قارئین آپ نے کبھی غور فرمایا کہ ظہورِ اسلام سے اب تک چودہ سو برس میں لاکھوں عیسائی عورتیں مسلمانوں کے حبالۂ عقد میں آئیں اور آج بھی ہزاروں کی تعداد میں ان صلیب کی بیٹیوں کی مسلمانوں کے گھروں پر قبضہ جمائے ہوئے ہے اس کے برعکس کوئی مسلمان عورت شاذ و نادر ہی کسی مسیحی کی زوجیت میں گئی ہوگی (۱)، تو تنہا یہ ناقابلِ انکار حقیقت فی نفسہٖ اس امر پر دلالت کررہی ہے کہ یک طرفہ عورتوں کی یہ پیشکش جو چودہ سو سال سے آج تک نہایت کامیابی کے ساتھ عالمگیر پیمانہ پر چل رہی ہے ۔ ’’کامیابی ‘‘ اپنی ’’فعالیّت ‘‘ کے اعتبار سے بھی اور تاحال ایک ’’ غیر منکشف راز ‘‘رہنے کے اعتبار سے بھی ۔ وہ یقینا کسی گہری سازش اور مضبوط تنظیم کے تحت جاری رہ سکتی تھی ۔ بایں ہَمہ شاید اسے اتفاق پر مبنی قیاس کہا جائے ، اس کا بھی تجزیہ کر دیکھیے۔
۱۹۵۵ء میں جرمنی کے ڈاکٹر جے -ڈبلیو -فیوک Dr.J-W-Fuck نے اپنی کتاب بزبان جرمنی Die Arabischen Studien in Europa میں یہ الفاظ کہے : Auch Europaische madchen welche sich spater mit fuhrenden Orientalen verheiraten werden " یعنی یہ کہ ’’ یورپ کی لڑکیوں کو ایسی تعلیم دی جائے جو آئندہ چل کر ایشیا کے بڑے لوگوں کو اس مقصد کے لیے منسوب کی جائیں ۔‘‘
اب سے سات سو برس پہلے یعنی ۱۲۷۳ء میں جبکہ صلیبی جنگیں مسلمانوں کو ناپید کرنے میں ناکام ہوچکی تھیں اس زمانہ کے مشہور ِ دوراں مسیحی راہب ولیم آف ٹریپولی Williams, Bishop of Tripol نے اپنی لاطینی کتاب Tractus du Saracenorum statu de ( مسلمانوں کے ملک فتح کرنے کا طریقہ ) میں اپنی قوم کو مشورہ دیا تھا کہ ’’ مسلمان بزورِ شمشیر فتح نہ ہوں گے اس مقصد کے لیے دوسرے طریقے استعمال کیے جائیں ۔‘‘ پھر ایسی ہی چیز ایک دوسرے عیسائی پادری پیٹر دی وینریبل Peter the Venerable ( ۱۱۵۷ء -۱۱۹۲ء) نے کہی پھر یہی موضوع ریمنڈلولوس ( ۱۳۱۶ء -۱۲۳۰ء) ایک تیسرے عیسائی عالم نے دہرایا اور پھر بصورت قرارداد ویانا کی مشہور کونسل ۱۳۱۱ء میں یہی چیز پیش ہوئی ۔
اب اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ زمانۂ قدیم سے جو عیسائی حسینائیں مسلمانوں کی زوجیت میں ڈھلی چلی آرہی ہیں وہ عیسائی دنیا کے بہترین دماغوں کے غور وفکر کا نتیجہ اور ایک سوچے سمجھے طویل المیعاد منصوبہ کے تحت ہے ۔
تاریخ پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ ظورِ اسلام سے پہلے کوئی دوسرا مذہب ایسا نہ تھا جو تبلیغی سرگرمیوں میں عیسائی مذہب کا مدّمقابل ہوتا عیسائی مشنریوں کا بلا شرکتِ غیرے اور بلا روک ٹوک دنیا کے پورے تبلیغی میدان پر قبضہ تھا جب اسلام عالم وجود میں آیا تو یہ اجارہ داری ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور نتیجۃً وہ مسلمانوں سے حسد ورقابت رکھنے لگے چنانچہ فوجی ، سیاسی ، نشری ، نفسیاتی ، سازشی کوئی بھی ایسی حکمت عملی نہ تھی جو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی بھیڑوں نے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے استعمال نہ کی ہو اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔
قیصرِ روم کے ساتھ غزوات ، صلیبی جنگیں ، اسپین میں مسلمانوں کے خون کا سیلاب اوربعد میں ترکی کے خلاف تمام عیسائی دنیا کا اتحاد اور پھر لیپانٹو Lepanto کی بحری جنگ میں ترکی بحری بیڑے کی تباہی ، یہ تو تھیں براہِ راست جنگی کوششیں ۔ زارِ روس کے ساتھ خفیہ معاہدہ کی رُو سے ترکی کے حصہ بخرے ، ہندوئوں کو ملا کر ہندوستان سے اسلامی حکومت کا خاتمہ ، یہودیوں کو سامنے رکھ کر بیت المقدس پر جابرانہ قبضہ ، یہ ہیں سیاسی چالیں۔ اسلام اور شارع اسلام پر اخبارات اور کتب کے ذریعہ رکیک حملے جو ہر روز سامنے آتے رہتے ہیں یہ ہے پروپیگنڈہ محاذ۔ عیسائی دنیا کی اسلام کو ختم کرنے کے لیے یہ تحریکات ہیں جس کا علم عام طور پر لوگوں کو ہے ۔بہت سی ایسی تحریکات بھی ہیں جو منظرِ عام پر نہیں آئیں مثلاً اوائلِ اسلام کے زمانے میں بقول جی -ایف -ہڈسن G-F-Hudson مصنف کتاب Oldest Relation between Chiana & Europe عیسائی دنیا نے ایک گروہ نسطوری راہبوں کا ملک تاتار کو بھیجا تھا کہ وہ انہیں عیسائیت کی تبلیغ کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف اکساکر جنگ پر آمادہ کرے چنانچہ کئی سو برس کے بعد چنگیز خان کے پیشرو تاوانگ خان Ta Wang Khan نے جو ترکوں کے کرائتKiraet قبیلے کا سردار تھا بادشاہ Emanuel I اوّل شاہ یونان کے پاس اپنے سفیر بھیجے تھے اور یہ پیغام بھیجا تھا کہ ’’ میری فوج کے سامنے ۱۳ صلیبیں ہوتی ہیں ہر صلیب کے پیچھے ایک لاکھ پیادہ فوج اور دس ہزار شہسوار ہوتے ہیں میں یہ سب صلیب کے دشمنوں ( مسلمانوں ) کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہوں ۔ ‘‘ یہ واقعہ Encyclopedia of Religions & Ethics کی دسویں جلد میں مذکور ہے ۔
تاوانگ خان کی اس پالیسی پر چنگیز خان اور دوسرے منگول خاقان کار بندرہے ، اور لاکھوں مسلمانوں کو خاک میں ملایا گیا۔ دیکھا آپ نے عیسائیوں کی اس دور رَس پالیسی کا نتیجہ ، اسی قسم کی گہری چالیں تثلیث پرستوں کی اسلام دشمنی کے ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ کولمبس جس کے سر نئی دریافت کرنے کا سہرا ہے اسے اسپین کی اسلام دشمن ملکہ ازابیلا نے اس واسطے سرمایہ لگاکر بھیجا تھا کہ وہ مشرق میں منگول خاقان سے رابطہ قائم کرکے اس سے مسلمانوں پر حملہ کرائے یہ حقیقت John Bartalet Brener نے اپنی کتاب موسومہ بہ The Exlporers of North America میں منکشف کی ہے ۔ایسی صدہا مثالیں دی جاسکتی ہیں جو اس بات کاناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی بھیڑیں روزِ اوّل سے ہمیں اور ہمارے مذہب کو مٹانے پرتلی ہوئی ہیں اور انہوں نے کوئی کسر کوئی دقیقہ اپنی اس کوشش میں جو ان کے لیے بمنزلہ عبادت کے ہے اٹھا نہیں رکھا۔
دوسری طرف عیسائیوں کے لیے مسلمانوں کے طرزِ عمل پر نگاہ ڈالیے انہوں نے شروع سے اپنے قول و عمل سے یہ واضح کیا کہ تمہارا خدا ہمارا خدا ہے ، تمہارے انبیاء ہمارے انبیاء ، تمہارا قبلہ ہمارا قبلہ اور تمہاری کتاب ہماری کتاب ہے ۔ تم اہلِ کتاب ہو حتیٰ کہ ان کے ساتھ شادی بھی جائز قرار دیدی۔ اصحابِ کہف کا واقعہ اسلام سے پہلے کا اسے قرآن میں جگہ ملی۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ وہ عیسائی مذہب کے پیرو تھے ۔ نصرانی قبیلہ طے کے حاتم کو مسلمان ہیرو سمجھا گیا۔ عہدِ عتیق کے شاعرعمرۃ القیس کو باوجود عیسائی ہونے کے وہی مرتبہ دیا جاتا ہے جو کسی مسلمان کو ۔ یہاں تک ہوا کہ بی بی ماریہ قبطیہ کوجو عیسائی فرقہ Jacobite سے تعلق رکھتی تھیں وہ درجہ دیاگیا جو دوسری امّہات المؤمنین کو۔ یہ رسول اکرم ﷺ کی شانِ کریمی تھی کہ اہلِ کتاب سے عملاً یگانگی کا ثبوت پیش کیا اورکوئی غیریت نہ برتی ۔ مسلمانوں کی نیت نیک تھی اس فراخ دلی کا نتیجہ یہ تو ضرور نکلا کہ عیسائیوں کے پورے پورے قبیلے مسلمان ہوگئے ( یہ قول لاہور کے ریورنٹ ڈبلیو-پی-ہیرس Rev W.P.Hares کی تصنیف A History of the Christian Church سے منقول ہے ۔ لیکن عیسائیت کے پرستاروں نے ہمارے اس حسنِ سلوک سے ہمیشہ ناجائز فائدہ اٹھایا اور اب بھی اٹھارہے ہیں۔
منجملہ اور چالوں کے جن کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے صلیب کے عملبرداروں نے اہلِ اسلام کو زک دینے کے لیے ایک نہایت پُرا ثر حربہ تیار کیا جس کی کوئی شکل وصورت نہ تھی لیکن وہ قیامت سامانی میں جدید دور کے ایٹم بم سے زیادہ مہلک ثابت ہوا۔ وہ ایک طریقہ کار تھا جس کی تباہ کاری کے سامنے بڑی سے بڑی جنگی تدبیر گوئے طفل سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی اس لیے کہ جنگی چال کا حیطۂ کار ایک محدود قوت اور وسعت ارضی تک پُر اثر رہتا ہے اور زیرِ نظر نصرانی شاطرانہ چال کا پھیلائو لا متناہی مکان اور زمان پر محیط ہے۔ پہلی صدی ہجری سے لے کر جون ۱۹۶۷ء کے عرب یہودی محاربہ تک مسلمانوں پر جتنی بھی قیامتیں ٹوٹیں ان سب کو وہی ایک تیر بیندھتا چلا گیا۔ اور نہ جانے کب تک اور ہماری بدبختی کا باعث بنارہے اور وہ بے پناہ حربہ یہ ہے۔