• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بصارت سے محروم … بصیرت سے بھرپور امام أبو القاسم شاطبی﷫

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابن خلکان﷫ فرماتے ہیں:
’’کان إذا قریٔ علیہ صحیح البخاری ومسلم والمؤطا یصحح النسخ من حفظہ‘‘(معرفۃ القراء الکبار:۳؍۱۱۱۴)
جب آپ پر صحیح بخاری ومسلم اور مؤطا امام مالک کی قراء ت کی جاتی تو آپ حافظے سے ان کے نسخوں کی تصحیح کرواتے۔‘‘
امام صاحب﷫ کی کرامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کے پاس بیٹھنے والا بغیرکسی مؤذن کی موجودگی کے اذان کی آواز سن لیتا تھا۔ (معرفۃ القراء الکبار:۳؍۱۱۱۴)
امام شاطبی﷫ چونکہ درس شروع کرتے وقت ہمیشہ ’’من جاء أولا فلیقرأ‘‘پر عمل کرتے اس لیے طلباء جانفشانی سے سب سے پہلے پہنچنے کوشش کرتے۔ لیکن ایک دن اتفاق ایسا ہوا کہ جب آپ مسند تدریس پر بیٹھے آپ نے فرمایا:’’من جاء ثانیا فلیقرأ‘‘ پس دوسرے نمبرپر آنے والے نے پڑھنا شروع کردیا۔ پہلے آنے والا شخص اس أمر پر شدید حیران وپریشان ہوا کہ مجھ سے ایسی کون سی خطا سرزد ہوگئی ہے جو شیخ صاحب کی طبیعت پر گراں گزری ہے۔ اسی گومگو کی کیفیت میں اسے یاد آیا کہ وہ تورات کو جنبی ہوگیا تھا، لیکن علم کی طلب اور حرص میں اسے غسل کرنا یاد نہیں رہا تھا۔ چنانچہ وہ اسی وقت بھاگم بھاگ مدرسہ کے غسل خانہ میں گیا اور غسل کر کے دوسرے کے قراء ت ختم کرنے سے قبل لوٹ آیا۔ پھر امام صاحب نے فرمایا:’’من جاء أولاً فلیقرأ‘‘ تو اس نے پڑھنا شروع کیا۔ (تشریح المعانی:ص۸)
اس واقعہ سے بڑی آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بینائی سے محروم ہونے کے باوجود آپ سے ایسی کرامات ظاہر ہوتیں جن کا صدور کسی عام انسان سے ممکن نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَساتذہ امام شاطبی﷫
(١) أبوعبد اﷲ محمد بن أبی العاص النفزی الشاطبی
(٢) إمام ابن ہذیل
(٣) أبوعبد اﷲ محمد بن أبی یوسف بن سعادۃ
(٤) الشیخ أبو محمد عاشر بن محمد
(٥) أبو محمد عبد اﷲ بن أبی جعفر المرسی
(٦) أبوالعباس بن طرازمیل(٧) أبو الحسن علیم بن ہانی العمری
(٨) أبوعبد اﷲ محمد بن حمید(٩) أبوعبد اﷲ محمد بن عبد الرحیم
(١٠) أبو الحسن بن النعمۃ(١١) أبوالقاسم حبیش
(٩) أبوطاہر سلفی﷫ (تشریح المعانی:ص۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قصیدہ شاطبیہ
’’حرز الأمانی ووجہ التہانی‘‘ المعروف ’شاطبیۃ‘ قراء ات ِسبعہ میں اہم ترین اور اَساسی کتاب تسلیم کی گئی ہے۔ امام شاطبی﷫ کے دور سے لے کر آج تک اس کی اہمیت میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔شاطبیہ اصل میں قراء ات پر مشتمل ایک بحر بے بہا کا نام ہے جس کو امام شاطبی﷫ نے انتہائی جانفشانی کے ساتھ ترتیب دیا۔ یہ کتاب درحقیقت امام دانی﷫ کی فن قراء ات پر مشتمل کتاب ’التیسیر‘ کی منظوم شکل ہے۔ علامہ شاطبی ﷫ نے اپنی کتاب میں ’التیسیر‘ کو منظوم انداز میں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے دقیق فوائد اور علمی معروضات کا اِضافہ کر دیا ہے جن سے علم قراء ات کا کوئی بھی طالب صرف نظر نہیں کر سکتا۔
اس قصیدے کی تالیف کی تاریخ ابتدا اور تاریخ انتہاء کا علم تو نہیں ہو سکا البتہ بعض مصادر اشارہ کرتے ہیں کہ اس مبارک کام کی ابتدا اُندلس سے ہوئی۔ وہ کونسی ایسی وجہ تھی جس نے امام صاحب﷫ کو اس کام کی ابتدا پر آمادہ کیا اس کی وضاحت کرتے ہوئے خود امام شاطبی ﷫ فرماتے ہیں:
’’بأنہ عملہـا رغبۃ فی ثواب اﷲ الکریم وحرصا علی إحیاء العلم الذی تضمنہ کتاب ’التیسیر‘ ‘‘ (تحقیق فتح الوصید:۱؍۱۲۶،۱۲۷)
’’اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید اور کتاب التیسیر میں بیان کردہ علم کے احیاء کی حرص نے ان کو اس کام پر آمادہ کیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’لا یقرأ أحد قصیدتی ہذہ إلا وینفعہ اﷲ، لأننی نظمتہا ﷲ‘‘(سیر أعلام النبلاء:۲۱؍۲۶۳)
’’جو شخص بھی میرے اس قصیدے کو پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کو فائدہ دے گا کیونکہ میں نے اسے خالصاً اللہ کیلئے لکھا ہے۔‘‘
جب آپ اس قصیدہ کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو اس کو ساتھ لے کر بیت اللہ کے گرد بارہ ہزار طواف کئے اور جب دعا کے مقامات پر پہنچتے تو یہ دعا پڑھتے:
’’اللہم فاطر السموات والأرض عالم الغیب والشہادۃ رب ہذا البیت العظیم انفع بہا کل من قرأہا‘‘ (تشریح المعانی:ص۱۰)
’’اے اللہ! اے زمین وآسمان کی تخلیق کرنے والے غیب اور حاضرکے جاننے والے ، اس عظیم المرتبت گھر(بیت اللہ ) کے پروردگار! ہر پڑھنے والے کو اس سے نفع پہنچا۔‘‘
شاطبیہ کی قبولیت کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ناظم کے بقول آپ کو نبی کریم ﷺ کی زیارت ہوئی تو سامنے کھڑے ہو کر خدمت بابرکت میں سلام عرض کیا اور کہا یاسیدی یا رسول اللہﷺاس قصیدہ پر نظر فرمائیے۔پس آپﷺنے اس کو اپنے دست مبارک میں لیا اور فرمایا :
’’ہی مبارکۃ من حفظہا دخل الجنۃ‘‘ (ظفر المحصلین بأحوال المصنفین:ص۷۱)
’’یہ بابرکت ہے جو اس کو حفظ کرے گا جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
شاطبیہ میں امام صاحب نے ایسے اشارات ورموز کا استعمال کیا ہے جن کو حل کرنا کسی عام انسان کے بس سے باہر ہے ان اسرار ورموز کی تہہ تک پہنچنے کے لیے عربی زبان کے علوم اور علم قراء ات میں وسعت کی ضرورت ہے۔ (معجم علوم القرآن:ص۱۷۰)
بہت سے لوگوں کی طرف سے ’شاطبیہ‘ پر اعتراضات بھی سامنے آئے ہیں، لیکن یہ سب کے سب شاطبیہ کے شاندار اُسلوب بیان، تسلسل اور بلاغت کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں جو امام صاحب﷫ کے بیان کردہ اسرار ورموز کی گرد تک بھی نہیں پہنچ سکے۔کتاب پر اعتراضات کرنے والوں میں سے ایک نام عبدالرحمن بن اسماعیل دمشقی المعروف ابی شامہ کا بھی ہے۔ جنہوں نے اپنی کتاب ’إبراز المعانی‘ میں امام شاطبی aپر بہت سے اعتراضات کیے ہیں، لیکن ان اعتراضات کا جائزہ لینے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر میں امام شاطبی﷫ کا مؤقف درست اور اَقرب الی الحق ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علماء کرام کے ہاں قصیدہ شاطبیہ کا مقام
اس قصیدہ کو علماء کرام کس نظر سے دیکھتے ہیں ملاحظہ فرمائیے:
٭ امام محمد ابن جزری ﷫ فرماتے ہیں:
’’ولا أعلم کتابا حفظ وعرض فی مجلس واحد وتسلسل بالعرض إلی مصنفہ کذلک إلا ہو‘‘ (العبر:۴؍۲۷۳)
’’میں اس کتاب(قصیدہ شاطبیہ) کے علاوہ کسی ایسی کتاب کو نہیں جانتا جو ایک ہی مجلس میں استاد پر پیش کی گئی اور زبانی یاد کی گئی ہو اور اس کی سند اس کے مصنف تک مسلسل سلسلہ کے ساتھ پہنچتی ہو۔‘‘
٭ ابن خلکان﷫ یوں رقمطراز ہیں:
’’ولقد أبدع فیہـا کل الإبداع وہـی معـدۃ قراء ہذا الزمان فی نقلہم،فکل من یشتغل بالقراء ات إلا ویقدم حفظہا ومعرفتہا،وہی مشتملۃ علی رموز عجیبۃ،وإشارات خفیۃ لطیفۃ،وما أظنہ سبق إلی أسلوبہا‘‘ (وفیات الأعیان:۴؍۷۰)
’’انہوں نے یہ قصیدہ ایسے انداز میں لکھا جس کی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ یہ ایک ایسا منظم قصیدہ ہے جس کو تمام لوگوں نے پڑھا ۔ جو کوئی قراء ات کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے وہ پہلے اسے یاد کرتا اور سمجھتا ہے۔ یہ قصیدہ بہت ہی عمدہ رموزاور انتہائی لطیف اشاروں پر مشتمل ہے،میرے خیال میں اس اسلوب پر پہلے کوئی ایسا قصیدہ نہیں لکھا گیا۔‘‘
٭ امام ابن جزری﷫ ایک مقام پر یوں رقمطراز ہیں:
’’علم مقدار ما آتاہ اﷲ فی ذلک خصوصا اللامیۃ التی عجز البلغاء من بعدہ عن معارضتہا فإنہ لا یعرف مقدارہا إلا من نظم علی منوالہا أو قابل بینہا وبین ما نظم علی طریقہا ولقد رزق ہذا الکتاب من الشہرۃ والقبول ما لا أعلمہ لکتاب غیرہ فی ہذا الفن،بل أکاد ولا فی غیر ہذا الفن،فإنی لا أحسب أن بلدا من بلاد الإسلام یخلو منہ،بل لا أظن أن بیت طالب علم یخلو من نسخۃ منہ‘‘ (غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء:۱؍۲۸۵)
’’جو ان(امام شاطبی﷫) کے قصیدہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ انہیںودیعت کردہ علم کو پہچان لیتا ہے بالخصوص قصیدہ لامیہ (شاطبیہ) جس نے فصیح وبلیغ لوگوں کواس کی مثل پیش کرنے سے عاجز کر دیا اس کے مرتبے کو صرف وہی پہچان سکتا ہے جس نے اس نہج پر لکھنے کی کوشش کی یا اپنے لکھے ہوئے کا اس کے ساتھ تقابل کیا۔ اللہ نے اس کتاب کو ایسی شہرت اور قبولیت سے سرفرازا جو اس فن میں کسی اور کو نہ ملی بلکہ اس فن میں اور نہ ہی کسی اور فن میں۔ میرے خیال کے مطابق کوئی بھی اسلامی ملک بلکہ کسی بھی طالب علم کا گھر اس کتاب سے خالی نہیں ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قصیدہ شاطبیہ کی خوبیاں
شاطبیہ فن قراء ات کا عجیب وغریب قصیدہ ہے اس کی لذتوں اور خوبیوں سے سے پوری طرح وہی حضرات واقف ہیں جو اس کے پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہیں، لیکن عوام کے لیے ان میں سے چند خوبیاں پیش خدمت ہیں:
٭ پورا قصیدہ نظم میں ہے جوطبعی طور پر پسندیدہ ہوتا ہے۔
٭ قصیدے کے الفاظ نہایت فصیح اور بلیغ ہیں۔
٭ تشبیہات ومجازات بھی استعمال کیے ہیں جن سے کلام کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔
٭ قصیدہ میں بہت سی پر اثر نصیحتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔
٭ قراء تیں بیان کر کے بہت سے مواقع میں صرفی ونحوی اعتبار سے اس کی وجہ بھی بتلاتے ہیں جو عربی کے طلباء کے لیے خصوصی طور پر مفید ہیں۔
٭ چونکہ قراء ات سبعہ کے تمام مسائل کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور تھوڑے الفاظ سے بہت سے مطالب نکالنے پڑتے ہیں اس لیے یہ نظم علمی واقفیت کے ساتھ طلباء کی عقل وفہم اور ذہانت میں بھی نمایاں ترقی کا باعث ہوتی ہے اور صرفی ونحوی اِستعداد میں بھی روز اَفزوں اِضافہ ہوتا رہتا ہے۔
٭ مخارج کے بیان میں ناظم نے اپنی خداداد ذہانت سے ایک انوکھا طرزِ اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے مصنفین تو ہر مخرج کے ساتھ یہ بھی بتاتے جاتے ہیں کہ اس سے فلاں فلاں حرف نکلتے ہیں،لیکن ناظم نے ایسا نہیں کیا بلکہ ہر مخرج کے ساتھ اس کے حروف کی تعداد توبیان کی ہے کہ اس مخرج سے اتنے حروف نکلتے ہیں، لیکن ان حروف کو متعین نہیں کیا کہ وہ کون کون سے ہیں۔پھر مخارج ختم کرنے کے بعد دوشعروں کے ۲۶ کلمات میں انتیس کے انتیس حروف کو جمع کر دیا ہے اور کلمات سے ان کے حاصل کرنے کا طریق بھی بتا دیا ہے پھر لطف یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے جو کلمات استعمال کیے ہیں وہ بے معنی نہیں بلکہ ان میں قراء ت اور قاری کے متعلق نہایت بااثر اور مفید مضمون بیان کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭علامہ شاطبی﷫ نے اس قصیدہ میں عام مصنفین و مؤلفین کے طرز سے مختلف ایک بالکل نیا اور انوکھا انداز اختیار کرنے کے ساتھ اتنے اختصار سے کام لیا ہے کہ تھوڑے الفاظ میں بہت سے مطالب ومفاہیم کو سمو دیا ہے۔ الفاظ نہایت فصیح اور بلیغ استعمال کئے گئے ہیں۔علاوہ ازیں تشبیہات واِستعارات اور مجازات ورموز نے کلام کے حسن کوچار چاند لگا دئیے ہیں۔ اس لیے شاطبیہ کے متن سے اس کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے محض عربی زبان سے واقفیت ہی کافی نہیں بلکہ کسی ماہر فن کی تشریح وتوضیح بھی ضروری ہے۔بطور نمونہ ہم ’’شاطبیہ‘‘ کے مقدمہ میں سے چند اشعار پیش کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فضائل قرآن سے متعلق اشعار
وإن کتاب اﷲ أوثق شافع
وأغنی غناء واہبا متفضلا​
’’یعنی اللہ کی کتاب اپنے حامل کے لیے بہترین وقابل اعتماد و سفارش کرنے والی ہے۔‘‘
قرآن مجید کی تلاوت کے متعلق لکھتے ہیں:
وخیر جلیس لا یمل حدیثہ
وتزدادہ یزداد فیہ تجملا​
’’ اور(قرآن) بہترین ہم نشین ہے۔ اس کے بار بار ورد کرنے سے اکتاہٹ نہیں ہوتی بلکہ اس کے حسن وجمال میں مزید اِضافہ ہوجاتا ہے ۔‘‘
قرآن قبر کی تاریکیوں میں روشنی میں سامان فراہم کرے گا:
وحیث الفتیٰ یرتاع فی ظلماتہٖ
من القبر یلقاہ سنا متہلِّلا​
’’اور جس جگہ قاری قبر کی تاریکیوں سے گھبرائے گا یہ قرآن مجید اس کے لیے روشنی کا سامان فراہم کرے گا۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
یناشد فی إرضائہ لحبیبہٖ
وأجدر بہ سؤلا إلیہ موصَّلا
’’قرآن اپنے دوست (قاری) کو راضی کرنے کے لیے اصرار کرے گا اور کس قدر عجیب سوال اس تک پہنچایا گیا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء سبعہ کے بارے میں اشعار
جزی اﷲ بالخیرات عنَّا أئمۃ
لنا نقلوا القرآن عذبا وَّسلسلا​
’’اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے آئمہ کرام کو جزائے خیر دے جنہوں نے ہمارے لیے شیریں اور بآسانی حلق سے اترنے والا قرآن کریم نقل کیا۔‘‘
اس کے بعد لکھتے ہیں:
فمنہم بدور سبعۃ قد توسطت
سماء العلا والعدل زہرا وَّکملا​
’’پس ان میں سے سات(قراء) چودھویں کے چاند کی طرح آسمان کی بلندی میں عدل کے ساتھ روشن اور کامل ہوئے ۔‘‘
لھا شہب عنہا استنارت فنوّرت
سواد الدّجٰی حتی تفرق وانجلٰی​
’’ ان کے لیے ایسے روشن ستارے ہیں جنہوں نے ان سے روشنی حاصل کر کے سیاہ تاریک راتوں کو منور کر دیا یہاں تک کہ تاریک راتیں چھٹ گئیں اور روشنی ظاہر ہوگئی۔‘‘
تخیرہم نقادہم کل بارع
ولیس علٰی قراٰنہ متاکّلا​
’’ تنقید نگاروں نے ان کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ یہ اپنے فن میں ماہر اور قرآن کو ذریعہ معاش بنانے والے نہ تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قصیدہ شاطبیہ کا تعارف
وفی یسرہا التیسیر رمت اختصارہ
فاجنت بعون اﷲ منہ مؤملا​
’’میں نے اس قصیدہ کے آسان بیان میں التیسیر کے مسائل کے اختصار کا قصد کیاہے۔ خداوند تعالیٰ میری اُمیدگاہ ہے اور اسی کی مدد سے میرا یہ قصیدہ کثیر الفوائد ہوگیا۔‘‘
وسمیتہا حرز الامانی تیمنا
ووجہ التہانی فاہنہٖ متقبلّا​
’’اور میں نے اس قصیدہ کا نام ’’حرز الامانی ووجہ التہانی‘‘ رکھا ہے اس نام سے برکت اور فال نیک مقصود ہے۔ اے مخاطب! اس کتاب کو قبول کرتے ہوئے خوش آمدید کہہ۔‘‘
 
Top