• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بزنس ایجوکیشن پر تجربات اور متاثرہ طلبا و طالبات

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
بزنس ایجوکیشن پر تجربات اور متاثرہ طلبا و طالبات
شہزاد چوہدری
اتوار 28 فروری 2016

ایسے فیصلے صرف اُسی صورت لیے جا سکتے ہیں کہ فیصلہ سازوں میں سے کسی ایک نے بھی یہ
سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ہو کہ اِن فیصلوں سے طالب علموں پر کیا اثرات ہوں گے.

ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے قیام کے مقاصد میں سے اک بنیادی مقصد مختلف شعبہ ہائے تعلیم کے معیاری نصاب، ان کے روڈ میپ کی تیاری اور انکا جامعات میں نفاذ بھی تھا۔ مختلف مضامین کے نصاب اور ڈگری کے دورانیے کو جدید زمانے کے تقاضوں اور مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے (National Curriculum Revision Committee (NCRC بنائی جس نے اس حوالے سے گراں قدر کام کیا ہے، مگر بزنس ایجوکیشن اور اس کے روڈ میپ کے ساتھ اب تک ضرورت سے زیادہ تجربات کئے گئے ہیں جس کے نتیجے میں طلبا و طالبات کی ایک کثیر تعداد متاثر ہوئی ہے اور اب تک ہو رہی ہے اور انکا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔


صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ کوئی یونیورسٹی ان کی بات تک نہیں سنتی اور "ایچ ای سی" بس اک مساوی تعلیم کا سرٹیفیکٹ دے کر سمجھتی ہے کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔

ایک وقت وہ بھی تھا جب 14 سالہ تعلیم کے بعد "ایم بی اے" ہو رہا تھا اور اس کے بعد "ایم فل" یا "ایم ایس" اور اس کے بعد "پی ایچ ڈی"، ایک سیدھا سا روڈ میپ تھا جو سمجھ بھی آتا تھا اور پھر عملی میدان میں اس کی مانگ بھی تھی، مگر 2007 سے لیکر 2012 تک کئی بار بزنس ایجوکیشن کا روڈ میپ تبدیل کر کے اس کو تجربات کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔

پہلے تو یہ بات بہت عجیب ہے کہ "ایچ ای سی" نے 2007ء سے 2009ء تک بزنس ایجوکیشن کو اک ڈرافٹ کے ذریعے چلایا جو کہ کسی بھی طرح ایک باقاعدہ طریقہ نہیں تھا۔
پھر 2009ء میں ایک بار دوبارہ روڈ میپ تبدیل کردیا۔ اِس بار ہونے والی تبدیلی میں اک عجیب بات یہ تھی کی "ایم بی اے" ایگزیکٹیو کے کریڈٹس کو 90 -96 کر دیا جن کا دورانیہ 2 سال رکھا، اور اس میں داخلے کی اہلیت 14 سالہ تعلیم اور 4 سال کا سینئر لیول کی نوکری کا تجربہ مگر اس ڈگری کو سولہ سالہ تعلیم کے مساوی قرار دیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ دیگر سولہ سالہ تدریس میں تو عام طور پر 66-72 کریڈٹس ہوتے ہیں، اور اگر یہ بھی سولہ سالہ تعلیم کے برابر ہی ہے تو اس کے کریڈٹس کو 90 -96 کیوں کیا گیا؟
دوسری بات یہ کہ دو سالوں میں 90 -96 کریڈٹس مکمل کرنے کے لئے اک طالب علم کو ایک سمیسٹر میں 22-24 کریڈٹس مکمل کرنے ہوتے، جو ایسے کسی بھی طالب علم کے لئے زیادہ تھا جو تعلیم کے ساتھ ساتھ جاب بھی کر رہا ہو۔

پھر یہ بات مزید حیرت میں ڈالتی ہے کہ ایک فل ٹائم ریگولر طالب علم کے لئے سمیسٹر میں 18 کریڈٹس اور اک ملازمت پیشہ طالب علم کے لئے سیمسٹر میں 22-24 کریڈٹس! اور پھر اگر یہ سولہ سالہ تعلیم کے مساوی ہے تو داخلہ کی اہلیت کا معیاراتنا سخت کیوں؟
میں سمجھتا ہوں داخلے کی اہلیت کا یہ معیار کسی طرح بھی معروضی حالات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے فوری طور پہ تبدیل کرنا پڑا بلکہ اس ڈگری کے مطلوبہ کریڈٹس کو بھی تبدیل کرنا پڑا۔

2010ء میں "ایم بی اے" کو 17.5 کریڈٹس کر دیا گیا، جسے "ایم ایس" کے مساوی قرار دیا گیا اور داخلے کی اہلیت یہ کہ چودہ سالہ تعلیم کے ساتھ اس کا دورانیہ ساڑھے تین سال، سولہ سالہ نان بزنس ایجوکیشن کے ساتھ ڈھائی سال اور سولہ سالہ بزنس ایجوکیشن کے ساتھ ڈیڑھ سال رکھی گئی۔ مگر اس روڈ میپ میں تحقیق کا عنصر نہیں رکھا گیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ جس طالب علم نے یہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد "پی ایچ ڈی" میں داخلہ لینے کی کوشش کی اسے منہ کی کھانی پڑی۔ طالب علم اپنے "تعلیمی ادارے" اور "ایچ ای سی" کے درمیان شٹل کاک بن گئے۔ کوئی بھی اس کا حل دینے کو تیار نہ تھا، کیونکہ روڈ میپ طے کرنے والوں نے یہاں طالب علموں کے مسائل کے بارے میں سوچا ہی نہ تھا۔ اب "ایچ ای سی" طلباء کو یہ سند تو دے دیتی ہے کہ آپ کی ڈگری "ایم ایس" کے مساوی ہے اور اس میں یہ بھی لکھ دیا جاتا کہ "پی ایچ ڈی" میں داخلہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرنے کے مجاز داخلہ دینے والے ادارے ہیں اور "ایچ ای سی" کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ کوئی ان سے یہ پوچھے کہ بھائی کیوں کردار نہیں؟ کیا جامعات آپ کے دائرہ کار میں نہیں آتیں؟

آپ نے اس طرح کا روڈ میپ ہی کیوں بنایا جو جامعات کے لئے قبل قبول نہیں؟ اس میں اک مسئلہ یہ بھی درپیش آیا کہ ایسے ڈگری ہولڈرز جب اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک جاتے تو سوال ہوتا کہ 17.5 سالہ تعلیم 18 سالہ تعلیم کے برابر کیسے ہو گئی؟ اب اس سوال کا جواب طالب علم کے پاس تھا نہ اس کا روڈ میب بنانے والوں اور اسے نافذ کرنے والوں کے پاس، بس رلنے اور خوار ہونے کے لئے ایک ہی طبقہ تھا اور وہ تھا طالب علموں کا۔ میرے خیال میں اس کے دورانیہ کو مجموعی طور پر 17.5 رکھتے ہوئے اس میں تحقیق کے عنصر کو خارج کر کے سنگین غلطی کی گئی جس کا خمیازہ طلبا بھگت رہے ہیں۔

یہ جو کچھ بزنس ایجوکیشن کے روڈ میپ اور طلبا و طالبات کے ساتھ ہوا ہے اس کا مجھے تو یقین ہی نہیں آیا کیونکہ میں نے (NCRC) کے SOP کا بغور جائزہ لیا ہے۔ اُس کے مطابق جتنے ذمہ داران ملکر یہ فیصلہ کرتے ہیں اُس کو دیکھتے ہوئے اِس طرح کے فیصلوں کی گنجائش کسی صورت نہیں نکلتی۔ ایسے فیصلے صرف اُسی صورت لیے جا سکتے ہیں کہ فیصلہ سازوں میں سے کسی ایک نے بھی یہ سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ہو کہ اِن فیصلوں سے طالب علموں پر کیا اثرات ہوں گے اور یونیورسٹیوں کے لئے بھی کتنی مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہو گی۔

یہ سب باتیں کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایسے تمام طلبا و طالبات جو ان تجربات سے متاثر ہوئے ہیں، ان کے مسائل کا حل نکالا جائے، "ایچ ای سی" اک نوٹیفیکیشن جاری کرے کے تمام جامعات ایسے ڈگری ہولڈرز کو مزید کورسز پڑھا کر "پی ایچ ڈی" میں داخلہ دیں، کیونکہ اس کی گنجائش ہر جامعہ کے قانون میں موجود ہے اور مزید یہ بزنس ایجوکیشن کے روڈ میپ کو پہلے کی طرح سادہ کیا جائے تاہم کورس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے جو اصل کام ہے۔ طلبا و طالبات اور تعلیمی اداروں کو بلاوجہ الجھایا نہ جائے۔

ح
 
Top