• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بغیر سند والی روایات کی اھمیت

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
السلام علیکم

محدثین کرام نے کئی جگہوں پر صحابہ کرام یا تابعین کے اقوال بغیر سند کے نقل کیے ہیں ۔ جب ایسے بغیر سند والے اقوال کسی تھریڈ میں پیش کیے جاتے ھیں تو مسلک اھل حدیث کے افراد ان اقوال کو سند نہ ھونے کی وجہ سے رد کر دیتے ھیں ۔ گویا ان کے ہاں ایسے اقوال کی کوئی اہمیت نہیں

سوال یہ اٹھتا ھے کہ اگر ایسے اقوال کی کوئی اھمیت نھیں تو محدثین کرام نے بغیر سند کے اقوال کیوں نقل کیے ۔ ان کے ھاں کچھ تو اھمیت ھو گی ۔

میرا سوال یھی ھے کہ محدثین کے ھاں ان اقوال کی کیا اھمیت تھی جو آج مسلک اھل حدیث کے افراد کے ھاں نھیں ھے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
متقدمین کی جو کتابیں ہم تک آئی ہیں وہ سند سے ہی آئیں ہیں جس میں ناقل سے لے کر مولف تک سند ہوتی ہے اور اس بنیاد پر اس کتاب کو اس عالم سے ثابت مانا جاتا ہے یہ بات تمام اہل علم جانتے ہیں
 
Last edited by a moderator:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
السلام علیکم

محدثین کرام نے کئی جگہوں پر صحابہ کرام یا تابعین کے اقوال بغیر سند کے نقل کیے ہیں ۔ جب ایسے بغیر سند والے اقوال کسی تھریڈ میں پیش کیے جاتے ھیں تو مسلک اھل حدیث کے افراد ان اقوال کو سند نہ ھونے کی وجہ سے رد کر دیتے ھیں ۔ گویا ان کے ہاں ایسے اقوال کی کوئی اہمیت نہیں

سوال یہ اٹھتا ھے کہ اگر ایسے اقوال کی کوئی اھمیت نھیں تو محدثین کرام نے بغیر سند کے اقوال کیوں نقل کیے ۔ ان کے ھاں کچھ تو اھمیت ھو گی ۔

میرا سوال یھی ھے کہ محدثین کے ھاں ان اقوال کی کیا اھمیت تھی جو آج مسلک اھل حدیث کے افراد کے ھاں نھیں ھے
بے سند اقوال لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ باتیں یاداشت میں رہیں اور ممکن ہے ان کی سند کہیں سے مل جائے
بعض دفعہ ضعیف کو بھی بیان کیا گیا ہے جیسے صحیح بخاری کے ابواب کے شروع میں اقوال ہوتے ہیں وہ سب صحیح نہیں لہذا امام بخاری نے ان کو سند سے صحیح میں نہیں لکھا صرف بیان کیا ہے بعض دفعہ وہ سب ارا کو ایک جگہ جمع کرتے ہیں جن میں ہو سکتا ہے وہ سب سے متفق نہ ہوں مثلا صحیح بخاری میں ایک باب میں قرآن کے لفظ متوفیک کے لئے امام بخاری ابن عباس کا قول پیش کرتے ہیں ممیتک یعنی موت ہوئی یہ عیسیٰ کے حوالے سے قول ہے لیکن صحیح میں نزول عیسیٰ کی روایت بھی ہے
لہذا یہ صرف آراء کی حثیت میں پیش کیے جاتے ہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ایک اور تھریڈ میں @تلمیذ بھائی نے یہ سوال پوچھا ہے -

السلام علیکم
میرا سوال یہ ہے کہ کتاب الرجال میں سند اور اتصال کی کیا حیثیت ہے ؟
ایک محدث اگر کسی راوی کے متعلق کچھ کہتا ہے تو اس محدث کا اس راوی سے ملاقات ثابت ہونا چاہئیے یا نہیں ؟
ایک مثال سے بات کو واضح کرتا ہوں ۔
ایک کتاب ہے "میزان الاعتدال فی نقد الرجال " تالیف ہے الامام الحافظ شمس الدین محمد بن احمد الذھبی کی
حروف الالف میں ابان بن جبلہ الکوفی کے بارے میں صفحہ 119 پر لکھتے ہیں
و قال البخاري : منکر الحديث

الامام الذھبی کی تاریح پیدائش 673 ہجری اور وفات 748 ہجری ہے ۔ اور امام بخاري کی تاریخ پیدائش 194 ہجری اور وفات 256 ہجری ہے ۔
امام الذھبی کا یہ کہنا و قال البخاري : منکر الحديث قابل اعتبار ہوگا یا نہیں کیوں امام الذھبی امام بخاری کے بہت بعد آئے تھے ۔ اس لئیے اس قول کے ذکر کرنے کی کوئی سند نہیں تو کیا عدم سند کی وجہ سے امام الذھبی کے اس قول کا اعتبار کیا جائے گا یا نہیں


آگلی سطر میں امام الذھبی لکھتے ہیں
و نقل ابن القطان ان البخاري قال : کل من قلت فيہ منکر الحدیث فلا تحل الروایہ عنہ

اب امام الذھبی ابن القطان کے حوالہ سے کہ رہے ہیں کہ انہوں کہا کہ امام بخاری نے کہا کہ کل من قلت فيہ منکر الحدیث فلا تحل الروایہ عنہ
تو کیا یہاں سند متصل ہے نہیں ۔ اگر متصل ہے تو کیا صحیح ہے یا نہیں ۔
کیا دوسری سطر کے لحاظ سے امام الذھبی کا ابن القطان سے ملاقات ثابت ہونا ضروری ہے یا نہیں اور آگے ابن القطان کی امام بخاری سے ملاقاقت ثابت ہونا ضروری ہے یہ نہیں۔
اگر یہ سند متصل ہے تو کیا ابن القطان کا ثقہ ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟ کیا ابن القطان کے متعلق تحقیق کی جائے گي کہ یہ ثقہ ہیں یا نہیں ؟ اگر کسی مجتھد سے ثابت ہو کہ انہوں نے ابن القطان کو ثقہ کہا ہے تو کیا وہاں بھی سند کی اتصال اور سند کی صحت کا دھیان رکھنا ہوگا ؟ یہ سلسلہ (سند کی اتصال اور صحت کا ) کہاں تک جائے گآ ؟
علم الرجال حدیث سے متعلق ہے اسلئیے اس سوال کو حدیث کی تحقیق کے حصہ میں پیش کر رہا ہوں ۔
جزاکم اللہ خیرا

لنک

http://forum.mohaddis.com/threads/اقوال-جرح-وتعدیل-کی-سند-وصحت-اور-اس-کی-حد.9797/


ان کے سوال کا جواب یہ ہے کہ

امام بخاری کی اپنی تحقیق بھی ہوتی ہے جس پر وہ ١٠٠ سال قبل والے راوی پر تعدیل و جرح کرتے ہیں
آج بھی یہ کام البانی رحم الله نے کیا ہے کہ انہوں نے راوی پر جرح کی ہے

ابن القطان کا قول شاید استنباطی ہے کیونکہ یہ قول بخاری کی کسی کتاب میں نہیں ہے

محقق کی ملاقات راوی سے ضروری نہیں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
بے سند اقوال لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ باتیں یاداشت میں رہیں اور ممکن ہے ان کی سند کہیں سے مل جائے
کیا کسی محدث نے یہ بات ذکر کی اگر کی ھے تو حوالہ درکار ھے ورنہ یہ آپ کے تخیلات ہیں جن کی کوئی اہمیت نہیں

لہذا یہ صرف آراء کی حثیت میں پیش کیے جاتے ہیں
بالکل صحیح ۔ کیا ہم کسی مضمون میں بطور دلیل صحابی کی بغیر سند والی رائے پیش کر سکتے ھیں یا نہیں ۔ کیا آپ اس رائے کو قبول کریں گے یا نہیں


یہ بات تو قول سے متعلق ہوئی اگر بغیر سند کے کوئی محدث کسی صحابی یا تابعی کا عمل ذکر کرے تو اس کی کیا اہمیت ہے ؟
 
Last edited:

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محدثین کرام تو کئی جگہوں پر صحابہ کرام اور تابعین کے اقوال اور اعمال بغیر سند کے ذکر کرتے ہیں مگر اھل حدیث حضرات بغیر سند کی روایات کو رد کرتے ہیں
کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کے اھل حدیث کم از کم اس معاملہ میں محدثین کرام کے منھج پر نہیں
 
Top