• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بندے کا قبر والے کو سلام کہنا اور اس کی روح کا لوٹایا جانا

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
محترم حافظ صاحب: آپ نے لکھا کہ
"یہ درست نہیں کیوں کہ سوال و جواب کے وقت اسی جسم میں روح کا لوٹایا جانا ثابت ہے صحیح حدیث سے،لہٰذا یہ استثنا درست ہے بہ شرط صحت حدیث(رد روح رسولؑ بہ وقت سلام)"
بوقت سلام والی حدیث کی سندو متن اور ترجمہ نقل کر دیں پھر اس کے متعلق کچھ عرض کرونگا؟اور بوقتِ سلام روحِ نبوی کے لوٹائے جانے والی حدیث بھی متن اور ترجمہ کے ساتھ نقل کریں اس پر بھی کچھ عرض کرتا ہوں۔
@حافظ طاہر اسلام عسکری یہاں بھی جلدی سے جواقب دے دیں- شکریہ

بوقتِ سلام روحِ نبوی کے لوٹائے جانے والی حدیث بھی متن اور ترجمہ کے ساتھ نقل کریں-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم کفایت اللہ صاحب نے حدیث کی تضعیف پر جو بحث کی ہے اس کی گنجایش موجود ہے گو اس پر مزید گفت گو ہو سکتی ہے اس لیے کہ بعض علما نے اسے حسن قرار دیا ہے غالباً علامہ البانی کا بھی یہی موقف ہے لیکن جو انھوں نے یہ فرمایا ہے کہ

یہ درست نہیں کیوں کہ سوال و جواب کے وقت اسی جسم میں روح کا لوٹایا جانا ثابت ہے صحیح حدیث سے،لہٰذا یہ استثنا درست ہے بہ شرط صحت حدیث(رد روح رسولؑ بہ وقت سلام)
صریح قرآن نص سے یہ بات ثابت ہوتی کہ اعادہ روح قیامت کے دن ہی ہو گا اس سے پہلے نہیں - ملاحظه ہو قرانی آیات :

إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ - وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ-وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ-وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ- وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ-وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ-وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ سوره التکویر ١-٧
جب سورج لپیٹ دیا جائے گا -اور جب ستارے گر جائیں-اور جب پہاڑ چلائے جائیں-اور جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں-اور جب جنگلی جانور اکھٹے ہوجائیں-اور جب سمندر جوش دیئے جائیں-اور جب جانیں جسموں سے ملائی جائیں-


يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ -رْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً-فَادْخُلِي فِي عِبَادِي-وَادْخُلِي جَنَّتِي سوره الفجر ٢٧-٣٠
(ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح-اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی-پس میرے بندو ں میں شامل ہو-اور میری جنت میں داخل ہو-

فَلَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ -سوره الشراء ١٠٢
پھر اگر ہمیں دوبارہ جانا ملے تو ہم ایمان والوں میں شامل ہوں-

أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۖ فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِيُّ وَهُوَ يُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سوره شوریٰ ٩
کیا انہوں نے اس کے سوا اوربھی مددگار بنا رکھے ہیں پھر الله ہی مددگار ہے اور وہی مردووں کو زندہ کرے گ (قیامت کی دن) اور وہ ہر چیز پر قادر ہے-

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ سوره یٰسین ٣١
کیا یہ نہیں دیکھ چکے کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کر دیا وہ ان کے پاس لوٹ کر نہیں آئے-

نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی فرشتوں کے سوال و جواب سے متعلق احادیث کا تعلق عالم برزخ سے ہے - کیوں کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو زمینی قبرنہیں ملتی ان کے جسم کے اعضاء مختلف جگہوں پر بکھر جاتے ہیں کوئی ڈوب کر مارتا ہے- غیر مسلموں کی نہ نماز جنازہ ہوتی ہے نہ میت کو لوگ قبر تک چھوڑ کر اتے ہیں- جب کے احادیث میں تو یہ ہے کہ قبر میں لوگوں کے دفنانے کے فورا بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے - مردہ دفنانے والوں کو ان کے جانے کے بعد ان کے جوتوں کی چاپ بھی سنتا ہے - (یاد رہے کہ کسی حدیث سے ثابت نہیں کہ مردہ مغفرت کی دعا کے لئے آنے والوں کی چاپ بھی سنتا ہے)- اگر ان احادیث نبوی کے ظاہری معنی کو مان کر ہم یہ کہیں کہ روح قبر میں مردہ میں واپس پلٹتی ہے -تا کہ وہ فرشتوں کے سوالوں کا جواب دے سکے تو ان حادیث کا اصول صرف ان لوگوں پر لاگو کیا جا سکے گا- جن کو اسلامی طریقہ کار کے مطابق مرنے کے بعد دفن کیا جاتا ہے - باقی جن کو دفن نہیں کیا جاتا یا جو اپنی موت کے بعد خود ہی کہیں دفن ہو جاتے ہیں یا ان کا جسم ہوا میں منتشر ہو جاتا ہے - اس پر بظاھر مردہ انسان کا قبر میں اپنی روح کے اعادہ پر عذاب ، سوال و جواب کا قائم ہو جانا احادیث نبوی کے ظاہری مفہوم سے نا ممکن نظر آتا ہے -اور قرانی آیات سے بھی یہ عقیدہ ثابت ہو رہا ہے کہ انسان کی روح قیامت کے روز ہی اس کے جسم میں ڈالی جائے گی - (واللہ اعلم)-
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عذاب قبراور اس کی نعمتیں حق ہیں جو کہ جسم اور روح ان کا وقوع دونوں پر ہے

میرا ایک عجیب وغریب سوال ہے وہ یہ ہے کہ میرا اعتقاد ہے جب انسان مر جاتا ہے تو وہ سن نہیں سکتا جیسا کہ اس کا جسم نافع نہیں رہتا لیکن حدیث کے مطابق عذاب قبر ہوتا ہے تو کیا اس کا یہ معنی تو نہیں کہ جسم ابھی زندہ ہے ؟

اور ایسے ہی قرآن میں آیا ہے کہ شہید مرتے نہیں اور اسی طرح مسلم شریف کی احادیث میں یہ آیا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل اور امیہ اور دوسروں کے جسموں کو مخاطب کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے سوال کیا یہ کیسے ممکن ہے کہ مردے آپ کی کلام کو سنیں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ وہ سنتے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے ۔

آپ سے گذارش ہے کہ مہربانی فرماتے ہوئے میرے سوال کا جواب تفصیل کے ساتھ دیں ۔


الحمدللہ

1- سوال میں جو یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ مردے زندوں کی کلام بالکل نہیں سنتے یہ بات صحیح اور حق ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

< جو لوگ قبروں میں ہیں آپ انہیں نہیں سنا سکتے > فاطر / 22

اور فرمان باری تعالی ہے :

< بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے > الروم / 52

2- اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ عذاب قبر اور برزخی زندگی کا وجود ہے اور ایسے ہی میت کی حالت کے اعتبار سے اس قبر میں نعمتیں اور راحت بھی ملتی ہے اس کے دلائل ذکر کۓ جاتے ہیں :

آل فرعون کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :

< آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لاۓ جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی < فرمان ہو گا > فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو > غافر / 46

اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ آل فرعون صبح اور شام عذاب پر پیش کۓ جاتے ہیں حالانکہ وہ مر چکے ہیں اور اسی آیت سے علماء کرام نے عذاب قبر کا ثبوت لیا ہے ۔

یہ آیت کریمہ اہل سنت والجماعت کی عذاب قبر کے متعلق سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

< آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لاۓ جاتے ہیں > تفسیر ابن کثیر (4/ 82)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے :

< اللہھم انی اعوذبک من عذاب القبر واعوذبک من فتنۃ المسیح الدجال واعوذبک من فتنۃ المحیا والممات اللھم انی اعوذبک من الماثم والمغرم >

( اے اللہ میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اے اللہ گناہ اور قرض سے میں تیری پناہ پکڑتا ہوں )صحیح بخاری حدیث نمبر (798) صحیح مسلم حدیث نمبر (589)


اور حدیث میں شاہد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے اور یہی عذاب قبر کے اثبات کی دلیل ہے اور عذاب قبر کی مخالفت کرنے والوں میں معتزلہ اور کچھ دوسرے گروہ ہیں جن کی مخالفت کچھ وزن نہیں رکھتی ۔

3- اور وہ حدیث جس میں بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشرکوں کے جسموں کا مخاطب کرنے کا ذکر ہے تو یہ خاص ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالی نے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لۓ زندہ کر دیا تھا تا کہ انہیں ذلیل کرے اور ذلت وغیرہ دکھائے ۔

ا – عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے وہ جو اللہ تعالی نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا تھا کیا اسے تم نے سچا پایا ہے ؟ پھر اس کے بعد فرمانے لگے کہ بے شک اب میں جو کہہ رہا ہوں وہ سن رہے ہیں :

صحیح بخاری حدیث نمبر (3980) صحیح مسلم حدیث نمبر (932)

ب – ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایسے جسموں کے ساتھ بات کر رہے ہیں جن کی روحیں ہی نہیں ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو > قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں زندہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سنایا تا کہ انہیں حسرت اور ندامت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑے –

صحیح بخاری حدیث نمبر (3976) صحیح مسلم حدیث نمبر (2875) دیکھیں فتح الباری (7/ 304)

تو اس حدیث سے شاہد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کنویں والوں کو ان کی تحقیر اور تذلیل کے لۓ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام سنائی اور اس سے یہ استدلال کرنا کہ میت سب کچھ سنتی ہے صحیح نہیں یہ کنویں والوں کے ساتھ خاص ہے لیکن کچھ علماء میت کا سلام سننا استثناء کرتے ہیں جو کہ صحیح دلیل کی محتاج ہے ۔

4- علماء کا صحیح قول یہی ہے کہ عذاب قبر روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

آئمہ سلف کا مذہب یہ ہے کہ عذاب قبر اور اس کی نعمتیں میت کی روح اور جسم دونوں کو حاصل ہوتی ہیں اور روح بدن سے جدا ہونے کے بعد عذاب یا نعمت میں ہوتی ہے اور بعض اوقات جسم سے ملتی بھی ہے تو دونوں کو عذاب یا نعمت حاصل ہوتی ہے ۔

تو ہم پر یہ ضروری ہے کہ جو اللہ تعالی نے ہمیں خبر دی ہے ہم اس پر ایمان لائیں اور اس کی تصدیق کریں ۔

الاختیارات الفقہیۃ (ص 94)

اور ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اس مسئلہ کے متعلق شیخ الاسلام رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا اور ان کے جواب کے الفاظ ہمیں یاد ہیں انہوں نے فرمایا :

اہل سنت والجماعت اس پر متفق ہیں کہ عذاب اور نعمتیں بدن اور روح دونوں کو ہوتی ہے روح کو بدن سے جدا ہونے کی شکل میں بھی عذاب اور نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور بدن سے متصل ہونے کی شکل میں بھی تو بدن سے روح کے متصل ہونے کی شکل میں روح کو عذاب اور نعمت کا اس حالت میں حصول دونوں کو ہوتا ہے جس طرح کہ روح کا بدن سے منفرد ہونے کی شکل میں ہے ۔

ائمہ سلف کا مذہب :

مرنے کے بعد میت یا تو نعمتوں میں اور یا پھر عذاب میں ہوتی ہے ۔ جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتا ہے روح بدن سے جدا ہونے کے بعد یا تو نعمتوں میں اور یا عذاب میں ہوتی اور بعض اوقات بدن کے ساتھ ملتی ہے تو بدن کے ساتھ عذاب اور نعمت میں شریک ہوتی اور پھر قیامت کے دن روحوں کو جسموں میں لوٹایا جائے گا تو وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف نکل کھڑے ہوں گے جسموں کا دوبارہ اٹھنا اس میں مسلمان اور یہودی اور عیسائی سب متفق ہیں- الروح ( ص / 51- 52)

علماء اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ انسان خواب میں بعض اوقات یہ دیکھتا ہے کہ یہ کہیں گیا اور اس نے سفر کیا یہ پھر اسے سعادت ملی ہے حالانکہ وہ سویا ہوا ہے اور بعض اوقات وہ غم وحزن اور افسوس محسوس کرتا ہے حالانکہ وہ اپنی جگہ پر دنیا میں ہی موجود ہے تو بزرخی زندگی بدرجہ اولی مختلف ہو گي جو کہ اس زندگی سے مکمل طور پر مختلف ہے اور اسی طرح آخرت کی زندگی میں بھی ۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اگر یہ کہا جائے کہ میت کو قبر میں اپنی حالت پر ہی دیکھتے ہیں تو پھر کس طرح اس سے سوال کیا جاتا اور اسے بٹھایا اور لوہے کے ہتھوڑوں سے مارا جاتا ہے اور اس پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے بلکہ اس کی مثال اور نظیر عام طور پر نیند میں ہے کیونکہ سویا ہوا شخص بعض اوقات کسی چیز پر لذت اور یا پھر تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرتے اور اسی طرح بیدار شخص جب کچھ سوچ رہا ہوتا یا پھر سنتا ہے تو اس کی لذت اور یا تکلیف محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اس کا مشاہدہ نہیں کرتا اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آتے اور انہیں وحی کی خبر دیتے تھے لیکن حاضرین کو اس کا ادراک نہیں ہوتا تھا تو یہ سب کچھ واضح اور ظاہر ہے – شرح مسلم ( 71/ 201)

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے :

اور سوئے ہوئے شخص کو اس کی نیند میں لذت اور تکلیف ہوتی ہے جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتی ہے حتی کہ یہ ہوتا ہے کہ نیند میں اسے کسی نے مارا تو اٹھنے کے بعد اس کی درد اپنے بدن میں محسوس کرتا ہے اور نیند میں یہ دیکھتا ہے کہ اس نے کوئی اچھی سی چیز کھائی ہے تو اس کا ذائقہ اٹھنے کے بعد اس کے منہ میں ہوتا ہے اور یہ سب کچھ پایا جاتا اور موجود ہے ۔

تو اگر سوۓ ہوئے شخص کے بدن اور روح کو یہ نعمتیں اور عذاب جسے وہ محسوس کرتا ہے ہو سکتیں ہیں اور جو اس کے ساتھ ہوتا ہے اسے محسوس تک نہیں ہوتا حتی کہ کبھی سویا ہوا شخص تکلیف کی شدت یا غم پہنچنے سے چیختا چلاتا بھی ہے اور جاگنے والے اس کی چیخیں سنتے ہیں اور بعض اوقات وہ سونے کی حالت میں باتیں بھی کرتا ہے یا قرآن پڑھتا اور ذکر واذکار اور یا جواب دیتا ہے اور جاگنے والا یہ سب کچھ سنتا اور وہ سویا ہوا اور اس کی آنکھیں بند ہیں اور اگر اسے مخاطب کیا جائے تو وہ سنتا ہی نہیں ۔

تو اس کا جو کہ قبر میں ہے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے اور فرمایا تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں ؟

اور دل قبر کے مشابہ ہے تو اسی لۓ غزوہ خندق کے دن جب عصر کی نماز فوت ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھرے گا اور دوسری روایت کے لفظ ہیں < ان کے دلوں اور قبروں کو آگ سے بھرے > اور ان کے درمیان اس قول میں تفریق کی گئی ہے ۔

< جب قبروں جو ہے نکال لیا جائے گا اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی >


اور اس کے امکان کی تقریر اور تقریب ہے ۔

یہ کہنا جائز نہیں کہ جو کچھ میت عذاب اور نعمتیں کو حاصل کرتی ہے وہ اسی طرح کہ سونے والا حاصل کرتا ہے بلکہ یہ عذاب اور نعمتیں اس سے زیادہ کامل اور حقیقی ہیں لیکن یہ مثال امکانی طور پر ذکر کی جاتی ہے اور اگر سائل یہ کہے کہ میت قبر میں حرکت تو کرتی نہیں اور نہ ہی مٹی میں تغیر ہوتا ہے وغیرہ حالانکہ یہ مسئلہ تفصیل اور شرح چاہتا ہے یہ اوراق اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔

اور اللہ تعالی زیادہ علم رکھتا ہے ۔

اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے – آمین

مجموع الفتاوی ( 4/ 275 – 276 )

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/10547
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
وہ کون سے سوال ہیں کہ انسان قبر میں ان کا سامنا کرے گا اور ہم ان سے پناہ مانگتے ہیں ؟

الحمدللہ

اول :

جب ابن آدم مر جاتا اور اس کی روح نکل جاتی اور اسے قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ اس وقت آخرت کے سب سے پہلے مرحلے میں ہوتا ہے کیونکہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے ۔

ہانی مولی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عثمان بن عفان کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ ان کی داڑھی بھیگ جاتی تو انہیں کہا جاتا آپ جنت اور جہنم کے ذکر سے نہیں روتے اور اس سے روتے ہیں ؟ تو وہ فرماتے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ : قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے جو اس سے نجات پا گیا اس کے لۓ باقی منازل اس کے لۓ آسان ہیں اور اگر اس سے نہ بچ سکا تو اس کے بعد والی اس سے بھی سخت ہیں )

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ :

< میں نے کوئی منظر نہیں دیکھا مگر قبر اس سے بھی زیادہ خطرناک اور گھبراہٹ میں ڈالنے والی ہے >

ترمذی حدیث نمبر (2308) ابن ماجہ حدیث نمبر (4567) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع (1684) میں اسے حسن کہا ہے ۔

دوم :

اس کے پاس دو فرشتے آئیں گے جن کے ذمہ یہ کام لگایا گیا ہے اور وہ اس سے اس کے متعلق پوچھیں گے کہ وہ دنیا میں اپنے رب اور دین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا ایمان رکھتا تھا اگر تو اس نے اچھا جواب دیا تو یہ اس کے لۓ بہتر ہو گا اور اگر جواب نہ دے سکا تو وہ اسے بہت سخت اور شدید قسم کی مار ماریں گے ۔

اگر تو وہ اچھے لوگوں میں سے ہو گا تو فرشتے اس کے پاس چمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ آئیں گے اور اگر فسادی لوگوں میں سے ہوا تو فرشتے اس کے پاس سیاہ چہرے لے کر آئیں گے اور یہی وہ فتنہ ہے جس کے ساتھ اس کی آزمائش ہو گی ۔

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہا کرتے تھے ( اے اللہ میں سستی اور بڑھاپے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور قرض اور گناہ سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اے اللہ میں عذاب قبر اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور قبر کے فتنہ اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں اور فقراء اور غناء کے شریر فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنہ شر سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اے اللہ میرے گناہوں کو پانی اور برف اور اولوں سے دھو ڈال اور میرے دل کو گناہوں سے ایسے پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اس طرح دوری پیدا کر دے جس طرح تو نے مشرق ومغرب کے درمیان دوری ڈالی ہے > صحیح بخاری حدیث نمبر (6014)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ( اور فنتہ قبر سے) یہ دونوں فرشتوں کا سوال ہے ۔ فتح الباری (11/ 177)

اور مبارکپوری کا قول ہے :

(اور فتنہ قبر ) یعنی: فرشتوں کو جواب دینے میں حیرانی میں پڑنا – تحفۃ الاحوذی (9/ 328)

سوم :

اب رہا کہ وہ کون سا سوال ہے جو کہ فرشتے پوچھیں گے تو مندرجہ ذیل حدیث میں اسے بیان کیا گیا ہے ۔

براء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری صحابی کے جنازہ میں شرکت کے لۓ گۓ تو جب ہم قبر کے پاس پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گۓ اور ہم بھی ان کے ارد گرد اس طرح بیٹھ گۓ ہمارے سروں پر پرندے منڈلا رہے ہوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے وہ زمین کو کرید رہے تھے تو انہوں نے اپنے سر کو اٹھایا اور فرمانے لگے – اور دو یا تین دفعہ یہ کہا کہ :

عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو پھر فرمانے لگے : جب مومن شخص دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو آسمان سے روشن چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں گویا کہ ان کے چہرے سورج ہوں تو اس کے پاس حد نظر تک بیٹھ جاتے ہیں ان کے پاس جنت کے کفنوں میں سے کفن اور جنت کی خوشبووں میں سے ایک خوشبو ہوتی ہے تو موت کا فرشتہ آ کر اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا اور اس سے کہتا ہے کہ اے اچھی اور نیک روح اپنے رب کی مغفرت اور بخشش اور رضا کی طرف نکل چل تو وہ اس طرح بہہ نکلتی ہے جس طرح کہ مشکیزے کی منہ سے قطرہ بہتا ہے تو جب اسے پکڑتے ہیں تو اسے لمحہ بھر بھی اپنے ہاتھوں میں نہیں رکھتے اور فورا اسے اس کفن اور خوشبو میں کر لیتے ہیں تو اس سے ایسے کستوری کی خوشبو آنی شروع ہوتی ہے جو کہ زمین پر سب سے اچھی پائی جاتی ہو تو اسے لے کر اوپر چلے جاتے ہیں اور جس فرشتے کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتا ہے کہ یہ کس کی اتنی اچھی روح ہے ؟ تو انہیں جواب میں وہ نام بتایا جاتا ہے جس سے دنیا میں وہ سب سے اچھے نام کے ساتھ پکارا جاتا تھا کہ فلاں بن فلاں ہے حتی کہ اسے آسمان دنیا پر لے جاتے ہیں تو اسے کھلوایا جاتا ہے تو کھول دیا جاتا ہے تو ہر آسمان پر اس کا استقبال کرنے والے دوسرے آسمان تک لے جاتے ہیں حتی کہ وہ ساتویں آسمان تک لے جایا جاتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اللہ تعالی فرماتے ہیں :

میرے بندے کی کتاب ساتویں آسمان میں علیین کے اندر لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جا‎ؤ کیونکہ میں نے انہیں اس سے ہی پیدا کیا اور اسی میں واپس لوٹاؤں گا اور اسی میں سے دوبارہ نکالوں گا اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹایا جاتا تو دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے اور اس سے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ تعالی ہے پھر اسے کہتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے پھر اسے کہتے ہیں کہ وہ جو تیرے پاس مبعوث کر کے بھیجا گیا وہ کون ہے ؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو وہ اس سے کہتے ہیں کہ تیرے عمل کیسے ہیں ؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالی کی کتاب کو پڑھا تو اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ۔ تو آسمان سے منادی کرنے والا آواز لگاتا ہے میرے بندے نے سچ کہا ہے اس کا بستر جنت کا بچھاؤ اور اسے لباس بھی جنت کا پہناؤ اور اس کے لۓ جنت کی طرف دروازہ کھول دو تو اس درواز ے سے جنت کی خوشبو اور ہوا آتی ہے اور اس کی قبر حد نظر تک وسیع کر دی جاتی اور اس کے پاس خوش باش چہرے والا اور اچھے لباس اور اچھی خوشبو میں ایک شخص آکر کہتا ہے تجھے ایسی خوشخبری ہے جو کہ تیرے لۓ خوشی کا باعث ہے یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا رہا ہے وہ اس سے سوال کرے گا کہ تو کون ہے ؟ تیرے چہرے سے تو خیر اور بھلائی ہی جھلکتی ہے تو وہ اسے جواب دے گا میں تیرے اعمال صالحہ ہوں تو وہ آدمی کہے گا اے رب قیامت قائم کر دے تا کہ میں اپنے اہل وعیال میں واپس جا سکوں ۔

اور جب کافر شخص دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اترتے ہیں اور ان کے پاس ٹاٹ ہو گا (یعنی کھردرا کپڑا) تو اس کے پاس حد نگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر ملک الموت آکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتا اور کہتا ہے اے گندی اور خبیث روح اللہ تعالی کے غضب اور ناراضگی کی طرف چل تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روح پورے جسم میں پھیل جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو جب وہ نکلتی ہے تو اس کے ساتھ رگیں اور پٹھے ٹوٹنے لگتے ہیں جس طرح کہ بھیگی ہوئی روئی سے سیخ کھینچی جاتی ہے تو وہ اسے پکڑ لیتے ہیں اور لمحہ بھر بھی اپنے ہاتھوں میں نہیں رکھتے اور فورا اسے اس ٹاٹ میں لپیٹ دیتے ہیں تو اس سے اتنی گندی بو اٹھتی ہے جیسے زمین میں کسی مردار کی ہو تو اسے لے کر اوپر چلے جاتے ہیں اور جس فرشتے کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتا ہے کہ یہ کس کی اتنی گندی اور خبیث روح ہے ؟ تو انہیں جواب میں وہ نام بتایا جاتا ہے جس سے دنیا میں وہ سب سے برے نام کے ساتھ پکارا جاتا تھا کہ وہ فلاں بن فلاں ہے حتی کہ اسے آسمان دنیا پر لے جاتے ہیں تو اسے کھلوایا جاتا ہے تو اسے نہیں کھولا جاتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:

< ان کے لۓ آسمان کے دروازے نہیں کھولیں جائیں گے اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے نکے میں داخل نہ ہو جائے > الاعراف /40

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی فرمائے گا: میرے بندے کی کتاب سجین سب سے نچلی زمین میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ کیونکہ میں نے انہیں اس سے ہی پیدا کیا اور اسی میں واپس لوٹاؤں گا اور اسی میں سے دوبارہ نکالوں گا تو اس کی روح کو وہیں سے پھینک دیا جاتا ہے اور راوی کہتے ہیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :

< اور جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پر پھینک دے گی > الحج / 31

تو انہوں نے کہا کہ اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹایا جاتا ہے تو دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے اور اس سے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہاۓ ہاۓ مجھے تو علم نہیں- پھر اسے کہتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہاۓ ہاۓ مجھے تو علم نہیں تو آسمان سے منادی کرنے والا آواز لگاتا ہے اس کے لۓ جہنم کا بستر دو اسے جہنم کا ہی لباس پہنا دو اور جہنم کی طرف دروازہ کھول دو تو انہوں نے کہا کہ اس دروازے سے جہنم کی گرمی اور لو آۓ گی اور اس پر قبر اتنی تنگ ہو جائے گی کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے سے مل جائیں گی اور اس کے پاس برے چہرے اور قبیح شکل اور گندے اور برے کپڑوں پہنے اور اس سے بری بدبو آرہی ہو گی آکر کہتا ہے تو ایسی خبر سن جسے تو برا محسوس کرے گا یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا رہا ہے وہ اس سے سوال کرے گا کہ تو کون ہے ؟ تیرے چہرے سے برائی اور شر جھلک رہا ہے وہ اسے جواب دے گا میں تیرے برے اور خبیث اعمال ہوں تو وہ آدمی کہے گا اے رب قیامت قائم نہ کر قیامت قائم نہ کر – ابو داؤد (4753) مسند احمد (18063) اور یہ الفاظ مسند احمد کے ہیں ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الجامع (1676) میں صحیح قرار دیا ہے ۔

تو صحیح بات یہ ہے کہ قبر میں فرشتے میت سے توحید اور عقیدہ کے علاوہ کچھ نہیں پوچھتے اور یہ واضح اور ظاہر ہے ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
شہداء۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہا ہے، اللہ رب العالمین فرما رہے ہیں :" أَحْيَاء "زندہ ہیں" عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ [آل عمران : 169] " اللہ کے پاس ان کو رزق دیا جاتا ہے۔اور پھر فرمار ہے ہیں: " فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ "اللہ نے جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے یہ لوگ اس پر خوش بھی ہیں۔" وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ" ان کو خوشخبریاں بھی دی جاتی ہیں۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ شہداء احدکی روحیں سبز رنگ کے پرندوں میں ہیں، وہ جنت کے جو مرضی پھل چاہیں، کھائیں، خوشہ چینی کریں۔لہٰذا ثابت ہوا کہ اس قبر کے اندر عذاب اور سزا نہیں بلکہ عذاب کےلیے آسمانوں سے اوپر کوئی برزخ ہے ، کوئی قبر ہے، جہاں پر اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔اور روح اس جسم کے اندر نہیں لوٹتی، بلکہ اس روح کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ساری کی ساری باتیں اور اعتراضات غلط ہیں"

محترم : جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تھی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اشکال ہوا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے جواب میں جو ارشاد فرمایا تھا اسے غور سے پڑھیں:

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ وَعِيسَی بْنُ يُونُسَ جَمِيعًا عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ
أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا
حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا

صحیح مسلم:جلد سوم:امارت اور خلافت کا بیان :شہدا کی روحوں کے جنت میں ہونے اور شہدا کے زندہ ہونے اور اپنے رب سے رزق دیے جانے کے بیان میں حدیث قدسی مکررات 4 متفق علیہ 1 بدون مکرر

یحیی بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ، محمد بن عبداللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ
ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں
یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

قرآن مجید فرقان حمید کی اس آیتِ کریمہ کی تفسیر رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے اور اس میں آپ ﷺ نے صاف صاف فرمایا کہ شھدا کی ارواح سبز رنگ کے پرندوں کے جوف میں رہ کر جنت میں سیر کرتی ہیں اورعرش کے نیچے لٹکی قندیلوں بسیرا کرتی ہیں اور جن اللہ رب العزت اُن سے پوچھتے ہیں

کہ کچھ مانگو تو وہ کہتے ہیں "يَا رَبِّ نُرِيدُأَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا"

اے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں

جناب کہتے ہیں کہ روحیں قبروں میں مدفون جسموں میں ہوتی ہیں اور امام الانبیاء ﷺفرماتے ہیں کہ شھدا کی روحیں جنت میں ہوتی ہیں اور شھدا کہتے ہیں کہ ہماری روحیں جسموں میں لو ٹا دے ۔اگر شھدا کی روحیں اُن کے جسموں میں ہوتیں تو وہ یہ مطالبہ کیوں کرتے۔

ایک اور حدیث مبارکہ پڑھیں:

حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔

(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)

مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔

ثابت ہوا کہ مرنے کے بعدمومنین کی روحوں کا ٹھکانہ جنت میں ہوتا ہے اور قیامت سے پہلے وہ اپنے جسموں میں نہیں لوٹائی جاتیں ۔

دلائل تو اور بھی بہت ہیں مگر ماننے والوں کے لئے یہی کافی ہیں


سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 2077 حدیث مرفوع مکررات 4

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ کَانَ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَبْعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ


قتیبہ، مالک، ابن شہاب، عبدالرحمن بن کعب، کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومن کی جان جنت کے درختوں پر پرواز کرتی رہے گی یہاں تک کہ خداوند قدوس اس کو قیامت کے دن اس کے جسم کی طرف بھیج دے گا۔


سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1152 حدیث مرفوع مکررات 4

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَعْبٍ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ کَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ يَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَرْجِعَ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ يُبْعَثُ
سوید بن سعید، مالک بن انس، ابن شہاب، عبدالرحمن حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں چگتی پھرتی ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اپنے اصلی بدن میں ڈالی جائے گی۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436


صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2724 حدیث قدسی مکررات 1 متفق علیہ 1 بدون مکرر
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَکَانِ يُصْعِدَانِهَا قَالَ حَمَّادٌ فَذَکَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَکَرَ الْمِسْکَ قَالَ وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَائَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْکِ وَعَلَی جَسَدٍ کُنْتِ تَعْمُرِينَهُ فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَی رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ يَقُولُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ قَالَ حَمَّادٌ وَذَکَرَ مِنْ نَتْنِهَا وَذَکَرَ لَعْنًا وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ خَبِيثَةٌ جَائَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ قَالَ فَيُقَالُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً کَانَتْ عَلَيْهِ عَلَی أَنْفِهِ هَکَذَا
عبید اللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالی تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے سجن کی طرف لے چلو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی

(کافر کی روح کی بدبو ظاہر کرنے کے لییے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا)
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
محترم حافظ صاحب: آپ نے لکھا کہ
"یہ درست نہیں کیوں کہ سوال و جواب کے وقت اسی جسم میں روح کا لوٹایا جانا ثابت ہے صحیح حدیث سے،لہٰذا یہ استثنا درست ہے بہ شرط صحت حدیث(رد روح رسولؑ بہ وقت سلام)"
بوقت سلام والی حدیث کی سندو متن اور ترجمہ نقل کر دیں پھر اس کے متعلق کچھ عرض کرونگا؟اور بوقتِ سلام روحِ نبوی کے لوٹائے جانے والی حدیث بھی متن اور ترجمہ کے ساتھ نقل کریں اس پر بھی کچھ عرض کرتا ہوں۔
اس تھریڈ کے آغاز ہی میں موجود ہے؛ملاحظہ فرما کر راے دیں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
@حافظ طاہر اسلام عسکری یہاں بھی جلدی سے جواقب دے دیں- شکریہ

بوقتِ سلام روحِ نبوی کے لوٹائے جانے والی حدیث بھی متن اور ترجمہ کے ساتھ نقل کریں-
أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ السُّكَّرِيُّ , بِبَغْدَادَ ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ, ثنا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ التَّرْقُفِيُّ , ثنا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ , ثنا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ , عَنْ أَبِي صَخْرٍ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ , عَنْ [COLOR=000080]أَبِي هُرَيْرَةَ http://library.islamweb.net/hadith/RawyDetails.php?RawyID=4396, رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلا رَدَّ اللَّهُ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلامَ "[/COLOR]
(

(حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي)
 
Top