• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلوی کا اللہ تعالی پر اعتراض

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اہم پہلو ہے کہ سوال غیر مسلم کا ہی ہے ، جن سے پوچھا انھوں نے اپنے "تعصب" کے تحت " وہابی " کا اضافہ کر دیا۔ایسوں کے لیے حضرت ابراھیم علیہ السلام اور نمرود کا واقعہ بہت ہی عمدہ نصیحت ہے۔اور ویسے بھی ان کے " پیروں " کو معجزات" بہت آتے ہیں، اگر اتنا ہی ہے تو بغیر کچھ کیئے کسی کو موت دے کر دکھائیں ، کیونکہ اللہ صرف"کن فیکون " سے موت دے سکتا ہے ! !
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
٭٭٭٭٭ ہو جا ٭٭٭٭٭


وہ (اللہ) آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ "ہو جا" بس وہ وہیں ہو جاتا ہے

-----------------------
(سورة البقرة : 117)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عقل مندوں کے لئے اس پوسٹ میں نشانیاں ہیں ؟؟؟


اگر وہ عقل رکھتے ہو !




رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

اگر تم لوگ الله پر اس طرح بھروسہ کرو جیسے اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے جیسے پرندوں کو رزق دیتا ہے. وہ صبح (گھونسلوں سے) بھوکے روانہ ہوتے ہیں اور شام کو سیر ہو کر آتے ہیں.

سنن ابن ماجہ 4164
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور رازق ہے ؟؟

عقل مندوں کے لئے اس پوسٹ میں نشانیاں ہیں ؟؟؟

اگر وہ عقل رکھتے ہو !

 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
غالبا ً یہ سوال سوائے طبقہء خاص کے اور کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ کسی غیر مسلم سے ایسے سوال کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ عقل مند غیر مسلم بھی ہوتے ہیں لیکن ایسی عقل کی ملکیت سوائے طبقہء خاص کے کسی اور کے حصے میں نہیں آ سکتی۔
دراصل وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں جس طرح اللہ تعالٰی بعض اوقات قادر مطلق ہوتے ہوئےمصلحتاً کچھ نہیں کرتا اسی طرح نبی یا ولی بھی کرتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں تو اللہ تعالٰی کے قادرِ مطلق ہونے پر بہت سی آیات پیش کی جا سکتی ہیں مگر کسی مخلوق کے عطائی قادرِ مطلق ہونے کی کوئی آیت نہیں ہے ۔ سب سے پہلے تو طبقہء خاص سے مخلوق کے عطائی قادرِ مطلق ہونے کی قرآن مجید سے دلیل مانگی جائے ۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ طبقہء خاص نے اب قرآن سے ہدایت لینے کی بجائے ایسے لا یعنی سوالات کر کے طبقہء اہلِ حدیث سے ہدایت لینے کی ٹھانی ہے مگر شائد وہ یہ بھول گئے کہ طبقہء اہلِ حدیث بھی جواب قرآن کی روشنی میں دیں گے جو ان کو یقیناً ہضم نہیں ہوگا ۔ پھر بھی طبقہءاہلِ حدیث سے یہ سوال پوچھنا چہ معنی دارد ؟
بہت اچھا ہوا جو انہوں نے ایسا مضحکہ خیز سوال پیس ٹی وی چینل پر نہیں پوچھا ورنہ ان کی رہی سہی ساکھ بھی باقی نہ رہتی۔
جو ابھی تک خالق اور مخلوق، زندہ اور مردہ میں فرق کرنا نہیں سیکھ سکے وہ بھلا توحید کیسے سیکھ جائیں گے ؟
مزید یہ کہ جن کی بنیاد ہی غلط ہو تو ظاہر سی بات ہے انکے سوال کیوں معقول ہونے لگے ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بریلوی نے جو ملحدانہ زبان بولی ہے اس کا بہترین جواب تو محترم اسحاق سلفی صاحب نے دے دیا ہے ۔ کہ اگر وہابیوں سے یہ مطالبہ ہےکہ اللہ تعالی سے پانی کا گلاس منگوا کر دکھائیں تو ہم کہتے ہیں کہ آپ اپنے علی ہجویری کی قبر پر گلاس رکھ کر اسے کہہ دیں کہ گلاس آپ تک پہنچا دیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی چیزوں پر بحث کرنے کا یہ طریقہ ہی غلط ہے ، سوال کرتے ہوئے یا اعتراض کرتے ہوئے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ چیز فریقین کے ہاں مشترک تو نہیں ۔
یہ تو بریلوی کی بیوقوفی ہے ۔
چند دن پہلے کسی دربار پر آگ لگ گئی تھی تو ہمارے کچھ اہل حدیث بھائیوں نے اس طرح کی پوسٹیں شروع کردی تھیں کہ یہ کیسا مشکل کشا جو اپنے آپ کو نہیں بچا سکا ۔
مجھے اسی وقت لگا تھا کہ یہ انداز غلط ہے اور اس اعتراض نے اہل حدیث بھی نہیں بچ سکتے ، اور ایسا ہی ہوا ابھی اسی جگہ کسی بریلوی کی پوسٹ لگی ہوئی ہے کہ اگر ہمارا بابا اپنا دربار نہیں بچا سکا تو تمہارا رب بھی تو اپنی ’’ بابری مسجد ‘‘ نہیں بچا سکا ۔
خلاصہ یہ ہےکہ فریق مخالف کو الزام یا اعتراض کرنے سے پہلے غور کرنا چاہیے کہ یہ اعتراض کس نوعیت کا ہے ۔ اور واقعتا اس کا کوئی فائدہ ہے یا نہیں ۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
دین کا مذاق اڑانا

من استھزأ بشئ من دین الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم ' أو ثوابہ ' أو عقابہ کفر۔
استہزا:

جس نے رسول اللہ ﷺ پر نازل شدہ دین کی کسی چیز کا یا اس کی جزا و سزا کا مذاق اڑا یا اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ (اگر چہ اس نے ہنسی مذاق کے طور پر یہ بات کہی ہو۔)


دین اسلام کے کسی امر کا استہزأکرنا 'اس کا مذاق اڑانا 'اجماع امت کے مطابق کفر ہے ۔اگرچہ کوئی غیر سنجید گی سے بھی مذاق اڑائے۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ تبوک کے موقع پر ایک محفل میں ایک شخص نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہا کہ ان سے زیادہ میں نے باتوں میں تیز ، کھانے میں پیٹو ، کلام میں جھوٹے اور لڑائی میں بزدل کسی اور کو نہیں دیکھا۔ محفل میں سے ایک دوسرے شخص نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو بلکہ تم منافق ہو میں رسول اللہ a کو ضرور بتائوں گا ۔ پس رسول اللہ ﷺ تک بات پہنچی تو قرآن حکیم کی آیات نازل ہوئیں ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس شخص کو دیکھ رہا تھا وہ رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور پتھر اس کے پاؤں کو زخمی کر رہے تھے اور وہ کہ رہا تھا یا رسول اللہ ﷺ ہم تو یونہی آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ یہ آیات تلاوت کر رہے تھے:

قُلْ اَبِاللہِ وَاٰيٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ كُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُوْنَ۝۶۵ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ۝۰ۭ(التوبۃ:۶۵،۶۶)

''کہہ دیجئے کیا اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہی تمہاری ہنسی اور دل لگی ہوتی ہے۔ تم بہانے نہ بنائو یقینا تم اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے۔ '' (ابن جریر:۱۰/۱۷۲ محدث سلیمان العلوان نے جید سند کہا ہے۔)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب الایمان صفحہ ۲۷۳ پر اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔''اس آیت سے خبرملتی ہے کہ ان لوگوں نے جو اسلام ومسلمانوں کا مذاق اڑایا تھاوہ ان کے خیال میں کفر نہ تھا۔اس لیے اس آیت کے ذریعے ان کو خبر دی گئی کہ تم نے کفریہ عمل کیا ہے۔وہ یہ تو جانتے تھے کہ ایسا کرنا حرام ہے لیکن ان کو یہ خبر نہ تھی کہ کفر بھی ہوجائے گا۔''

پس رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والے دین کی کسی بات کا مذاق اڑانا کفر ہے چاہے وہ نماز ہو ،داڑھی ہو ، شلوار کا ٹخنے سے اوپر کرنا ہو، شرعی پردہ ہو، سود کا چھوڑنا ہو یا جنت اور جہنم کی کسی چیز کا ذکر ہو ۔ اللہ کے رسول کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا مذاق اڑانا جیسا کہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اسے اللہ، آیات اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے مذاق قرار دیتا ہے۔

امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے حکم المرتدصفحہ( ۱۰۵)پر اسلام کامذاق اڑانے والوں کی دواقسام بیان کی ہیں۔

(اول) واضح طور پر مذاق اڑایا جائے ۔جیسا کہ یہ قول ہے '' یہ قرآن پڑھنے والے بڑے پیٹو 'بزدل اور جھوٹے ہیں''ان لوگوں کے متعلق ہی آیت نازل ہوئی تھی ۔

(ثانی) مذاق اڑایا توجائے مگر غیر واضح طور پر۔ مبہم انداز میں۔ جیسے کہ آنکھ کے اشاروں کنایوں کے ساتھ۔ یا تلاوت قرآن کا، زبان نکال کر ہونٹ پھیلا کر، مذاق اڑایا جائے۔ یا سنت رسول اﷲ ﷺ کا مذاق اڑایا جائے۔ یہ چیز آدمی کو اسلام سے خارج کر دینے والی ہے ۔


ایسی محفلوں میں شرکت حرام ہے جہاں اللہ کی آیات کا مذاق ہو رہا ہو۔فرمایا:

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللہِ يُكْفَرُ بِھَا وَيُسْتَہْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِہٖٓ ۝۰ۡۖ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَہَنَّمَ جَمِيْعَۨا۝۱۴۰ۙ (النساء:۱۴۰)

''اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں (ورنہ ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو جائو گے ۔ یقینا اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔''

بعض لوگ جنت یا جہنم حتیٰ کہ فرشتوں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسے چٹکلے بیان کرتے ہیں گویا کہ یہ سب ڈھکوسلے ہوں اور ''دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہے ''جیسی بات ہو ۔اللہ اور اس کے رسول کی بات کا احترا م اور تعظیم ہر مسلمان پر لازم ہے ۔جنت اور جہنم کے ذکر سے دلوں پر ایک ہیبت اور ایک خوف بیٹھنا چاہئے۔دین کی ہر بات کا تقدس ہے ۔جو شخص دین کی کسی بات کا مذاق اڑا کر لوگوں کو ہنسائے تو صریحاً کفر ہے اور جو شخص اس استہزاء کو سنے اور اس میں ایمانی غیرت بیدار نہ ہواور اسی مجلس میں بغیر کسی سخت مجبوری کے شریک رہے تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو دین کا استہزاء کرنے والے کا ہے ۔

تنبیہ:

یاد رہے کہ شعائر اسلام سے استہزاء اور چیز ہے اور کسی شخص کی مخصوص ہیئت سے استہزاء اور چیز ہے ۔اول الذکر کفرہے اور ثانی الذکر فسق۔مثلاً: داڑھی کا مذاق اڑانا کفر ہے البتہ کسی شخص کی داڑھی کا مخصوص ہیئت کے سبب مذاق اڑانا فسق ہے ۔اسی طرح دین دار کامذاق اڑانے کی دو صورتیں ہیں:

(۱)دین کی وجہ سے اس کا مذاق اڑانا ۔جیسے پردہ کرنے کی وجہ سے کسی خاتون کا مذاق اڑانا کفر ہے

(۲)دین دار کے مذاق اڑانے کی وجہ دین کے سوا کچھ اور ہونایا کسی عالم کو علماء سوء میں شمار کرتے ہوئے مذاق اڑانا ۔یہ اگرچہ گناہ ہے مگر کفر نہیں۔

http://forum.mohaddis.com/threads/دین-کا-مذاق-اڑانا۔-نواقض-اسلام۔-ڈاکٹر-شفیق-الرحمن.16535/
 
Top