• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بلند آواز سے آمین کہنے سے حسد کرنا کس کا طریقہ ہیں !!!

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
1
نماز فجر اور نماز مغرب اور نماز عشاء کے وقت یہودی بازار میں نہیں ہوتے ظہر،عصر میں وہ بازار میں ہوتے ہیں مگر ان دونوں نمازوں میں آپ سب غیر مقلد آمین بلند آواز سے نہیں کہتے کہ یہودی ناراض نہ ہوجائیں۔ کیوں ٹھیک ہے کہ نہیں ؟
اتنا بڑا جھوٹ اللہ کی پناہ! ایک سنت کو دبانے کے لیے حنفی یہاں تک جا سکتا ہے؟ الامان و الحفیظ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
احناف کے ہاں دورہ حدیث کے بارے میں سنا ہے کہ احادیث پر اعتراضات اور بعید از کار تاویلات کا دورہ ہوتا ہے ۔ خیر دورے میں تو کبھی شرکت کا موقعہ نہیں ملا ۔ البتہ یہ لڑی اس کی بہترین مثال ہے ۔



صحیح اور ضعیف احادیث کا آپس میں تعارض کروانا یہ کوئی علمی کام نہیں ہے ۔
اوپر ذکر کردہ ’’ ما أراہ إلا یعلمنا ‘‘ والی روایت پتہ نہیں کہاں سے لی گئی ہے ۔ ؟ حوالہ بیان کیا جائے ۔
فی الوقت اتنا کہہ سکتاہوں کہ جس جگہ مجھے یہ روایت ملی ہے اس کی سند میں ایک راوی ’’ زیاد ابو السکن ‘‘ ضعیف ہے ۔ دیکھیے ( لسان المیزان رقم 3260 ط أبی غدۃ )
دوسری بات : اگر یہ روایت ٹھیک بھی ہو تو اس میں ’’ ما أراہ إلا یعلمنا ‘‘ یہ مرفوع نہیں ہیں بلکہ موقوف ہیں ۔ مرفوع اور موقوف حدیث کا بھی آپس میں تعارض نہیں کروایا جاسکتا ۔
اگلے سال دورے میں جاؤں گا تو لائیو بتاؤں گا۔

حوالہ:۔ الکنی والاسماء للدولابی 2۔610 ط دار ابن حزم
ابو السکن حجر بن عنبس کی کنیت ہے۔ جہر و اخفاء کی روایات کے بنیادی راوی ہیں۔ شعبہ اور سفیان دونوں کی روایات انہی کے طریق سے ہیں۔ ثقہ راوی ہیں۔ تفصیل کے لیے اوپر ان کے نام پر کلک فرمائیے۔
اس حدیث میں یحیی بن سلمۃ بن کہیل پر اعتراض ہے۔ اکثر نے جرح مبہم کی ہے۔ بخاری نے ان کی روایات پر منکر ہونے کی جرح کی ہے لیکن ابن حبان نے وضاحت کی ہے کہ وہ روایات منکر ہیں جو ان کا بیٹا ان سے روایت کرے۔ ہیثمی نے اس بات کو باقاعدہ قبول کیا ہے اور وضاحت بھی کی ہے۔ اور یہ روایت ان کے بیٹے کی نہیں ہے۔
یہ الفاظ راوی کی رائے ہیں کہ نبی ﷺ نے آواز سے یا الف کی مد کے ساتھ کیوں پڑھا۔ اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ یہ روایت اخفاء اور جہر دونوں کےساتھ کیوں مروی ہے۔ یعنی آپ ﷺ نے جب مد کیا تو سکھانے کے لیے اور ویسے اخفاء کیا۔
یہ اس صورت میں ہے جب مد کے معنی جہر لیں۔ ورنہ اگر معنی مد الف ہوں تو تعارض ہی نہیں رہتا۔

مرفوع اور موقوف کا یہاں تعارض ہے ہی نہیں جو کروایا جائے۔ مرفوع الگ بات ہے اور موقوف الگ اس کی وضاحت۔

ایک اور تھریڈ میں اس پر بات چل رہی ہے۔ ان شاء اللہ وہاں تفصیل کے ساتھ وقت ملنے پر بات کروں گا۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم بھائیو باقی بحث کو آپ جاری رکھیں البتہ یہودیوں کے حسد والی بات پر کچھ اشکالات ہیں اور میں چونکہ سمجھتا ہوں کہ دعوت میں اختلاف پر بھی انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اس لئے اپنے کچھ اشکالات کی وضآحت چاہوں گا ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں مگر فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا جس حدیث میں اونچی امین میں یہودیوں کے حسد کی بات کی گئی ہے اس پر احناف کو قیاس کیا جا سکتا ہے کیا علت ایک ہے جزاکم اللہ خیرا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اگلے سال دورے میں جاؤں گا تو لائیو بتاؤں گا۔
انتظار رہے گا ۔
حوالہ:۔ الکنی والاسماء للدولابی 2۔610 ط دار ابن حزم
ابو السکن حجر بن عنبس کی کنیت ہے۔ جہر و اخفاء کی روایات کے بنیادی راوی ہیں۔ شعبہ اور سفیان دونوں کی روایات انہی کے طریق سے ہیں۔ ثقہ راوی ہیں۔ تفصیل کے لیے اوپر ان کے نام پر کلک فرمائیے۔
آپ کے بتائے گئے حوالے پر یہ بات موجود ہے :
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَطِيَّةَ قَالَ: أَنْبَأَ يَحْيَى بْنُ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَكَنٍ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ الثَّقَفِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيَّ يَقُولُ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ حَتَّى رَأَيْتُ خَدَّهُ مِنْ هَذَا الْجَانِبِ وَمِنْ هَذَا الْجَانِبِ وَقَرَأَ {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] فَقَالَ: «آمِينَ» يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ مَا أَرَاهُ إِلَّا يُعَلِّمُنَا "
اس میں غور کریں کہ ’’ یمد بہا صوتہ ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے ۔ جبکہ ’’ ماأراہ إلا یعلمنا ‘‘ یہ صحابی کا اندازہ ہے ۔ آپ کی ذکر کردہ جمع اس وقت قابل قبول ہےجب یہ دوسرے الفاظ کا مرفوع ہونا بھی ثابت ہو ۔
ایک دوسری بات : صحابی رسول کا یہ کہنا حضور ’’ آمین ‘‘ میں مد اس لیے کرتے تھے تاکہ ہمیں سکھائیں ، تو اس سیکھنے سے کیا مراد ہے ؟ کیا اونچی آمین کہنا سیکھنا ؟ یا لفظ ’’ آمین ‘‘ کی ادائیگی سیکھنا ؟
مجھے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ حضور ’’ آمین کو زیادہ اونچی آواز یا زیادہ لمبا کرتے تھے ‘‘ تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ آمین اونچی کہنا سنت ہے ۔
عموما جب مساجد میں بجلی وغیرہ نہ ہونے کے سبب اسپیکر نہیں ہوتا تو جو ’’ مکبر ‘‘ ہوتا ہے وہ لفظ ’’ اللہ اکبر ‘‘ کو عموما زیادہ اونچی آواز اور ’’ زیادہ کھینچ کر ، لمبا کرکے ‘‘ ادا کرتا ہے ۔ تاکہ سب سن لیں ۔ حدیث کے الفاظ ’’ یمد بہا صوتہ ‘‘ سے مراد بھی یہی محسوس ہوتا ہے ۔ تاکہ سب لوگ ’’ آمین ‘‘ سن لیں اور سیکھ لیں کہ اونچی آواز میں آمین کہنا ہی سنت ہے ۔ واللہ اعلم ۔
ابو السکن حجر بن عنبس کی کنیت ہے۔ جہر و اخفاء کی روایات کے بنیادی راوی ہیں۔ شعبہ اور سفیان دونوں کی روایات انہی کے طریق سے ہیں۔ ثقہ راوی ہیں۔ تفصیل کے لیے اوپر ان کے نام پر کلک فرمائیے۔
متفق ۔
یہ الفاظ راوی کی رائے ہیں کہ نبی ﷺ نے آواز سے یا الف کی مد کے ساتھ کیوں پڑھا۔ اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ یہ روایت اخفاء اور جہر دونوں کےساتھ کیوں مروی ہے۔ یعنی آپ ﷺ نے جب مد کیا تو سکھانے کے لیے اور ویسے اخفاء کیا۔
یہ اس صورت میں ہے جب مد کے معنی جہر لیں۔ ورنہ اگر معنی مد الف ہوں تو تعارض ہی نہیں رہتا۔
چاہے ’’ مداصطلاحی ‘‘ ہی مراد لے لیں ، جہر تو تب بھی ثابت ہورہا ہے ۔ اگر میں اونچی آواز میں پڑھوں گا تو سننے والے کو پتہ چلے گا کہ میں مد کر رہاہوں کہ نہیں ؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر: 2 - فتوی نمبر:19049

س 2: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سب سے زیادہ اتباع کرنے والے، اور سنت نبوی سے قریب ترین لوگ اہل حدیث ہیں یا احناف؟ ،
( جلد کا نمبر 5; صفحہ 304)

کیونکہ مسلک اہل حدیث میں نماز میں رفع الیدین کرنا اورآمین بآواز بلند کہنا مسنون ہے، لیکن مسلک احناف میں نہ تو رفع الیدین ہے نہ آمین بالجہر۔

ج 2: نماز میں رفع یدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہےجوصرف چار مواقع پر کرنا ہوتا ہے، تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع کرنے کے وقت، رکوع سے اٹھنے کے وقت، اورتیسری رکعت کے لئے تشہد سے قیام کرنے کے وقت۔ اور ایک مسلمان پر اس سنت پرعمل کرنا ضروری ہے، تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء ہوجائے، اگرچہ کہ نماز پڑھنے والا کسی اور مسلک کو مانتا ہو، کیونکہ تمام مسلمان کورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے اور آپ کو اسوہ بنانے کا حکم دیاگیا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ویسے نماز پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتا ہوا دیکھتے ہو اورائمہ کرام میں سے کسی امام کا فتوی اگراس سنت کے خلاف ہو، تو انہیں یہ کہہ کر معذور قرار دیا جاسکتا ہے یہ حدیث ان تک نہیں پہنچ سکی، لیکن جسے اس سنت کا علم ہوجائےاسے عمل کرنا ضروری ہے، اوراسے غیرمعمول بہ چھوڑدینا بالکل مناسب نہیں ہے، کیونکہ اعتبار اسی سنت کا ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکورہے، اسی طرح جہری نماز میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ ﺍﻥ ﻛﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻦ ﭘﺮ ﻏﻀﺐ ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ ، ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮔﻤﺮﺍﮨﻮﮞ ﻛﯽ ۔ کے بعد بآواز بلند آمین کہنے کا مسئلہ ہے-

کیونکہ امام بخاری اورامام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب امام آمین کہے ، تو تم بھی آمین کہو، چنانچہ اگر اتفاق سے کسی شخص کے آمین کہنے کا وقت اور فرشتوں کے آمین کہنے کا وقت ایک ہی رہا، تو اس کے پچھلے تمام گناہوں معاف کردیئے جائیں گے۔ اوراس حدیث کی بناء پر جسے ابوداؤد نے اپنی سنن میں اور ترمذی نے جامع صحیح میں وائل بن حجررضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ:
( جلد کا نمبر 5; صفحہ 305)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب "وَلاَ الضَّالِّينَ" ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮔﻤﺮﺍﮨﻮﮞ ﻛﯽ کہتے تو آمین بآواز بلند کہتے اوراحناف کا جہری نمازوں میں بآواز بلند آمین نہ کہنے کا کوئی اعتبارنہیں، کیونکہ احادیث انکے خلاف ثبوت پیش کرتی ہیں۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی

ممبر ممبر نائب صدر صدر
بکر ابو زید، صالح فوزان، عبد العزیزآل شيخ، عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
الحمدللہ کسی بھی حدیث سے غیر متفق نہیں چاھے حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو اور صحیح حدیث کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے سبحان اللہ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں ہر ہر صحیح حدیث پر عامل نہیں بلکہ صرف ان احادیث پر عمل کرتا ہوں جو سنت کے درجہ میں ہیں عام فہم جواب تو یہی ہے جبکہ آپ غیر مقلدین کا دعوٰی یہی ہوتا ہے کہ آپ لوگ ہر صحیح حدیث پر عمل کرتے ہیں جبکہ ہوتا اس کے برعکس ہے شاید کسی حدیث پر من و عن عمل کرتے ہوں مگر اس عمل کے مخالف کئی کئی احادیث کو چھوڑتے بھی ہیں یعنی دعوٰی ہر صحیح حدیث پر عمل کا اور جب عمل کریں تو دوسری صحیح احادیث کو چھوڑ دینا ۔
اب میں آپ کو اور محمد نعیم یونس صاحب کو بتاتا ہوں کہ میں کس بات سے غیر متفق ہوں

ہائی لائٹ کردہ الفاظ بھی اگر حدیث ہیں تو آپ بتادیں ؟ یا
محمد نعیم یونس صاحب بتادیں ؟



سنت کہنے والا کون ہے ؟ امتی ہی ہے ناں یا معاذاللہ کوئی نبی ہے یا اللہ ؟
اسی لئے میں نے چند سوالات پوچھ ڈالے تھے



کیونکہ کسی صحیح صریح غیر معارض حدیث میں یہ صراحت موجود نہیں کہ آمین زور سے کہنی ہے اور زور کتنا لگانا ہے ۔ یہ تو وضاحتیں ہوتی ہیں جن سے کسی بھی نام نہاد اہل حدیث کو مجھ سے پہلے اعتراض ہونا چاھئیے ، اور جو احادیث پیش کی گئی ہیں ان میں سے حدیث میں سے جہر کا لفظ کسی نے نہیں دکھایا ،یاد رہے حدیث کا لفظ امتی کا نہیں ۔




شکریہ
السلام و علیکم

' وقد روی روح بن عبادۃ عن مالک في ھذا الحدیث: قال ابن شھاب کان رسول اللہ ﷺ إذا قال: ولا الضآلین جھر بآمین أخرجہ السراج ولابن حبان في روایۃ الزبیدي في حدیث الباب عن ابن شھاب کان إذا فرغ من قراء ۃ أم القرآن رفع صوتہ وقال آمین۔ (الفتح: 2 / 264)
جب نبی کریم ﷺ سورہ فاتحہ کی قراء ت سے فارغ ہوتے تو بآواز بلند آمین کہتے-

عن علي رضي اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول آمین، إذا قرأ غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین۔ (مستدرک حاکم ، ابن ماجہ ) یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔ (المرعاۃ: 3 / 153) یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو آمین اس وقت کہتے ہوئے سنا جب آپ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضآلین تلاوت فرمائی ۔

أمن ابن الزبیر ومن وراء ہ حتی ان للمسجد للجۃ'' (صحیح البخاری مع الفتح 3 / 264، مصنف عبد الرزاق: 2 / 96، اوسط لابن المنذر: 3 / 132، عمدۃ القاری: 6 / 48)
یعنی حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ مقتدیوں نے اس قدر اونچی آواز سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی ۔

7 - عن عطاء قال: أدرکت مائتین من أصحاب النبي ﷺ في ھذا المسجد إذا قال الإمام غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین۔ (عمدۃ القاری للعینی: 6 / 48، وفتح الباری لابن حجر: 2 / 267، سنن بیہقی: 2 / 659، نبی اکرم ﷺ کا صحیح طریقۂ نماز ص 302)
یعنی حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے اس مسجد حرام میں دو سو صحابۂ کرام کو پایا کہ جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضآلین کہتے تو میں نے ان کی آمین کی گونج دار آواز سنی (یعنی ان کی آواز سے مسجد گونج اٹھی ) یاد رہے کہ حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ امام اعظم ابو حنیفہ کے استاد تھے اور ان کا کہنا ہے کہ ''ما رأیت مثلہ'' (یعنی میں نے ان جیسا کوئی آدمی نہیں دیکھا)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
محترم بھائیو باقی بحث کو آپ جاری رکھیں البتہ یہودیوں کے حسد والی بات پر کچھ اشکالات ہیں اور میں چونکہ سمجھتا ہوں کہ دعوت میں اختلاف پر بھی انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اس لئے اپنے کچھ اشکالات کی وضآحت چاہوں گا ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں مگر فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا جس حدیث میں اونچی امین میں یہودیوں کے حسد کی بات کی گئی ہے اس پر احناف کو قیاس کیا جا سکتا ہے کیا علت ایک ہے جزاکم اللہ خیرا

میرے بھائی اس کا تجربہ کسی بھی حنفی مسجد میں کر لے -

مثال کے طور پر 15 سے 20 اہلحدیث مقتدی کسی بھی حنفی مسجد میں جائے اور وہاں جا کر امام جب غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ ﺍﻥ ﻛﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻦ ﭘﺮ ﻏﻀﺐ ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ کہے تو یہ سب با آواز بلند آمین کہے
تو آپ دیکھے گے کہ سلام کے بعد سب لوگ آپ کو گھور گھور کر دیکھے گے اور ہو سکتا ہے کچھ لوگ تو آپ سے لڑ ہی پڑھے -
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
انتظار رہے گا ۔

آپ کے بتائے گئے حوالے پر یہ بات موجود ہے :
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَطِيَّةَ قَالَ: أَنْبَأَ يَحْيَى بْنُ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَكَنٍ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ الثَّقَفِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيَّ يَقُولُ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ حَتَّى رَأَيْتُ خَدَّهُ مِنْ هَذَا الْجَانِبِ وَمِنْ هَذَا الْجَانِبِ وَقَرَأَ {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] فَقَالَ: «آمِينَ» يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ مَا أَرَاهُ إِلَّا يُعَلِّمُنَا "
اس میں غور کریں کہ ’’ یمد بہا صوتہ ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے ۔ جبکہ ’’ ماأراہ إلا یعلمنا ‘‘ یہ صحابی کا اندازہ ہے ۔ آپ کی ذکر کردہ جمع اس وقت قابل قبول ہےجب یہ دوسرے الفاظ کا مرفوع ہونا بھی ثابت ہو ۔
ایک دوسری بات : صحابی رسول کا یہ کہنا حضور ’’ آمین ‘‘ میں مد اس لیے کرتے تھے تاکہ ہمیں سکھائیں ، تو اس سیکھنے سے کیا مراد ہے ؟ کیا اونچی آمین کہنا سیکھنا ؟ یا لفظ ’’ آمین ‘‘ کی ادائیگی سیکھنا ؟
مجھے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ حضور ’’ آمین کو زیادہ اونچی آواز یا زیادہ لمبا کرتے تھے ‘‘ تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ آمین اونچی کہنا سنت ہے ۔
عموما جب مساجد میں بجلی وغیرہ نہ ہونے کے سبب اسپیکر نہیں ہوتا تو جو ’’ مکبر ‘‘ ہوتا ہے وہ لفظ ’’ اللہ اکبر ‘‘ کو عموما زیادہ اونچی آواز اور ’’ زیادہ کھینچ کر ، لمبا کرکے ‘‘ ادا کرتا ہے ۔ تاکہ سب سن لیں ۔ حدیث کے الفاظ ’’ یمد بہا صوتہ ‘‘ سے مراد بھی یہی محسوس ہوتا ہے ۔ تاکہ سب لوگ ’’ آمین ‘‘ سن لیں اور سیکھ لیں کہ اونچی آواز میں آمین کہنا ہی سنت ہے ۔ واللہ اعلم ۔

متفق ۔


چاہے ’’ مداصطلاحی ‘‘ ہی مراد لے لیں ، جہر تو تب بھی ثابت ہورہا ہے ۔ اگر میں اونچی آواز میں پڑھوں گا تو سننے والے کو پتہ چلے گا کہ میں مد کر رہاہوں کہ نہیں ؟
جی اس پوائنٹ پر مجھے بھی آپ سے اتفاق ہے کہ کم از کم اتنی آواز ضرور تھی کہ صحابی رسول ﷺ کو سنائی دی۔
آگے صحابی جو اس روایت کے راوی ہیں ان کے الفاظ ہیں ما اراہ الا یعلمنا۔ روایت کے بارے میں راوی کی اپنی رائے کس قدر اہمیت رکھتی ہے آپ جانتے ہیں۔ البتہ اگر کچھ اور دلائل مل جائیں جو راوی کی رائے کے خلاف ہوں تو الگ بات ہے۔
خضر بھائی یہ الفاظ تو ظاہر ہے صحابی کے ہی ہونے ہیں نبی ﷺ کے نہیں ہونے۔ تو پھر مرفوع اور موقوف ہونے کی بات شاید میں نہیں سمجھ سکا۔

باقی مراد اونچی آمین کہنا سکھانا تھی یا آمین بمد الف یا صرف آمین کہنا؟ اس میں تینوں احتمال ہیں۔ شعبہ کی روایت سے تیسرے احتمال کو ترجیح ملتی ہے اور سفیان کی محمد بن کثیر کے علاوہ کی روایت (روایت مد) سے دوسرے احتمال کو ترجیح ملتی ہے۔ کیوں کہ آمین میں بالمد اور بالقصر دونوں لغات ہیں جیسا کہ تفسیر بیضاوی میں تصریح ہے بمع شواہد۔ تو ایک کی تعیین کی جا رہی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میرے بھائی اس کا تجربہ کسی بھی حنفی مسجد میں کر لے -

مثال کے طور پر 15 سے 20 اہلحدیث مقتدی کسی بھی حنفی مسجد میں جائے اور وہاں جا کر امام جب غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ ﺍﻥ ﻛﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻦ ﭘﺮ ﻏﻀﺐ ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ کہے تو یہ سب با آواز بلند آمین کہے
تو آپ دیکھے گے کہ سلام کے بعد سب لوگ آپ کو گھور گھور کر دیکھے گے اور ہو سکتا ہے کچھ لوگ تو آپ سے لڑ ہی پڑھے -
میری طرف سے آپ کو میرے پاس ناظم آباد نمبر 3 گول مارکیٹ کراچی آنے کی دعوت ہے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
میری طرف سے آپ کو میرے پاس ناظم آباد نمبر 3 گول مارکیٹ کراچی آنے کی دعوت ہے۔
ہماری طرف سے آپ کو جامعہ مسجد حنفیہ کروڑ لال عیسن مین بازار آنے کی دعوت ہے۔ جہاں ہم آپ کو ایسے لوگوں سے بھی ملوائیں گے، جو تعصب کی وجہ سے اہل حدیث حضرات سے سلام تک نہیں لیتے۔ اور پھر ہماری طرف سے آپ کو لاہور لٹن روڈ جہاں موٹر سائیکل ورکشہ کی مارکیٹ ہے۔ وہاں ایک مسجد ہے۔(نام اس وقت مجھے یاد نہیں) وہاں پر زیادہ نہیں بس ایک بار بلند آواز سے نہیں بلکہ امام کے پیچھے کھڑے ہوکراتنی آواز میں آمین کہنا کہ امام سن لے۔۔ پھر تماشا دیکھنا
 
Top