• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بشریت نبوی

شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
20
بشریت نبوی

شیخ الحدیث، علامہ غلام مصطفےٰ ظہیرامن پوری

پہلے انبیا کی طرح ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بشر تھے ، جب پہلی امتوں نے انبیائے علیہم السلام کو جھٹلایا، تو ان کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ آپ بشر ہیں، بشر منصب نبو ت و رسالت پر فائز نہیں ہو سکتا، اللہ رب العزت نے ان کے اس نظریہ کی تردید فرمائی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا، تو مشرکین مکہ نے بھی یہی اعتراض اٹھایا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَ أَسَرُّوا النَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ھَلْ ھٰذَآ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ أَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْن) (ال
ـأنبیاء : ٣)
''ظالم گروہ سرگوشیاں کرنے لگا کہ یہ تو آپ کے جیسا ایک بشر ہی ہے، پھر کیا ہے کہ آنکھوں دیکھا جادو آپ پہ اثر کر جاتا ہے۔''
اللہ نے ان کے جواب میں فرمایا :
(وَمَآ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ إِلَّا رِجَالًا نُّوْحِي إِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْا أَھْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ) (ال
ـأنبیاء : ٧)
''آپ سے قبل جتنوں پر بھی ہم نے وحی کی، آدمی ہی تھے، اگر آپ کو نہیں معلوم تو اہل ذکر سے پوچھ لیجئے۔''
قومِ نوح نے نوحuکی نبوت کا انکار بھی اسی وجہ سے کیا تھا۔ فرمانِ الٰہی ہے :
(مَا نَرَاکَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا) (ہود : ٢٧)
''ہم تجھے بس اپنے ہی جیسابشر دیکھتے ہیں َ''
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
وَجَحَدُوا نُبُوَّۃَ نَبِیِّہِمْ نُوْحٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ : مَا نَرَاکَ یَا نُوحُ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا، یَعْنُونَ بِذٰلِکَ أَنَّہ، آدَمِيٌّ مِثْلُہُمْ فِي الْخَلْقِ وَالصُّورَۃِ وَالْجِنْسِ، فَإِنَّہُمْ کَانُوا مُنْکِرِینَ أَنْ یَّکُونَ اللّٰہَ یُرْسِلَ مِنَ الْبَشَرِ رَسُولًا إِلٰی خَلْقِہٖ .
''انہوں نے اپنے نبی نوحuکی نبوت کا انکار کیا کہا : نوح! ہم تجھے اپنے جیسا بشر ہی دیکھتے ہیں۔ مراد یہ تھی کہ نوحuتخلیق، شکل و صورت اور جنس میں انہی کی طرح کے ایک آدمی ہیں۔ کفار کو یہ بات تسلیم نہیں کہ اللہ اپنی مخلوق کی طرف جنس بشر سے کوئی رسول بھیجے۔'' (تفسیر طبری : ١٢/٣٦)
فرعون اور اس کے حواریوں نے موسیٰ اور ہارون iکے بارے میں کہا تھا :
(أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا) (المؤمنون : ٤٧)
''کیا ہم اپنے جیسے دو بشروں پر ایمان لائیں؟''
بیسیوں احادیث اور آیات قرآنیہ میں صراحت سے اس حقیقت کا بیان موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہی تھے، ذیل میں ان آیات کو ملاحظہ کیجئے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر دلالت کناں ہیں۔


بشریت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے
دلیل نمبر ١:
(قُلْ إِنَّمَآ أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰۤی إِلَيَّ أَنَّمَآ إِلٰھُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ)
(الکھف : ١١٠، حمۤ السجدہ : ٦)
''کہئے کہ میں آپ ہی کے ایسا بشر ہوں، مجھ پر وحی کی جاتی ہے کہ آپ کا معبود ایک ہی ہے۔''
دلیل نمبر ٢:
(قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي ھَلْ کُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلاً) (بني إسرائیل : ٩٣)
''کہئے کہ میں مبعوث کیا ہوابشر ہوں، پاک ہے میرا رب۔''
دلیل نمبر ٣:
(لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَئنْفُسِھِمْ) (آلِ عمران : ١٦٤)
''اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان انہی کی جنس سے ایک رسول بھیج کر کیا۔''
دلیل نمبر ٤:
(لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ) (التوبۃ : ١٢٨)
''آپ کے ہم جنس آپ کے رسول بن کر آئے ہیں۔''
دلیل نمبر ٥:
(وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ یُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَ ہُمُ الْہُدٰی إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُولًا ٭ قُلْ لَّوْ کَانَ فِي الْ
ـأَرْضِ مَلَائِکَۃٌ یَّمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَّسُولًا)
(بني إسرائیل : ٩٤، ٩٥)
''جب وحی کا نزول ہوا، تو اسی باعث لوگوں نے ایمان قبول نہیں کیا کہ وہ کہتے تھے کہ کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا دیا ہے؟ کہئے کہ فرشتے اگر زمین میں مطمئن ہو کر چلا کرتے، توہم آسمانوں سے ایک فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے۔''
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أَيْ مِنْ جِنْسِہِمْ، وَلَمَّا کُنْتُمْ أَنْتُمْ بَشَرًا بَعَثْنَا فِیکُمْ رُسُلَنَا مِنْکُمْ لُطْفًا وَّرَحْمَۃً .
''مطلب یہ کہ فرشتوں کی جنس سے ایک رسول آتا، لیکن آپ بشر تھے، اس لئے اللہ نے اپنے فضل وکرم سے آپ کی طرف آپ کا ہم جنس رسول بھیج دیا۔''
(تفسیر ابنِ کثیر : ٤/١٧٤)
دلیل نمبر ٦:
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُؤْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُوا عِبَادًا لِّي مِنْ دُونِ اللّٰہِ) (آل عمران : ٧٩)
''کسی بشر کو یہ زیبا نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب وحکمت اور نبوت دے، پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کوچھوڑ کر میری بندگی کرو۔''
دلیل نمبر ٧:
فرمان باری تعالیٰ ہے :
(قۤ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ ٭ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ فَقَالَ الْکَافِرُونَ ہٰذَا شَيْءٌ عَجِیبٌ) (ق : ١، ٢)
''ق! قسم ہے قرآنِ مجید کی، بلکہ انھوں نے تعجب کیاکہ ان کے پاس انہیں کا ہم جنس ایک ڈرانے والا آیا، کافر کہنے لگے، یہ تو عجیب بات ہے۔''
''انہی میں سے'' کے الفاظ سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے ، انہی کی جنس سے تھے۔ تبھی تو مشرکین کو تعجب ہوا کہ ہم میں سے ایک انسان نبوت کا دعویدار کیسے بن گیا؟ بشر کیسے اللہ کا رسول ہو سکتا ہے؟
دلیل نمبر ٨:
فرمایا :
(أَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ) (یونس : ٢)
''یہ بات لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے کہ انہی کے ہم جنس کی طرف ہم نے وحی نازل کی؟''
دلیل نمبر٩:
مشرکین مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر رسول ہونے پر شک کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں سمجھایا :
(وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَیْہِمْ فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ) (النحل : ٤٣، الأنبیاء : ٧)
''آپ سے قبل بھی تو ہم نے آدمی ہی رسول بنائے تھے، ہم ان کی طرف وحی کرتے تھے۔نہیں معلوم ، تو اہل ذکر سے پوچھ لیجئے۔''
دلیل نمبر١٠:
دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاo بشر ہی تھے۔ یہ اللہ کا قانون ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان ہی نبی ہو سکتا ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیلاً) (الأحزاب : ٦٢)
''آپ اللہ کے قانون کو تبدیل ہوتا نہیں پائیں گے۔''
لہٰذا بشر کا رسول ہونا، اللہ کا قانون ہے، یہی قانون نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی لاگو ہوا۔
دلیل نمبر١١:
فرمان باری تعالیٰ ہے :
(کَمَا أَرْسَلْنَا فِیکُمْ رَسُولًا مِّنْکُمْ یَتْلُوا عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا) (التوبۃ : ١٥١)
''جیسے ہم نے آپ کے ہم جنس کو رسول بنا کر بھیجا، وہ آپ پر ہماری آیات تلاوت کرتا ہے۔''
دلیل نمبر ١٢:
فرمان خداوندی ہے :
(وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَيْئٍ)
''انہوں نے اللہ کی قدر اس طرح نہیں کی جس طرح اس کا حق تھا، کہتے رہے کہ اللہ نے بشر پر تو کوئی شے نازل ہی نہیں کی۔''
پھر فرمایا :
(قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِہٖ مُوسٰی نُورًا وَّہُدًی لِلنَّاسِ) (الأنعام : ٩١)
''کہئے کہ انسا نوں کے لئے ہدایت اور نور ، وہ کتاب کس نے نازل کی تھی، جو موسیuلے کر آئے تھے؟''
دلیل نمبر ١٣:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّۃً وَّمَا کَانَ لِرَسُولٍ أَنْ یَأْتِيَ بِآیَۃٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰہِ لِکُلِّ أَجَلٍ کِتَابٌ)
(الرعد : ٣٨)
''آپ سے قبل ہم نے رسولوں کو بھیجا، انہیں بیوی بچوں والا بنایا، کسی رسول کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ اذن الٰہی کے بغیر کوئی نشانی لے آتا، ہر مقررہ وقت کے لئے ایک کتاب ہے۔''
امام طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں :
یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہ، : وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا یَا مُحَمَّدُ! رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ إِلٰی أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِ أُمَّتِکَ، فَجَعَلْنَاہُمْ بَشَرًا مِّثْلَکَ، لَہُمْ أَزْوَاجٌ یَّنْکِحُونَ وَذُرِّیَّۃٌ أَنْسَلُوہُمْ، وَلَمْ نَجْعَلْہُمْ مَلَائِکَۃً لَّا یَأْکُلُونَ وَلَا یَشْرَبُونَ وَلَا یَنْکِحُونَ، فَنَجْعَلُ الرَّسُولَ إِلٰی قَوْمِکَ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مَثْلَہُمْ وَلٰکِنْ أَرْسَلْنَا إِلَیْہِمْ بَشَرًا مِّثْلَہُمْ، کَمَا أَرْسَلْنَا إِلٰی مَنْ قَبْلَہُمْ مِنْ سَائِرِ الْ
ـأُمَمِ بَشَرًا مِّثْلَہُمْ .
''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے محمد! یقینا ہم نے آپ سے قبل ان امتوں کی طرف رسول بھیجے تھے، جو آپ کی امت سے پہلے ہو گزری ہیں۔ ہم نے انہیںآپ کی طرح بشر ہی بنایا تھا، ان کی بیویاں تھیں جن سے انہوں نے نکاح کیے اور ان کی اولاد تھی جن سے ان کی نسل چلی۔ ہم نے انہیں فرشتے نہیں بنایا تھا کہ وہ نہ کھاتے پیتے اور نہ نکاح کرتے۔ ایسا اگر ہوتا تو ہم پہلی قوموں کی طرح آپ کی قوم کی طرف بھی فرشتوں میں سے رسول بھیجتے۔ لیکن ہم نے آپ کی قوم کی طرف ان جیسا ایک بشر بھیجا ہے جیسا کہ پہلی امتوں کی طرف ان کی طرح کے بشر ہی رسول بن کر آتے رہے۔''
(تفسیر الطبري : ١٣/٢١٦)
دلیل نمبر ١٣:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَّا یَلْبِسُونَ)
(الأنعام : ٩)
''اگر ہم نے نبوت کسی فرشتے کو دی ہوتی، تو اسے بھی آدمی ہی کی شکل میں بھیجتے، ہم ان پر یہ شبہ قائم رکھتے، جس میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں۔''











حدیثی دلائل

دلیل نمبر ١:
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کسرٰی کے ترجمان سے کہا :
بَعَثَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْ
ـأَرَضِینَ تَعَالٰی ذِکْرُہ، وَجَلَّتْ عَظَمَتُہ، إِلَیْنَا نَبِیًّا مِنْ أَنْفُسِنَا نَعْرِفُ أَبَاہُ وَأُمَّہ، .
''زمین و آسمان کے رب نے ہماری طرف ہماری جنس سے ایک نبی بھیجا ہے ، جن کے والدین کو ہم جانتے ہیں ۔''
(صحیح البخاري : ١/٤٤٧، ح : ٣١٥٩)
دلیل نمبر ٢:
ابو جمرہ نصر بن عمران کہتے ہیں کہ سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ہمیں کہا ، میں آپ کو ابوذر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کی خبر نہ دوں ؟ عرض کی ، ہاں ! کہا ، میں غفار قبیلے کا فرد تھا :
فَبَلَغَنَا أَنَّ رَجُلاً قَدْ خَرَجَ بِمَکَّۃَ یَزْعُمُ أَنَّہ، نَبِيٌّ .
''ہمیں خبر پہنچی کہ مکہ میں ایک آدمی ظاہر ہوا ہے، جو نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے۔''
میں نے اپنے بھائی (انیس غفاری )سے کہا ، اس آدمی کے پاس جائیں اور اس سے بات چیت کریں ، اس کی خبر لائیں ، وہ چلا گیا اور آپ سے ملاقات کی ، پھر واپس آیا ، میں نے کہا ، کیا خبر ہے ؟ کہا:
وَاللّٰہِ لَقَدْ رَأَیْتُ رَجَلاً یَّأْمُرُ بِالْخَیْرِ وَیَنْہٰی عَنِ الشَّرِّ .
''بخدا! ایک آدمی کو دیکھا ، جوخیر و بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتاہے۔''
(صحیح البخاري : ١/٤٩٩، ح : ٣٥٢٢، صحیح مسلم : ٢/٢٩٧، ح : ٢٤٧٤)
دلیل نمبر ٣:
عروہ بن زبیر نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے اس مشرکین کے اس رویے بابت سوال کیا، جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روا رکھا تھا۔کہنے لگے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحن کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اوراپنا کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں ڈال کر سختی سے گلا دبانے لگا ، سیدنا ابو بکر تشریف لا ئے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کر دیا اور یہ آیت تلاوت فرمائی :
(أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ یَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰہُ وَقَدْ جَاءَ کُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَّبِّکُمْ) (المؤمن : ٢٨)
''اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے، وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانیاں لے کر آیا ہے۔''
(صحیح البخاري : ٢/٧١١۔٧١٢، ح : ٤٨١٥)
دلیل نمبر ٤:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سنا :
اللّٰہُمَّ ! إِنَّ مُحَمَّدًا بَشَرٌ یَّغْضَبُ کَمَا یَغْضَبُ الْبَشَرُ .
''اللہ! (میں) محمد یقینا بشر ہوں، اسے بھی ایک بشر کی طرح غصہ آجاتا ہے۔''
(صحیح مسلم : ٢/٣٢٤، ح : ٢٦٠١)
دلیل نمبر ٥:
سیدہ ام سلمہ rبیا ن کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
''میں تو بس بشر ہوں ،آپ میرے پاس مقدمات لاتے ہو ، ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے دلائل دعوی کے نشیب و فراز کو دوسرے کی نسبت زیادہ سمجھ داری سے پیش کرے، میں (بالفرض) دلائل سن کر اس کے حق میں فیصلہ سنا دوں، (یاد رکھو) جسے میں اس کے بھائی کا معمولی سا حق بھی دے دوں، وہ اسے نہ لے، یقینا میں نے اسے آگ کا ٹکڑا دیا ہے۔''
(صحیح البخاري : ٢/١٠٦٢، ح : ٧١٦٩، صحیح مسلم : ٢/٧٤، ح : ١٧١٣)
دلیل نمبر ٦:
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے اجتماع سے خطاب فرمایا :
یَآ أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَّرَسُولُ اللّٰہِ .
''لوگو! میں بشر ہوں اور اللہ کا رسول ہوں ۔''
(مسند الإمام أحمد : ٥/١٦، الطبرانی : ٦٧٩٧۔٦٧٩٩، المستدرک للحاکم : ١/٣٢٩۔٣٣٠ واخرجہ ابوداؤد : ١٨٤ والنسائی : ١٤٨٤والترمذی : ٥٦٢ مختصراً وقال : حسن صحیح، وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ (١٣٩٧)، امام ابنِ حبان (٢٨٥٦)نے ''صحیح '' اور حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر '' صحیح '' کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
ثعلبہ بن عباد عبدی '' موثق حسن الحدیث '' ہے ، امام ابنِ خزیمہ ، امام ترمذی ، امام ابنِ حبان اور حاکم نے اس کی حدیث کی تصحیح کر کے اس کی توثیق کی ہے ۔
دلیل نمبر ٧:
ابو رمثہ کہتے ہیں، میں اپنے والد گرامی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا ،میرے باپ نے کہا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے :
وَکُنْتُ أَظُنُّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا لَّا یَشْبَہُ النَّاسَ، فَإِذَا بَشَرٌ .
''میں سمجھتا تھا کہ آپ عام لوگوں جیسے نہیںہوں گے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو بشر تھے۔''
آپ کے بال کانوں سے ملے ہوئے تھے ، ان پر مہندی لگی تھی ، دو سبز چادریں آپ کے بدن اطہر پر تھیں ، ابا جی نے آپ کو سلام کہا ، ہم بیٹھ گئے ، تھوڑی دیر باتیں کیں تو آپ نے پوچھا ، یہ آپ کا بیٹا ہے ؟ کہا ،جی ہاں ، کعبہ کے رب کی قسم ! یہ میر ا بیٹا ہے ،فرمایا ، واقعی آپ کا بیٹا ہے
ـ؟تو میرے باپ نے کہا ، میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اپنے باپ کے ساتھ مشابہت دیکھی اور میرے باپ کی قسم دیکھی تو مسکر دئیے۔پھر یہ آیت پڑھی :
(وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰی)
(الأنعام : ١٦٤،الاسراء : ١٥، فاطر : ١٨، الزمر : ٧)
''کوئی جان دوسری جا ن کا بوجھ نہیں اٹھا تی ۔''
(مسند الإمام أحمد : ٢/٢٢٦،٢٢٨ زوائد مسند الإمام أحمد : ٢/٢٢٧،٢٢٨، وسندہ صحیحٌ)
امام حاکم (٢/٤٢٥)نے اس کو ''صحیح الاسناد ''کہا ہے ۔
دلیل نمبر ٨:
سیدنا رافع بن خدیج انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، إِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَيْءٍ مِّنْ دِینِکُمْ فَخُذُوا بِہٖ وَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَيْءٍ مِّنْ رَأْیِي فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ .
''میں یقینا بشر ہوں، آپ کو دین کے کسی کا م کا حکم دوں، تو اسے مضبوطی سے تھام لیجئے اور جب اپنی رائے سے کوئی حکم دوں، تو میں ایک بشر ہوں۔''
(صحیح مسلم : ٢/٢٦٤، ح : ٢٣٦٢)
دلیل نمبر ٩:
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات سنتا، وہ حفظ و ضبط کے ارادے سے لکھ لیتا تھا ،مجھے تمام قریشیوں نے منع کیا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات نہ لکھا کیجئے، آپ بشر ہیں، کبھی غصہ میں ہوتے ہیں، کبھی خوش۔ میں نے حدیث کو لکھنا چھوڑ دیا، اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے انگلی سے منہ کی طرف اشارہ کیااور فرمانے لگے، لکھا کیجئے! قسم اس ذات کی!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس منہ سے صرف حق نکلتا ہے۔''
(مسند الامام أحمد : ٢/١٦٢، سنن أبی داؤد : ٣٦٤٦، سنن الدارمي : ٤٩٠، المستدرک للحاکم : ١/١٠٥۔١٠٦، وسندہ صحیحٌ، وأخرجہ أحمد : ٢/٢٠٧، مسند البزار : ٢٤٧٠، تاریخ أبي زرعۃ الدمشقي : ١٥١٦، الصحابۃ لأبي القاسم البغوي : ١٤٧٢، جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر : ١/٨٤۔٨٥، وسندہ حسنٌ، التقیید للخطیب : ٨٠، وسندہ حسنٌ)
دلیل نمبر ١٠:
قاسم بن محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہr سے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امور ِ خانہ کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا :
کَانَ بَشَرًا مِّنَ الْبَشَرِ، یَفْلِي ثَوْبَہ،، وَیَحْلِبُ شَاتَہ،، وَیَخْدِمُ نَفْسَہ، .
''آپ جنس بشر سے تھے، اپنے کپڑوں سے جوئیں تلاش کرتے، اپنی بکریوں کادودھ دوہتے اور اپنے کام خود کرتے تھے ۔''
(مسند الإمام أحمد : ٦/٢٥٦، وسندہ حسنٌ، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم : ٨/٣٣١ عن عمرۃ وسندہ حسنٌ، وصححہ ابن حبان : ٥٦٧٤، الشمائل للترمذي : ٣٤٣، الأدب المفرد للبخاري : ٥٤١، شرح السنۃ : ٣٦٧٦، وہو حسنٌ)
دلیل نمبر ١١:
ابو رِمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ مَعَ أَبِي وَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي ظِلِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ لِي : أَرَأَیْتَ الرَّجُلَ الَّذِي فِي ظِلِّ الْکَعْبَۃِ ؟ ذَاکَ رَسُولُ اللّٰہِ .
''میں اپنے والد کے ہمراہ مسجد ِ(حرام )میں داخل ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے، میرے والد نے کہا، وہ سائے میں بیٹھے شخص کو دیکھا ہے؟ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔''
(مسند الإمام أحمد : ٤/١٦٣، زوائد مسند الإمام أحمد : ٢/٢٢٧، المعجم الکبیر للطبراني : ٢٢/٢٨٢، وسندہ صحیحٌ)
دلیل نمبر ١٢:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللّٰہُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِّنَ الْمُسْلِمِینَ سَبَبْتُہ،، أَوْ لَعَنْتُہ،، أَوْ جَلَدتُّہ،، فَاجْعَلْہَا لَہ، زَکَاۃً وَّرَحْمَۃً .
''اللہ! یقینا میں ایک بشر ہوں، میں کسی مسلمان کو برا بھلا کہہ دوں، اس پرلعنت کروں یا کوڑے مار دوں، تو اس کے لئے پاکیزگی اور رحمت بنا دینا۔''
(صحیح مسلم : ٢/٣٢٤، ح : ٢٦٠١)
دلیل نمبر ١٣:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ یَکُونُ أَلْحَنَ بِحُجَّتِہٖ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَیْتُ لَہ، مِنْ حَقِّ أَخِیہِ شَیْئًا، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَہ، قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ .
''بلاشبہ میں ایک بشر ہوں۔ ممکن کہ کوئی شخص فصاحت سے اپنا مقدمہ بیان کر لیتا ہو، چنانچہ میں اپنے فیصلے میں جسے اس کے بھائی کا حصہ دے دوں، تو یقینا میں اسے آگ کا ٹکڑا دوں گا۔''
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ٧/٢٣٤، مسند الإمام أحمد : ٢/٢٣٢، سنن ابن ماجہ : ٢٣١٨، مسند أبي یعلی : ٥٩٢٠، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (٥٠٧١)ے ''صحیح'' کہا ہے ۔
بوصیری کہتے ہیں :
ہٰذَا إِسْنَادٌ صَحِیحٌ .
''یہ سند صحیح ہے ۔''
(مصباح الزجاجۃ للبوصیري : ح :٨٢٠)
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) لکھتے ہیں :
وَفِي ہٰذَا الْحَدِیثِ مِنَ الْفِقْہِ أَنَّ الْبَشَرَ لَا یَعْلَمُونَ مَا غُیِّبَ عَنْہُمْ وَسُتِرَ مِنَ الضَّمَائِرِ وَغَیْرِہَا لِأَنَّہ، قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي ہٰذَا الْحَدِیثِ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَي إِنِّي مِنَ الْبَشَرِ وَلَا أَدْرِي بَاطِنَ مَا تَتَحَاکَمُونَ فِیہِ عِنْدِي وَتَخْتَصِمُونَ فِیہِ إِلَيَّ وَإِنَّمَا أَقْضِي بَیْنَکُمْ عَلٰی ظَاہِرِ مَا تَقُولُونَ وَتُدْلُونَ بِہٖ مِنَ الْحِجَاجِ فَإِذَا کَانَ الْ
ـأَنْبِیَاءُ لَا یَعْلَمُونَ ذٰلِکَ فَغَیْرُ جَائِزٍ أَنْ یَصِحَّ دَعْوٰی ذٰلِکَ لِأَحَدٍ غَیْرِہِمْ مِنْ کَاہِنٍ أَوْ مُنَجِّمٍ وَإِنَّمَا یَعْلَمُ الْـأَنْبِیَاءُ مِنَ الْغَیْبِ مَا أُعْلِمُوا بِہٖ بِوَجْہٍ مِنْ وُجُوہِ الْوَحْیِ .
''اس حدیث میں یہ فقاہت ہے کہ بشر غیب چیزوں اورمستور حقائق کو نہیں جانتے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ فرمایا ہے کہ میں جنس بشر میں سے ہوں ، میں ان جھگڑوں کی باطنی صورت ِ حال نہیں جانتا ، میں توظاہری بات چیت اور گفتگو کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں ۔ جب انبیاء غیب نہیں جانتے تو کسی اور انسان مثلاً کاہن ،نجومی ، وغیرہ کی طرف سے یہ غیب جاننے کا دعویٰ قطعاً درست نہیں ؟ انبیا صرف وہی غیب جانتے ہیں، جس کی انہیں وحی کے کسی طریقے سے خبر دے دی گئی ہو ۔۔۔''
(التمہید لما في المؤطأ من المعاني والأسانید : ٢٢/٢١٢)
دلیل نمبر ١٤ :
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہ وَسَلَّم یَطُوفُ فِي النَّخْلِ بِالْمَدِینَۃِ فَجَعَلَ النَّاسُ یَقُولُونَ : فِیہَا صَاعٌ وَفِیہَا وَسْقٌ، فَقال : رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہ وَسَلَّم فِیہَا کَذَا وَکَذَا قَالُوا : صَدَقَ اللّٰہِ وَرَسُولُہ،، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَمَا حَدَّثْتُکُمْ عَنِ اللّٰہِ فَہُوَ حَقٌّ وَمَا قُلْتُ فِیہِ مِنْ قِبَلِ نَفْسِي فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُصِیبُ وَأُخْطِیءُ .
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے باغ میں چکر لگارہے تھے ۔ لوگ کہنے لگے کہ اس کھجور پر ایک صاع کھجوریں ہیں اوراس پر ایک وسق کھجوریں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس میں اتنی کھجوریں ہیں۔ وہ لوگ کہنے لگے : اللہ اور اس کے رسول نے بالکل سچ فرمایا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقینا میں ایک بشرہوں ۔ جو چیز میں آپ کو اللہ کی طرف سے بتاؤں، وہ حق ہوتی ہے۔ اپنی طرف سے کہوں، تو میں بشر ہوں، غلطی بھی کرتاہوں اور درستی کو بھی پہنچتا ہوں۔''
(مسند البزار : ٤٧٢٦، وسندہ، حسنٌ)
امام بزار رحمہ اللہ کے استاذ اسماعیل بن عبداللہ الاصبہانی ثقہ ، حافظ ، ثبت ہیں
(سیر أعلام النبلاء للذھبي : ١٣/١٠۔١١)
جعفر بن ابی المغیرہ جمہور کے نزدیک ''حسن الحدیث'' ہے ۔ اس کی سعید بن جبیر سے روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ (٢٩٨٠)نے ''حسن''، امام ابن حبان (٤٢٠٢)، امام حاکم(٢/٤٥٣) ، امام ضیاء المقدسی(المختارۃ : ٤/٤٨٤) اورحافظ ذہبی وغیرہمS نے ''صحیح'' کہا ہے ، لہٰذا امام ابن مندہ کی بات بالفرض ثابت بھی ہوجائے، تو اس کا جمہور کے مقابلہ میں کوئی اعتبار نہ ہوگا ۔
دلیل نمبر ١٥:
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَیُّہَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ یُوشِکُ أَنْ یَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِیبَ .
''اما بعد! لوگو! میں یقینا ایک بشر ہوں، جلد ہی میرے پاس میر ے رب کا ایلچی (فرشتہ اجل) آئے گا اور میں اس کے ساتھ چل دوں گا۔''
(صحیح مسلم : ٢/٢٧٩، ح : ٢٤٠٨)
دلیل نمبر ١٧:
سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ یَوْمَ مَاتَ إِبْرَاہِیمُ ابْنُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّاسُ : انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاہِیمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ سَمِعَ ذَلِکَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ، أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاۃِ أَحَدٍ، فَإِذَا رَأَیْتُمْ ذٰلِکَ فَافْزَعُوا إِلَی الْمَسَاجِدِ وَدَمَعَتْ عَیْنَاہُ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ تَبْکِي وَأَنْتَ رَسُولُ اللّٰہِ؟ قَالَ : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ تَدْمَعُ الْعَیْنُ وَیَخْشَعُ الْقَلْبُ وَلَا نَقُولُ مَا یُسْخِطُ الرَّبَّ، وَاللّٰہِ یَا إِبْرَاہِیمُ إِنَّا بِکَ لَمَحْزُونُونَ وَمَاتَ وَہُوَ ابْنُ ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ شَہْرًا، وَقَالَ : إِنَّ لَہ، مُرْضِعًا فِي الْجَنَّۃِ .
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر ابراہیم فوت ہوئے، تو اس دن سورج گرہن ہو گیا، لوگ کہنے لگے کہ یہ گرہن ابراہیم کی موت کی وجہ سے ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا، توباہر تشریف لائے ، اللہ کی حمد وثناکی ، فرمایا : اما بعد! لوگو! سورج اورچاند اللہ کی دونشانیاں ہیں ۔ یہ کسی کی موت یازندگی کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے۔ انہیں جب گرہن دیکھو، تو مسجدوں کی طرف دوڑو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں بہہ پڑیں، صحابہ] نے عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ اللہ کے رسول ہوکر روتے ہیں؟ فرمایا : یقینا میں ایک بشر ہوں، میری آنکھیں بہہ رہی ہیں، دل دہل رہا ہے، لیکن ہم ایسی بات نہیں کہیں گے، جو ربّ تعالیٰ کو ناراض کرے ۔ اللہ کی قسم !ابراہیم !ہم تیری وجہ سے غمگین ہیں۔ ابراہیم اٹھارہ ماہ کی عمر میں فوت ہوگئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت میں اس کے لیے دودھ پلانے والی عورت کا انتظام ہے۔''
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : ١/١٤٢۔١٤٣، وسندہ، حسنٌ)
ائمہ کی تصریحات

1 امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ٣٥٤ھ) فرماتے ہیں :
وَالْمُصْطَفٰی خَیْرُ الْبَشَرِ صَلّٰی، فَسَہَا .
''مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ خیر البشر تھے ، انہوں نے نماز پڑھی اور بھول گئے۔''
(صحیح ابن حبان : ٤٠٧٤)
2 قاضی عیاض رحمہ اللہ (م ٥٤٤ھ)لکھتے ہیں :
مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَائِرُ الْ
ـأَنْبِیَاءِ مِنَ الْبَشَرِ، أُرْسِلُوا إِلَی الْبَشَرِ .
''محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی تمام انبیا بشر تھے، انہیں بشروں کی طرف مبعوث کیاگیا ۔''
(الشفا بتعریف حقوق المصطفٰی للقاضي عیاض : ٢/٩٥)

3 علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قَوْلُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ((إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ)) تَنْبِیہٌ عَلٰی أَنَّ أَصْلَ الْبَشْرِیَّۃِ عَدْمُ الْعِلْمِ بِالْغَیْبِ، وَبِمَا یَخْفٰی مِنَ الْبَوَاطِنِ إِلَّا مَنْ أَطْلَعَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی شَيْءٍ مِّنْ ذٰلِکَ .
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میں بشرہوں، اس بات پر تنبیہ ہے کہ بشریت میں اصل یہ ہے کہ بشر کو غیب اور باطن میں مخفی باتوں کا علم نہیں ہوتا، سوائے ان لوگوں کے، جنہیںاللہ کسی چیز کی اطلاع دے دے۔''
(المفہم : ١٦/٧١، المکتبۃ الشاملۃ)
4 حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں :
وَقَوْلُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ) مَعْنَاہُ التَّنْبِیہُ عَلٰی حَالَۃِ الْبَشَرِیَّۃِ وَأَنَّ الْبَشَرَ لَا یَعْلَمُونَ مِنَ الْغَیْبِ وَبَوَاطِنِ الْ
ـأُمُورِ شَیْئًا إِلَّا أَنْ یُطْلِعَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی شَيْءٍ مِنْ ذٰلِکَ .
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میں بشر ہوں، اس سے مراد بشریت کی حالت پر تنبیہ ہے کہ بشر امور غیب اور باطن سے کچھ نہیں جانتے، سوائے اس صورت کے کہ اللہ انہیں کسی چیز پر مطلع کر دے۔''
(شرح النووي : ٢/٧٤)
5 علامہ عینی حنفی (٨٦٢۔٨٥٥ھ) لکھتے ہیں :
قَوْلُہ، : (إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ) عَلٰی مَعْنَی الْإِقْرَارِ عَلٰی نَفْسِہٖ بِصِفَۃِ الْبَشْرِیَّۃِ مِنْ أَنَّہ، لَا یَعْلَمُ مِنَ الْغَیْبِ إِلَّا مَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ مِنْہُ .
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میں بشر ہوں ، اس بات کا اقرار ہے کہ آپ صفت بشریت سے متصف ہیں اور بشر کچھ بھی غیب نہیں جانتے، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ انہیں بتادے ۔۔۔'' (عمدۃ القاري : ٢٤/٢٤٧)
نیز لکھتے ہیں :
قَوْلُہ، : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ الْبَشَرُ یُطْلَقُ عَلَی الْجَمَاعَۃِ الْوَاحِدِ یَعْنِي : أَنَّہ، مِنْہُم، وَالْمُرَادُ أَنَّہ، مُشَارِکٌ لِّلْبَشَرِ فِي أَصْلِ الْخِلْقَۃِ وَلَو زَادَ عَلَیْہِمْ بِالْمَزَایَا الَّتِي اخْتَصَّ بِہَا فِي ذَاتِہٖ وَصِفَاتِہٖ، وَقَدْ ذَکَرْتُ فِي شَرْحِ مَعَانِي الْآثَارِ وَفِي قَوْلِہٖ : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَي : مِنَ الْبَشَرِ وَلَا أَدْرِي بَاطِنَ مَا یَتَحَاکَمُونَ فِیہِ عِنْدِي وَیَخْتَصِمُونَ فِیہِ لَدَيَّ، وَإِنَّمَا أَقْْضِي بَیْنَکُمْ عَلٰی ظَاہِرِ مَا تَقُولُونَ، فَإِذَا کَانَ الْ
ـأَنْبِیَائُ، عَلَیْہِمُ السَّلَامُ، لَا یَعْلَمُونَ ذٰلِک فَغَیْرُ جَائِزٍ أَنْ تَصِحَّ دَعْوَۃُ غَیْرِہِمْ مِنْ کَاہِنٍ أَوْ مُنَجِّمٍ الْعِلْمَ، وَإِنَّمَا یَعْلَمُ الْـأَنْبِیَاءُ مِنَ الْغَیْبِ مَا أَعْلَمُوا بِہٖ بِوَجْہٍ مِّنَ الْوَحْي .
''فرمانِ نبوی کہ میں بشر ہوں ، بشر کالفظ جماعت اور واحد دونوں پر بولا جاتا ہے ، مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر میں سے ایک فرد ہیں ، یعنی آپ اصل تخلیق میں بشر کے ساتھ مشترک ہیں ، اگرچہ ذات وصفات میں بہت سے خصائص کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام انسانوں سے بڑھ کرہیں ، یہ خصائص شرح معانی الآثار میں مذکور ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میں بشرہوں ، اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں بشر میں سے ہوں آپ کے جھگڑوں کی اصل باطنی حقیقت نہیں جانتا، جن کے بارے میں آپ میرے پاس فیصلے کو آتے ہو، میں ظاہری اقوال کے مطابق فیصلہ کردیتا ہوں۔ انبیا غیب نہیں جانتے، تو کسی کاہن، نجومی وغیرہ کی طرف سے یہ دعویٰ درست ہونا ممکن ہی نہیں۔ انبیا غیب میں سے صرف وہی چیزیں جانتے ہیں، جن کی انہیں وحی کی کسی قسم کے ذریعے خبردے دی گئی ہو۔''
(عمدۃ القاري، تحت الحدیث : ٧١٨١)
6 علامہ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ (٩٥٢۔١٠٣١ھ)لکھتے ہیں :
((إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ))، أَيْ مَقْصُورٌ عَلَی الْوَصْفِ بِالْبَشَرِیَّۃِ بِالنِّسْبَۃِ إِلٰی عَدْمِ الِْاطِّلَاعِ عَلٰی بَوَاطِنِ الْخُصُومِ، ((وَإِنَّکُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ))، فِیمَا بَیْنَکُمْ، ثُمَّ تَرُدُّونَہ، إِلَيَّ، وَلَا أَعْلَمُ بَاطِنَ الْ
ـأَمْرِ .
''میں بشر ہوں'' کا مطلب یہ ہے کہ جھگڑوں کی اصل حقیقت جاننے میں مَیں وصف بشریت پرمقصور ہوں، آپ جھگڑتے ہو، پھراپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو اور میں معاملے کے باطن کو نہیں جانتا ۔۔۔''
(التیسیر بشرح الجامع الصغیر : ١/٧٢٩)
7 حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) فرمانِ باری تعالیٰ : (وَلَا أَقُولُ لَکُمْ إِنِّي مَلَکٌ) ''میں خود کو فرشتہ نہیں کہتا۔'' کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أَيْ وَلَا أَدَّعِي أَنِّي مَلَکٌ، إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّنَ الْبَشَرِ، یُوحٰی إِلَيَّ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، شَرَّفَنِي بِذٰلِکَ، وَأَنْعَمَ عَلَيَّ بِہٖ .
''یعنی میں خود کے فرشتہ ہونے کا دعوی نہیں کرتا، میں تو ایک بشر ہی ہوں، جس کی طرف اللہ کی وحی آتی ہے، اللہ نے یہی شرف مجھے بخشا ہے اور مجھ پہ خاص انعام کیا ہے۔''
(تفسیر ابن کثیر : ٦/٤١، مکتبۃ أولاد الشیخ للتراث)
8 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں :
کُفَّارُ قُرَیْشٍ یَسْتَبْعَدُونَ کَوْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَسُولًا مِّنَ اللّٰہِ لِکَوْنِہٖ بَشَرًا مِّنَ الْبَشَرِ .
''کفار قریش، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کو اس لئے محال جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر میں سے ہیں۔''
(فتح الباري : ١٠/١٩١)
9 حافظ ذہبی رحمہ اللہ (٦٧٣۔٧٤٧ھ) لکھتے ہیں:
النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیِّدُ الْبَشَرِ، وَہُوَ بَشَرٌ، یَأْکُلُ وَیَشْرَبُ وَیَنَامُ وَیَقْضِي حَاجَتَہ، وَیَمْرَضُ وَیَتَدَاوٰی وَیَتَسَوَّکُ، لِیُطَیِّبَ فَمَہ،، فَہُوَ فِي ہٰذَا کَسَائِرِ الْمُؤْمِنِینَ، فَلَمَّا مَاتَ بِأَبِي ہُوَ وَأُمِّي صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُمِلَ بِہٖ کَمَا یُعْمَلُ بِالْبَشَرِ، مِنَ الْغُسْلِ وَالتَّنْظِیفِ وَالْکَفْنِ وَاللَّحْدِ وَالدَّفْنِ .
''نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سید البشر تھے ، آپ بشر تھے ، کھاتے تھے ، پیتے تھے ، سوتے تھے ، قضائے حاجت کرتے تھے ، بیمار ہوتے تھے ، دوائی استعمال کرتے تھے اور اپنے منہ کوصاف کرنے کے لیے مسواک کرتے تھے ۔ ان سب کاموں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی معاملہ کیا گیا، جو بشر کے ساتھ کیا جاتا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا ، کفن دیا گیا ، لحد کھودی گئی اوردفن کیا گیا۔''
(میزان الاعتدال : ٢/٦٤٩، ت : ٥١٨٣)
ملا علی قاری (م ١٠١٤ھ) لکھتے ہیں :
قَالَ الطِّیبِيُّ : ھُوَ کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی : (قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ)، أَيْ کَوْنِي إِمْرَأً مِثْلَکُمْ عِلَّۃً لِّکَوْنِي مََََََََََََََََََََقْبُوضًا، لَا أَعِیشُ أَبَدًا .
''طیبی کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے ، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے : (قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دیجیے کہ میں آپ ہی کے ایسا ایک بشر ہوں۔''
یعنی میرا آپ جیسا بشر ہونا میرے فوت ہونے کی علت ہے کہ میں ہمیشہ نہیں رہوں گا۔''
(مرقاۃ المفاتیح : ٢/١٩٩)

ایک اہم فتوی :
ان دلائل کے بعد ایک انتہائی اہم فتوی ملاحظہ ہو :
فَإِنْ قُلْتَ : ھَلِ الْعِلْمُ بِکَوْنِہٖٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَشَرًا، وَمِنَ الْعَرَبِ، شَرْطٌ فِي صِحَّۃِ الْإِیْمَانِ؟ قَالَ : أَوْ ھُوَ مِنْ فَرْضِ الْکِفَایَۃِ؟ أَجَابَ الشَّیْخُ وَلِيُّ الدِّینِ الْعِرَاقِيُّ بِأَنَّہ، شَرْطٌ فِي صِحَّۃِ الْإِیمَانِ، قَالَ : لَوْ قَالَ شَخْصٌ : أُوْمِنُ بِرِسَالَۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی جَمِیْعِ الْخَلْقِ، وَلٰکِنِّي لَا أَدْرِي ھَلْ ہُوَ مِنَ الْبَشَرِ أَوِ الْمَلَائِکَۃِ، أَوْ مِنَ الْجِنِّ، أَوْ لَا أَدْرِي أَھُوَ مِنَ الْعَرَبِ أَوِ الْعَجَمِ؟ فَلَا شَکَّ فِي کُفْرِہٖ، لِتَکْذِیبِہٖ لِلْقُرْآنِ وَجَحْدِہٖ مَا تَلَقَّتْہُ قُرُونُ الْإِسْلَامِ خَلَفًا عَنْ سَلَفٍ، وَصَارَ مَعْلُومًا بِالضُّرُورَۃِ عِنْدَ الْخَاصِّ وَالْعَامِّ، وَلَا أَعْلَمُ فِي ذٰلِکَ خِلَافًا، فَلَوْ کَانَ غَبِیًّا لَا یَعْرِفُ ذٰلِکَ وَجَبَ تَعْلِیمُہ، إِیَّاہُ، فَإِنْ جَحَدَہ، بَعْدَ ذٰلِکَ حَکَمْنَا بِکُفْرِہٖ .
''اگر آپ یہ کہیں کہ کیا اس بات کا جاننا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشرتھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق عرب سے ہے ، ایمان کی صحت کے لیے شرط ہے یا فرض کفایہ ہے؟ توشیخ ولی الدین العراقی رحمہ اللہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ ایمان کی صحت کے لیے شرط ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں ایمان رکھتا ہوںکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات کے لیے رسول بن کر آئے ہیں ، لیکن میں نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے ، فرشتہ تھے یا جن تھے یا یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق عرب سے ہے یا عجم سے؟ تو اس کے کفرمیں شبہ نہیں، کیونکہ اس نے قرآن کی تکذیب کی ہے اور ایسی چیز کا انکار کیا ہے، جو بعد والے اپنے اسلاف سے سیکھتے چلے آئے ہیں۔ یہ تو خاص وعام جانتے ہیں۔ مجھے اس کے بارے میں اختلاف کا علم نہیں۔ اگر کوئی غبی شخص ایسا کہے، تو اسے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عربی ہونے کی) تعلیم دینا واجب ہے اور اگر پھر بھی انکار کرے، توہم اس پر حکم لگائیں گے کہ وہ کافر ہے۔''
(المواہب اللدنیۃ لأحمد القسطلاني : ٣/١٥٤، تفسیر روح المعاني للآلوسي الحنفي : ٤/١١٣)
فتاوی عالمگیری وغیرہ میں لکھا ہے :
وَلَوْ قَالَ : لَا أَدْرِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِنْسِیًّا أَوْ جِنِّیًّا یُکَفَّرُ .
''اگر کوئی کہے کہ میں نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے یا جن؟ تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔''
(الفتاوی التاتارخانیۃ : ٥/٤٨٠، فتاوی عالمگیری : ٢/٢٦٣)











شبہات کا ازالہ

یہ عقیدہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر سے نہیں، بلکہ نور ہیں، قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، ائمہ اہل سنت والجماعت میں اس کا کوئی بھی قائل نہیں رہا، اس کے ثبوت پر جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں،ان کی حقیقت ملاحظہ ہو:
1 مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں :
''قُلْ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ (بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ) کہنے کی حضور کو اجازت ہے۔''
(مواعظ نعیمیہ، ص ١١٥، جاء الحق : ١/١٧٥)
تبصرہ :
1 قُلْ کا لفظ تو (قُلْ إِنَّمَا إِلٰھُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ) ''کہئے کہ آپ کا الٰہ تو صرف ایک ہی ہے۔'' میں بھی ہے۔ کیا یہ کہنے کی اجازت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو نہیں ؟
امام ابوجعفر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں :
یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہ، : قُلْ لِہٰؤُلَاءِ الْمُشْرِکِینَ یَا مُحَمَّدُ : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ مِنْ بَنِي آدَمَ لَا عِلْمَ لِي إِلَّا مَا عَلَّمَنِيَ اللّٰہُ وَإِنَّ اللّٰہَ یُوحِي إِلَيَّ أَنَّ مَعْبُودَکُمُ الَّذِي یَجِبُ عَلَیْکُمْ أَنْ تَعْبُدُوہُ وَلَا تُشْرِکُوا بِہٖ شَیْئًا، مَعْبُودٌ وَاحِدٌ لَا ثَانِيَ لَہ، .
''اللہ فرماتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مشرکین سے کہہ دیجیے کہ میں بنی آدم میں سے ایک بشرہوں ۔ مجھے اللہ کی بتائی ہوئی باتوں کے سوا کوئی علم نہیں۔ اللہ میری طرف وحی فرماتا ہے کہ جس کی عبادت کرنا اور جس سے شرک نہ کرنا آپ پرواجب ہے ،وہ معبود ایک ہی ہے ، اس کا کوئی ثانی نہیں ۔''
(تفسیر الطبري : ١٨/١٣٥)
نیز لکھتے ہیں :
یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہ، : قُلْ یَا مُحَمَّدُ لِہٰؤُلَاءِ الْمُعْرِضِینَ عَنْ آیَاتِ اللّٰہِ مِنْ قَوْمِکَ : أَیُّہَا الْقَوْمُ، مَا أَنَا إِلَّا بَشَرٌ مِنْ بَنِي آدَمَ .
''اللہ فرماتے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ کی آیات سے اعراض کرنے والے اپنی قوم کے ان لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اے قوم ! میں تو بس آدم کی اولاد میں سے ایک بشر ہی ہوں۔'' (تفسیر الطبری : ٢١/٤٢٩)
صحابہ کرام ] نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہا ہے ، پھر صحابہ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ پھر نعیمی صاحب خود لکھتے ہیں :
''ہم بھی عقیدے کے ذکر میں کہتے ہیں کہ نبی بشرہوتے ہیں ۔''
(جاء الحق از احمد یار خان : ١/١٨٢)
نیز لکھتے ہیں :
''نبی جنس بشر میں آتے ہیں ، جن یا فرشتہ نہیں ہوتے۔''
(جاء الحق از نعیمی : ١/١٧٣)
2 مولانا نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں :
''اللہ تعالیٰ نے خلق کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے جن پاک بندوں کواپنے احکام پہنچانے کے واسطے بھیجا ، ان کو نبی کہتے ہیں ، انبیاء وہ بشر ہیں ، جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے ۔''
(کتاب العقائد از نعیم الدین مراد آبادی بریلوی : ص ٨)
مزید لکھتے ہیں :
''نبی صرف انسانوں میں سے ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی فقط مرد ، کوئی عورت نبی نہیں ہوئی۔۔۔''
(کتاب العقائد : ص ١٢)
3 مولانا امجد علی لکھتے ہیں :
''انبیا سب بشر تھے اورمرد ، نہ کوئی جن نبی ہوا ، نہ عورت۔''
(بہار شریعت : ١/٨)
یاد رہے کہ بہار ِ شریعت کا یہ حصہ مولانا احمدرضاخان صاحب کا تصدیق شدہ ہے ۔
4 مولانانعیم الدین مرادآبادی سورہئ ہود کی آیت ٢٧ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
''(بشر کو نبی نہ ماننا ۔ازناقل)اس گمراہی میں بہت سی امتیں مبتلاہوکر اسلام سے محروم رہیں ۔ قرآنِ پاک میں جابجا ان کے تذکرے ہیں ۔ امت میں بھی بہت سے بدنصیب سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا انکار کرتے اور قرآن وحدیث کے منکرہیں ۔''
(خزائن العرفان از نعیم الدین مراد آبادي : ٣٢٤، مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ)
تعجب :
مولانا مراد آبادی کی تفسیر ''ضیاء القرآن'' لاہور وغیرہ نے ان کی وفات کے بعد شائع کی تو مذکورہ عبارت یوں تبدیل کردی :
''اس گمراہی میں بہت سے بدنصیب سیدالانبیا کوبشر کہتے اور ہمسری کا خیالِ فاسد رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں گمراہی سے بچائے۔''
(خزائن العرفان از مراد آبادی : ٤٠٣، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز ، لاہور)
قارئین کرام ! کیا اسے علمی دیانت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟
جسارت :
مولانااحمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں :
''نیز اس آیت (قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ) میں کفار سے خطاب ہے، چونکہ ہر چیز اپنی جنس سے نفرت کرتی ہے، لہٰذا فرمایا گیا کہ اے کفار! تم مجھ سے گھبراؤ نہیں، میں تمہاری جنس سے ہوں، یعنی بشر ہوں۔ شکاری جانوروں کی سی آواز نکال کرشکار کرتا ہے، اس سے کفار کو اپنی طرف مائل کرنا مقصود ہے ۔ ''
(جاء الحق : ١/١٧٦)
تبصرہ :
1 کیا مشرکین مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیرجنس سمجھ کر بھاگتے تھے؟
2 یہ بات تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیا نے بھی فرمائی تھی۔ کیا ان کا بھی یہی مقصد تھا؟
3 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ] سے فرمایا:
وَلٰکِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ، أَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِیتُ فَذَکِّرُونِي .
''لیکن میں آپ کا سا بشر ہوں، آپ کی طرح بھول جاتا ہوں، جب میں بھول جاؤں، تو مجھے یاد کروا دیا کریں۔''
(صحیح البخاري : ١/٥٨، ح : ٤٠١، صحیح مسلم : ١/٢١٢، ح : ٥٧٢)
یہاں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ ] سے فرمارہے ہیں کہ میں آپ جیسا بشر ہوں۔ کفار کا نظریہ تھاکہ بشریت رسالت کے منافی ہے ، دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ کفار کے بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے اور ان کے نزدیک بشر رسالت کے منصب پرفائز نہیں ہوسکتا تھا ۔ اس کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تھی ، لیکن نعیمی صاحب نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔ وائے حیرت!
اس پر بھی غو ر کیجئے کہ کفا ر نے جب کہا کہ نبوت بشریت کے منافی ہے، تو اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بشریت کی نفی نہیں کی، بلکہ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبی بھی بشر تھے ۔ زمین پر انسان بستے ہیں ، لہٰذا انسانوں کی رہنمائی کے لیے انسان ہی مبلغ ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ نبوت سے بھی اسی حقیقت کا اعلان کروایا ۔
4 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگربشری لبادہ اوڑھ کر آئے اور جنس کے اعتبار سے نور تھے تو یہ حقیقت مخفی کیوں رکھی گئی، اس کے بیان کرنے میںآخر مانع کیا تھا ؟ پھر سیدنا ابراہیم u کی دعا : (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ) کا کیا مطلب ہے ؟ اور اللہ کے ارشاد : (لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِہِمْ) کا کیا معنی اور فرمانِ الٰہی : (لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ) کا کیا مفہوم؟
5 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نورتھے ، بشریت کے لبادے میں آئے ، اس پر دلیل کیا ہے ؟
خود نعیمی صاحب نے لکھا ہے کہ :
''عقائد میں تخمینے ، قیاس، اٹکل کافی نہیں، اس کے لیے یقینِ شرعی درکار ہے ۔''
(تفسیر نور العرفان : ٢٣٤، ٣٣٨، ٧٨٢)
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہئے کہ میں بس آپ جیسا بشر ہوں ، میرے پاس وحی آتی ہے کہ آپ کا معبود ایک ہی معبود ہے ، یعنی میں بھی بشرہوں ، آپ بھی بشرہیں، میں آپ کا ہم جنس ہوں، میرارتبہ اورمقام بلند ہے ، کیونکہ میرے ربّ نے مجھے نبوت ورسالت سے نواز کر لازوال اعزاز بخشا ہے ۔
کہ اولاد ِ آدم میں اعلیٰ وارفع ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے ۔ اس بات میں کسی تاویل وانکار کی گنجائش نہیں ۔ إِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہ، !
کمال تو اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبشر مان کر سید الانبیا والمرسلین، سید ولد آدم فی الدنیا والآخرہ اوررحمۃ للعالمین مانا جائے، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی حیثیت ختم ہو کررہ جائے گی۔
مولانانعیمی صاحب آیت کا ایک جواب یہ دیتے ہیں کہ :
''قرآنِ کریم میں ہے : (مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فَیْہَا مِصْبَاحٌ) ربّ کے نور کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک طاق کہ اس میں ایک چراغ ہے ۔ اس آیت میں بھی کلمہ 'مثل' ہے، توکیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ نور ِ خدا چراغ کی طرح روشن ہے؟ '' (جاء الحق : ١/١٧٧)
یہاں اللہ کا وصفی نور مراد نہیں ہے، بلکہ وہ نور مراد ہے، جو اللہ اپنے مؤمن بندے کے دل میں اپنی معرفت ومحبت اورایمان وذکر کے سبب سے ودیعت فرمادیتے ہیں ۔ یہ نور مخلوق ہے ، لہٰذا یہاں مخلوق کو تشبیہ مخلوق سے دی جارہی ہے ، نہ کہ اللہ کے وصفی نور سے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے اہل ایمان کے دلوں میں جو نور پیدا کیا ہے، وہ چراغ کے نور سے زیادہ قوی ہے، جبکہ تشبیہ میں قاعدہ یہ ہے کہ مشبہ بہ ، مشبہ کی نسبت اقویٰ ہوتا ہے؟
تو جواب یہ ہے کہ کبھی کبھی مشبہ بہ ، مشبہ کی نسبت مشہور ہوتا ہے، اس وجہ سے جو مشہور ہو ، اسے مشبہ بہ بنا دیا جاتا ہے ، اگرچہ وہ اس کی نسبت قوی نہ بھی ہو، کیونکہ سارے لوگ اس کوجانتے ہیں۔ ادھر بھی اسی طرح ہے ۔
مولانااحمدیارخان نعیمی لکھتے ہیں :
''قرآن میں ہے : (وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِي الْ
ـأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُکُمْ) نہیں ہے کوئی جانور زمین میں ، نہ کوئی پرندہ جو اپنے بازؤوںسے اڑتا ہو ، مگر وہ تمہاری طرح امتیں ہیں ۔
یہاں بھی کلمہ 'مثل' موجود ہے توکیا یہ کہنا درست ہوگا کہ ہرانسان گدھے ، اُلُّو جیسا ہے؟''
(جاء الحق : ١/١٧٧)
جواب یہ ہے کہ گروہ اورامت ہونے میں دونوں برابر ہو، یعنی جس طرح آپ ایک امت ہو ، اسی طرح وہ بھی ایک امت ہیں ۔ واضح رہے کہ (إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ) میں اس بات کی تصریح کردی گئی ہے کہ میں آپ جیسا بشر ہوں ، اگر إِنَّمَا أَنَا مِثْلُکُمْ ہوتا تو یہ گمان واقع ہوسکتا تھا کہ میں آپ جیسا ہوں، نہ معلوم مماثلت کس چیز میں ہے؟ بشر کے لفظ سے تصریح کردی گئی ہے کہ مماثلت بشریت میں ہے ، کسی اورچیز میں نہیں، فرق یہ ہے کہ (یُوْحٰی إِلَيَّ) یعنی میری طرف وحی کی جاتی ہے اور آپ کی طرف وحی نہیں آتی ۔
مولانانعیمی لکھتے ہیں :
''إِنَّمَا کا حصر اضافی ہے، نہ کہ حقیقی ، یعنی میں نہ خداہوں، نہ خداکا بیٹا، بلکہ تمہاری طرح خالص بندہ ہوں۔'' (جاء الحق : ١/١٧٧)
جواب یہ ہے کہ مخاطبین کا یہ نظریہ وعقیدہ نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بیٹے ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اللہ ہیں ، بلکہ یہ بات تو ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی ۔ یہاں تومعاملہ برعکس ہے ، مخاطبین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر سمجھتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بشریت کی نفی نہیں کی ، بلکہ فرمایا کہ میں بشرہی ہوں ، البتہ مجھ پر وحی آتی ہے ، جو آپ کے پاس نہیں آتی ۔
جناب احمدیار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں :
''روزہئ وصال کے بارے میں حضور نے فرمایا : أَیُّکُمْ مِثْلِي تم میں ہم جیسا کون ہے؟'' (جاء الحق : ١/١٧٨)
اس کاجواب یہ ہے کہ یہاں قوت وطاقت میں مماثلت کی نفی ہے کہ آپ طاقت میں میری مثل نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ بھی بیان کردی کہ میرا ربّ مجھے روزے کی حالت میں ہی کھلاتا پلاتا رہتا ہے ، اس سے جنسِ بشریت کی نفی کیسے ہوگئی ؟
بعض حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پیش کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت سے انکار کرتے ہیں،ان کی جناب میں عرض ہے کہ نبی سے معجزات کاصادر ہونا اعلام ِ نبوت میں سے ہے ، معجزہ تائید ِ الٰہی ہوتا ہے ، اس سے بشریت کی نفی نہیں ہوتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبشرتسلیم کرکے معجزات کوماننا درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال کو تسلیم کرنا ہے ۔ معجزات تو پہلے نبیوں سے بھی صادر ہوئے تھے ، کیا وہ بھی بشریت سے خارج تھے ؟
مولانا احمدیار خان نعیمی لکھتے ہیں :
''اس طرح کہ اس آیت میں ہے : (بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ) یہ نہیں ہے کہ إِنْسَانٌ مِثْلُکُمْ ، بشر کے معنی ہیں ذو بشرۃ۔''
(جاء الحق : ١/١٧٨)
اگر إِنْسَانٌ مِثْلُکُمْ فرمایا جاتا تو مطلب یہ تھا کہ انس کرنے والا ہوں، آپ جیسا۔ یہاں تشبیہ انس میں آ جاتی۔ اس سے جنسیت کا پتا نہ چلتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں یا کوئی اور جنس۔ بشر سے تنصیص وتصریح آگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنس بشر ہے ، جیسا کہ آدمu کو ''ابوالبشر'' کہا جاتا ہے، ''ابو الانسان'' کوئی نہیں کہتا۔ اسی طرح سیدنانوحu کو ''ابو البشر ثانی'' کہا جاتا ہے، ''ابو الانسان ثانی'' کوئی نہیں کہتا ۔
نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کی بنیاد پر بشریت کی نفی کی جاتی ہے، یہ بھی غلط ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نبی کو خصائص عطا کر کے اس کی تائید کرتا ہے۔ پہلے انبیا کے بھی خصائص تھے، کیا وہ بھی بشریت سے خارج سمجھے جائیں گے ؟ کیا ان کے نزدیک نبی اورعام انسان میں کوئی فرق نہیں ؟ بعض خصائص کی بنا پر جنس مختلف نہیں ہوتی۔
یہ نظریہ بے حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور کا حصہ ہیں، انسانی شکل میں متشکل ہو کر آئے ، جنس بشر سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔
کیوں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں، توسیدہ عائشہr اور دیگر ازواجِ مطہرات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح کیسا؟ مولانا نعیمی نے لکھا ہے کہ :
''دنیا میں نکا ح کے لیے جنسیت ضروری ہے ۔''
(تفسیر نور العرفان، ص ٧٩٤)
نعیمی صاحبلکھتے ہیں :
''ہاروت ، ماروت دوفرشتے ہیں ، جو تمام فرشتوں سے زیادہ عابد وزاہد تھے ۔ ایک دفعہ بشکل انسانی دنیا میں قاضی وحاکم بنا کر بھیجے گئے ۔ ایک عورت زہرہ کا مقدمہ پیش ہوا ، جس پر یہ عاشق ہوگئے اور اس کے عشق میں بہت گناہ کر بیٹھے۔ ادریس u کا زمانہ تھا ۔ ان کے وسیلے سے توبہ توقبول ہوئی ، مگر بابل کے کنوئیں میں قید کردئیے گئے اورانہیں جادو کی تعلیم کے لیے مقرر کردیا گیا ۔ پتا لگا کہ نورانی فرشتے جب شکل انسانی میں آئیں تو ان میں کھانے پینے ، بلکہ جماع کرنے کی قوتیں پیدا ہوسکتی ہیں ۔۔۔ لہٰذا حضور بھی اللہ کے نور ہیں ، مگر بشری لباس میں آئے تو کھاتے ، پیتے ، سوتے ، جاگتے تھے۔''
(تفسیر نور العرفان، ص ٢٤)
یہ اسرائیلی روایات ہیں نصوص شریعت کے خلاف ہیں ، لہٰذا ہم ان کی تکذیب کرتے ہیں ۔ قرآن میں تو ہے کہ فرشتے سیدنا ابراہیمuکے مہمان ہوئے۔
ابراہیم u ان کے لیے بچھڑا بھون کر لائے تو انہوں نے کھانے سے انکار کردیا ۔ جب آپuاس بات سے پریشان ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ ہم اللہ کے فرشتے ہیں ۔
(ہود : ٦٩۔٧٠)
معلوم ہوا کہ جب فرشتے ، بشری لبادے میں آئیں توبھی کھانے، پینے اور دیگر انسانی لوازمات کی احتیاج نہیں رکھتے ۔
مولانا نعیمی مزید لکھتے ہیں :
''ان کو بشریا انسان کہہ کر پکارنے یا حضور uکو یا محمد یا کہ اے ابراہیم کے باپ یا اے بھائی باوا وغیرہ برابری کے الفاظ سے یاد کرنا حرام ہے۔''
(جاء الحق : ١/١٧٣)
ہم بھی مذکورہ الفاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا درست اورجائز نہیں سمجھتے ، کیونکہ ان میں کوئی امتیازی وصف نہیں پایا جاتا ، ویسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باعتبار ِ جنس بشر ہی ہیں ۔
رہا مسئلہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یامحمد کہہ کر پکارنا، تو ہم ایسا نہیں کرتے، یہ کام بھی وہی لوگ کرتے ہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہتے ہیں۔
مولانا نعیمی کہتے ہیں :
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور سے ہیں اورساری مخلوق آپ کے نور سے ہے ۔''
(مواعظ نعیمیہ از احمد یار خان، ص ١٤، تفسیر نور العرفان، ص ٧٣٢)
آپ ہی اپنی اداوں پہ ذرا غور کریں، کسی نبی کو اللہ کا بیٹا کہنے اور کسی کو اللہ کے نور کا حصہ کہنے میں کتنا فر ق ہے؟
فرمان باری تعالیٰ ہے:
(وَجَعَلُوْا لَہ، مِنْ عِبَادِہٖ جُزْئً ا) (الزخرف : ١٥)
''انہوں نے اس کے بندوںکا اس کا جزء کہہ دیا۔''
اللہ فرماتے ہیں :
(ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِأَفْوَاہِہِمْ یُضَاہِئُونَ قَوْلَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ أَنّٰی یُؤْفَکُونَ) (التوبۃ : ٣٠)
مولانااحمد رضا خان صاحب اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
''یہ باتیں وہ اپنے منہ سے بکتے ہیں ، اگلے کافروں کی سی بات بناتے ہیں ، اللہ انہیں مارے ، کہاں اوندھے جاتے ہیں ۔''
بعض حضرات (قَدْ جَاءَ کُمْ مِنَ اللّٰہِ نُورٌ وَّکِتَابٌ مُبِینٌ) سے استدلال کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے ۔
اولا تویہاں نور سے مراد قرآنِ مجید ہے۔یہاں صفت کا عطف صفت پر ہے ، جیساکہ سورت نساء کی آیت نمبر ١٧٤ اورسورت تغابن کی آیت نمبر ٨ میں ہے ۔
ثانیا اگرنور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا :
یَعْنِي بِالنُّورِ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِي أَنَارَ اللّٰہُ بِہِ الْحَقَّ، وَأَظْہَرَ بِہِ الْإِسْلَامَ، وَمُحِقٌّ بِہِ الشِّرْکَ .
''نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جن کے ذریعے اللہ نے حق کو روشن کیا ، اسلام کو غالب کیا اور شرک کو مٹایا۔''
(تفسیر ابن جریر : ١٠/١٤٣)
ثابت ہواکہ نور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاصفاتی نام ہے ، باعتبار ِ جنس آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہی ہیں ۔
1 مولانا احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں :
''یعنی سب انسانوں کی اصل آدم وحوا ہیں اور ان کی اصل مٹی ہے توتم سب کی اصل مٹی ہوئی ۔۔۔''
(تفسیر نور العرفان، ص ٨٢٥)
مزید لکھتے ہیں :
''اس سے معلوم ہوا کہ نبی ہمیشہ انسان اورمرد ہوئے ۔ کوئی عورت یا جن یا فرشتہ وغیرہ نبی نہیں ۔ بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ہمیشہ حسب ونسب میں اونچے اور اعلیٰ خاندان میں ہوئے ۔''(تفسیر نور العرفان : ص ٥١٤)
نیز لکھتے ہیں :
''یعنی اگر ربّ تعالیٰ کسی کونبی بناتا تو فرشتے کو بناتا ، نہ کہ ہم جیسے انسانوں کو ، کیونکہ نبوت انسانی قابلیت سے اعلیٰ درجہ ہے ۔ یہ لوگ (کفار) لکڑی پتھر کو خدامان لیتے تھے ، مگر انسان کو نبی ماننے میں تامل کرتے تھے ۔''
(تفسیر نور العرفان، ص ٧٦٢)
ہم کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ِ ہدایت ہونے میں شک کرنے والا مسلمان ہی نہیں ہوسکتا، مگر اس سے بشریت کی نفی قطعاً نہیں ہوتی ۔
2 احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں :
''یعنی یہ کفار آپ پر ایمان تونہ لائے ، بلکہ تعجب کرنے لگے کہ انسان کونبوت کیسے مل گئی ؟ یہ توکسی فرشتے کو ملنی چاہیے تھی۔ افسوس ہے کہ یہ لوگ لکڑی ، پتھر کوخداماننے لگے ، مگر افضل البشر کو نبی ماننے میں تامل کرتے تھے ۔''
(تفسیر نور العرفان، ص ٨٢٦)
پھر خود ہی لکھتے ہیں :
''إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وغیرہ آیات جو بظاہر شانِ مصطفوی کے خلاف معلوم ہوتی ہیں، وہ متشابہات میں سے ہیں، لہٰذا ان کے ظاہر سے دلیل پکڑنا غلط ہے۔''
(جاء الحق : ١/١٧٨)
آپ کے علاوہ اس آیت کریمہ کوکسی نے متشابہات میں ذکر نہیں کیا ،اس سے شانِ مصطفوی میں کوئی نقص نہیں آتا ۔
مولانا نعیمی مزید لکھتے ہیں :
''عصائے موسیٰ سانپ کی شکل میں ہوکر سب کچھ نگل گیا ، ایسے ہی ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نوری بشرہیں ۔'' (مرآۃ المناجیع از نعیمی : ١/٢٤)
یہ بے دلیل بات ہے ، جو قرآن وسنت اوراجماعِ امت کے سراسر خلاف ہے ۔ اہل سنت کے کسی ثقہ امام کا یہ عقیدہ نہیں تھا ۔
ایک روایت اس سلسلے میں یہ پیش کی جاتی ہے:
أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُورِي .
''اللہ کی اولین تخلیق میرا نور ہے۔''یا؛
أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرُ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ .
''سب سے پہلے اللہ نے تیرے نبی کا نور پیدا کیا، اے جابر!''
تبصرہ :
باطل اور موضوع روایت ہے،دنیا جہان میں اس کی کوئی سند نہیں۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ (911ھ)لکھتے ہیں:
لَیْسَ لَہ، إِسْنَادٌ یُعْتَمَدُ عَلَیْہِ .
''اس کی کوئی سند نہیں جس پر اعتماد کیا جاسکے۔''
(الحاوي للفتاوی : 325/1)
نیز لکھتے ہیں:
قُلْتُ : حَدِیثُ الْعَقْلِ مَوْضُوعٌ، وَالثَّلَاثَۃُ الْ
ـأُخَرُ لَمْ تَرِدْ بِہٰذَا اللَّفْظِ فَاسْتَغْنٰی عَنِ التَّأْوِیلِ .
''میں کہتا ہوں کہ حدیث عقل تو موضوع ہے،اور دوسری تین احادیث (جن میں أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُورِي بھی ہے) ان الفاظ کے ساتھ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں،تو تاویل کی ضرورت کہا ں رہی۔''
(قوت المغتذي علی جامع الترمذي : 516/1)
مشہور صوفی ابن عربی(638ھ)نے اسے گھڑ کر امام عبدالرزاق کی طرف منسوب کر دیا ہے اوربعد والو ں نے بغیر تحقیق کے امام عبدالرزاق کی طرف اس کا انتساب کر دیا ہے،یہ ان کی واضح خطا ہے،ہمارے دور میں بعض نے مصنف عبدالرزاق کا ایک جھوٹاجزء مفقود دریافت کیاہے،اس میں یہ روایت موجود ہے اور جن لوگوں نے یہ روایت امام عبدالرزاق کی طرف منسوب کی ان کے بیان کردہ الفاظ اور جزء مفقود نامی کتاب کے الفاظ ایک دوسرے سے مماثل نہیں ہیں ،بلکہ ان میں فرق ہے،یہ روایت مصنف عبدالرزاق تو کجا متقدمین ائمہ دین کی کسی کتا ب میں نہیںہے۔جزء مفقود کی سند میں عبدالرزاق کی تدلیس موجود ہے،لہٰذا اس بنیاد پر یہ سند بھی ''ضعیف ''ہے۔
حافظ سیوطی جیسا معروف ناقل حدیث بھی اس کی سند سے واقف نہیں ہو سکا،بلکہ واشگاف الفاظ میں معترف ہے کہ یہ روایت سرے سے موجود ہی نہیں،بعض الناس کے مطابق سیوطی حالت بیداری میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث کا حکم معلوم کر لیتے تھے ،تو کیا سیوطی کایہ حکم درست ہے؟اگر یہ روایت مصنف عبدالرزاق میں ہوتی تواہل علم ضرور اسے ذکر کرتے۔
نوٹ :
یہ اصول یاد رہے کہ دین سمجھا جاچکا ہے،اسلاف امت نے اس پر عمل کر کے دکھا دیا ہے، قرآن و سنت سے کیا ثابت ہوتا ہے کیا نہیںہوتا، یہ انہوں نے ہمیں بتا دیا ہے۔
لہٰذا بعد والوں کو کوئی حق نہیں کہ قرآن کی کسی آیت یا حدیث سے کوئی ایسا مسئلہ استنباط کریں جو پہلوں نے نہیں کیا۔کیوں کہ وہ مسئلہ اگر آپ کی مستدل روایت یا آیت سے ثابت ہوریا ہوتا تو محدثین ضرور ثابت کرچکے ہوتے۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :
عَلَیْکَ بِآثَارِ مَنْ سَلَفَ، وَإِنْ رَفَضَکَ النَّاسُ، وَإِیَّاکَ وَرَأْیَ الرِّجَالِ، وَإِنْ زَخْرَفُوہُ بِالْقَوْلِ، فَإِنَّ الْ
ـأَمْرَ یَنْجَلِي، وَأَنْتَ عَلٰی طَرِیقٍ مُسْتَقِیمٍ .
''لوگ آپ کا بائیکاٹ کر دیں، تب بھی سلف کے عقائد واعمال سے جڑے رہیں، ارباب بدعت کی آرا نظر بھاتی ہوں، تب بھی ان سے کنارہ کشی اختیار کریں، کیوں کہ حق واضح ہو چکا ہے اور آپ صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔''
(شرف أصحاب الحدیث للخطیب : 6، الشریعۃ للآجري :127، وسندہ صحیحٌ)
علامہ ابو المظفر سمعانی رحمہ اللہ (426۔489ھ)فرماتے ہیں؛
شِعَارُ أَہْلِ السُّنَّۃِ اتِّبَاعُہُمُ السَّلَفَ الصَّالِحَ، وَتَرْکُہُمْ کَلَّ مَا ہُوَ مُبْتَدَعٌ مُحْدَثٌ .
''اہل سنت کا شعار سلف صالحین کی پیروی اور ہر نئی بدعت سے فرار ہے۔''
(الحجۃ في بیان المحجۃ : 395/1)
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
یَکُونُ بَعْدِي أَئِمَّۃٌ لَا یَہْتَدُونَ بِہُدَايَ، وَلَا یَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَیَقُومُ فِیہِمْ رِجَالٌ قُلُوبُہُمْ قُلُوبُ الشَّیَاطِینِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ .
''میرے بعد وحی الٰہی کے باغی اور میری سنت سے منحرف بدعات کے سرغنے پیدا ہوں گے،یہ لوگ انسان کے روپ میںہوں گے اوراپنے سینے میں شیطان کا دل رکھتے ہوں گے۔''
(صحیح مسلم : 1847)


 
Top