• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بندے پر نعمت کے نشانات کا ظہور

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بندے پر نعمت کے نشانات کا ظہور

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ أَنْ یُرَی أَثْرُ نِعْمَتِہِ عَلٰی عَبْدِہِ۔))1
'' یقینا اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمت کے اثر کو دیکھنا پسند فرماتے ہیں۔''
شرح...: اللہ تعالیٰ نعمت کے اظہار کو محبوب رکھتا ہے کیونکہ یہ ایسا جمال ہے جسے وہ پیار کرتا ہے نیز اس کی نعمت کا شکریہ بھی ہے اور یہ باطنی جمال ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نعمت کی وجہ سے اپنے بندے پر ظاہری جمال کو دیکھنا چاہتا ہے، بندے کی طرف سے اس کا شکریہ ادا کرنے کی وجہ سے جمال باطن کو پسند کرتا ہے۔ خوبصورتی کو محبوب رکھنے کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر لباس اور زینت اتاری ان کے ظواہر کو خوبصورت بنایا اور ان کے باطن کی خوبصورتی کو قوت بخشی۔
اللہ تعالیٰ تجمل کو اچھا جانتے ہیں حتیٰ کہ لباس میں بھی گھٹیاپن کو پسند نہیں فرماتا، اس سے مراد فقر کا اظہار اور پراگندہ بوسیدہ، پھٹے اور کھردرے کپڑے پہننا ہے۔
(( وَقَدْ رَأی النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلًا رَثَّ الثِّیَابِ فَقَالَ ہَلْ لَکَ مِنْ مَالٍ؟ قَالَ مِنْ کُلِّ الْمَالِ قَدْ أَعْطَانِیَ اللّٰہُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ قَالَ فَلْیُرَ عَلَیْکَ۔))2
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو پراگندہ کپڑوں والا دیکھا تو فرمایا تیرے پاس مال ہے؟ اس نے کہا: ہر قسم کا مال اونٹ اور بکری سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نواز رکھا ہے، تو فرمایا: تجھ پر اس کا اثر (مالداری کے نشانات) نظر آنا چاہیے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۲۶۰۔
2 صحیح سنن الترمذي، رقم : ۱۶۳۲۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسری حدیث میں فرمایا:​
(( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی إِذَا أَنْعَمَ عَلٰی عَبْدٍ نِعْمَۃً یُحِبُّ أَنْ یَّرٰی أَثْرَ النِّعْمَۃِ عَلَیْہِ وَیَکْرَہُ الْبُؤْسَ وَالتَّبَاؤُسَ، وَیُبْغِضُ السَّائِلَ الْمَلْحِفِ وَیُحِبُّ الْعَفِیْفَ الْمُتَعَفِّفَ۔))1
'' بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے پر نعمت کرتا ہے تو اس پر نعمت کے نشانات دیکھنا محبوب رکھتے ہیں اور گھٹیا پن کو ناپسند اور چمٹ کر سوال کرنے والے سے غصہ رکھتے ہیں اور سوال سے بچنے والے سے محبت کرتے ہیں۔''
ایک اور حدیث میں فرمایا:​
(( إِذَا آتَاکَ اللّٰہُ مَالًا فَلْیُرَ عَلَیْکَ، فَإِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ أَنْ یَرَّی أَثْرَہُ عَلٰی عَبْدِہِ حَسَنًا، وَلَا یُحِبُّ الْبُؤْسَ وَلَا التَّبَاؤُسَ۔))2
'' جب تجھے اللہ تعالیٰ مال عطا کرے تو وہ (مالداری کا نشان) تجھ پر نظر آنا چاہیے (کیونکہ) بے شک اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اپنے بندے پر مال کے نشانات اچھے دیکھے اور وہ گھٹیا، ردی پن کو پسند نہیں کرتا۔ ''
مطلب ہے کہ عمدہ اور اچھے کپڑے پہن تاکہ لوگ تجھے مالدار خیال کریں اور یہ بھی سمجھیں کہ تجھ پر اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کے انعامات کیے ہیں۔​
شرح السنہ میں مذکورہ حدیث پر تبصرہ کیا گیا ہے کہ ممکن حد تک کپڑوں کو جدت، پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کے ذریعہ خوبصورت اور اچھا بنانا مراد ہے، خوشحالی اور تنگدستی کے اظہار میں عجمیوں کی طرح اپنے آپ کو کئی قسم کے کپڑوں میں ملبوس کرکے مبالغہ آرائی سے کام نہ لے۔​
ملا علی قاری رحمہ اللہ کا قول ہے: اب عرب لوگ عجمیوں سے بڑھ چکے ہیں۔ علامہ بغوی رحمہ اللہ نے کہا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کپڑوں وغیرہ میں زیادہ فراخی سے منع کرتے تھے۔ امام بیہقی، حضرت ابوہریرہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی روایت نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کی خود نمائی سے روکا ہے (ایک) باریک کپڑا کی (دوسری) موٹے کپڑے کی (ایک) نرم کپڑا کی (دوسری) کھردرے کی (ایک) لمبے کپڑے کی (دوسری) چھوٹے کپڑے کی) لیکن ان دونوں کے بین بین ہو۔(یُرٰی) کا یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ عمل صالح اور اللہ کے لائق ثناء اور ذکر کرکے، لوگوں پر نرمی اور شفقت کے ذریعہ اور قرب الٰہی کے لیے اللہ کے دیے ہوئے فضل سے خرچ کرکے، رب کائنات کا زیادہ شکریہ ادا کرنا ہے۔​
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ​
1 صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۱۷۱۱۔​
2 صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۲۵۵۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فرمان خداوندی ہے:
{أَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ إِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ o} [القصص : ۷۷]
''(لوگوں سے) احسان کرجیسے اللہ نے تجھ پر (مال دے کر) احسان کیا اور زمین میں فساد نہ کر۔ بے شک اللہ تعالیٰ فسادی لوگوں سے محبت نہیں کرتے۔''
تمام کی تمام مخلوق اللہ کا عیال ہے اور سب سے زیادہ محبوب اللہ کو وہی ہوتا ہے جو اس کے عیال کے لیے سب سے زیادہ نفع مند ہے۔ چنانچہ اللہ اپنے بندے پر مالداری کے اثرات کپڑوں، صدقہ و خیرات اور شکریہ ادا کرنے کے لحاظ سے دیکھتا ہے۔ یہ دنیوی نعمت کی وضاحت تھی لیکن دینی نعمت میں اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ بندہ اس کے مامورات کو جانے، اپنے اخلاق کو مہذب بنائے، نرم گوشہ رکھے، بیوقوف پر بردباری کرے، جاہل کو تعلیم دے، علم کے اہل لوگوں میں علم کو عام کرے، حکمرانوں سے نرمی و رعایت رکھے، رعیت پر نرمی برتے، ان میں عدل کے قوانین کو قائم رکھے، ان کے معاملات میں انصاف کرے، ظلم کو ترک کرنے کے لیے اور ان کے علاوہ بھی جو حقوق ہیں ان کی پاسداری کے لیے عدل کو استعمال میں لائے گو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں لا تعداد ہیں لیکن وہ ہر نعمت میں اسی طرح چلتا رہے۔
نعمت کے اثرات نظر آنا ان کے اظہار اور ان کے متعلق بتا کر بھی ممکن ہے۔
یہاں پر اللہ کی نعمت کو بیان کرنے اور نعمت کے ساتھ فخر و غرور کرنے میں جو فرق ہے وہ سمجھ لیں:
اللہ کی نعمت بیان کرنے والا، اس کی صفات، اس کے خالص احسان اور سخاوت کی خبر دیتا ہے چنانچہ اس کے اظہار اور اس کی باتیں بتا کر وہ اللہ کی ثناء کرتا اور اس کا شکریہ ادا کرتا ہے اور اس کے تمام احسانات کو پھیلانے والا ہوتا ہے۔اس کا مقصد اللہ کی صفات اور اس کی مدح و ستائش کا اظہار اور نفس کو صرف اسی سے مانگنے اور اس کی محبت اور امید پر ابھارنا ہے چنانچہ ایسا انسان اللہ کی نعمتوں کو ظاہر کرکے اور پھیلا کر اور ان کی باتیں بتا کر اللہ کی طرف راغب ہوجاتا ہے اور جو ایسا نہیں وہ نعمت کے ساتھ فخر و غرور کرنے والا ہے۔1

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 الفوائد لابن القیم، ص: ۲۳۸۔ کتاب الروح، ص: ۳۳۴۔ فیض القدیر للمناوی، ص: ۲۹۳، ۲۔ تحفۃ الاحوذی، ص: ۱۲۲ ؍ ۶۔
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top