ، ایک مرد کے حوالے سے اور دوسرا عورت کے حوالے سے،بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن غلطی سے اس کو ایک کی بجائے دو مختلف معاملے متصورکرلیے گئے ہیں۔

لہذا جب
الطلاق مرتان سے دو طلاق مراد ہوئیں تو او تسریح باحسان سے تیسری طلاق کا جواز خودبخود ثابت ہو گیا اور البقرۃ ، آیت نمبر 230 او تسریح باحسان کی شرح و تفسیرہو گئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ البقرۃ ، آیت نمبر 229 اور 230 دو مختلف معاملات نہیں بلکہ ایک ہی معاملےکے دو پہلوؤں پر روشنی ڈال رہی ہیں یعنی مرد کا عورت سے اور عورت کا مرد سے خلاصی پانے کا معاملہ۔

تو اس بحث سے واضح ہوا کہ عورت کے فدیہ دے کر خلاصی پانے کا معاملہ علیحدہ نہیں بلکہ اسی معاملے کا ایک پہلو ہے ،جسے الگ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ مزید برآں، یہ بھی ثابت ہوا کہ
فان طلقھا کا تعلق الطلاق مرتان کے ساتھ ساتھ او تسریح باحسان سے بھی ہےکیونکہ اگر البقرۃ ،آیت نمبر 229 اور 230 کو الگ الگ معاملات سمجھ لیے جائیں تو پھر او تسریح باحسان کا محل معلوم نہیں ہوتا ۔

اس کے بعد ایک اور اہم معاملے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ جب مرد و عورت میں علیحدگی ہو جائے تو کیا مطلقہ عورت دوبارہ سابق شو ہر سے نکاح کر سکتی ہے یا دوسرے معنوں میں شوہر کو تیسری طلاق دینے کے بعد پھر رجوع کا حق حاصل ہے یا نہیں ؟ اسی کا جواب
فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ کی صورت میں دیا گیا ہے اور غالباً اسی نقطہ کو پیشِ نظر رکھ کر بعض فقہاء نے حلالہ کا جواز نکالا ہے۔

واللہ اعلم !
 
Top