بسنت اور ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت
بدعتی تہوار
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بسنت اور ویلنٹائن ڈے الگ الگ قوموں کے دوتہوار ہیں۔بسنت ہندووٴں کا اور ویلنٹائن ڈے عیسائیوں کا۔ ہندووٴں کے ہاں بسنت میں مذہبی رنگ بھی شامل ہے جبکہ عیسائیوں کے ویلن ٹائن ڈے کو ان کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم اباحیت کی جو تحریک مغرب میں عروج پرہے، اس کے مقابلہ میں اس فحش تہوار پر کسی قسم کی قدغن لگانا خود عیسائی مذہب کے ’ذمہ داروں‘ کے لئے ممکن نہیں۔
اب رہی یہ بات کہ ایک مسلم معاشرہ غیر مسلم تہواروں کو منانے کی گنجائش رکھتا ہے یا نہیں؟ تو مذہبی نقطہ نظر سے اس کا جواب نفی میں ہے۔ کوئی شخص سفلی خواہشات کی تکمیل کے لئے ان تہواروں میں شرکت کرنا چاہے تو کرے لیکن اگرکوئی نام نہاد دینی رہنما یہ دعویٰ کرے کہ دین اسلام بھی اس معاملہ میں اس کی پشت پناہی کرتاہے تو یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ پیغمبر اسلام نے ہمارے لئے خوشی کی غرض سے دو تہوار (عیدین) مقرر کئے جبکہ باقی تمام تہواروں کی آپ نے ممانعت فرما دی۔ آپ کے بعدکسی کو یہ اتھارٹی حاصل نہیں کہ وہ کسی اور تہوار کواسلام کا حصہ بنائے۔ سیکولر طبقہ نے علاقائی رواج اور تہواروں میں اصولی فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے کئی ایک شبہات پیدا کئے ہیں جن کا ازالہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس اُصولی فرق کو واضح نہ کر دیا جائے۔
تہوار اور رسم ورواج میں فرق
ہر قوم اور معاشرے میں کچھ روایات خالصتا اچھی ہوتی ہیں اور کچھ بری اور کچھ ایسی بھی جن میں خیر وشر کا اختلاط ہوتا ہے ۔علاوہ ازیں ہر قوم کے کچھ تہوار بھی ہوتے ہیں جن میں قوم کا ہر فرد شریک ہوتا ہے خواہ وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں۔روایات اور تہواروں کے بارے میں اسلام کانقطہ نظر جاننے کے لیے ہم تہواروں سے بات شروع کرتے ہیں۔
دیگر اقوام کی طرح اہل عرب بھی کئی ایک تہوار منایاکرتے تھے مگر آنحضرت ﷺ نے ان کے کسی تہوار کو اپنایا اور نہ اہل ایمان کو ان میں شرکت کی کبھی اجازت دی۔ تا ہم خوشی اور تفریح کے جذبات چونکہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں جنہیں کچلا نہیں جا سکتا، اس لیے آپ نے جاہلانہ تہواروں کے برعکس مسلمانوں کے لیے دو مستقل تہوار مقرر فرما دیئے جن میں عبادت (نماز) اور ذکر الٰہی کا اہتمام بھی ہوتااور کھیل کود کا مظاہرہ بھی۔ یہ باتیں مستند کتب احادیث کی روایات سے ثابت ہیں ۔انہی میں سے ایک روایت کو امام نسائی نے اپنی سنن میں ’جاہلانہ تہوار‘ کے عنوان کے تحت اس طرح بیان کیاہے:
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔ جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو (صحابہ کرام سے) فرمایا:
(وقد أبدلکم الله بهما خيرا منهما: يوم الفطر و يوم الأضحی)
”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی۔“ (صحیح سنن نسائی؛ ۱۴۶۵)
اس روایت میں مدینہ کے غیر مسلموں کے دو تہواروں کا ذکر ہے روایات کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے علاقائی تہوار تھے اور ان میں مذہبی رنگ شامل نہیں تھا مگر اس کے باوجود آپ نے انہیں ا پنی امت کے لیے ناجائز قرار دے دیا اوراگر ان میں مذہبی رنگ بھی شامل ہوتا تو پھر ان کی ممانعت اور قوی ہوجاتی ۔بلکہ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب کے بعض تہوار ایسے بھی تھے جن میں مشرکانہ عقائد کی شکل میں ان کا مذہبی رنگ بھی شامل تھا یہ تہوار’عرس‘ کی شکل میں مختلف دنوں میں منائے جاتے تھے جیسا کہ معروف موٴرخ جناب شبلی نعمانی اپنی سیرت النبی میں امام ابن اسحاق کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ
” ایک دفعہ کسی بت کے سالانہ میلہ میں ورقہ بن نوفل ، عبد اللہ بن جحش ، عثمان بن الحویرث ، زید بن عمرو بن نفیل شریک تھے۔ ان لوگوں کے دل میں دفعۃً یہ خیال آیا کہ یہ کیا بیہودہ پن ہے کہ ہم ایک پتھر کے سامنے سر جھکاتے ہیں جو نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے نہ کسی کا نقصان کر سکتا ہے نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔“(ج۱/ص۸۷)
یہ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے پھر یہ حضرات موحدانہ تعلیمات پر مبنی دین کی تلاش کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور اس کے بعد کیا ہوا اس کی تفصیل مذکورہ کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ بتوں کے ناموں پر بھی عرب میں عرس منائے جاتے تھے مگر آپ نے ان کی پوجا پاٹ اور نذر ونیاز وغیرہ کے لیے کبھی ان میں شرکت نہ فرمائی بلکہ آپ نے چونکہ مشرکانہ عقائد کی سخت تردید فرمائی اور فتح مکہ کے بعد ان تمام بتوں کو نذر آتش کروا دیا، اس لیے یہ مذہبی عرس اور تہوار بھی اپنی موت آپ مر گئے۔
ان تہواروں کے حوصلہ شکنی میں آپ کتنے حساس تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایاجا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک صحابی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے ’بوانہ‘ نامی مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی ہے (کیا میں اسے پورا کروں؟) آپ نے فرمایا: کیا دورِ جاہلیت میں وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں ہوا کرتی تھی؟ اس نے کہا نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا (هل کان فيها عيد من أعيادهم؟) ” کیا وہاں مشرکین کے تہواروں /میلوں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوا کرتا تھا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ ”پھر اپنی نذر پوری کرو کیونکہ جس نذر میں اللہ کی نافرمانی کا عنصر پایا جائے اسے پورا کرنا جائز نہیں۔“ (ابوداوٴد؛۳۳۱۳)
گویا آپ نے سائل سے جو دو باتیں پوچھیں، یہ دونوں گناہ کی صورتیں تھیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک صورت بھی ہوتی تو آپ نے اس صحابی کو اپنی نذر پوری کرنے سے ضرور منع کردینا تھا۔ گویا غیر مسلموں کے تہواروں کو منانا تو بہت دور کی بات، جہاں وہ تہوار منایا کرتے تھے وہاں کوئی ایسا کام کرنا جو ان کی مشابہت کا شک پیدا کرے وہ بھی آنحضرت ﷺ کے نزدیک جائز نہیں۔
آ پ کے بعد صحابہ کرام نے بھی غیر مسلموں کے تہواروں کے بارے میں یہ تصور قائم رکھا مثلا عہد ِخلافت ِراشدہ میں جب ایران فتح ہوا تو صحابہ کرام نے وہاں کے آتش پرستوں کے مروّجہ تہواروں کو کسی رنگ میں بھی اختیار نہیں کیا۔ بلکہ آتش پرست اگر اپنے تہوار مناتے تھے، تو وہ بھی از راہِ معاہدہ چاردیواری میں یہ تہوار منانے کے پابند تھے۔ اس تاریخی حقیقت سے سیکولر طبقہ چشم پوشی کررہا ہے مثلا ً ’بسنت‘ کے حامی ایک صاحب لکھتے ہیں: ”ایران میں اشاعت ِ اسلام کے بعد بھی ’نوروز‘ کا تہوار منایا جاتا۔ علما اس کی حوصلہ افزائی تو نہ کرتے تھے لیکن کچھ زیادہ حوصلہ شکنی بھی نہیں“ (’بسنت‘ کالم نگار ہارون الرشید، روزنامہ جنگ، ۲۱/فروری ۲۰۰۴ء)
اس سے ہمیں ا ختلاف نہیں کہ اشاعت ِ اسلام کے بعد بھی ایران میں نو روز کا تہوار منایا جاتا رہا، مگر اصل سوال یہ ہے کہ اسے منانے والے کون تھے؟ کیا فاتح مسلمان بھی یہ تہوار مناتے تھے؟ اگر ایسا ہے تو پھر کسی ایک صحابی یا تابعی ہی کا موصوف نام بتا دیں جو اس تہوار میں شریک ہوئے؟ اگر آج کے نام نہاد مسلمان ’نوروز‘ مناتے ہیں تو یہ ان کی جہالت و سرکشی اور ہوائے نفس کا نتیجہ ہے ورنہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے نہ اسلام کو حقیقی طور پر سمجھنے والے اوّلین گروہ (صحابہ ) کے عمل سے اس کی کوئی تائید ہوتی ہے!
یہ تو تھا تہواروں کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر اب آئیے معاشرتی روایات کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر معلوم کرتے ہیں:
ہم یہ ذکر کر چلے ہیں کہ ہر معاشرے میں کچھ عادات اور روایات اچھی ،کچھ بری اور کچھ ملی جلی ہوتی ہیں ان کی امتیازی حیثیت کی وجہ سے انہیں ’رسومات‘ بھی کہا جا سکتا ہے اور بار بار ان کا اظہار ہوتے رہنے کی حیثیت سے انہیں’رواج‘ کے لفظ سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے ۔ ان روایات (یعنی رسم ورواج) وغیرہ کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر دو جملوں میں بیان کیاجا سکتا ہے یعنی ’خذ ما صفا ودع ما کدر ‘ …”جو اچھی چیزیں ہیں انہیں اختیار کرو اور جو بری ہیں ان سے اجتناب کرو“ یعنی اگر کسی معاشرے کی کوئی روایت رواج یا رسم اچھی ہو اور اسلامی مزاج کے منافی نہ ہو تو اسے اختیار کیا جا سکتا ہے ۔مثلاً ایک صاحب نے عرب معاشرے کی جودو سخا کا ذکر کرتے ہوئے جو یہ کہا ہے : ” ایک روایت کے مطابق دس روز تک خود آنجناب کے لیے اس گھر سے کھانا بھیجا گیا“ تو اس روایت کے حوالے سے اس بات سے قطع نظر کہ سیر ت کی مستند کتابوں میں اس کا کہیں ذکر ہے بھی یا نہیں۔ ہم یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ جودو سخا عرب معاشرے کی ایک اچھی روایت تھی جسے آپ نے نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اپنے متعدد فرامین میں اس کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ مگر یہ کوئی تہوار نہیں تھا کہ اس بنیاد پر ہم غیر اسلامی تہواروں کا جواز نکالنے بیٹھ جائیں!
اسی طرح عرب معاشرے میں رواج تھا کہ جب کسی مصیبت یا دشمن کی آمد وغیرہ سے لوگوں کو مطلع کرنا ہوتا تو ایک قاصد روانہ کیا جاتا جواپنے اونٹ کو زخمی کرتا ، کپڑوں کو پھاڑتا ، سر میں خاک ڈالتا اور پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر یا صباحاہ ! یا ویلاہ ! وغیرہ کی الفاظ بلند کرتا جسے سن کر تمام لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر جمع ہو جاتے ۔خود نبی اکرم نے بھی اس مفید رواج سے بوقت ضرورت فائدہ اٹھایا مگر اس میں موجود غیر اخلاقی حرکتوں (یعنی جانور زخمی کرنے ،کپڑے پھاڑنے وغیرہ) کو اختیار نہ کیا۔
اسی طرح وہ معاشرتی روایات جو سرا سر شر پر مبنی تھیں انہیں آپ ﷺ نے اختیار نہ فرمایا بلکہ ان کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی فرمائی مثلاً اس دور میں رواج تھا کہ باپ کی منکوحہ بڑے بیٹے کو وراثت میں ملتی ۔غیر مرد کا نطفہ لینے کے لیے بیوی سے بدکاری کروائی جاتی (جسے ہندومت میں ’نیوگ‘ کہا جاتا ہے) بچیوں کو زندہ درگور کیاجاتا…وغیرہ آپ نے شر پر مبنی یہ تمام رسومات اوررواج ختم کر دیئے۔
معلوم ہوا کہ معاشرتی روایات اگر اچھی ہوں اور اسلام کے منافی نہ ہوں تو انہیں ا ختیار کیاجاسکتا ہے مگر کسی تہوار کے بارے میں اسلام کا یہ نظریہ نہیں ہے۔ لہٰذا اسلام کے صرف دو ہی تہوار (عیدین) ہیں اس کے علاوہ کسی اور تہوار کو اسلام میں داخل کرنا ’بدعت‘ کے مترادف ہے خواہ وہ تہوار بسنت اور ویلنٹائن ڈے کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں۔
تہوار کے بارے میں اس سخت موقف کی وجہ غالبا یہ ہے کہ تہوار چونکہ کسی قوم کی شان وشوکت کے مظہر اور قومی وحدت کاشعار ہوتے ہیں جن میں اس قوم کا تشخص دوبالا ہوتاہے اسلام اپنا ایک برتر تشخص اور الٰہی تصور وفلسفہ رکھتا ہے ۔جس میں کسی غیر قوم کے قومی شعارات کی کوئی گنجائش نہیں۔