• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بلوغ سے پہلے نکاح پرویزی اشکلات کا رد:

Adnani Salafi

رکن
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
32
بلوغ سے پہلے نکاح پرویزی اشکلات کا رد:

اس کے متعلق پرویز اور اس کے ہم نواؤں کے شبہے کا تجزیہ حسب ذیل ہے:
11۔قرآن کریم نے بلوغت کو سن نکاح سے تعبیر کیا ہے۔قرآن کریم میں ہے کہ جب کوئی بچے یتیم رہ جائے تو تم معاملات کے ذریعے سے ان کا امتحان لو۔
حَتّــٰٓى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَۚ
"حتی کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچیں"۔(النسآء:44)
2۔قرآن کریم نے نکاح کو معاہدہ قرآن دیا ہے۔اور معاہدے میں فریقین کی رضا مندی اور بالغ ہونا شرط ہے۔نکاح کی رضامندی کے لیے پرویز صاحب نے(قرآنی فیصلے،ص:134میں) یہ دلیل پیش کی ہے۔
لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا ۖ
"تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم عورتوں کو میراث سمجھ کر ان پر زبردستی قبضہ کرلو"۔
(النسآء: 19)
33۔طبی نقطہ نگاہ سے بھی نابالغ بچی قابل مجامعت نہیں۔اس سے مجامعت ضررانگیز ہے اور کئی جسمانی عوارض کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔

جواب:سن بلوغ سے پہلے نکاح کے جواز کو ہم قرآن سے ثابت کرتے ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے:
وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ
"اور ان کے علاوہ جو عورتیں ہیں،وہ تمہارے لئے حلال کردی گئی ہیں(شرط یہ ہے)کہ تم اپنے مال(مہر)کے بدلے انھیں حاصل کرکے پاک دامنی کے لیے ان سے نکاح کرو"۔
(النسآء:24)
{مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُ}"جو اس کے علاوہ ہے"۔اس لفظ کے عموم کے تحت نابالغ لڑکی بھی شامل ہے،اس کی تخصیص کے لیے کوئی صحیح اور صریح دلیل موجود نہیں۔
نیز فرمایا:
وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ
"تم اپنے میں سے جو بے نکاح ہیں ان کے نکاح کرو"۔
(النور:32)
ْاَيَامٰى جمع ہے أَیَّم کی اور أَیَّم ہر اس مرد کو کہتے ہیں جس کی بیوی نہ ہو اور اسی طرح ہر اس عورت کو کہتے ہیں جس کا شوہر نہ ہو اور یہ بھی عام ہے،اس میں بالغ نابالغ کی کوئی تخصیص نہیں۔
نیز فرمایا:
وَاللَّآئِىْ يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَآئِكُمْ اِنِ ارْتَبْتُـمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ اَشْهُرٍ وَّاللَّآئِىْ لَمْ يَحِضْنَ
"اور تمہاری عورتوں میں سے جن کو حیض کی امید نہیں رہی ہے اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہیں اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض نہیں آیا"۔۔۔۔۔
(الطلاق:4)
اس آیت میں عدت کی ایک قسم بیان کی ہے جو تین ماہ گزارنا ہے اور یہ دو قسم کی بیویوں کے لیے ہے۔ایک وہ جو بوڑھی ہو جائے اور بڑھاپے کی وجہ سے اس کا حیض منقطع ہوجائے اسے عربی میں"آیسة"کہتے ہیں۔دوسری وہ بیوی جسے عدم بلوغت کی وجہ سے ابھی تک حیض شروع نہیں ہوا۔مذکورہ آیت میں عدت طلاق کا مسئلہ ہے،یعنی نکاح کے بعد طلاق دی گئی ہے اور طلاق کے بعد اب عدت گزارنی ہے۔یہ بات ثابت ہے کہ طلاق کے جواز کے لیے ضروری ہے کہ پہلے نکاح ہوا ہو،لہذا اس آیت سے سن بلوغت سے پہلے نکاح کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
بعض متجاہل قسم کے لوگوں نے{لَمْ يَحِضْنَ} کے متعلق لکھا ہے کہ اس سے وہ عورتیں مراد ہیں جو بالغ ہوں لیکن کسی عارضے کی وجہ سے انھیں حیض نہیں آتا تو اس سے نابالغ بچی کے نکاح کے جواز پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔
جواب1۔
یہ تحریف معنوی ہے،عربی گرامر کے بالکل خلاف ہے۔عربیت کا قانون یہ ہے کہ حرف لَم جب فعل مضارع میں داخل ہو جائے تو وہ اس فعل مضارع کو فعل ماضی کے معنی میں بدل دیتا ہے۔تو پھر لَمْ يَحِضْنَ کا معنی یہ ہے کہ"انھیں حیض نہیں آیا"
اردو مفسرین نے اس قسم کا معنی کیا ہے۔شاہ رفیع الدین نے فرمایا:"اور وہ جو کہ حائض نہیں ہوئی"۔۔۔۔فتح الحمید میں ہے:"جن کو ابھی حیض نہ آنے لگا"۔اور تفہیم القرآن
میں ہے:"اور یہی حکم ان کا ہے جنھیں ابھی حیض نہ آیا ہو"۔اس مفہوم کے اور بھی شواہد ہیں جبکہ اس اعتراض میں جس ترجمہ کا ذکر ہے،اس کے لیے ارود تراجم میں کوئی شہادت نہیں ملتی۔چنانچہ"حیض نہیں آیا" کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ نابالغ ہے۔
اگر وہی معنی تسلیم کرلیا جائے جو سوال میں مذکور ہے تو پھر آیت کا یہ ٹکڑا لَمْ يَحِضْنَ تین قسم کی عورتوں کو عام ہے۔
نابالغ ہونے کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو۔
کسی بیماری کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو۔
ساری عمر حیض نہ آنا۔
تو عموم کی وجہ سے پہلی قسم کو بھی محیط ہے تو پھر بھی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہے۔قرآن سے استدلال کے تذکرے کے بعد ہم ان کے شبہات کے جوابات کی طرف آتے ہیں۔ان کے شبہات مع جوابات مندرجہ ذیل ہیں:

ان کا پہلا استدلال حَتّــٰٓى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَۚ
"حتی کہ وہ نکاح کی عمر(بلوغت)کو پہنچ جائیں"۔سے ہے۔
اس استدلال کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے یہ قانون ثابت نہیں ہوتا کہ نکاح کے لیے بلوغت شرط ہے بلکہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ جب انسان بالغ ہوکر اپنی مرضی سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے مال کی ضرورت پڑتی ہے تو دانش مندی معلوم کرنے کے بعد اس کا مال اس کے حوالے کردو یعنی "النِکَاحَ"
میں الف لام عہدی ہے۔اس نکاح سے مراد وہ ہے جو سورہ النساء کی آیت :33میں امر کے صیغے سے مذکور ہے،یعنی اس سے مراد اپنی مرضی سے نکاح کرنا ہے۔
اس کا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم بعض اوقاف جو شرط لگاتا ہے وہ لازمی نہیں ہوتی بلکہ کسی خاص فائدے کے لیے بیان کی جاتی ہے۔یہاں بھی فائدہ یہ ہے کہ جب انسان بالغ ہوجائے تو اسے نکاح کی ضرورت ہوتی ہے،اس کے لیے مال کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اگر بالغ ہوجائے اور وہ نکاح نہ کرنا چاہے تو اسکی صلاحیت کا امتحان لینے کے بعد اس کا مال اس دے دیا جاتا ہے۔
یہاں لفظ نکاح سے لغوی معنی مراد ہے،یعنی جماع کرنا،اور اس قید کا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان میں قوتِ شہوانیہ پیدا ہوتی ہے تو اس میں قوتِ حفاظتِ مال ضرور آجاتی ہے۔
نکاح معاہدہ ہے اور معاہدے میں فریقین کی رضا مندی شرط ہے اور رضا کے لیے بلوغت ضروری ہے۔
یہ صحیح ہے کہ انعقاد نکاح کے لیے عاقدین کی رضامندی ضروری ہے لیکن رضامندی کی دوقسمیں ہیں
بذات خود بشرطیکہ فریقین میں اہلیت ہو۔
بواسطہ وکیل،متولی ونائب وغیرہ۔پوری دنیا میں عقود،خریدوفروخت، ملازمت اور نوکری وغیرہ کے انعقاد کے لیے دونوں طریقے جاری ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
فَاِنْ كَانَ الَّـذِىْ عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِـيْهًا اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهٝ بِالْعَدْلِ ۚ
"اگر وہ شخص کہ جس کے ذمہ حق ہے،نادان یا کمزور ہو یا خود لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہوتو چاہیے کہ اس کا ولی انصاف سے لکھواتا جائے"۔
(سورہ البقرہ:286)
اللہ تعالی نے اس آیت میں تین صورتوں میں ولی کو معاہدہ کرنے کا مختار بنایا ہے۔
نادان ہو۔
ضعیف ہو،اس میں نابالغ بچے بھی داخل ہیں کیونکہ صفت ضعیف قرآن کریم نے بچے کے لیے بیان کی ہے۔{وَلَـهٝ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَآءُُۚ}
"اس کے لیے چھوٹے کمزور بچے ہوں"۔
(سورہ البقرہ:266)
لکھوانے کی اہلیت نہیں رکھتا،یعنی لغت نہیں سمجھتا یا زبان سے گونگا ہو جبکہ نابالغ میں یہ تینوں صفات بیک وقت موجود ہیں۔بالغ کے نکاح کے لیے ولی کی رضامندی شرط ہے،جس کے ذریعے سے عقد اور دوسرے عقود صحیح ہوسکتے ہیں۔اس سلسلے میں عورت کی رضامندی کی شرط کے لیے پرویز صاحب نے
لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا ۖ
"اور تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ تم زبردستی عورتوں کو وراثت میں لے لو"۔
(سورہ النسآء:19)
سے جو استدلال کیا ہے وہ ناقص ہے۔اس میں بالغہ عورت کے نکاح کا تذکرہ ہے۔آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص وفات پاگیا اور اس کی منکوحہ ہے تو وارث اس کی بیوہ کے ساتھ اس کی رضامندی کے بغیر خود نکاح کرسکتے ہیں نہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کرسکتے ہیں تو ظاہر ہے کہ منکوحہ بالغہ ہے۔اور اگر بالغہ نہیں تو پھر {كَرْهًا} کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح نہیں کرسکتے۔
طبی نقطہ نظر سے نابالغہ سے مجامعت مضر ہے۔
یہ اعتراض تب بنتا ہے کہ نکاح کے ساتھ ساتھ رخصتی بھی بچپن میں ہوجائے۔عربوں کا معمول تھا کہ وہ نکاح تو بچپن میں کردیتے جبکہ رخصتی بلوغت کے بعد کرتے تھے جیسا کہ ہمارے ہاں بھی بعض لوگ اس طرح کرلیتے ہیں۔اس طرح عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا نکاح بچپن میں ہوا اور رخصتی نو سال کی عمر میں(بلوغت کے بعد) ہوئی۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے نکاح کو چھ کی عمر میں ہونے کو پرویز نے بھی مشروط طور تسلیم کیا ہے۔(قرآنی فیصلے:35) لیکن پھر اس نے اس منسوخ قرار دیا ہے اگرچہ یہ نظریہ غلط ہے۔
مزید برآں طبی نقطہ نظر سے نابالغہ سے مجامعت کے متعلق یہ خیال غلط ہے کہ یہ مضر ہے۔بسااوقات بلوغت سے قبل زمانے"مراہقت"میں جماع کیا جاسکتا ہے اور اس پر کوئی بدنی ضرر مرتب نہیں ہوتا۔
(انکار حدیث سے انکار قرآن تک)​
 
Last edited by a moderator:
Top