• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنو غسیل الملائکہ

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام علیکم۔
دوستو!۔
احد کے شہداء میں اک نام حنظلہ بن ابی عامر کا بھی ہے ان کا قصہ بڑا ہی دلچسپ اور خوبصورت ہے آئیے ذرا ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہیں اوس قبیلہ کی ایک شاخ بنو عمرو بن عوف صدیوں سے مسجد قباء کے اردگرد کے علاقے میں آباد ہے اسی قوم کا ایک فرد ابوعامر بن صیفی تھا جو زمانہ جاہلیت راہب کے لقب سے معروف تھا وہ مجالس میں قیامت اور حساب کتاب کی باتیں کرتا، دین حنیف کو سچا جانتا اور اسی عقیدے کا پرچار کرتا تھا اس نے تورات میں موجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بارے میں بشارتیں پڑھ رکھی تھیں اس لئے وہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منتظر تھا لوگوں کو ان کے بارے میں بتایا کرتا تھا کہ وہ عنقریب اس دنیا میں تشریف لانیوالے ہیں۔۔۔

قارئین کرام!۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو یہ سب سے پہلے ایمان لانے والے لوگوں میں سے ہوتا مگر اس کی بدقسمتی کہ اس پر حسد غالب آگیا حسد ایسی بری چیز ہے، اللہ اس سے ہم سب کو محفوظ رکھے یہ حق کو چھپا دیتا ہے آدمی عقل وبصیرت سے محروم ہوجاتا ہے اس پر پردھ پڑجاتا ہے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ابو عامر راہب سے بھی ہوئی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا؟؟؟۔۔۔

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!۔ یہ بتائیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کون سا دین لے کر آئے ہیں؟؟؟۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!۔۔۔
میں دین حنیف دین ابراھیم لے کر آیا ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم اس مذہب پر نہیں ہو؟؟؟۔۔۔
ابوعامر کہنے لگا!۔
میں بھی دین حنیف پر یقین رکھتا ہوں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین حنیف میں ایسی چیزیں داخل کردی ہیں جو اس کا حصہ نہیں۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم!
میں نے ایسا کچھ نہیں کیا، میں بہت روشن اور صاف ستھری شریعت لے کر آیا ہوں۔۔۔
ابوعامر نے ہرزہ سرائی کی!۔
جو ہم میں سے جھوٹا ہو اللہ تعالٰی اس کو دھتکار کر پردیس میں تنہائی کا شکار کرکے مارے۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔۔۔آمین۔۔۔

اس بدبخت کی شقاوت اس پر اس درجہ غالب آئی کہ کہنے لگا۔۔۔ کوئی بھی قوم آپ کے ساتھ جنگ کرے گی تو میں اس کے ساتھ ملکر آپ کے خلاف لڑائی کروں گا اس ملاقات کے آخر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ابو عامر فاسق کا لقب عطاء فرمایا۔۔۔

مدینہ المنورہ میں جب اسلام پھیلنا شروع ہوا تو اس کو سخت صدمہ پہنچا یہ اپنے حسد کی آگ میں جلتا رہتا تھا غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح نے اس جیسے منافق اور فاسق لوگوں کے حسد وبغض میں مزید اضافہ کردیا ابوعامر اپنی قوم کے نمایاں افراد میں سے تھا اسلام سے پہلے اس کا قبیلہ "اوس" اس کی بڑی عزت کرتا تھا اسکی قوم اسکی ہر بات مانتی تھی اس لئے اسے ابوعامر راہب کہتے تھے یہ شخص بدر کے صدمہ کو بھلانہ سکا وہ اپنے بعض منافق ساتھیوں کے ہمراہ مکہ چلا گیا وہاں قریش سے مل کر ان کو بدر کا بدلہ لینے پر خوب بھڑکایا جب ٣ ہجری میں مشرکین مکہ اُحد کیلئے روانہ ہوئے تو ابوعامر ان میں پیش پیش تھا یہ بھی غزوہ احد میں مشرکین کی طرف سے شریک ہوا۔۔۔

احد کے میدان میں مشرکین کا لشکر مسلمانوں کے لشکر سے پہلے پہنچ گیا تھا ابوسفیان نے ابو عامر کو غلاموں اور احابیش کے ایک گروہ کی کمان دی تھی احابیش قریش ہی کے بعض قبائل تھے جو قبل از اسلام قریش سے الگ ہوگئے تھے انہوں نے جنگ شروع ہونے سے پہلے میدان احد میں کچھ گڑھے کھود دیئے تاکہ مسلمانو ان میں گر پڑیں اور انہیں چوٹیں آئیں۔۔۔

سبحان اللہ! اللہ رب العزت مُردوں سے زندوں کو پیدا کرتا رہتا ہے یہ شخص جتنا اسلام کا شدید دشمن تھا اس کا بیٹا حنظلہ قوت ایمان، متانت، یقین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اسلام سے محبت کا خوبصورت نمونہ تھا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ باپ جتنا اسلام کا دشمن تھا بیٹا اُتنا ہی شیدائی۔۔۔

قارئین کرام!۔ اب ہم میدان اُحد میں کھڑے ہیں مسلمان اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں صفین باندھے کھڑے ہیں ابھی لڑائی کا غاز نہیں ہوا تھا کہ ابوسفیان نے کچھ سیاسی داؤ پیچ استعمال کئے جن سے اس کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا اور ان کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا تھا ابوسفیان ن انصار مدینہ کو پیغام بھیجا کہ آپ سے ہماری کوئی لڑائی نہیں آپ جنگ سے الگ ہوجائیں ہماری لڑائی تو اپنے چچا زاد یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ہم تو صرف اپنی قوم قریش سے جنگ کرنے کے لئے آئے ہیں۔۔۔ اب اہل مدینہ کا غدار ابوعامر فاسق کھڑا ہوتا ہے اس نے اپنی قوم اوس کا پکارا کہنے لگا!۔۔۔

اے گروہ اوس! میں ابوعامر راہب ہوں یہ شخص ابوسفیان کی طرح مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا چاہتا تھا اس نے مکہ میں قریش کو یہ تاثر دیا تھا کہ اس کی قوم اوس میں اس کی بات بہت سنی جاتی ہے جب اوس کے لوگ اسے دیکھیں گے تو اپنی پوزیشنیں چھوڑ دیں گے اور اس کی کمان میں آکر ابوسفیان کی فوج میں شامل ہوجائیں گے۔۔۔

لیکن ایمان اس کو کہتے ہیں کہ جیسے ہی یہ فاسق کھڑا ہوا اس نے اپنی قوم کو آواز دی تو اس کی قوم کے لوگ اس کی امیدوں کے برعکس سے ٹوکتے ہوئے بیک آواز بولے ارے او فاسق تجھ پر اللہ کی مار ہو انہوں نے اسے برا بھلا بھی کہا اور اس کو لعنت بھی کی اس غدار نے ان کا جواب سنا تو کہنے لگا میرے جانے کے بعد میری قوم میں شرپیدا ہوگیا ہے۔۔۔

اللہ تعالٰی کی مشیعت ہے کہ وہ برے لوگوں میں سے اچھے اور نہایت قیمتی انسان بھی پیدا کرتا ہے مدینہ المنورہ کے نہایت برے لوگوں میں ایک تو ابوعامر فاسق اور دوسرا شخص رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تھا تھا مگر ان دونوں کے بیٹے اسلام کی شیدائی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان نچھاور کرنے والے تھے ابوعامر فاسق کے بیٹے کا نام "حنظلہ" اور عبداللہ بن ابی کے بیٹے کا نام "عبداللہ" تھا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی کا ذکر تو پھر کسی وقت کریں گے لیکن اس وقت یہ معلومات دینا مقصود ہے کہ دونوں یعنی سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ آپس میں بڑے گہرے دوست تھے حنظلہ رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کے ساتھ آغاز میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا سیدنا عبداللہ کی ایک بہن کا نام جمیلہ تھا جو رئیس المنافقین کی بیٹی تھیں مگر اپنے بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرح اسلام کی سچی وفادار تھیں سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دوست سے اس کی بہن جمیلہ رضی اللہ عنھا کا رشتہ طلب کیا جو قبول کر لیا گیا یہ مشیت ایزدی تھی کہ رخصتی کی تاریخ وہی تھی جس روز غزوہ احد ہوتا ہے۔۔۔

دوستو! میں بہت غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ نہایت سادہ دور تھا اس دور میں ہونے والی شادیوں پر اس قسم کے اخراجات اور تکلیفات بالکل نہیں ہوتے تھے جس طرح آج کے دور میں بڑے اہتمام کے ساتھ شادی کی جاتی ہے سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کی یہ پہلی شادی تھی وہ اسی رات جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی کو اپنے گھر لائے تھے فجر کی نماز انہوں نے باجماعت ادا کی ایک روایت کے مطابق انہوں نے شادی کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بتایا تھا اور اُن کی موافقت سے ہی وہ جمیلہ کو بیاہ لائے تھے انہیں اپنے باپ کے کردار کا بخوبی عمل تھا۔۔۔

علامہ محمد احمد باشمیل کے مطابق سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ نے اپنے غدار باپ ابوعامر راہب کے قتل کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا تھا۔۔۔

فجر کی نماز کے بعد میاں بیوی میں ملاقات ہوتی ہے اور یہی ان کی شب زفاف تھی ادھر جب دن چڑھ گیا اور مجاہدین احد کے میدان میں صفیں باندھے کھڑے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منادی کرنے والا اعلان کررہا تھا۔۔۔

مسلمانو! میدان جنگ لڑائی ہوا چاہتی ہے اس لئےدشمن کے مقابلہ میں نکلو۔۔۔
قوموں کے عروج، بلندی اور ترقی میں نوجوانوں کی قربانیوں کا بڑا دخل ہوتا ہے یہ بات واقعی قابل غور ہے۔۔۔

غور کیجئے کہ زفاف کے لمحات ہیں مگر جیسے ہی سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کے کان میں منادی کی آواز پڑتی ہے وہ اپنی دلہن سے اجازت چاہتے ہیں بعض مورخین کے مطابق دلہن نے اصرار کیا جذبات سے مغلوب عورت کی طرح آپ کو نہ جانے پر رضامند کرنے کی کوشش کی مگر وہ اُسے چھوڑتے ہیں اور اپنے فرض کی تکمیل کیلئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ان پر غسل جنابت ضروری تھا مگر احساس فرض کی شدت میں وہ اُسے بھول گئے ہیں ہتھار ان کے ہاتھ میں ہیں اور وہ میدان جنگ میں پہنچ جاتے ہیں اس وقت معرکہ شروع ہوچکا تھا وہ بھی مجاہدین کے ساتھ لڑائی میں شامل ہوگئے میدان جنگ میں پہنچے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کے سامنے ابوسفیان کا گھوڑا نظر آگیا سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ پیدل ہیں ابوسفیان اپنے گھوڑے پر سوار لشکر کی کمان کررہا ہے سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کو موقع مل گیا انہوں نے گھوڑے کی کونچیں کاٹ ڈالیں ابوسفیان زمین پر گر پڑا سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ نے موقع غنیمت جانا اور فورا اس کے اوپر چڑھ گئے تلوار ان کے ہاتھ میں ہے اور ابوسفیان کو قتل کرنے کے بالکل قریب تھے کہ ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی۔۔۔

ارے! کوئی ہے جو مجھے بچائے، میں ابوسفیان بن حرب ہوں قریش کا ایک شہسوار شداد بن اسود جس کا لقب "ابن شعوب" تھا قریب ہی موجود تھا اس نے ابوسفیان کو آواز سنی تو تیزی سے آگے بڑھا اُس نے دیکھا کہ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ ابوسفیان کے سینے پر سوار ہیں اور قتل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ابن شعوب پیچھے سے آیا اور تلوار مار کر سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔۔۔

دوستو!۔ یہ چند لمحات کی بات تھی ورنہ ابوسفیان سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کے باکل قابو میں آچکا تھا بن شعوب نے ابوسفیان کو بچانے میں جو کامیابی حاصل کی اس پر وہ ہمیشہ نازاں وفرحان رہا اس نے اس بارے میں اشعار بھی کہے اور وہ ہمیشہ ابوسفیان کو اپنا احسان یاد دلاتا رہا ابوسفیان نے بھی اس کے جواب میں اشعار کہے اس کا احسان تسلیم کیا اور شکر ادا کیا۔۔۔

غزوہ احد کے شہداء میں شامل ہوکر سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ زندہ جاوید بن چکے ہیں مسلمانوں کو ابتداء میں جو فتح ہوئی تھی وہ بعد میں شکست میں تبدیل ہوگئی شہداء کی لاشیں معرکہ کے میدان میں پڑی ہیں ان میں سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کی لاش بھی موجود ہے ان کا باب ابوعامر فاسق وہاں سے گزرتا ہے اپنے بیٹے کی لاش کو دیکھا تو اس نے نہایت اوچھے انداز میں اپنے بیٹے کی نعش کو لات ماری۔۔۔

یوں محسوس ہورہا تھا کہ یہ اُس کے بیٹے کی لاش نہیں لات مارنے کے بعد ابوعامر نے ان کے سینے پر اپنا پاؤں رکھا سینے کو دباتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔

تم نے دو گناہوں کا ارتکاب کیا ہے میں نے تمہیں اس جگہ قتل ہونے سے روکا تھا ساتھ ہی کہنے لگا۔۔۔ اللہ کی قسم! تم بہت زیادہ صلہ رحمی کرنے والے تھے۔۔۔

قارئیں کرام!
اس دنیا میں یوں تو بےشمار شہداء ہیں ان کا اجروثواب اللہ تعالٰی یقینا انہیں جنت کی صورت میں دینے والا ہے مگر سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کی شان بڑی نرالی ہے یہ نوجوانوں کیلئے درخشاں مثال اور آئیڈیل ہیں عقیدہ، محبت اور وفاداری ایسی چیز ہے کہ اس کے سامنے کوئی دوسرا جزبہ ٹھہر نہ سکا وہ اپنے اللہ سے کئے ہوئے وعدے کو پورا کرتے ہوئے صدیقین، شہداء اور صالحین کیساتھ مل گئے چونکہ ان پر غسل جنابت فرض تھا اس لئے اللہ تعالٰی نے فرشتوں کی ڈیوٹی لگادی کہ وہ انہیں دفن ہونے سے پہلے غسل دیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد صحابہ کرام سے فرمایا۔۔۔

تمہارے ساتھی کو فرشتے غسل دے رہے تھے اس کی بیوی سے پوچھو معاملہ کیا تھا؟؟؟۔۔۔

جمیلہ رضی اللہ عنھا سے صحابہ کرام نے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ نے جب منادی کرنے والے کی آواز سنی تو وہ حالت جنابت میں تھے انہوں نے میدان جنگ میں جانے کی جلدی کی اور غسل کیلئے رکے نہ ہی انہیں یاد رہا۔۔۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جمیلہ کے ان الفاظ کا علم ہوا تو ارشاد فرمایا۔۔۔
میں نے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ انہیں چاندی کے بڑے بڑے تھالوں میں زمین وآسمان کے درمیان بادلوں کے پانی سے نہلا رہے ہیں۔۔۔

ایک اور روایت میں اس طرح ہے۔۔۔
سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کو شہداء کے میدان میں اس حالت میں پایا گیا کہ ان کے سرمبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے حالانکہ وہاں قریب پانی نہیں تھا۔۔۔

اس روز سے سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کو غسیل الملائیکہ کا خطاب دیا گیا۔۔۔

سیدہ جمیلہ شب زفاف میں ہی سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کے وارث کی امین بن جاتی ہیں سیدنا حنظلہ رضی اللہ کی شہادت کے نو ماہ بعد ان کے ہاں ایک خوبصورت بیٹا پیدا ہوتا ہے جس کا نام عبداللہ رکھا گیا قبیلہ اوس والے سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے فخر کیا کرتے تھے اور کہتے تھے۔۔۔ (منا غسیل الملائیکہ)

حنظلہ جنہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا وہ ہم میں سے تھے۔۔۔ سیدنا عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ کی نسل چلتی ہے سیدنا عبداللہ بڑے ہوئے تو مدینہ کے گورنر بنائے گئے ان کے باپ نے جو قربانی دی تھی اس کی وجہ سے ان کے خاندان کا نام ہی بنو غسیل الملائکہ پڑھ گیا رضی اللہ عنہ ورضوانھم۔۔۔
واللہ اعلم
والسلام علیکم۔۔۔
عبدالمالک مجاہد-ریاض
 
Top