• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنو قریظہ کے یہودیوں کا قتل--- دھریہ کے شبہات کا رد

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
بنو قریظہ کے یہودیوں کا قتل--- دھریہ کے شبہات کا رد



بنو قریظہ کے یہودیوں کا قتل--- دھریہ کے شبہات کا رد

بسم الله الرحمن الرحيم



إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا ، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلا هَادِيَ لَهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ



امابعد
ایک بھائی نے دھریہ اور ملحدین کے ایک سوال کی طرف توجہ دلائی تو مجھے دھریہ کی جہالت اور خودساختہ انسانیت کے اصولوں پر بہت افسوس ہوا۔ دھریہ نے محمد رسول اللہ ﷺ جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے پر ایک انتہائی بھونڈا اعتراض کیا۔ اعتراض کے الفاظ درج ذیل ہیں۔


تو پھر داغ دیا جاے آج کا پہلا سوال؟ (بولو یلغار ہو)

پچھلے چند دنوں سے میں رسول الله (سلامتی ہو ان پر) کی زیر نگرانی بنو قریظہ کے یہودیوں کے اجتماعی ذبح کا واقعہ بیان کر رہا ہوں. یہ ایک انتہائی اہم اور سنگ میل واقعہ ہے . مختلف اسلامی مورخین نے ان بدقسمتوں کی تعداد مختلف بتایی ہے. تاھم بیشتر حضرات ٥٠٠ سے ٩٠٠ کی تعداد پر اتفاق رکھتے ہیں. ان میں کچھ بچے بھی شامل تھے جن کی عمریں ١٣ سال تک کی بتایی گئی ہیں. چونکے قتل صرف بالغ یہودیوں کا ہونا تھا تو ایک بالغ مرد کی شناخت اس کی عبا سامنے سے اٹھا کر کی گئی تھی. اگر زیر ناف بالوں کا رواں تک نظر آ جاتا تھا تو اسے بالغ گردان کر اسے ذبح کر دیا جاتا تھا.(مومن بھائی ذرا خود ہی حوالے ڈھونڈنے کی تکلیف کریں)

اب ذرا مومنین کا محسن انسانیت کی اس گھناونی حرکت کا دفاع ملاحضہ ہو:

١- چند نے تو اس واقعے سے صاف انکار کر دیا باوجود اس کے کہ درجنوں اسلامی مورخین نے تواتر سے اس واقعے کو بیان کیا ہے. ٢- چند نے تعداد پر بحث کی گویا صرف ١٠٠ یہودیوں کا ذبیح رحمت للعالمین کے پاک کردار پر کوئی دھبہ نہیں. ٣- کچھ نے کہا کے سزا تو خود یہودیوں نے تجویز کی تھی اپنی کتاب تورات کے مطابق. تو گویا، بقول ہمارے ایک دوست کے، تورات کی رہنمائی میں فیصلے کرنا بھی اب سنت رسول ہے؟

تو سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں:

1- یہ کیسے محسن انسانیت تھے کہ جب ایک بے مثال احسان کا وقت آیا تو چھری کی طرف ایسے لپکے جیسے ایک قصائی کسی بکرے کو دیکھ کر لپکتا ہے؟ بقول اسی دوست کے، ویٹو کیوں نہیں کر دیا ایسی کریح سزا کو؟

٢- اور بھی مذاھب کے بانی گزرے ہیں جیسے حضرت موسیٰ، حضرت عیسا، بدھا وغیرہ. آخر کسی اور مذہب کے بانی کی ایسی کوئی مکروح مثال کیوں نہیں ملتی تاریخ کے اوراق میں؟

٣- کیا ایسے کسی شخص کو محسن انسانیت، رحمت للعالمین جیسے خطاب ملنے چاہیے تھا یا کچھ اور؟

ذرا سوچیے.

سوالات کا سلسلہ جاری رہے گا



==============================================================



سب سے پہلی بات یہ وہی پرانا اعتراض ہے جو یہودیوں اور عیسائیوں نےا سلام پر کیا تھا اور دھریہ حضرات کے پاس چونکہ علم نہیں ہے اس لئے وہی یہودیوں اور عیسائیوں کے اعتراضات کو بار بار لکھ کر ہرزہ سرائی کی کوشش کرتے ہیں۔



یاد رہے یہ واقعہ بنا سیاق و سباق کے نقل کیا گیا حالانکہ اگر اس واقعہ کا سیاق و سباق نقل کر دیا جاتا تو بلاشبہ بنو قریظہ کے یہودیوں کا قتل کرنا خلاف انسانیت نہیں بلکہ عین انصاف تھا۔

بنو قریظہ یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ میں آباد تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ہجرت کے نتیجے میں مدینہ میں حکومت قائم ہوئی تو مدینہ کے تمام یہودیوں نے بالاتفاق آپ کو سربراہ حکومت تسلیم کر لیا۔ انہیں مکمل مذہبی، معاشرتی اور معاشی آزادی دی گئی۔ دیگر یہودی قبائل کے برعکس بنو قریظہ پانچ سال تک اس معاہدے پر قائم رہے اور انہیں مکمل آزادی حاصل رہی۔



غزوہ خندق کے موقع پر پورے عرب کے قبائل نے مل کر 10,000 کی ایک فوج کی صورت میں مدینہ پر حملہ کر دیا۔ یہ تعداد شاید اب کم لگے لیکن اس وقت عربوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنا بڑا عرب لشکر اکٹھا ہوا تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلمان صرف 3000 تھے۔ معاہدے کی رو سے بنو قریظہ کے لئے لازم تھا کہ وہ مسلمانوں کی مدد کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اس پر ان سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔



اس نازک موقع پر جب عرب کا سب سے بڑا لشکر مدینہ پر حملہ آور تھا، بنو قریظہ نے صلح کا معاہدہ توڑ کر کفار کے لشکر کو رسد پہنچانا شروع کر دی اور خود حملے کی تیاری شروع کر دی۔ ان کی تیاریوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ہتھیاروں میں 1500 تلواریں، 2000 نیزے، 300 زرہیں اور 500 ڈھالیں شامل تھیں۔



لہذا اس سے یہ ثابت ہوا کہ بنو قریظہ نے انسانیت سوز کام کیا اور مسلمانوں کے ساتھ غداری کی۔ اگر ان کی سازش کامیاب ہو جاتی تو مسلمانوں کے ساتھ وہ اس سے بھی برا سلوک کرتے جو ان کے ساتھ کیا گیا۔ کیا بنو قریظہ نے جو غداری کی وہ دھریہ اور ملحدین کے نزدیک عین انسانیت تھی؟ اگر وہ انسانیت نہیں تھی تو انصاف کا تقاضہ یہی ہے ان سے بھی اسی طرح کا سلوک کیا جاتا جیسے وہ مسلمانوں کے ساتھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ بنو قریظہ سے بہت بہتر سلوک کیا اور رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ مبنی بر انصاف تھا۔



بنو قریظہ کی غداری کی جھلک اور ان کی مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی مدد کی ایک جھلک اہل سنت و الجماعت کی مستند ترین تاریخ اور رجال کی کتاب طبقات الکبریٰ لابن سعد سے حاظر ہے۔













لہذا ان صفحات سے پتا چلا کہ بنو قریظہ نے مسلمانوں سے غداری کی تھی۔ اور اس بات کا شدید خطرہ تھا کہ یہ لوگ مدینہ میں مسلمانوں کے بچوں اور عورتوں پر پیچھے سے حملہ کر دیں گے جو سراسر انسانیت کے خلاف ہے۔ کیونکہ بچوں اور عورتوں پر حملہ دھریہ کے نزدیک بھی شائد انسانیت نہ ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین مختلف جنگی تدابیر سے ان کو ڈرا دھمکا کر ان کی سازشوں کا ناکام بناتے رہے۔ مسلمانوں کی یہ تدابیر کامیاب ہوئیں اور بنو قریظہ ڈر اور ٖغلط فہمی کی وجہ سے حملے سے باز رہے۔ صحابہ کا بلند آواز سے تکبیر کہنے کا یہی مقصد تھا کہ بنو قریظہ اسی مغالطے میں رہیں کہ مسلمان ابھی مدینہ میں ہی ہیں اور حملہ نہ کریں۔



اس سے ایک بات ثابت ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کی عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کیا بلکہ ان کے بالغوں کو قتل کیا حالانکہ وہ یہودی مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ اگر دھریہ اس کو احسان نہیں سمجھتے تو یہ اور کیا ہے؟



چناچہ مسلمانوں کی یہ تدبیر کامیاب ہوئی اور بنو قریظہ اپنے مغالطہ میں کہ مسلمان مدینہ میں ہی ہیں عورتوں اور بچوں پر حملہ نہ کر سکے۔ سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ جو ابھی تک اسلام نہ لائے تھے (اللہ کی ان پر کروڑوں رحمتیں اور برکتیں ہوں) نے بھی اسی وجہ سے واپسی کا ارادہ کر لیا کیونکہ بنو قریظہ نے پیچھے سے حملہ نہ کیا۔











اب یاد رہے کہ محسن انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے بنو قریظہ پر حملہ کا ارادہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ تو مدینہ میں واپس آ کر جنگی سامان تک اتار چکے تھے۔ اللہ کی قسم ! یہ احسان نہیں تو اور کیا ہے۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو جنگ کو ختم کر کے بنو قریظہ کی غلطی کو نظر انداز کر چکے تھے لیکن اللہ کی طرف سے جبرائیل آ گئے اور اللہ کا حکم سنایا کہ بنو قریظہ کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔











لہذ ا جنگ کا ارادہ ترک کر کے بنو قریظہ کی غلطی معاف کر دینا انسانیت نہیں تو اور کیا ہے؟؟َ اور خاص طور پر ایسے کافروں کے ساتھ جو مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے لئے 1500 تلواریں اور تین سو رزیں تک جمع کر چکے تھے۔ یہ بعد میں مسلمانوں نے بطور غنیمت اپنے قبضہ میں لے لیں۔









یہ انسانیت نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟



اب یاد رہے۔ بنو قریظہ کے قتل کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا بلکہ انہوں نے یہ اختیار ایک صحابی سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو یہ اختیار یقینا اللہ کے حکم کی وجہ سے دیا ۔ لہذا یہ فیصلہ ہی رسول اللہ ﷺ کا نہیں تھا بلکہ یہ فیصلہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ نے کیا جس کی تائید اللہ نے آسمانوں پر کی۔ یہ وحی تھی اس کی دلیل یہ قرآن کی آیت ہے۔



وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى

اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى

اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔

وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔



لہذا رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک پر یہ اعتراض کرنا نری جہالت اور ہٹ دھرمی ہے۔









لہذا اس واقعہ سے یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ بنوقریظہ سے جنگ کا ارادہ ترک کر چکے تھے اور ہتھیار اٹھا چکے تھے لیکن اللہ کا حکم آ جانے کے بعد آپ ﷺ نے ان کا محاصرہ کیا۔ ان کے قتل کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ کا نہیں بلکہ ایک صحابی کا تھا جس کی تائید اللہ نے آسمانوں پر کی۔ اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں قتل کروایا تو بھی عین انسانیت ہے آخر وہ بھی مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں پر غلبہ پا کر انسانیت سوز کام کرنا چاہتے تھے۔ لہذا ان کی غداری کی وجہ سے ان کو قتل کر دینا عین انسانیت او راحسان ہی ہے۔بعد میں جو عورتیں اور بچے ہیں ان کو آزاد بھی کر دیا گیا اور ان میں بعض بچے بڑے ہو کر جلیل و قدر صحابی بھی بنے حالانکہ بنو قریظہ والے مسلمانوں کے عورتوں اور بچوں کے قتل کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ احسان نہیں کہ وہ تو ہمارے عورتوں اور بچوں کے قتل کا ارادہ رکھیں اور رسول اللہ ﷺ انہ کے بچوں اور عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کریں اور بعد میں وہی بچے رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابی بن جائیں؟ یاد رہے یہ یہودی خود اپنے بیوی بچوں کو قتل کا ارادہ رکھتے تھے۔















لہذا ایسے جاہلوں کو قتل کر کے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے ان کی عورتوں اور بچوں کی جان بچائی بلکہ ان کو اسلام یعنی دنیا و آخرت کی کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ لہذا یہ بنوقریظہ کا واقعہ عظیم احسان کی ایک مثال ہے۔



ومـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــا علــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــینا الا البــــــــــــــــــــــــــــــــــــلاغ



حسين علی سلفی
 
Top