• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بسنت اور ویلنٹائن ڈے … شرعی نقطہ نظر

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بسنت اور ویلنٹائن ڈے … شرعی نقطہ نظر

حافظ مبشر حسین لاہوری​
بسنت اور ویلنٹائن ڈے؛ حامی اور مخالف نقطہ ہائے نظر
موسم بہار کی آمد پر پاکستان میں بسنت میلہ، جشن ِبہاراں، پتنگ بازی، ویلنٹائن ڈے وغیرہ کے نام سے تہوار منائے جاتے ہیں۔ یہ تہوار کب، کیسے اور کیوں شروع ہوئے اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس سلسلہ میں بنیادی طور پر دو نقطہ ہائے نظر ہیں: ایک مذہبی اور دوسرا سیکولر … سیکولر طبقہ کی حقیقت ہلڑبازوں اور لفنگوں کے کردار سے سامنے آجاتی ہے۔لہٰذا ہم پہلے دونوں نقطہ نظر بیان کریں گے ، پھر سیکولر طبقہ کا عملی مظہر دکھائیں گے اور اس کے بعد شریعت کی روشنی میں اپناتجزیہ پیش کریں گے۔ ان شاء اللہ
مذہبی نقطہ نظر
مذہبی گروہ کا کہنا ہے کہ تہوار اور میلے ہر قوم کی اپنی مذہبی و ثقافتی اقدارو نظریات کے ترجمان ہوتے ہیں اور اسلام چونکہ ایک الگ مستقل الہامی دین ہے اس لیے اس کی اپنی روایات واقدار ہیں جن کی نمائندگی کے لئے خود اسلام کے پیغامبر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنی اُمت کے لئے دو تہوار (یعنی عیدالاضحی و عیدالفطر) مقرر کردیے ہیں اور ان تہواروں پر خوشی، تفریح اور اظہارِ جذبات کی حدود بھی عملی طور پر طے کردی ہیں جب کہ اس سے پہلے دورِ جاہلیت میں مروّج دیگر تہواروں اور میلوں پر یکسر خط ِتنسیخ پھیر دیا۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔
جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو (صحابہ کرام سے) فرمایا: (وقد أبدلکم الله بهما خيرا منهما: يوم الفطر و يوم الأضحی) (صحیح سنن نسائی؛ ۱۴۶۵)
”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی۔“
لہٰذا اب کسی نئے یاپہلے سے مروّج غیرمسلموں کے تہوار کو اسلام میں داخل کرنا یا از خود کوئی تہوار مقرر کرلینا نہ صرف جائز نہیں بلکہ دین میں اضافہ(یعنی بدعت جاری)کرلینے کے مترادف ہے جبکہدوسری طرف عیدین کی شکل میں جو دو تہوار ہمارے لئے آنحضرت ﷺ نے مقرر فرما دیے ہیں ان میں بھی خوشی کے جذبات سے مغلوب ہوکر کسی ایسے اقدام کی اجازت نہیں جو اسلامی اقدار کے منافی یااسلامی روح کے خلاف ہو خواہ وہ اسراف و تبذیر کی صورت میں ہو یابے ہودگی اور جنسی بے راہ روی کی شکل میں!
اس پس منظر میں مذہبی گروہ کا کہنا ہے کہ ’بسنت‘ ہندوٴانہ تہوار ہے جبکہ ’ویلنٹائن ڈے‘ جنسی بے راہ روی میں ڈوبے عیسائی معاشرے کا من گھڑت تہوار ہے لہٰذا انہیں مناناغیر مسلم اقوام کی مشابہت کرنا ہے خواہ اسے منانے کی شکل من و عن وہی ہو جو اُن اقوام کے ہاں پائی جاتی ہے یا اس سے قدرے مختلف؛ بہرصورت یہ غیر مسلم اقوام کی مشابہت میں داخل ہے، جس کی وعید خود نبی اکرم ﷺ نے یہ بیان فرمائی ہے :
(من تشبه بقوم فهو منهم) (ابوداود:۴۰۳۱)
”جس نے کسی (غیر) قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے۔“
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سیکولرنقطہ نظر
بسنت اور ویلنٹائن ڈے کے بارے میں سیکولر اور آزاد خیال دانشور طبقہ کی رائے یہ ہے کہ بسنت مذہبی نہیں بلکہ علاقائی تہوار ہے اور ویلنٹائن ڈے خوشیاں اور محبتیں بانٹنے کا دن۔ اسلام علاقائی تہواروں کی مذمت نہیں کرتا بلکہ
”ہر خطے کے کلچر کو اپنے دامن میں سمو لینے کی صلاحیت رکھتا ہے، سوائے ان باتوں کے جن سے انسان کے اخلاقی وجود کو کوئی عارضہ ہوسکتا ہے۔“ (بسنت کا مسئلہ، از خورشید ندیم، روزنامہ جنگ،۱۶/ فروری ۲۰۰۴ء)
یہی بات ایک اور ’دانشور‘ نے اس انداز میں کہی ہے :
”موسم بہار کا تہوار منانے میں کیا خرابی ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اسلام نے مقامی رسوم و رواج کو کبھی پامال کیا اور نہ معصوم مسرتوں کو روندا۔ صرف یہ کہ قرینہ باوقار اور شائستہ ہونا چاہئے۔ ہم مدینہ کے ایک خاندان کو دیکھتے ہیں جہاں دو سو سال تک ایک دل آویز رسم جاری رہی۔ ہر صبح اور ہر شام ایک پکارنے والا پکار کر کہتا: جسے گوشت، روغن اور لذیذ کھانا درکار ہو ہمارے ہاں چلا آئے۔ سرکار ﷺ کی تشریف آوری کے بعد یہ گھرانا مسلمان ہوا اور رسم جاری رہی۔ ایک روایت کے مطابق دس روز تک خود آنجناب ﷺ کے لئے اس گھر سے کھانا بھیجا گیا۔ بسنت کی حمایت کرنے والوں نے جب یہ کہا کہ تہوار اس قوم کی ضرورت ہیں تو انہوں نے سچ کہا۔ قدم قدم پر اس سماج میں رکاوٹیں ہیں۔ صحت مند تفریحات کا اہتمام نہیں۔لوگوں کی روزمرہ زندگیاں پھیکی اور بدمزہ ہی نہیں بلکہ بوجھل اور مجروح ہوچکیں … “ (بسنت، کالم نگار ہارون الرشید، روزنامہجنگ، ۲۱/ فروری ۲۰۰۴ء)
علاقائی تہواروں کو اسلام کے دامن میں سمونے کی ایک اور دلیل موصوف نے یہ بھی دی ہے
”ایران میں اشاعت ِاسلام کے بعد بھی نو روز کا تہوار منایا جاتا۔ علما اس کی حوصلہ افزائی تو نہ کرتے تھے لیکن کچھ زیادہ حوصلہ شکنی بھی نہیں۔ ہم صوفیوں کے ایک گروہ کو ان تقریبات میں شریک دیکھتے ہیں۔ بارہ سو برس ہوتے ہیں، دشت سوس کے ایک گاوٴں میں احمد اپنے مرشد حسین بن منصور حلاج کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آمد ِبہار کی مبارکباد پیش کرے۔ حسین نے جنہیں شہادت کے رتبے پر فائز ہونا اور آنے والی تمام صدیوں میں ایک مہکتا ہوا استعارہ بننا تھا، سراُٹھاکر اسے دیکھا اور یہ کہا: ”میرا نوروز ابھی نہیں آیا…“ (ایضاً)
سیکولر طبقہ کی نمائندگی کرنے والوں کا کہنا ہے :
”یہ صحیح ہے کہ بسنت کے تہوار کے ساتھ بھی بہت سی خرابیاں وابستہ ہوگئی ہیں، ضرورت ہے کہ ان خرابیوں کی اصلاح ہو، لیکن اس کا یہ طریقہ نہیں کہ ہم بسنت ہی کو غیر اسلامی ثابت کرنے کے لئے دلائل تراشنے لگیں یا اسے غیر مسلم قوم سے متعلق قرار دیں۔ اس کا صحیح طریقہ یہی ہوسکتا ہے کہ ہم لوگوں کو مسلسل متوجہ کرتے رہیں کہ کیسے وہ اس تفریح سے زیادہ سے زیادہ حظ اٹھا سکتے ہیں اور کیسے خرابیوں سے بچ سکتے ہیں جن کے نتیجے میں انسانی جان بھی جاسکتی ہے۔“ (’بسنت کامسئلہ‘ ازخورشید ندیم، روزنامہ جنگ، ۱۶/فروری ۲۰۰۴ء)
ویلنٹائن ڈے کے حوالہ سے اس طبقہ فکر کی رائے یہ ہے :
”اس روز اگر خاوند اپنی بیوی کو از راہِ محبت پھول پیش کرے یا بیوی اپنے سرتاج کے سامنے چند محبت آمیز کلمات کہہ لے تو اس میں آخر حرج کیا ہے؟“
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
لفنگوں اور اوباشوں کا رویہ
بسنت اور ویلنٹائن ڈے کے حوالہ سے اوباش طبقہ کا کردار سیکولر سوچ کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ یہ تہوار دراصل اسی طبقہ کے لوگ مناتے ہیں جب کہ ان من چلوں کی تائید کے لئے سیکولر طبقہ نام نہاد دانشوری پر اتر آتا ہے۔ مزید برآں مغربی تہذیب کی دلدادہ این جی اوز اسلام کے خلاف سازش کے طور پر ان کے ساتھ نہ صرف شریک ہوتی ہیں بلکہ ان کی تفریح میں لہوولعب اور شور وغل کو مہمیز دیتی ہیں تاکہ ایسی تفریح کے پردہ میں غیر اسلامی کلچر کو پروان چڑھانے کے مواقع پیدا کئے جاسکیں۔
یہ طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے؟ اور یہ تہوار کس ’شان و شوکت‘ سے منایا جاتا ہے؟ اس کا مشاہدہ تو بسنت کے شب و روز میں لاہور اور دیگر بڑے شہروں کی پررونق عمارتوں اور وڈیروں کی کوٹھیوں بلکہ ’کوٹھوں‘ پرکیا جاسکتا ہے جبکہ اس کا دھندلا سا عکس متعلقہ دنوں کے اخبارات اور میگزینوں کے صفحات پر بھی دکھائی دیتا ہے۔
مذکورہ تہوار منانے والا اصلی طبقہ تو یہی ہے اور یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی ان کی عیاشی ودلربائی میں رکاوٹ بنے۔ انہیں اپنے تہوار کے لئے چند دن ہی درکار ہیں، اس کے علاوہ باقی سارا سال پتنگ بازی پر پابندی رہے، اس سے انہیں کوئی غرض نہیں لیکن ان کی تفریح کے خاص ایام کوپھیکا کرنے کی کوئی کوشش ہو تو یہ فورا ً حق ِآزادی، تفریح ِطبع وغیرہ کا وِرد کرنے لگتے ہیں اور میڈیا بھی ان کی ہم نوائی میں خم ٹھونک کر کھڑا ہوجاتا ہے جبکہ ’سرکار‘ کے لئے پہلے ہی خوشی کے چند لمحات محفوظ کردیئے جاتے ہیں، اس لئے ان کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز اور ان کی طرف بڑھنے والا ہر قدم روک دیا جاتاہے لہٰذاانہی کا پلڑا بالآخر بھاری ثابت ہوتا ہے۔
تجزیہ وتاریخی پس منظر
بسنت، پتنگ بازی اور ویلنٹائن ڈے کے حامیوں اور مخالفوں کے دلائل و آرا کے تجزیہ کے علاوہ صحیح نقطہ نظر کی توضیح کے لئے ضروری ہے کہ مذکورہ تہواروں کا تاریخی پس منظر بھی بیان کردیا جائے۔
پتنگ سازی اور پتنگ بازی
پتنگ سازی اور پتنگ بازی کا آغاز کب اور کس مقصد کے لئے ہوا؟ اس کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں، تاہم معروف یہی ہے کہ پتنگ سازی کا آغاز ہزاروں سال قبل مسیح چین سے ہوا پھر چینی تاجروں نے اسے کوریا، ایشیا اور برصغیر میں متعارف کروایا اور آج بھی پتنگ سازی کی صنعت میں چین ہی سب سے آگے ہے۔ باقی رہا پتنگ بازی کا مسئلہ تو یہ مختلف مقاصد کے لئے کی جاتی رہی ہے، مثلاً:
1۔تفریح طبع، کھیل تماشہ اورمقابلہ بازی کے لئے اور آج بھی دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی پتنگ بازی ہوتی ہے، عام طور پر اس میں کھیل ہی کی نیت کارفرما ہوتی ہے۔
2۔ پیغام رسانی کے لئے:
کہا جاتاہے کہ جنگ ِعظیم اوّل میں برطانوی، فرانسیسی، اٹالین اور روسی افواج نے دشمن کی نقل و حرکت کا اندازہ لگانے اور اپنی افواج کو سگنلز دینے کے لئے پتنگ بازی سے کام لیا تاہم ہوائی جہاز کی ایجاد اور افواج میں فضائیہ کا شعبہ قائم ہوجانے کے بعد پتنگ باز فوجی یونٹس کوختم کردیا گیا۔ اسی طرح محبوب اپنی محبوبہ کو پیغام پہنچانے کے لئے پتنگ بازی سے فائدہ اُٹھاتا۔
3۔دیگر فوجی مقاصد کے لئے:
کہا جاتا ہے کہ چین کے ایک جنرل ہان ہنسن نے پتنگ اُڑا کر جائزہ لیا کہ اس کے فوجیوں کو شہر کے اندر پہنچنے کے لئے کتنی لمبی سرنگ کھودنا پڑے گی۔ یہ فاصلہ معلوم کرنے کے بعد وہ سرنگ کھود کر شہر کے اندر داخل ہوگیا اور دشمن کے چھکے چھڑا دیئے۔
4۔سائنسی مقاصد کے لئے:
پتنگ بازی کو سائنس دانوں نے بھی اپنی ایجادات کے تجربات میں استعمال کیا۔ ہوائی جہاز کی ایجاد کو بھی پتنگ بازی کی مرہونِ منت قرار دیا جاتا ہے۔بنجمن فرینکلن، جس نے ۱۷۵۲ء میں بجلی ایجاد کی، نے آسمانی بجلی اور لیبارٹری میں پیدا ہونے والی بجلی کا موازنہ کرنے کے لئے پتنگ بازی کا استعمال کیا۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے ہوا کی رفتار، بیرومیٹر کا پریشر اور ہوا میں نمی جاننے کے لئے مسلسل ۴۰ سال تک پتنگوں کے تجربات کئے۔ ۱۷۴۹ء کو سکاٹ لینڈ میں الیگزینڈر ولسن نے موسمی درجہ حرارت ریکارڈ کرنے کے لئے پتنگ کے ساتھ تھرما میٹر باندھ کر اُڑایا۔ اسی طرح ہرگریو نے ۱۸۹۳ء میں چوکور ساخت کی پتنگیں اس مقصد کے لئے ایجاد کیں جو فوراً ہی دنیا بھر میں ہوا کا دباوٴ معلوم کرنے کے لئے مقبول ہوگئیں۔
5۔مذہبی مقاصد کے لئے:
جس طرح پتنگ بازی کو دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا اسی طرح اسے مذہبی مقاصد کے لئے بھی اختیار کیا گیا۔ مثلاً چین ہی کے لوگ توہم پرستی کے پیش نظر مختلف ساخت اور مختلف رنگوں کے پتنگ اپنے مذہبی دیوتاوٴں کو مختلف پیغام پہنچانے کے لئے اُڑانے لگے۔ اسی طرح جاپان اور کوریا کے لوگوں نے اس توہم پرستی میں پتنگ بازی کو اختیار کیا کہ اس سے بدروحیں بھاگتی اور فصلیں زیادہ پیداوار دیتی ہیں۔ نیپال کے لوگوں کا اعتقاد ہے کہ پتنگوں سے دیوتاوٴں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اب زمین پر بارش کی ضرورت نہیں۔ ہندو اور بدھ مت کے پیرو کار پتنگ بازی کے تہوار کو ’درگادیوی‘ سے منسوب کرتے ہیں۔ درگا دیوی کو ان کے ہاں ایسی دیوی مامتا خیال کیا جاتا ہے جو دُکھی انسانیت کو برائیوں کے چنگل سے چھڑاتی ہے۔ اسی طرح لاہورمیں، ’بابا گڈی سائیں‘ کے نام سے ایک دربار ہے جو شاہی قلعہ کے عقبی گیٹ کے بالکل سامنے واقع ہے۔ اس کا نام ’گڈی سائیں‘ اس لئے معروف ہوا کہ لوگوں کے بقول باباجی پتنگ اُڑا کر ان کی مشکلات دور کردیا کرتے تھے اور لوگ بھی پتنگیں اور ڈوریں انہیں بطورِ نذرانہ پیش کرتے۔
یہ تو تھی پتنگ سازی اور پتنگ بازی کی مختصر تاریخ، اب آئیے ’بسنت‘ کا جائزہ لیتے ہیں :
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
’بسنت‘ ہندوانہ مذہبی تہوار
جن خطوں میں موسمی تغیرات ’بہار‘ کی فضا مہیا کرتے ہیں، وہاں عام طور پر خوشی اور تفریح کے لئے لوگ اپنے اپنے انداز میں جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً ایران میں موسم بہار کی آمد پر نو دن طویل جشن منایا جاتاہے جسے ’نوروز‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں ’درگادیوی‘ کو خوش کرنے کے لئے بسنت کا تہوار منایا جاتا جیسا کہ البیرونی ہندوستان کی علاقائی تاریخ پراپنی مستند تصنیف’کتاب الہند‘ باب ۷۶ میں’عیدین اور خوشی کے دن‘ کے عنوان کے تحت ہندوستان میں منائے جانے والے مختلف مذہبی تہواروں کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”اسی مہینہ میں استوائے ربیعی ہوتا ہے جس کا نام ’بسنت‘ ہے۔ اسکے حساب سے اس وقت کا پتہ لگا کر اس دن عید کرتے ہیں اور برہمنوں کو کھلاتے ہیں، دیوتاوٴں کی نذر چڑھاتے ہیں“
گویا بسنت ہندووٴں کا مذہبی تہوار تھا بلکہ اس کی اہمیت ان کے ہاں ’عید‘ سے کم نہ تھی۔
بسنت اور پتنگ بازی کا اکٹھ
بسنت اور پتنگ بازی کے پس منظرسے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ بسنت ہندووٴں کا ایک مذہبی تہوار تھا جب کہ پتنگ کو کھیل و تفریحکے علاوہ اگرچہ سائنسی تجربات، عسکری مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے اور مذہبی توہمات کے تحت بھی اسے اُڑایا جاتا تھا۔ یعنی یہ دو الگ الگ چیزیں تھیں،پھر ان کا ا ختلاط کیسے ہوا؟ اس کا پس منظر بڑا دل خراش ہے جواُمت ِمسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف اوّل میں متحدہ پنجاب مسلمانوں کے زیرنگیں تھا کہ سیالکوٹ کے ایک کھتری (ہندو) کا سترہ سالہ لڑکا ’حقیقت رائے باغ مل پوری‘ مسلمانوں کے ایک سکول میں زیر تعلیم تھا۔ وہاں کسی موقع پر اس نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ اور سیدہ فاطمہ الزہرا کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اس توہین پرحقیقت رائے کو گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کے لئے لاہور بھیجا گیا۔ وہاں اس نے اقرارِ جرم کرلیا۔ لہٰذا لاہور کے مسلمان گورنر زکریا خان کے حکم پر اسے پھانسی دے دی گئی۔ یہ ۱۷۳۴ء یا ۱۷۳۷ء کا واقعہ ہے۔ اس پر نہ صرف ہندو آبادی کو شدید دھچکا لگا بلکہ سکھوں نے بھی اس غم میں برابر کی شرکت کی کیونکہ اس کی شادی ایک سکھ لڑکی سے ہوئی تھی۔ حقیقت رائے نے چونکہ اسلام دشمنی میں رسالت مآب ﷺ اور ان کے اہل بیت کے بارے میں گستاخی کا ارتکاب کیا تھا اور اس کی جان بخشی کی صورت اگرچہ یہ تھی کہ وہ تائب ہوکر اسلام قبول کرلیتا مگر اس نے اپنے دھرم کے مقابلہ میں اسلام کو ٹھکرا دیا اور جان کی بازی لگا دی۔ لہٰذا ہندووٴں اور سکھوں نے اسے ’ہیرو‘ کا درجہ دے دیا۔
حقیقت رائے کے اس واقعہ سے قریب قریب سبھی اتفاق کرتے ہیں۔ تاہم اس کی تفصیلات میں اختلافِ رائے ہے۔ بعض موٴرخین کے بقول پنجاب میں بسنت کا میلہ اسی حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ (جیسا کہ ہندو موٴرخ ڈاکٹر بی ایس نجار نے اپنی کتاب"Punjab Under the Later Mughals"کے ص ۲۷۹ پر لکھا ہے) جبکہ بعض کے نزدیک ’بسنت‘ میلہ اس سے بھی پہلے سے چلا آتا تھا جیسا کہ البیرونی کی کتاب الہند میں ہے لیکن جس روز حقیقت رائے کو پھانسی دی گئی، اتفاق سے وہ ’بسنت‘ ہی کا دن تھا۔ چنانچہ متحدہ پنجاب کے غیر مسلموں نے اس اتفاقی دن سے فائدہ اٹھایااورجہاں حقیقت رائے کو پھانسی دی گئی تھی وہاں اس کا مزار بنا کر یہی تہواروہ نئی آن شان سے منانے لگے بلکہ انہوں نے جشن کے طور پر پتنگ اڑانے شروع کردیئے۔ اس طرح بسنت اور پتنگ لازم و ملزوم ہوتے چلے گئے…!
واضح رہے کہ متذکرہ جرم کے بعد حقیقت رائے کو پھانسی لاہورمیں علاقہ گھوڑے شاہ میں ’سکھ نیشنل کالج‘ کی گراوٴنڈ میں دی گئی۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ہندووٴں نے اس جگہ یادگار کے طور پر ایک مندر تعمیر کیا لیکن یہ مندر آبادنہ ہوسکا اور قیام پاکستان کے چند برس بعد سکھ نیشنل کالج کے آثار بھی مٹ گئے اور اب یہ جگہ انجینئرنگ یونیورسٹی کا حصہ بن چکی ہے۔ (روزنامہ نوائے وقت، ۴ فروری ۱۹۹۴ء)
بسنت کو ہندوو ٴں کے ہاں پہلے بھی مذہبی تہوار کی حیثیت حاصل تھی جبکہ حقیقت رائے کی پھانسی کے بعد اس میں مزید مذہبی رنگ شامل ہوگیا اور آج بھی اسے مذہبی حیثیت ہی سے منایا جاتا ہے۔ ایک صاحب کا آنکھوں دیکھا حال ملاحظہ فرمائیے:
”بسنت تو ہندو کا ایک مذہبی تہوار ہے اور اس کے لئے خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے، گذشتہ سال جنوری میں الٰہ باد (بھارت) کے مقام پر جو ’مہاکنبھ میلہ‘ ہوا تھا اس میں بڑے بڑے اچاریوں اور مہنتوں نے شبھ گھڑیوں کی تقسیم کی تھی۔ اس کے مطابق ۲۹ جنوری کے روز ’بسنت پنجمی‘ کا تہوار منوایا گیا تھا۔ میں نے خود اس روز اپنی آنکھوں سے دہلی کی پرانی سبزی منڈی کے پاس بسنت کا مذہبی جلوس دیکھا تھا جوکالی کے مندر کی طرف جارہا تھا۔ اسی طرح میں نے آگرہ کے ایک کالج کے پرنسپل سے بسنت کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: ’بسنت پنجمی ماگھ یا بھاگون کے مہینہ میں منائی جاتی ہے۔ اس دن گاوٴں گاوٴں، شہر شہر میں جگہ جگہ میلے لگتے ہیں۔کبڈی، ہاکی، فٹ بال اور کشتی وغیرہ کے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ اس میں سرسوتی اور کالکا دیوی کی پوجا کی جاتی ہے۔ بچے، بزرگ اور عورتیں وغیرہ پیلے کپڑے پہنتے ہیں۔ گھروں میں پیلا حلوہ اور پیلے چاول پکائے جاتے ہیں،بچے اور نوجوان پتنگیں اڑاتے ہیں، چاروں طرف خوشحالی اور خوشی کا ماحول رہتا ہے۔“ ( رانا شفیق خاں پسروری ، ہفت روزہ اہلحدیث بابت ۲۱/ فروری ۲۰۰۳ء، ص۱۹)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خلاصہٴ کلام
پتنگ اور بسنت کے نام نہاد جشن بہاراں کے بارے میں گذشتہ تفصیلات سے معلوم ہواکہ
(1) پتنگ سازی کا آغاز ہزاروں سال قبل مسیح ہوا جبکہ دنیا بھر میں اسے اصلاً تو تفریح کی غرض سے لیکن اس کے علاوہ اسے سائنسی تجربات، عسکری مقاصد، پیغام رسانی جیسے مفید کاموں کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔اسی طرح مذہبی توہمات وغیرہ کے تحت بھی اسے منایا جاتارہا ہے۔
(2) ’بسنت‘ ہندووٴں کا قدیم مذہبی تہوار تھا اور بالفرض اگر یہ علاقائی تہوار تھا تو تب بھی اسے غیر مسلم ہی مناتے تھے مزید برآں اس پر ہندوانہ عقیدہ کے مطابق موسموں کا مذہبی تصورغالب تھا۔
(3) حقیقت رائے کے واقعہ نے اسے مزید مذہبی رنگ دے دیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ویلنٹائن ڈے؛ عاشقوں کا تہوار
بسنت کا شرعی اعتبار سے جائزہ لینے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’ویلنٹائن ڈے‘ کا تاریخی پس منظر بھی پیش کردیا جائے۔کیونکہ پاکستان میں جس طرح بسنت اور ویلن ٹائن ڈے کا ’ملاپ‘ ہوتا جارہا ہے اور دونوں تہواروں کے منانے کا انداز بھی ایک جیسا ہی ہے اسی طرح ان کی شرعی حیثیت بھی قریب قریب ایک ہی ہے۔
’ویلنٹائن ڈے‘ کیا ہے اور کس طرح یہ شروع ہوا؟ اس کے بارے میں کئی روایات ملتی ہیں تاہم ان میں یہ بات مشترک ہے :
”ویلنٹائن ڈے (جو ۱۴/ فروری کو منایا جاتا ہے) محبوبوں کے لئے خاص دن ہے۔“ (انسائیکلو پیڈیا بک آف نالج)
”اسے عاشقوں کے تہوار(Lover's Fesitival) کے طور پر منایا جاتا ہے۔“ (انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا)
اسے عاشقوں کے تہوار کے طور پر کیوں منایا جاتا ہے؟ اس کے بارے میں بک آف نالج کا مذکورہ اقتباس لائق توجہ ہے :
”ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ’ویلن ٹائن‘ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا۔“ ( ’ویلنٹائن ڈے‘ از محمد عطاء اللہ صدیقی، ص۳)
۱۴ فروری کا یہ ’یومِ محبت‘ سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کے بارے میں محمد عطاء اللہ صدیقی رقم طراز ہیں :
”اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ ۱۴ فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کردیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہورہے تھے۔“
آج کل یورپ و امریکہ میں ویلنٹائن ڈے کیسے منایا جاتا ہے ، اس کی تفصیلات کو جاننے کے لئے محترم صدیقی کا پیش کردہ درج ذیل واقعہ ملاحظہ فرمائیے:
”ہمارے ایک فاضل دوست جو نہ صرف امریکہ سے بین الاقوامی قانون میں پی․ایچ․ ڈی کرکے آئے ہیں بلکہ وہاں ایک معروف یونیورسٹی میں پڑھانے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں، انہوں نے اپنے چشم دید واقعات کی روشنی میں اس کا پس منظر بیان کیا کہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور یورپ میں اس دن کو جوش و خروش سے منانے والوں میں ہم جنس پرستی میں مبتلا نوجوان لڑکے (Gay)اورلڑکیاں پیش پیش تھیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سان فرانسسکو میں ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر ہم جنس پرست خواتین و حضرات کے برہنہ جلوس دیکھے۔ جلوس کے شرکا نے اپنے سینوں اوراعضائے مخصوصہ پر اپنے محبوبوں کے نام چپکا رکھے تھے۔ وہاں یہ ایسا دن سمجھا جاتا ہے جب ’محبت‘ کے نام پر آوارہ مرد اور عورتیں جنسی ہوسناکی کی تسکین کے شغل میں غرق رہتی ہیں۔ جنسی انارکی کا بدترین مظاہرہ اسی دن کیا جاتا ہے۔ “ (ایضاً: ص۳ تا ۴)
پاکستان میں گذشتہ دو تین سالوں سے اسے کس انداز میں منایاجارہا ہے اس کااندازہ ۱۴ فروری سے ایک دو روز آگے پیچھے کے کسی بھی قومی اخبار پر سرسری نگاہ ڈال کر کیا جاسکتا ہے۔ ایک تازہ واقعہ ملاحظہ فرمائیے:
راقم کے ایک دوست نے بتایا کہ۱۴ فروری۲۰۰۴ء(ہفتہ) کو جب میں اپنے کام سے واپس گھر آرہا تھا تو راستے میں ایک جگہ میں نے دیکھا کہ ۲۵،۳۰ نوجوان جنہوں نے سرخ قمیصیں/ شرٹیں پہن رکھی ہیں اور ہاتھوں میں گلاب کے پھول اٹھا رکھے ہیں، ایک سادہ مزاج آدمی کو پیٹ رہے ہیں۔ میں نے انہیں سمجھانے اور روکنے کی کوشش کی تو وہ مجھے بھی دھکے مارنے لگے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ نوجوانوں/ مستانوں کی ٹیم ویلنٹائن ڈے منانے کے شوق میں راہ گزرتی خواتین کو تنگ کرنے اور پھول پیش کرنے کا مظاہرہ کررہی تھی۔ اس شخص نے انہیں ایسی فحش حرکتیں کرنے سے منع کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں یہ سب اس پر ٹوٹ پڑے۔اس نے کہا:” میں نے سوچا کہ پولیس کو فون کیا جائے مگر قریب کہیں فون کی سہولت میسر نہ تھی ۔ پھر میں اس معمولی واردات کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ گیا۔“
اگرچہ بظاہریہ واقعہ چھوٹاہوگا مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ سرکاری سطح پر اگر ایسے اقدامات کی روک تھا م نہ کی گئی تو آئندہ چند برسوں میں جنسی انارکی اور اباحیت کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب اس معاشرے کی رہی سہی اسلامی اقدار بہا لے جائے گا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بسنت اور ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت

بدعتی تہوار
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بسنت اور ویلنٹائن ڈے الگ الگ قوموں کے دوتہوار ہیں۔بسنت ہندووٴں کا اور ویلنٹائن ڈے عیسائیوں کا۔ ہندووٴں کے ہاں بسنت میں مذہبی رنگ بھی شامل ہے جبکہ عیسائیوں کے ویلن ٹائن ڈے کو ان کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم اباحیت کی جو تحریک مغرب میں عروج پرہے، اس کے مقابلہ میں اس فحش تہوار پر کسی قسم کی قدغن لگانا خود عیسائی مذہب کے ’ذمہ داروں‘ کے لئے ممکن نہیں۔
اب رہی یہ بات کہ ایک مسلم معاشرہ غیر مسلم تہواروں کو منانے کی گنجائش رکھتا ہے یا نہیں؟ تو مذہبی نقطہ نظر سے اس کا جواب نفی میں ہے۔ کوئی شخص سفلی خواہشات کی تکمیل کے لئے ان تہواروں میں شرکت کرنا چاہے تو کرے لیکن اگرکوئی نام نہاد دینی رہنما یہ دعویٰ کرے کہ دین اسلام بھی اس معاملہ میں اس کی پشت پناہی کرتاہے تو یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ پیغمبر اسلام نے ہمارے لئے خوشی کی غرض سے دو تہوار (عیدین) مقرر کئے جبکہ باقی تمام تہواروں کی آپ نے ممانعت فرما دی۔ آپ کے بعدکسی کو یہ اتھارٹی حاصل نہیں کہ وہ کسی اور تہوار کواسلام کا حصہ بنائے۔ سیکولر طبقہ نے علاقائی رواج اور تہواروں میں اصولی فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے کئی ایک شبہات پیدا کئے ہیں جن کا ازالہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس اُصولی فرق کو واضح نہ کر دیا جائے۔
تہوار اور رسم ورواج میں فرق
ہر قوم اور معاشرے میں کچھ روایات خالصتا اچھی ہوتی ہیں اور کچھ بری اور کچھ ایسی بھی جن میں خیر وشر کا اختلاط ہوتا ہے ۔علاوہ ازیں ہر قوم کے کچھ تہوار بھی ہوتے ہیں جن میں قوم کا ہر فرد شریک ہوتا ہے خواہ وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں۔روایات اور تہواروں کے بارے میں اسلام کانقطہ نظر جاننے کے لیے ہم تہواروں سے بات شروع کرتے ہیں۔
دیگر اقوام کی طرح اہل عرب بھی کئی ایک تہوار منایاکرتے تھے مگر آنحضرت ﷺ نے ان کے کسی تہوار کو اپنایا اور نہ اہل ایمان کو ان میں شرکت کی کبھی اجازت دی۔ تا ہم خوشی اور تفریح کے جذبات چونکہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں جنہیں کچلا نہیں جا سکتا، اس لیے آپ نے جاہلانہ تہواروں کے برعکس مسلمانوں کے لیے دو مستقل تہوار مقرر فرما دیئے جن میں عبادت (نماز) اور ذکر الٰہی کا اہتمام بھی ہوتااور کھیل کود کا مظاہرہ بھی۔ یہ باتیں مستند کتب احادیث کی روایات سے ثابت ہیں ۔انہی میں سے ایک روایت کو امام نسائی نے اپنی سنن میں ’جاہلانہ تہوار‘ کے عنوان کے تحت اس طرح بیان کیاہے:
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔ جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو (صحابہ کرام سے) فرمایا:
(وقد أبدلکم الله بهما خيرا منهما: يوم الفطر و يوم الأضحی)
”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی۔“ (صحیح سنن نسائی؛ ۱۴۶۵)
اس روایت میں مدینہ کے غیر مسلموں کے دو تہواروں کا ذکر ہے روایات کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے علاقائی تہوار تھے اور ان میں مذہبی رنگ شامل نہیں تھا مگر اس کے باوجود آپ نے انہیں ا پنی امت کے لیے ناجائز قرار دے دیا اوراگر ان میں مذہبی رنگ بھی شامل ہوتا تو پھر ان کی ممانعت اور قوی ہوجاتی ۔بلکہ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب کے بعض تہوار ایسے بھی تھے جن میں مشرکانہ عقائد کی شکل میں ان کا مذہبی رنگ بھی شامل تھا یہ تہوار’عرس‘ کی شکل میں مختلف دنوں میں منائے جاتے تھے جیسا کہ معروف موٴرخ جناب شبلی نعمانی اپنی سیرت النبی میں امام ابن اسحاق کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ
” ایک دفعہ کسی بت کے سالانہ میلہ میں ورقہ بن نوفل ، عبد اللہ بن جحش ، عثمان بن الحویرث ، زید بن عمرو بن نفیل شریک تھے۔ ان لوگوں کے دل میں دفعۃً یہ خیال آیا کہ یہ کیا بیہودہ پن ہے کہ ہم ایک پتھر کے سامنے سر جھکاتے ہیں جو نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے نہ کسی کا نقصان کر سکتا ہے نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔“(ج۱/ص۸۷)
یہ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے پھر یہ حضرات موحدانہ تعلیمات پر مبنی دین کی تلاش کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور اس کے بعد کیا ہوا اس کی تفصیل مذکورہ کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ بتوں کے ناموں پر بھی عرب میں عرس منائے جاتے تھے مگر آپ نے ان کی پوجا پاٹ اور نذر ونیاز وغیرہ کے لیے کبھی ان میں شرکت نہ فرمائی بلکہ آپ نے چونکہ مشرکانہ عقائد کی سخت تردید فرمائی اور فتح مکہ کے بعد ان تمام بتوں کو نذر آتش کروا دیا، اس لیے یہ مذہبی عرس اور تہوار بھی اپنی موت آپ مر گئے۔
ان تہواروں کے حوصلہ شکنی میں آپ کتنے حساس تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایاجا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک صحابی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے ’بوانہ‘ نامی مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی ہے (کیا میں اسے پورا کروں؟) آپ نے فرمایا: کیا دورِ جاہلیت میں وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں ہوا کرتی تھی؟ اس نے کہا نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا (هل کان فيها عيد من أعيادهم؟) ” کیا وہاں مشرکین کے تہواروں /میلوں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوا کرتا تھا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ ”پھر اپنی نذر پوری کرو کیونکہ جس نذر میں اللہ کی نافرمانی کا عنصر پایا جائے اسے پورا کرنا جائز نہیں۔“ (ابوداوٴد؛۳۳۱۳)
گویا آپ نے سائل سے جو دو باتیں پوچھیں، یہ دونوں گناہ کی صورتیں تھیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک صورت بھی ہوتی تو آپ نے اس صحابی کو اپنی نذر پوری کرنے سے ضرور منع کردینا تھا۔ گویا غیر مسلموں کے تہواروں کو منانا تو بہت دور کی بات، جہاں وہ تہوار منایا کرتے تھے وہاں کوئی ایسا کام کرنا جو ان کی مشابہت کا شک پیدا کرے وہ بھی آنحضرت ﷺ کے نزدیک جائز نہیں۔
آ پ کے بعد صحابہ کرام نے بھی غیر مسلموں کے تہواروں کے بارے میں یہ تصور قائم رکھا مثلا عہد ِخلافت ِراشدہ میں جب ایران فتح ہوا تو صحابہ کرام  نے وہاں کے آتش پرستوں کے مروّجہ تہواروں کو کسی رنگ میں بھی اختیار نہیں کیا۔ بلکہ آتش پرست اگر اپنے تہوار مناتے تھے، تو وہ بھی از راہِ معاہدہ چاردیواری میں یہ تہوار منانے کے پابند تھے۔ اس تاریخی حقیقت سے سیکولر طبقہ چشم پوشی کررہا ہے مثلا ً ’بسنت‘ کے حامی ایک صاحب لکھتے ہیں: ”ایران میں اشاعت ِ اسلام کے بعد بھی ’نوروز‘ کا تہوار منایا جاتا۔ علما اس کی حوصلہ افزائی تو نہ کرتے تھے لیکن کچھ زیادہ حوصلہ شکنی بھی نہیں“ (’بسنت‘ کالم نگار ہارون الرشید، روزنامہ جنگ، ۲۱/فروری ۲۰۰۴ء)
اس سے ہمیں ا ختلاف نہیں کہ اشاعت ِ اسلام کے بعد بھی ایران میں نو روز کا تہوار منایا جاتا رہا، مگر اصل سوال یہ ہے کہ اسے منانے والے کون تھے؟ کیا فاتح مسلمان بھی یہ تہوار مناتے تھے؟ اگر ایسا ہے تو پھر کسی ایک صحابی یا تابعی ہی کا موصوف نام بتا دیں جو اس تہوار میں شریک ہوئے؟ اگر آج کے نام نہاد مسلمان ’نوروز‘ مناتے ہیں تو یہ ان کی جہالت و سرکشی اور ہوائے نفس کا نتیجہ ہے ورنہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے نہ اسلام کو حقیقی طور پر سمجھنے والے اوّلین گروہ (صحابہ ) کے عمل سے اس کی کوئی تائید ہوتی ہے!
یہ تو تھا تہواروں کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر اب آئیے معاشرتی روایات کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر معلوم کرتے ہیں:
ہم یہ ذکر کر چلے ہیں کہ ہر معاشرے میں کچھ عادات اور روایات اچھی ،کچھ بری اور کچھ ملی جلی ہوتی ہیں ان کی امتیازی حیثیت کی وجہ سے انہیں ’رسومات‘ بھی کہا جا سکتا ہے اور بار بار ان کا اظہار ہوتے رہنے کی حیثیت سے انہیں’رواج‘ کے لفظ سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے ۔ ان روایات (یعنی رسم ورواج) وغیرہ کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر دو جملوں میں بیان کیاجا سکتا ہے یعنی ’خذ ما صفا ودع ما کدر ‘ …”جو اچھی چیزیں ہیں انہیں اختیار کرو اور جو بری ہیں ان سے اجتناب کرو“ یعنی اگر کسی معاشرے کی کوئی روایت رواج یا رسم اچھی ہو اور اسلامی مزاج کے منافی نہ ہو تو اسے اختیار کیا جا سکتا ہے ۔مثلاً ایک صاحب نے عرب معاشرے کی جودو سخا کا ذکر کرتے ہوئے جو یہ کہا ہے : ” ایک روایت کے مطابق دس روز تک خود آنجناب کے لیے اس گھر سے کھانا بھیجا گیا“ تو اس روایت کے حوالے سے اس بات سے قطع نظر کہ سیر ت کی مستند کتابوں میں اس کا کہیں ذکر ہے بھی یا نہیں۔ ہم یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ جودو سخا عرب معاشرے کی ایک اچھی روایت تھی جسے آپ نے نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اپنے متعدد فرامین میں اس کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ مگر یہ کوئی تہوار نہیں تھا کہ اس بنیاد پر ہم غیر اسلامی تہواروں کا جواز نکالنے بیٹھ جائیں!
اسی طرح عرب معاشرے میں رواج تھا کہ جب کسی مصیبت یا دشمن کی آمد وغیرہ سے لوگوں کو مطلع کرنا ہوتا تو ایک قاصد روانہ کیا جاتا جواپنے اونٹ کو زخمی کرتا ، کپڑوں کو پھاڑتا ، سر میں خاک ڈالتا اور پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر یا صباحاہ ! یا ویلاہ ! وغیرہ کی الفاظ بلند کرتا جسے سن کر تمام لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر جمع ہو جاتے ۔خود نبی اکرم نے بھی اس مفید رواج سے بوقت ضرورت فائدہ اٹھایا مگر اس میں موجود غیر اخلاقی حرکتوں (یعنی جانور زخمی کرنے ،کپڑے پھاڑنے وغیرہ) کو اختیار نہ کیا۔
اسی طرح وہ معاشرتی روایات جو سرا سر شر پر مبنی تھیں انہیں آپ ﷺ نے اختیار نہ فرمایا بلکہ ان کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی فرمائی مثلاً اس دور میں رواج تھا کہ باپ کی منکوحہ بڑے بیٹے کو وراثت میں ملتی ۔غیر مرد کا نطفہ لینے کے لیے بیوی سے بدکاری کروائی جاتی (جسے ہندومت میں ’نیوگ‘ کہا جاتا ہے) بچیوں کو زندہ درگور کیاجاتا…وغیرہ آپ نے شر پر مبنی یہ تمام رسومات اوررواج ختم کر دیئے۔
معلوم ہوا کہ معاشرتی روایات اگر اچھی ہوں اور اسلام کے منافی نہ ہوں تو انہیں ا ختیار کیاجاسکتا ہے مگر کسی تہوار کے بارے میں اسلام کا یہ نظریہ نہیں ہے۔ لہٰذا اسلام کے صرف دو ہی تہوار (عیدین) ہیں اس کے علاوہ کسی اور تہوار کو اسلام میں داخل کرنا ’بدعت‘ کے مترادف ہے خواہ وہ تہوار بسنت اور ویلنٹائن ڈے کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں۔
تہوار کے بارے میں اس سخت موقف کی وجہ غالبا یہ ہے کہ تہوار چونکہ کسی قوم کی شان وشوکت کے مظہر اور قومی وحدت کاشعار ہوتے ہیں جن میں اس قوم کا تشخص دوبالا ہوتاہے اسلام اپنا ایک برتر تشخص اور الٰہی تصور وفلسفہ رکھتا ہے ۔جس میں کسی غیر قوم کے قومی شعارات کی کوئی گنجائش نہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
علاقائی ثقافت اور مذہب میں فرق
رسم اور تہوار کے اس اُصولی فرق کی توضیح کے بعد ہم ایک اور اصولی غلطی کی نشاندہی کرناچاہتے ہیں۔ اول الذکر غلط فہمی کی طرح یہ غلط فہمی بھی سیکولر طبقہ کی پیدا کردہ ہے۔اس غلط فہمی کو ایک سیکولر کالم نگار نے اس انداز میں پیش کیا ہے:
”بعض لوگ معترض ہیں کہ بسنت کا تہوار مذہبی طور پر ’حرام‘ ہے حالانکہ کسی بھی علاقہ کی ثقافت کا مذہب سے کوئی ٹکراوٴ نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی مشکل اور ہماری سوچ کا اندوہناک پہلو یہ ہے کہ ہم نے آج تک مذہب اور ثقافت میں پائے جانے والے بنیادی فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔“ (’بسنت،لاہور کا ثقافتی تہوار‘ از نذیراحمد چوہدری ص۲۶)
موصوف کی یہ بات کہ ”کسی بھی علاقہ کی ثقافت کامذہب سے کوئی ٹکراوٴ نہیں ہوتا“ محل نظر ہے کیونکہ :
(1) علاقائی ثقافت تو وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ تبدیل یا ارتقا پذیر ہوتی رہتی ہے جبکہ مذہب بالخصوص دین اسلام اپنی محکم روایات اور اصول و اقدار رکھتا ہے جس میں علاقائی تبدیلیاں اس انداز سے ہرگز اثر انداز نہیں ہوسکتیں کہ اس کے ان بنیادی احکام ہی کو ردوبدل کا نشانہ بنا ڈالیں بلکہ اگر عملاً مذہب ہی ردّوبدل کا شکار ہوجائے تو وہ اپنی الہامی حیثیت کھو دیتا ہے۔
(2) مذہب اور ثقافت کا ٹکراوٴ خود واقعاتی طور پر ثابت ہے۔ مثلا ً ’ویلنٹائن ڈے‘ جس نے مغربی ثقافت کی اہمیت حاصل کرلی ہے، عیسائی مذہب اس کے خلاف ہے۔ اسی طرح جب مسلمان برصغیر میں آئے تو یہاں کی ثقافت اسلامی اصولوں کے خلاف تھی۔ بیوہ کو ستی کرنا، گائے کا پیشاب پینا اورگوشت کو حرام سمجھنا، میت کو نذرآتش کرکے دریا برد کرنا، کرپال پہننا، بندیا لگانا اور ایسی ہی سینکڑوں باتیں جو برصغیر کی علاقائی ثقافت کا حصہ تھیں اور اب بھی جزوی تبدیلیوں کے باوصف حصہ ہیں، اسلامی تعلیمات کے یکسر منافی تھیں چنانچہ غیرت مند مسلمانوں نے ان تمام چیزوں سے اجتناب کیا۔
(3) اگر مذہب اور ثقافت میں کوئی ٹکراوٴ نہیں ہوتاتو پھر مسلمانوں کو فوری طور پر ان تمام ہندوٴانہ چیزوں کو اپنا لینا چاہئے تھا یا کم از کم جولوگ اس کے حق میں ہیں انہیں تو ہندوانہ لباس پہن کر، بندیا لگا کر اور کرپال ڈال کر اس کا فخریہ اظہار کرنا چاہئے!
(4) اگر علاقائی کلچر مذہب کے منافی نہیں ہوتا یا مذہب علاقائی کلچر کو من و عن اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے تو پھر لامحالہ دو صورتیں پیدا ہوں گی: ایک تو یہ کہ اس سے مراد خاص علاقائی کلچر ہے اور دوسری یہ کہ اس سے ہر خطے کا علاقائی کلچر مراد ہے۔ اول الذکر صورت میں ضرورت ہے کہ اسلام صرف عربوں کا دین ٹھہرے اور اسے آفاقی حیثیت سے محروم کردیا جائے۔ ثانی الذکر صورت میں یہ دین اکبری کی طرح محض ’ملغوبہ‘ بن جائے گا کہ جس علاقے میں بھی یہ پہنچے وہاں کی ثقافت اور علاقائی کلچر میں ڈھل جائے اور اس طرح اس کی وہ امتیازی حیثیت از خود فنا ہوجائے گی جس کے ساتھ اسے بھیجا گیا اور جس امتیازی حیثیت کو منوانے کے لئے مال و جان کی بے پناہ قربانیاں اور صبر و استقامت کی لازوال داستان ہمارے اسلاف نے رقم کی ہے، وہ پامال ہو جائے گی۔
دراصل ہندو مت میں مذہب و ثقافت تقریباً مدغم ہیں۔ جن چیزوں کو ان کے ہاں علاقائی ثقافت کا درجہ حاصل ہے وہی ان کے مذہب کی تائید لئے کھڑی ہیں۔ اس سلسلہ میں ان کی شادی بیاہ کی رسومات کی مثال بڑی واضح ہے جبکہ مغربی معاشرے میں پاپائیت کی شکست کے بعد مذہب کو ثانوی حیثیت دے دی گئی ہے۔ لیکن اسلام کا معاملہ بالکل منفرد ہے۔دین اسلام اوّل تو آخری الہامی دین ہے اور پھر اس کے اصول و ضوابط کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ یہ تاقیامت پیش آنے والے تمام مسائل کا حل پیش کرنے اور راہِ عمل متعین کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے اصول و ضوابط منجانب اللہ طے ہیں۔ جن کی روشنی میں کسی بھی علاقائی مسئلہ اور زمانی واقعہ کا تجزیہ بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ علاقائی ثقافت کے معاملے میں بھی اسلام ہی کسوٹی ہے جس پر ہر مشتبہ چیز کو تولا اور حق و باطل میں نکھار پیدا کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ ہر بندے کے کرنے کا کام نہیں بلکہ اس کا حق وہی لوگ رکھتے ہیں جو راسخ فی الدین علما ہیں۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ’ بسنت علاقائی تہوار ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں بلکہ خود موصوف نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ”بسنت بنیادی طور پر ہندووٴں کا تہوار ہے مگر مسلمانوں نے اس میں دلچسپی لینا شروع کردی۔“ (ص:۱۸) لیکن شرعی نقطہ نگاہ سے اصل سوال یہ ہے کہ اسلام اس علاقائی ہندوانہ تہوار (جس میں ان کامذہبی رنگ بھی شامل ہے) کو منانے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب اُصولی لفظوں میں ہم دے چکے ہیں کہ ”اسلام دو تہواروں (عیدین) کے علاوہ کسی اور تہوار منانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا خواہ وہ مذہبی تہوار ہو یا علاقائی!“
واقعاتی حقائق بھی اس کی تائید کرتے ہیں کہ جب سرزمین ہند پر مسلمانوں نے قدم رکھے تو یہاں بھی بیسیوں تہوار، سینکڑوں رسوم وروایات، اور ہزاروں بدعات و خرافات تھیں، مگر مسلمانوں نے ہمیشہ اپنی مسلم شناخت برقرار رکھنے کی کوشش کی اور ان تہواروں سے اپنے آپ کو دور رکھا۔
اسی طرح ایک صاحب نے حسین بن منصور حلاج کے حوالے سے جو یہ بات ذکر کی کہ انہوں نے کہا: ”میرا نو روز ابھی نہیں آیا؟“ تو ان کے یہ کہنے سے ’نوروز‘ یا کسی اور تہوار کا جواز آخر کیسے نکل آیا؟ اس سلسلہ میں واضح رہے کہ اگر کسی زمانہ یا علاقہ میں مسلمانوں کے بعض افراد یا حکمران طبقہ کسی غیر اسلامی تہوار یا غیر اسلامی رسوم و روایات پر عمل پیرا مل جائے تو اس سے وہ غیر اسلامی تہوار یا رسم و رواج اسلامی نہیں بن جائیں گے۔ کیونکہ اسلام وہی ہے جو چودہ سو سال پہلے محمد عربی پر مکمل کردیا گیا۔ بعد کے ادوار میں خود مسلمانوں کے اعمال جیسے تیسے بھی ہوں، ان کو پرکھنے کی کسوٹی قرآن و حدیث ہے نہ کہ بعض مسلمانوں کا طرزِعمل!
تہواروں، میلوں ٹھیلوں کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر تو اوپر واضح ہوچکا کہ اسلام صرف دو تہواروں کی اجازت دیتا ہے اور ان کے علاوہ کوئی تہوار خواہ اس کی نوعیت مذہبی ہو یا علاقائی، تاریخی ہو یا موسمی،اسلام اسے غلط قرار دیتا ہے۔ لیکن ان حقائق اور اصولی باتوں کے باوجود اگر کوئی صاحب یہ دعویٰ کریں کہ ”بسنت میلہ منانے سے کون سا اسلامی ضابطہ مجروح ہوتا ہے؟“ تو پھر ان کی اس سوچ پر ماتم ہی کیاجاسکتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ان تہواروں کے غیر اسلامی ہونے کی وجوہات اخلاقی اور سماجی بھی ہیں، مثلاً:
فحاشی و بے حیائی کی ترویج اور جنسی بے راہ روی
اسلام ایک مقدس دین ہے جو پاکیزہ اقدار ہی کو فروغ دیتا ہے جبکہ ان تمام ذرائع ووسائل کا بھی دروازہ بند کرتا ہے جو معاشرتی استحکام میں رخنہ اندازی کا باعث ہوں۔ اسی لئے فحاشی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ أنْ تَشييْعَ الْفَاحِشَةُ فِيْ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ فِيْ الدُّنْيَا وَالاٰخِرَةِ﴾ (النور:۱۹)
”یقینا ً جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش (و بے حیائی) پھیلے وہ دنیا اورآخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔“
بسنت اور ویلنٹائن ڈے دونوں ہی فحاشی و بے حیائی کے فروغ کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ویلنٹائن ڈے تو ہے ہی فحاشی کا دوسرا نام جبکہ بسنت میلہ جس کا اکٹھ ویلن ٹائن ڈے سے خود بخود ہوتا جارہا ہے، بھی مسلم معاشرے کو سفلی خواہشات،جنسی انارکی اور اباحیت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ جب بسنت کے موقع پر ہر دوسرے گھر سے فحش گانوں کی صدائیں بلند ہورہی ہوں اور بسنت نائٹ کے موقع پرملک کا نودولتیاطوائفوں کی ’خدمات‘ حاصل کرکے طوفانِ بدتمیز ی بھی پیداکررہا ہو تو ڈر لگتا ہے کہ نجانے کب اللہ کے عذاب کا بھی سنگین کوڑا اس اُمت پربرس پڑے جو عاد و ثمود اور قومِ لوط پر برسا تھا !!
غیر مسلموں سے مشابہت
مسلمانوں کے دینی شعاراور ثقافتی طور طریقے اپنے ہیں جن میں غیر مسلموں کی نقالی ومشابہت سے بچنے کا پرزور حکم دیا گیا ہے۔حدیث ِنبوی ہے:
(من تشبه بقوم فهو منهم) ”جس نے غیرمسلموں کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے۔“ (ابوداوٴد:۴۰۳۱)
مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنی دینی روایات کا تحفظ کرسکیں جبکہ تمام اچھی چیزیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں مثلاً مفید سائنسی ایجادات وغیرہ خواہ وہ کافروں ہی سے کیوں نہ ملیں، اسلام ان کے استفادہ سے ہرگز منع نہیں کرتا مگر ان نام کے مسلمانوں پرماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جو غیر مسلموں کی دین و اخلاق سے عاری عادات کو تو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں لیکن جو جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی ان سیلینی چاہیے اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتے…!!
اب ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر اجتماعی شادیوں کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ اجتماعی شادی کا رواج غیر شرعی تو نہیں لیکن اسے ویلنٹائن ڈے کے ساتھ ملانا مناسب نہیں۔ اسی طرح میاں بیوی کا آپس میں تحائف کا تبادلہ اور خوشی ومحبت کا اظہاریقینا مستحب ہے مگر ویلن ٹائن ڈے کی مناسبت سے آپس میں تحائف کا تبادلہ کرنا اور خاص اسی روز ایک دوسرے کو پھول پیش کرنا غیر مسلموں کی نقالی کے پیش نظر نامناسب ہے لہٰذا ایسے موقع پر اس طرح کے عمل سے اجتناب ضروری ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پتنگ بازی سے انجانی ہلاکتیں اورمعاشی نقصانات
کسی اجتماعی پروگرام کے انعقاد میں فتنہ و فسادیا معصوم لوگوں کی ہلاکت کا معمولی اندیشہ بھی ہو تو ہماری حکومت ایسے پروگرام کے انعقاد کی بالکل اجازت نہیں دیتی۔ واقعتا امن عامہ کے قیام کا یہ اہم تقاضاہے لیکن بسنت میلہ کے موقع پر ان گنت ہلاکتوں کا نہ صرف یقینی خدشہ ہوتا ہے بلکہ جہاں ہر سال اس موقع پر بیسیوں انجان ہلاک ہو جاتے ہیں وہاں سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود ’ بسنت میلہ‘ پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی بلکہ المیہ یہ ہے کہ گزشتہ سال پتنگ بازی پر پابندی تو عائد کی گئی مگر عین بسنت کے موقع پر پورے ایک ماہ کے لئے یہ پابندی اٹھا لی گئی پھر جب بسنت اپنے یقینی نقصانات اور بے شمار ہلاکتوں کے ساتھ روانہ ہوگئی تو دوبارہ اس پر پابندی عائد کردی گئی۔
راہ جاتے ہمارے سامنے موٹرسائیکل سواروں کے گلے پر ڈورپھرنے اور شہ رگ کٹنے سے سڑک پر تڑپ تڑپ کر جان دینے کے جو واقعات رونما ہورہے ہیں، ان کا تسلسل تو سارا سال ہی جاری رہتا ہے جس کے پیش نظر ضروری ہے کہ پورے سال کے لئے اس خونی کھیل پر پابندی لگا دی جائے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ گردن کٹنے کا معاملہ دھاتی یا کیمیکل ڈور سے پیش نہیں آتا بلکہ شیشے کی مانجھا لگی ڈورہی گردن کاٹنے کا ذریعہ بنتی ہے اور دکانوں پر دستیاب ہر ڈور پر یہ مانجھا لگا ہوتا ہے بلکہ جس ڈور پرمانجھا نہ لگا ہو ،اسے ڈور ہی نہیں کہا جاتا۔
اسی طرح واپڈا / لیسکو کا جو نقصان پتنگ بازی میں دھاتی تار کے استعمال سے ہوتا ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔ علاوہ ازیں پتنگ بازی کے کھیل میں جو باہمی لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں وہ اس پر مستزاد ہیں۔مذکورہ بالا نقصانات کے پیش نظر اس کھیل کی کسی طور اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔
پتنگ بازی کے حامی بعض افراد یہاں یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ ان نقصانات کاکوئی اور حل نکالنا چاہئینہ کہ پتنگ بازی کی تفریح کو بند کر دیا جائے۔
بظاہر تفریح کا پہلو درست نظر آتا مگر یہاں صورت حال یہ ہے کہ پتنگ بازی سے پیدا ہونے والے مضر اثرات اتنے شدید ہیں کہ جب تک کہ خود پتنگ بازی پر پابندی نہ لگائی جائے ان نقصانات کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً لاہور شہر کے تمام راستے اور سڑکیں دن رات زیراستعمال رہتی ہیں اور پورا شہر آباد ہے جبکہ لاہور کے کسی بھی علاقے میں خواہ اندرونِ شہر موجود پارک اور کھیلے میدان ہی کیوں نہ ہوں، پتنگ بازی کی وجہ سے کٹنے والی پتنگوں کی ڈوریں لامحالہ ان راستوں اورسڑکوں پر گریں گی جہاں سے موٹر سائیکل سواروں کی جانیں مسلسل خطرے میں رہیں گی۔ اس کا تو آخری حلیہی تجویز کیا جاسکتا ہے کہ سائیکل اور موٹر سائیکل سواری ہی پر پابندی لگا دی جائے!!
فضول خرچی
اگر کسی موقع پر غیر ضروری خرچ کیا جائے تو اسے ’اسراف‘ کہتے ہیں یا ایسی جگہ پر خرچ کیا جائے جہاں خرچ ٹھیک نہیں تو اسے ’تبذیر‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن و سنت میں اسراف و تبذیر (یعنی فضول خرچی کی ہر صورت) کی سخت مذمت کی گئی ہے مثلاً قرآنِ مجید میں ہے:
﴿وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْا إنَّه لاَ يحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ﴾ (الاعراف:۳۱)
”(اے بنی آدم!) کھاوٴ، پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں فرماتا جو حد سے تجاوز کرتے ہیں۔“
دوسری جگہ فضول خرچی کی مذمت میں اس سے بھی سخت انداز اختیار کیا گیاہے۔ چنانچہ ارشادہے:
﴿وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا إنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ کَانُوْا إخْوَانَ الشَّياطِيْنِ وَکَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ کَفُوْرًا﴾ (الاسراء:۲۶،۲۷) ”فضول خرچی نہ کرو، یقینافضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔“
یہ تو تھا اسراف و تبذیر کے بارے میں قرآنِ حکیم کا حکم، اب ان آیات کی روشنی میں آپ پاکستانی مسلمانوں کی موجودہ روش کا جائزہ لیں جہاں ایک طرف ویلن ٹائن ڈے اور بسنت میلہ کے مسرفانہ تہواروں پر کروڑوں روپے نذر کئے جاتے ہیں اور دوسری طرف ملکی معیشت کی ابتری کا یہ حال ہے کہ پاکستان کا ہر نومولود عالمی بنکوں کا مقروض بن کر اس سرزمین پر آنکھ کھولتا ہے۔
اسی طرح پاکستان کا چالیس فیصد طبقہ وہ ہے جو خط ِغربت کے نیچے زندگی بسر کررہاہے۔ لاکھوں کی تعداد میں دو شیزائیں ایسی ہیں جو والدین کی دہلیز پر محض اس لئے بوڑھی ہورہی ہیں کہ ان کے والدین ان کے نکاح کا واجبی خرچہ بھی نہیں رکھتے۔ اسی طرح ہزاروں ماں باپ ایسے ہیں جو وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنی اولاد کو تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں۔ ان گنت افراد ایسے ہیں جن کے پاس روز گار کے مواقع نہیں اور بے شمار گھرانے ایسے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی بھی میسرنہیں۔ غربت و جہالت، بے روز گاری اور دیگر معاشرتی پریشانیوں سے اہل پاکستان کو آگاہ کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، اس لئے ان کے تذکرہ سے مقصود صرف یہ ہے کہ بسنت میلہ پر روپیہ ضائع کرنے والے اس طرف توجہ دیں اور اپنی رقم کو وہاں خرچ کریں جہاں اس کے خرچ کی اشد ضرورت ہے اور یہی خرچ دنیا میں باعث برکت اور آخرت میں باعث اجر و ثواب بھی ہے۔
 
Top