• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بلیغ کون

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
بلیغ کون
----------------------------------------
فصاحہ کے لغوی معنی وضاحت کے اور ظہور کے ہیں

اس کی تین انواع ہیں
فصاحۃ اللفظ
فصاحۃ الجملۃ
فصاحۃ المتکلم

کسی لفظ کے فصیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ چار عیبوں سے پاک ہو.
1. تنافر الحروف (یعنی وہ ایسے حروف پر اس ترتیب سے مشتمل نہ ہو جو لفظ کو زبان پر بھاری بنادیں)
2. غرابۃ (یعنی وہ لفظ اہل زبان کے ہاں قلیل و نادر نہ ہو جس کے معانی ملنا مشکل ہوں)
3. مخالفۃ القیاس (گرامر میں جو علم لفظ کی بناوٹ سے بحث کرتا ہے وہ علم صرف کہلاتا ہے. اس شرط کا معنی یہ ہے کہ وہ لفظ اپنی بناوٹ میں معروف صرفی قواعد کے مخالف نہ ہو.)
4. کراہۃ السمع (یعنی وہ لفظ سماعت میں برا نہ لگے

کوئی جملہ فصیح تک ہوتا ہے جب وہ مندرجہ ذیل عیوب سے پاک ہو
1. تنافر الفاظ (اس کے الفاظ کی ترکیب ایسی نہ ہو کہ وہ زبان پر بھاری بن جائے. Tongue twisters میں سے نہ ہو.
2.ضعف التالیف (نحو [جملہ سے متعلقہ گرامر] کے قوانین کی مخالفت سے پاک ہو.
3. تعقید لفظی (الفاظ اپنی فطری ترتیب سے ہوں. ان میں ممنوع تقدیم و تاخیر نہ ہو)
4. تعقید معنوی (محاورات و تراکیب کے وہی معنی مراد ہوں جو اہل زبان میں مستعمل ہیں. بالفاظ دیگر توریہ یا کنفیوزنگ جملہ نہ ہو کہ آپ ایک معنی مراد لے رہے ہیں اور مخاطب کوئی اور معنی مراد لے رہا ہے)

کوئی متکلم تب فصیح ہوتا ہے جب وہ فصاحۃ اللفظ کے ساتھ ساتھ فصاحۃ الجملۃ کا بھی اہتمام کرے.

بلاغۃ: بلاغہ حالات کے مطابق کلام کا نام ہے.

ایک خطیب ہے جس کے سامنے عام عوام ہے وہ ان کے سامنے قدیم اردو میں ایسے موضوع پر گفتگو کررہا ہے جس کا عوام کی زندگی میں کوئی عمل دخل ہی نہی....کیا وہ بلیغ ہے....نہیں...
ایک شخص دعوت ولیمہ میں قیامت کی آیات پڑھتا ہے تو باوجود اس کے کہ جو کلام وہ پڑھ رہا ہے انتہائی فصیح ہے کیا وہ بندہ بلیغ ہے....نہی

حالات کی رعایت میں صرف یہ نہی کہ کلام اہم ہے بلکہ وہ رویہ اور وہ الفاظ جن کے ساتھ متکلم گفتگو کررہا ہے وہ بھی اہم ہے. انسان موقع کے اعتبار سے صحیح بات کررہا ہے مگر اس کا رویہ اور منتخب کردہ الفاظ حالت کے مطابق نہی تو ایسے کو بھی بلیغ نہی کہا جاسکتا.

جیسا شخص باپ سے اپنا حق طلب کررہے ہے مگر اس کے الفاظ اور اس کا انداز ایسا ہے جیسا کہ کوئی ماتحت
سے گفتگو کی جاتی ہے....کیا یہ بلیغ ہے...نہی چاہے اس کے الفاظ بہت ہی فصیح ہوں وہ بلیغ نہی

آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے یہ بلاغہ کا سبق میں آپ کو کیوں پڑھ رہا ہوں. آپ میں سے کسی نے کراٹے کڈ مووی دیکھی ہے. اس میں جب لڑکا جیکی چین سے کنگ فو سیکھنے کی درخواست کرتا ہے تو پہلا سبق کیا ہوتا ہے. جیکی چین اس کو اپنی جیکٹ ہک پر لگانا سکھاتا ہے (اس لڑکے کی عادت ہوتی ہے کہ سکول سے گھر آکر اپنی جیکٹ کو ایسے ہی فرش پر پھینک دیتا ہے). پھر جب لڑکا اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے تو جیکی چین اس کے سبق سے دکھاتا کہ وہ لاشعوری پر طور پر کنگ فو کے داو سیکھ چکا ہوتا ہے. اس کے بعد وہ اسے سمجھاتا ہے کہ کنگ فو محض لڑائی کے کسی طریقہ کا نام نہی بلکہ یہ ایک طرز زندگی ہے انسان کے رویے اس کے معاملات ہر چیز میں کنک فو ہے...

پہلے بلاغہ کا سبق اب کنک فو یہ کیا قصہ چل رہا ہے..صبر میرے پیارے بھائی...میں آپ کو اس کا تعلق دکھاتا ہوں...ہم جو فنون سیکھتے ہیں وہ فنون محض ان معروف معنوں میں فنون نہی ہوتے جن میں ہم جانتے ہیں بلکہ ان میں ہمارے لیے بنیادی قسم کے اسباق ہوتے ہیں جن تک عقل مند و دانا لوگ پہنچ جاتے ہیں ( بلاغہ علم آلہ ہے نا). اصول حدیث ہمیں دیانت داری کے اعلی معیار سکھاتی ہے. اصول تفسیر ہمیں سر تسلیم خم کرنا سکھاتی ہے. اصول فقہ ہمیں حکمت اور دانائی کا سبق دیتی ہے...بلاغہ کیا سکھاتی ہے؟

بلاغہ کا سبق لکل مقام مقال ولکل مقال مقام ہے کہ ہر مقام کا خاص کلام ہوتا ہے اور ہر بات کا خاص وقت ہوتا ہے.

اگر ہم اپنی زندگیوں پر غور کریں تو ہمارے جھگڑوں کی بنیادی وجہ اس اصول کی طرف عدم توجہی ہے.....کیسے.

بھائیوں کا شکوہ عموما کیا ہوتا ہے آپ بڑے بھائی کو تو ایسا نہی کہتیں...بڑا بھائی کہتا ہے آپ فلاں کو کچھ نہی کہتیں.

بیوی شوہر کو کہتی ہے آپ اپنی والدہ کو نہی ایسے نہی سمجھاتے...

بیٹے والد سے کہتے ہیں آپ دادا کو نہی سمجھاتے

امید ہے میں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں وہ احباب سمجھ رہے ہیں.
میرے عزیز دوستوں انسان ایک انتہائی پچیدہ مخلوق ہے اس پر میتھس کے رول کی طرح قوانین اپلائے نہی ہوتے...ایک مصلح اور داعی کو ہر شخص کی ذاتی خصوصیات مدنظر رکھ کر نصیحت کرنی ہوتی ہے...آپ کے سامنے کسی معاملہ کا ایک رخ ہے اس کا مطلب ہمیشہ یہ نہی ہوتا کہ وہ اپنے فرض میں کوتاہ ہے...بس تھوڑے صبر کی ضرورت ہوتی ہے...اور پتہ ہے کیا...مستقبل والد والدہ شوہر داعی عالم کی حکمت دکھا بھی دیا کرتا ہے...تو کیوں نہ ہم بعد میں پشیمان ہونے کے بجائے اس وقت صبر کریں اور اپنا اعتماد بحال رکھیں

یہ تو ایک سبق ہوا اس مقولے میں اور بھی کافی سبق ہیں جن کی کھوج میں اپنے ذہین قارئین کے حوالے کرتا ہوں.
آپکا
سید طہ عارف
 
Top