• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برمودا ٹرائی اینگل (Bermuda Triangle) کی حقیقت

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
تحریر : مقبول احمد سلفی


برمودا ٹرائی اینگل جسے (Devil's Triangle) شیطانی/آسیبی مثلث بھی کہا جاتا ہے ، پانی کی سطح پربناہوا ہے اور جو بحر اوقیانوس میں امریکہ کے ساحل سے کچھ فاصلے پر واقع علاقے کا نام ہے ۔

اس علاقے کا ایک کونہ برمودا میں، دوسرا پروٹوریکو میں اور تیسرا فلوریڈا کے قریب ایک مقام پہ واقع ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل انہی تین کونوں کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا ہے۔یہ تین سو جزیروں پہ مشتمل ہے جن میں اکثر جزائر غیر آباد ہیں ، صرف بیس جزیروں پہ آبادیاں ہیں ، اس کا جو علاقہ پراسرار اور خطرناک مانا جاتا ہے اس کو برمودا مثلث یا برمودا تکون کہتے ہیں ۔ اس تکون کا کل رقبہ 1140000 ہے ۔

یہ مثلث لوگوں میں پراسراریت کے لئے شہرت کا باعث بنا ہوا ہے ۔ اس کی شہرت اس وقت سے شروع ہوئی جب 1945 میں فلوریڈا سے اچانک 5 ہوائی جہاز کہیں لاپتہ ہوگئے ۔ مانا جاتا ہے کہ یہاں گم ہونے والے جہاز کے ساتھ مرنے والے کا بھی کوئی نام ونشان نہیں ملتا ۔

یہ تکونہ اس قدر مشہور ہواکہ کہیں بھی کوئی جہاز گم ہوجاتا اس کا سرا اس تکونے سے جوڑ دیا جاتا ۔لوگ کہتے ہیں کہ اس مثلث میں اب تک سیکڑوں جہاز پراسرار طور پر غائب ہوچگے ہیں ۔

یہ تکونہ معمہ نہیں مگر بے شمار کتابوں اور ناولوں کے ذریعہ معمہ بنا دیا گیاہے۔اور اس پہ اس قدر فلم ڈاکومنٹری پیش کی گئی کہ لوگوں نے یہاں مافوق الفطرت عناصر مان لیا جس کے سبب ہونے والے تمام پراسرار واقعات اسی کی طرف منسوب کردئے جاتے ہیں ۔

ٹرائی اینگل سے متعلق قصے، کہانیاں، واقعات، جادوئی کرشمہ اور شیطانی حرکات بیان کئے جاتے ہیں ۔ اس کو اسلام سے بھی جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ میں قصے کہانیوں سے ہٹ کر ان باتوں کا خلاصہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں جسے اسلام سے جوڑا جارہا ہے ۔

ٹرائی اینگل اور اسلام

(1) ایک نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ سجین کی طرف جانے والا راستہ ہے ، اس میں جو اڑن طشتریاں دکھائی دیتی ہیں وہ دراصل فرشتے ہیں جو روحوں کو سجین کی طرف لے جاتے ہیں ۔

اس میں سب سے فاش غلطی تو یہی ہے کہ سجین کو کوئی جگہ سمجھا جارہاہے جبکہ یہ ایک رجسٹر کا نام ہے جس میں برے لوگوں کا اندراج ہوتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے ۔
كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ ، وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ ، كِتَابٌ مَرْقُومٌ (المطففين: 7-9)
ترجمہ : ہرگز نہیں ! یقنا فجار کا لکھنا سجین میں ہے اور آپکو کس نے معلوم کروایا کہ سجین کیا ہے وہ تو ایک لکھی گئی کتاب ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ فرشتے کو آدمی اصلی صورت میں نہیں دیکھ سکتا اور دوسری صورت میں پہچان نہیں سکتا۔

مذکورہ نظرئے سے پتہ چلتا ہے کہ جس طرح کافروں نے اس ٹرائی اینگل سے بہت سارے قصے کہانیاں جوڑدئے ویسے ہیکم علم مسلمانوں نے بھی کچھ غلط باتیں اس کی طرف منسوب کردی ۔

(2) دوسرا نظریہ مردہ آدمی کا دوبارہ دنیا میں زندہ واپس آنا ہے ۔ اس خیال کو Dr. Raymond A Moodi نے اپنی کتاب ’’موت کے بعد زندگی‘‘ میں اجاگر کیا ہے ۔ ڈاکٹر موڈی نے اس کتاب میں کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں معلومات دی ہیں، جنھیں Clinically Dead قرار دیا گیا، لیکن کسی وجہ سے وہ دوبارہ زندہ ہو گئے۔ موڈی کی بیناد اس خیال پر مبنی ہیں کہ ایک آدمی کچھ دیر کے لیے واقعۃً مر کر دوبارہ اس دنیا میں واپس آسکتا ہے۔

موڈی کی بات سراسر غلط اور اسلامی عقیدے کے خلاف ہے کیونکہ انسان جب مرجاتا ہے تو دوبارہ وہ زندہ نہیں ہوسکتا ۔ اسلامی عقیدے کے مطابق روح نکلنے کے دنیا میں قیامت تک نہیں لوٹ سکتی ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [المؤمنون : 100]
ترجمہ : اس مرنے والے کے درمیان اور دنیا والوں کے درمیان آڑ اور پردہ ہے۔

(3) تیسرا نظریہ دجال کا ہے ۔ کہاجاتا ہے کہ برمودا تکونہ دجال کا مسکن ہے ۔ یہاں کے اڑن طشتری دجال کے شیطان ہیں جنہیں بھیج کر دجال دنیا کی خبریں معلوم کرتا ہے ۔اس نظرئے کی بنیاد اس پہ قائم ہے کہ برمودا تکونہ پانی کا حصہ ہے اور دجال کا تخت بھی پانی پر ہے ۔

یہ نظریہ سب سے پہلے مصری مسلمان محقق محمد عیسیٰ داؤد نے پیش کیا۔

یہ نظریہ کئی وجوہ سے ناقابل اعتماد ہے ۔

اولا: قرآن و حدیث کی روشنی میں برمودا تکونہ دجال کا مسکن ہے ایسا کوئی واضح اور صریح ثبوت نہیں ہے بلکہ صحیح حدیث کی روشنی میں اس قدر وضاحت ہے کہدجال کا خروج مشرق سے اورشہراصبہان سے یہودی نامی قبیلے سے ہوگاجوکہ ایرانی ممالک ہیں۔

ثانیا: کسی حدیث میں دجال کا تخت پانی پر ہے مذکور نہیں ہے ،البتہابلیس کا تخت پانی پر ہے یہ بات حدیث میں آئی ہے ۔ دجال اور ابلیس میں بہت فرق ہے ۔ سب سے بڑا فرق دجال انسان میں سے ہے اور ابلیس جن میں سے ۔

ثالثا: اڑن طشتری کو شیطان قرار دینا محض اختراع ہے ۔ نہ جانے فضا کی کس چیز کو اڑن طشتری کا نام دیا جاتا ہے ؟

اور وہ شیطان ہے اس بات کا کیا ثبوت ہے ؟

اور پھر یہ بات کہنا مبنی بر غلط ہے کہ یہ دجال کے کارندے ہیں جو اسے پوری دنیا سے مربوط کئے ہوئے ہیں کیونکہ قرآن و حدیث میں اس کی بھی وضاحت نہیں ہے کہ دجال کو اس کے خروج سے پہلے سے ہی دنیا کی خبریں مل رہی ہیں ۔

رابعا: دجال ایک آدمی کا نام ہے ، وہ ابھی اکیلا ہے اور اکیلے ہی نکلے ، اس کا کوئی کارندہ نہیں ۔ خروج کے بعد اپنا کفر پھیلائے گا ، لوگ اس کی اطاعت قبول کریں گے پھر اس کے کارندے ہوں گے۔

آخر میں برمودا تکونے کے متعلق یہ کہنا چاہتاہوں کہ مجھے یہ کوئی یہودو نصاری کی سازش لگتا ہے۔ اس کا مقصدلوگوں کے اذہان و قلوب پہ ہیبت طاری کرنا ہے ، وقت پڑنے پہ دنیا والوں کے لئے اس کا استعمال کرے گا، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں اسلحہ کا ذخیرہ جمع کیا گیا ہے اور اس جگہ کو شيطانی تکونہ قرار دیا گیا ہے تاکہ لوگ اس جگہ سے دور رہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تقریبا چارسو سال سے ان جزیروں میں بوش و باد نہیں اختیار کی گئی ۔

اگر یہ سازش اور مصنوعی معمہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭تو اتنے بڑے بڑے سائنسداں پڑے ہوئے ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ اس کی اصل حقیقت سامنے نہیں آرہی ہے؟

٭ کیا وجہ ہےکہ ملیشیا کا جہاز گم ہونے پہ اس کا تعلق برمودا تکونے سے جوڑ دیا گیا؟

٭اور اگر یہ خطرے کی جگہ ہوتی تو انشورنس والوں کے لئےبھی خظرناک ہوتامگر وہ بغیر کسی جھجھک کے جہاز رانی کرنے والوں سے انشورنس پریمیم لیتے ہیں جو دیگر سمندری علاقوں میں جہاز رانی کرنے والوں سے لیا جاتا ہے۔

٭تکونہ کا ایک سرا فلوریڈا سے متصل ہے ۔ اس فلوریڈا کے دو معنی ہیں۔

ایک " اس خدا کا شہر جس کا انتظار کیا جارہا ہے "۔

دوسرا"وہ خدا جس کا انتظار کیا جارہا ہے" ۔

اس معنی سے تکونہ اور فلوریڈا کا کچھ تعلق معلوم ہوتا ہے ، لگتا یہود و نصاری مستقبل میں اپنے کسی مفاد کے لئے اس نئے "خدائی تصور" کا استعمال کرنے والے ہیں، اس لئے ابھی سے ہی برمودا تکونہ کے نام سے دنیا والوں پہ ہیبت طاری کئے ہوئے ہیں ۔

مگر مسلمانوں کو اس قسم کے ڈرامائی اور افسانوی قصےکہانیوں سے گھبرانا نہیں چاہئے ۔
 
Top